Episode 1 – Mein Guzman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 1 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

حرفِ اول
تقریباً ساڑھے تین سال بعد میں نے پھر سے قلم تھاما اور لکھنے کے قابل ہوئی درمیان میں کچھ عرصہ قلم پر جمود چھایا رہا اور ایسا محسوس ہوا جیسے میں اب کچھ بھی نہیں لکھ پاؤں گی، لیکن گلریز حیدر، سدرہ مرتضیٰ، سدرہ آفاق، اینجل روز، فاطمہ گوندل نے مجھے لکھنے پر اکسایا خاص طور پر صائمہ اکرم چوہدری کا نام بھی لینا چاہوں گی جس نے مسلسل میری حوصلہ افزائی کی اور آخرکار میں اس قابل ہوئی کہ، میں گمان نہیں یقین ہوں کتابی صورت میں آپ کے ہاتھوں میں ہے، کرن کی مدیرہ روبینہ شریف نے بھی مجھے لکھنے کی تحریک دلائی اور ایک بیحد مخلص دوست حسن علی کی بھی خصوصی شکرگزار ہوں جن کے محبت بھرے پیغامات میرا حوصلہ بڑھاتے رہے، اپنے شوہر کاشف محمود اور ایمان شوکت کی بھی ممنون ہوں جنہوں نے لکھنے کے لیے مجھے پورا پورا ٹائم دیا اور ہر ممکن مدد کی، میں گمان نہیں یقین ہوں میں نے بہت پیار سے لکھی ہے اس کے تمام کردار عام سے کردار ہیں جو ہمارے درمیان سانس لیتے چلتے پھرتے زندگی گزار دیتے ہیں، مجھے یقین ہے قارئین اسے اسی پیار اور توجہ سے پڑھیں گے جس پیار اور توجہ سے میں نے اسے لکھا ہے، اور آخر میں اس کتاب کے پبلشر گلفراز احمد کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنہوں نے میری تمام کتابوں کو بیحد محبت سے ترتیب دے کر آپ تک پہنچایا، کتاب کے بارے میں اپنی رائے سے آگاہ کیجئے گا میرا ای میل ایڈریس ہے۔

Episode 2 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 2 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

میں گمان نہیں یقین ہُوں

تمہیں کیا معلوم کہ دُکھ کیا چیز ہوتے ہیں

کاش تم ریت کے پیاسے ذرے ہوتے

اور بادل کا ٹکڑا تم پر سے بن برسے گزر جاتا

تمہیں تب معلوم ہوتا کہ دُکھ کیا چیز ہوتے ہیں

کاش تم خزاں رسیدہ درخت کے پتے ہوتے

اور ٹہنی سے ٹوٹ کر گر جاتے

تب تمہیں معلوم ہوتا دُکھ کیا چیز ہوتے ہیں

اُوپری منزل پہ ٹیرس کی دیوار پہ آگے کی طرف جھُکے جھکے وہ کتنی دیر سے کسی غیر مرئی نکتے پہ نگاہیں جمائے کھڑی تھی۔

شام کے ڈھلتے سائے آہستہ آہستہ ماحول کو اپنی گرفت میں لے رہے تھے۔ دُھوپ دیواروں سے اترتے ہوئے عجیب سی یاسیت آمیز اُداسی کا منظر پیش کر رہی تھی نیچے زرینہ بیگم کی بہن روبینہ اپنی فیملی کے ساتھ صبح سے آئی ہوئی تھیں۔

دوپہر کے کھانے کے بعد ذیان اُوپر آگئی تھی۔ اوائل نومبر کی ڈھلتی دھوپ اور گہرے ہوتے ہوئے سائے اچھی خاصی خنکی کا احساس دلا رہے تھے۔

اُسے یہاں بیٹھے دو گھنٹے سے زائد ہوگئے تھے لیکن نیچے جاکے سب کا سامنا کرنے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔ جانے کیوں عجیب سی خود ترسی کا جذبہ خود پہ حاوی ہوتا نظر آرہا تھا۔اندر ہی اندر لاوا پھوٹ کر بہنے کو بے تاب تھا مگر یہ آگ آنسوؤں سے کہاں بجھنے والی تھی اس حقیقت کا ادراک تو اُسے بہت پہلے سے تھا۔ تب ہی تو ایک تھکی تھکی سی مسکراہٹ لبوں پہ کرن بن کر چمکی تھی۔

مغرب کی اذان کی آواز آنا شروع ہوگئی تھی سر پہ دوپٹہ درست کرتی وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُترنے لگی۔ آخری زینہ پار کرتے ہی وہاب سے ٹکراؤ ہوا۔

بلیو کلر کی جینز اور میچنگ شرٹ میں ملبوس سلیقے سے بال بنائے وہاب اُسکے رستے میں حائل کھڑا تھا۔ ”ذیان صاحبہ گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں اور تمہیں کچھ ہوش ہی نہیں ہے۔ بیچاروں کو کمپنی ہی دے دو“ وہاب کے الفاظ میں نرمی و بے تکلفی تھی مگر لہجہ و انداز میں نرمی کا نشان تک نہ تھا۔

عجیب آنچ دیتا لہجہ تھا۔ ”میں پڑھ رہی تھی“ اُس نے جان چھڑانے کے لئے جھوٹ بولا۔ ”کیا پڑھ رہی تھی؟“ وہ باقاعدہ جرح پہ اُتر آیا کورس کی بُکس تھیں ظاہر ہے“ وہ چِڑ سی گئی۔ ”تم نیچے سب کے ساتھ بیٹھ کر بھی پڑھ سکتی تھی“ اُس نے آرام سے ذیان کے تپے تپے چہرے کو تکتے ہوئے مشورہ دے ڈالا۔ ”اٹس اوکے“ ذیان نے اپنا لہجہ مشکل سے نارمل کیا تھا۔

وہاب مطمئن ہوگیا۔ ذیان اندر آرہی تھی۔ زرینہ اپنی بہن روبینہ کے ساتھ باتوں میں لگی تھی ایک دم اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔ ”کہاں تھی تم اتنی دیر سے؟“ انداز عام اور سوالیہ سا تھا۔ اس سے پہلے کہ ذیان آگے بڑھتی روبینہ بول پڑی”دو گھڑی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو کون سا روز روز تمہارے گھر آتے ہیں“اُنہوں نے بڑے میٹھے لہجے میں طعنہ دیا تو ناچار ذیان اُنکے پاس بیٹھ گئی۔

وہ اُسے بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں ذیان کو اُلجھن سی ہونے لگی۔ وہ اُس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں۔ باقی سب ٹی وی لاؤنج میں تھے باتوں اور قہقہوں کی آواز اس کمرے تک آرہی تھی۔ ”میں ابو کو دیکھ آؤں ذرا“اُس نے منظر سے ہٹنے کاسوچا اور پھر اُس پہ فوراً عمل درآمد بھی کردیا۔

زرینہ بیگم اور اُنکے خاندان والوں سے ملنے ملانے کے باوجود ذیان اجنبیت ہی محسوس کرتی تھی حالانکہ زرینہ بیگم کو اس کی ماں کی جگہ لئے برسوں گزر چکے تھے۔

مگر ذیان کی غیریت اور احتیاط جوں کی توں تھی۔اُنکے پورے گھر کی تصویر مکمل تھی۔ ایک وہی مس فٹ تھی۔ یہ خامی اُسے کبھی کبھی بری طرح محسوس ہوتی۔

                                       

امیر علی تکیئے کے سہارے نیم دراز ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ ذیان دبے قدموں آہستگی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور اُنکے سامنے پڑے صوفے پہ بیٹھ گئی۔

نہ تو امیر علی نے اُسے مخاطب کیا نہ ذیان نے اس کی ضرورت سمجھی۔ وہ اُن سب سے جان چھڑا کر یہاں آئی تھی۔ کچھ وقت سکون سے گزارنا چاہتی تھی۔ یہاں گھر کے کسی فرد کی مداخلت کا فی الحال کوئی امکان نہیں تھا۔ ذیان نے صوفے پہ بیٹھے بیٹھے رُخ ٹی وی کی طرف کرلیا۔ ”کیسی جارہی ہے تمہاری پڑھائی“ خاموشی کے طلسم کو امیر علی کی آواز نے ہی توڑا تو وہ چونک کر اُنکی طرف متوجہ ہوئی جو بہت غور سے اُسے دیکھ رہے تھے۔

زہر میں ڈوبی مسکراہٹ اُسکے لبوں پہ اُبھری”بس ٹھیک ہی چل رہی ہے“ اُسکے ایک ایک لفظ سے بے زاری کا عنصر نمایاں تھا۔ ”کیوں خیر ہے ناں پڑھائی میں کوئی پرابلم تو نہیں“ اپ سیٹ لگ رہی ہو؟“ امیر علی نے بہت سے سوال ایک ساتھ ہی کر ڈالے”نہیں“ اُس نے سب کا جواب مختصر سی نہیں کی صورت میں دیا۔ ”تمہیں کوئی بھی پرابلم ہو تو مجھ سے ڈسکس کرسکتی ہو“ اُن کے لہجے میں فکر مندی تھی۔

اب میں اس قابل ہوگئی ہوں کہ اپنے پرابلم خود سولو کرسکتی ہوں“ امیر علی کو لگ رہا تھا اُنکے سامنے ذیان نہیں کوئی اجنبی ہو جو سر راہ مل گیا ہو اور روکے جانے کی صورت میں نکلنے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ تو اُنکی ًطرف متوجہ تک نہیں تھی ٹی وی کو گھور رہی تھی جیسے وہی سب سے اہم ہو۔ وہ اُنکے پاس ہوتے ہوئے بھی پاس نہیں تھی۔ ذہنی طور پہ میلوں کے فاصلے پہ کھڑی تھی۔

وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اسکے پس منظر میں چھپی وجوہات سے بھی واقف تھے تب ہی تو بے بس ہو کر پھر سے خاموشی کے خول میں سمٹ گئے۔

ذیان اُٹھ کر کچن کی طرف آئی۔ جہاں بوا کھانے پکانے میں مصروف تھی۔ ”بوا کیا ہو رہا ہے؟“ ذیان نے سبزی کی ٹوکری میں سے ایک گاجر اٹھائی اور دھونے لگی۔ بوا رحمت نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سے بھنتے مصالحے کی طرف متوجہ ہوگئی پیاز ٹماٹر اور اچھی طرح مکس ہو کر بھن گئے تھے انہوں نے دھوئی چکن اٹھا کر ہانڈی میں ڈالی، ذیان گاجر دھو کر پاس رکھے سٹول پہ چڑھ کر بیٹھ گئی۔

”وہی روز کے کام دھندے اور کیا کرنا ہے اور تم گاجر کیوں کھا رہی ہو میں نے کباب رکھے ہیں یہ لو“ کفیگر رکھ کر انہوں نے مائیکرو ویو میں پڑی پلیٹ نکالی جس میں کباب رکھے تھے۔ اُنہوں نے کباب انگلی سے چھو کر گرم ہونے کا اطمینان کیا پھر پلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔ ”آپ نے کب بنائے؟“ اس نے گاجر پھر سے ٹوکری میں رکھ دی۔

”ابھی آدھے گھنٹے پہلے چائے کے ساتھ بنا کر سب کو دئیے مگر تم نظر ہی نہیں آئی۔

بوا باتوں کے ساتھ ساتھ چکن کو بھی دیکھ رہی تھیں۔ ”بوا آپ اب اتنے کام مت کیا کریں ثمینہ ہے ناں دیکھنے دیں اُسے یہ بکھیڑے“ اُس نے کباب کھاتے ہوئے مشورہ دیا۔ بوا ہنس دیں سادہ اور بے ریا ہنسی۔ ”مجھے امیر میاں اور اس گھر کے افراد کی خود خدمت کر کے جو خوشی ملتی ہے وہ کام ثمینہ کے سپرد کردوں تو وہم سا لگا رہے گا۔ اس لئے خود کرتی ہوں“ چکن بھونتے بھونتے انہوں نے نپے تلے انداز میں بات مکمل کی۔

ذیان کباب کھاتے کھاتے رک گئی۔ بوا آپ کو اتنی محبت اور خیال ہے ہم سب کا۔“

”یہ محبت تو میرے خون میں رچی بسی ہے۔ اللہ بخشے بڑی بیگم(ذیان کی دادی) کو میں اُنکے زمانے سے یہاں اس خاندان میں کام کر رہی ہوں۔ چھوٹی بیگم کو امیر میاں میرے سامنے ہی تو رخصت کروا کے لائے تھے اتنا دھوم دھڑکا تھا اتنی خوشیاں منائی گئی تھیں مجھے سب یاد ہے“ بوا بتاتے بتاتے ماضی میں پہنچ گئی تھی جہاں سب روزِ اول کی طرح روشن تھا۔

ذیان کا چہرا دھواں دھواں سا ہو چلا تھا اُس نے ادھ کھایا کباب پلیٹ میں رکھ دیا اور دبے قدموں کچن سے نکل گئی۔ بولتے بولتے بوا کی نظر سٹول کی طرف اُٹھی جو اب ذیان کے وجود سے خالی تھی اُنہوں نے فوراً دروازے کی طرف دیکھا ذیان باہر نکل رہی تھی۔ بوا کے ہاتھ اور زبان یکدم ہی سست پڑ گئے انجانے میں ہی سہی انہوں نے ذیان کے دل میں دبے آگ جیسے زخموں کو ہوا دے ڈالی تھی۔ اب وہ نادم سی تھیں۔ ذیان منظر سے غائب تھی۔

Episode 3 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Abor Raja

قسط نمبر 3 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

Accent کا Stay with me فل والیوم میں بج رہا تھا۔ کار کے شیشے تک دھمک سے لرز رہے تھے رنم بہت ریش ڈرائیونگ کر رہی تھی۔ کام مسٹ“ یونیورسٹی کا آہنی گیٹ سامنے تھا۔ گاڑی کی رفتار اُس نے میکانکی انداز میں کم کی۔ آدھے گھنٹے کا راستہ اُس نے پندرہ منٹ میں طے کیا تھا۔ اس تیز رفتاری سے احمد سیال بھی خائف رہتے تھے۔ پر وہ رنم سیال ہی کیا جو اُن کی بات مان لیتی۔

وہ زندگی کے ہر معاملے میں تیز رفتاری اور ساتھ چلنے والوں کو پیچھے چھوڑنے کی قائل تھی۔ لگی بندھی زندگی اور روٹین سے اُسے نفرت تھی۔ اُسکی رگوں میں خون کی جگہ جیسے پارہ مچلتا تھا۔ ”ہائے رنم“ گاڑی پارکنگ لاٹ میں چھوڑ کر وہ جیسے ہی نکلی پیچھے سے راعنہ کی آواز سن کر رُک گئی۔ وہ قریب آچکی تھی۔ ”ہائے ہاؤ آر یو“ رنم نے اُس کا نرم و نازک ہاتھ تھام لیا۔

جواباً راعنہ نے اُسکے گال سے گال ملا کر ملنے کی رسم پوری کی۔ ”فائن تم سناؤ آج کچھ لیٹ آئی ہو“ دونوں پہلو بہ پہلو چلتے ہوئے کلاس روم کی طرف چل دیں۔ رات کو لیٹ سوئی تھی اس لئے لیٹ ہوں لیکن اتنی بھی نہیں“ اُس نے اپنی کلائی میں بندھی قیمتی ریسٹ واچ پہ سرسری سی نظر ڈالی جیسے کچھ جتانا چاہ رہی ہو”ہاں تم ٹائم پہ آتی ہو ناں اسلئے فیل ہوا مجھے“ راعنہ کا انداز اب دفاعی تھا۔

اُس نے رشک سے رنم کے چمکتے پرکشش چہرے کی طرف دیکھا۔ اُس نے نیک ٹاپ کے نیچے ٹراؤزر پہنا ہوا تھا اور گلے میں ہلکا سا اسکارف۔ براؤن بال بڑے غرور سے کندھے پہ پڑے گلابی رخساروں کی بلائیں لے رہے تھے اُس کی پوری شخصیت سے آسودگی کا اظہار ہو رہا تھا۔

کلاس شروع ہونے والی تھی کیونکہ سر ہمدانی انکے ساتھ ہی دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ ”دیکھ لو لیٹ ہونے کے باوجود میں اتنی بھی لیٹ نہیں ہوئی“ اُسکے چمکتے چہرے اور آنکھوں میں غرور تھا۔

دل ہی دل میں راعنہ کو رشک سا ہوا۔ اُس کا بے پناہ اعتماد ہی اُس کی خوبصورتی کا سرچشمہ تھا۔

اشعر کومل اور فراز کلاس میں پہلے سے موجود تھے۔ وہ انکے پاس پڑی کرسیوں پہ بیٹھ گئی۔ رنم اور راعنہ کی طرح ان تینوں کا تعلق بھی کھاتے پیتے آسودہ حال خوش حال خاندان سے تھا، ان پانچوں کا اپنا گروپ تھا۔ یہ سب بی ایس آنرز چھٹے سمسٹر کے طالب علم تھے۔

کومل اور اشعر خاصے پڑھاکو تھے۔رنم صرف امتحانات کے دوران پڑھنے والی طالبہ تھی راعنہ کا بھی یہی حال تھا مگر فراز پڑھائی میں ان سب سے زیادہ سنجیدہ تھا۔پانچویں سمسٹر میں اس نے ٹاپ کیا تھا۔ ان چاروں کو پڑھائی میں اگر کوئی مشکل ہوتی تو فراز سے ہی رجوع کرتے۔ رنم اُس سے بہت کلوز تھی۔ وہ اسے اپنا بیسٹ فرینڈ کہتی تھی۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اُس سے شیئر کرتی۔

فراز بھی اسے اہمیت دیتا، انکی دوستی مثالی تھی۔

سر ہمدانی کا لیکچر شروع ہو چکا تھا۔ سب کی نظریں اُن پہ جمی تھیں۔

                                  

گاڑی دائیں طرف نظر آنے والی ذیلی سڑک پہ مڑ چکی تھی۔ جوں گاڑی آگے بڑھ رہی تھی سفید عمارت کے پرشکوہ نقوش واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اُس کی خوب صورتی کھلنا شروع ہوچکی تھی۔

بالآخر چند منٹ میں ہی یہ سفر تمام ہوا۔ ڈرائیور نے گیٹ پہ پہنچ کے ہارن دیا۔ گیٹ کے ساتھ دیوار پہ بنی مچان کے اوپر دو باوردی محافظ آتشیں اسلحے سمیت پہرا دے رہے تھے۔ گیٹ کھلا تو ڈرائیور طویل ڈرائیو وکے بعد گاڑی اندر لے آیا۔

اب وہ ادب سے نیچے اتر کر گاڑی کا دروازہ کھول چکا تھا۔ملک ابیک نے گاڑی سے باہر قدم رکھا۔ تاحد نگاہ رہائشی حصے کے باہر سبزہ اور قیمتی پودے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔

وہ نپے تلے با وقار قدموں سے چلتا رہائشی عمارت کی طرف جارہا تھا۔ لمبا قد قدرے سرخی لیئے گندمی رنگت گہرے بادامی رنگ کی پرسوچ آنکھیں توانا اور مضبوط جسم پہ سجتا کھدر کی قیمتی کرتا شلوار اسکی چال میں مضبوطی اور وقار تھا۔ پورے سراپے سے مضبوطی اور نفاست کا اظہار ہو رہا تھا۔

وہ حویلی کے درمیانی حصے میں داخل ہوچکا تھا یہاں چھت کی بلندی دُگنی تھی۔

اسے حویلی کا فیملی لاؤنج سمجھا جاسکتا تھا۔ قیمتی پردے بیش قیمت قالین اورخوبصورت ڈیکوریشن پیسز یہاں کی رونق بڑھا رہے تھے۔

ملک ارسلان اور عتیرہ چچی سے سب سے پہلے سامنا ہوا۔ اس نے پرجوش طریقے سے سلام کیا۔ ملک ارسلان نے اسے خود سے لپٹا لیا۔ انکے روم روم میں ٹھنڈک سی اُتر گئی ساتھ ایک حسرت ناتمام بھی دل کے کسی کونے کھدرے سے نکل کر سامنے آگئی”کیسے ہو ابیک؟“ انہوں نے پرجوش مصافحے و معانقے کے بعد خیر خیریت دریافت کی۔

”چچا جان الحمداللہ میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں حویلی میں سب ٹھیک ہیں ناں“ ہاں سب ٹھیک ہیں لیکن تم نے شہر میں بڑے دن لگا دئیے۔“

ارسلان اسکے چوڑے کندھے پہ ہاتھ رکھے اسکے جوان کڑیل سراپے کو بڑی محبت سے دیکھ رہے تھے۔ دونوں اب صوفے پہ بیٹھ گئے تھے۔ عتیرہ چچی بھی ساتھ تھی۔ کچھ مصروفیت تھی اس وجہ سے تھوڑا زیادہ ٹائم لگ گیا۔ بابا جان نظر نہیں آرہے ہیں”اس کی نگاہیں انہی کو کھوج رہی تھیں۔

“ بھائی جان اپنے کمرے میں ہیں ان کی طبیعت ناساز سی ہے۔“ کیا ہوا ہے بابا جان کو”ملک ارسلان کے بتانے پہ وہ مضطرب ہوگیا۔ ”بھائی جان کو موسمی بخار اور نزلہ زکام اور یہ کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں“ ملک ارسلان نے اس کی فکر مندی دیکھتے ہوئے تسلی دینے کی کوشش کی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا”میں بابا جان کی خیر خبر لے لوں“ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ چلا گیا۔

ملک ارسلان اور عتیرہ اپنی باتوں میں لگ گئے۔ مگر موضوع گفتگو ملک ابیک ہی تھا۔

بابا جان کمبل اوڑھے بیڈ پہ نیم دراز تھے۔ پاس ہی افشاں بیگم بیٹھی ان سے باتیں کر رہی تھی۔ ملک ابیک کو دیکھ کر پھول کی طرح کھل اٹھیں۔ ”کب آئے تم“ انہوں نے اٹھ کر اس کا ماتھا چوما وہ بیڈ پہ بابا جان کے پاس بیٹھ گیا”تم ٹھیک ہو ناں؟“ ملک جہانگیر اٹھ کر بیٹھ گئے۔

”بابا جان میں تو ٹھیک ہوں آپ نے کیوں طبیعت خراب کرلی ہے“ اس کے لہجے میں محبت آمیز احترام کی آمیزش تھی۔ ”موسمی نزلہ زکام ہے ٹھیک ہوجاؤں گا۔ موسم بدلتے ہی میں بیمار پڑ جاتا ہوں بوڑھا جو ہو گیا ہوں کچھ بھی نہیں کرسکتا اب“ وہ دھیرے دھیرے مسکرا رہے تھے۔ ’

’ارسلان چاچا ہیں ناں انہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے دیں آپ صرف آرام کریں۔

“ ”میں سارا دن آرام ہی تو کرتا ہوں اور کیا کرنا ہے اب میرے دو کڑیل جوان بیٹے ہیں سب کچھ انکے حوالے کر کے اللہ اللہ کرنا ہے بس“ وہ بڑے بشاش نظر آرہے تھے۔ افشاں بیگم تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد کچن کی طرف آگئی۔ ملک ابیک اتنے دنوں بعد آیا تھا ممتا سے ان کا دل لبریز ہورہا تھا۔ وہ ایک ایک چیز اسے اپنے ہاتھوں سے کھلانا چاہ رہی تھیں۔ تینوں نوکرانیوں کو انہوں نے کھانے پکانے پہ لگا دیا۔

اور خود اپنے ہاتھوں سے لاڈلے بیٹے کے لئے سیب کاٹنے لگیں۔ معاذ ملک تو پاکستان سے باہر تھا ان کی ساری محبت و توجہ کا محور فی الحال ابیک ہی تھا۔ وہ اسکے لئے کٹے سیب اور انواع واقسام کے پھل لے کر واپس آئیں تو ارسلان ملک بھی وہاں موجود تھے۔

ملک جہانگیر اب ہشاش بشاش ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔

”میں تو کہتا ہوں اب ملک ابیک کی شادی ہوجا نی چاہئے تاکہ”ملک محل“ میں بہار آجائے۔

ملک ارسلان نے شرارت سے ابیک کو تکتے ہوئے ملک جہانگیر کو مشورہ دیا۔ ”میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے لیکن معاذ پاکستان آجائے تو لگے ہاتھوں اسکے لئے بھی لڑکی دیکھ لوں“ انہوں نے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ابیک قطعاً ان کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ ”کوئی لڑکی ہے آپ کی نظر میں؟“ ”لڑکیاں تو بہت ہیں مگر میں اپنے بیٹے کی پسند کی دلہن لاؤں گی“ اس سے پہلے کہ ملک جہانگیر کوئی جواب دیتے افشاں بیگم بول پڑیں۔ اس سے پہلے کہ مزید اس موضوع پہ بات ہوتی ملازم نے باہر مردانے میں مہمانوں کے آنے کی اطلاع دی تو تینوں مرد اُس طرف چلنے لگے۔

Episode 4 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja                             

قسط نمبر 4 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان کالج ہال میں دیگر اسٹوڈنٹس سمیت ڈرامے کی ریہرسل کر رہی تھی۔ ڈرامہ فورتھ ائیر کی آمنہ رحمان نے لکھا تھا اور فورتھ ائیر کی طالبات ہی ایکٹ کر رہی تھیں۔ ان سے ایک ذیان بھی تھی۔ ڈرامے میں اس کا رول لڑاکا اور شکی مزاج سخت دل شوہر کا تھا۔ گیٹ اپ اور آواز بدلنے میں ذیان کو مہارت حاصل تھی تب ہی تو اسے اس رول کے لئے موزوں ترین قرار دیا گیا تھا۔

اُسے شروع سے ہی اکیلے میں خود سے باتیں کرنے کی عادت تھی۔ یہ عادت اداکاری کے شوق میں کب ڈھلی ٹھیک طرح سے اس کا علم ذیان کو بھی نہ تھا۔

اس کی موٹی موٹی غلافی آنکھیں تاثرات دینے میں لاجواب تھیں۔ وہ اپنے ڈائیلاگز کی ریہرسل کر رہی تھیں اس کی بیوی کا رول بی ایس سی کی صندل منور ادا کر رہی تھی۔ دونوں اس وقت مکمل گیٹ اپ میں تھیں آج فائنل ریہرسل تھی۔

قدرے دبے ہوئے پھولوں کے پرنٹ والے کپڑوں میں ملبوس بکھرے بالوں میں صندل منور ڈری سہمی بیوی کی ایکٹنگ کر رہی تھی۔ ذیان کا گیٹ اپ مردوں والا تھا۔ امیر علی کے براؤن کلر کے کرتے شلوار میں ملبوس سر کے بالوں کو پگڑی میں چھپائے مصنوعی مونچھیں لگائے وہ مکمل طور پہ بدلے حلیئے میں تھی اپنے مکالمے مردانہ لب و لہجے میں گھن گرج کے ساتھ ادا کرتے ہوئے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہی ذیان ہے۔

میڈم فریحہ نے تالیاں بجا کر اپنے اطمینان کا اظہار کیا تو وہ دونوں آ کر کرسیوں پہ بیٹھ گئیں۔ اب اگلی ریہرسل شروع تھی۔ میڈم فریحہ ڈرامیٹک سوسائٹی کی انچارج اور کرتا دھرتا تھی۔ کالج میں ہونے والی ایسی تمام غیر نصابی سرگرمیوں کو انہوں نے اپنی محنت سے بھرپور بنانا ہوتا تھا۔

ذیان کا کام ختم ہوچکا تھا وہ میڈم فریحہ سے اجازت لے کر کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔

اب وہ کالج کے سفید یونیفارم اور سفید ہی دوپٹے میں ملبوس تھی۔ اپنے اصل حلئیے میں لگ ہی نہیں رہا تھا یہ وہی ذیان ہے جو تھوڑی دیر بیشتر ایک ظالم جابر شوہر کا رول ادا کر رہی تھی۔

میڈم فریحہ بڑے مزے میں اکثر اسے مشورہ دیتی کہ ایکٹنگ کے میدان میں آجاؤ۔ آج بھی حسب سابق انہوں نے پرانی باتیں دہرائی۔ ”ذیان تم ٹی وی کا رخ کرو بہت صلاحتیں ہیں تم میں ایک اچھی اداکارہ بن سکتی ہو۔

تمہارے فیس ایکسپرشینز بالکل نیچرل ہیں ڈرامہ انڈسٹری میں تہلکہ مچا سکتی ہو۔ ”وہ سن کر مسکرا دی“ میڈم جس خاندان سے میرا تعلق ہے وہاں شوبز کو گالی سمجھا جاتا ہے اسلئیے لاکھ کوشش کے باوجود بھی میں نہیں کرپاؤں گی۔“ اسکے لہجے میں تلخی گھلی ہوئی تھی۔ میڈم فریحہ نے کندھے اچکائے جیسے کہہ رہی ہوں تمہاری مرضی۔ اُدھر دل ہی دل میں ذیان کو جانے کیوں یکدم غصہ آگیا تھا۔

”ہا ہا ہا اچھی اداکارہ … نیچرل ایکسپریشنر“ میڈم فریحہ کی باتیں دل میں دہراتے ہوئے طنزیہ ہنسی ہنس رہی تھی۔

اسی کیفیت کے زیر اثر وہ گھر پہنچی۔ دروازہ اسکی چھوٹی بہن رابیل نے کھولا۔ اس نے ہلکی آواز میں سلام کیا جواباً رابیل نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ ذیان اندر آگئی۔ بیگ رکھ کر وہ برآمدے میں لگے واش بیسن سے منہ ہاتھ دھونے لگی۔

سامنے کچن کے دروازے سے رحمت بوا کی جھلک نظر آرہی تھی اُسے آتے دیکھ کر وہ کھانا گرم کر رہی تھی۔ ذیان منہ ہاتھ دھو کر یونیفارم میں ہی کچن کی طرف چلی آئی۔ آج بھوک زوروں پہ تھی۔ صبح ناشتے کے نام پہ اس نے چند گھونٹ چائے پی تھی۔ پھر کالج میں سارا دن ڈرامے کی بھاگ دوڑ میں گزرا تھا۔

کینٹین جانے کا موقعہ ہی نہیں ملا تھا۔ ”بوا کیا پکایا ہے؟“ بھوک اسے مزید برداشت نہیں ہو رہی تھی۔

مٹر قیمہ اور ساتھ میں چاول ہیں کہو تو دو کباب بھی فرائی کردوں؟“ بوا پلیٹ میں کھانا نکال رہی تھی۔ ”جو مرضی ہے کریں لیکن پہلے میں چاول کھاؤں گی۔“ وہ کچن میں پڑی چھوٹی سی ڈائیننگ ٹیبل کے گرد کرسی گھسیٹ کر بیٹھ چکی تھی۔ بوا فریج سے کباب نکال کر تل رہی تھی ساتھ اُسے سارے دن کی روداد سنا رہی تھی وہ رغبت سے کھانا کھاتے ہوئے سن رہی تھی۔

                                 

”آپ نے ذیان کے بارے میں کیا سوچا ہے؟“ امیر احمد کے گرد کمبل ٹھیک کرتے ہوئے زرینہ بیگم نے اچانک یہ عجیب سوال کردیا۔ امیر احمد نے بھنوئیں اچکاتے ہوئے سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا جیسے پوچھ رہے ہوں کیا۔ ”میں تمہاری بات نہیں سمجھا“

”کمال ہے آپ جوان بیٹی کے باپ ہو کر یہ کہہ رہے ہیں“ زرینہ بیگم نے جیسے نامحسوس انداز میں اُن پہ طنز کیا۔

”کھل کر بات کرو“ الجھن بدستور انکے لہجے میں موجود تھی۔ ”ذیان اس سال اپنی کالج کی تعلیم مکمل کرلے گی“ زرینہ بیگم نے سنبھل کر بات کا آغاز کیا”تو؟“ امیر احمد نے پھر سے اپنی سوالیہ نگاہیں اس پہ ٹکائیں۔ ”تو آپ نے اسکی شادی وغیرہ کا کچھ سوچا“ اس بار اطمینان کی سانس انکے سینے سے خارج ہوئی۔ ”پہلے وہ تعلیم تو مکمل کرلے پھر سوچیں گے اس پہ“

لڑکیوں کو مناسب وقت پہ اپنے گھر بار کا کردینا چاہیے تعلیم وغیرہ شادی سے ضروری تو نہیں“ زرینہ بیگم اپنے اختلاف سمیت آہستہ آہستہ سامنے آرہی تھی۔

”ذیان کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے …“ انہوں نے اچانک بات ادھوری چھوڑ دی تو زرینہ بیگم کے چہرے پہ غصہ نظر آنے لگا”تو کیا ساری عمر اسے پڑھانے کا ارادہ ہے؟“ چبھتے ہوئے لہجے میں طنزیہ استفسار تھا۔ ”میں نے ساری عمر نادانستگی میں اسے نظر انداز کیا ہے میری بیٹی مجھ سے دور ہوگئی ہے کم سے کم میں اس کی یہ خواہش نظر انداز نہیں کرسکتا“ انکے لہجے میں احساس زیاں بول رہا تھا۔

جس نے سر سے پاؤں تک زرینہ بیگم کو جھلسا دیا”ہاں ہاں آپ کیوں اس کی کوئی خواہش نظر انداز کریں گے آپ کی چہیتی کی اولاد جو ہے“ امیر احمد نے زخمی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ ”تم اچھی طرح جانتی ہو میں نے ذیان کے ساتھ کتنی زیادتی کی ہے وہ متنفر ہے مجھ سے … میں نہیں چاہتا اسکی دیرینہ خواہش کے راستے میں رکاوٹ بنوں” ”لیکن میں اب اسے اور اس گھر میں برداشت نہیں کرسکتی … اسکے بعد رابیل بھی ہے مجھے اس کا بھی سوچنا ہے“ ”رابیل ابھی بہت چھوٹی ہے اللہ اچھی کرے گا“ امیر احمد کے انداز میں شکست نمایاں تھی۔

”آپ کو کیا پتہ بیٹیوں کے رشتے کے لیئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ابھی سے ذیان کے لیے کوشش کا آغاز کروں گی تو کچھ ہوگا ناں۔میں دیکھ بھال کر ذیان کے لیے اچھا رشتہ ہی تلاش کروں گی دشمن نہیں ہوں اس کی ماں ہوں“ امیر احمد کی پسپائی دیکھ کر وہ بھی نرم پڑ گئی تھی۔ تبھی دروازے پہ مخصوص دستک کی آواز ابھری یہ بوا رحمت تھی جو سونے سے پہلے معمول کے مطابق انکے لیے خود دودھ لے کر آئی تھی۔

زرینہ نے غور سے ان کا چہرا دیکھا مگر وہاں بے نیازی تھی کوئی کھوج کوئی بھید کوشش کے باوجود بھی وہ تلاشنے میں ناکام رہی۔ وہ دودھ رکھ کر جاچکی تھی دروازہ پہلے کی طرح بند تھا۔

زرینہ نے اطمینان کی سانس خارج کرتے ہوئے دودھ کے گلاسوں سے اٹھتی بھاپ کی طرف نگاہ جمادی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ بوا نے ابھی ابھی دودھ گرم کیا ہے۔ ”آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا“ وہ پھر سے امیر احمد کی طرف متوجہ ہوئی اور باتوں کا ٹوٹا سلسلہ وہیں سے جوڑنا چاہا جہاں سے ٹوٹا تھا۔

”ہاں جوتمہیں اچھا مناسب لگتا ہے کرو…“ ایک بھرپور قسم کی پسپائی امیر احمد کے پورے وجود سے جھانک رہی تھی۔ زرینہ بیگم کو یک گو نہ اطمینان کا احساس ہوا۔ ”وہ شروع سے فاتح رہی تھی اس محاذ پہ بھی امیر احمد نے لڑے بغیر ہتھیار پھینک دئیے تھے۔

Episode 5 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

                             قسط نمبر 5 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابراجہ

بوا نے پورے گھر کا چکر لیا اور سب دروازے چیک کیئے۔ یہ ان کا پرانا معمول تھا جس پہ وہ برسوں سے کار بند تھی۔ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے وہ ایک بار پھر ذیان کے کمرے کے سامنے رُکیں۔ ہاتھ سے دروازے پہ دباؤ ڈالا وہ اندر سے لاک تھا۔ کچھ دیر وہ وہیں کھڑی سوچتی رہیں اورپھر سر جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف چل دیں۔ وہ جب دودھ لے کر امیر احمد کے کمرے کی طرف جارہی تھیں تو زرینہ بیگم کی کچھ باتیں دروازہ بند ہونے کے باوجود بھی انکے کانوں میں پڑ گئی تھی کیونکہ وہ اونچی آواز میں بولنے کی عادی تھی۔

بوا کی عمر کا بیشتر حصہ اسی گھر کے مکینوں کے ساتھ گزرا تھا وہ زرینہ بیگم سے بھی پہلے یہاں تھی زمانے کے سردو گرم سے آشنا اور جہاں دیدہ تھیں۔ زرینہ بیگم کا اول دن سے ہی ذیان کے ساتھ مخصامانہ رویہ ڈھکا چھپا نہیں تھا۔

انہوں نے ذیان کو امیر احمد کی بیٹی نہیں اپنی حریف سمجھا تھا۔ بوا کا دل اس سلوک پہ احتجاج کرتا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی ہاں ذیان کے لیے ان کی محبت توجہ پہلے سے بڑھ گئی تھی وہ ہر ممکن اس کی دلجوئی کرتیں۔

اب زرینہ بیگم نے جو اچانک شادی کا شوشہ چھوڑا تھا وہ بلاوجہ نہیں تھا۔ گھر میں سب کو ہی پتہ تھا ذیان کو اعلیٰ تعلیم حاصل کا بے پناہ شوق ہے۔

اسکے ارادے بلند تھے وہ گھر کے گھٹے گھٹے ماحول سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔ سو اس کی تمام تر توجہ اپنی پڑھائی پہ تھی اور اس پہ وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کی قائل نہیں تھی۔ایسے میں اپنی شادی کا ذکر اسے مشتعل کرسکتا تھا۔

بوا آنے والے وقت کے خیال سے پریشان تھیں۔

                                     

یونیورسٹی کے وسیع سبزہ زار پہ دھوپ نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ کلاسز آف ہونے کے بعد وہ پانچوں کے پانچوں پھسکڑا مار کر ادھر ہی بیٹھ گئے تھے۔ رنم نے کومل کے کندھے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی جبکہ اسکے چہرے پہ کوفت کے آثار تھے۔ راعنہ نے سبب دریافت کیا تو وہ پھٹ سی پڑی”کتنے دن ہوگئے ہیں نہ کوئی پارٹی نہ پکنک نہ موج مستی نہ ہنگامہ… میں روٹین لائف سے بور ہوگئی ہوں“ اسکے چہرے پہ دنیا جہاں کی بے زاری تھی۔

رنم نے پیار سے اسکے بال سہلائے اور اسکے کندھے سے اپنا سر اٹھا لیا”تو کیا خیال ہے رات کو Basement night club نہ چلا جائے؟“ اس نے باری باری سب کی طرف تائید طلب نگاہوں سے دیکھا تو سب سے پہلے اشعر نے نعرہ مستانہ بلند کیا۔

”واؤ ونڈرفل آئیڈیا“ ”ہاں ٹھیک ہے انجوائے منٹ رہے گی“ راعنہ بھی راضی تھی۔ ”اوکے ڈن ہے رات کو چلیں گے“ رنم فیصلہ کن لہجے میں بولی تو سب نے اثبات میں سر ہلایا۔

”اب میں تو گھر جارہا ہوں“ فراز سب سے پہلے اٹھا وہ کی رنگ جھلاتا پارکنگ ایریا کی طرف آیا تو رنم بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ تینوں کو سی یو بول کر وہ اپنی گاڑی نکالنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بڑی طوفانی رفتار سے گاڑی ڈرائیو کرتی ایف ایٹ ون کی طرف جارہی تھی جہاں اسکی جنت اس کا گھر تھا۔

                                   

احمد سیال ڈیلی گیشن کے ساتھ مصروف تھے انہوں نے رنم کو اپنی مصروفیات سے آگاہ کردیا تھا اسلئے وہ اندھیرا چھاتے ہی اپنی تیاری میں لگ گئی تھی۔

پارٹیز، پکنک، ہلا گلا، سیر و تفریح میں اس کی جان تھی۔ ہر ہفتے وقت نکال کر وہ سب فرینڈز اپنی اپنی پسندیدہ ایکٹویٹیز سے لطف اندوز ہوتے رنم پیش پیش ہوتی۔

اپنے پسندیدہ بلیک کلر کے ڈریس میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح خوبصورت لگ رہی تھی اس کی خوبصورتی کے دو آتشہ ہونے میں کلام نہیں تھا۔ اپنے حسن اور کشش کا اسے اچھی طرح اندازہ تھا اسی بات اور احساس نے اسے بے پناہ اعتماد بخشا تھا جسے وہ بہت سے لوگوں میں الگ سے ہی پہچانی جاتی۔

وہ سب دوست ہائی سوسائٹی کے اس کلب کے باقاعدہ رکن تھے۔ احمد سیال کی بیٹی ہونے کے ناطے اور پھر اپنی بے پناہ خوبصورتی کی وجہ سے گمنام نہیں رہی تھی سب اسے اچھی طرح جانتے تھے اور اسی حساب سے پروٹوکول بھی دیتے۔

آج بہت دن بعد سب دوست کلب میں اکٹھے ہوئے تھے۔

ڈائننگ فلور پہ شوخ مغربی دھن پہ نوجوان جوڑے قدم سے قدم ملائے رقص کر رہے تھے۔

رنم کو بذات خود ڈانس اور موسیقی کے اس مظاہرے سے دلچسپی نہیں تھی۔ پر اسے نوجوان جوڑوں کی ہی حرکات محظوظ کرتی۔ ہال کے چاروں طرف مخصوص فاصلے کی حد میں چھوٹی چھوٹی گول میزیں اور انکے گرد کرسیاں پڑی تھی۔ جو رقص سے تھک کر آرام کرنے والوں کے کام آتی۔ راعنہ، رنم اور فراز تینوں ایک میز کے گرد بیٹھے تھے جبکہ کومل، اشعر، ڈائننگ فلور پہ دوسرے جوڑوں کے ساتھ رقص کر رہے تھے۔

وہ تینوں دوست انہی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اشعر نے تین ماہ پہلے کومل کو پروپوز کیا تھا اس نے اشعر سے سوچنے کے لئے مہلت مانگی اور ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا تھا یہ بات انہیں فکر مند کر رہی تھی کومل سیدھے سیدھے ہاں کیوں نہیں کر دیتی دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اور لگاؤ تھا، رہی ان کی محبت تو وہ بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی اس کے باوجود بھی کومل سوچنے کے لیے وقت مانگ رہی تھی۔

”رنم تم نے کیا پلان کیا ہے فیوچر کے لئے؟“ راعنہ نے ایک دم سے سوال کر کے موضوع بدل دیا۔ ”پلان کیا کرنا ہے بس لائف کو انجوائے کر رہی ہوں۔“ وہ بے نیازی سے بولی۔ راعنہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔ اوہو آئی مین تم نے لائف پارٹنر، شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟“ اس بار فراز بھی دھیان دینے پہ مجبور ہوگیا۔ ”ابھی بہت ٹائم ہے یار“ اس نے بات ہنسی میں اڑا دی تو راعنہ کا منہ سا بن گیا۔

رنم اتنی آسانی سے کسی کو اپنی سوچوں تک رسائی حاصل کرنے نہیں دیتی تھی۔

خود سر اور خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال۔ فراز دونوں کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی ان کی گفتگو میں دخل نہیں دیا۔ اس کی یہ عادت کم سے کم رنم کو بہت پسند تھی۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے فراز اس کا خاموش حمایتی ہو۔ رنم کی مخالفت کرنا اسے آتا ہی نہیں تھا۔

اس کی یہ خاموشی اور حمایت بہت دفعہ راعنہ کو شک میں ڈالتی کہ فراز کے دل میں رنم کے لئے کوئی نہ کوئی سوفٹ کارنر ضرور ہے۔ ورنہ تقریر کرنے دلائل دینے میں اس کا کوئی مقابلہ نہ کرسکتا تھا۔ رنم اسے اپنا سب سے بہترین دوست کہتی اور یہ بات صرف کہنے یا دعوی کی حد تک نہیں تھی ان کی ایک ایک حرکت سے اس کا اظہار ہوتا کہ فراز اور وہ ایک دوسرے کے لئے بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر کبھی یہ ظاہر نہیں ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے لئے”وہ خاص جذبہ“ بھی رکھتے ہیں۔ کم سے کم راعنہ ابھی تک اس کا سرا پکڑ نہیں پائی تھی۔ ”خیر مجھے جو بھی ہے“ راعنہ انہیں نظر انداز کر کے جوڑوں کا رقص دیکھنے لگی۔

Episode 6 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 6 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک جہانگیر کی طبیعت اب کافی بہتر تھی۔ تب ہی تو وہ ڈیرے پہ آئے تھے۔ ڈیرے پہ روز محفل جمتی انکے دوست احباب، مزارعے، عام لوگ ضرورت مند، اپنی اپنی مشکلات مسائل لڑائی جھگڑے لے کر انکے پاس آتے۔ وہ کسی کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ بے انتہا نرم دل اور مہربان تب ہی تو انکے پاس آنے والے دعائیں دیتے رخصت ہوتے ملک جہانگیر نے اپنے پرکھوں کی عزت و روایت ابھی تک قائم رکھی ہوئی تھی۔

ملک ابیک بھی انکے ساتھ ڈیرے پہ موجود تھا۔ دوپہر کے بعد ملنے ملانے والے اٹھ کر گئے تو ملک ابیک انکے ساتھ ڈیرے سے باہر آگیا۔ کھیتوں کے کنارے بنی پگڈنڈی پہ دونوں آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ کچھ عمر کا تقاضہ اور کچھ ملک جہانگیر کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی تھی ان کی حرکات صحت سستی اور کمزوری تھی ابیک صرف ان کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہا تھا۔

تاحد نظر سبزہ اور ہریالی تھی پنجاب کے مغربی حصے میں واقع یہ گاؤں ملک جہانگیر کے آباؤ اجداد نے آباد کیا تھا یہاں کی مٹی بڑی زرخیز تھی۔ ہرسال مختلف پھلوں سبزیوں اور فصلوں کی بہترین پیداوار ہوتی جو گاؤں سے شہر کی منڈیوں تک پہنچائی جاتی پہلے ملک جہانگیر ان سب کاموں کی نگرانی خود کرتے تھے۔ کیونکہ ملک ابیک اور ملک معاذ تب اپنی اپنی تعلیم کے سلسلے میں گاؤں سے باہر تھے۔

ابیک تو اپنی انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرچکا تھا جبکہ معاذ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر ملک سے باہر تھا۔

ابیک کے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اب تمام امور کی انجام دہی کی ذمہ داری سب اسی کے سپرد تھی۔ اس کا ایک پاؤں شہر تو ایک گاؤں میں ہوتا۔ شہر میں بزنس کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ وہ کچھ فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش تھا۔ ملک جہانگیر اس سے بے پناہ خوش تھے۔

وہ عادات و اطوار میں ہو بہو ان کا پر تو تھا۔

”بابا جان میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا ہے“ اس کی بات پہ ملک جہانگیر کے بڑھتے قدم رک گئے۔ وہ اسکی طرف پلٹے۔ ”کیسا منصوبہ پتر“ بابا جان میں چاہتا ہوں کہ شہر کی طرح گاؤں میں بھی کچھ فلاحی منصوبوں پہ کام شروع کیا جائے؟“ پتر تمہاری بات میں بڑی جان ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے علاوہ بھی کچھ سوچتے ہو۔

تم نے کچھ اچھا ہی سوچا ہوگا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ”تھینک یو بابا جان۔ میں اس پہ جلد ہی پیپر ورک کروں گا“ ان کی طرف سے تائید اور حوصلہ افزائی پا کر وہ بہت مسرور تھا۔

”کرو پتر نیک کام میں دیر کیسی“ انکے چہرے پہ بیٹے کے لئے محبت و شفقت تھی۔ ابیک نے انکے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ ”بابا جان آئیے میں آپ کو جیپ تک چھوڑ کر آتا ہوں میں بعد میں مزارعوں سے مل کر زمینوں کا ایک چکر لگا کر آؤں گا۔

ملک جہانگیر کا سانس بار بار پھول رہا تھا نقاہت کی وجہ سے وہ اور بھی سست ہو رہے تھے۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا گویا انہیں واپس جانے پہ اعتراض نہیں تھا۔ وہ خود انہیں جیپ تک چھوڑ کر آیا۔ رحیم داد نے فوراً سے بیشتر گاڑی سٹارٹ کی اور ملک جہانگیر کو حویلی لے کر روانہ ہوگیا۔

جیپ نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو تب ابیک نے قدم آگے بڑھائے۔

کھیتوں سے ہرے ہرے پھلوں کے باغات کا سلسلہ شروع تھا۔ وہ پیدل چلتا ادھر جارہا تھا۔ فضا میں سیب لیموں اور مالٹے کی مہک رچی ہوئی تھی۔ اس نے پوری سانس لے کر اس مہک کو گویا اپنے سینے میں اتارا۔

مزارعے باغوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف تھے اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر سب ہی ہوشیار ہوگئے۔ ابیک نے سب سے دعا سلام کی۔ وہ اس وقت مالٹوں کے باغ میں تھا۔

تاحد نظر مالٹے کے پیڑ ہی پیڑ نظر آرہے تھے۔ موسمی پھل سے لدے پیڑ اس امر کی نشان دہی کر رہے تھے کہ اس بار خوب پیداوار ہوئی ہے اسے دلی اطمینان سا محسوس ہوا۔

باغات سے آگے کافی زمین خالی پڑی تھی وہ اس طرف آ کر کھوجتی نگاہوں سے جائزہ لے رہا تھا۔ یہ خالی قطعہٴ اراضی اسکے منصوبے کے لئے عین مناسب تھی۔ واپس جا کر اس نے اس سلسلے میں عملی اقدام کرنا تھا۔

کچھ پہلو اسکے ذہن میں واضح تھے کچھ کے بارے میں غور و فکر کرنا تھا۔

                                     

موسم کے تیور آج کافی شدت پہ مائل تھے۔ معمول سے زیادہ سردی ماحول میں رچی بسی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ ذیان نے سردی سے ٹھٹھرتے ہاتھوں کو آپس میں رگڑا۔ وہ صحن میں ٹہلنے کے ارادے سے نکلی تھی، دھوپ دیواروں سے ڈھلنے کی تیاری میں تھی۔

وہ جونہی صحن میں آئی ایک ثانیے کے لئے کپکپا سی گئی کیونکہ باہر سرد ہواؤں کا راج تھا۔ اس نے گرم شال مضبوطی سے اپنے گرد لپیٹ لی۔ چند چکر لگانے کے بعد جب دانت سردی سے بجنے لگے تو اس نے کمرے کی راہ لی۔ وہ مڑ کر واپس ہونے کو تھی جب اپنے پیچھے وہاب کی پرجوش اور شوخ آواز سنائی دی۔

”حسین لوگو السلام علیکم“ وہاب کی کھنکتی آواز پہ خود بہ خود ہی اسکے قدم رکے اور اس نے ایک ثانیے کے لئے رخ موڑ کر وہاب کی طرف دیکھا۔

”وعلیکم السلام“ اس کا عام سا لہجہ اور انداز کسی بھی قسم کے جذبے سے عاری تھا۔ وہاب کو دکھ سا ہوا۔ ”آنٹی اندر ہیں“ وہ ڈرائینگ روم کی طرف اشارہ کر کے بوا کی طرف آگئی۔ اس کا خیال تھا کہ وہاب چلا گیا ہوگا زرینہ بیگم کی طرف مگر وہ تو اسکے پیچھے پیچھے کچن میں آگیا جہاں بوا چائے بنانے میں مصروف تھیں۔ اسے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائیں”کیسے ہیں وہاب میاں“ انکے لہجے میں احترام کے ساتھ محبت بھی تھی۔

وہاب نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ اس کی تمام تر توجہ ذیان کی طرف تھی۔جو اب سٹول پہ بیٹھی پاؤں ہلا رہی تھی۔ ریڈ کلر کی ایمبرائیڈری والے سوٹ اور شال میں اس کی گلابی رنگت دمک رہی تھی۔ مناسب قد وقامت پر کشش چہرہ، گہری غزالی آنکھیں وہ حسین مجسم تھی کسی شاعر کا جیتا جاگتا تخیل اسکے حسن بلا خیز نے وہاب کے دن رات کا سکون و قرار لوٹ لیا تھا۔

وہ ابھی تک اس پہ اپنا حال دل آشکارا نہ کر پا رہا تھا۔ کیونکہ ذیان کی سرد مہری بیگانگی اسے یہ ہمت کرنے ہی نہیں دیتی تھی۔

”وہاب میاں آپ اندر چلیں میں چائے لاتی ہوں“اسے دروازے پہ ہنوز ایستادہ دیکھ کر انہوں نے جیسے اسے کوئی احساس دلانے کی کوشش کی تو وہ کھسیانا سا ہو کر بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

ذیان وہیں سٹول پہ برا جمان نوکمنٹ کا مکمل اشتہار بنی ہوئی تھی۔

وہ مایوس ہو کر زرینہ خالہ کی طرف آگیا۔ ”کب آئے تم“انہوں نے بوا کی معیت میں اسے آتا دیکھ کر فوراً سوال کیا۔ بوا چائے اور دیگر لوازمات کے ساتھ تھیں۔

”ابھی آیا ہوں بس“اس نے ڈھٹائی سے جواب دیا۔بوا چائے رکھ کر پلٹ گئی تھی۔جواباً انہوں نے وہاب کو تیکھی نگاہوں سے دیکھا پر وہ نظر انداز کر کے پیالی میں چائے ڈالنے لگا۔

                                   

رات آخری پہر میں داخل ہونے کو تھی پر نیند وہاب کی آنکھوں سے کوسوں دور کھڑی ہاتھ مل رہی تھی۔

سخت سردی کے باوجود اس کا لحاف تہہ کیا ہوا بستر کی پائنتی کی طرف رکھا تھا۔وہ صوفے پہ بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ ذیان سرخ لباس میں ملبوس جیسے اسکے کمرے میں گھوم پھر رہی تھی۔ وہ اسکے حسن بلاخیز کے سامنے مکمل طور پہ کب کا سرنگوں ہوچکا تھا۔ وہاب کے دل میں ذیان کو حاصل کرنے کی تمنا پچھلے چار سال سے انگڑائیاں لے رہی تھی۔ لیکن ان چار سالوں میں وہ ایک بار بھی حال دل کہنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہوپایا تھا۔

اب ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بات اسکی مردانگی کے لئے چیلنج بنتی جارہی تھی۔ ”میں تمہیں حاصل کر کے رہوں گا ذیان امیر احمد“ اس نے ہتھیلی کا مکہ بنا کر دوسرے ہاتھ پہ مارا۔ وہاب کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی اور چہرے پہ پراسرار مسکراہٹ

Episode 7 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 7 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

فون مسلسل دھیمے سروں میں گنگنا رہا تھا۔

احمد سیال نے سامنے ساگوان کی ٹیبل پہ پڑا موبائل فون آن کر کے کان سے لگایا۔ ”ہیلو“ وہ اپنے مخصوص انداز میں بولے تو دوسری طرف سے والہانہ انداز میں سلام کا جواب ملا۔یہ ملک جہانگیر تھے انکے گہرے اور بے تکلف دوست۔ تین سال سے دونوں کی آپس میں ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن وقتاً فوقتاً فون پہ رابطہ رہا کرتا”اوہ تو آپ ہیں ملک صاحب“ وہ مسکرا رہے تھے۔

”جی یہ میں ہی ہوں احمد سیال“ جواباً وہ بھی بے تکلفی سے گویا ہوئے۔ ”تم نے تو نہ ملنے کی قسم کھا رکھی ہے میں نے سوچا خود فون کر کے تمہاری خیریت پوچھ لوں“ ”ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے بزنس کے سلسلے میں کبھی یہاں کبھی وہاں ہوتا ہوں پاکستان سے باہر آنا جانا لگا رہتا ہے۔

کاروباری بکھیڑوں میں ایسا پھنسا ہوں کہ میری اکلوتی بیٹی بھی شکایت پہ اتر آئی ہے۔

بہت دل چاہتا ہے پرانے دوستوں کے ساتھ محفل جماؤں لیکن یہ وقت کی کمی آڑے آجاتی ہے“ احمد سیال کے لہجے میں شرمندگی بے بسی نمایاں تھی۔ ملک جہانگیر نے مزیدشکوے شکایتوں کا ارادہ ملتوی کردیا”ہماری بیٹی کیسی ہے اب؟“ ”اوہ ہاں رنم بالکل ٹھیک ہے“ ”اب تو کافی بڑی ہوگئی ہوگی“ ملک جہانگیر نے آٹھ نو سال پہلے رنم کو دیکھا تھا جب وہ مری میں زیر تعلیم تھی اور چھٹیوں پہ گھر آئی ہوئی تھی۔

”ہاں اب تو یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے بی ایس آنرز کر رہی ہے۔“

رنم کا ذکر کرتے ہوئے احمد سیال کے لہجے میں خود بہ خود ہی فخر سا در آیا تھا جیسے انہیں رنم کا باپ ہونے پہ غرور ہو۔

”میں اس وقت اسلام آباد میں ہوں۔ ابیک چیک اپ کروانے لایا ہے سوچا تمہیں فون کر کے حال احوال پوچھ لوں“ ”تم اسلام آباد میں ہو؟میں آفس سے نکل رہا ہوں سیدھے میرے گھر آؤ۔

مل بیٹھیں گے اکٹھے لنچ کریں گے۔ پرانی یادیں تازہ کریں گے“احمد سیال فوراً پرجوش ہوئے۔ ملک جہانگیر نے دو گھنٹے بعد آنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔

ابیک انہیں چیک اپ کروانے کے بعد گھر چھوڑ کر ابھی ابھی ضروری کام کا بول کر نکلا تھا تبھی تو ملک جہانگیر نے احمد سیال کو دو گھنٹے بعد کا ٹائم دیا۔

کافی دیر گزر چکی تھی انہوں نے ابیک کو فون کر کے واپسی کا پوچھا اس نے کہا ابھی مجھے ٹائم لگے گا۔

کچھ سوچنے کے بعد انہوں نے ڈرائیور کے ساتھ احمد سیال کی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔

وہ بڑی گرمجوشی سے بغل گیر ہوئے”تم مجھے کچھ کمزور نظر آرہے ہو!“ احمد سیال انہیں تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ جواباً وہ مسکرائے۔ دمے کی بیماری بھی لگ گئی ہے مجھے دل کا مریض تو پہلے سے ہوں۔ساتھ دیکھنے میں بھی دشواری پیش آنے لگی ہے۔ لیکن اب بیماریوں میں کیا رکھا ہے۔

میں آج بھی پہلے کی طرح باہمت اور حوصلہ مند ہوں۔“ملک جہانگیر شگفتگی سے مسکرائے تو احمد سیال نے تعریفی انداز میں انکے شانے پہ تھپکی دی”تمہاری ہمت اور حوصلہ قائم رہے جہانگیر“ احمد سیال نے دل سے دعا دی۔ دونوں باتیں کرتے کرتے ڈرائینگ روم میں آئے۔ آفس سے اٹھنے سے پہلے ہی گھر فون کر کے احمد سیال نے ملک جہانگیر کی آمد کا بتا دیا تھا یہی وجہ تھی جب وہ ڈائیننگ ہال میں پہنچے تو ایک پرتکلف کھانا ان کا منتظر تھا۔

رنم ابھی تک یونیورسٹی سے نہیں لوٹی تھی۔احمد سیال کے ساتھ ساتھ ملک جہانگیر بھی اس کی آمد کے منتظر تھے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔

                                   

رنم حسب عادت تیزی سے گاڑی دوڑا رہی تھی۔

گھر پہنچنے پہ کار پورچ میں اسے پپا کی گاڑی نظر آئی ساتھ ایک اجنبی گاڑی بھی تھی جو کم از کم اس نے پہلے نہیں دیکھی تھی۔

وہ الجھ سی گئی کیونکہ پپا اس وقت شاذو نادر ہی گھر میں پائے جاتے۔ چھٹی کا پورا دن وہ گھر گزارتے وگرنہ یہ امر محال تھا۔ گاڑی روک کر وہ نیچے اتری تو سامنے رمضان جاتا نظر آیا رنم نے آواز دے کر روک لیا۔ وہ اسکے پاس مودبانہ انداز میں کھڑا اسکے سوالوں کا جواب دینے لگا۔ ”صاحب جی کے دوست آئے ہیں۔ وہ آپ کا دو تین بار پوچھ چکے ہیں“ ”اچھا جاؤ تم“ وہ پر سوچ انداز میں چلتی اسی طرف آئی جس طرف رمضان نے مہمان کی موجودگی کی نشان دہی کی تھی۔

احمد سیال اور ملک جہانگیر اپنی باتوں میں مصروف تھے رنم کو سلام کرنے پہ چونکے اور متوجہ ہوئے۔ رنم اپنی بانہیں احمد سیال کے گلے میں حمائل کئے حال احوال پوچھ رہی تھی۔ ”میں ٹھیک ہوں بیٹا ان سے ملو یہ ہیں میرے دوست ملک جہانگیر۔ بہت بڑے گاؤں کے مالک ہیں لیکن روایتی چودھریوں زمین داروں سے بالکل مختلف ہیں۔“ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سمیت احمد سیال آنے والے مہمان کا تعارف کروا رہے تھے۔

رنم نے رسمی انداز میں ان کی خیریت دریافت کی جواباً انہوں نے خلوص سے ”جیتی رہو“ دعا دی۔

رنم اسکے بعد وہاں رکی نہیں اپنے بیڈ روم میں چلی آئی۔

رنم کے جانے کے بعد دونوں دوست پھر سے باتوں میں لگ گئے۔ ملک جہانگیر کو رنم بہت اچھی لگی تھی۔ جوان ہونے کے بعد اس نے خوب رنگ روپ نکالا تھا۔ انہوں نے آج اسے کافی عرصے بعد دیکھا تو ذہن میں موجود سوچوں نے کچھ کچھ عملی صورت اختیار کرلی۔

انکے چہرے پہ موجود خوشی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔

                                     

ملک جہانگیر نے گاؤں واپس جانے کی تیاری کرلی تھی۔ حالانکہ ابیک نے کتنا اصرار کیا کہ رات ادھر ہی رک جائیں پر وہ نہیں مانے۔ گاؤں سے باہر وہ زیادہ دیر رہ ہی نہیں سکتے تھے انکے لئے جائے پناہ ان کا گاؤں اور گھر تھا۔ وہ وہاں سچی خوشی اور سکون محسوس کرتے۔

”ملک محل“ انکے لئے خوابوں کی جنت تھا۔ اس جنت کی شان بڑھانے کے لئے انہوں نے ملک ابیک اور ملک معاذ کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا تھا۔

ابیک تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سنبھال چکا تھا۔جبکہ معاذ کی تعلیم مکمل ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔معاذ ابیک کے مقابلے میں شوخ لاپرواہ اور زندگی سے ہر پل خوشی کشید کرنے کا قائل تھا یہی وجہ تھی کہ انہیں معاذ کے لئے رنم بالکل مناسب لگی تھی۔

ابھی تو وہ شادی کے نام سے دامن بچاتا تھا مگر پورا یقین تھا رنم کو دیکھنے اور ملنے کے بعد وہ ان کی بات ٹالے گا نہیں۔

دوسری طرف وہ ملک ابیک کی بھی شادی کرنا چاہ رہے تھے۔ یہ بات بہت عرصے سے انکے دل میں تھی۔ ابیک ان کا لاڈلا فرمانبردار سعادت مند بیٹا تھا۔ انہیں اسکے لئے ہیراصفت لڑکی کی تلاش تھی مگر ابھی تک وہ مل نہیں پائی تھی۔اگر وہ معاذ یا ابیک کے لئے رنم کا رشتہ طلب کرتے تو احمد سیال نے انکار نہیں کرنا تھا۔

ان کی دوستی پرانی تھی۔ درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آیا جب ان کا رابطہ احمد سیال سے بالکل ختم ہوگیا کیونکہ وہ اپنے کاروباری بکھیڑوں میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔

مگر اس مصروفیت کے باوجود ان کی دوستی اور گرمجوشی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ نہ یہ مصروفیت دلوں میں بسی محبت کم کر پائی تھی۔ اتنے عرصے بعد دونوں کی ملاقات ہوئی تو ملک جہانگیر کو مایوسی نہیں ہوئی۔

آج وہ بے پناہ خوش تھے۔

Episode 8 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 8 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

زرینہ بیگم اور روبینہ دونوں سر جوڑے بیٹھی تھیں۔ زرینہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی عجلت میں پہنچی تھی اسے واپسی کی بھی جلدی تھی کیونکہ امیر احمد کی طبیعت نارمل نہیں تھی انہیں ہمہ وقت دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی وہ رابیل کو ضروری ہدایات دے کر گھر سے نکلی تھی۔

”پھر کیا سوچا تم نے زرینہ؟“ انہوں نے منہ قریب کرتے ہوئے رازدارانہ انداز میں پوچھا”میں نے صرف سوچا نہیں ہے عمل کرنے کی بھی ٹھان لی ہے۔

جتنا جلدی ہوسکتا ہے ذیان کی شادی کرنی ہے… ورنہ یہ فتنہ لڑکی میری آئندہ آنے والی زندگی میں بھی آگ لگا سکتی ہے۔“زرینہ کالہجہ نفرت آمیز تھا۔ ”کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ میرے وہاب کا حال نہیں دیکھا ہر دو دن بعد تمہارے گھر پہنچا ہوتا ہے“روبینہ نے تائید کی۔ ”مگر وہاب جیسے اس کی نگاہوں میں کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

“ ”کیوں کیا ہے میرے وہاب کی حیثیت کو۔

اچھا کماتا ہے شکل و صورت والا ہے بھرپور مرد ہے“ زرینہ کی بات پہ روبینہ تڑپ ہی تو گئی۔ زرینہ نے ان کی جذباتی حالت دیکھ کر فوراً اپنی بات کا تاثر زائل کرنے کی کوشش کی”میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدانخواستہ وہاب یا آپ کم حیثیت ہیں۔ میں تو ذیان کی بات کر رہی تھی کہ وہ بہت اونچی اڑان میں ہے“

”میری بلا سے جو بھی ہے مجھے فرق نہیں پڑتا“ ”مگر وہاب کو ضرور پڑتا ہے اس کا دل ذیان میں اٹک گیا ہے“ زرینہ معنی خیز لہجے میں بولی تو روبینہ نے اسے بے بسی سے دیکھا”میں کیا کروں شروع میں سمجھ ہی نہیں پائی کہ تمہارے گھر کے اتنے چکر کیوں لگاتا ہے۔

مگر خیر! ابھی تک اس نے کھل کر اپنے منہ سے کچھ نہیں کہا ہے۔ ”روبینہ اب پرسکون تھی۔ ”آپا بہت جلد وہ اپنے منہ سے پھوٹے گا میں اس طوفان کو آپ کے گھر کی طرف بڑھتا دیکھ رہی ہوں“ ”ہائے اللہ نہ کرے…“ روبینہ نے دل پہ ہاتھ رکھ لیا۔ ”آپا فکر مت کریں میں بہت جلد کوئی حل نکال لوں گی“ زرینہ نے ان کی اُڑی ہوئی رنگت دیکھ کر تسلی دی۔

                                   

ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول اسکے ہاتھ میں تھا اور وہ بلا ارادہ خالی الذہنی کے عالم میں مختلف ٹی وی چینل بدلے جارہی تھی۔

کسی بھی جگہ وہ ذہن و نظر کو مرکوز نہیں کر پا رہی تھی۔ اسے وہاب کے اندر کمرے میں آنے کی خبر ہی نہیں ہوئی۔ چند ثانیے بعد اسے کسی کی تیز نظروں کی تپش کا احساس ہوا تو وہ ریموٹ چھوڑ کر فوراً سیدھی ہوئی۔ وہاب پر شوق و پرتپش نگاہوں سے اسے دیکھے جارہا تھا۔

سفید دوپٹہ جھٹک کر اس نے سر پہ لیا۔ ”آنٹی ابو کے کمرے میں ہیں وہاں تشریف لے جائیں“ وہ ہمیشہ کی طرح سرد مہر لہجے میں بولی۔

چہرے کے تاثرات میں خود بہ خود ہی لاتعلقی در آئی تھی۔

”ادھر سے ہی ہو کر آرہا ہوں“ وہ ڈھٹائی سے بولا تو ذیان اٹھ کھڑی ہوئی۔ ”آپ تشریف رکھیے میں بوا کو دیکھ کر آؤں کیا بنا رہی ہیں“ اس نے بمشکل تمام لہجے کو مزید روکھا ہونے سے روکا۔ وہ جاتی ذیان کی پشت کو بے بسی سے دیکھ کر رہ گیا۔ اسکے لمبے بالوں کی چٹیا اوڑھے گئے دوپٹے سے نیچے تک نکلتی کمر کی طرف جاتی صاف دکھائی دے رہی تھی اسکے گلابی پیروں کی نرم و نازک ایڑھیاں مکمل طور پہ وہاب کی نگاہوں کی زد میں تھیں۔

وہ غصے و سرد مہری سے جارہی تھی اور وہ اس کی ایک ایک ادا نقش کر رہا تھا۔ ذیان سراپا غزل تھی اور یہ غزل پس منظر کے ساتھ بھی حسین تھی۔

”اُف کیا کروں میں اب تو لگتا ہے میں پاگل ہوجاؤں گا“ وہاب سر کے بال مٹھی میں جکڑتے صوفے پہ بیٹھ گیا۔ سامنے ٹی وی سکرین پہ مغنیہ درد بھرے لہجے میں نغمہ سرا تھی۔ ”اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا“

وہاب کا دل دہل سا گیا اس نے فوراً چینل تبدیل کردیا۔

”اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہوگا… میں نے ہارنا نہیں سیکھا ہے… ہر قیمت پہ ذیان کو حاصل کر کے رہوں گا دیکھتا ہوں کون مجھ سے ٹکرانے کی ہمت کرتا ہے تہس نہس کردوں گا زمین آسمان ایک کردوں گا“ وہاب خیالوں کی رو میں بہتا بہت دور نکل چکا تھا۔

زرینہ بیگم، امیر علی کے جسم کے فالج سے متاثرہ حصے کی مالش کر رہی تھیں۔ جب سے انہیں فالج ہوا تھا تب سے اس نے ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری خود سنبھال لی تھی۔

مالش کرنا وقت پہ دوا دینا ڈاکٹر کی بتائی ہوئی مخصوص ورزشیں اور فزیو تھراپی وہ سب کچھ خود کرتی بہت ہوا تو آفاق سے مدد لے لی لیکن زیادہ کام خود سنبھالا ہوا تھا۔ وہ شوہر پرست عورت تھی۔ اس خوبی کے امیر احمد بھی معترف تھے۔

مالش کرنے کے بعد انہوں نے زیتون کے تیل کی بوتل اپنی مخصوص جگہ پہ رکھی اور جا کر واش روم میں ہاتھ دھوئے ہاتھ خشک کرنے کے بعد وہ دوبارہ انکے پاس آکر بیٹھ چکی تھی۔

”اللہ آپ کو صحت دے آپ کا سایہ بچوں کے سر پہ سلامت رہے وقت کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ میں بہت پریشان رہتی ہوں۔ ذیان اور رابیل دونوں جوان ہیں انکے بعد آفاق اور مناہل ہیں ہمیں اپنا فرض ادا کرتے کرتے بہت دیر لگ جائے گی“زرینہ بیگم نے اپنا پسندیدہ موضوع چھیڑ دیا یہ ایسا تھا کہ وہ اس پہ گھنٹوں بے تکان بحث کرسکتی تھی اسلئے امیر احمد نے انہیں ٹوکنے کی کوشش نہیں کی۔

”میں نے اس دن آپ سے ذیان کے بارے میں بات کی تھی پھر کیا سوچا آپ نے؟“وہ کرید میں لگی تھی۔ ”میں نے کہا تو تھا ابھی وہ پڑھ رہی ہے اتنی عمر تو نہیں ہے اسکی کہ فوراً جلد بازی سے کام لیتے ہوئے شادی کردوں“ وہ اس دن کی طرح آج بھی اس بات پہ قائم تھے اور یہی واحد بات زرینہ کو چبھی۔ یہ تو جیسے تیسے کا ناسور بن گئی تھی۔

”آپ خود بیمار ہیں۔

ذیان کے بعد ہماری اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔ آپ خواہ مخواہ جذباتی ہو رہے ہیں۔ میں ذیان کی دشمن نہیں ہوں جو اس کے لئے برا سوچوں گی۔“

زرینہ کی بات میں وزن تھا پر امیر علی ذیان کے مستقبل کے ارادوں سے آگاہ تھے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو کر اس گھر سے فرار اختیار کرنا چاہتی تھی۔ اپنے اس ارادے کا اظہار اس نے کچھ سال پہلے واشگاف الفاظ میں کیا تھا، وقتاً فوقتاً وہ دہراتی اور اپنے عزم کو مضبوط کرتی مگر پہلے اسکے ارادے میں گھر سے راہ فرار شامل نہیں تھا۔

اب تو اس کی آنکھوں اورلہجہ میں ہلکی ہلکی سرکشی بھی محسوس ہونے لگی تھی امیر علی کرتے تو کیا کرتے۔ ذیان کی کالج کی تعلیم بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی خود وہ معذور اور لاچار ہو کر بستر پہ تھے۔ اپنی بے بسی و لاچاری کا انہیں اچھی طرح ادراک تھا تب ہی تو خاموش ہوجاتے۔

اس خاموشی پہ زرینہ کڑھتی۔ انہیں یہ ایک آنکھ نہ بھاتی۔ ابھی بھی امیر علی نے آنکھیں بند کرلی تھیں جو ان کی طرف سے بات چیت ختم ہونے کا اظہار تھا۔

زرینہ غصہ دل میں دبائے باہر آئی۔ بیرونی گیٹ لاک تھا۔ رحمت بوا بھی اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔ ذیان کے کمرے کا دروازہ بند تھا لیکن بند دروازے کے نیچے سے روشنی کی ہلکی سی لکیر باہر آرہی تھی۔ کھڑکیوں پہ بھاری پردے پڑے تھے کیونکہ موسم سرد تھا۔

وہ ٹھنڈی سانس بھرتی دوبارہ کمرے میں آئی۔ باہر سکون تھا لیکن انکے دل میں امیر علی کی خاموشی سے ہلچل مچی ہوئی تھی۔

پہلی تلخی اور پہلا دن باوجود کوشش کے وہ آج بھی نہ بھول پائی تھی۔

کمرہ سادے انداز میں سجا ہوا تھا وہ گھونگھٹ اوڑھے سرگھنٹوں پہ رکھے بیٹھی تھی۔ کبھی کبھی نگاہیں اٹھ کر ادھر ادھر بھی دیکھ لیتی مگر اس کی نگاہوں کا مرکز کمرے کا دروازہ تھا جہاں سے کسی کو گزر کر اس تک پہنچنا تھا۔ امیر علی کے بارے میں اس کی سہیلیوں، رشتہ داروں اور بڑی بہن روبینہ نے بہت کچھ بتایا تھا۔

وہ امیر اور صاحب جائیداد تھا اسکے گھر نوکر کام کرتے دروازے پہ دو دو گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ خود بھی تو جاذب نظر شکل و صورت کا مالک تھا۔ زرینہ نے کسی نہ کسی طرح اس کی ایک جھلک دیکھ لی تھی جب وہ دعوت پہ انکے گھر آیا۔ پھر سب سے تعریفیں سن سن کر اسے شادی سے پہلے ہی اپنی قسمت پہ رشک آنے لگا۔ خوشیوں کے پنڈولے میں جھولا جھولتے وہ بھول گئی تھی کہ چاند میں بھی داغ ہوتا ہے۔

امیر علی کے ساتھ بھی ایسا معاملہ تھا وہ چڑھتے چاند کی مانند روشن اور مکمل تھا مگر داغ کی صورت میں ایک بیٹی بھی ہمراہ تھی۔

ملنے جلنے والیوں اور خاص طور پہ روبینہ آپا نے اسکی بیٹی کے حوالے سے زرینہ کو مفید مشورے سے نوازا تھا جو اس نے گرہ میں باندھنے میں دیر نہیں لگائی۔ آگے بڑھتے قدموں کی آہٹ پہ زرینہ کی منتظر نگاہوں کو قرار سا آگیا۔

امیر علی اسکے قریب آکر بیٹھ چکے تھے۔ تم پتہ نہیں کیا کیا تصورات لے کر میرے گھر آئی ہوگی تمہارے خوابوں میں کوئی شہزادہ بسا ہوگا تم سوچتی ہوگی خوابوں کی حسیں راہ گزر پہ میرا ہاتھ تھام کر محبوبہ کی طرح چلتی رہو اور میں عاشق بن کر تمام عمر تمہارے وجود کا طواف کرتا رہوں معذرت چاہوں گا میں تمہاری سوچوں پہ پورا نہیں اتر پاؤں گا“انکی عجیب دل کھانے والی باتیں سن کر زرینہ سر اٹھا کر آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہوگئی۔

اسکی نگاہوں میں حیا سے زیادہ سوال مچل رہے تھے۔ ”میں عورت کی بے وفائی اور مکاری کا ڈسا ہوا ہوں“ امیر علی کے لہجے میں بے پناہ نفرت تھی۔ اس وقت زرینہ نے جاتی عقل کے آخری سرے تھامنے چاہے۔ ”میں سب جانتی ہوں اور مجھے اس کا بہت دکھ بھی ہے“ اس نے شرم بالائے طاق رکھتے ہوئے امیر احمد کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ تسلی دینے والے انداز میں رکھا۔ تو انہوں نے جذباتی سہارا میسر آتے ہی کمزور مرد کی طرح بکھرنا شروع کردیا۔

”میں نے اپنی بیٹی اس… گالی) عورت سے چھین کر ہمیشہ تڑپتے رہنے کی سزا دی ہے۔ ساری عمر سسک سسک کر روئے گی تم نے میری بیٹی کو ماں کا پیار دینا ہے کل وہ یہاں آجائے گی اپنے گھر آج میری بوا رحمت کے پاس ہے وہ اسے میری رشتے کی ایک پھوپھی کے گھر لے گئی ہیں بہت رو رہی تھی… میں اسکے سلسلے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کروں گا۔ وہ ہماری بیٹی پہلے ہے اورتم میری بیوی بعد میں ہو۔

ملن کی اولین ساعتوں میں ایسے کڑوے نصیحت بھرے جملے سن کر زرینہ کے سارے کومل جذبوں پہ اوس آگری وہ امیر علی سے ایک لفظ تک نہ کہہ پائی۔ وہ پہلی بیوی کے بارے میں بہت کچھ بتاتے رہے ان کی ساری باتوں سے زرینہ نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ان کی پہلی بیوی کردار و سیرت کے لحاظ سے اچھی عورت نہیں تھی اور اس نے شوہر کو بے وفائی کا گہرا گھاؤ لگایا ہے۔ زرینہ نے اسے دیکھا نہیں تھا مگر اوروں کی زبانی سن رکھا تھا کہ ذیان کی ماں خاصی حسین عورت ہے۔

Episode 9 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 9 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

دونوں ہاتھوں پہ گہری مہندی رچائے بھڑکیلا سوٹ پہنے خوشبوؤں میں بسی زرینہ ذیان کے استقبال کے لئے تیار تھی۔ ایک رات کی دلہن کو امیر علی نے بیٹی کے بارے میں ڈھیروں کے حساب سے نصیحتیں اور ہدایات دی تھیں۔ بالآخر ذیان بوا رحمت کے ساتھ آن وارد ہوئی۔ ہلکے گلابی رنگ کے ریڈی میڈ فراک اور نیکر میں ملبوس گلابی گلابی گالوں والی ذیان پہلی نظر میں ہی دل موہ لینے والی بچی ثابت ہوئی۔

مگر زرینہ کو دل ہی دل میں اس کی من موہنی شکل و صورت سے حسد محسوس ہوا۔ جب بیٹی اتنی حسین تھی تو اسکی ماں کی شکل و صورت کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں تھا۔

اس نے ذیان کو گود میں لے کر پیار کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ اسکے بازو ہٹا کر بھاگ گئی۔ لگتا تھا اس نے زرینہ کی اپنے گھر میں آمد کو پسند نہیں کیا تھا۔

کیونکہ پہلے دن ہی اس نے امیر علی سے کہا کہ نئی مما اچھی نہیں ہیں مجھے اپنی مما چاہئے۔

اس نے ضد شروع کردی امیر علی نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے پھول ایسے گال پہ ایک تھپڑ رسید کردیا۔بے یقینی کی حالت میں گرفتار ذیان کے بہتے آنسوؤں نے زرینہ کے جلتے بلتے دل کو عجیب سا سکون دیا۔ اسے ایک ثانیے کے لئے محسوس ہوا امیر علی کے گھر میں اسکی حیثیت اتنی بھی کمزور نہیں ہے وہ چاہے تو آنے والے دنوں میں اپنا مقام خود متعین کرسکتی ہے اس نے اپنے داؤ آزمانے شروع کردئیے۔

چار سالہ ذیان حال میں ہی مونٹیو سری سکول جانا شروع ہوئی تھی۔ سکول جاتے ہوئے وہ بوا رحمت کو ذرا تنگ نہ کرتی وہ اسکے گھنے بالوں کی پونیاں بناتی تو وہ شرافت سے انکے سامنے بیٹھی رہتی آرام سے شوز پہن لیتی ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ اپنے سکول اور ٹیچرز سے اسے دلچسپی پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ کیونکہ سکول سے واپسی پہ وہ بیگ کھول کر اپنی سب کتابیں پھیلا کر بیٹھ جاتی اور کلرز پنسل سے طبع آزمائی شروع کردیتی۔

ایسے میں وہ بہت مصروف اور خوش نظر آتی۔ آج بھی وہ ٹی وی لاؤنج میں اپنا سکول بیگ کھول کر بیٹھی ہوئی تھی۔

زرینہ سامنے صوفے پہ بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ ٹی وی چل رہا تھا مگر زرینہ کی ساری توجہ ذیان کی طرف تھی۔ اس کی نگاہ ذیان کے ہاتھوں پہ ٹکی تھی جو برق رفتاری سے ایک خاکے میں رنگ بھرنے میں مصروف تھے۔

”ذیان“ اس نے آہستہ آواز میں اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔

اس نے سوالیہ نگاہیں زرینہ کی طرف کی مگر منہ سے نہیں بولی سنو تمہاری مما کیسی تھی؟اسکے لہجے میں موجود تجسس بچی سمجھ نہیں پائی۔

”میری مما بہت اچھی ہیں۔“ ”کتنی اچھی ہیں؟“ جانے اسے کس چیز کی جستجو تھی۔ ”آپ سے اچھی ہیں آپ مجھے پسند نہیں ہیں“وہ ایکدم سے سن ہوئی چھوٹی سی بچی میں کوئی مصنوعی پن نہ تھا اس نے سیدھے سادے الفاظ میں سچ بولا تھا۔

چند ثانیے بعد اسکے سن پڑتے وجود میں غیض و غضب کا طوفان اٹھا اس نے لپک کر ذیان کے بال مٹھی میں جکڑے۔ بوا رحمت اپنے کوارٹر میں آرام کر رہی تھی جبکہ امیر علی آفس میں تھے۔ ”کسی حرافہ کی اولاد تُو بھی مجھے پسند نہیں ہے“ذیان کی آواز مارے خوف کے بند ہوگئی وہ پھٹی پھٹی سہمی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ”اور خبردار کسی کو یہ بات بتائی ورنہ چھری سے گلا کاٹ دوں گی“اس نے سچ مچ فروٹ نائف جانے کہاں سے اٹھا کر اسکی نگاہوں کے سامنے لہرائی تو ذیان کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔

اسکے لب خاموش اور آنکھیں لبا لب پانیوں سے بھری تھیں۔

زرینہ کے دل کو حیوانی تسکین کا احساس ہوا۔ابھی شطرنج کے سب مہرے اسکے پاس تھے۔ اسے دل ہارنے کی ضرورت نہیں تھی۔

                                 

رات کا اندھیرا اور سناٹا ہر شے کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔ زرینہ سب کاموں سے فارغ ہو کر امیر علی کے برابر لیٹ چکی تھی۔

اسکا ایک ہاتھ انکے سینے پہ دھرا تھا اور رخ بھی ان کی طرف تھا۔ ”مجھے آپ کی اور اس گھر کی بہت فکر رہتی ہے“وہ سینے سے ہاتھ اٹھا کر اب انکے سر میں ہلکے ہلکے کنگھی کرنے والے انداز میں پھیر رہی تھی۔ ”میں اس گھر اور مکینوں کے بارے میں تمہارے جذبات سے آگاہ ہوں“امیر علی کا لہجہ سکون سے بھرا تھا کچھ زرینہ کی اُنگلیوں کا جادو تھا انکے روم روم میں سکون کی پھوار برسنے لگی۔

”لیکن یہ بات مجھے اندر ہی اندر کاٹ رہی ہے“انکے سر کے بالوں میں رینگتی انگلیاں ایک جگہ رک سی گئیں۔ امیر علی نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا جہاں کالی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ ”کون سی بات بتاؤ تو وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھ گئے دل کسی انہونی کے خدشے سے لرز رہا تھا۔ وہ متوحش سے ہوگئے۔

”میں اس گھر سے اس کی ایک ایک اینٹ سے محبت کرنے لگی ہوں …“ وہ اب باقاعدہ سسکیوں سے رو رہی تھی”پلیز بتاؤ زری کیا بات ہے میرا دل ہول رہا ہے“ انہوں نے روتی زرینہ کو ساتھ لگا لیا۔

ذیان سے میں بہت پیار کرتی ہوں مگر جانے کیا بات ہے وہ میری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی… کہتی ہے اس کی مما بہت اچھی ہے میں اسے پسند نہیں ہوں“ اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے کے شغل میں مصروف تھے۔ اس کی بات سنتے ہی امیر علی کے سب اعصاب تن سے گئے۔ ”وہ بچی ہے تم اس کی باتوں کو دل پہ مت لو“ وہ رسان سے بولے مگر دل میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ ذیان نئی ماں کا موازنہ اس قابل نفرت عورت سے کرنے لگی ہے۔

”وہ کہتی ہے میری مما پری جیسی ہے آپ ذرا بھی اچھی نہیں“ زرینہ نے امیر علی کے چہرے پہ پھیلتی طیش کی سرخی دیکھ لی جذباتی ہتھیار اسکے پاس تھا کوئی وار بھی خالی نہیں جا رہا تھا۔ ”وہ اپنی ماں کو ابھی تک نہیں بھولی ہے“ میری محبت نے ذیان پہ کوئی اثر نہیں کیا ہے جانے اس چلتر عورت کے پاس کیا جادو تھا۔“

”ذیان کے دماغ کو اس عورت کے نام اور تصور تک سے پاک کردو۔

یہ تمہاری ذمہ داری ہے اس کے لئے سختی سے بھی کام لینا پڑے تو لو میں تم سے پوچھوں گا نہیں۔اپنی اس کامیابی پہ زرینہ خوشی سے پھولے نہیں سما پا رہی تھی۔

                                     

رابیل کی پیدائش پہ ذیان چھ سال کی تھی اس کا شعور آہستہ آہستہ پختگی کی نامعلوم منازل طے کر رہا تھا۔ زرینہ کے ساتھ اسکے تعلقات کسی بھی قسم کی گرمجوشی سے عاری تھے۔

لیکن اسکے چھوٹے سے ذہن میں یہ حقیقت پورے طور پر راسخ ہوچکی تھی کہ زرینہ آنٹی بہت طاقتور ہیں انکے سامنے ناپسندیدگی کا احتجاج اسے بہت مہنگا پڑا تھا۔ مگر یہاں بابا بھی تو اسکے ساتھ نہیں تھے اپنی دوسری بیگم کے کسی بھی ناروا سلوک پہ کبھی انہیں کچھ نہیں کہا۔ وہ دن بھر بابا کی غیر موجودگی میں اسکی مما کے بارے میں گندی باتیں کرتیں وہ باتیں اسے بالکل پسند نہیں تھیں مگر اسے سننا پڑتیں زرینہ آنٹی نے بہت کوشش کی کہ وہ انہیں مما کہہ کر مخاطب کیا کرے پر یہاں اس نے ان کی نہیں چلنے دی تھی۔

وہ زرینہ آنٹی ہی بلاتی۔

بابا بھی ہمیشہ ان کی حمایت کرتے جبکہ اسے اپنی مما کے حوالے سے زرینہ آنٹی کے منہ سے ایسی کوئی بھی بات سننا پسند نہیں تھا۔ اس نے تھری کلاس میں جب بابا کے سامنے زرینہ آنٹی کی شکایت کی تو جواباً انہوں نے اسے زندگی میں دوسری بار تھپڑ مارا۔ اسے تھپڑ پڑتے دیکھ کر وہ خوش تھیں انکے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

پہلے ہر بات پہ ذیان احتجاج کرتی روتی مگر اس ذلت آمیز تھپڑ کے بعد اسکے آنسو ختم ہوگئے۔ اب زرینہ آنٹی سارا دن اس کی مما کا نام لے کر گندی اور عجیب باتیں کرتیں مگر اسکے چہرے اور دل میں بے حسی طاری رہنے لگی۔اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

گزرنے والے ہر دن کے ساتھ ان کی زبان کی دھار تیز ہوتی گئی۔اب تو رابیل بھی اسکی مما کے کرتوتوں سے آگاہ ہوچکی تھی۔

ایک دن اس نے زرینہ آنٹی کی طرح ذیان کو اس کی مما کا نام لے کر طعنہ دیا مگر اس بار اسے غصہ نہیں آیا وہ پہلے کی طرح صرف خاموش ہو کر رہ گئی۔

وہ بابا کے چہرے پہ کچھ تلاشتی پر وہاں بھی خاموشی ہوتی۔

زرینہ ماں بننے کے بعد اور بھی طاقتور اور منہ زور ہوگئی تھی۔امیر علی کمزور پڑ گئے تھے بہت کچھ سن کر بھی ان سنی کردیتے مگر ذیان کا معاملہ کچھ اور ہی صورت میں چل پڑا تھا۔

وہ منہ سے اب بھی نہیں بولتی تھی مگر خاموش سرد نگاہوں سے زرینہ آنٹی کو دیکھتی ضرور تھی۔

اپنی زندگی میں مگن امیر علی کو پلوں کے نیچے بہت سا پانی گزر جانے کا احساس تک نہ ہوا۔ ذیان ان سے بہت دور جاچکی تھی اب وہ چاہنے کے باوجود بھی اسے واپس نہیں لا سکتے تھے۔ درمیان میں وقت کے ظالم فاصلے حائل تھے۔ وہ اب تین چار سالہ ذیان نہیں رہی تھی کالج کی طالبہ کے نوجوان لڑکی کے روپ میں ڈھل چکی تھی۔

رگوں میں رچی بسی تلخی نے اسے زہریلا بنا دیا تھا۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ بچپن میں انہوں نے ذیان پہ توجہ نہیں دی۔ زرینہ سے شادی کر کے وہ اس کی طرف سے بے فکر تھے وہ قطعی طور پہ لاعلم تھے کہ زرینہ نے ذیان کے معصوم بچپن کو زہر آلود کردیا ہے۔

انہوں نے خود ہی تو زرینہ بیگم کو سب کچھ بتایا تھا اپنی نفرت، کھولن کڑواہٹ سب کے سب راز خود اپنے ہاتھوں زرینہ کو پیش کئے۔

اس نے وہ سب ہتھیار بے دریغ ذیان پہ استعمال کئے۔ شروع میں ہی زرینہ نے ان کی انا کے غبارے میں جو ہوا بھری وہ بہت بعد میں جا کر نکلی۔ انہوں نے جیتے جی صحت مندی، خوشحالی کے زمانے میں ہر چیز کا مالک زرینہ کو بنا دیا۔ گھر، کاروبار، جائیداد، سب کچھ انہی کے تو نام تھا۔ وہ اب کس برتے پہ اکڑتے۔ خاموش ہو کر رہ گئے تھے۔

ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ذیان اور وہ سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔

اپنی سوکن کی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی گھر میں چلتے پھرتے دیکھنا زرینہ کے لئے اذیت ناک تجربہ تھا۔

اتنے برس اس نے برداشت کیا تھا اب ہمت جواب دے گئی تھی امیر علی کی پہلی بیوی اور بیوی بھی ایسی جس سے وہ خود بھی شدید نفرت کرتے تھے اور زرینہ، امیر علی سے بھی زیادہ ذیان سے نفرت کرتی تھی۔

رابیل، آفاق اور مناہل کو اس نے ذیان کے قریب ہونے ہی نہیں دیا تھا۔

اپنی نفرت اس نے تربیت کے ذریعے اولاد میں بھی کافی حد تک منتقل کردی تھی۔

اس گھر میں بوا رحمت واحد ایسی ہستی تھیں جن سے ذیان کا قلبی و جذباتی تعلق تھا۔ وہ ایک طرح سے انکے ہاتھوں میں ہی پلی بڑھی تھی یہ بوا کا سہارا ہی تھا کہ وہ زرینہ آنٹی کی نفرت سہہ گئی تھی۔ وگرنہ پاگل ہو کر غلط راستوں کی مسافر بن جاتی۔ بوا آڑے وقتوں کا سہارا اور اس کی ڈھال تھیں۔

بہت زمانے سے یہاں اس گھر میں تھیں اس لئے امیر علی ان کا بہت احترام کرتے اور ان کی بات کو اہمیت بھی دیتے۔ بوا نے بہت ہی خاموشی سے خود کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اپنے غیر جانبدار کردار کو عرصے تک نبھایا اور اب تک نبھاتی چلی آرہی تھی۔

گھر کا ہر فرد ان کی عزت کرتا۔ذیان کے لئے بوا کا دم غنیمت تھا۔ وہ اس کی ماں باپ دوست، استاد سب کچھ ہی تو تھیں۔

یہ بوا ہی تھیں جن کی بدولت وہ زمین پہ چل پھر رہی تھی نہ صرف چل پھر رہی تھی بلکہ اپنے پسندیدہ کالج میں پڑھ بھی رہی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ شکوے کرنا چھوڑ دئیے تھے۔ شاید وہ تقدیر پہ راضی و برضا تھی پر اس خاموشی میں کتنے طوفان چھپے تھے اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا۔ اب زرینہ بیگم جلد از جلد اس کی شادی کرنا چاہ رہی تھی۔ پر امیر علی کمزور حیثیت میں ہی سہی پر انکے آڑے آرہے تھے کہ پہلے ذیان کو تعلیم مکمل کرنے دوپھر سوچا جائے گا۔

 وہاب کچھ عرصے سے بلا ناغہ انکے گھر کے چکر کاٹ رہا تھا ایسے میں ذیان جتنی جلدی اپنے گھر کی ہوتی تب اسکے دل کی پھانس بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور ہوجاتی۔

Episode 10 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 10 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی خود کو آئینے میں بغور تکتی چہرے پہ نائیٹ کریم کا مساج کر رہی تھیں۔ ملک ارسلان جہازی سائز بیڈ پہ نیم دراز ان کی اس سرگرمی کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے دیکھنے کے انداز میں بچوں کی سی معصومیت اور اشتیاق تھا۔ شادی کے اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی عتیرہ کے حسن و جمال میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ حسن و رعنائی کا چھلکتا جام تھا۔

ملک ارسلان سیراب ہی نہیں ہوتے تھے۔ ان کی تشنگی روز اول کی طرح قائم و دائم تھی۔ وہ آج بھی نو عمر عاشق کی طرح عتیرہ کے حسن کے گرویدہ تھے۔ کبھی کبھی تو وہ اس بے تابی و وارفتگی پہ جھنجھلا سی جاتی۔ارسلان نے اسے بے پناہ محبت دی تھی کبھی کبھی خیال آتا ارسلان کے پاس محبت کے معاملے میں قارون کا خزانہ ہے جو دونوں ہاتھوں سے دیوانہ وار لٹانے کے بعد بھی ختم یا کم نہیں ہو رہا تھا۔

عتیرہ فارغ ہو کر بیڈ پہ آئی۔ ارسلان اسے توجہ و شوق سے تکتے ادھر ادھر کی عام باتیں کرتے کرتے سوگئے۔ اس نے ان کی طرف سے کروٹ بدل لی۔ ان کی آنکھیں لبا لب نمکین پانیوں سے لبریز ہو رہی تھیں۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ ان کے لبوں سے ایک سسکی تک نہ نکلنے پائے ورنہ ملک ارسلان بہت ہرٹ ہوتے۔ انہوں نے بہت پہلے عتیرہ سے ایک وعد ہ لیا تھا کہ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں۔

انکے سامنے وہ نہیں روتی تھیں۔ لیکن تنہائیوں میں آنکھیں گھٹا کی طرح برستی۔ انکے لبوں پہ صحراؤں کی سی پیاس تھی۔ اور اس پیاس سے سیراب ہونے کی کوئی تدبیرا نہیں پتہ نہیں تھی۔

بہت دیر بے آواز رونے کے بعد دل کوکچھ سکون ہوا۔ انہوں نے کندھے کے بل اُٹھ کر تھوڑا پانی پیا۔ نیم اندھیرے میں انہوں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سوئے ہوئے ارسلان ملک کو دیکھنے کی ناکام سی کوشش کی اور پھر دوبارہ لیٹ گئیں۔

ارسلان بے سدھ سکون کی میٹھی نیند سو رہے تھے۔ عتیرہ کو ان کی نیند پہ رشک سا ہوا۔ اور خودپہ ترس بھی آیا۔ ایک وہی محروم اور تشنہ تھیں۔ ارسلان کتنے سکون میں تھے۔ سب کچھ پا لیا تھا اور ایک وہ تھی سب کچھ پا کر بھی خالی ہاتھ تھیں۔ ارسلان انکے مجازی خدا نے تو”محرومی“سے سمجھوتہ کرلیا تھا پر وہ نہیں کر پائی تھیں۔

کتنی بار تنہائی میں انہوں نے ایک ننھے منے وجود کو خود سے لپٹے محسوس کیا تھا۔

اسکے رونے کی آواز سنی تھی۔ لیکن ایسا صرف چند ثانیے کے لئے ہوتا۔ حقیقت بڑی تلخ اور سفاک تھی۔ ان کی گود خالی بنجرتھی۔ اور ملک ارسلان کا کوئی نام لیوا نہیں تھا۔ ملک جہانگیر دو کڑیل جوان بیٹوں کے باپ تھے وہ انکے وارث فخر اور مان تھے۔ افشاں بیگم کے لہجہ میں دونوں بیٹوں کے نام پہ کیسی مٹھاس اتر آتی۔ ان کا سر اونچا ہوتا جیسے دونوں جہاں انکے قدموں تلے ہوں۔

ملک ارسلان کو بھی محرومی ستاتی۔ مگر کم از کم عتیرہ کے سامنے انہوں نے کبھی اظہار نہیں کیا تھا۔ یہ باب ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا تھا۔ عتیرہ اکیلی روتی سسکتی پر ملک ارسلان کے سامنے اسکے لبوں پہ چپ کا قفل تھا۔

راعنہ نے کچھ دیر پہلے ہی فون پہ یہ ناقابل یقین خبر سنائی تھی۔ ان سب کو تو ناقابل یقین ہی لگی تھی۔ کیونکہ راعنہ نے تو کبھی اشارتاً بھی یہ ذکر نہیں کیا تھا۔

وہ اپنے کزن شہریار سے منسوب تھی۔ وہ تعلیم مکمل کر کے عملی میدان میں آچکا تھا۔ اب اس کے والدین راعنہ کو بہو بنا کر اپنے خواب پورے کرنا چا رہے تھے۔ کیونکہ راعنہ کے ماموں یعنی شہریار کے والد کافی عرصے سے بیمار چلے آرہے تھے۔ ان کی بیماری سنگین نوعیت کی تھی۔ہارٹ پیشنٹ تھے اپنی زندگی میں ہی بیٹے کو دولہا کے روپ میں دیکھنا چاہ رہے تھے۔

راعنہ کے ڈیڈی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر ابھی اس کی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ چھٹا سمسٹر شروع تھا۔ بی ایس آنرز کا، دو دن سے راعنہ یونیورسٹی بھی نہیں آرہی تھی۔ جبکہ ایگزام بھی قریب تھے۔ ایسے میں اسکی یونیورسٹی سے غیر حاضری حیران کن اور نہ سمجھ میں آنے والی تھی۔ رنم اور کومل ابھی یونیورسٹی میں ہی تھی جب باری باری راعنہ نے دونوں کو الگ الگ کال کر کے اپنی اچانک طے ہوجانے والی شادی کی اطلاع دی۔

کومل نے فراز اور اشعر کو ڈھونڈ کر پھولے پھولے سانسوں سمیت یہ بریکنگ نیوز سنائی۔

رنم نے باقی کی کلاسز چھوڑ دیں۔ اور سیدھی پارکنگ ایریا میں جا کر اپنی گاڑی نکالی۔ اسکے پیچھے پیچھے ہی کومل، اشعر اور فراز تھے۔

افتاداں و خیزاں وہ راعنہ کے گھر پہنچے۔

راعنہ مزے سے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ رنم اور کومل کا خیال تھا وہ اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑی رو رہی ہوگی۔

اچھا خاصہ فلمی سین ہوگا جنگ ہو رہی ہوگی کہ ابھی میں شادی نہیں کرسکتی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ کہتی کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی شادی کروں گی۔ مما پپا بے شک کہتے رہیں مگر میں وہی کروں گی جو سوچا ہے۔ کیونکہ ماموں کی خرابیٴ صحت اور ان کی خواہش شہریار کو دولہا بنے دیکھنا اسکے علم میں تھی۔

اور اب وہ مزے سے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ جہاں سٹار پلس کا ڈرامہ چل رہا تھا اور مزے کی بات اس میں دکھائے جانے والے دو مشہور کرداروں کی شادی فلمی انداز میں ہو رہی تھی۔

انہیں سخت مایوسی ہوئی۔ خاص طور پہ کومل کو اس کا تو چہرہ ہی اتر گیا۔ راعنہ سب سے نارمل ملی اور اپنے گھریلو ملازم کو آواز دی۔ کیونکہ اسے پتہ تھا وہ سب دوست یونیورسٹی سے سیدھا اسی کے گھر آئیں گے اور پیٹ پوجا تو لازمی کریں گے۔ ان کی زبردست سی خاطر مدارت کا انتظام سب کچھ ریڈی تھا۔

وہ ملازم کو کھانا لگانے کا بول کر آئی تو سب دوستوں کو اپنی طرف گھورتے پایا”کیا سن رہے ہیں ہم“ رنم نے اسے کڑی نگاہوں سے گھورا تو راعنہ نے ڈرنے کی کامیاب اداکاری کی۔

”جی کیا سنا ہے آپ نے؟“ ”یہی کہ آپ محترمہ کی شادی اچانک طے پاگئی ہے ٹھیک پچاس منٹ پہلے میرے سیل فون پہ کال آئی تھی“رنم نے اپنی رسٹ واچ کو دیکھتے ہوئے وقت کا اندازہ لگایا جو بالکل درست تھا۔ ”جی آپ نے بالکل ٹھیک سنا ہے۔“ راعنہ اسی کے انداز میں سعادت مندی سے بولی۔ ”ہرے خوب مزا آئے گا“اشعر نے صوفے سے کھڑا ہو کر دونوں بازو فضا میں لہرائے۔

راعنہ نے رونی سی صورت بنالی جو اسکے دکھائی دینے والے تاثرات کے ساتھ ذرا بھی لگا نہیں کھا رہی تھی۔ ”تم سب فرینڈز کو میرے بچھڑنے کا دکھ نہیں ہے؟“ ”تمہیں دکھ نہیں ہے تو ہمیں کیوں ہوگا۔ ہم تو یہ سوچ کر آئے تھے کہ تم بیٹھی رو رہی ہوگی۔ مگر یہاں تو چہرے پہ گلاب کھلے ہوئے ہیں ذرا بھی افسوس نہیں ہے تمہیں۔“

کومل نے تاک کر وار کیا۔ ذرا سی دیر میں ہی صوفے کے سب کشن ان چاروں کے ہاتھ میں تھے اور راعنہ پورے کمرے میں اپنے بچاؤ کے لئے بھاگتی پھر رہی تھی۔

کوئی بھی معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اچھی طرح درگت بنانے کے بعد اس کی جان بخشی کی گئی۔ اسکے بعد شرافت سے ساری کہانی سنی گئی۔ ”اصل میں ماموں بیمار ہیں انکی حالت پچھلے دنوں سیریس ہوگئی تھی تب ممانی نے پپا سے بات کی کہ شہریار اور راعنہ کی شادی کردینی چاہئے سو انہوں نے ہاں کردی۔ میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ شہریار نے شادی کے بعد مجھے اپنا بی ایس آنرز مکمل کرنے کی اجازت دے دی ہے“ وہ آرام سے پوری کہانی سنا چکی تو کومل لٹکے منہ سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

”میں تو سمجھی تھی کہ تم شادی کی وجہ سے خوش ہو“ ”ارے میں شادی کی وجہ سے بھی تو خوش ہوں“ راعنہ تیزی سے بولی جیسے اسے یہ ڈر ہو کہ کومل کوئی اور مطلب نہ نکال لے۔ اس پہ رنم اور کومل کی کھی کھی شروع ہوگئی۔ ”دیکھ لو کیا زمانہ آگیا ہے لڑکی اپنے منہ سے کہہ رہی ہے کہ میں شادی کی وجہ سے بھی تو خوش ہوں۔ ایک مشرقی لڑکی ہوتے ہوئے بھی ایسی بولڈ نہیں“ کومل اور رنم دونوں اسے چھیڑ رہی تھیں مگر اب وہ بھی انکے ساتھ ہنس رہی تھی۔

فراز اور اشعر نے بزرگانہ انداز میں دعا دی”سدا خوش رہو۔ اور دودھ میں نہاؤ۔“ دودھ میں نہانے کی دعا فراز نے اپنی عقل کے مطابق دی تھی کیونکہ اسے زبردست سا لنچ کرنے کے بعد فراز اور اشعر واپس اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ جبکہ کومل اور رنم دونوں راعنہ کے پاس ہی تھیں۔

شادی اگزام کے بعد تھی۔ وہ ان دونوں کے ساتھ مل کر اپنا پروگرام بنا رہی تھی”میں چاہتی ہوں کہ اگزام کے بعد ہی شاپنگ کروں۔

تم دونوں نے میرا ساتھ دینا ہے۔میری کوئی بہن تو ہے نہیں تم نے ہی سب کچھ کرنا ہے۔“ ”ہاں تم کیوں ٹینشن لے رہی ہو ہم ہیں ناں کیوں رنم“ کومل نے رنم سے تائید چاہی۔ وہ خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی کومل کی بات پہ فوراً ہاں میں سر ہلایا۔ ”میں تو راعنہ کی شادی پہ پیارے پیارے ڈریسزبنواؤں گی۔“ کومل کو اپنی پڑی تھی۔ رنم ہنسنے لگی کومل ہر بات میں ہر کام میں عجلت سے کام لیتی تھی اسے ایسی کوئی جلدی نہیں تھی وہ سب کام سکون اور آرام سے کرنے کی عادی تھی۔

”رنم تم میری شادی پہ کیا پہنو گی؟“ راعنہ نے پوچھا”ابھی کچھ ڈیسائیڈ نہیں کیا ہے میں نے”میں تو یہ خوب کام والے ڈریس بنواؤں گی ایکدم ایسٹرن لک“ کومل پھر شروع تھی۔ جبکہ اب رنم گھر واپسی کا سوچ رہی تھی۔ شام ہو رہی تھی آج پپا نے گھر جلدی آنے کا کہا تھا۔ راعنہ سے اجازت لے کر وہ واپسی کے لئے نکل آئی۔ جبکہ کومل ابھی تک راعنہ کے کان کھا رہی تھی۔

Episode 11 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 11 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

شاندار سے سجے سجائے ڈائینگ ایریا میں ملک جہانگیر، ملک ارسلان، عتیرہ، افشاں بیگم چاروں موجود تھے۔اِدھر اُدھر کی عام باتیں ہو رہی تھیں جبکہ ملک جہانگیر نے احمد سیال کا ذکر چھیڑ کر ان سب کو وہاں جانے کا بتایا۔ ملک جہانگیر کا انداز بہت خاص تھا جیسے وہ کوئی بہت ضروری بات بتانا چاہ رہے ہوں۔

”میں چیک اپ کروانے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ احمد سیال کے گھر چلا گیا۔

وہاں میں نے کھانا کھایاا ور اس کی بیٹی سے بھی ملاقات کی“افشاں بیگم اور عتیرہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ملک جہانگیر اتنا بولنے کے بعد خاموش ہوگئے جیسے ذہن میں کچھ خاص جملے سوچ رہے ہوں۔

”میں معاذ اور ابیک کی شادی کرنے کی سوچ رہا ہوں۔ معاذ کے لئے مجھے احمد سیال کی بیٹی بہت پسند آئی ہے۔

“ ”تو ابیک کے لئے کیا سوچا آپ نے وہ معاذ سے بڑا ہے،افشاں بیگم ان کی بات کاٹ کر تیزی سے بولیں تو ملک جہانگیر ہنس دئیے۔

”معاذ کے لئے تو میں نے لڑکی پسند کرلی ہے اب مسئلہ ابیک کا ہے تو اسکے لئے کوئی لڑکیوں کی کمی ہے ہم اپنی حیثیت کے مطابق اچھے خاندان سے اپنے بیٹے کے لئے لڑکی لائیں گے۔“ ”یہ تو بہت اچھی بات ہے“ ملک ارسلان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ ”معاذ کے لئے آپ نے لڑکی پسند کرلی ہے کیا اس کی بھی رائے لی ہے؟“ ملک ارسلان نے سوال کیا تو ایک ثانیے کے لئے وہ چپ سے ہوگئے۔

”تم عتیرہ، میں ہم سب احمد سیال کے گھر چلیں گے تم وہاں اس کی بیٹی دیکھ لینا اگر کسی فیصلے پہ پہنچے تو میں تب معاذ کو بتاؤں گا۔“ ”اس کی سر پھری طبیعت کا آپ کو پتہ ہے ناں۔ خود اسے لڑکی پسند کرنے دیں ورنہ وہ شور مچائے گا۔“ افشاں بیگم نے یہ پہلو بھی انکے سامنے رکھا۔ ”بھائی جان آپ ایسا کریں کہ چھٹیوں میں معاذ کو پاکستان بلوائیں پھر اسے بھی لڑکی کے گھر لے جا کر ایک نظر دکھا دیں اسے پسند آگئی تو رشتہ مانگ لیں گے ہم“ عتیرہ نے اپنے تئیں اچھا مشورہ دیا۔

”ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ معاذ چھٹیوں پہ گھر آئے تو اسے احمد سیال کے گھر لے جاؤں۔ اس کی بیٹی بھی پڑھی لکھی ہے معاذ ناپسند نہیں کرے گا“ ملک جہانگیر نے عتیرہ کی تائید کی تو ایک پرسکون مسکراہٹ اسکے لبوں پہ پھیل گئی۔

”میرے ابیک کے لئے بھی رشتہ دیکھیں”ملک صاحب“ افشاں بیگم کے لہجے میں ممتا کی گرمی اور شفقت صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔

”ہاں وہ میرا بیٹا ہے۔ دونوں کی شادی ایک ساتھ کروں گا“ ملک جہانگیر مسکرائے۔ ”ابھی معاذ کی تعلیم مکمل ہونے میں پورا ایک سال باقی ہے تب تک ابیک کنوارا رہے گا؟“ افشاں بیگم نے بڑے ناراض انداز میں سوال کیا تھا۔ انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ معاذ کے لئے تو لڑکی پسند کرلی گئی تھی اور ابیک کے لئے وہ ابھی تک کسی کے گھر رشتہ مانگنے تک نہیں گئے تھے۔

انہیں اپنے شریک حیات سے شکوہ سا تھا۔ لیکن وہ بیٹے کے باپ ہونے کی حیثیت سے اس کی طرف سے ہرگز لاپرواہ نہیں تھے۔ ابیک، معاذ کے مقابلے میں سنجیدہ، باشعور، خیال کرنے والا اور اپنی ذمہ داری نبھانے والا حساس بیٹا تھا۔

وہ اسکے لئے گوناگوں خوبیوں والی ہمہ صفت بہو ڈھونڈ رہے تھے پر ابھی تک گوہر مقصود ان کی نظر میں آیا نہیں تھا ورنہ یہ کیسے ممکن تھا وہ اسے چھوڑ کر معاذ کے لئے پہلے احمد سیال کے گھر رشتہ مانگنے جاتے۔

”ابیک کے لئے بھی میں اچھا ہی سوچ رہا ہوں۔ تم اور عتیرہ اس کے لئے رشتے دیکھو۔ عورتیں تو ایسے کاموں میں بہت ہوشیار ہوتی ہیں“ ملک جہانگیر نے قصداً ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا تو افشاں بیگم کے لبوں پہ پہلی بار پرسکون مسکراہٹ آئی۔ عتیرہ نے انکے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

”بھائی جان ابیک گاؤں آئے تو اس سے بھی ڈسکس کرلیجئے گا“ ملک ارسلان بولے۔

”ہاں میں اس کے مشورے کے بغیر کچھ نہیں کروں گا“ ملک جہانگیر دل ہی دل میں کچھ سوچ رہے تھے۔

                                 

ابیک گاؤں واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ بابا جان نے اسے بلوایا تھا۔ وہ اسے اس طرح کبھی واپس نہیں بلواتے تھے۔ وہ دل ہی دل میں اپنی سوچوں سے الجھتا گاؤں واپس جارہا تھا۔

اس کی سلور مرسڈیز سیلون جب حویلی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔

سب اسے گرمجوشی اور نارمل انداز میں ملے۔

کسی کے چہرے سے بھی کوئی خاص بات ظاہر نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس نے خود سے پوچھنا مناسب سمجھا بھی نہیں۔ ہاں رات کو جب وہ بابا جان کے پاس بیٹھا فرصت سے باتیں کر رہا تھا تب یہ عقدہ حل ہوا کہ بابا نے اسے کیوں بلوایا ہے۔

وہ ان کی بات سن کر ایک ثانیے کے لئے خاموش سا ہوگیا۔ ملک جہانگیر اس کی خاموشی سے بے نیاز اپنی باتیں کر رہے تھے۔

میں چاہتا ہوں تمہاری اور معاذ کی شادی ایک ساتھ کروں یا پھر دونوں میں سے پہلے تمہاری۔ میں اس سے بھی بات کروں گا تعلیم تو اسکی ویسے بھی مکمل ہونے والی ہے۔ مگر تم بڑے بیٹے ہو شادی کا پہلا حق تمہارا ہے۔ معاذ کے لئے میں نے اپنے دوست احمد سیال کی بیٹی دیکھ رکھی ہے۔ تمہاری اگر کوئی خاص پسند ہے تو بتاؤ۔ تمہاری مرضی اور پسند کا پورا خیال رکھا جائے گا۔

ملک جہانگیر بہت نرمی اور شفقت سے بول رہے تھے۔ ساتھ وہ اسکے چہرے کے تاثرات کا بھی بغور جائزہ لے رہے تھے۔

”بابا جان فی الحال میری شادی اور رشتے کے فیصلے کو موٴخر کردیں“ ملک ابیک کا لہجہ مضبوط اور واضح تھا۔ ”میں کون سا تمہاری چٹ منگنی پٹ بیاہ کی بات کر رہا ہوں۔ سال دوسال بعد شادی کی جاسکتی ہے۔ تم بڑے ہو قدرتی طور پہ میرا اور تمہاری ماں کا دھیان اس طرف جاتا ہے۔

“ بابا جان میں ابھی بہت بزی ہوں۔ میرے کچھ پراجیکٹس ہیں۔ مجھے پہلے انہیں مکمل کرنا ہے۔

”تم اپنے پراجیکٹس شادی کے بعد مکمل کرتے رہنا۔“بابا جان میں گاؤں میں ایک انڈسٹریل ہوم بنانا چاہتا ہوں شہری طرز کا جدید سہولتوں سے آراستہ۔ میرے ذہن میں عورتوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے کچھ آئیڈیاز ہیں کم از کم مجھے ان کی تکمیل کے لئے تو ٹائم دے دیں۔

“ اسکے انداز میں فرمانبرداری تھی۔ ملک جہانگیر کو وقتی طور پہ تھوڑا سکون ہوا۔ دل ہی دل میں وہ کچھ سوچ رہے تھے۔ اتنے میں ان کا سیل فون مدھر انداز میں دھن بکھیرنے لگا”معاذ کالنگ“ کے الفاظ سے موبائل فون کی اسکرین جگمگا رہی تھی۔ انہوں نے فون آن کر کے کان سے لگایا۔ کچھ دیر پہلے اسکے بارے میں بھی بات ہو رہی تھی اب اس کی کال آئی تو ملک جہانگیر باغ باغ ہوگئے۔

”کیسے ہو معاذ پتر“ وہ اپنے مخصوص شفقت بھرے انداز میں بولے۔ ”بابا جان میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کی خیریت معلوم کرنی تھی“ اسکی پرجوش آواز سیل فون سے باہر تک آرہی تھی۔ ملک ابیک بخوبی سن رہا تھا۔ ”بابا کی جان میں بالکل ٹھیک ہوں یہ بتاؤ تم کب آرہے ہو پاکستان؟“ ”کیوں بابا جان؟“ا س نے سوال کے جواب میں الٹا سوال کردیا۔ ”تمہاری چھٹیاں تو ہونے والی ہیں ناں… تم آؤ تو تمہارے رشتے کی بات چلاؤں…“ملک جہانگیر اس کی سنے بغیر بول رہے تھے۔

”واٹ میرا رشتہ… اوہ نو“ وہ تقریباً چیخنے والے انداز میں بولا۔

”میں خود اپنی مرضی اور پسند سے شادی کروں گا“ کچھ دیر ٹھہر کر وہ اپنے مخصوص ضدی انداز میں بولا۔ ”میں نے تمہارے لئے جو لڑکی پسند کی ہے اسے خود پاکستان آ کر دیکھ لو… میں پوری گارنٹی سے کہتا ہوں تم انکار نہیں کرو گے۔ احمد سیال کی بیٹی ہے وہ“ ملک جہانگیر نے بمشکل تمام اپنے غصے پہ قابو پایا۔

انہیں معاذ کی طرف سے پہلے ہی اس بات کا خدشہ تھا کہ شائد ہی وہ ان کی مانے اور اس نے سب شرم لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے انکے خدشے کو حقیقت کے روپ میں ڈھال دیا۔ ”بابا جان میں ابھی شادی نہیں کرسکتا۔“ ان کے لہجے میں غصہ محسوس کر کے وہ تھوڑا نر م پڑ گیا۔

”ابیک بھی میرے پاس بیٹھا ہے۔ کچھ دیر پہلے میں اس سے شادی کی بات ہی کر رہا تھا۔ احمد سیال میرا بہت اچھا دوست ہے اس کی بیٹی لاکھوں میں ایک ہے اچھے خاندان سے ہے۔

احمد سیال کا اپنا ایک نام ہے شخصیت ہے اسکی بیٹی کے لئے کوئی رشتوں کی کمی نہیں ہے جو وہ انتظار کریں گے۔“

”بابا جان ابھی پورا ایک سال باقی ہے میری تعلیم مکمل ہونے میں۔ اور احمد سیال انکل کی بیٹی یقینا بہت اچھی ہوگی۔ ایک سال میں بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے…“

فون کے دوسری طرف موجود ہزاروں میل دور بیٹھے معاذ کی آنکھیں اپنی چالاکی پہ چمک رہی تھیں۔

ہاں بولو

”بابا جان اچھی لڑکیوں کو زیادہ دیر اچھے رشتے کے لئے انتظار میں بیٹھنا نہیں پڑتا۔ مجھے آنے میں پورا ایک سال باقی ہے۔ اس عرصے میں احمد سیال انکل یقینا میرا انتظار نہیں کریں گے کہیں نہ کہیں رشتہ طے کردیں گے۔ مگر آپ ان کی بیٹی کی اتنی تعریف کررہے ہیں تو میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ ابیک بھائی کی شادی اس کے ساتھ کردیں۔

اسی بہانے میں بھی آجاؤں گا…“

فون پہ ملک جہانگیر کی گرفت اچانک ہی سخت ہوئی تھی۔ وہ اس کی بات کے جواب میں خاموش تھے بس ان کی سانسوں کی آواز ہی معاذ کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔

اپنی چالاکی سے اس نے پوری صورت حال اپنے حق میں کرلی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ بابا جان کے دل پہ اس وقت کیا گزر رہی ہے۔

Episode 12 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 12 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

”اچھا چلو پھر اس پہ بات کریں گے“ انہوں نے دل ہی دل میں کسی نتیجے پہ پہنچتے ہوئے مصلحت سے کام لے کر نرم انداز میں بات چیت کا اختتام کرنا چاہا۔ دوسری طرف موجود معاذ نے سکون کی سانس لی اور انہیں اپنا خیال رکھنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔ ملک جہانگیر اپنی سوچوں میں گم تھے۔ کافی دیر سے خاموشی طاری تھی۔ ”بابا جان کیا بات ہے آپ خاموش کیوں ہیں۔

معاذ سے کیا بات ہوئی ہے؟“ ابیک احترام میں کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بول پڑا۔ ملک جہانگیر اس کی طرف دیکھ کر پھیکے انداز میں مسکرائے۔ ”بس ایسے ہی ادھر ادھر کی باتیں کر رہا تھا بول رہا تھا ابھی نہیں آسکتا۔ ”وہ خود پہ قابو پا کر نارمل انداز میں بولے۔ ابیک کو کچھ کچھ اندازہ تھا کہ اصل بات کیا ہے کیونکہ معاذ کی آواز فون سے باہر تک آرہی تھی مگر بابا جان اُسے ٹال گئے تھے کچھ دیر بعد انہیں سونے کا کہہ کر باہر نکلا تو سامنے ارسلان چچا کے پورشن کی طرف نظر اٹھ گئی۔

اندرونی اور بیرونی سب لائٹیں آن تھیں وہ بلا ارادہ انکے پورشن کی طرف بڑھا۔ یہ پہلو بہ پہلو ایک جیسے ڈیزائن اور طرز تعمیر کی حامل دو حویلیاں تھیں ایک میں ملک جہانگیر اور دوسری میں ملک ارسلان اپنی بیوی عتیرہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ دونوں عمارتیں دو منزلہ تھیں درمیان میں چند منٹ کا فاصلہ حائل تھا۔

ملک ابیک تھوڑی دیر بعد چچا کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔

عتیرہ بھی جاگ رہی تھی۔ چچا سے حال احوال دریافت کرنے کے بعدابیک خاموش ہو کر کچھ سوچنے میں مگن تھا۔ ”کن خیالوں میں گم ہو ابیک؟“ عتیرہ چچی نے خاموشی کے طلسم کوتوڑا تو وہ چونک کر مسکرایا“ ابھی سے حسین تصورات میں کھو گئے ہو جناب۔ جبکہ پہلے ہم نے معاذ کے لئے لڑکی دیکھنے جانا ہے“ ارسلان چچا کا لہجہ شرارت سے بھرا ہوا تھا۔ وہ گڑ بڑا سا گیا۔

”تمہیں بھابھی نے بتایا تو ہوگا…“ عتیرہ چچی نے بات آگے بڑھائی ان کا اشارہ افشاں بیگم کی طرف تھا۔ ابیک انہیں بے چارگی سے دیکھ کر رہ گیا۔

”تمہیں اتنا تو پتہ ہوگا کہ بھائی جان تمہاری اور معاذ کی شادی ایک ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ معاذ کے لئے تو انہوں نے لڑکی پسند کرلی ہے۔ جبکہ تمہارے لئے کوئی انکی نظروں میں سما ہی نہیں رہا ہے۔“ آخر میں چچا ارسلان شرارت سے مسکرائے تو وہ بھی ہنس دیا۔

”چچا جان ابھی بابا جان کی معاذ سے بات ہوئی ہے وہ شاید شادی اور اس رشتے کے لئے راضی نہیں ہے“ ابیک نے محتاط الفاظ کا انتخاب کیا۔ ”ہاں وہ شروع سے ہی اپنی پسند و ناپسند کے بارے میں بہت حساس ہے۔ اس کی یہ عادت ابھی تک نہیں بدلی ہے۔ زندگی کا ساتھی چننے کے معاملے میں بھی وہ بھائی جان کی پسند پہ اعتبار نہیں کرے گا۔“ ارسلان نے صورت حال اور معاذ کے بارے میں درست ترین تجزیہ کیا تھا۔

ابیک اپنی اُلجھن کو دور کرنے اُنکے پاس آیا تھا اور واقعی تھوڑی دیر بعد وہ سب فکریں ذہن سے جھٹک کر اُنکے ساتھ مسکرا رہا تھا۔ عتیرہ بہت غور سے اُسے تکتے ہوئے دل ہی دل میں جانے کیا کچھ سوچ رہی تھی۔

                               

 ذیان کالج سے آ کر کھانا کھا رہی تھی۔ رحمت بوا اسے حسب عادت ادھر اُدھر کی باتیں کر رہی تھیں وہ پوری دلچسپی سے سن رہی تھی جب انہوں نے ایک سماعت شکن دھماکہ کیا۔

”ذیان بیٹا آج کل گھر میں تمہاری شادی کی باتیں ہو رہی ہیں۔“ بوا نے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑا کر کسی کے نہ ہونے کا یقین کر کے دبی دبی آواز میں یہ جملہ بولا۔ ذیان اپنی جگہ سے کسی اسپرنگ کی طرح اُچھلی۔ ہاتھ میں پکڑا روٹی کا نوالہ چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ ”آپ کو کس نے کہا ایسا؟“ ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس اس نے ٹیبل پہ پٹخنے کے انداز میں رکھا۔

بوا اسکے تیوروں سے سہم گئی۔ بات انکے منہ سے نکل چکی تھی وہ اب پچھتا رہی تھیں کہ ناحق اس ذکر کو چھیڑا۔ ”چھوٹی بیگم، امیر میاں سے اس موضوع پہ بات کر رہی تھیں میں دودھ رکھنے انکے کمرے میں گئی تو کچھ باتیں نہ چاہتے بھی میرے کان میں پڑ گئیں“ انہوں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ”کیا کہہ رہی تھیں وہ“ ذیان کا اشارہ زرینہ بیگم کی طرف تھا۔ اس نے دانت سختی سے ایک دوسرے پہ جما رکھے تھے۔

”یہی کہہ رہی تھیں کہ اب ذیان کی شادی کی فکر کرنی چاہیے… ایک لحاظ سے وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں۔ امیر میاں کے جیتے جی تمہیں اپنے گھر کا ہوجانا چاہئے یہاں ایک پل کا بھی اعتبار نہیں ہے۔ پھر امیر میاں بھی تو فالج کے بعد بستر کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں چھوٹی بیگم کے سر پہ ہی ساری ذمہ داری ہے ناں“ ذیان سن کر گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ بوا نے شکر کیا کہ اس نے شور نہیں کیا۔

ورنہ اس سے کچھ بھی بعید نہ تھا۔

ذیان انہی قدموں چل کر اپنے کمرے میں آگئی۔ اس نے شادی کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا اور ابھی شادی کے نام پہ اسکے خیالات عجیب سے ہو رہے تھے۔ جن کو وہ کوئی بھی معنی پہنانے سے قاصر تھی۔ دبے دبے الفاظ میں پہلے بھی اس کی شادی کا تذکرہ ہوتا تھا مگر اب شائد سنجیدگی سے اس پہ غور و فکر ہو رہا تھا تب ہی تو بوا نے اسے بتایا تھا۔

ورنہ وہ اسکے ساتھ ایسی باتیں کم ہی کرتی تھیں۔

”لگتا ہے زرینہ آنٹی مجھے اس گھر سے بہت جلد رخصت کرانے کے چکر میں ہیں۔ اس سے پہلے ہی مجھے اپنے پیروں پہ کھڑا ہوجانا چاہئے تاکہ گھر والوں کی دست نگربن کر زندگی نہ گزارنی پڑے“ وہ بہت حساس ہو کر سوچ رہی تھی۔

امیر علی دو سال پہلے مفلوج ہونے کے بعد بستر کے ہی ہو کر رہ گئے تھے۔ انکے جسم کا دایاں حصہ سن تھا۔

مفلوج ہونے سے پہلے گھر پہ ان کی حکمرانی تھی۔ زرینہ بیگم اونچی آواز میں بات کرتے ہوئے بھی ڈرتی تھیں۔ امیر علی کے آنکھ کے اشارے تک سمجھ جاتیں پر اب وہ خود زرینہ بیگم کے اشارے پہ چلتے۔ زرینہ نے انکے مفلوج ہونے کے بعد دل و جان سے ان کی خدمت کی ضروریات کا خیال رکھا ہر طرح سے اپنا فرض ادا کیا اور کر بھی رہی تھیں بس اب بساط کے مہرے بدل گئے تھے۔

کوئی بھی کام انکی مرضی کے بغیر سر انجام نہ پاتا۔ امیر علی کی بادشاہت ختم ہوگئی تھی۔

یہ زرینہ بیگم کی حکمرانی کا دور تھا اور وہ اس کے نشے میں چور تھیں۔ رابیل و مناہل اور آفاق تینوں اسکی طاقت تھے وہ ماں سے خائف ہونے کے علاوہ دبتے بھی تھے۔ انہوں نے گھر میں سختی دیکھی تھی پہلے باپ کی اور اب ماں کی۔ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ حکمرانی کرنے والا کون ہے بس چہرے بدل گئے تھے پہلے امیر علی اور اب زرینہ بیگم حاکم تھے۔

ذیان امیر علی کی سب سے بڑی اولاد تھی۔ اس کا معاملہ اپنے تینوں بہن بھائی سے مختلف تھا۔ زرینہ اسے کسی خاطر میں ہی نہ لاتی تھی۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد ذیان بھی بے حس ہوچکی تھی۔ وہ اندر سے باغی اور بے چین روح تھی۔ اپنی بغاوت کو فرو کرنے کے لئے اس کے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ اسکے لب سلے تھے اوردل میں طوفان تھے۔ ان طوفانوں نے جانے کون کون سی تباہی ابھی لانی تھی۔ ابھی تک وہ حدود جاں میں ہی مقید تھے۔

Episode 13 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 13 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

رنم دو دن سے کومل کی طرف تھی وہ دونوں کمبائن اسٹڈی کر رہی تھیں۔ اشعر اور فراز بھی روز کچھ گھنٹوں کے لئے کومل کی طرف آجاتے تاکہ پڑھائی میں ان کی مدد کرسکیں۔ فراز خاص طور پہ اس سلسلے میں بہت مخلص تھا اپنے محنت سے بنائے گئے نوٹس تک انکے حوالے کردئیے تھے۔

رنم پہ احمد سیال نے کہیں آنے جانے پہ کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی تھی ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک وہ اپنے فیصلے خود کرتی آئی تھی۔

وہ کسی بھی معاملے میں انکے سامنے جوابدہ نہیں تھی انہوں نے اسے ہر طرح کی آزادی دے رکھی تھی ساتھ دنیا جہان کی ہر نعمت اسکے قدموں میں ڈھیر کردی تھی۔ کتری احمد سیال کی محبوب بیوی اور رنم اس بیوی کی محبوب ترین نشانی تھی۔ کتری سے ان کی شادی زور دار لو افیئر کے بعد ہوئی۔ اسے پا کر وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کرتے تھے۔

پر ان کی یہ خوش قسمتی زیادہ عرصہ انکے ساتھ نہیں رہ پائی۔

کتری، رنم کو جنم دینے کے صرف چار سال بعد کینسر جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد چل بسی۔ انہوں نے بیوی کے علاج پہ پانی کی طرح پیسہ بہایا اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھایا علاج کی خاطر ملک سے باہر تک لے گئے مگر اسے یعنی کتری کو موت کے منہ سے واپس نہ لاسکے۔ اس کی زندگی ہی مختصر تھی۔ وہ ان کا ساتھ چھوڑ کر ابدی سفر پہ روانہ ہوگئی۔ رنم چار سال کی بھولی بھالی بچی تھی اسے دیکھ بھال کے لئے عورت کی ضرورت تھی۔

یہ ضرورت ایک گورنس اور آیا کے ذریعے پوری ہوگئی۔ رنم انہی کے زیر سایہ عمر کے مدارج طے کرتی گئی۔ احمد سیال کو لوگوں نے شادی کے لئے اکسایا پر وہ جی جان سے بیٹی کی پرورش و تربیت میں مصروف رہے۔

رنم ددھیالی رشتوں کے معاملے میں خاصی بد نصیب واقع ہوئی تھی۔ کیونکہ اسکے پاپا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے وہ بھی عرصہ ہوا فوت ہوچکے تھے۔

رنم اپنے دادا کی دادی کی وفات کے بعد دنیا میں آئی۔

ہاں ننھیال میں اس کی ایک خالہ تھیں جو شادی کر کے کینیڈا میں جا بسی تھیں ان سے فون پہ ہی رابطہ ہوتا وہ بھی کم کم۔

احمد سیال کاروباری بکھیڑوں اور کامیابیوں میں ایسے مصروف ہوئے کہ پھر مڑ کر کسی چیز کی طرف نہ دیکھا۔ دوستوں، ملنے جلنے والوں نے دوسری شادی کے لئے بہت اکسایا، لڑکیاں دکھائیں آنے والے وقت سے ڈرایا پر وہ اپنے ارادے سے ایک انچ نہ سرکے۔

جسمانی اور جذباتی تقاضے کتری کے ساتھ ہی مرگئے تھے۔ اب تو رنم جوان ہوگئی تھی، انکے لئے وہی سب کچھ تھی۔

رنم کو انہوں نے ہر قسم کی آسائش اور آزادی دے رکھی تھی۔ اسکے حلقہٴ احباب میں لڑکے لڑکیاں دونوں تھے ویسے بھی اس کا تعلق معاشرے کی جس کلاس سے تھا وہاں یہ سب برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ رنم پارٹیز میں اور کلب جاتی سوئمنگ کرتی اپنے گھر میں دوستوں کو انوائیٹ کر کے ہلا گلا کرتی۔

احمد سیال اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے انہوں نے کومل کے گھر کمبائن اسٹڈی کرنے کی اجازت بخوشی دی تھی۔

پچھلی بار سب دوستوں نے رنم سیال کے گھر رہ کر اگزام کی تیاری کی تھی۔ اس بار کومل کی باری تھی۔

                                 

راعنہ گروپ کو جوائن ہی نہیں کر پا رہی تھی فراز اور اشعر روز شام کو کچھ گھنٹے کے لئے آجاتے۔ انکے جانے کے بعد کومل اور رنم پھر سے پڑھائی سٹارٹ کرتیں پر راعنہ نہیں آتی تھی۔

کومل تو صاف کہتی کہ راعنہ کو اپنے شادی کے خیالوں سے فرصت ملے تو وہ پڑھائی کی بھی فکر کرے۔ وہ آجکل سب دوستوں کی شرارتوں اور چھیڑ کا نشانہ بنی ہوئی تھی۔ وہ تو مزے لے کر انجوائے کر رہی تھی۔ انہیں کمبائن اسٹڈی کرتے ہوئے چھٹا دن تھا جب ان محترمہ کی شکل نظر آئی۔

کومل اور رنم نے اسکے وہ لتے لئے کہ توبہ ہی بھلی۔ اس نے کوئی احتجاج کئے بغیر کتابیں کھولیں۔

فراز اور اشعر اس کی درگت پہ مسکرانے لگے کومل نے گھور کر اشعر کی طرف دیکھا تو وہ وہیں ہونٹ سکیوڑ کر سعادت مند بچہ بن گیا۔ پر فراز اپنے مخصوص انداز میں مسکراتا رہا۔

راعنہ سنجیدہ بی بی بنی پڑھتی رہی۔ پھر کومل نے بھی حیرت انگیز شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دوبارہ کچھ نہیں کہا۔ رات گیاہ بجے کے قریب راعنہ کے ہونے والے شوہر شہریار کی کال آئی تو وہ اپنا سیل فون لے کر کمرے کے کونے میں آگئی۔

وہ کافی آہستہ آواز میں بول رہی تھی۔ ”کیا کر رہی ہو؟“ شہریار نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ ”میں فرینڈز کے ساتھ مل کر اگزام کی تیاری کر رہی ہوں“ ”اب سوجاؤ صبح اٹھ کر پڑھ لینا اپنی صحت کا خیال رکھا کرو۔ اسی مہینے ہماری شادی ہے“ اس نے ڈانٹنے والے انداز میں کہا تو راعنہ نے چور نگاہوں سے ان سب کی طرف دیکھا۔ وہ سب بھی اسی کو دیکھ رہے تھے۔

راعنہ نے شہریار کو خدا حافظ بول کر فوراً فون بند کردیا۔

”میں سونے لگی ہوں“ اس نے کتابیں سمیٹ کر ٹیبل پہ رکھ دیں“ ہاں ہاں اب تمہیں پڑھائی کی کیوں فکر ہوگی۔ آپ کے شہریار صاحب نے کہا ہوگا کہ جلد سوجایا کرو تاکہ شادی والے دن خوبصورت ترین نظر آؤ۔“ کومل کا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ راعنہ جھینپ سی گئی۔ رنم نے بڑی دلچسپی سے راعنہ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ رنگ ہی رنگ بکھرے محسوس ہو رہے تھے۔ اس حال میں وہ اور بھی دلکش نظر آرہی تھی۔

ویسے بھی رنم اور کومل کی نسبت وہ اتنی بولڈ نہیں تھی کافی حد تک مشرقیت اس میں موجود تھی۔ جس کا اظہار ابھی بھی اسکے روئیے سے ہو رہا تھا۔

فراز صرف اس بات کی وجہ سے راعنہ کو بہت سراہتا اور وہ پھول کر کپا ہوجاتی”میں کل گھر جاؤں گی پپا سے ملنے ہوسکتا ہے واپس نہ آؤں“ رنم نے بھی کتابیں سائیڈ پہ کرتے ہوئے اعلان کیا۔ ”ہوں“ پاپاز چائلڈ“ پتہ نہیں شادی کے بعد کیا بنے گا تمہارا“ کومل نے گہری فکر مندی سے اسے دیکھا تو جواباً ہاتھ میں پکڑا کشن رنم نے اس پہ اچھالا۔

Episode 14 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 14 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

میں چاہوں تجھ کو میری جاں بے پناہ

آئینے میں خود کو دیکھ کر بال سنوارتے ہوئے سیٹی پہ شوخ سی دھن گنگناتے وہاب بہت مسرور نظر آرہا تھا۔

روبینہ قدرے دور بیٹھی اس کی تیاری ملاحظہ کر رہی تھی اور جی ہی جی میں کلس رہی تھی۔ وہاب کی تیاری ابتدائی مراحل میں تھی آخر میں اس نے خود کو پرفیوم میں تقریباً نہلا ہی تو دیا۔ روبینہ کے دل میں عجیب عجیب سے خیالات آرہے تھے۔

یقینا وہ زرینہ کے گھر جانے کے لئے اتنا اہتمام کر رہا تھا تب ہی تو اسکے دل میں اتھل پتھل ہو رہی تھی۔ اس سے رہا نہیں گیا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے بیٹے کو آواز دی”وہاب اِدھر آؤ میری بات سنو“ ”جی امی کیا بات ہے؟“ وہ پرفیوم کی بوتل ڈریسنگ پہ رکھ کر ان کی طرف آیا۔

”میرے پاس بیٹھو“ انہوں نے گہری نگاہ سے نک سک سے تیار بیٹے کو دیکھا۔

”جی اماں“ حیرت انگیز طور پہ وہاب کا لہجہ پیار بھرا تھا۔

وہ لاڈ میں انہیں”اماں“ بلاتا تھا۔ ”کہیں جانے کی تیاری ہے؟“ روبینہ کی نگاہ جیسے وہاب کو آج اندر تک پڑھ رہی تھی۔ ”ہاں اماں دوستوں کے ساتھ باہر کھانے کے لئے جارہا ہوں میری پروموشن ہوئی ہے ناں اسلئے وہ سب ٹریٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔“ اس نے تفصیل سے بتایا تو زرینہ کے لبوں سے سکون کی گہری سانس برآمد ہوئی۔ وہ کچھ اور ہی سوچ رہی تھیں اور بیٹے نے انکی سوچ کو غلط ثابت کیا تھا۔

پہلی بار انہیں سوچ کے غلط ثابت ہونے پہ خوشی سی ہوئی۔

”مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی۔“انہوں نے پھڑ پھڑا کر ایک جملہ بولا۔ ”ہاں اماں کریں“ وہ سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

”میں چاہتی ہوں اب تمہاری شادی ہوجائے اچھے کما رہے ہو گھر ہے گاڑی ہے زندگی میں سکون ہی سکون ہے اسلئے میری خواہش ہے کہ تمہاری شادی ہوجائے۔ تین بہنوں کے اکلوتے بھائی ہو آخر۔

ہمارے بھی تو کچھ ارمان ہیں۔“ ”اماں مجھے تھوڑا اور سیٹل ہونے دیں سال چھ مہینے تک اسکے بعد شادی بھی کرلوں گا۔ میں اپنی بیوی کو زندگی کی ہر سہولت اور خوشی دینا چاہتا ہوں… ویسے بھی ذیان ابھی پڑھ رہی ہے مجھے انتظار تو کرنا ہے“ آخر میں روانی میں اسکے منہ سے ذیان کا نام نکل گیا تو روبینہ ایسے اچھلی جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ اس نے بہت مشکل سے اپنی اندرونی حالت پہ قابو پایا۔

”ہمارا بھلا ذیان کی پڑھائی سے کیا لینا دینا۔“ ”اماں مجھے ذیان سے ہی شادی کرنی ہے“ وہاب کی آنکھوں میں ذیان کے نام سے ہی جگنو اتر آئے تھے۔ روبینہ کو دل کٹتا محسوس ہوا۔ ایک ثانیے کے لئے اس نے خود کو وہاب کی جگہ رکھ کر سوچا مگر پھر فوراً ہی اس کیفیت سے پیچھا چھڑایا۔

”امیر علی کبھی نہیں مانیں گے وہ اس کی شادی کم سے کم ہمارے خاندان میں کبھی نہیں کریں گے اسلئے تمہیں کوئی آس لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔

“ روبینہ نے اسے ڈرایا مایوس کرنا چاہا۔ ”آپ کو کیسے پتہ کہ وہ ہمارے خاندان میں ذیان کی شادی نہیں کریں گے؟“ وہاب نے سوال کیا۔ ”ارے میری زرینہ سے کتنی بار بات ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہے امیر علی ذیان کی شادی اپنے خاندان میں اپنی مرضی سے کریں گے۔“

روبینہ نے بیٹے سے نگاہ چراتے ہوئے سفید جھوٹ بولا۔ ”میں بس اتنا جانتا ہوں کہ مجھے ہر صورت ذیان سے شادی کرنی ہے چاہے اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔

میں کروں گا“ وہاب کے تاثرات میں جارحانہ پن امنڈ آیا۔ روبینہ نے دہل کر بیٹے کی طرف دیکھا۔ اس کا یہ انداز اجنبی تھا بیٹے میں یہ جرأت و بے خوفی اس نے پہلی بار دیکھی تھی”کیا کرلوگے تم اگر امیر علی نہ مانے تو…“ وہ اپنے بد ترین خدشات کے حقیقت ثابت ہونے کے خوف سے تھرا گئی تھی۔ ”بہت کچھ کرسکتا ہوں میں۔“ ”ذیان امیر علی کی اولاد ہے ان کی مرضی وہ ہمیں رشتہ دیں نہ دیں یا جہاں انکا دل کرے بیٹی کا رشتہ کریں۔

“ ”نہیں امی جہاں ان کا دل چاہے وہاں نہیں، میں اپنی محبت کو کسی اور کا نہیں ہونے دوں گا۔ اٹھا لوں گا میں ذیان کو اس کا باپ نہ مانا تو!!“ ”وہاب“ روبینہ کی آواز غصے میں چیخ میں ڈھل گئی گویا اسکے بدترین خدشات سچ ثابت ہوسکتے تھے۔

”بکواس بند کرو اپنی۔ کسی کی بیٹی کے بارے میں اپنے گھٹیا خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے تمہیں۔

آخر تمہاری بھی تین بہنیں ہیں۔ سب کی عزت سانجھی ہوتی ہے۔“ وہاب انکے چیخنے چلانے کی پرواہ کئے بغیر گاڑی لے کر جاچکا تھا۔ وہ اپنی سوچوں کے گرداب میں چکرانے لگیں۔ جن کے سپرد ابھی ابھی انہیں انکے لاڈلے سپوت وہاب نے کیا تھا۔

اس کے لہجہ میں کوئی ڈر خوف یا لحاظ نہیں تھا سو پریشانی فطری تھی۔

                                         

ملک ابیک بابا جان کی بات پہ بالکل خاموش سا ہوگیا تھا۔

وہ اس کی دل کی حالت سے بے خبر بولے جارہے تھے۔ ”معاذ کم عقل ہے اسے کیا خبر نسلوں کو چلانے کے لئے اچھی بیوی بہت مشکل سے ملتی ہے چھان پھٹک کر انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ احمد سیال کی بیٹی مجھے بہت اچھی لگی ہے۔

میں نے اسے معاذ کے لئے پسند کیا تھا پر وہ نہیں مان رہا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم ایک نظر لڑکی دیکھ لو۔ میں اس رشتے کو گنوانا نہیں چاہتا۔

احمد سیال کا خاندان ہمارا ہم پلہ ہے۔ مجھے پوری امید ہے تم انکار نہیں کرو گے“ ان کے لہجے میں باپ والا مان اور بے پناہ توقعات تھیں۔ ”ٹھیک ہے بابا جان جو آپ کا حکم۔“ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔

” مگر تم بھی تو کچھ بولو۔ یہ شادی تمہارا مستقبل ہے۔“ ”بابا جان آپ نے فیصلہ کرتو لیا ہے میں اب اور کیا بولوں…“ ابیک نے پوری کوشش کی تھی کہ اسکے لہجہ سے خفگی محسوس نہ ہونے پائے۔

                                     

ملک جہانگیر، افشاں بیگم کے ساتھ، احمد سیال اور ان کی بیٹی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ”آپ نے ابیک سے بات کی تو اس نے کیا کہا؟“ افشاں بیگم کا لہجہ اضطراب سے بھرپور تھا۔ ”اس نے کیا کہنا تھا بس یہی کہا کہ آپ کی مرضی۔“ وہ میرا سعادت مند فرمانبردار بیٹا ہے۔ معاذ کی طرح اپنی من مانی کرنے والا نہیں۔

”معاذ کو آپ نے اتنا سر پر چڑھایا ہوا ہے اس کی مرضی پہ چلتے ہیں۔ ابیک بھی تو ہماری ہی اولاد ہے۔ معاذ نے انکار کردیا بغیر دیکھے اور آپ اس رشتے کے لئے ابیک کو مجبور کر رہے ہیں۔ یہ انصاف تو نہ ہوا ناں۔“ افشاں کی خفگی محسوس کرنے والی تھی۔ ”ارے نیک بخت میں ابیک کو مجبور نہیں کر رہا ہوں۔ بس اتنا کہا ہے کہ احمد سیال کی بیٹی بہت اچھی ہے۔

“ انہوں نے جھنجھلا کر وضاحت دی۔ ”ابیک کی بھی کوئی پسند ہوگی جبکہ آپ اپنی مرضی مسلط کر رہے ہیں“ افشاں بیگم چڑ سی گئیں۔ ”ابیک ایک بار احمد سیال کے گھر میرے ساتھ جائے گا وہاں اسے کچھ سمجھ میں آیا تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے اپنی اولاد سے زیادہ کچھ عزیز نہیں۔“

”وہ معاذ کی طرح منہ پھٹ نہیں ہے کہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے گا۔ آپ نے ایک بار بول دیا ہے ناں اب وہ ناں نہیں کرے گا۔

میرا بیٹا ہے وہ جانتی ہوں اسے اچھی طرح۔“ اور پتہ نہیں آپ کے دوست کی بیٹی کن عادات کی مالک ہے۔ ہمارا ابیک سلجھا ہوا ذمہ دار بچہ ہے۔“ افشاں بیگم کی فکر مندی ماں ہونے کی حیثیت سے تھی۔

ملک جہانگیر اب اس نقطے پہ سوچ رہے تھے۔

”میں تین چار دن تک چکر لگاؤں گا احمد کی طرف… اس کے کان میں بات ڈال دوں گا دیکھو پھر کیا ہوتا ہے۔ بعد میں تم سب اسکے گھر چلنا۔“ وہ ابھی بھی اپنے ارادے پہ قائم تھے

Episode 15 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja


قسط نمبر 15 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

افتاداں و خیزاں روبینہ صبح وہاب کے آفس جانے کے بعد سیدھی زرینہ کے گھر آپہنچی۔ ٹیکسی کر کے آئی تھی پر سانس ایسے پھولا ہوا تھا جیسے میلوں دور سے دوڑتی آئی ہو۔ امیر علی دوا کھا کے سو رہے تھے ذیان اپنے کالج اور باقی سب بچے بھی اپنے اپنے سکولوں میں تھے۔ زرینہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی مشہور چینل پہ ساس بہو کا ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ روبینہ کو اس وقت اچانک اپنے گھر دیکھ کر حیران ہوگئی انہوں نے فون کر کے اپنے آنے کی اطلاع بھی تو نہیں دی تھی۔

”کیسی ہیں باجی آپ؟ سب خیر ہے ناں؟“ زرینہ نے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ روبینہ کے چہرے پہ بکھرے پریشانی کے رنگ بتا رہے تھے کہ سب خیر نہیں ہے کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔

”میں اس وقت کسی کے علم میں لائے بغیر تمہارے پاس آئی ہوں۔

“ انہوں نے اضطراب کے عالم میں دونوں ہاتھ ملے۔ ”آپا بتائیں تو کیا بات ہے؟“ زرینہ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

”وہاب، ذیان سے شادی کرنا چاہتا ہے…“ انہوں نے آرام سے الف تا یے سب واقعہ اسکے گوش گزار کردیا۔ ”یہ تو مجھے بھی پتہ ہے کہ ذیان سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔ ایسے ہی بلا وجہ یہاں کے چکر نہیں لگتے۔ پر مجھے کسی صورت بھی یہ پسند نہیں ہے۔ میں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اندھی، گونگی، بہری بنی رہتی ہوں۔ وہاب پاگل ہوچکا ہے مگر میں نے اسے کہا کچھ نہیں کیونکہ میری بہن کا بیٹا ہے۔

پر ذیان کے ساتھ اس کی شادی کی خواہش کسی صورت بھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ میں ساری عمر ہرگز ذیان کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ میں شادی کر کے اس گھر میں آئی تو پہلے دن سے ہی میرے شوہر نے مجھے اس کی اہمیت اور مقام بتایا۔ میں سلگتی کڑھتی رہی۔ امیر علی کو بیٹی بہت عزیز تھی نئی نویلی دلہن سے بھی زیادہ۔ اتنے برس کانٹوں پہ لوٹتے گزارے ہیں میں نے۔

اب وہاب کی وارفتگی مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہے وہ دیوانہ وار اسکے لئے میرے گھر کے چکر لگاتا ہے صرف ایک نظر اسے دیکھنے کی خاطر اور وہ مہارانی سیدھے منہ وہاب سے بات تک نہیں کرتی میرا خون کھول جاتا ہے پر وہاب کو اپنی عزت اور بے عزتی کا کوئی خیال تک نہیں ہے۔ وہ ذیان کے اس اہانت بھرے روئیے کو ادا تصور کرتا ہے۔ لیکن اسے یہ ہرگز نہیں پتہ کہ ذیان مجھ سے اسے اور مجھ سے وابستہ ہر شخص سے نفرت کرتی ہے۔

کیا آپا آپ ایسی لڑکی کو بہو بنانا پسند کریں گی جو آپ کے بیٹے کی شکل تک نہ دیکھنا چاہتی ہو۔“ زرینہ کے ایک ایک لفظ میں نفرت و بے زاری تھی۔ اس کا سوال سن کر روبینہ نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔ ”مجھے کیا پڑی ہے اسے بہو بنا کر اپنی زندگی خراب کروں ساتھ بیٹے کی بھی۔ مجھے یہ قیامت تک منظور نہیں ہے۔“ روبینہ آپا کے عزم سے زرینہ کے دل میں ٹھنڈک اتری۔

ورنہ اسے خوف تھا کہ شاید آپا وہاب کی ضد اور محبت سے مجبور ہو کر ذیان اور وہاب کے رشتے کی حمایت نہ کردیں۔

”ہاں آپا کیونکہ یہ رشتہ کسی طرح بھی آپکے حق میں مناسب نہیں ہے۔ ذیان مجھ سے بدلہ لینے کے لئے آپ اور وہاب کی زندگی کو اجیرن کردے گی۔“ زرینہ نے آپا کو اور ڈرایا۔ ”کچھ کرو زرینہ۔ وہاب تو پاگل ہو رہا ہے اس کلموہی ذیان کے پیچھے کہتا ہے اٹھوا لوں گا اسے۔

جب میں نے ڈرایا کہ امیر علی کبھی بھی ہمیں رشتہ نہیں دیں گے۔“

”آپا آپ کی یہ بات سچ ہے واقعی امیر علی ذیان کا رشتہ آپ کو نہیں دیں گے۔“

”ارے نہ دیں رشتہ مجھے اس حور پری کا رشتہ چاہیے بھی نہیں جس نے میرے بیٹے کو پاگل بنا رکھا ہے۔“ روبینہ نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔ ”آپ اس مسئلے کا حل سوچنا پڑے گا ورنہ وہاب مایوسی کی صورت میں کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے۔

“ ”جلدی کچھ سوچو زرینہ میرا وہاب تو پاگل ہو رہا ہے۔“ ”میں اس پہ غور کر رہی تھی آپ کے آنے سے پہلے…“ زرینہ کی آواز بہت دھیمی اور سرگوشیوں کی صورت میں تھی۔ حالانکہ اس کی ضرورت نہ تھی۔

 ملک جہانگیر نے راتوں رات احمد سیال کی طرف جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ انہوں نے بیگم افشاں سے بھی مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔

اب وہ صبح صبح گاڑی میں سامان رکھوا رہے تھے۔

موسمی پھلوں کے ٹوکرے، مٹھائی، خشک میوہ جات، دیگر چیزیں حتیٰ کہ گھر کے ملازموں کے کپڑے بھی اس سامان میں شامل تھے۔ وہ ابیک کے رشتے کی بات چھیڑ کر احمد سیال کے دل کو ٹٹولنا چاہ رہے تھے اس لئے اکیلے ہی اس کے گھر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔

چھٹی کا دن تھا احمد سیال گھر پہ ہی تھے۔

ملک جہانگیر کے ساتھ آئے ملازموں نے سامان گاڑی سے اتار کر اندر پہنچایا۔

احمدسیال انکے استقبال کے لئے خود باہر آئے اور انہیں اندر لے کر گئے۔

ملک جہانگیر اپنے ہمراہ جو کچھ لائے تھے اس سے صاف ظاہر تھا کہ ان کا آنابے سبب نہیں ہے۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔ ورنہ نوکروں سمیت لدے پھندے آنا سوچنے پہ مجبور کر رہا تھا۔ ملک جہانگیر پہلے بھی انکے گھر آتے تھے اور گاؤں کی سوغات خاص طور پہ لاتے اور بھجواتے بھی تھے پر آج نوکروں کے ہمراہ اس طرح آنا معنی خیز تھا۔

چھٹی کے دن ان کی آمد نے اور خاص طور پہ انداز نے احمد سیال کو حیران کردیا تھا۔ وہ انہیں لے کر ڈرائینگ روم میں بیٹھ گئے۔ ملک جہانگیر نے خیر خیریت اور دیگر احوال معلوم کرنے کے بعد فوراً رنم کے بارے میں پوچھا۔ ”وہ اپنی ایک دوست کے گھر پہ ہے کچھ دن سے۔ سب دوست ملکر امتحان کی تیاری کر رہے ہیں وہاں“ احمد سیال نے جواب دیا۔ ”اچھی بات ہے ماشاء اللہ۔

رنم بیٹی دیکھتے ہی دیکھتے اتنی بڑی ہوگئی ہے۔“ ”ہاں بیٹیوں کو بڑا ہوتے کون سی دیر لگتی ہے۔“ احمدسیا ل مسکرائے۔ ”اور بیٹیوں کو بڑا ہونے کے بعد اپنے گھر بھی وداع کرنا پڑتا ہے۔“ ملک جہانگیر دھیرے سے بولے تو احمد سیال نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ تھوڑ ی دیر رک کر ملک جہانگیر پھر گویا ہوئے۔ ”میں تمہارے پاس اپنے بڑے بیٹے ملک ابیک کے رشتے کے سلسلے میں آیا ہوں۔

تم میرے گہرے دوست ہو ہم دونوں کے خاندان ہم پلہ ہیں۔ میں اس دوستی کو رشتہ داری میں بدلنا چاہتا ہوں۔ تمہاری بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کر۔“ ان کی بات پہ احمد سیال نے سکون کی سانس لی۔ ”میں خوش ہوں کہ تم اس مقصد کے لئے میرے گھر آئے ہو۔ مگر میں تمہیں کوئی امید نہیں دلا سکتا۔“ کیوں“ یکدم ہی ملک جہانگیر پریشان ہوگئے۔ ”میں نے اپنی بیٹی کو لاڈ پیار سے پالنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی آزادی بھی دے رکھی ہے۔

میں کسی بھی معاملے میں اس پہ اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتا۔ وہ باشعور ہے تعلیم یافتہ ہے اپنا اچھا برا خود سوچتی ہے اور اپنے فیصلے بھی شروع سے خود کرتی آئی ہے۔“ ملک جہانگیر کے چہرے پہ مایوسی کی لہر پھیلتی جارہی تھی جو احمد سیال کی نگاہ سے پوشیدہ نہ تھی۔ ”ابھی تو رنم کے اگزام کا چکر چل رہا ہے وہ فری ہولے تو میں اس کی رائے معلوم کروں گا۔

وہ مان جائے ملاقات کے لئے راضی ہوجائے تو میں تمہیں بتا دوں گا۔“ احمد سیال نے ممکن طور پہ ان کی دلجوئی کرنی چاہی۔ ساتھ ہی ملک ابیک کا بھرپور سراپا احمد سیال کے تصور میں آگیا۔ وہ نظر انداز کرنے کے قابل نہ تھا۔ لیکن یہاں معاملہ لاڈلی بیٹی کا تھا جس نے آج تک اپنی زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ بھی خود کیا تھا وہ اسے مشورہ دے سکتے تھے پر اپنی بات ماننے پہ مجبور نہیں کرسکتے تھے۔

اس لئے انہوں نے ملک جہانگیر کو صاف آگاہ کردیا تھا کہ رنم کی مرضی ضروری ہے۔ ملک جہانگیر واپسی پہ پورے راستہ معاذ کی نافرمانی اور صاف انکار پہ کڑھتے آئے تھے۔

رنم انہیں سو فی صد معاذ کی عادات کا پرتو دکھائی دے رہی تھی۔ معاذ اس سے مل لیتا اسکے خیالات سے واقف ہوجاتا تو کبھی انکار نہ کرتا۔انہوں نے ابیک کا رشتہ لے جا کر غلطی تو نہیں کی ہے کیونکہ وہ معاذ کے بالکل برعکس ہے جبکہ رنم کے بارے میں جو احمد سیال نے بتایا تھا وہ ملک جہانگیر کے لئے تھوڑا سا پریشان کن تھا کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں اپنا فیصلہ خود کرنے کی عادی ہے۔

اگر وہ مان جاتی ہے اور یہ شادی ہوجاتی ہے تو عادات کا یہ تضاد ابیک کے لئے پریشانی تو نہیں پیدا کرے گا۔ معاذ کے انکار کے بعد انہوں نے ابیک کا رشتہ لے جا کر غلًطی تو نہیں کی ہے۔ وہ اپنے پریشان کن خیالات میں گھرے گھر واپس آئے تھے۔

                                 

ملک محل میں رات کا کھانا کھایا جارہا تھا۔ کھانے کی ٹیبل پہ پانچ نفوس موجود تھے۔

ملک جہانگیر، احمد سیال کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے۔ ملک ارسلان بیچ بیچ میں سوال کر رہے تھے۔ ابیک بالکل لاتعلق بنا اپنی پلیٹ پہ جھکا کھانا کھا رہا تھا۔

بھائی جان یہ تو بتائیں کہ لڑکی کیسی ہے؟“ عتیرہ چچی نے بھی سوال کرنا ضروری سمجھا۔ ”لڑکی ماشاء اللہ خوبصورت ہے یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے اس بار جب میں احمد کے پاس جاؤں گا تو بے شک تم اور ارسلان میرے ساتھ جانا۔

“ ملک جہانگیر نے کھلے دل سے آفر کی۔ ”ہاں بھائی جان میں تو ضرور جاؤں گی۔“

افشاں بیگم بالکل خاموش تھیں کیونکہ ان کا لاڈلا بیٹا ابیک جو خاموش تھا۔ انہیں ملک جہانگیر کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ”احمد نے بیٹی کو بڑے پیار سے پالا ہے۔ اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ شادی جیسے اہم معاملے میں بھی بیٹی کی رضا مندی شامل ہو تب ہی تو اس نے کہا ہے کہ جب میری بیٹی راضی ہوئی تو میں آپ کو اپنے گھر آنے کا بول دوں گا۔

بیٹی کا باپ ہے ناں۔ جوتیاں تو گھسوائے گا ناں۔“

”ابیک اتنا گیا گزرا نہیں ہے کہ احمد سیال کی بیٹی کے ہاں کے انتظار میں بیٹھا رہے۔ میرے بیٹے کے لئے کمی نہیں ہے لڑکیوں کی“ افشاں بیگم پہلی بار بولیں۔ انہیں ملک جہانگیر کے آخری جملوں پہ بے پناہ غصہ تھا۔

ملک جہانگیر تاویلیں اور صفائی دے رہے تھے۔ ابیک کھانا کھا کر ٹیبل سے اٹھ گیا۔ افشاں بیگم نے شکوہ کناں نگاہوں سے مجازی خدا کی طرف دیکھا۔ جیسے سارا قصور ان کا ہو۔

Episode 16 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

  قسط نمبر 16 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

”آپ نے ملک صاحب اپنے دوست کے چکر میں بیٹے کی مرضی یا رائے جاننے کی ذرا بھی زحمت نہیں کی۔ جبکہ لڑکی آپ نے معاذ کے لئے پسند کی تھی معاذ نے انکار کردیا آپ جھٹ ابیک کے پیچھے پڑ گئے۔“ افشاں بیگم کمرے میں آتے ہی شروع ہوگئیں۔ کھانے کی ٹیبل پہ انہوں نے بمشکل تمام اپنا غصہ قابو کیا تھا۔ ابیک کی مسلسل خاموشی سے ان کا دل ہول رہا تھا۔ ”ارے نیک بخت احمد سیال میرا پرانا دوست ہے اس کی بیٹی دیکھتے ساتھ ہی میرے دل میں اسے بہو بنانے کا خیال آیا۔

میں نے سوچا لڑکی اور اس کا خاندان اچھا ہے معاذ نے انکار کردیا ہے تو کیا ہوا ابیک بھی تو میرا بیٹا ہے…“ ملک جہانگیر نے حتی الامکاں نرم انداز میں اپنی شریک حیات کا غصہ کم کرنے کی کوشش کی۔ ”آپ نے ہم میں سے کسی کو بھی لڑکی نہیں دکھائی اکیلے اکیلے ہی سب طے کرلیا۔

ابیک میرا بھی بیٹا ہے اس کی شادی میں فیصلے میں آپ کو میری رائے پہ بھی غور کرنا چاہیے“ افشاں بیگم اپنے موقف پہ ڈٹی ہوئی تھیں۔

”اچھا ابھی کون سا میں نے شادی طے کردی ہے صرف بات ہی تو کی ہے۔“ ملک جہانگیر کا مصلحت آمیز نرم لہجہ افشاں بیگم کے اونچے پارے کو نیچے لانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ ”میرے بیٹے کو کوئی اعتراض ہوا تو آپ اسکے ساتھ زبردستی نہیں کریں گے۔“ وہ اس وقت ضدی بچے کی طرح ہو رہی تھیں۔ ”ہاں ٹھیک ہے ایسا ہی ہوگا“ انہوں نے فوراً اثبات میں سر ہلایا تو افشاں بیگم کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی۔

                                       

چھٹی کا دن تھا۔ سب گھر پہ ہی تھے۔ ذیان کی آنکھ صبح نو بجے کے قریب ہونے والے شور شرابے کی وجہ سے کھلی۔ امیر علی کی طبیعت رات سے ناساز تھی۔ انہیں تیز بخار تھا اور ابھی تک حالت ویسی ہی تھی۔ زرینہ بیگم آفاق پہ غصہ کر رہی تھی کہ کسی ڈاکٹر کو جلدی سے لے کر آؤ۔ وہ بول بول کر دل کا بوجھ ہلکا کر رہی تھی۔

ذیان آنکھیں ملتی اپنے کمرے سے باہر نکلی۔ زرینہ آفاق کو باتیں سنا ہی رہی تھی کہ خوشبو میں بسا نک سک سے تیار وہاب چلا آیا۔ اسے غصہ تو بہت آیا پر امیر علی کی طبیعت کی وجہ سے پی گئی، ساتھ وہاب نے آتے ساتھ ہی ان کی پریشانی کا بوجھ بانٹ لیا۔ وہ انہی قدموں ڈاکٹر کو لینے چلا گیا۔

گھر میں دو دو گاڑیاں کھڑی تھیں پر ڈرائیور کل سے چھٹی لے کر گاؤں گیا ہوا تھا۔

ہفتے کی شام وہ چھٹی کر کے جاتا اور سوموار کی صبح لوٹ آتا۔ آفاق ابھی بہت چھوٹا تھا ڈرائیونگ کے قابل نہ تھا۔ ذیان کو گاڑی یا ڈرائیونگ سے دلچسپی ہی نہیں تھی۔ زرینہ، ڈرائیور کی عدم موجودگی میں بہت غصہ کرتی جیسے آج آفاق پہ کر رہی تھی۔ حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ذیان جلدی جلدی منہ پہ پانی کے چھینٹے مار کر واش روم سے باہر آئی۔ آفاق کو سر جھکائے کھڑا دیکھ کر دل میں تاسف اور ہمدردی کی لہر اٹھتی محسوس ہوئی۔

وہ نظر انداز کر کے ابو کے پاس چلی آئی۔ کیونکہ اس کی یہ ہمدردی آفاق کو مہنگی پڑ سکتی تھی۔ وہ ذیان کے ساتھ بات بھی کرلیتا تو زرینہ کے ہاتھوں اس کی شامت آتی۔ رفتہ رفتہ ذیان نے ہی بہن بھائی کو مخاطب کرنا ہی چھوڑ دیا۔

بخار کی شدت کی وجہ سے امیر علی بے سدھ تھے۔ ذیان کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر انکے کمرے سے باہر نکل آئی۔تھوڑی دیر بعد وہاب اپنے ساتھ ڈاکٹر کو لئے گھر میں داخل ہوا۔

تب تک ذیان اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔

زرینہ اور آفاق دونوں وہاب اور ڈاکٹر کے ساتھ امیر علی کے پاس کھڑے تھے۔ وہاب نے متلاشی نگاہوں سے اِدھر اُدھر پورے کمرے میں دیکھا جیسے وہاں سے اچانک ذیان نمودار ہوگی۔ اس کی نگاہوں کی یہ تلاش پریشانی کے باوجود ذرینہ کی آنکھوں سے چھپ نہ سکی۔ نفرت میں ڈوبی زہر بھری مسکراہٹ اسکے لبوں پہ آئی۔

”بہت جلد میں ذیان کو اس گھر سے دفعان کرنے والی ہوں پھر دیکھوں گی کیا کرتے ہو تم۔

“ ڈاکٹر امیر علی کا چیک اپ کرنے کے بعد وہاب کے ساتھ واپس جارہا تھا۔ وہاب کو پلٹتے دیکھ کر زرینہ نے ایک بار پھر اپنے ارادے کو مضبوط کیا۔

ذیان نے آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھولا۔ وہاب ابھی ابھی ڈاکٹر کو ڈراپ کرنے گیا تھا، زرینہ بیگم بھی باہر تھیں۔ ذیان چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی امیر علی کے بیڈ کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی۔

کمبل انکے سینے تک پڑا تھا اور چہرا بخار کی حدت سے لال ہو رہا تھا۔ قدموں کی آہٹ پہ امیر علی نے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے ذیان کھڑی انہیں فکر مندی سے دیکھ رہی تھی۔انہوں نے بمشکل تمام آنکھیں کھولتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ نقاہت کے سبب ان کا بائیں ہاتھ کانپ رہا تھا۔یہ شکر کا مقام تھا کہ زبان فالج کے اٹیک کے بعد دو سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگئی تھی وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرسکتے تھے۔

ذیان نے انکے پاس بیٹھنے کے خیال سے جھجھک محسوس کی۔ کیونکہ اسے یاد نہیں تھا کہ زرینہ آنٹی سے شادی کے بعد انہوں نے اسے اپنائیت سے اپنے پاس بٹھایا ہو۔

اب اس کے جذبوں اور دل میں خود بہ خود ہی دوری آگئی تھی۔ اس نے چاہنے کے باوجود بھی کرسی پہ بیٹھنا پسند کیا۔ امیر علی کے دل کو کسی دکھ نے جکڑا تو مارے کرب کے انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔

”ابو کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟“ ذیان نے اپنے آنسو پینے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا جو امیر علی کی اس بے بسی و بے چارگی پہ آنکھوں سے امنڈنے کو تیار تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتے زرینہ اچانک اندر آئی۔ ”ڈاکٹر نے آپ کو آرام کرنے کو کہا ہے۔“ذیان کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے یہ بات امیر علی سے کہی۔ساتھ ہی زرینہ بیگم نے کمرے میں جلتی وہ لائیٹ بھی بند کردی جو ذیان کی آمد سے پہلے جل رہی تھی۔

کمرے میں اچانک ملجگا سا اندھیرا چھا گیا کیونکہ کھڑکیوں اور دروازے پہ بھاری پردے تھے۔ پھر موسم بھی ابر آلود تھا سورج کی روشنی ندارد تھی۔ آسمان پہ ڈھونڈے سے بھی روشنی کی کوئی کرن نہیں مل رہی تھی۔

ذیان نے وہاں بیٹھے بیٹھے شدید ہتک محسوس کی۔ کرسی پیچھے کر کے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے جانے کے بعد زرینہ نے سکون کی سانس لی۔ ذیان اور امیر علی کی قربت اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔

کسی نہ کسی بہانے ذیان کو اپنے شوہر سے دور کر کے اسے یک گو نہ خوشی ملتی۔

امیر علی کے چہرے پہ چھائے دکھ کے سائے اچانک کچھ اوربھی گہرے ہوگئے۔ زرینہ اپنی خوشی میں محسوس ہی نہ کرپائی۔امیر علی صرف اور صرف اس کے تھے بلا شرکت غیرے۔ زرینہ نے ذیان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا تھا۔

”اب آپ کچھ بہتر محسوس کر رہے ہیں؟“ زرینہ کا ہاتھ انکے ماتھے پہ تھا۔

امیر علی کو اس وقت زرینہ کا ہاتھ کوڑیالے ناگ کی طرح ڈستا محسوس ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنے ماتھے پر سے زرینہ کا ہاتھ ہٹا دیا۔ لیکن اب اسے پرواہ نہیں تھی کیونکہ ذیان یہاں کمرے میں نہیں تھی۔ ”تم نے اچھا نہیں کیا ہے زرینہ۔ ذیان چلی گئی ہے۔ پہلے ہی وہ مجھ سے صدیوں کے فاصلے پہ کھڑی ہے۔ تمہیں کیا ملتا ہے میری یہ چھوٹی سی خوشی چھین کر۔“ امیر علی کی آنکھیں بند تھیں۔

مگر ان بند آنکھوں کے پیچھے جو غصہ اور بے بسی تھی زرینہ کو اس کا اندازہ تھا۔ ”میں نے اپنی محبت، چاہت، اعتبار سب کچھ تمہیں سونپا اس کے باوجود تمہاری تنگ دلی نہیں جاتی۔ ذیان کے ساتھ تم ایسا کیوں کرتی ہو۔ کیوں بار بار اسے یہ احساس دلاتی ہو جیسے وہ میری بیٹی ہی نہ ہو اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ وہ زیرو ہے میری زندگی میں“ بولتے بولتے ان کی آواز رنج سے بھرا سی گئی۔

”ارے آپ خواہ مخواہ ایسا سوچ رہے ہیں میں نے کبھی اسے یہ احساس نہیں دلایا ہے…خون کا اثر ہے یہ۔ اس کی ماں بھی تو ایسی تھی ناں…آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ فضول کی سوچوں کو ذہن پہ سوار مت کریں“ زرینہ ان کا سر دبانے بیٹھ گئی۔ جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔

امیر علی تھک ہار کر خاموش ہوگئے۔ کیونکہ زرینہ ہار ماننے والی نہیں تھی۔

اس کا اندازہ انہیں اپنی بیماری کے دوران اچھی طرح ہوگیا تھا اور ہو بھی رہا تھا۔

”اچھا آپ کے لئے کھانے میں کیا بنواؤں؟“ کمرے میں چھائی وحشت ناک خاموشی کو زرینہ نے توڑنا چاہا۔ ”جو مرضی بنالو۔“ ”پھر بھی آپ کا دل کوئی خاص چیز کھانے کو کر رہا ہو تو۔“ وہ اصرار پہ اتر آئی۔ ”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے جو بنا ہوا کھالوں گا۔“ ان کی بے نیازی بدستور قائم تھی۔ ”میں بوا سے کہتی ہوں کھیر بنالے آپ کو پسند بھی تو ہے ناں“ جواباً امیر علی خاموش رہے جیسے بات نہ کرنا چاہ رہے ہوں۔

زرینہ پہ کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بدستور مسکراتی کچن کی طرف آگئی۔ رحمت بوا وہیں تھیں زرینہ نے انہیں کھیر بنانے کا بول کر ذیان کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ پر وہ سامنے کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ زرینہ کے گلے سے آسودہ سانس خارج ہوئی۔ وہ دوبارہ امیر علی کے کمرے کی طرف جانے ہی والی تھی کہ وہیں رک گئی۔ وہاب ڈاکٹر کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا۔

وہ آتے ہوئے میڈیکل سٹور سے امیر علی کی دوائیاں بھی لے آیا تھا۔ اس نے دوائیوں کا شاپر زرینہ بیگم کے حوالے کیا اور خود صحن میں بڑی کرسی پہ ڈھیر ہوگیا۔

زرینہ بیگم نے وہیں سے رابیل کو آواز دی کہ دوائیاں اندر لے جا کر رکھ دے۔ وہاب زرینہ سے باتوں میں مصروف تھا۔ بوا اسکے لئے ناشتہ بنا رہی تھی کیونکہ وہ گھر سے ناشتہ کیے بغیر آیا تھا۔

اتوار کے دن اس کا خاص چکر لگتا تھا خالہ زرینہ کی طرف۔ دن کا بیشتر حصہ یہاں گزارنے کے بعد وہ شام ڈھلے واپسی کی راہ لیتا۔ آج بھی وہ اپنے پرانے معمول پہ کار بند رہا۔

صحن میں بہت ٹھنڈ تھی۔ زرینہ اور وہاب دونوں میٹنگ روم میں آگئے جہاں ہیٹر چلنے سے خوشگوار گرمائش پھیلی ہوئی تھی۔

وہاب کی نگاہیں مسلسل کچھ ڈھونڈ رہی تھی پر گوہر مقصود مل کے نہیں دے رہا تھا۔

اس کی نگاہوں کی بے چینی و بے قراری صاف ظاہر تھی۔ زرینہ واقف تھی پر جان کر انجان ہوگئی۔

بوا نے ناشتہ کمرے میں لا کر رکھا۔ گرم گرم پراٹھے کے ساتھ آملیٹ کھاتے ہوئے اور چائے سپ کرتے ہوئے وہاب کا دل ذیان میں ہی اٹکا دیا۔

رحمت بوا نے کھانا بنایا سب کو دیا پھر دوسری کام والی لڑکی ثمینہ نے کچن سمیٹا برتن دھوئے اپنی جگہ پہ رکھے۔

بادل لمحہ بہ لمحہ گہرے ہوتے جارہے تھے دوپہر کا وقت تھا پر رات کا سماں محسوس ہونے لگ گیا تھا۔ ذیان باوجود کوشش کہ بھی وہاب کو نظر نہیں آئی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں تھی اور دروازہ اندر سے بند تھا۔

وہاب اسکے کمرے کے سامنے سے کتنے چکر لگا چکا تھا۔ اَبر آلود موسم کی وجہ سے سب اپنے اپنے کمروں میں دبکے پڑے تھے۔

ایک وہی تھا جو اس سرد موسم میں اس سرد مہر لڑکی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مرا جارہا تھا۔

تھک ہار کر وہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ گیا اور ریموٹ کنٹرول کے بٹن خواہ مخواہ دبانے لگا۔ یہ مشغلہ بھی اکتا کر رکھ دینے والا تھا۔

آسمان سے بادل کی گڑ گڑاہٹ اور گرج کی صورت میں صدائے احتجاج بلند ہوئی تو اسے سب کچھ ہی فضول لگنے لگا۔ بارش کسی بھی وقت شروع ہوسکتی تھی وہ جیکٹ کے کالر اونچے کر کے خالہ زرینہ کے گھر سے نکل آیا۔ خالہ خدا حافظ کہنے اور چھوڑنے گاڑی تک اس کے ساتھ ہی آئیں۔ وہاب کے چہرے کی پژمردگی اور ویرانی انکی دلی خوشی کو بڑھا رہی تھی۔

Episode 17 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 17 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

رنم نے اپنے گھر سے کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں وہ ایسے وقت آئی جب احمد سیال گھر پہ ہی تھے۔ وہ آدھ گھنٹہ پہلے ہی پہنچے تھے۔ وہ پپا کے گلے لگ گئی”پپا میں ٹائم پہ پہنچی ہوں ناں“ وہ شوخی سے انکی آنکھوں پہ لگے گلاسز اتار کر خود پہنتے ہوئے بولی۔ ”ہاں تم اور میں دونوں ٹائم پہ آئے ہیں کھانا اکٹھے کھائیں گے“ ”او کے پپا میں Change کر کے آتی ہوں ساتھ مجھے اپنے کپڑے لینے ہیں۔

واپس بھی تو جانا ہے ناں۔“ ”ہاں تم نے جو کرنا ہے کرو جب تک کھانا بھی لگ جائے گا۔“ ”اوکے پپا“ وہ بال جھلاتی منظر سے ہٹی۔ کپڑے ملازمہ نے نکال کر رکھ دئیے تھے اور کھانا تیا رتھا۔ احمد سیال اسکے انتظار میں تھے۔ ”اگزام کی تیاری کیسی چل رہی ہے؟“ وہ واپس ڈائننگ ٹیبل پہ آکر بیٹھی ہی تھی کہ پپا نے پوچھا۔

”پپا تیاری تو اے ون ہے… آپ سنائیں مجھے مس تو نہیں کیا۔

“ وہ مسکراتے ہوئے دریافت کرنا چاہ رہی تھی۔ ”ارے روز میں کرتا ہوں پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں دل کو تسلی دے لیتا ہوں کہ ایک دن تمہیں اس گھر سے جانا ہی تو ہے۔“ اداسی انکی آنکھوں سے عیاں تھی۔ ”اوہو پپا آپ تو”ٹپیکل فادر“ لگ رہے ہیں۔ ”رنم نے ہنستے ہوئے بریانی کی ڈش سے چاول نکالے۔ ”ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو شائد بیٹی کے معاملے میں ہر باپ کی سوچ اور فکر مندی ایک جیسی ہوتی ہے۔

اینی وے تمہارے لئے ایک خبر ہے میرے پاس۔“ احمد سیال نے بغور اس کی طرف تکتے جیسے اس کا رد عمل جاننا چاہا۔ ”کیسی خبر؟“ اس نے بھنوئیں اچکائیں۔ ”میرے ایک دوست ملک جہانگیر تم نے نام تو سنا ہوگا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے گھر آئے بھی تھے۔ تم سے خیر خیریت بھی پوچھی تھی۔“ ”ہاں ہاں وہی انکل چوہدری ٹائپ سے۔“ رنم کی بے اختیار کہی گئی بات پہ احمد سیال کو ہنسی آگئی۔

”ارے وہ چوہدری ٹائپ نہیں ہے اپنے علاقے کا بہت بڑا جاگیردار ہے۔ خیر وہ اپنے بیٹے کا پروپوزل لائے ہیں تمہارے لئے۔“ میں چاہتا تھا تمہارے اگزام ہوجائیں تو تم سے شیئر کروں پر تم آئی تو دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ انہوں نے وضاحت دی۔ ”پپا ابھی تو میں بہت بزی ہوں۔ بعد میں اس ٹاپک پہ بات ہوگی۔ ”وہ جلدی جلدی کھانا کھا رہی تھی۔ ”ایز یو وش بیٹا۔

“ ہمیشہ کی طرح اس با ربھی احمد سیال نے بال اسکے کورٹ میں ڈال دی۔ کم سے کم انہوں نے رنم کو اس پروپوزل کی بابت بتا تو دیا تھا۔ باقی کا بعد میں سوچنا تھا۔

رنم کھانے کے بعد زیادہ دیر رکی نہیں جلدی جلدی چلی گئی۔

                                           

اگزام شروع ہونے والے تھے۔ درمیان میں صرف دو دن باقی تھے اور راعنہ کا دل پڑھائی میں کم اور خیالوں میں زیادہ ڈوبا ہوا تھا۔

اس کی اس کیفیت کو سب ہی نوٹ کر رہے تھے۔ فراز کئی بار ڈانٹ چکا تھا۔ اشعر آیا ہی نہیں تھا۔ رنم الگ بیٹھ کر پڑھ رہی تھی۔ راعنہ کی طرح وہ بھی الجھی ہوئی تھی۔ پپا نے پروپوزل کی بات بتا کر اس کی توجہ منقسم کردی تھی۔ اگر وہ اس کے اگزامز ہونے تک انتظار کرلیتے تو اچھا تھا۔ یہ رنم کی اپنی سوچ تھی۔ وہ جوانی کی حد میں قدم رکھ چکی تھی۔ لڑکوں کے ساتھ اس کی فرینڈ شپ تھی اکٹھے گھومنا پھرنا شاپنگ، پکنک، مکس گید رنگ سب کچھ ہی تو تھا پر اس نے بھولے سے بھی نہ سوچا تھا کہ شادی بھی ہوگی۔

”پپا نے تو ڈسٹرب ہی کردیا ہے۔“ اس نے جھنجھلا کر خود سے کہا۔ کومل نوٹ کر رہی تھی کہ اس کا پڑھائی میں دھیان نہیں ہے۔ ”کیا ہوا رنم۔ تم کچھ اپ سیٹ نظر آرہی ہو؟“ کومل نے اپنائیت سے پوچھا تو راعنہ اور فراز بھی متوجہ ہوگئے۔ ”یار میں گھر گئی تھی…“ وہ بولتے بولتے رک گئی۔ جیسے الفاظ جمع کر رہی ہو۔ ”ہاں پھر کیا ہوا گھر گئی تھی تو…؟“ فراز نے بے تابی سے پوچھا۔

کومل اور راعنہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

کچھ تو تھا فراز کے انداز میں جو خاص تھا۔ ”میرے لئے ایک پروپوزل آیا ہے۔ پپا بتا رہے تھے۔“ اس نے عجیب سے اندازمیں کہا تو کومل چیخ ہی پڑی۔ ”کیسا پروپوزل؟“ فراز نے خاصی ناگواری سے کومل کی طرف دیکھا اس میں چیخنے کی تُک نہیں تھی۔ راعنہ نے بھی ناراضگی سے کومل کو آنکھیں دکھائیں۔

”ہاں یار پروپوزل۔ پپا کے کوئی فرینڈ ہیں ان کابیٹا ہے۔“ اس نے رسان سے بتایا تو کومل نے فراز کے چہرے پہ کچھ تلاش کرنا چاہا پر ہمیشہ کی طرح ناکامی ہوئی۔ ”پھر تم نے دیکھا کیسا ہے کون ہے کیا کرتا ہے؟“ کومل کو عجیب سی کھوج لگی تھی”مجھے کل ہی تو پپا نے بتایا ہے کیسے دیکھتی نہ مجھے اس کے بارے میں زیادہ علم ہے۔“ وہ چڑ سی گئی۔ ”اوہ اچھا اچھا ایزی رہو“ راعنہ نے کومل کو گھورا”تم دیکھ نہیں رہی رنم ڈسٹرب ہے“ ”اوکے میں اب کسی سے کچھ بھی نہیں کہتی“ کومل نے منہ پھلا لیا۔

”مجھے اتنا ہی پتہ ہے جو پپا نے بتایا ہے۔ میں نے کوئی سوال اپنی طرف سے نہیں کیا۔ ”رنم کومل کی خفگی محسوس کر کے رسان سے گویا ہوئی۔ ”کتنا مزا آئے گا ناں رنم تمہاری شادی پہ۔“ کومل کا یہ جملہ بیساختہ تھا۔ راعنہ اور فراز مسکرانے لگے۔ یہ طے تھا وہ بدلنے والی نہیں تھی۔ ”پھر تم ہاں کردو گی لڑکے والے جب تمہارے گھر آئیں گے؟“ کومل کی طرف سے ایک اور احمقانہ سوال آیا۔

جس کا جواب رنم نے عقل مندی حاضر دماغی سے دیا۔

”یہاں ساری بات میری مرضی کی ہے۔ زبردستی والا حساب نہیں ہے۔ نہ پپا مجھے پریشرائز کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ساری بات مجھ پہ چھوڑ دی ہے۔اگر لڑکا اسکے گھر والے مجھے پسند آئے تو بات آگے بڑھے گی ورنہ نہیں…“اسکے لہجے کا اعتماد قابل دید تھا۔ راعنہ نے رشک سے اس کی سمت دیکھا۔ ”کتنی لکی ہو تم رنم۔

“فراز اس دوران خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔

کومل اور راعنہ کسی کام سے باہر گئیں تو رنم نے کھل کر پروپوزل کے بارے میں اس سے بات کی۔ آخر وہ اس کا”کلوز فرینڈ“ تھا۔ اس نے پورے سکون سے رنم کی بات سنی مناسب مشورے سے نوازا تو وہ بالکل ہلکی پھلکی ہوگئی۔ فراز ایسا ہی حساس اور مخلص دوست تھا۔ اس سے شیئر کرلینے کے بعد رنم خود کو ہر بوجھ سے آزاد محسوس کرتی۔

                                     

روبینہ، وہاب کا مطالبہ سن کر دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھی تھی۔ وہاب اطمینان سے کرسی پہ بیٹھا پاؤں ہلا رہا تھا۔ روبینہ کو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے سب اس کی سماعت کا دھوکہ ہو جو کچھ دیر قبل اس نے سنا۔

”امی آپ میرا رشتہ لے کر زرینہ خالہ کے گھر جائیں فوراً۔“ وہ بالکل عام سے لہجے میں بات کر رہا تھا۔

”تمہیں میں نے اس دن بتایا تو تھا کہ امیر علی خاندان سے باہر رشتہ نہیں دیں گے ساتھ ذیان ابھی پڑھ رہی ہے۔“ زرینہ سے کی گئی تازہ ترین گفتگو انکے ذہن میں تازہ تھی وہ بھلا کس برتے پہ اس رشتے کی حمایت کرتی۔ ”انہیں ذیان کا رشتہ ہر حال میں مجھے دینا ہوگا۔“ وہاب کے انداز میں جارحیت تھی۔

”ان کی بیٹی ہے ذیان مرضی ہے ان کی رشتہ دیں نہ دیں۔

ساتھ وہ تو تمہیں پسند نہیں کرتی۔ آج تک سیدھے منہ اس نے تم سے بات تک تو کی نہیں اور تم شادی کے لئے مرے جارہے ہو۔ حد ہوتی ہے اپنی بے عزتی کروانے کی۔“ روبینہ نے اس کی سوئی غیرت کو للکارنا چاہا پر اس کا الٹا ہی اثر ہوا۔ ”شادی سے پہلے سب لڑکیاں ایسی ہی ادائیں اور نخرے دکھاتی ہیں بعد میں سیٹ ہوجاتی ہیں۔ذیان کو بھی آپ اس حال میں دیکھیں گی کہ میرا گھر سنبھال رہی ہوگی۔

میرے بچے پال رہی ہوگی۔“ جوش جذبات میں وہ ضرورت سے زیادہ ہی بول گیا تھا۔

”چھوڑ دے یہ خواب دیکھنا وہاب۔ میری بات مان جاؤ۔“ ”امی آپ سے بول دیا ہے ناں۔ آپ ذیان کے لئے جائیں گی کہ نہیں ورنہ میں اسے اغوا کر کے زبردستی نکاح پڑھا لوں گا اگر وہ مجھے نہ ملی تو اسے گولی ما ر کر خود بھی مرجاؤں گا۔“وہاب کے لہجے میں مذاق کا شائبہ تک نہ تھا۔

روبینہ ماں تھی اندر تک دہل کر رہ گئی۔ کچھ بھی تھا وہ اپنے کڑیل جوان بیٹے کو خود کشی کرتے دیکھ نہیں سکتی تھی۔

ذیان اس کے لاڈلے بیٹے وہاب کی محبت تھی۔ وہ بیٹے کی خاطر زرینہ کے آگے جھولی پھیلانے جائے گی۔ کیا ہوا جو ذیان وہاب کو یا ان سب گھر والوں کو منہ نہیں لگاتی۔ وہ وہاب کی خوشی کے لئے یہ بھی برداشت کرلے گی۔ اس طرح وہاب تو خوش رہے گا ناں۔

وہ زرینہ کو بھی سمجھائے گی پرانی رنجشوں کو بھول جائے آخر کو اتنے سال گزر گئے ہیں۔ کچھ بھی ہو وہ وہاب کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔

Episode 18 – Mein Guzman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

                 قسط نمبر 18 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ 

زرینہ کا چہرہ سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہی روبینہ آپا وارد ہوئی تھیں۔ وہ حسب معمول ٹی وی پہ اپنا پسندیدہ ڈرامہ دیکھ رہی تھیں جو ری ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا۔ آپا کے آنے کے بعد ڈرامے میں ان کی ساری دلچسپی ختم ہوگئی تھی بلکہ انہوں نے ریموٹ کنٹرول دبا کر ٹی وی بند ہی کردیا انکے کانوں میں تو جیسے سائیں سائیں ہونے لگی تھی ورنہ وہ تو مزے سے ڈرامہ دیکھتے ہوئے کافی کا مگ لئے وقفے وقفے سے سپ کرتے اپنے ارد گرد کے ماحول تک سے بے خبر تھی۔

اب کافی کا آدھے سے زیادہ مگ جوں کا توں پڑا تھا۔

بوا کچن میں مصروف تھیں وہ کھانا بنانے کے ساتھ ساتھ ذیان کے لئے سوئیٹ ڈش کے طور پہ دودھ والی سویاں بنانے کی تیاری کر رہی تھیں اسے بے حد پسند تھی۔ زرینہ اور روبینہ دونوں بہنیں کمرا بند کیے بیٹھیں تھیں ہلکی سی آواز تک نہ آرہی تھی۔

روبینہ کی تین ہفتوں میں دوبار آمد خالی از علت نہیں تھی۔

پہلے بھی آئی تھیں تو بوا نے انکے چہرے پہ پریشانی کے سائے ناچتے دیکھے تھے اور آج تو ان کا چہرا ایسے ہو رہا تھا جیسے کسی نے خون تک نچوڑ لیا ہو۔

”میں وہاب کی ماں ہوں پہلے اس نے کبھی میرے سامنے ایسی بات نہیں کی۔ مجھے لگتا ہے وہ کہنے سننے کی حد سے باہر ہوگیا ہے۔ تم نے ذیان کی شادی کہیں نہ کہیں تو کرنی ہے ناں۔ اگر وہاب سے اس کی شادی ہوجائے تو کیا برائی ہے۔

“روبینہ نے آخری جملہ بڑے رسان سے کہا پرزرینہ پہ اس کا الٹا اثر ہوا۔ ”آپا کم از کم آپ سے مجھے اس بات کی توقع نہیں ہے آپ کو میرا تکلیف بھرا وقت بھول گیا ہے جب امیر علی نے پہلے دن سے ہی میری نفی کی۔ اپنی بیٹی کی نوکرانی سمجھتے رہے مجھے وہ حق اور محبت نہیں دی جس کی میں توقع کر رہی تھی۔ پہلی بیوی کی بے وفائی سے اکتائے ہوئے میرے شوہر نے مجھ پہ بے جا سختیاں کیں۔

آپ سوچ بھی نہیں سکتیں آپا کہ میں نے کس طرح وہ ٹائم گزارا۔ اب کہیں قسمت مہربان ہوئی ہے مجھ پہ تو… تو میں ہار نہیں مانوں گی۔ ذیان نفرت کرتی ہے مجھ سے۔ میرے وجود کو طوہاً کرہاً برداشت کیا ہے اس نے۔ رگ رگ میں زہر ہے اس کی، میں کیسے برداشت کروں گی کہ وہ باقی عمر بھی میرے سینے پہ مونگ دلتی رہے… آپا آپ نے بھی خوب کہی ہے وہاب اور ذیان کی شادی کی…“ زرینہ سانس لینے کے لئے ذرا رُکی۔

روبینہ غور سے اس کی ایک ایک بات سن رہی تھی، حالانکہ سب پرانی بار بار کی دہرائی جانے والی باتیں تھیں کچھ بھی نیا پن نہیں تھا یا کم از کم روبینہ کے لئے وہ نئی بات نہیں تھی کیونکہ زرینہ شروع سے ہی امیر علی کی سختیوں اور زیادتیوں کے قصے خاندان بھر کو سناتی آئی تھیں۔

اب تو سب ہی ان داستانوں کے عادی ہوگئے تھے پر پھر بھی روبینہ پوری دلچسپی سے سن رہی تھی آخر کو زرینہ اس کی چھوٹی بہن تھی۔

ذیان نے آج تک خود سے کبھی وہاب کو مخاطب تک نہیں کیا ہے۔ سلام بھی ایسے کرتی ہے جیسے لٹھ مار رہی ہو۔ ایسی لڑکی کو ساری عمر آپ بہو کے روپ میں قبول کرلیں گے۔ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے ماں کا کچھ نہ کچھ اثر تو آیا ہوگا بیٹی میں بھی۔ آپ شوق سے اسے بیاہ لے جائیں گی اور شادی کے بعد وہ اپنے عاشق کے ساتھ آپ سب کے منہ پہ کالک مل کے چلی گئی تو کیا ہوگا اس کا بھی سوچا ہے آپ نے۔

وہاب بہت اونچی ہوا میں اڑ رہا ہے منہ کے بل گرے گا۔ آپ سمجھائیں اسے”زرینہ نان سٹاپ بول رہی تھی اور روبینہ مستقبل کی تصویر کشی سے بے طرح ڈر گئی تھی۔

حقیقت میں ذیان کی بیگانگی،سرد مہری انہیں بری طرح کھلتی تھی۔ بہن کے منہ سے یہ سب سن کر انہیں دھچکا لگا تھا۔اوپر سے اکلوتا لاڈلہ بیٹا محبت جیسا روگ لگا بیٹھا تھا۔ذیان نے کہیں اور آنکھیں لڑا رکھی ہوں گی اور وہاب پاگل ہو رہا تھا اسکے حصول کے لئے۔

کسی نہ کسی طرح شادی ہو بھی جاتی ہے وہاب اور ذیان کی اور کچھ عرصہ بعد وہ وہاب کوقتل کر کے اپنے عاشق کے ساتھ فرار ہو جائے تو پھر کیا ہوگا…“اس سوال کے جواب نے انہیں لرزا کے رکھ دیا۔

”آپا آپ پریشان مت ہوں۔ میں اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالوں گی۔“

زرینہ نے محبت و ہمدردی سے بہن کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ ”تم کیا حل نکالو گی؟“وہ ڈوبتی امیدوں کے سرے پھر سے تھامے اس کی طرف دیکھنے لگیں۔

”میں ذیان سے بات کرتی ہوں اس کے دل کا حال معلوم کرنے کی کوشش کروں گی اس نے کسی کا نام لیا تو کہوں گی جلدی اسے گھر بلا کر ہم گھر والوں سے ملوائے۔ مان گئی تو جلدی دفعان کردوں گی۔ آپ کے سر سے جلدی یہ تلوار ہٹ جائے گی۔“ ”تم جو بھی کرو کوشش کرنا وہاب کو اس کی بھنک بھی نہ پڑے ورنہ اچھا نہ ہوگا وہ بپھرا ہوا ہے۔“ ”آپا میں جو بھی کروں گی پوری رازداری سے کروں گی۔

ذیان رخصت ہو کر اپنے گھر چلی جائے گی تو وہاب کو یہ خبر ملے گی۔“ زرینہ کے لبوں پہ پراسرار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ روبینہ کے سر سے جیسے منوں بوجھ سرکا۔ آتے ہوئے وہ بہت پریشان تھیں مگر اب جاتے ہوئے ہلکی پھلکی تھیں۔ گیٹ سے باہر نکلتے ہوئے ان کا ٹکراؤ ذیان سے ہوا جو کالج سے ابھی ابھی آئی تھی۔ سفید یونیفارم اور سفید ہی دوپٹے میں ملبوس ذیان اپنی گلابی رنگت سمیت بے پناہ دلفریب لگ رہی تھی۔

کالج کا عام سا سفید یونیفارم اس پہ بے پناہ سج رہا تھا۔ روبینہ تیکھی نگاہوں سے اسے گھورتی آگے گیٹ پار کرگئی۔ انہوں نے ایک لفظ تک نہ بولا تھا۔ آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے اسے مخاطب نہ کیا ہو یا خیریت معلوم نہ کی ہو۔ کیسے اسے گھورتی ہوئی گئی تھیں۔ان نگاہوں نے ذیان کو سچ میں ڈسٹرب کیا تھا۔

تب ہی گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے بوا کو یہ بات بتانی ضروری سمجھی۔

انہوں نے ذیان کی بے پناہ حساس فطرت کی وجہ سے اسکے سامنے خاص اہمیت نہیں دی”ارے وہ اپنی کسی پریشانی میں ہوگی اسلئے تمہیں زیادہ محسوس ہو رہا ہے۔ تم فوراً کپڑے بدل کر آؤ میں نے تمہارے لئے دودھ والی سو یاں خاص طور پہ بنائی ہیں“ بوا نے نہایت خوبصورتی سے وقتی طور پہ ذیان کے ذہن کو اس طرف سے موڑ دیا تھا۔ وہ سرہلاتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

بوا اسکے جانے کے بعد دل ہی دل میں سوچ رہی تھی جانے روبینہ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ ذیان کے ساتھ وہ ہمیشہ اچھے طریقے سے ملتی تھی۔

                                       

تاحدِ نظر پھیلے باغ میں مالٹوں اور لیموؤں کی کھٹاس بھری مہک پھیلی ہوئی تھی۔ خوشگوار دھوپ کے ساتھ یہ مہک بھلی محسوس ہو رہی تھی ملک ابیک فصل کا جائزہ لینے آیا تھا۔

اگلے چند روز میں اسے شہر واپس جانا تھا۔ اس بار کچھ زیادہ دن اسے گاؤں میں رکنا پڑ گیا تھا کیونکہ بابا جان پہ ہی اچانک ہی اس کی شادی کرنے کی دھن چڑھی تھی۔ پھر وہ کافی کمزور اور بیمار بھی تھے ابیک نے ضد کرنا مناسب نہ سمجھا۔ حالانکہ اسکی پلاننگ میں ابھی شادی شامل نہیں تھی۔

ابھی ملک جہانگیر زمینوں پہ اسکے ساتھ جانے کی ضد کر رہے تھے مگر ان کی طبیعت کی خرابی کے پیش نظر ملک ابیک انہیں ساتھ نہی لایا تھا۔

ویسے بھی زمینوں جائیدادوں کا انتظام و انصرام ملک ابیک اور ملک ارسلان کے سپرد تھا۔

ابیک گاؤں آتا تو اپنی غیر موجودگی میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیتا۔ بڑے بکھیڑے تھے ایک ایک کام خود دیکھنا پڑتا۔ فیصلے کرنے کی طاقت اور اس پہ ڈٹے رہنے کی خوبی ملک ابیک میں بدرجہٴ اتم موجود تھی۔ اسی وجہ سے ملک جہانگیر اور ملک ارسلان دونوں اسے بہت پسند کرتے تھے۔

اسکی رائے اور مشورے کو اولیت دی جاتی۔

ملک ابیک کو باغ کی طرف آگے کا رخ کرتا دیکھ کر رکھوالے بھاگے بھاگے آئے۔ محبت و احترام سے اسے سلام کیا۔ جواب میں ابیک نے بھی ان کی خیریت دریافت کی۔ یہ گاؤں کے کمی کمین کم حیثیت لوگ جنہیں چوہدری، ملک اور صاحب حیثیت زمیندار کسی گنتی میں نہ لاتے تھے ابیک انکے ساتھ بڑے آرام سے با ت کرتا اسی وجہ سے وہ ان سب میں ہر دلعزیز تھا۔

اسکی پیٹھ پیچھے بھی اسے اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا۔یہ عام سے بے حیثیت و بے قدر لوگ اسے دعائیں دیتے نہ تھکتے۔

درختوں سے فصل اتاری جارہی تھی نیچے زمین پہ مالٹوں کا ڈھیر جمع تھا۔ابیک کے لئے فوراً ہی ایک کرسی اور پلاسٹک کی میز کا اہتمام کیا گیا اس کے بیٹھنے کی دیر تھی پلیٹ میں مالٹے کی قاشیں کاٹ کر سجا کر رکھ دی گئیں۔

ابیک ناشتہ کر کے زمینوں کی طرف نکلا تھا۔

ٹائم بھی اتنا زیادہ نہیں ہوا تھا کہ اسے بھوک ستاتی پھر بھی اس نے مزارعوں کا دل رکھنے کو دوتین قاشیں کھائیں۔ وہ اسی میں خوش تھے۔ اس باغ کی دیکھ بھال الیاس اور اکرم کے سپرد تھی۔ ایک طرح سے وہ باغ کے کرتا دھرتا تھے۔ وہ ملک ابیک کو فصل کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ذائقہ وہ چکھ چکا تھا فصل اسکے سامنے تھی جو کافی زیادہ تھی۔ یہ سب اوپر والے کی مہربانی اور زمین پہ کام کرنے والے مزارعوں کی محنت تھی۔

اردگرد کے تمام زمینداروں کی نسبت ان کی زمین سب سے زرخیز تھی اسی حساب سے غلہ اور دیگر اجناس کی خاص پیداوار بھی زیادہ تھی۔

ابیک دل ہی دل میں اس بار کی فصل سے حاصل ہونے والی آمدنی کا اندازہ لگا رہا تھا۔ اس بار اس کا ارادہ تھا کہ تمام مزارعوں کو طے شدہ اجرت سے زیادہ دے گا کیونکہ زائد فصل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں ان سب کا بھی تو حصہ بنتا تھا۔

وہ اس معاملے میں بلا وجہ ڈنڈی مارنے کا قائل نہیں تھا۔

ملک ابیک، الیاس او راکرم کے ساتھ فصل کے بارے میں ہی گفتگو کرتا رہا۔ واپسی بہ بصد اصرار الیاس اسے اپنے گھر لے گیا۔ گھر کیا تھا باغ کے اختتام پہ دو کمروں کا بنا مکان تھا جس کی چار دیواری کچی اینٹوں سے تعمیر کی گئی تھی۔ ابیک نے وہاں اسکی بیوی کے بنے ہاتھ کی چائے پی اور سوجی کے لڈو کھائے۔ الیاس بہت خوش تھا کہ ملک ابیک نے اس کے گھر سے چائے پی ہے۔ وہ تو کھانے کے لئے بھی بار بار کہہ رہا تھا پر اپنی وجہ سے ابیک اسے مشکل میں نہیں ڈالنا چاہ رہا تھا اس لئے سلیقے سے معذرت کر کے واپسی کے لئے چل پڑا۔

Episode 19 – Mein Guzman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 19 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان بستر کی چادر جھاڑ کر ٹھیک کر رہی تھی جب بیڈ روم کے دروازے پہ نامانوس سی دستک ہوئی۔ وہ کچھ سوچتی ہوئی دروازے کی طرف آئی اور کھول دیا۔ باہر حیرت انگیز طور پہ زرینہ آنٹی کھڑی تھیں۔ اس کی حیرت سے محظوظ ہوتے ہوئے وہ اس پہ ایک نظر ڈال کر کمرے کے اندر آ کر اسکے بیڈ پہ بیٹھ گئیں۔ ”کیا ہو رہا تھا؟“ انہوں نے بہت اپنائیت سے پوچھتے ہوئے حیرت کا ایک اور بم اسکے حواسوں پہ گرایا جبکہ وہ ابھی پہلے سے بھی نہیں سنبھلی تھی۔

زرینہ شاذو نادر ہی اسکے کمرے میں آتی تھیں اتنی اپنائیت سے مخاطب کرنا سوچنا بھی محال تھا۔

”میں سونے کی تیاری کر رہی تھی“ حیرت کے پے درپے لگنے والے جھٹکے سے سنبھل کر ذیان بمشکل تمام جواب دینے کے قابل ہوئی۔ ”آج کل تم اپنے بیڈ روم سے باہر ہی نہیں نکلتی اس لئے میں خود ہی تمہارے پاس آگئی ہوں۔

“ وہ اسے قریبی سہیلی کی طرح بات کر رہی تھیں۔

”بس ایسے ہی۔“ وہ اتنا ہی کہہ سکی۔ زرینہ اس کی حیرت کو خوب اچھی طرح سمجھ رہی تھیں پر لمبی تمہید میں وقت ضائع کرنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھی۔ اس لئے بہت جلد اصل بات کی طرف آگئیں۔ ”میں تمہارے پاس بہت ضروری بات کرنے آئی ہوں“ انہوں نے بات کا آغاز کیا۔ ذیان سانس روکے جیسے ان کی طرف متوجہ تھی۔ ”کہنے کو تو میں ہمیشہ سوتیلی ماں ہی رہوں گی مگر تمہاری بہتری کا فیصلہ سگی ماں کی طرح کروں گی۔

ذیان نے نگاہیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ یقینا وہ ایک بہترین اداکارہ تھیں”تم اس وقت مجھے اپنی ماں، دوست ہمدرد کچھ بھی کہہ سکتی ہو… تمہارے ابو تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے تمہارا عندیہ معلوم کرنے بھیجا ہے۔ اگر تم کسی کو پسند کرتی ہو تو بتا دو۔ ہم مناسب طریقے سے تمہاری اس کے ساتھ شادی کردیں گے“ اف اس کی سماعتوں کے قریب جیسے کوئی بم پھٹا۔

اس کا چہرہ لال ہوگیا۔ ابو اسکے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے یا اسکے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے…“ تم پریشان مت ہو۔ اس کا نام بتاؤ۔ تمہارے ابو کو راضی کرنا میرا کام ہے“ زرینہ اسکے چہرے پہ تذبذب کے آثار دیکھ کر جھٹ بولی”میں کسی کو بھی پسند نہیں کرتی نہ کسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔“

اس نے شرم و خجالت کے ملے جلے تاثرات سمیت کہا۔

زرینہ کے چہرے پہ اطمینان سا ابھر آیا گویا اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا تھا۔ ”تمہارے ابو رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں ملنے جلنے والوں کو کہہ رکھا ہے جیسے ہی اچھا گھرانہ نظر میں آیا تمہیں رخصت کردیں گے۔“ زرینہ مزے سے بول رہی تھیں۔ ”مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔“ وہ چیخ کر بولی۔ ”تو کیا کرو گی۔ اپنی ماں کی طرح خاندان کی عزت اچھالو گی۔“ زرینہ بیگم سے زیادہ دیر اداکاری نہیں ہو پا رہی تھی اس لئے بہت جلد مصنوعی چولے سے باہر آگئیں۔

ذیان کے دل میں جیسے ایک تیر ترازو ہوگیا۔ ”اپنی ماں کی طرح عاشقوں کی لائن لگاؤ گی تو مبارک ہو۔ وہاب کی صورت میں تمہیں جان لٹانے والا پاگل مل گیا ہے۔“ زرینہ کا لہجہ زہر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ”میری طرف سے بھاڑ میں جائے وہاب۔ میں اس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔“ ذیان بھی زیادہ دیر اپنی نفرت چھپا نہ پائی۔ ”تم اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہ رہی پر وہ تمہیں پانے کے لئے پاگل ہو رہا ہے۔

اس کی ماں آئی تھی میرے پاس۔ وہاب تمہیں پانے کے لئے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرے گا۔“ ”اسے شادی کرنی ہے۔“ وہ جیسے پھٹ سی پڑی۔ مجھے پتہ ہے تم اسے پسند نہیں کرتی مگر وہ صرف تم سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے۔ میرے یا تمہارے انکار کی اسکے سامنے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انکار کی صورت میں وہ تمہیں زبردستی اٹھوا کر نکاح پڑھا سکتا ہے۔ مجھ پہ یقین نہ آئے تو روبینہ آپا سے پوچھ لو ابھی کال ملا کے دیتی ہوں۔

وہ خود اس وجہ سے بے پناہ پریشان ہیں۔ میرے پاس مدد مانگنے آئی تھیں کہ کسی طرح وہاب کو اس کے اس ارادے سے باز رکھا جاسکے۔“

”میں مر کر بھی وہاب سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔“ آنسو ذیان کی آنکھوں سے باہر مچلنا چاہ رہے تھے اس نے بمشکل انہیں پلکوں کی باڑھ سے پرے سمیٹ رکھا تھا۔ ”مجھے پتہ ہے تمہیں وہاب ناپسند ہے۔ اس لئے میں نے روبینہ آپا کو صاف انکار کہلوا دیا ہے تبھی وہاب جنونی ہو رہا ہے۔

زرینہ آنٹی ایک کے بعد ایک روح فرسا خبر سنا رہی تھیں۔

”مجھے وہاب سے نہ کسی اور سے شادی کرنی ہے۔“ اس کی آنکھیں غصے کی شدت سے لال ہو رہی تھیں۔ ”میری چندا وہاب کے ہاتھوں بے آبرو ہونے سے بچنے کے لئے تمہیں کسی نہ کسی سے شادی کرنی ہی ہوگی۔“ زرینہ آنٹی نے ایک بار پھر اسے حقیقت کا آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔ ذیان بالکل خاموش تھی۔

اس کی نگاہیں کسی غیر مرئی نقطے پہ جمی تھیں۔ ”تم اچھی طرح سوچ لو۔ میں تمہارے لئے اچھے خاندان میں رشتہ ڈھونڈوں گی آخر کو تم میری سوتیلی بیٹی ہو۔“ اس بار زرینہ کا لہجہ مصنوعی نہیں تھا۔ شاید ذیان کی اس بے بسی و کسمپرسی پہ اسے ترس آگیا تھا۔

وہ اسے ترس آمیز نگاہوں سے دیکھتی چلی گئی تھی۔

بہت دیر بعد اٹھ کر ذیان نے دروازہ بند کیا۔

اس نے کمرے کی سب لائٹیں آف کردیں۔ کمرے میں رکھے ساؤنڈ سسٹم سے قدرے دھیمی آواز میں زرینہ بیگم کے آنے سے پہلے میوزک پلے تھا۔ انکے آنے اور جانے کے بعد بھی وہ یکساں رفتار سے چل رہا تھا۔ اسے انسانی احساسات و جذبات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

پر علی عظمت کا آنسو، ذیان کے دل کے کئی پرانے درد جگا گیا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑی سب پردے سرکائے باہر اندھیرے میں دیکھتی بے آواز آنسوؤں سے رو رہی تھی۔

ساری عمر اس نے اپنی ماں کے حوالے سے طعنے الزام تراشیاں برداشت کی تھیں۔ اس ماں کے حوالے سے جس کا نام لینا بھی امیر علی کے گھر میں جرم تھا۔ اپنی ماں کی شکل تک اسے یاد نہیں تھی۔

نہ ماں کی ممتا اور گود کے حوالے سے اسکے ذہن کے نہاں خانوں میں کچھ محفوظ تھا۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وہ”ماں“ جیسے وجود سے ناآشنا تھی۔ یہاں اس کے حوالے سے دئیے جانے والے طعنے تو جیسے جنم جنم سے اس کے ساتھی تھے۔

بچپن میں اس کا بہت دل چاہتا کہ وہ ماں کے پاس رہے وہ اس کے لاڈ اسی طرح اٹھائے جیسے زرینہ آنٹی اپنے بچوں کے اٹھاتی ہیں۔ پر یہ صرف اس کا خواب ہی رہا۔

 امیر علی نے اسے شروع سے ہی اچھی طرح باور کرادیا تھا کہ اپنی ماں کا نام بھول کر بھی مت لینا نہ یاد کرنا۔ ہاں زرینہ آنٹی وقت بے وقت اس کی ماں کو گالیوں، طعنوں اور الزام تراشیوں سمیت یاد کرتیں تب امیر علی انہیں کچھ نہ کہتے بلکہ خود بھی حسب توفیق گالیوں میں حصہ ڈالتے۔

ذیان کے چھوٹے سے دل پہ قیامت گزر جاتی۔ اس نے شروع سے ہی ماں کے حوالے سے اتنا کچھ سنا تھا کہ اب اسے لفظ ماں ہی سے خوف آنے لگا تھا۔ امیر علی جب غصے میں ہوتے تو اسے وارننگ دیتے کہ اپنی ماں جیسی مت بننا۔ کیا اس کی ماں اتنی بری اور قابل نفرت تھی؟ کم سے کم زرینہ آنٹی اور ابو نے اسے یہی باور کرایا تھا۔ ہاں اس کی ماں سچ مچ بری تھی اچھی ہوتی تو اسے ساتھ لے جاتی ناں۔

اگر امیر علی نے زبردستی ذیان کو ماں سے الگ کردیا تھا تو وہ اسے عدالت کے ذریعے حاصل کرلیتی ناں۔ پر نہیں وہ اس کی ماں کب تھی۔ وہ تو ڈائن تھی جو اسے چھوڑ کر اپنی نئی دنیا بسانے چل پڑی تھی۔

اس کی دنیا میں ننھی ذیان کے لئے جگہ نہیں تھی۔ اور زرینہ کی دنیا میں بھی تو ذیان کے لئے جگہ نہیں تھی ناں۔ اس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔

تنہا تنہا جیون کے

کیسے دن گزاریں

سن لو سن سکو تو تم کو آنسو پکاریں

چلتے چلتے سوچے کیوں ہے دوری

جائیں گے کہاں

خواہش تو نہ ہوگی پوری جائیں گے کہاں

سن لو سن سکو تو تم کو آنسو پکاریں

ساتھ دل کے چلے دل کو نہیں روکا ہم نے

جو نہ اپنا تھا اسے ٹوٹ کے چاہا ہم نے

اک دھوکے میں کٹی عمر ساری ہماری

کیا بتائیں کسے پایا کسے کھویا ہم نے

دھیرے دھیرے دھیرے کوئی چاہت باقی نہ رہی

جینے کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہی

ٹوٹے ٹوٹے جو ہیں میرے بہتے آنسو ہی تو ہیں

زندگی کا حاصل اپنی آنسو ہی تو ہیں…

Episode 20 – Mein Guzman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 20 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہ بے دلی سے چھوٹے چھوٹے لقمے توڑ کے کھانا کھا رہی تھی۔ بوا دو دن سے اس کی غیر معمولی خاموشی نوٹ کر رہی تھیں۔ حالانکہ وہ پہلے بھی اتنا زیادہ بولتی نہیں تھی پر ایسی گم صم بھی تو نہیں تھی جیسی اب تھی ڈری سہمی اپنے ہی خیالوں میں گم۔ بوا کو ذیان اور زرینہ بیگم کے مابین ہونے والی گفتگو کا علم نہیں تھا ورنہ وہ ضروربات کی تہہ تک پہنچ جاتیں۔

”ذیان کیا بات ہے دو دن سے بہت چپ چپ ہو۔

کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ۔“ 

بوا سے رہا نہیں گیا تو پوچھ ہی بیٹھیں۔ ”مجھے یہ بتائیں کہ میری ماں کو مجھ سے پیار تھا کہ نہیں۔“ ذیان کا لہجہ بہت سرد تھا پر بوا تو مارے خوف کے سن ہوگئی۔ انہوں نے فوراً اِدھر اُدھر دیکھا کہ کسی نے ذیان کا وہ سوال سنا کہ نہیں۔ ”ذیان بیٹی اس وقت یہ خیال کہاں سے تمہارے ذہن میں آگیا ہے۔

“ وہ ابھی بھی خوف کے زیر اثر بہت آہستہ آواز میں بول رہی تھیں۔

جواباً ذیان عجیب سے انداز میں ہنس پڑی۔ عجیب دیوانوں والی مسکراہٹ تھی”مجھے پتہ ہے آپ بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈرتی ہیں اس لئے کبھی بھی نہیں بولیں گی آپ۔“ وہ کتنی جلدی حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئی تھی۔ بوا نے اس سے نظر چرالی۔ ذیان کے چہرے کی حسرت، کرب اور دکھ کا سامنا کرنا اتنا آسان کہاں تھا ان کے لئے۔ ”بوا جن بیٹیوں کی مائیں انہیں ایسے لاوارث چھوڑ کر چلی جاتی ہیں ناں وہ بیٹیاں پھر لوٹ کا مال بن جاتی ہیں۔

جس کا داؤ لگتا ہے جیب میں ڈال کر چلتا بنتا ہے۔“

”اللہ نہ کرے میری بچی… ہم سب ہیں ناں۔ تم کوئی لاوارث نہیں ہو۔“ بوا کے دل کو دکھ نے جکڑا۔ انہوں نے بے اختیار لپک کر ذیان کو سینے سے لگا لیا۔ ”میں لاوارث ہوں بوا۔ مجھے جھوٹی تسلیوں سے نہ بہلائیں۔ ابو تو خود فالج کے مریض ہیں میری کہاں حفاظت کرسکتے ہیں۔“ وہ ان کی آغوش سے نکل کر دور جا کھڑی ہوئی۔

بوا کے جھریوں بھرے چہرے پہ فکروتفکر کا جال بچھا ہوا تھا۔ نہ جانے ذیان آج ایسی تلخ تلخ باتیں کیوں کر رہی تھی۔ گہری گہری پراسرار باتیں۔ مبہم اور الجھی ہوئی۔ بوا کو الجھی ڈور کا سرا سلجھانے سے ڈر لگ رہا تھا۔

                                       

”میں نے رشتے کرانے والی ایک عورت بیگم اختر سے ذیان کے لئے کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈنے کے لئے کہا تھا۔

کل وہ اسی سلسلے میں آئی تھی میرے پاس۔“ زرینہ کمبل اچھی طرح اوڑھانے کے بعد امیر علی کے پاس بیٹھ گئی تھیں وہ انہیں اپنی کار گزاری بتانے کے لئے بہت بے چین تھیں پر انہوں نے تو خاص توجہ ہی نہیں دی بس خاموش رہے۔ زرینہ کو بے طرح غصہ آیا۔ ”آپ کچھ بولیں تو سہی۔“ ”میں کیا بولوں بھلا؟“ امیر علی کے الفاظ میں بے چارگی نمایاں تھیں۔ ”جو رشتہ بیگم اختر نے بتایا ہے اب وہ ذیان کو دیکھنے کے لئے ہمارے گھر آنا چاہ رہے ہیں۔

“ ”ہاں تو آئیں بے شک میں نے کب منع کیا ہے۔“ وہ عام سے بے تاثر، لہجہ میں بولے۔ زرینہ نے توجہ نہیں دی اس کے لئے یہی بہت تھا کہ امیر علی کو لڑکے والوں کو اپنے گھر آنے پہ اعتراض نہیں تھا۔ ”آپ اسی ہفتے میں کوئی دن بتا دیں تاکہ میں بیگم اختر کو بتاؤں پھر وہ لڑکے والوں کو لے کر ہمارے گھر آجائیں گی۔“ وہ پھر سے پرجوش ہو رہی تھیں۔ ”تم خود ہی بتا دو ان کو جو دن اور ٹائم مناسب لگتا ہے۔

“ امیر علی نے ساری ذمہ داری اسکے سر ڈال دی۔ زرینہ کی آنکھیں مارے خوشی کے چمک اٹھیں۔ اب ذیان کو اس گھر سے دفعان ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ انہیں صرف بیگم اختر کو مطلع کرنا تھا۔ بیگم اختر نے تو لڑکے اور اس کے خاندان کی بہت تعریفیں کی تھیں۔

روبینہ بیگم کا سیل فون مسلسل بج رہا تھا۔ وہ باہر لان میں تھیں۔ وہاب ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا روبینہ کا سیل فون وہیں ٹی وی کے پاس رکھا تھا۔

مسلسل بجتے فون کو اس نے ناگواری سے دیکھا اور بادل نخواستہ ہاتھ بڑھا کر اٹھالیا وہ فون بند کرنا چاہ رہا تھا پر زرینہ خالہ کی کال دیکھ کر ارادہ ملتوی کردیا اور فون آن کر کے کان سے لگا لیا۔ ”آپا آپ کہاں ہیں فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہیں؟آپ کو ایک بات بتانی تھی“ دوسری طرف زرینہ وہاب کے ہیلو کہنے سے بھی بیشتر شروع ہوگئی تھی اسکے لہجے میں ہیجان صاف محسوس کیا جاسکتا تھا۔

”خالہ امی باہر لان میں ہیں ایک منٹ ہولڈ کریں آپ کی بات کرواتا ہوں۔“ وہاب کی آواز کان میں پڑتے ہی زرینہ فوراً سنبھل گئی اور باقی بات زبان تلے روک لی۔ شکر تھا اس نے کچھ اور نہیں بول دیا تھا۔

وہاب نے فون روبینہ کے حوالے کیا اور خود دروازے کے پاس ٹھہر گیا۔ زرینہ خالہ کے لہجے میں اتنا جوش اور خوشی تھی کہ وہ سبب جاننے کے لئے وہیں رک سا گیا۔

پر روبینہ تو بہت آہستہ آواز میں بات کر رہی تھیں انہوں نے دروازے کے پاس موجود وہاب کی جھلک دیکھ لی تھی۔ اس لئے اِدھر اُدھر کی چند باتیں کرنے کے بعد فوراً ہی رابطہ منقطع کردیا تھا۔ وہاب کے جانے کے بعد انہوں نے بہن سے تفصیلی بات کرنی تھی۔ اس نے خبر ہی ایسی دی تھی کہ ذیان کو دیکھنے کے لئے ایک فیملی آرہی ہے وہاب آفس کے لئے نکلے تو آپ بھی آجائیں۔

وہاب رات دوستوں کے ساتھ باہر نکلا تو تب روبینہ نے بہن کو دوبارہ کال کی۔ انہیں کھد بھد سی لگی ہوئی تھی۔ اس وقت وہاب گھر تھا وہ کچھ بھی پوچھ نہ پائی تھیں۔ اب کرید کرید کر ایک ایک بات پوچھ رہی تھیں۔ ”آپا۔ بیگم اختر بتا رہی تھی کہ لڑکے والوں کو شادی کی جلدی ہے وہ ایک ماہ کے اندر اندر بیٹے کی شادی کرنا چاہ رہے ہیں پھر آپ کی میری سب کی جان ذیان نامی سو نامی سے چھوٹ جائے گی۔

“ زرینہ تنفر سے بتا رہی تھی۔ ”دعا کرو کہ وہاب شور نہ مچائے۔“ روبینہ متفکر تھی۔ ”آپا آپ وہاب کو کچھ دن کے لئے لاہور بجھوا دیں ناں۔“ زرینہ نے جھٹ مشورہ دیا جو انکے دل کو لگا۔ ”ہاں اگلے مہینے ارشاد بھائی کے بیٹے کی شادی بھی تو ہے۔“

انہوں نے اپنے دیور کا نام لیا۔ ”پھر تو آپ سب کو جانا ہوگا۔“ زرینہ بولی۔ ”ہاں اور وہ تمہیں بھی کارڈ بھجوائیں گے۔

“ روبینہ نے یاد دلایا۔ ”میں تو نہیں جاسکوں گی۔ امیر علی کی حالت آپ کے سامنے ہے۔“ زرینہ کا عذر سچا تھا۔ ”میری کوشش ہے کہ ذیان کی شادی جتنا جلدی ممکن ہو ہوجائے۔“ ”ہاں اللہ کرے ایسا ہوجائے۔“ روبینہ نے صدق دل سے کہا۔ ”آپ کوشش کرنا وہاب کو ذیان کے رشتے یا کسی اور بات کی ہوا تک نہ لگے“ زرینہ نے فون بند کرنے سے قبل ایک بار پھر یاد دہانی کرائی تو روبینہ”ہونہہ“ کہہ کر رہ گئی۔

                                 

زرینہ جوش و خروش سے پورے گھر کی تفصیلی صفائیاں کروا رہی تھیں۔ وقت کم تھا کل لڑکے والے ذیان کو دیکھنے آرہے تھے۔ ثمینہ نے سب کمروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے پردے دھو کر پھر سے لٹکا دئیے تھے۔ مالی نے سب پودوں کی از سر نو گوڈی کی اور گھاس پھونس صاف کی۔ گملے دھلنے کے بعد چمک رہے تھے پورے لان اور گھر کی حالت نکھر آئی تھی۔

مہمانوں کے استقبال کے لئے سب تیار تھے۔

زرینہ پورے گھر میں ذیان کو تلاش کر رہی تھی۔ نیچے وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ اوپر ٹیرس پہ تھی۔ زرینہ کے گھٹنوں میں تکلیف تھی سردی میں یہ تکلیف اور بھی بڑھ جاتی تھی اس لئے اس نے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ بوا اندر کچن میں رات کے کھانے کے لئے مٹر چھیل رہی تھیں انہیں ذیان کے لئے مٹر پلاؤ بنانا تھا۔

زرینہ انکے پاس چلی آئی۔ بوا نے انہیں دیکھ کر مٹر چھیلنے بند کردئیے کیونکہ زرینہ بیگم کا چہرہ بتا رہا تھا وہ ان سے کوئی بات کرنے آئی ہیں۔ اور کچھ ہی دیر میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔

”بوا ذیان کہاں ہے؟“ ”اوپر گئی تھی ابھی میرے سامنے۔“ ”آپ کو پتہ تو ہے کل ایک فیملی ذیان کو دیکھنے آرہی ہے۔“ زرینہ نے بات کی تمہید باندھی۔ ”جی چھوٹی دلہن آپ نے بتایا تھا کل مجھے۔

“ وہ تابعداری سے سر ہلاتے بولیں۔ ”آپ ذیان کو بھی بتا دینا۔ کل کالج سے چھٹی لے کر اور ذرا اچھے کپڑے پہن کر تیار ہو۔“

”چھوٹی دلہن میں اسے بول دوں گی پر کالج سے چھٹی نہیں کرے گی وہ۔“ بوا دبے دبے لہجے میں بولیں تو زرینہ بیگم کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔ ”کیوں چھٹی نہیں کرے گی۔ میں نے لڑکے والوں کو ٹائم دیا ہوا ہے بارہ بجے کا جبکہ مہارانی ذیان دو بجے کالج سے گھر آتی ہے۔

“ زرینہ کا پارہ ہائی ہونے لگ گیا تھا۔ ”وہ کہہ رہی تھی اسکے کالج میں کوئی ڈرامہ ہونے والا ہے۔ وہ ادھر ہی مصروف ہے۔ اگر لڑکے والے بارہ بجے بھی آئے تو چائے پانی ناشتے باتوں میں تین چار گھنٹے لگ ہی جائیں گے۔ ذیان بھی دو بجے تک گھر آجائے گی۔“ بوا رسان سے سمجھانے والے انداز میں بات کر رہی تھیں۔ زرینہ کا غصہ تھوڑا کم ہوگیا تھا پر بالکل ختم نہیں ہوا تھا۔ بوا سے بات کرنے کے بعد اس کی ذمہ داری قدرے کم ہوگئی تھی ویسے بھی ذیان کو بوا ہی سنبھال سکتی تھی۔

Episode 21 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 21 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

گھر میں غیر معمولی چہل پہل تھی مہمان اپنے ٹائم پہ تشریف لاچکے تھے۔ ڈرائنگ روم میں سب موجود تھے سوائے امیر علی کے۔ اونچی آوازوں میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ ذیان کالج سے لوٹی تو اونچی آوازوں نے اس کا استقبال کیا اس کی حسین سماعت خاصی تیز تھی پر جو مہمان آئے تھے وہ غالباً دوسروں کو بہرا تصور کر رہے تھے۔ اونچے قہقہے اور اسی حساب سے آواز کا والیوم بھی گونجیلا تھا۔

ذیان نے بیگ جا کر ٹیبل پہ رکھا اور حسب معمول بوا کی طرف چلی آئی جو ثمینہ کے ساتھ مل کر کھانے کے انتظامات میں مصروف تھیں۔

کھانا پکنے کے آخری مراحل میں تھا بس سرو کرنا تھا۔ رابیل، آفاق اور مناہل تینوں میں سے ایک بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ”بوا سب کہاں ہیں؟“ ذیان نے بے دھیانی میں پوچھا ایک ثانیے کے لئے وہ جیسے مہمان اور ان کی آمد کا مقصد ہی فراموش کرگئی تھی۔

”بیٹا سب ڈرائنگ روم میں ہیں۔ تم جاؤ کپڑے تبدیل کرلو۔ ثمینہ نے تمہارا گلابی سوٹ پریس کر کے بیڈپہ رکھا ہے ساتھ سینڈلز بھی ہیں۔“ بوا نے لجاجت سے کہا۔

”کیوں کپڑے تبدیل کروں۔“ وہ غصے میں پاؤں پٹخ کے بولی۔ ”ابو کہاں ہیں؟“ اس نے اگلا سوال کیا حالانکہ اس سوال کا جواب اسے معلوم تھا۔ ”امیر میاں اپنے کمرے میں ہیں اور کہاں جانا ہے انہوں نے۔

اللہ کسی کو محتاجی اور معذوری نہ دے۔ امیر میاں کو دیکھ کر دل کٹتا ہے۔ کیسے ہر کام جلدی جلدی کرتے تھے۔ ساری ذمہ داری اپنے سر تھی اور اب خود اوروں کے محتاج ہو کر بستر پہ پڑ گئے ہیں۔“ بوا کے لہجے میں دکھ پنہاں تھا۔ ذیان کچھ ثانیے چپ چاپ ان کا چہرہ تکنے لگی۔

”بیٹا کپڑے بدل کر مہمانوں سے مل لو۔“ بوا نے ایک بار پھر منت ریز انداز میں کہا تو وہ انکی طرف دیکھے بغیر کچن سے نکل گئی۔

ثمینہ اس دوران بالکل خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔ بوا دل ہی دل میں آنے والے متوقع حالات کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ ذیان شاید آنے والے مہمانوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھی ورنہ شور مچاتی احتجاج کرتی۔ کیونکہ بوا اس کے مزاج کی تلخی، کڑواہٹ اور درشتی سے اچھی طرح واقف تھیں۔ اس کی ناپسند سے آگاہ بھی تھیں تب ہی تو ڈر رہی تھیں۔ پر اس کا اندازہ شاید زرینہ بیگم کو نہیں تھا تب ہی تو خوشی خوشی مہمانوں سے باتیں کر رہی تھیں۔

ذیان نے جب تک کپڑے تبدیل کیے تب تک مہمانوں کے لئے کھانا لگا دیا گیا تھا۔ اس نے سوچا پہلے اپنی پیٹ پوجا کرلی جائے بعد میں مہمانوں سے بھی دو دو ہاتھ کرلیے جائیں گے۔ بھوک کی وہ ویسے بھی کچی تھی۔ وہ کپڑے تبدیل کر کے دوبارہ بوا کی طرف آئی تو وہ اسے دیکھتی رہ گئیں۔ گلابی جوڑے میں وہ بے پناہ خوبصورت لگ رہی تھی بال برش کر کے اس نے دوبارہ سنوارے تھے آنکھوں میں کاجل بھی اہتمام سے موجود تھا۔

اس نے وہیں کچن میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ذیان کو مہمانوں سے ملاقات کا کچھ ایسا خاص شوق تو نہیں تھا پر ان کی تیز تیز آوازوں نے تجسس بڑھا دیا تھا۔

ثمینہ کھانے کے برتن واپس لا رہی تھی جب اس نے سب برتن اٹھا کر ٹیبل تک صاف کرلی تب ذیان مہمانوں کے دیدار کے لئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔

”السلام علیکم“ اس نے بڑی تمیز سے اندر قدم رکھتے ساتھ ہی سلام کیا تو آنے والے سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔

تین عورتوں اور دو مردوں کے ساتھ ایک اور لڑکا نما مرد بھی تھا۔ لڑکا نما مرد اس لئے کہ اسکی ڈریسنگ اور بالوں کا سٹائل رکھ رکھاؤ نوجوان لڑکے والا تھا جبکہ عمر کسی طرح بھی چونتیس سال سے کم نہیں تھی۔

”یہ میری سوتیلی بیٹی ذیان ہے۔ امیر علی کی پہلی بیوی کی بیٹی۔ پر میں نے اسے اپنی بیٹی کی طرح ہی پالا ہے۔“ زرینہ بیگم نے بظاہر بڑی محبت سے تعارف کراتے ہوئے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہا لہجہ عام سا تھا پر لفظوں کی کاٹ سے ذیان اچھی طرح واقف تھی۔

”ماشاء اللہ بہت خوبصورت ہے۔“ دائیں طرف رکھے صوفے پہ بیٹھی موٹی سی خاتون نے اس کی تعریف کی۔ باقیوں کی نگاہیں بھی اس پہ مرکوز تھیں۔ ”ہمیں تو بہت پسند آئی ہے آپ کی بیٹی۔“ باقی دو عورتوں نے تعریف میں اپنا حصہ ڈالا۔ دونوں مردوں کے ساتھ ساتھ لڑکا نما مرد بھی اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔

”جاؤ ذیان بوا سے بولو اچھی سی چائے بنائیں۔ تم چائے خود لے کر آنا۔

“ زرینہ نے بڑے آرام سے اسے وہاں سے اٹھایا۔ خود ذیان سب کی نگاہوں سے الجھن محسوس کر رہی تھی۔ وہ سیدھی بوا کے پاس آئی اور زرینہ بیگم کا آرڈر ان تک پہنچایا۔ ”کیا بات ہے کچھ پریشان نظر آرہی ہو؟“ بوا سے اسکے تاثرات پوشیدہ نہ رہ سکے۔ ”بوا بہت عجیب لوگ ہیں۔ عورتیں مرد سب مجھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔“ اس کی الجھن زبان پہ آہی گئی۔

”چھوٹی دلہن کے جاننے والوں میں سے ہیں۔ سنا ہے اچھے لوگ ہیں۔“ لڑکا بھی دیکھنے کے لئے ساتھ آیا ہے کیونکہ امیر میاں خود تو لڑکے والوں کے گھر جا نہیں سکتے۔“

بوا بتا رہی تھیں۔ ذیان کے کانوں سے جیسے دھواں نکلنے لگا۔

لڑکا نما مرد یا مرد نما لڑکا ہی اس کا امیدوار نظر آرہا تھا۔ تبھی ہی اتنا گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ بوا، ذیان کے تیوروں سے خائف سی نظر آرہی تھیں۔

”امیر میاں بیمار ہیں اللہ رہتی دنیا تک ان کا سایہ تمہارے سر پہ سلامت رکھے پر زندگی بڑی بے وفا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ تم ان کی زندگی میں اپنے گھر کی ہوجاؤ گی تو بہت ساری مشکلات سے بچ جاؤ گی۔ تسلی رکھو امیر میاں کو لڑکا اور اسکے گھر والے پسند آئے تو ہی وہ رضامندی دیں گے اپنی۔“ بوا نے اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ کر تسلی دی۔

پر ذیان کو کہاں چین آنا تھا وہ انہی قدموں بوا کے پاس سے اٹھ کر امیر علی کی طرف آگئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح بستر پہ دراز تھے۔ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ ”آگئی تم کالج سے۔“ ”جی“ وہ اپنی انگلیوں کو اضطراب کے عالم میں مسل رہی تھی۔ اس کی اندرونی کش مکش کا امیر علی کو بھی اندازہ تھا پر وہ کچھ بول نہیں پا رہے تھے۔ ”ڈرائینگ روم میں کچھ مہمان آئے بیٹھے ہیں تم ملی ہو ان سے؟“ انہوں نے ایسے سوال کیا جیسے ان دونوں باپ بیٹی میں اس نوعیت کی بات چیت چلتی رہی ہو۔

”جی ملی ہوں۔“ ”کیسے لگے تمہیں؟“ اس سوال کا اس کے پاس جواب نہیں تھا اسکے گلابی چہرے پہ اداسی اور اضطراب تھا جیسے بہت کچھ کہنا چاہ رہی ہو۔ پر بول نہ پا رہی ہو۔ امیر علی کا دل اسکے لئے دکھ اور محبت سے بھر سا گیا۔

”ادھر میرے پاس آ کربیٹھو ناں“ انکے لہجے میں تڑپ تھی۔ ذیان نے کرلاتی نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ ”اب نہیں۔ جب مجھے آپ کی محبت اور اعتبار کی ضرورت تھی تب آپ نے مجھے مضبوطی نہیں دی۔

اب جب آپ خود کمزور عمارت کی طرح ڈھے گئے ہیں تو محبت اور اعتبار مجھے دینا چاہ رہے ہیں۔ جب وقت گزر چکا ہے جب جذبے اور ان کی صداقتیں میرے لئے بے معنی ہوچکی ہیں۔ آپ امیدوں کے دئیے جلائے میری راہوں میں کھڑے ہوگئے ہیں… میری ضرورت ختم ہوگئی ہے؟“ ذیان یہ سب دل میں ہی خود سے کہہ سکی۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ چڑ چڑاہٹ سے کھلا۔ زرینہ بیگم مہمانوں کے ساتھ داخل ہوئیں۔

ذیان کو وہاں پا کر ایک بار پھر ان سب کی آنکھوں میں اشتیاق امنڈ آیا۔ ”بھائی صاحب ہم جارہے ہیں۔ سوچا جاتے جاتے آپ کو خدا حافظ کہہ دیں اور اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے دیں۔ کمال کو تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے اب آ کر ہمارا گھر بھی دیکھ لیں۔“ وہی موٹی عورت تیز تیز آواز میں بول رہی تھی جبکہ کمال یعنی مرد نما لڑکے کی نگاہیں ذیان کے گرد طواف کر رہی تھیں۔

باری باری سب امیر علی سے ملے۔ جاتے جاتے وہی موٹی عورت ذیان کے پاس رکی اور اسکے ماتھے پہ زور دار بوسہ دیا۔ باقی مردوں نے ذیان کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ جبکہ ان میں سے ایک نے جو قدرے زیادہ عمر کا تھا اس نے کچھ نوٹ زبردستی ذیان کو تھمائے۔ ”زرینہ بہن جلدی آنا ہمارے گھر۔ ہم سے زیادہ انتظار نہیں ہوگا۔“ وہی موٹی عورت جاتے جاتے ذیان کو پیار بھری نگاہوں سے تکتے ہوئے پھر سے یاد دہانی کروا رہی تھی۔

جواباً زرینہ بیگم نے بھی آنے کی یقین دہانی کروائی۔ کمال نامی موصوف نے ایک آخری بھرپور نگاہ پھر ذیان پہ ڈالی۔ وہ یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں تھی ورنہ کمال کی اس بیباکانہ حرکت کا ضرور جواب دیتی زرینہ بیگم مہمانوں کو رخصت کر کے آئیں تو بہت خوش تھیں۔ ذیان ہنوز انکے شوہر نامدار کے پاس بیٹھی تھی۔ پر اس وقت زرینہ کو خاص تکلیف یا حسد کا احساس نہیں ہوا جس سے وہ پہلے دو چار ہوتی آئی تھی۔

کیونکہ ذیان کے اس گھر سے جانے میں کچھ ہی دن باقی تھے اچھا تھا امیر علی کی بچی کھچی محبت سمیٹ لیتی۔ کمال اور اس کی فیملی نے بہت ہی مثبت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ ویسے زرینہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کمال اور اسکے گھر والے ان سے مرعوب ہیں۔ اتنا خوبصورت گھر، دو دو گاڑیاں، نوکر چاکر مہنگا فرنیچر، زرینہ بیگم کے پہنے گئے زیورات قیمتی سوٹ کچھ بھی تو زمانے کے مروجہ معیار کے مطابق نظر انداز کرنے والا نہیں تھا۔

اور پھر ذیان کا جلوہ ہوش اڑانے والا تھا۔ اتنی خوبصورت حسین کم عمر لڑکی کا تصور تو کمال نے خواب میں بھی نہ کیا تھا۔ ابھی تک اس کی شادی نہ ہو پائی تھی۔ حالانکہ پڑھائی مکمل کر کے سب ذمہ داریاں سنبھالے اسے کتنے سال ہوگئے تھے۔ اس سے بڑی تین بہنیں تھیں۔ تینوں کی تینوں زبان دراز اور واجبی شکل و صورت کی مالک تھیں۔

اللہ اللہ کر کے ان کی شادیاں ہوئیں۔

ان کی شادیاں ہونے گھر بسنے میں والدہ کی دوڑ دھوپ کے ساتھ وظیفوں کا بھی عمل دخل تھا وہ وقتاً فوقتاً کرتی تھیں۔ اب کہیں جا کر کمال کی باری آئی تھی۔ کمال کی والدہ عفت خانم بیٹے کی عمر سب کو چھبیس سال بتاتی حالانکہ وہ پینتیس سال سے کم کا نہ تھا۔ ملٹی نیشنل فرم میں اچھے عہدے اور تنخواہ پہ کام کر رہا تھا۔

فی الحال اتنی ہی معلومات زرینہ بیگم کو حاصل ہوئی تھی۔

یہ رشتہ بیگم اختر کے توسط سے آیا تھا انہوں نے تو بہت تعریفیں کی تھیں اور کہا تھا کہ کمال کو کوئی لڑکی ناپسند کر ہی نہیں سکتی۔ تب ہی تو زرینہ بیگم نے بالا بالا ہی بیگم اختر کو کہلوایا تھا کہ لڑکا بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ لازمی ان کے گھر آئے تاکہ امیر علی بھی اسے دیکھ لیں۔ وہ کسی بھی تاخیر کے حق میں نہیں تھیں تب ہی تو کمال اپنی فیملی کے ساتھ انکے ہاں آیا تھا۔

امیر علی سے اس کی خاصی دیر بات چیت ہوتی رہی وہ اس کے کام گھر، خاندان اور دیگر حوالو ں سے چھوٹے چھوٹے سوالات اس سے پوچھتے رہے۔ پر زرینہ کو امیر علی کے تاثرات سے کمال کے بارے میں پسند و ناپسند کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

ان کا بس چلتا تو ذیان کو ہاتھ پکڑ کر کمال کے گھر چھوڑ آتی۔ پر امیر علی کی وجہ سے ایسا سوچنا بھی کار محال تھا۔

آخر کو ذیان ان کی”لاڈلی بیٹی“ تھی۔ وہ دفعان ہوجاتی تو زرینہ بیگم سکھ کا سانس لیتی۔

اس کا کانٹا ہی نکل جاتا جو اتنے سالوں سے دل میں پیوست چبھ رہا تھا۔

زرینہ بیگم کرسی اٹھا کرامیر علی کے بیڈ کے پاس رکھ کر خود بھی بیٹھ گئیں۔

انہوں نے ایک نظر امیر علی کے دائیں طرف بیٹھی ذیان کو دیکھا اور دوسری نظر اپنے مجازی خدا پہ ڈالی جو ہاتھ سے اپنی کنپٹی سہلا رہے تھے۔

”ذیان اپنے کمرے میں جاؤ۔ مجھے تمہارے ابو سے بات کرنی ہے۔“ زرینہ نے رخ ہلکا سا موڑ کر ذیان کو دیکھتے ہوئے تحکم آمیز لہجہ میں کہا۔

Episode 22 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 22 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان ان کی اگلی کوئی بات سنے بغیر اٹھ کر آگئی۔ ویسے بھی وہ زرینہ بیگم کے سامنے آنے سے احتراز ہی کرتی تھی اس کی کوشش ہوتی وہ بات بھی کم سے کم کرے۔ پھر بھی زرینہ بیگم کو اس کے وجود سے تکلیف ہی ہوتی۔

زرینہ نے بڑا دروازہ مکمل طور پہ بندکیا اور پھر سے امیر علی کے پاس اپنی جگہ بیٹھ گئی۔ اس کا انداز انتہائی رازدارانہ اور چوکنا تھا۔ امیر علی بھی اسے غور سے دیکھنے لگے۔

”آپ نے لڑکا اور اس کی فیملی دیکھی کیسے لگے آپ کو؟“ وہ آہستہ آواز میں دلچسپی سے پوچھ رہی تھی۔ جیسے کسی کے سن لئے جانے کا ڈر ہو۔ ”پہلی ملاقات میں ہی کسی کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بتایا جاسکتا ہے کہ کوئی کیسا ہے۔“ امیر علی نے خاصے محتاط الفاظ کا سہارا لیا تھا پر زرینہ کو پھر بھی ان کی بات یا رائے پسند نہیں آئی۔

”میں نے تو صرف یہ پوچھا ہے کہ کمال کے گھر والے آپ کو کیسے لگے رہی بات اچھائی برائی کی تو بیگم اختر نے ان کی بہت تعریفیں کی ہیں۔ کمال اعلی تعلیم یافتہ کھاتے پیتے خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا ہے بہت شریف لڑکا ہے بظاہر کوئی عیب بھی نہیں ہے۔ بے غرض اور بے لوث عادات کا ملک ہے پہلے اپنی تین بہنوں کی شادیاں کیں اور صبر سے اپنی باری کا انتظار کیا۔

بہت سی لڑکیوں کے والدین نے خود اپنے منہ سے کمال کے رشتے کا کہا پر وہ ایسا سعادت مند ہے کہ کہا مجھے اپنے والدین کی پسند پہ اعتبار جسے وہ میرے لئے چنیں میں اسی سے شادی کروں گا۔

کمال کے گھر والوں کو ہماری ذیان بہت پسند آئی ہے۔ کیونکہ ان کی باتوں سے بار بار اظہار ہو رہا تھا۔ میں نہیں چاہتی کہ اتنا اچھا لڑکا ہاتھ سے نکل جائے۔“ زرینہ نے مجازی خدا کو متاثر کرنے اور کمال کے لئے ہموار کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔

”ذیان پڑھ رہی ہے وہ ابھی بیس سال کی بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور کمال لڑکا نہیں پورا مرد ہے۔“ مجھے اس کے گھر والے بھی پسند نہیں آئے عجیب شو آف سطحی محسوس ہوئے ہیں مجھے۔ ”کیسے ذیان کا رشتہ دے دوں انہیں۔“ امیر علی نے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف انکار کردیا۔ زرینہ کی کنپٹیاں سلگ اٹھیں۔ ”ٹھیک ہے کمال کی عمر تھوڑی زیادہ ہے، پر اتنی بھی زیادہ نہیں ہے اٹھائیس سال کا ہے صرف۔

”انہوں نے مبالغے کی انتہا ہی تو کردی ۔ ”اس کی بڑی بہن بتا رہی تھی کہ محنت کر کر کے اور پڑھائی میں جان ماری کی وجہ سے کمال زیادہ عمر کا لگنے لگا ہے ورنہ اٹھائیس سال کوئی ایسی زیادہ عمر نہیں ہے آپ بھی تو مجھ سے چھ سال بڑے ہیں۔ میرے ماں باپ نے تو آپ کی عمر اور ساتھ پہلی بیوی کی بیٹی پہ اعتراض نہیں کیا تھا۔ آپ نے ذیان کو ساری عمر گھر بٹھا کر رکھنا ہے کیا؟ اس کی شادی ہوگی تو رابیل اور مناہل کی باری آئے گی ناں، شروع میں زرینہ بہت غصے میں تھی لیکن آخر میں مصلحت کے تحت نرم پڑ گئی۔

”رابیل اور مناہل ابھی بہت چھوٹی ہیں جس طرح ذیان میری بیٹی ہے اس طرح وہ بھی میری ہی اولاد ہیں۔ میں انکے بارے میں بھی سوچتا ہوں۔ وقت آنے پہ سب کام ہوجائیں گے۔ تم خواہ مخواہ ہلکان مت کیا کرو خود کو۔“ ”کیسے ہلکان نہ کروں میں خود کو۔ آپ بیمار رہتے ہیں گھڑی بھر کا پتہ نہیں ہے۔ میں نے ہر مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا ہے دکھ سکھ کے سب موسم آپ کے ساتھ کاٹے۔

کبھی کوئی شکوہ، شکایت نہیں کی۔

 میں ذیان کی دشمن تھوڑی ہوں۔ اچھے رشتے بار بار نہیں ملتے۔ میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ وہ آپ کے جیتے جی اپنے گھر کی ہوجائے۔ آپ اسے بہت پیار کرتے ہیں۔ لاڈلی ہے وہ آپ کی۔ میں سب جانتی ہوں تب ہی تو بیگم اختر کو کہلوا کر کمال کو پہلی ملاقات میں ہی آپ سے ملوانے کے لئے گھر بلوایا۔ میں چاہتی ہوں ذیان قدردان سسرال میں جائے۔

پہلی بار ہی کمال کے گھر والے اس پہ واری صدقے ہو رہے تھے۔ اچھے لوگ ہیں ذیان عیش کرے گی۔ کمال عمر میں ذیان سے تھوڑا بڑا ہے پر یہ کوئی ایسا عیب نہیں ہے جس کو وجہ بنا کر رشتہ ٹھکرا دیا جائے۔ زیادہ عمر کے شوہر بیوی کو خوش رکھتے ہیں۔ آپ نہیں چاہتے تو میں انکار کہلوا دوں گی کمال کے گھر والوں کو۔“ امیر علی اس کی باتوں اور دلائل سے قائل ہوتے جارہے تھے تب ہی تو زرینہ نے انداز بدلا تھا۔

پھر اس کے بعد وہی ہوا جو زرینہ بیگم چاہ رہی تھی امیر علی یکدم نرم پڑگئے۔ ”ٹھیک ہے تم لڑکے کے گھر جاؤ اسے دیکھو رہن سہن کا جائزہ لو۔ چھان بین کراؤ۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا۔“ امیر علی نے صاف رضا مندی تو نہیں دی تھی پر انکار بھی نہیں کیا تھا۔ زرینہ بہت مسرور تھی۔ اس کے لئے اتنا ہی بہت تھا۔ باقی کے مراحل آسان تھے۔

امیر علی کی حیثیت ویسے بھی کمزور ہوگئی تھی۔

انہوں نے بیماری کے دوران تمام جائیداد کا وارث زرینہ بیگم کو بنا دیا تھا۔ اس وقت حالات کا تقاضہ ہی یہی تھا۔ زرینہ آسانی سے مختار کل بن گئی تھی۔ وہ خوش تھے کہ ان کی شوہر پرست شریک سفر ذیان کا حق نہیں مارے گی وہ ماں کی طرح ہی سوچے گی پر زرینہ کی نیت بدل چکی تھی۔ اس کی پہلی کوشش یہی تھی ذیان کی جلد از جلد شادی ہوجائے۔ اس سے پہلے کہ کسی کمزور لمحے میں امیر علی کی محبت جاگ پڑے اور وہ پھر سے وکیل کو بلوا کے وصیت تبدیل کروا دیں، ذیان جب تک یہاں تھی اس کا امکان سو فی صد تھا۔

اس کی شادی کے بعد یہ خطرہ ٹل جاتا۔ اور بعد میں اگر امیر علی وصیت میں تبدیلی کا بولتے تو کون سا اس نے انہیں یہ کام کرنے دینا تھا ایک مفلوج معذور انسان کی کسی صحت مند ہاتھ پاؤں والے کے سامنے کہاں چلتی ہے۔ امیر علی کو رام کرنے کے بہت سے طریقے تھے۔ اور وہ اس کے دلائل سے قائل ہو بھی جاتے تھے۔

”ہاں ٹھیک ہے میں روبینہ آپا کو ساتھ لے کر بہت جلد خود کمال کے گھر جاؤ ں گی۔

ہر چیز کو دیکھ بھال کر پرکھ کر خود بتاؤں گی آپ کو۔ اگر مجھے کہیں ذرا سی بھی گڑ بڑ لگی تو آپ سے پہلے میں خود انکار کروں گی۔“ ”تم کتنی اچھی ہو زرینہ۔ میں سوچتا ہوں تم میری زندگی میں نہ ہوتی تو میری زندگی کتنی مشکل ہوتی۔“ وہ تہہ دل سے اسکے شکر گزار احسان مند تھے۔

ارے آپ ایسی باتیں نہ کریں۔“ زرینہ دل میں بہت خوش تھی۔ ”تم ٹھیک کہتی ہو ذیان کی شادی ہوجانی چاہیے۔

اس بار وہ تلملا کر رہ گئی کیونکہ امیر علی کے لہجہ اور آنکھوں میں ذیان کے لئے فکر مندی تھی۔

پر یہ وقت جذبات کے اندرونی اظہار کے لئے مناسب نہیں تھا۔ انہیں کمال کے رشتے کے لئے راہ ہموار کرنی تھی۔ امیر علی سے زیادہ مشکل کام ذیان کو منانے کا تھا۔ وہ ننگی تلوار تھی کسی وقت کچھ بھی کرسکتی تھی۔ پھر وہاب اسکے حصول کے لئے ہر راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار تھا۔ وہاب کے کوئی قدم اٹھانے سے پہلے انہیں ذیان کی شادی کرنی تھی۔

Episode 23 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 23 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان نے مٹھی میں تھامے نوٹ گنے بغیر ٹیبل پہ پھینکے۔ جس مقصد کے لئے اسے یہ دئیے گئے تھے وہ اس وقت اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ مگر دماغ تھا کہ گھما پھرا کے ادھر ہی لئے جارہا تھا۔ زرینہ آنٹی نے اسے ابو کے پاس سے اٹھا دیا تھا یقینا انہوں نے آج آنے والے مہمانوں بلکہ خاص الخاص مہمانوں کے بارے میں ہی ان سے بات کرنی تھی۔ خوشی سے زرینہ آنٹی کا چہرہ چمک رہا تھا جیسے آج ہی میدان مار کے رہیں گی۔

ذیان مضطرب تھی۔ بوا رحمت کی ڈھکی چھپی نصیحتیں، زرینہ بیگم کی خوشی، امیر علی کی لاتعلقی و بے نیازی آنے والے مہمانوں کی دلچسپی اسکی پریشانی کو بڑھا رہی تھی۔

شادی کے بارے میں وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی یہ اس کا ٹارگٹ یا مقصد نہیں تھا۔ پھر کیوں زرینہ بیگم اس کے پیچھے پڑ گئی ہیں۔

وہ خوش ہے پرسکون ہے اسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے لیکن زرینہ بیگم اس کی ہر خوشی چھیننے کے درپے ہے۔

مرد کی ضرورت اگر زندگی کا خاصہ و لازمہ ٹھہرتی ہے تو اس کے سامنے مرد کا روپ باپ کی صورت میں موجود تھا۔ پر باپ کے ہوتے ہوئے بھی اس نے خود کو اکیلا کمزور اور بے بس ہی تصور کیا تھا۔ ماں کے حوالے سے طعنے ہی سنے تھے حقارت ہی سمیٹی تھی۔ اس نے سب حقارت، ذلت بے بسی اکیلے ہی برداشت کی تھی۔ امیر علی نے تو اسے کبھی بھی زرینہ بیگم کی نفرت سے نہیں بچایا نہ اس کی مدد کو آئے۔

اب وہاب جو اس کے بارے میں انتہائی حد تک جا کر سوچ رہا ہے تب بھی تو وہ اکیلے سہہ رہی ہے ناں۔ پھر وہ کیوں زرینہ بیگم کے سامنے جھکے سرینڈر کرے۔ وہ اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتی۔ باقی جو دل چاہے کریں پر وہ کوئی ترنوالہ نہیں ہے۔ اتنی آسانی سے تو کسی صورت بھی ہار نہیں مانے گی۔ ناکوں چنے چبوا دے گی۔ امیر علی اپنی بیگم کے سامنے بے بس ہوں گے وہ بالکل بھی نہیں ہے۔

اور وہ انہیں ایسا کر کے دکھائے گی۔“ ذیان کے لبوں پہ زہر میں ڈوبا ہوا تبسم رقصاں تھا۔ زرینہ بیگم اگر اس وقت اس کے چہرے کو دیکھ لیتی تو ایک ثانیے کے لیے ڈرتی ضرور کہ ذیان نے ہار نہ ماننے کا تہیہ کرلیا تھا۔

اور یہ تو وہ بھی اچھی طرح جانتی تھیں کہ ذیان ضد میں اپنی منواتی ہے۔ بے شک وہ ان سے خائف تھی دبتی تھی پر اس کے سرکش خیالات بدلے نہیں جاسکتے تھے۔

                                       

زرینہ روبینہ آپا سے فون پہ بات کر رہی تھیں۔ موضوع گفتگو کمال اور اس کی فیملی ہی تھی۔ ”کیسے ہیں لڑکے والے؟“ روبینہ نے سوال کیا۔ ”مجھے تو سب بہت اچھے لگے ہیں۔“ ”اور امیر بھائی کیا کہتے ہیں؟“ ”مجھے تو لڑکا بہت پسند آیا ہے پھر تمہارے بھائی صاحب کہتے ہیں کہ اچھی طرح چھان بین کروا کے بات آگے بڑھائی جائے۔

انہیں کمال کی عمر پہ بھی اعتراض ہے۔ اپنی بیٹی ننھی چوزی لگ رہی ہے پر ذیان ایسی بچی تو نہیں ہے کہ شادی جیسی ذمہ داری بھی نہ اٹھا سکے۔“ زرینہ نے بتاتے ہوئے جیسے ناک بھوں چڑھائی تھی۔ روبینہ نے متفق ہونے میں دیر نہیں لگائی۔ ”ویسے بھی لڑکیاں جلدی سیانی ہوجاتی ہیں۔“ ”آپا آپ کو اگلے ہفتے میرے ساتھ کمال کے گھر چلنا ہے۔ میں نے اسی لئے آپ کو فون کیا تھا۔

”زرینہ نے باتوں باتوں کے دوران اچانک انہیں بتایا تو وہ پریشان سی ہوگئیں۔“ کس دن جانا ہے؟“ ”آپا آپ فکر مت کریں جب وہاب آفس ہوگا ہم تب چلیں گے۔ آپ کے بھائی نے فضول کی پخ لگا دی ہے کہ لڑکے کے گھر جاؤ سب سے ملو جائزہ لو۔“ زرینہ ان کی پریشانی کی وجہ جانتی تھی تب ہی تو فوراً تسلی دی۔ ”تم جانے سے ایک دن پہلے مجھے بتا دینا۔“ ”ہاں میں بتا دوں گی۔

“ روبینہ غائب دماغی سے سر ہلانے لگی۔

                                 

راعنہ، رات سے مایوں بیٹھ رہی تھی۔ ٹھیک سات دن بعد اس کی بارات آنی تھی۔ وہ سب چنڈال چوکڑی بہت خوش اور پر جوش تھی۔ کومل اور رنم نے روایتی انداز کے سوٹ سلوائے تھے۔ کومل تو خاص طور پہ پرشوق تھی۔ اس کی تیاریاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ پراندے کو اس نے سو سو بار کندھے کے آگے پیچھے ڈال کے دیکھا۔

جبکہ اس کے برعکس رنم ہمیشہ کی طرح پر اعتماد تھی۔ سبز چوڑی دار پاجامے پیلی شرٹ ہمرنگ دوپٹہ اوڑھے وہ بڑا مشرقی اور الگ سا تاثر پیش کر رہی تھی۔ بالوں میں پراندہ اور موتیے کے گجرے دیکھ کر فراز اور اشعر نے بے اختیار ہی”واؤ“ کہا۔ اس کی آنکھوں میں اعتماد کا رنگ کچھ اور بھی گہرا ہوگیا۔

جوان لڑکیوں کے نقرئی قہقہے شور ہنگامہ، موج مستی ماحول پہ چھائے خوبصورتی کے رنگوں کو اور بھی بڑھا رہے تھے۔

ڈھولک کومل کے قبضے میں تھی راعنہ کی کزن کے ساتھ مل کر اس نے شادی بیاہ کے گانوں کی خوب ہی ٹانگ توڑی۔ راعنہ ان سب کے درمیان بیٹھی مسکا رہی تھی۔

رنم ہنگامے، شور شرابے سے تھک ہار کر راعنہ کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ راعنہ نے سر سے ڈھلکتا آنچل ٹھیک کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا۔ ”کیا بات ہے تم سب کے ساتھ انجوائے کیوں نہیں کر رہی ہو؟“ ”میرا دل چاہ رہا ہے تمہارے پاس بیٹھوں باتیں کروں۔

تمہاری شادی ہوجائے گی تو کہاں ہاتھ آؤ گی۔“ رنم مسکراتے ہوئے شگفتہ انداز میں بولی۔ ”شادی کے بعد میں نے شہریار کے گھر ہی جانا ہے اورتو کوئی جگہ نہیں ہے۔ تم جب چاہو آسکتی ہو۔“ راعنہ مسکرائی۔ رنم نے ایک نظر ڈھولک بجاتی لڑکیوں پہ ڈالی۔ ان میں کومل سب سے پیش پیش تھی۔ اسے ہنسی آگئی راعنہ بھی مسکرا رہی تھی۔ کومل ایسی ہی تھی زندگی کے ہر پل سے خوشی کشید کرنے والی۔

شرارتی، ہنسوڑ جذباتی۔

چند لمحے ڈھولک بجاتی کومل کو دیکھنے کے بعد رنم پھر سے راعنہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ ”تم نے برائیڈل لے لیا؟ شو روم والے نے کل کی ڈیٹ دی تھی۔“ اسے اچانک یاد آیا۔ ”نہیں“ راعنہ نے نفی میں سر ہلایا۔ ”کیوں؟“ شہریار نے منع کردیا ہے۔ ”کیوں کس وجہ سے؟“ وہ جی بھر کے حیران ہوئی۔ ”فنکشن ختم ہوجائے تو بتاؤں گی۔ ویسے شہریار کے گھر والے میرا برائیڈل اور دیگر سب چیزیں لے آئے ہیں۔

اِدھر سے فارغ ہو کر دکھاؤں گی۔“ راعنہ کی بات پہ وہ سر ہلانے لگی۔ راعنہ نے تقریب ختم ہونے کے بعد کچھ بتانے کا بولا تھا رنم کو شدت سے انتظار تھا کہ کب فنکشن ختم ہوتا ہے۔

رات کے آخری پہر جاری ہنگامہ ختم ہوا تو ان سب کی آنکھیں نیند سے بند ہوئی جارہی تھیں۔ راعنہ کے کمرے میں ہی رنم اور کومل کا بسیرا تھا۔ وہ تو آتے ہی بیڈ پہ ڈھیر ہوگئی۔

پر رنم کو راعنہ کا کچھ گھنٹے پہلے والا پراسرار انداز ہضم نہیں ہوا تھا تب ہی تو اس نے فوراً یاد دہانی کرائی۔ ”تم نے مجھے کچھ بتانا تھا راعنہ؟“

”اوہ ہاں۔“ وہ فوراً بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی اتنے میں اس کی گھریلو ملازمہ کافی کے تین مگ ٹرے میں رکھے ان کے لئے لائی۔ رنم نے تو بے تابی سے اپنا مگ اٹھایا راعنہ ملازمہ کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔

اس کے جانے کے بعد راعنہ نے اپنا مگ اٹھایا۔ ”برائیڈل اور جیولری سب مما کے روم میں ہے میں نے ملازمہ کو لانے کے لئے بھیجا ہے۔“ وہ رنم کو بتا رہی تھی۔ ”کیسا برائیڈل اور جیولری؟“ کومل نے حیرانی سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی ملازمہ شاپرز اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ ”اِدھر سامنے ٹیبل پہ رکھ دو۔“ راعنہ نے اشارہ کیا تو اس نے ٹیبل سے باقی سب سامان اٹھا کر تمام شاپرز وہاں رکھ دئیے۔

راعنہ نے شاپرز کھول کر سب سامان باہر نکالا۔ کومل حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بہت سے سوال مچل رہے تھے۔ ”یہ ہے میرا برائیڈل جو شہریار نے خود لیا ہے۔“ راعنہ نے ایک عام سا عروسی سوٹ دیکھنے کے لئے ان کی طرف بڑھایا۔ ”یہ تمہارا برائیڈل ہے اتنا عام سا۔“ کومل کو یقین نہیں آرہا تھا کہ راعنہ کی شادی کا جوڑا اتنا کم قیمت بھی ہوسکتا ہے۔

یہ ٹھیک تھا کہ راعنہ کے سسر مالی اسٹیٹس میں راعنہ کے پپا کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے پر ان کی حالت ایسی گئی گزری بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی بہو کے لئے شاندار سا برائیڈل نہ بنا سکتے۔

رنم کی آنکھوں میں بھی وہی کومل والا سوال تھا۔

یہ برائیڈل شہریار نے خالصتاً اپنی کمائی سے خریدا ہے۔ اتنا کم قیمت بھی نہیں ہے پورے تیس ہزار کا ہے۔

حالانکہ پپا نے جیولری برائیڈل سینڈلز ہر چیز کا آرڈر کردیا تھا پر شہریار نے منع کردیا۔ انہوں نے پپا کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ نہ جہیز لیں گے نہ اپنے سسرال والوں کی کوئی مدد لیں گے۔ اور تو اور شہریار نے اپنے گھر والوں کو بھی منع کردیا ہے کہ وہ میرے لئے کچھ مت لیں۔ شہریار نے میرے لئے سب کچھ خود اپنی کمائی سے لیا ہے۔“ راعنہ کے لہجہ میں بے پناہ فخر اور غرور تھا۔

شہریار کی خریدی گئی کم قیمت چیزیں ان چیزوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی جو وہ اپنے پپا کے گھر میں استعمال کرتی رہی تھی۔ ”کوائیٹ امیزنگ راعنہ۔“ رنم حیرانی کے حصار سے باہر آئی۔ ”شہریار نے پپا سے بولا ہے وہ آہستہ آہستہ خود سب کچھ اپنا بنا لیں گے فی الحال ان کے پاس جو کچھ ہے وہ انہیں قبول کرنا ہوگا۔ انہوں نے ولیمہ کا جوڑا بھی خود خریدا ہے۔

“ وہ ایک کے بعد ایک ناقابل یقین خبر سنا رہی تھی۔ ”اور تمہارے پپا نے شادی پہ جو لگژری فلیٹ تمہیں گفٹ کرنا تھا اس کا کیا بنا؟ رنم کو اچانک یاد آیا۔ ”شہریار نے منع کردیا ہے انہوں نے کہا ہے تم پپا سے کچھ مت لینا۔ میرے پاس جو ہے تم اسی میں گزارا کرو گی۔ وہ بہت خوددار ہیں رنم۔“ راعنہ کی آواز میں ایک خاص قسم کا فخر اور غرور تھا۔

”تم کو کوئی اعتراض نہیں ہے؟“ کومل نے سوال کیا۔

”نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ میں تو بہت خوش ہوں کہ شہریار اتنے خوددار ہیں کوئی اور ہوتا تو خوشی خوشی ان سب چیزوں سمیت مجھے قبول کرتا لیکن شہریار کو اپنی محنت پہ بھروسہ ہے وہ سسرال کے بل بوتے پہ ترقی کرنا آگے بڑھنا نہیں چاہتے۔“ ”تم گزارا کرلوگی؟“ رنم نے سوال کیا۔ ”ہاں میں شہریار کے ساتھ ہر قسم کے حالات میں گزارا کرلوں گی کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔

“ راعنہ کے چہرے پہ دلکش مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ رنم بے پناہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ یہ سب اس کے لئے بہت انوکھا اور حیران کن تھا۔ راعنہ جیسی آسائشوں میں پلی بڑھی لڑکی محبت کے بل بوتے پہ اپنے شوہر کے ساتھ ہر حال میں رہنے کا عزم کرچکی تھی۔ اور شہریار جیسے خود دار کردار تو صرف کہانیوں، فلموں اور ڈراموں میں ہی نظر آتے ہیں جو گھر آئی لکشمی کو ٹھکرا دیتے ہیں جو اپنے زورِ بازو پہ بھروسہ کرتے ہیں باقی رات رنم کو نیند ہی نہیں آئی۔ وہ شہریار اور راعنہ کے بارے میں ہی سوچتی رہی

Episode 24 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 24 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

زرینہ تیار ہو کر روبینہ آپا کے گھر آگئی تھی۔ وہاب حسب معمول اپنے آفس میں تھا۔ زرینہ نے اس کی عدم موجودگی سے اطمینان سا محسوس کیا۔ کیونکہ اس کی موجودگی میں کچھ چھپانا دشوار تھا۔ ایک دفعہ ذیان کے ساتھ کمال کا رشتہ طے ہوجاتا پھر بعد کی بعد میں دیکھی جاتی۔ فی الحال زرینہ وہاب کے تیور اور دھمکی دونوں سے خائف تھی۔ ”آپا جلدی کریں ناں۔“ وہ بڑے صبر سے روبینہ آپا کو بالوں میں برش کرتا دیکھ رہی تھی۔

اسے کمال احمد کے گھر جانے کی جلدی تھی وہ اسی مقصد کے لئے روبینہ آپا کی طرف آئی تھی۔ کل رات بطور خاص انہیں فون پہ یاد دہانی کروائی تھی کہ میرے آنے سے پہلے تیار رہیے گا ابھی آنے سے پہلے بھی اس نے آپا کو فون کیا تھا کہ میں گھر سے نکل رہی ہوں۔ یہاں پہنچی تو وہ اطمینان سے بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھیں۔

اسکے شور مچانے پہ انہوں نے کپڑے بدلے۔

بال بنانے کے بعد انہوں نے پورے آرام سکون کے ساتھ چادر اوڑھی پرس اٹھایا اور آئینے میں اپنا تنقیدی جائزہ لیا۔ ”چلیں۔“ روبینہ زرینہ کی طرف مڑی جو اضطراب کے عالم میں تھی۔ ”ہاں آپا چلیں پہلے ہی کافی دیر ہوگئی ہے۔“ زرینہ پہ عجلت سوار تھی۔

کمال کے گھر ان کا استقبال سب سے پہلے گیٹ پہ متعین چوکیداری نے کیا۔ زرینہ اندر آ کر جائزہ لینے میں مصروف تھی۔

گھر پرانے وقتوں کا تعمیر شدہ تھا اس لئے اس میں جدیدیت مفقود ہی تھی۔ کمال کی والدہ عفت خانم انہیں دیکھ کر پریشان اور ہراساں سی نظر آئیں حالانکہ زرینہ نے دو دن پہلے ہی اپنے آنے کی اطلاع کردی تھی۔

انہوں نے خیر مقدمی چہرے پہ سجاتے ہوئے حال احوال پوچھنے کے بعد دونوں بہنوں کو ڈرائنگ رو م میں لا بٹھایا یہاں جگہ جگہ بے ترتیبی نظر آرہی تھی شاید صفائی کرنے والی نہیں آئی تھی۔

زرینہ نے دل ہی دل میں اندازہ لگایا جو بعد ازاں درست ثابت ہوا عفت خانم شرمندہ انداز میں بتا رہی تھیں کہ صفائی کرنے والی پورے ہفتے سے غائب ہے۔ ”تب ہی گھر کا یہ حال ہے۔“ زرینہ نے دل میں کہا۔ عفت خانم گزشتہ چالیس منٹ سے اپنے دکھڑے رو رہی تھی اس دوران انہوں نے ایک بار مروتاً بھی دونوں بہنوں سے چائے پانی کا نہیں پوچھا۔ بہت دیر بعد جب روبینہ نے بے زار ہو کر زرینہ کو آنکھوں آنکھوں میں اٹھنے کا اشارہ کیا تو تب عفت خانم کو مہمانوں کی خاطر مدارات کا خیال آیا۔

”اصل میں ہماری کھانا بنانے والی پچھلے ہفتے سے اپنے گاؤں گئی ہوئی ہے۔ کھانابنا کر وہ فریج میں رکھ گئی تھی۔ کمال اور میں گرم کر کے کھالیتے ہیں۔ روٹی کمال ہوٹل سے لے آتا ہے۔ میں صرف چائے ہی مشکل سے بنا پاتی ہوں جوڑوں کے درد نے لاچار کردیا ہے کچھ بھی نہیں ہوتا مجھ سے۔ لیکن آپ دونوں تو خاص الخاص ہیں ہمارے لئے میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔

“ عفت خانم وضاحت دینے کے بعد باورچی خانے کی طرف چلی گئیں۔ روبینہ کی نگاہ پورے ڈرائنگ روم کا جائزہ لے رہی تھی۔ سامنے رنگ اتری دیوار پہ ایک تصویر فریم میں ٹنگی تھی انہوں نے سوالیہ نگاہوں سے بہن کی طرف دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ یہ کس کی ہے۔ زرینہ نے فوراً ان کا سوال سمجھ لیا۔ ”یہ کمال کی فوٹو ہے عفت خانم کا بیٹا تین بہنوں کا اکلوتا بھائی جس کا رشتہ ذیان کے لئے آیا ہے۔

“ روبینہ سرہلا کر رہ گئی۔ وہ معنی خیز نگاہوں سے زرینہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ انہیں عفت خانم، گھر اور کمال کی فوٹو کچھ بھی پسند نہ آیا تھا۔ بندا مہمانوں کا ہی خیال کرلیتا ہے۔ پورے ایک گھنٹے بعد عفت خانم کو چائے پانی کا خیال آیا تھا۔ روبینہ اٹھنا چاہ رہی تھی پر زرینہ نے ہاتھ پکڑ کر اس عمل سے باز رکھا۔ وہ کونسا یہاں خوشی سے بیٹھی تھی۔

رشتے کا خیال نہ ہوتا تو کب کی یہاں سے جاچکی ہوتی۔ فطرتاً وہ صفائی پسند اور سلیقہ مند عورت تھی۔یہاں جگہ جگہ گرد، مٹی، دھول اور بے ترتیبی دیکھ کر ان کی نفاست پسند طبیعت خراب ہونا شروع ہوچکی تھی۔اسی وجہ سے عفت خانم کی بنائی چائے کے چند گھونٹ زبردستی پیئے۔ کالی بد رنگ بد ذائقہ چائے تھی ساتھ باسی فروٹ کیک۔ حالانکہ زرینہ آتے ہوئے انکے گھر کیک، مٹھائی، اور کافی سارا موسمی فروٹ بھی لائی تھی۔

عفت خانم کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ ان میں سے ہی کچھ مہمانوں کے آگے رکھ دیتیں۔

چائے پی کر عفت خانم کے لاکھ روکنے کے باوجود دونوں وہاں سے اٹھ آئیں۔باہر نکل کر سکون کاسانس لیا جیسے جیل سے رہائی ملی ہو۔ عفت خانم کے گھر عجیب سی بساند پھیلی ہوئی تھی جو وہاں بیٹھے مسلسل محسوس ہوتی رہی پر زرینہ نے ایک بار بھی اظہار نہیں کیا۔ اُسے گھٹیا سی خوشی ہو رہی تھی۔

ذیان کو کمال کے گھر میں جو جو مسائل پیش آنے تھے اس کا اندازہ زرینہ کو قبل از وقت ہی ہوگیا تھا۔ ذیان کا سارا غرور نخرہ اکڑ دھری کی دھری رہ جانے والی تھی۔ امیر علی اپنے باپ کے گھر میں اس نے بہت عیش کر لئے تھے۔ اب عفت خانم کے گھر بھگتنے کی باری اس کی تھی۔ زرینہ بہت مسرور تھی۔

                                       

زرینہ امیر علی کے بیڈ کے پاس کرسی رکھے اس پہ بیٹھی آہستہ آواز میں بات کر رہی تھیں۔

سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔ ”میں دیکھ آئی ہوں آپا روبینہ کے ساتھ کمال کا گھر!!“اتنا بول کر وہ چپ ہوگئیں۔ وہ دراصل ان کے تجسس کو ابھارنا چاہ رہی تھی۔ امیر علی خاموشی سے اس کے اگلے جملے کا انتظار کر رہے تھے سو زرینہ خود ہی پھر سے شروع ہوگئی۔ ”اتنے بڑے گھر میں صرف عفت خانم تھیں کمال آفس میں تھا۔ انہوں نے اتنے اچھے طریقے سے خاطر مدارات کی ہے کہ دل خوش ہوگیا ہے۔

ذیان وہاں راج کرے گی راج۔ نہ کوئی روک نہ ٹوک سب اپنی مرضی سے کرے گی۔ میں تو کہتی ہوں کہ اب کوئی چھوٹی موٹی سی رسم ہی کرلیں اور ساتھ ہی شادی کی تیاری کریں۔“

”تمہیں اتنی جلدی کیوں ہے؟“ اس کی اتنی باتوں کے جواب میں انہوں نے مختصر سوال کیا پر زرینہ تیار تھی۔ ”کمال بہت اچھا لڑکا ہے انہیں شادی کی جلدی ہے ایسا نہ ہو یہاں سے مایوس ہو کر وہ کسی اور طرف کا رخ کرلیں اور ذیان بیٹھی رہ جائے۔

“ آخری جملے پہ امیر علی نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا۔ ”میری بیٹی میں کوئی عیب یا کردار میں خرابی نہیں ہے لاکھوں میں ایک ہے وہ… بہت اچھا مقدر ہوگا اس کا۔ اللہ نہ کرے وہ بیٹھی رہے۔“ امیر علی اچانک تلخ ہوگئے۔ 

زرینہ وقتی طور پہ خاموش ہوگئی پر امیر علی کا رویہ حیران کن تھا۔ وہ جتنا جلدی ذیان نامی بلا کو سر سے اتارنا چاہ رہی تھی اس میں اتنی ہی رکاوٹیں پیش آرہی تھیں۔

ادھر امیر علی کی محبت جاگ اٹھی تھی۔ ”میرا وہ مطلب نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔“ زرینہ نے فوراً مصلحت کا لبادہ اوڑھتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کیا۔ ”ذیان ماشاء اللہ خوبصورت ہے تب ہی تو کمال جیسے نوجوان کا رشتہ آیا ہے۔“ انہوں نے بمشکل خود کو”مرد“ کہنے سے روکا۔ ”ذیان میں کوئی کمی یا عیب نہیں ہے۔ میں تو ہر وقت آپ کی صحت کی طرف سے پریشان رہتی ہوں۔

میں کہتی ہوں آپ جلدی اس فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔“ بوجھ کہتے کہتے زرینہ نے بروقت فرض بولا تھا۔ دل ہی دل میں خود کو داد بھی دی۔ ”ہاں دیکھو کیا حکم ہے میرے رب کا۔ وہ اچھی ہی کرے گا۔“ امیر علی نے آنکھیں موند لی تھیں جیسے اب مزید کوئی بات نہ کرنا چاہ رہے ہوں۔ زرینہ کو دل میں بہت غصہ آیا۔

                                       

افشاں بیگم اور ملک جہانگیر دونوں لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔

موسم بہت خوبصورت تھا۔ ملک جہانگیر نے بہت دن بعد لان میں بیٹھ کر چائے پینے کی فرمائش کی تھی۔ ”ملک صاحب آپ اپنے دوست کے گھر دوبارہ کب جائیں گے۔“پہلے آپ بہت جلدی میں تھے۔“ افشاں بیگم کے دل میں اس وقت اچانک یہ بات آئی تھی۔ انہوں نے یہ قصہ چھوڑ کر ملک جہانگیر کی توجہ پھر سے اس زیر التواء مسئلے کی طرف مبذول کروا دی تھی۔ ”ہاں جاؤں گا، سیال کی طرف بھی۔

اس نے بولا تو تھا کہ پہلے اپنی بیٹی کی رائے لوں گا اس کے بعد بتاؤں گا۔“ چائے سپ کرتے ہوئے ملک جہانگیر نے اطمینان سے افشاں بیگم کو جواب دیا۔ ”ویسے معاذ کی جگہ ابیک کی بات چلا کر آپ نے اچھا نہیں کیا ہے ممکن ہے اس کے دل میں یہ بات ہو تب ہی تو میرا ابیک خاموش خاموش سا رہنے لگا ہے۔“ افشاں بیگم نے نازک سی بات کردی تھی۔ ”میں ابیک کا باپ ہوں اس کی مرضی کے بغیر اس کی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کیسے کرسکتا ہوں۔

“ ”آپ کی مہربانی ہوگی ملک صاحب اگر آپ ایسا کریں تو۔“ جواباً وہ مسکرانے لگے۔ ”تم فکر مت کرو۔“ ”ٹھیک ہے ملک صاحب میں فکر نہیں کرتی پر معاذ کے بارے میں بھی سوچیں وہ پردیس جا کر بیٹھ گیا ہے ایسا نہ ہو کہ کوئی گوری بغل میں داب کے لے آئے۔“ ایک ماں کی حیثیت سے افشاں کی پریشانی فطری تھی۔ ”معاذ کا بھی کرنا پڑے گا۔ کچھ۔ سچ پوچھو تو احمد سیال کی بیٹی میں نے اس نالائق کے لئے ہی پسند کی تھی۔ وہ ناخلف مجھے مشورہ دے رہا تھا کہ پہلے بڑے بھائی کی شادی کریں“ ملک جہانگیر تھوڑے تلخ ہوگئے تھے۔ اس لئے افشاں بیگم نے فوراً ہی ان سے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں۔

Episode 25 – Mein Gunman Nahid Yamen Hon By Nabila Ambar Raja

قسط نمبر 25 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

راعنہ پارلر جانے کے لئے تیار تھی۔ ملازمہ اس کا عروسی لباس اور دیگر چیزیں رکھ رہی تھی۔ کومل اور رنم دونوں اس کے ساتھ جارہی تھیں۔ ”تمہیں اپنا برائیڈل پسند ہے؟“ گاڑی پارلر جانے والی سڑک پہ مڑ رہی تھی جب کومل نے گھما پھرا کر تیسری بار یہی سوال کیا۔ ”ہاں مجھے بہت پسند ہے۔“ وہ پورے اعتماد سے بولی۔ ”تمہیں اس ڈیزی ڈریس کو پہن کر آکورڈ فیل نہیں ہوگا؟“

کومل نے اب ایک نئے زاویے سے سوال کیا۔

”کیوں آکورڈ فیل ہوگا ساری عمر اپنے پپا کے دئیے ہوئے پیسوں سے خریداری کی ہے بے دردی سے رقم خرچ کی ہے۔ یہ شہریار نے اپنی کمائی سے خریدا ہے مجھے فخر ہے اس پہ۔“ راعنہ اس بار قدرے غصے سے بولی تو کومل جہاں کی تہاں بیٹھی رہ گئی۔

دلہن بن کر راعنہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔

اس کا عروسی لباس اور جیولری اتنی قیمتی نہیں تھی پر ایسی گئی گزری بھی نہیں تھی۔

شہریار کو جاب شروع کیے اتنا زیادہ ٹائم نہیں ہوا تھا اس نے اپنی حیثیت کے مطابق ہی سب کچھ لیا تھا۔ نہ تو اس نے اپنے والدین سے شادی جیسا معاشرتی فرض نبھانے کے لئے کوئی مالی مدد لی تھی اور نہ ہی راعنہ کے پپا سے کچھ لینا گوارا کیا تھا۔ اسے اپنی محنت اور اللہ پہ بھروسہ تھا وہ اکثر نوجوانوں کی طرح شارٹ کٹ جیسے راستوں سے راتوں رات ترقی کی منازل طے کرنے والے خواب نہیں دیکھتا تھا۔

اس نے اللہ کا نام لے کر جاب کیساتھ ساتھ اپنا پارٹ ٹائم بزنس بھی شروع کردیا تھا۔ یہ اسی کی برکت تھی کہ اس نے راعنہ کے لئے شادی کی خریداری کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا چھوٹا سا گھر بھی خرید لیا تھا۔

اسے جب راعنہ کے برابر لا کر بٹھایا گیا تو انجانے سے تفاخر سے اس کی گردن اور سر اوپر اٹھا ہوا تھا۔

اس کی آنکھوں اور چہرے کی چمک بتا رہی تھی کہ راعنہ کے مقابلے میں اپنی حیثیت پہ شرمندہ نہیں ہے۔

اس کے پاس راعنہ کے پپا جتنی دولت نہیں تھی لیکن اس کے انداز اورشخصیت سے کسی بھی قسم کا احساس کمتری نہیں جھلک رہا تھا۔

رنم، راعنہ سے قدرے دور کھڑی اسے دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی۔اگر ایسا برائیڈل ڈریس اس کا ہوتا تو وہ اتنے مہمانوں کے بیچ کبھی نہ پہنتی۔ پر راعنہ کتنی مسرور تھی۔ رنم کے لئے تو یہ بات ہی حیران کن تھی کہ شہریار، راعنہ سے کم حیثیت ہونے کے باوجود سسرال سے کسی بھی قسم کی مدد نہیں لے رہا تھا۔

وہ چاہتا تو بہت آسانی سے سب کچھ حاصل کرسکتا تھا کیونکہ راعنہ کے پپا بیٹی کو گھر، گاڑی، بنک بیلنس بیش قیمت فرنیچر، زیورات سب کچھ ہی تو دینا چاہ رہے تھے۔ پر شہریار نے سب کچھ لینے سے انکار کردیا تھا اور راعنہ کو بھی سختی سے منع کیا تھا۔

رنم جلد از جلد گھر جا کر اپنے پپا سے یہ خبر شیئر کرنا چاہ رہی تھی۔

                                   

روبینہ آپا آئی ہوئی تھیں۔

کمال اور عفت خانم کے گھر سے واپسی کے بعد آج روبینہ کے یہاں ان کا پہلا چکر تھا۔ اس کے بعد بہن سے ان کی بات ہی نہیں ہوئی۔ وہ معلوم کرنا چاہ رہی تھیں کہ کمال کے بارے میں امیر علی نے کیا فیصلہ کیا ہے۔

اِدھر اُدھر کی باتوں کے دوران روبینہ نے اچانک بہن سے یہ سوال کرلیا۔

”امیر بھائی نے کیا فیصلہ کیا کمال کے رشتے کے بارے میں؟“

”ابھی تک تو اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا ہے۔

تمہارے بھائی کہتے ہیں کہ اتنی جلدی کاہے کی ہے۔“ وہ برا سا منہ بناتے بولی۔ ”ویسے سچ پوچھو تو مجھے کمال کی ماں سے مل کر ذرا بھی کسی خلوص یا گرمجوشی کا احساس نہیں ہوا پھر گھر کی حالت کیسی عجیب سی ہے اوپر سے کمال کی جو فوٹو میں نے دیکھی مجھے تو کمال بھی پسند نہیں آیا ہے۔ اتنی زیادہ عمر کا لگ رہا ہے۔ کم سے کم لڑکا ذیان کے جوڑ کا ہو۔“ روبینہ نے تو بڑے عام سے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا پر زرینہ بیگم کو بہت غصہ آیا۔

روبینہ آپا، کمال، اسکے گھر اور اس کی ماں عفت خانم کے خلاف بولتے ہوئے در حقیقت ذیان کی سائیڈ لے رہی تھیں اور یہی اس معاملے کا اختلافی پہلو تھا۔

”اتنی بھی زیادہ عمر کا نہیں ہے کمال… رہی گھر کی بات تو اچھا کماتا کھاتا لڑکا ہے گھر بھی ٹھیک کروا لے گا۔ ذیان کے عیش ہوں گے۔ نندیں اپنے گھروں کی ہیں ساس بوڑھی اور بیمار ہے اس کا اپنا راج ہوگا۔

زرینہ بڑھ بڑھ کر کمال کی حمایت میں بول رہی تھی۔ پر بہن کے لاکھ چاہنے کے باوجود بھی وہ اسے متفق نہیں ہو پا ئی تھیں۔ کچھ بھی سہی وہ لاکھ بری ہونے کے باوجود زرینہ کی طرح دشمنی اوربد گمانی میں اندھے ہوجانے والوں میں شامل نہیں تھیں۔ وہاب ان کا لاڈلہ بیٹا ذیان کی محبت میں پاگل تھا۔ اس کی خوشی دیکھتے ہوئے روبینہ ماں ہونے کی حیثیت سے چاہ رہی تھی کہ ذیان کا رشتہ وہاب سے طے ہوجائے۔

پر زرینہ ان کی ماں جائی اس حق میں نہیں تھی۔ روبینہ اپنی بہن کی فطرت، ہٹ دھرمی اور ضد سے اچھی طرح واقف تھیں اس لئے انہیں ایک فی صد بھی امید نہیں تھی کہ زرینہ اس رشتے پہ آمادہ ہوگی۔ اسی لئے وہ خاموش ہوگئی تھیں۔ پر کمال کی صورت میں زرینہ نے ذیان کے لئے جو رشتہ اسے دکھایا تھا وہ بھی ذیان کے لئے ہر لحاظ سے ناموزوں تھا۔ چپ چاپ خاموش گہری اداس آنکھوں والی ذیان پہ نہ جانے کیوں انہیں رہ رہ کر ترس آرہا تھا۔

آپا روبینہ کے منہ سے کمال کی زیادہ عمر والی بات انہیں بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ امیر علی کے بعد آپا کے منہ سے بھی یہی اعتراض زرینہ کوبھایا نہیں۔ عمر سے کچھ نہیں ہوتا مرد کی قابلیت دیکھی جاتی ہے۔ کمال خوب کما رہا ہے(یہ الگ بات اس کے گھر کی حالت زار اور عفت خانم کی مہمان نوازی سے کمال کا خوب کماؤ پوت ہونا ثابت نہیں ہو رہا تھا) ذیان کو ہر خوشی اور سہولت دے سکتا ہے۔

کسی عورت کی طلب کی یہ آخری حد ہوتی ہے کہ اس کی ضروریات و خواہشات پوری ہوتی رہیں۔ زرینہ بیگم کے پاس اپنے دلائل اور اپنا دماغ تھا۔

ذیان کالج سے لوٹی تو گھر میں سناٹا تھا۔ ویسے بھی اس وقت سب کھانا کھا کر آرا م کرتے تھے۔ آفاق، رابیل اور مناہل اس سے پہلے گھر آتے اور کھانا کھا کر اپنے اپنے کمرے کی راہ لیتے۔

 Episode 26 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 26 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان کی کالج سے گھر واپسی پہ کوئی بھی باہر نہ نکلتا سوائے بوا کے۔ وہ ایک ماں کی طرح اس کا خیال رکھتی اور ایک ایک چیز کی فکر کرتی۔ عرصہ دراز سے اس گھر میں تھیں سو مکینوں کے مزاج سے واقف تھیں۔

ذیان نے بیگ ٹیبل پہ رکھا۔ پاؤں جرابوں اور شوز کی قید سے آزاد کیے۔ موسم میں خنکی تھی اس نے لینن کا سوٹ الماری سے نکالا اور یونیفارم اتار کر وہی پہنا۔

کپڑے بدل کر وہ باہر ہی آرہی تھی جب بوا سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ ”السلام علیکم بوا۔“ ذیان نے خوشگوار لہجہ میں کہا تو وہ نہال سی ہوگئیں۔ کتنے دن بعد انہوں نے آج اس کا ہلکا پھلکا موڈ دیکھا۔ وہ اداس یا پژمردہ نظر نہیں آرہی تھی۔

”کیا بات ہے آج بہت خوش نظر آرہی ہو بیٹی۔“ انہوں نے محبت سے اسے تکتے پوچھا۔ ”بوا کل سے ہمارے کالج میں سٹوڈنٹس ویک شروع ہو رہا ہے میں نے بھی ایک ڈرامے میں حصہ لیا ہے کل وہ ڈرامہ ہماری کلاس کالج اسٹیج پہ ایکٹ کرے گی۔

سب میری بہت تعریف کر رہے ہیں۔ آپ کو کیا بتاؤں۔“ وہ بے پناہ خوش تھی۔ ”اچھا تو کل تم ڈرامے میں حصہ لو گی؟“ اسے خوش دیکھ کر بوا بھی خوش تھیں۔ ”بوا کل میں اپنی فرینڈز کے ساتھ کالج جاؤں گی ڈرائیور کے ساتھ نہیں۔“ ”ہاں میں اسے بتا دوں گی تم بے شک اپنی سہیلیوں کے ساتھ چلی جانا۔ اب تم آؤ ہاتھ منہ دھو کر میں کھانالا رہی ہوں۔“

”بوا آج مجھے بھوک نہیں ہے۔

“ ”کیسے بھوک نہیں ہے میں نے تمہاری پسند کی چیزیں بنائی ہیں۔“ بوا نے پیار بھرا اصرار کیا۔ ”رات کو کھالوں گی ناں سچی ابھی بھوک نہیں ہے آپ چائے کے ساتھ دو کباب فرائی کردیں مجھے۔“ بوا مایوس سی ہوگئی تو ذیان سے رہا نہیں گیا جھٹ چائے کا بول دیا۔ ”میں ابھی لاتی ہوں۔“ بوا کا چہرہ پھول کی طًرح کھل اٹھا۔ وہ کچن میں گئی تو ذیان پھر سے کل کے دن کے خیال میں ڈوب گئی جب کل اسے اسٹیج پہ ڈرامے ایکٹ کرنا تھا اپنا رول ادا کرنا تھا۔

رات سر پہ آگئی تھی اورنیند تھی کہ آنے کا نام نہ لے رہی تھی۔ کروٹیں لینے کے باوجود نیند کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ذیان بستر سے اٹھی اور کپڑوں کی الماری کے ساتھ مصروف ہوگئی۔ کچھ دیر بعد وہ اسے کھول چکی تھی۔ اوپر والے خانے میں ایک کالا شاپر رکھا تھا۔ ذیان نے ہاتھ بڑھا کر وہ شاپر اتارا۔ اندر شاپر میں امیر علی کا براؤن کرتا اور سفید شلوار تھی۔

ایک چھوٹے لفافے میں نقلی مونچھیں تھیں ساتھ ہی استعمال کے عام چپل بھی تھے جو سائز میں اس کے نرم و نازک پاؤں سے تھوڑے سے زیادہ تھے۔ اس نے یہی سوٹ پہن کر اور نقلی مونچھیں لگا کر ریہرسل کی تھی اور سب ٹیچرز، ساتھی طالبات سے خوب داد وصول کی تھی۔ آواز بدلنے میں اسے کافی تجربہ ہوگیا تھا یہی وجہ ہے جب وہ اپنے مکالمے بول رہی تھی تو بالکل بھی نہیں لگ رہا تھا کہ یہ آواز کسی لڑکی کی ہے۔

بالکل مردانہ آواز محسوس ہو رہی تھی۔

ذیان نے شاپر بستر پہ اپنے سرہانے رکھ لیا۔ لائیٹ بند کر کے وہ پھر سے بستر پہ دراز ہوگئی۔ اس بار نیند کے مہربان ہونے میں دیر نہیں لگی تھی۔

صبح اس کی آنکھ معمول سے پہلے کھلی لیکن اس کے لئے یہ مناسب وقت تھا۔ وہ دوبارہ سوئی نہیں، باتھ روم میں جا کر کپڑے تبدیل کئے۔ اب اس کے جسم پہ براؤن مردانہ کرتا اور سفید شلوار تھی۔

کرتا بہت کھلا اور شلوار لمبی تھی۔ شلوار اس نے نیفے والی جگہ سے موڑ کر اندر کرلی۔ اب اس کی لمبائی اتنی زیادہ نہیں لگ رہی تھی مگر کرتا جوں کا توں تھا۔ یہ بات اس کے حق میں جا رہی تھی کیونکہ کھلے کرتے نے اس کی جسمانی نشیب و فراز کو کافی حد تک چھپا لیا تھا ویسے بھی تو وہ دبلی پتلی سی تھی۔ اب بالوں کا مسئلہ تھا۔ ذیان کے بال لمبے کمر سے نیچے تک جارہے تھے اس نے موڑ کر بل دے کر چٹیا سی بنائی۔

پھر اسی چٹیا کو بل دے کر سر کے گرد گولائی میں لپیٹ کر سر کے بالوں پہ مضبوطی سے ڈھیر سی پنیں لگا دیں اب بالوں کا آسانی سے کھلنا مشکل تھا۔ پھر ذیان نے اپنی سفید چادر نما دوپٹے کو اس نے سر کے گرد پگڑی کی صورت میں لپیٹ دیا اب اس کے سر کے بال اور ماتھے کے اوپر والا حصہ پگڑی میں چھپ گیا تھا۔ کانوں میں پہنی گئی چھوٹی چھوٹی بالیاں وہ رات کو ہی نکال چکی تھی۔

باقی کسی قسم کی جیولری وہ پہنتی ہی نہیں تھی۔ ہاں کلائی میں ایک موٹا سا کڑا خاص طور پہ پہنا تھا جو لڑکے عام طور پہ پہنتے ہیں۔

ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے ناخن وہ کاٹ چکی تھی۔ تیار ہونے کے بعد اس نے خود کو آئینے میں دیکھا تو ایک ثانیے کے لئے پہچان ہی نہیں پائی کہ آئینے میں نظر آنے والی صورت اسی کی ہے۔ مونچھیں لگانے سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی۔

اب کہیں سے بھی وہ لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔ بلکہ دبلا پتلا نو عمر لڑکا نظر آرہی تھی۔

ڈھیلے ڈھالے کرتے اور نقلی مونچھوں کے اضافے نے بہت کچھ چھپا لیا تھا۔ وہ اپنے بہروپ سے پوری طرح مطمئن تھی۔ بس گھر سے نکلنے کا مرحلہ باقی تھا۔

بوا کو اس نے رات میں ہی کہہ دیا تھا کہ صبح وہ ناشتہ نہیں کرے گی نہ ڈرائیور کے ساتھ کالج جائے گی۔ چھ سات ماہ سے وہ ڈرائیور کے ساتھ کالج جارہی تھی ورنہ اس سے پہلے وین اسے کالج چھوڑتی اور گھر واپس لاتی تھی۔

جب سے نیا ڈرائیور آیا تھا تب سے وہ اسی کے ساتھ جاتی تھی۔

پر آج ڈرائیور کے ساتھ کالج جانا اس کے پروگرام میں شامل نہیں تھا۔ صبح کے سات بجتے ہی ذیان نے اپنے کمرے کا دروازہ ذرا سا کھول کر خود کو پیچھے کیے کیے باہر جھانکا۔ کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ رابیل، مناہل اور آفاق تینوں آٹھ بجے ڈرائیور کے ساتھ گھر سے نکلتے۔ ذیان بھی ان کے ساتھ ہوتی تھی۔

وہ سب سے آخر میں ذیان کو کالج چھوڑتا۔ پر آج ذیان نے پروگرام بدل لیا تھا۔

بوا اٹھ چکی تھی اور ناشتے کی تیاری میں لگی تھیں ان کے ساتھ مدد کروانے کے لئے ثمینہ بھی تھی۔ گویا ذیان کے لئے میدان صاف تھا۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل پہ پڑی امیر علی کی مردانہ رسٹ واچ اٹھا کر اپنی کلائی پہ باندھی۔ یہ قیمتی مردانہ گھڑی اس کی کلائی میں کافی ڈھیلی تھی۔

پر ذیان کو غنیمت لگ رہی تھی۔ امیر علی کی یہ گھڑی کافی پرانی تھی کچھ دن پہلے ہی ذیان کو دراز میں سب سے نچلے حصے میں پڑی نظر آئی تو اس نے اٹھا کر اپنے کمرے میں رکھ دی۔ یہ رسٹ واچ اس مردانہ بہروپ پہ بہت کام آرہی تھی جو ذیان نے اس وقت دھارا ہوا تھا۔

پاؤں میں ناپ سے قدرے بڑے سلیپر پہن کر اس نے آخری بار آئینے میں خود کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھا۔

بہروپ مکمل تھا۔ اس نے مطمئن ہو کر گھر سے نکلنے سے قبل ایک بار پھر باہر کا جائزہ لیا۔ کچن اس کے بیڈ روم کے مخالف سمت میں قدرے الگ جگہ بنا ہوا تھا وہ اگر اپنے کمرے سے نکل کر بیرونی گیٹ تک جاتی تو کسی کی بھی نظروں میں نہ آتی کیونکہ بوا اور ثمینہ کچن میں اپنے کام میں لگی ہوئی تھیں۔ زرینہ بیگم نو بجے بیدار ہو کر ناشتہ کرتیں۔ تینوں بچے سکول کے لئے تیار ہو رہے تھے جبکہ ڈرائیور اپنے کوارٹر میں تھا۔

فی الحال کوئی اور نہیں تھا جس کی نظر ذیان پہ پڑتی۔ اس نے آہستگی سے دروازہ کھول کر کمرے سے باہر پہلا قدم رکھا۔ اور پھر تقریباً بھاگنے والے انداز میں کمرے سے گیٹ تک کا فاصلہ طے کیا۔ گیٹ سے باہر کوئی ذی نفس نظر نہیں آرہا تھا۔

ذیان نے وہیں کھڑے ہو کر اطمینان سے حواس درست کیے اور چند لمبی لمبی سانسیں لیں۔ اس کی حالت اب اعتدال پہ آچکی تھی، چہرے پہ اڑتی ہوائیوں کا بھی خاتمہ ہوچکا تھا۔

اب وہ بالکل پر اعتماد روپ میں تھی۔ ہاتھ میں کالا شاپر تھامے جس میں اس کے کالج کا سفید یونیفارم تھا وہ حتی الامکاں مردانہ انداز میں چلنے کی کوشش میں آگے کی طرف جارہی تھی۔ نپے تلے ہموار قدم۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اپنے گھر سے کافی آگے نکل آئی تھی۔ گلی مڑتے ہی مسز طارق کا نو سالہ بیٹا اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ ذیان نے بے اختیار اسے پکڑا۔

وہ ذیان کو ہی دیکھ رہا تھا۔ خود کو پہچان لیے جانے کے خوف سے وہ کچھ دیر اسی پوزیشن میں کھڑی رہی۔ نو سالہ نعمان اپنے گھر کے گیٹ کے آگے اپنی سکول وین کے انتظار میں کھڑا تھا۔ ”نعمان کچھ دیر اسے غور سے دیکھتا رہا۔ جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ ”تم غبارے والے ہو ناں۔ غبارے کہاں ہیں تمہارے۔“ کچھ ثانیے کے بعد وہ بولا تو ذیان کی جان میں جان آئی۔ ”غبارے ختم ہوگئے ہیں۔“ ذیان نے بھاری مردانہ آواز میں کہا اور فوراً قدم آگے بڑھائے۔ وہ یہاں رکنا نہیں چاہ رہی تھی۔ نوسالہ نعمان سوچ رہا تھا کہ غبارے والے کے غبارے اتنی صبح صبح کیسے ختم ہوگئے ہیں جبکہ ابھی تک اس کی وین بھی نہیں آئی ہے۔ غبارے والے کی آواز بھی عجیب سی تھی۔ ذیان نے کچھ دور جا کر پھر سے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

Episode 27 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 27 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

نعمان کی وین آگئی تھی۔ وہ بھاگ کر سوار ہوا۔ ذیان نے دوبارہ قدم آگے بڑھائے۔ اس کا دل خوشی سے بلیوں اچھل رہا تھا۔ سرمستی کا احساس رگ و پے میں بھر چکا تھا۔ اسے پہچانا نہیں گیا ہے وہ نئے روپ میں قبول کی جاچکی ہے گویا اس نے ڈرامے کے لئے جو مردانہ روپ دھارا تھا وہ سو فی صد کامیاب تھا۔ بہروپ مکمل تھا۔ یہ خیال آتے ہی اس کی چال میں اور بھی اعتماد آگیا تھا۔

وہ ٹہلنے کے انداز میں آرام سے چلنے لگی۔ کچھ آگے چند قدموں کے فاصلے پہ ایک مارکیٹ تھی زیادہ تر دکانیں بند تھیں ایک آدھ ہی کھلی تھی۔ دکانوں سے آگے کنارے پہ کھڑے دو آدمی آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ذیان نے فوراً ایک فیصلہ کیا اور عمل بھی کرڈالا۔ وہ ان دو آدمیوں کے پاس پہنچ گئی۔ ”بھائی جان P.c.o کدھر ہے؟“ اس نے لہجے میں حتی الامکان اکھڑ پن سمونے کی کوشش کی وہ اچانک ان کے سامنے آئی تھی دونوں اپنی اپنی باتوں میں مصروف تھے۔

جب دبلے پتلے لڑکے نے انہیں مخاطب کیا۔ وہ منتظر نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ موٹی موٹی مونچھوں کے برعکس اس کے چہرے پہ بڑی ملاحت تھی۔ مونچھیں کسی طرح بھی اس کی پوری شخصیت کے ساتھ میل نہیں کھا رہی تھیں۔

دونوں آدمیوں میں سے ایک نے بڑے غور سے اس کی سمت دیکھا۔ اس کا رنگ سانولا جسم مضبوط اور آنکھوں میں سرخی تھی تیر چھیدتی نگاہ تھی اس کی۔

”یہاں کوئی P.c.o نہیں ہے۔ ہمارے گھر آؤ پاس ہی ہے فون کرلینا ساتھ دو چار باتیں کریں گے چائے پانی بھی پی لینا۔ ویسے اس شہر کے لگتے نہیں ہو۔“

دوسرے آدمی نے آفر کی۔ یہ پہلے کی نسبت کالا اور بھاری ڈیل ڈول کا مالک تھا۔ چہرے پہ چیچک کے داغ تھے جو اس کی بدنمائی میں اور بھی اضافہ کر رہے تھے۔ پہلے والے آدمی نے ذیان کے پاؤں میں موجود اس کے سائز سے بڑے جوتوں کو معنی خیز چبھتی نگاہوں سے دیکھا۔

اور ساتھ ہی دوسرے آدمی کو ہاتھ سے کوئی اشارہ کیا جسے ذیان بالکل بھی نہیں سمجھ پائی۔ 

دونوں اب ذیان کے نرم و نازک گلابی پاؤں کو غور سے دیکھ رہے تھے انہوں نے آپس میں نگاہوں کی زبان میں کوئی بات کی۔ ذیان کے دل میں خدشات کا الارم زور و شور سے بجنے لگا۔ ”نہیں بھائی جان میں آگے جا کر کہیں اور سے فون کرلوں گا۔“ ان دونوں مردوں کی ہوس ناک نگاہوں کو اس نے عورت کی فطری حس کی وجہ سے فوراً پڑھ لیا۔

وہ جلد از جلد ان سے دور ہونا چاہ رہی تھی۔ لیکن ان کے تیور ہرگز ایسے نہیں تھے جو آسانی سے اسے جانے دیتے۔ ایک ذیان کے دائیں اور دوسرا بائیں جانب آ کر کھڑا ہوگیا۔ ”کیا مکھن ملائی لونڈا ہے تو یار… لگتا ہے اوپر والے نے لڑکی بناتے بناتے بالکل آخری وقت میں تمہیں لڑکا بنا دیا ہے۔“ ایک نے ذیان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے یہ جملہ سو فی صد اسی کے بار ے میں کہا تھا۔

اپنے کندھے پہ پڑا ہاتھ ذیان کو کسی سانپ کی مانند زہریلا محسوس ہوا۔ اس نے تیزی سے اس آدمی کا ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے قدم آگے بڑھائے۔ وہ دونوں بھی اس کے ساتھ چلنا شروع ہوگئے۔ ذیان کی کوشش تھی جلد از جلد ان سے آگے نکل جائے۔ اگلے موڑ پہ P.c.o نما کھوکھا تھا۔ وہ سوچے سمجھے بغیر اس کی سمت بڑھی۔

اندر دو تین آدمی تھے اس کے دل کو ڈھارس سی ہوئی۔

ذیان کو کھوکھے کی سمت لپکتا دیکھ کر وہ دونوں اُدھر ہی رک گئے۔ تاہم ذیان اب بھی ان کی نگاہوں کا مرکز تھی۔ ”مینوں فون کرنا اے(مجھے فون کرنا ہے) ذیان نے اپنی طرف سے بڑی گاڑھی پنجابی بولی۔

کھوکھے کے باریش مالک نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور سامنے پڑا فون سیٹ اس کی سمت کھسکایا۔ ذیان نے اعتماد سے اپنی ایک کلاس فیلو کا نمبر ملایا دوسری طرف سے کسی ملازم نے فون اٹینڈ کیا۔

”السلام علیکم طارق گل کر دا آں(السلام علیکم طارق بات کر رہا ہوں) وہ دوسری طرف کی سنے بغیر شرو ع ہوگئی۔ ”باریش آدمی نے اپنے سامنے کھڑے دوسرے گاہک کو دیکھا اور پھر باتیں کرتی ذیان کو۔“ اللہ کی شان یہ نرم و نازک نوجوان بالکل لڑکی لگ رہا ہے۔“ باریش شخص نے یہ جملہ اپنے سامنے کھڑے دوسرے آدمی سے ذیان کی سمت اشارہ کرتے ہوئے ادا کیا۔ وہ فون پہ اپنی ہی ہانک رہی تھی ورنہ سن کر پریشان ہوجاتی۔

بات ختم کر کے اس نے مطلوبہ رقم باریش آدمی کے ہاتھ پہ رکھی اور آگے کی سمت بڑھ گئی۔

جونہی وہ کھوکھے سے باہر آئی وہ دونوں آدمی بھی فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے چل پڑے۔ ان کی نظر ذیان پہ تھی اس بات سے بے خبر سوزو کیوں کے اڈے کی طرف جارہی تھی۔ وہاں بڑی چہل پہل تھی۔ پاس ہی مین روڈ تھا۔ سکول، کالج دفاتر میں آنے جانے والے اپنی اپنی گاڑی کے انتظار میں تھے۔

ذیان کو فوراً اپنے کالج کے روٹ کی سوزوکی مل گئی اور وہ اس میں سوار ہوگئی۔

اسکے ساتھ وہ دونوں آدمی بھی سوزوکی میں سوار ہوگئے۔ ذیان سے پہلے دو آدمی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے لیڈیز والی ساری سیٹیں خالی تھیں۔ ذیان اس طرف بیٹھی تھی۔ ذرا دیر بعد حواس قابو میں آئے تو اس کی نگاہ فوراً انہی دو آدمیوں پہ پڑی۔ وہ ذیان کو ہی دیکھ رہے تھے۔

غلیظ خباثت بھری نگاہیں جو ان کے ہوس ناک ارادوں کا پتہ دے رہی تھیں۔ وہ کسی طرح بھی اس کا پیچھا چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اگلے سٹاپ سے عورتیں سوار ہوئیں تو کلینر نے ذیان کو مردوں والے حصے کی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ ”بھائی وہاں بیٹھو یہ لیڈیز سیٹیں ہیں۔“ ناچار ذیان مردوں والے حصے کی آخری سیٹ پہ بیٹھ گئی۔ بھاری ڈیل ڈول رکھنے والے آدمی کا کندھا اس کے کندھے سے ٹکرا رہا تھا۔

وہ جان کر مزید اس کے قریب ہوا تو ذیان بالکل کونے کی طرف ہوگئی۔ پہلی بار اسے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ سوزوکی دوبارہ چلنے لگی۔ آگے جا کر ذیان کی دو کلاس فیلوز سوار ہوئیں تو اس کی جان میں جان آئی۔ ”وہ جھٹ اپنی سیٹ سے اٹھی اور ان کے برابر بیٹھ گئی۔ ”اندھے ہو کیا نظر نہیں آتا۔ یہ عورتوں کی سیٹ ہے۔“ اس کی کلاس فیلو سدرا دھاڑ سے مشابہہ آواز میں غرائی۔

ذیان کے چہرے پہ پسینے کے قطرے ابھر آئے۔ کیونکہ سب مرد اسے دیکھ رہے تھے۔ کیا خبر سدرا کے شور مچانے پہ اس کی ٹھکائی ہی نہ شروع کردیتے۔

”سدرا یہ میں ہوں ذیان۔“ وہ سرگوشی سے مشابہہ آواز میں بولی۔ سدرا نے اسے غور سے دیکھا جی بھر کے حیران ہوئی وہ اسے پہچان چکی تھی۔ آواز سو فی صد ذیان کی تھی۔ کیونکہ وہ اصلی آواز میں بولی تھی۔ غور سے دیکھنے پہ نقوش بھی مانوس ہوگئے۔

مگر ذیان کی یہ بے تکی حرکت اور گیٹ اپ اسے بہت الجھا رہا تھا۔ پر اس وقت وہ سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ذیان نے ہونٹوں پہ انگلی رکھتے ہوئے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ گاڑی میں موجود سب مردوں کی نگاہیں انہی کا طواف کر رہی تھیں۔ وہ دبلا پتلا نو عمر لڑکا جس کے چہرے پہ موجود مونچھیں عجیب سا تاثر دے رہی تھیں ان دو لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور وہ لڑکیاں اب شور بھی نہیں کر رہی تھیں۔

جو کہ خلاف عقل تھا۔ سب اپنی عقل کے مطابق قیاس کے گھوڑے دوڑا رہے تھے۔ سانولا کالا آدمی اور اس کا دوسرا ساتھی مایوس ہوچکے تھے کہ زور دار لونڈا ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے اس کم بخت کا آنکھ مٹکا تو ایک ایک نہیں دو دو لڑکیوں کے ساتھ تھا۔ کالج گیٹ کے سامنے جونہی سوزوکی رکی تو ذیان سب سے پہلے چھلانگ مار کر اتری۔ تیزی سے اترنے کی وجہ سے اس کی مونچھ کی ایک سائیڈ جلد سے الگ ہو کر اس کے ہونٹوں پہ جھک آئی تھی۔

ذیان غڑپ سے کالج گیٹ سے اندر غائب ہوچکی تھی۔ سوزوکی میں موجود سب لوگ ادھر ہی دیکھ رہے تھے۔، ان دو آدمیوں کی حالت دیکھنے والی ہو رہی تھی جو ذیان کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔

گیٹ سے اندر چوکیدار ذیان سے سوال جواب کے لئے تیار تھا۔

سدرا اور نائلہ پیچھے پیچھے تھیں۔ چوکیدار سے کلیئر ہونے کے بعد تینوں آگے بڑھیں۔ ”میں نے تو صرف ایڈونچر میں آ کر ایسا کیا کہ دیکھوں اس روپ میں کوئی مجھے پہچانتا ہے کہ نہیں۔

سب سے چھپ کر گھر سے نکلی ڈرائیور کو بھی منع کردیا کہ دوستوں کے ساتھ جاؤں گی۔“ وہ انہیں اپنی بیوقوفی دوسرے الفاظ میں ایڈونچر کے بارے میں بتا رہی تھی۔

”تمہاری اس بے وقوفی کی وجہ سے تمہیں اگر کچھ ہوجاتا تو…!!“ نائلہ غصے سے بول رہی تھی۔ ”ہوا تو کچھ نہیں میں بس ان دو آدمیوں کی وجہ سے پریشان ہوگئی تھی۔ لیکن اب ٹھیک ہوں۔“ وہ اندرونی خوف و بزدلی پہ قابو پاتے ہوئے(جس سے کچھ دیر بیشتر وہ دو چار ہوئی تھی) ہنس دی۔

پر سدرا اور نائلہ دونوں کو اس کی بات پہ یقین نہیں آیا۔ ”اس وقت تو ہوائیاں اڑ رہی تھیں چہرے پہ یہ کیسے گاڑی میں میرے ساتھ چپکی جارہی تھی۔“ سدرا چہک کر بولی۔ ”اچھا جو بھی ہے یہ بتاؤ لگ رہا ہوں نا لڑکا؟“ ان کے سامنے اکڑ کر ذیان سٹائل سے کھڑی ہوگئی۔ آس پاس سے گزرنے والی طالبات بھی رک کر انہیں دیکھنے لگ گئی تھیں۔ ”ہاں لگ تو رہے ہو نرم نرم سے لڑکے۔

“ سدرا قدرے چہک کرعاشقانہ انداز میں بولی۔ ذیان نے جھینپ کر اسے ایک دھپ لگائی۔“ مجھے تمہاری اس حماقت پہ ابھی تک یقین نہیں آرہا ہے میری اس شوق و تجسس میں کہ اس گیٹ اپ میں تم لڑکا لگتی ہو کہ نہیں تم صبح و سویرے گھر سے ایسے نکل آئی۔ نتائج تک کی پرواہ نہیں کی۔ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔“ نائلہ اسے سمجھانے کے موڈ میں تھی۔ ”آئندہ ایسے نہیں کروں گی۔

یہ تو ڈرامے کی وجہ سے اچانک میرے دل میں یہ عجیب خیال آیا۔“ ”عجیب نہیں واہیات نامعقول خیال کہو۔“ سدرا نے تیزی سے کہا۔ ”شکر کرو بچ گئی ہو۔“ نائلہ نے ایک بار پھر اسے فہمائشی نگاہوں سے دیکھا۔ ذیان نے جان چھڑانے والے انداز میں ان کے سامنے ہاتھ جوڑے۔

تینوں ہال میں پہنچ چکی تھیں۔ جہاں سب طالبات اور ٹیچرز جمع تھیں۔ ذیان ڈرامے کی ٹیم کی طرف آ

– میں گمان نہیں یقین

Episode 28 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 28 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال کھانا کھا رہے تھے رنم انہیں راعنہ کی شادی کی روداد سنا رہی تھی۔ ”پپا راعنہ کے ان لازنے کوئی ڈیمانڈ نہیں کی ہے اور نہ کوئی جہیز لیں گے وہ لوگ۔“ ”اچھا۔“ احمد سیال کو سن کر حیرانی نہیں ہوئی وہ نارمل موڈ میں تھے۔ رنم کا چہرہ بجھ سا گیا۔ اس نے اپنے تئیں زبردست عجیب و غریب شاکڈ کرنے والی بات بتائی تھی لیکن پپا نے کوئی خاص رسپانس نہیں دیا۔

”تم کب تک فری ہوگی؟“ احمد سیال نے کھانا کھاتے کھاتے سوال کیا۔ ”کیوں پپا؟“ ”تم راعنہ کی شادی کی مصروفیت سے فری ہوجاؤ تو انفارم کرنا۔“ وہ مبہم سے انداز میں بولے۔ ”کیوں پپا؟“ اس نے پھر سوال کیا۔ ”میں نے تمہیں بتایا تو تھا میرے دوست جہانگیر ملک نے تمہارے لئے اپنے بیٹے کا پروپوزل دیا ہے۔ تمہارے اگزام کے دوران وہ آیا تھا۔

“ ”ہاں مجھے یاد آرہا ہے آپ نے ذکر کیا تھا۔

“ اس نے بھی احمد سیال کے انداز میں کہا۔

”میں ملک جہانگیر کی فیملی کو بلواتا ہوں کسی دن۔ تم بھی مل لو۔“وہ نپکین سے ہاتھ صاف کر کے اٹھ کھڑے ہوئے۔

رنم نے ان کی بات کا جواب نہیں دیا تو انہوں نے سیدھے اسٹڈی روم کا رخ کیا۔ رنم ادھر ہی بیٹھی دل ہی دل میں پپا سے خفا ہو رہی تھی۔پر ابھی اس کے پاس لمبی چوڑی ناراضگی دکھانے کا ٹائم نہیں تھا کیونکہ کل راعنہ اور شہریار کا ولیمہ تھا، اسے تیاری بھی کرنی تھی۔

اس موضوع پہ پپا سے بعد میں بھی بات کی جاسکتی تھی۔

ولیمے پہ شہریار نے بہت زیادہ مہمانوں کو انوائیٹ نہیں کیا تھا۔ راعنہ کی فیملی اور ان دونوں کے مشترکہ رشتہ دار اور کچھ دوست احباب تھے۔ کھانے میں چار ڈشز تھیں، راعنہ کے ولیمے کا جوڑا بہت نفیس پر زیادہ قیمتی نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ بے پناہ خوش نظر آرہی تھی۔راعنہ کے گھر والے بھی مسرور تھے۔

شہریار کے کسی بھی عمل پہ انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بلکہ راعنہ کے پپا بے پناہ خوش تھے کہ انہیں شہریار کی صورت میں اپنی بیٹی کے لئے خود دار غیرت مند شوہر ملا ہے۔

وہ سب دوست راعنہ اور شہریار کا گھر دیکھنے بھی گئے۔یہ گھر کسی پوش علاقے میں نہیں تھا پر صاف ستھری کالونی میں تھا۔ چھوٹا سا مناسب اور موزوں فرنیچر سے آراستہ تین کمروں کا گھر راعنہ اور شہریار کی محبت کے وجود سے سج گیا تھا۔

رنم حیرانی سے ایک ایک چیز کو دیکھ رہی تھی۔ شہریار کے پاس سیکنڈ ہینڈ گاڑی تھی راعنہ کو شہریار کے ساتھ اس گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ذرہ بھر احساس کمتری نہیں تھا۔ ”میری یہ لائف پپا کے گھر کی لائف سے بالکل ڈفرنٹ ہے۔“ انہیں کھانے پینے کی سب چیزیں خود سرو کرتے ہوئے راعنہ خوشی سے بتا رہی تھی۔ ”تم یہاں آرام سے رہ لو گی؟“ رنم نے نگاہیں اس کے چہرے پہ ٹکا دیں۔

”میں یہاں رہتے ہوئے بہت کمفرٹیبل فیل کررہی ہوں۔ پپا مجھے اور شہریار کو بہت کچھ دینا چاہ رہے تھے مگر شہریار عام مردوں کی طرح لالچی نہیں ہیں۔ ورنہ ہمارے طبقے میں اکثر شادیاں بزنس ڈیل ہوتی ہیں۔پر ہماری شادی بزنس ڈیل نہیں ہے رئیل شادی ہے۔“وہ مسکراتے ہوئے تحمل سے رنم کو جواب دے رہی تھی۔

 ”تم ٹھیک کہہ رہی ہو ہمارے سوشل سرکل میں شادی بزنس ڈیل ہی ہوتی ہے۔

“اس نے تائید کی۔ تمہارے لئے بھی تو ایک جاگیردار فیملی سے رشتہ آیا ہے۔ بہت اونچا ہاتھ مارا ہے تم نے۔“کومل کو یاد آیا۔ رنم کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔ ”میری شادی پپا میری مرضی سے کریں گے۔“وہ غصے سے بولی۔پتہ نہیں کومل کے عام سے جملے پہ وہ کیوں ہائپر ہوگئی تھی۔ ”ہاں تمہارے پپا تمہاری شادی اپنی مرضی سے اپنے کسی دوست کے بیٹے سے کریں گے۔جو ان کی طرح بزنس مین ہوگا بہت امیر۔

“کومل اسے تنگ کر رہی تھی۔ رنم ناراض ہو کر وہاں سے اٹھ گئی۔

رنم،احمد سیال کے پاس بیٹھی پورے ایک گھنٹے سے مسلسل بول رہی تھی۔ ”پپا راعنہ کے ہزبینڈ نے کچھ نہیں لیا ہے نہ جہیز، نہ گاڑی نہ بنگلہ نہ بنک بیلنس۔ شہریار بھائی نے خود راعنہ کے لئے شادی کا جوڑا اور جیولری خریدی۔ وہ شہریار بھائی کے لائے ہوئے جوڑے میں ہی اپنے پپا کے گھر سے رخصت ہوئی۔

“پپا میں بہت حیران ہوں پر یہ سب مجھے بہت اچھا لگا۔

”Papa I Cant Even Think That A person Who Happy With His Own Earnings And He Is Even Not Ready To Take Anyones Help

حیرانی اور بے یقینی اس کے ہر انداز سے عیاں تھی۔

”Yes There Are Such Type of Peoples“

احمد سیال اس کی حیرانی سی پھیلی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے مسکرائے۔ ”آپ خود سوچیں پاپا۔ شہریار بھائی کی جگہ کوئی اور ہوتا تو لینے سے انکار نہ کرتا کیونکہ اتنا کچھ ایک ساتھ مل رہا تھا۔

پر شہریار بھائی نے کہا کہ میرے پاس جو کچھ ہے راعنہ کو اسی میں گزارا کرنا پڑے گا۔ میں آہستہ آہستہ محنت کر کے سب بناؤں گا۔ اپنے سسرال سے مدد نہیں لوں گا۔“ وہ نئے سرے سے انہیں بتا رہی تھی۔ جب سے راعنہ کی شادی ہوئی تھی یہ اس کا پسندیدہ موضوع بن گیا تھا۔ احمد سیال اس کی باتیں سنتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔ ”راعنہ کا شوہر خود دار اور سیلف میڈ ہے اسے اپنے زور بازو پہ بھروسہ ہوگا تب ہی اس نے کسی قسم کی ہیلپ نہیں لی ہے۔

“احمد سیال نے تبصرہ کیا۔ ”اور ہاں وہ جہانگیر کے گھر والے آنا چاہ رہے ہیں تمہیں دیکھنے۔“انہیں اچانک یاد آیا۔ ”پپا میری خواہش ہے میری شادی جس شخص کے ساتھ ہو وہ شہریاربھائی کی طرح خود دار ہو۔ کسی قسم کی ہیلپ نہ لے۔سب کچھ اپنی محنت سے بنائے۔“رنم اپنی دھن میں بول رہی تھی۔ اس نے احمد سیال کی بات سنی ہی نہیں۔

”میں اتنی زیادہ دولت، جائیداد کا کیا کروں گا رنم، اگر تم کچھ لئے بغیر میرے گھر سے رخصت ہوجاؤ۔

“ احمد سیال کو اپنی لاڈلی کی یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔ ”پپا آپ جہاں میری شادی کریں گے کیا ان کے پاس، گھر دولت، جائیداد یہ سب کچھ نہیں ہوگا؟“وہ اچانک سنجیدہ ہوگئی۔ میری جان بے شک سب کچھ ہوگا لیکن میں اپنی اکلوتی اولاد کو کسی بھی چیز سے محروم نہیں کرسکتا۔میں تمہاری شادی دھوم دھام سے کروں گا۔ میرا سب کچھ تمہارا ہے۔ میں تمہیں اس گھر سے خالی ہاتھ رخصت نہیں کروں گا ایسا جہیز دوں گا کہ دنیا دیکھے گی اور تمہاری شادی ہمارے سوشل سرکل کی شاندار اور یادگار شادی ہوگی۔

“ احمد سیال باتوں باتوں میں بہت دور نکل گئے تھے۔ ”مجھے کچھ نہیں چاہیے پپا مجھے شہریار بھائی جیسا لائف پارٹنر چاہیے بس۔“ وہ جھنجھلا سی گئی۔ ”تمہاری سوچ بچوں والی ہے۔“وہ مسکرائے۔

احمد سیال اُسے بچوں کی طرح ہی ٹریٹ کر رہے تھے۔ ”پپا میں سیریس ہوں۔“وہ اپنی بات پہ زور دے کر بولی۔ ”اینی وے میں ملک جہانگیر کے گھر والوں کو انوائیٹ کروں گا تم ان کے بیٹے کو دیکھ لینا مل لینا۔

“احمد سیال نے اس کی بات کو اہمیت نہیں دی۔ رنم کو بے طرح غصہ آیا۔ ”میں کسی سے نہیں ملوں گی پپا۔“وہ دھم دھم کرتی وہاں سے چلی آئی۔ احمد سیال اس دروازے کو دیکھ رہے تھے جہاں سے وہ نکل کر ابھی ابھی گئی تھی۔وہ اس کے غصے کا سبب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اچانک نہ جانے اسے کیا ہوگیا تھا۔جب سے وہ راعنہ کی شادی اٹینڈ کر کے آئی تھی تب سے اس کے پاس ایک ہی موضوع تھا کہ شہریار نے سسرال والوں سے اپنی کم حیثیتی کے باوجود کسی قسم کی مالی امداد قبول نہیں کی ہے۔ وہ اس پہ غور کر رہے تھے۔ رنم نے ملک جہانگیر کی فیملی سے ملاقات کرنے کی ضمن میں کسی قسم کی رضا مند ی نہیں دی تھی۔

Episode 29 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja


قسط نمبر 29 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک ارسلان شہر گئے ہوئے تھے۔ عتیرہ کچھ دیر افشاں بیگم کے پاس بیٹھی رہیں۔ ویسے بھی ارسلان کے بغیر ان کا جی گھر میں گھبراتا اس لئے اس طرف آجاتیں شام اپنے پر پھیلانا شروع کر چکی تھی جب انہوں نے افشاں بھابھی سے اجازت چاہی۔

حویلی میں سناٹا طاری تھا۔ ملازم کام نمٹا کر اپنے اپنے کوارٹرز میں تھے جو حویلی کے مشرقی حصے میں بنائے گئے تھے۔

گھر میں اس وقت دو خاتون ملازمائیں تھیں جو عتیرہ کو دیکھ کر فوراً متحرک نظر آنے لگیں۔ عتیرہ انہیں نظر انداز کرتی اپنے بیڈ روم میں چلی آئی۔ اس نے دروازہ لاک کر کے اپنی دیوار گیر الماری کھولی۔ سب سے پہلے نچلے حصے میں ایک خفیہ خانہ تھا۔ عتیرہ نے اسے اپنی طرف کھینچا اور چابی گھمائی۔ لاک کھل چکا تھا۔ اندرایک پیکٹ موجود تھا عتیرہ نے پیکٹ اٹھا کر باہر بیڈ پہ رکھا۔

اس پیکٹ کی حفاظت اٹھارہ سالوں سے وہ قیمتی خزانے کی طرح کرتی آرہی تھی۔ نرم ہاتھوں سے اس نے پیکٹ کھول کر اندر موجود اشیاء باہر نکالنی شروع کیں۔ بیڈ پہ ننھے منے کپڑوں، بے بی پاؤڈر آئل، سوپ، اور دو عدد چھوٹے چھوٹے شوز کے جوڑوں کا چھوٹا سا ڈھیر لگ گیا تھا۔ سب چیزیں پرانی اور استعمال شدہ تھیں۔ بے بی آئل بوتل میں آدھے سے کم بچا تھا۔ پاؤڈر کا ڈبہ بھی تقریباً خالی تھا۔

چھوٹے چھوٹے شوز قدرے میلے تھے پرانے کپڑوں فراکس، نیکر کا رنگ اتنے سالوں میں مدھم پڑ گیا تھا۔

 گتے کے ڈبے میں ایک فیڈر بھی تھا۔ کچھ کھلونے بھی تھے۔ عتیرہ نے اس چھوٹے سے ڈھیر کو سمیٹ کر سینے سے لگالیا۔ آنسوؤں کا جھرنا اس کی آنکھوں سے پھوٹ پڑا۔ وہ ایک ایک چیز کو بار بار چھو رہی تھی چوم رہی تھی سونگھ کر کچھ محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

جیسے ان کپڑوں اور بے جان کھلونوں میں کوئی زندہ وجود ہو اس کا لمس ہو۔ وہ اب سسک سسک کر ر ورہی تھی۔ نڈھال انداز میں روتے روتے وہ بیڈ کے ہی ایک کونے میں گٹھڑی بن کر لیٹ گئی۔ اس عالم میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ دل کا غبار کچھ کم ہوا تو اس نے اٹھ کر سب چیزیں سمیٹیں اور پہلے کی طرح ایک پیکٹ بنایا۔ الماری میں رکھ کر پہلے کی طرح الماری لاک کر کے چابی اپنی مخصوص جگہ پہ رکھ دی۔

اسی اثناء میں عشاء کی اذان ہونا شروع ہوگئی۔ وہ وضو کر کے اپنے رب کے حضور جھک گئی۔ دل کا سارا درد آنسوؤں میں بہہ رہا تھا۔ یہاں اسے دیکھنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ جی بھر کر اپنے رب سے حال دل کہہ سکتی تھی۔ فریاد کرسکتی تھی۔ دنیا کے دربار میں اس کی شنوائی نہیں تھی پر وہ جس کے دربار میں تھی وہ پاک ہستی لامحدود اختیار کی مالک تھی۔ ”میرے اللہ میرے اللہ! میرے مالک تو خوب جانتا ہے خوب سمجھتا ہے۔

مجھ پہ میری طاقت سے زیادہ بوجھ مت ڈالو۔ میں تھک گئی ہوں اس آبلہ پائی سے۔ میرے مالک میری آزمائش ختم کردے مجھے شکر گزار بنا۔“ روتے روتے وہ انہی جملوں کی تکرار کر رہی تھی۔ ”میرے مالک میں تھک گئی ہوں اب مجھے اس اذیت، اس کرب سے نجات دلا دے۔“ اپنی فریاد رب کے حضور پہنچا کر اسے قدرے سکون حاصل ہوا۔

ملک ارسلان رات گھر واپس آئے تو عتیرہ بخار میں تپ رہی تھی۔

بہت زیادہ رونے اور ٹینشن کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی تھی۔ انہوں نے اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔ ”میں تمہیں اچھا خاصا چھوڑ کر گیا تھا کیا ہوا ہے تمہیں؟“وہ اس کی سوجی متورم آنکھیں دیکھ رہے تھے۔ ”بخار ہوگیا ہے تھوڑا اور تو میں بالکل ٹھیک ہوں۔“ وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی۔ ”صرف بخار نہیں ہوا تمہاری طبیعت اچھی خاصی خراب ہے۔ اور تم روتی بھی رہی ہو۔

تمہیں پتہ ہے تمہارا رونا میں برداشت نہیں کرسکتا۔“ ”میں نہیں روئی ہوں۔“ عتیرہ نے بے اختیار ان کی بات کاٹی۔ ”میں تمہارے مزاج کے ہر رنگ سے واقف ہوں۔ محبت نہیں عشق کیا ہے تم سے۔ عیاں ہو تم پوری کی پوری۔“ وہ تلخی اور نروٹھے پن سے اسے دیکھ رہے تھے۔ عتیرہ کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو اچانک پھسلے اور وہ ارسلان سے چمٹ گئی۔ ”میں آج بہت اذیت میں ہوں۔

“ وہ بری طرح رو رہی تھیں۔ ”ارسلان نے اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔ ”تم ماضی کو بھول کیوں نہیں جاتی ماضی کی اذیت کی وجہ سے مجھے اپنے آپ کو کیوں نظر انداز کرتی ہو۔ تمہارا ماضی دفن ہوگیا ہے۔ میں تمہارا فیوچر ہوں۔ اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچو، تمہیں مجھ پہ ترس نہیں آتا۔ تمہارے آنسو مجھے کتنی تکلیف دیتے ہیں تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔

“ وہ اس کے آنسو صاف کر رہے تھے اسے بہلا رہے تھے۔ 

یہ سب باتیں وہ پچھلے اٹھارہ برس سے کرتے آرہے تھے۔ ہر بار عتیرہ خود کو سمیٹنے کا عہد کرتی اور ہر بار بکھر جاتی۔ اس ٹوٹی پھوٹی محبوب بیوی کو سمیٹنے کاہنر ملک ارسلان کے ہی پاس تھا۔ ”ملک صاحب میرے پاس آنے والی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں ہے۔ نہ کوئی خوشی نہ امید نہ روشنی کے جگنو۔ میں آپ کو ایک بچہ تک نہ دے سکی۔

میرے کرب کو آپ کیا سمجھ پائیں گے۔“ وہ ایک بار پھر رونے لگی۔ ملک ارسلان نے جگ سے پانی گلاس میں انڈیل کر اسے پلایا۔ ”میری محبت ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے اور رہے گی۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔ تم جس دن جان جاؤ گی اس دن اپنی قسمت پہ رشک کرو گی۔ باقی ہماری اولاد نہیں ہے تو کیا ہوا میں اس کے بغیر بھی تمہارے ساتھ بے پناہ خوش ہوں۔

میری زندگی میں تم ہو اور صرف تمہاری وجہ سے میں پوری زندگی ہنسی خوشی گزار سکتا ہوں۔ تم اکیلی نہیں ہو۔ میں ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہوں۔“ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے محبت کے سہارے اس کے سب دکھ سب کانٹے چنتے جارہے تھے۔ ملک ارسلان کی محبت کو عتیرہ کبھی بھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ وہ گہرے پرسکون سمندر کی مانند تھے۔ بہت دیر بعد ارسلان کی کوشش سے وہ نارمل ہوئیں۔

Episode 30 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 30 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

دو دن سے اس کی پپا کے ساتھ کوئی بات بھی نہیں ہوئی تھی۔ نہ اس نے ان کے ساتھ کھانا کھایا تھا یہ اس کی طرف سے مکمل ناراضگی کا اظہار تھا۔ احمد سیال ایک ڈیلی گیشن کے ساتھ مصروف تھے اس لئے رنم کی خاموش ناراضگی ان کے علم میں نہیں تھی۔

رنم فی الحال دو دن فری تھی کیونکہ یونیورسٹی سے چھٹی تھی۔ اس نے شام ڈھلتے ہی فراز کو کال کی۔ ”میں تم سے ملنا چاہ رہی ہوں۔

“ اس نے کسی بھی سلام دعا کے تکلفات میں پڑے بغیر تیزی سے کہا۔ ”میں جم میں ہوں ایک گھنٹہ تک فارغ ہوں گا۔“ ”مجھے تم سے ابھی ملنا ہے۔ مون لائیٹ ریسٹورنٹ میں پہنچ جاؤ۔ میں پندرہ منٹ میں گھر سے نکل رہی ہوں۔“ رنم ضدی انداز میں بولی۔ دوسری طرف موجود فراز گہری سانس لے کر رہ گیا۔ اسے پتہ تھا کہ اسے ابھی اور اسی وقت جم سے نکلنا ہوگا اور اگلے پندرہ سے بیس منٹ میں مون لائیٹ ریسٹورنٹ جانا ہوگا۔

”اوکے تم پہنچو میں بھی آرہا ہوں۔“ فراز نے ہار ماننے والے انداز میں کہا۔ رنم کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھر گئی اسے پتہ تھا کہ فراز اس کی بات ٹال نہیں سکتا۔ وہ گنگناتے ہوئے بال سنوارنے لگی۔

فراز اس کے سامنے والی کرسی پہ بیٹھا پوری سنجیدگی سے اس کی بات سن رہا تھا۔ رنم نے الف تا یے سب بتا دیا تھا۔ ”پپا نے کوئی رسپانس نہیں دیا بلکہ الٹا کہا تمہاری سوچ بچوں والی ہے۔

میں تمہیں دھوم دھام سے رخصت کروں گا۔ لیکن مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میں چاہتی ہوں کہ راعنہ کی طرح میری شادی جس شخص سے ہو وہ جہیز کے نام پہ کچھ بھی میرے پپا سے نہ لے۔ بس مجھے ایسے ہی قبول کرلے۔ مجھے جہیز لینا، بہت سا بنک بیلنس، کار کوٹھی بنگلہ شادی کے گفٹ کی صورت میں لینا کسی صورت بھی منظور نہیں۔ پپا کے فرینڈ بہت امیر ہیں ظاہر ہے ان کابیٹا بھی ویسا ہی ہوگا۔

انہیں بھلا کسی چیز کی کیا ضرورت ہے۔“ وہ ایک ہی سانس میں تیز تیز بول رہی تھی۔ فراز نے ایک بار بھی اسے نہیں ٹوکا اور نہ ہی خود درمیان میں بولا۔ جب وہ خاموش ہوئی تب فراز نے خاموشی توڑی۔ 

”میں سمجھ گیا ہوں تم کیا چاہتی ہوں۔“ ”رئیلی فراز تم اتنی جلدی سمجھ گئے ہو میرے بیسٹ فرینڈ ہو ناں۔ پر پپا میری بات کو کیوں اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔

“ ”اچھا یہ بتاؤ تمہارے پپا کے وہ دوست کب آرہے ہیں؟“ فراز نے اس کی روہانسی صورت نظر انداز کر کے بالکل غیر متوقع سوال کیا۔ ”میں نے پپا کو کوئی رسپانس ہی نہیں دیا۔“ وہ منہ بنا کے بولی۔ ”ایسے تو کام نہیں چلے گا۔ کچھ نہ کچھ کرنا تو ہوگا۔“ وہ پرسوچ لہجہ میں بولا۔ ”سو سمپل میں ایسے انسان سے شادی ہی نہیں کروں گی جو مجھ سے ان سب چیزوں کے بغیر شادی نہیں کرے گا It Means تم کسی مڈل کلاس نوجوان سے شادی کرلو گی؟“ Not At All اب ایسی بھی کوئی آفت نہیں آئی میرا ایک Standerd ہے مجھے بس ایک ایسا انسان چاہیے جو شہریار بھائی کی طرح ہو۔

“ فراز اس بار اپنی مسکراہٹ نہیں روک سکا۔ اس نے مشکل سے اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا۔

”تم کیوں ہنس رہے ہو؟“ رنم نے اسے گھور کر دیکھا۔ مڈل کلاس نوجوان سے تم شادی کرو گی نہیں کیونکہ وہ تمہاری کلاس سے نہیں ہے اور تمہارے سوشل سرکل میں ایسا لڑکا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا جو تمہارے پپا کی سپورٹ سے فائدہ نہ اٹھائے۔ دولت دولت کو کھینچتی ہے اور جس کسی کی بھی شادی تمہارے ساتھ ہوگی اسے تمہارے ساتھ ساتھ بہت ساری دولت بھی ملے گی۔

“ فراز نے حقیقت بیان کی تھی۔ میں ایسے کسی بھی شخص سے شادی نہیں کروں گی۔“ رنم کا انداز قطعی اور دوٹوک تھا۔ ”ویسے ایسا شخص تمہیں مل سکتا ہے۔“ فراز خلا میں کسی غیر مرئی چیز کو دیکھ رہا تھا۔ ”کہاں ملے گا ایسا شخص؟“ رنم اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے اچھل ہی تو پڑی۔ ”کوئی ایسا شخص جو تم سے سچی بے پناہ محبت کرتا ہو۔ صرف ایسا شخص ہی تم سے تمہاری دولت کے بغیر شادی کرسکتا ہے۔

اسے صرف تم سے محبت ہو، تمہاری یا تمہارے پپا کی دولت سے کوئی دلچسپی نہ ہو۔“ وہ جیسے کھوئے کھوئے انداز میں بول رہا تھا۔

”ایسا تو کوئی بھی بندا نہیں ہے جسے مجھ سے محبت ہو۔“ رنم بہت سادگی اور مایوسی سے گویا ہوئی۔ ”ایسا کرو کہ تم کوئی بندا ڈھونڈو جو تم سے سچی محبت کرے۔ ایک دن پھر اسے اپنے پپا سے ملواؤ۔ آگے کے کام آسان ہوجائیں گے وہ تم سے شادی کرلے گا اپنے گھر لے جائے گا۔

“ جانے فراز نے یہ سب سنجیدگی سے کہا تھا یا اس سے مذاق کر رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی۔ ”اینی وے تم اپنے پپا سے بات کرو۔“

فراز کو اس کے چہرے پہ چھائی مایوسی ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ ”میں تمہارا بیسٹ فرینڈ ہوں ناں میری بات مان لو۔ اپنی ضد سے باز آجاؤ۔ تمہارے پپا ٹھیک کہہ رہے ہیں تم ان کی اکلوتی اولاد ہو ہر چیز کی وارث ہو۔ ساری عمر انہوں نے جان لڑا کر اپنے بزنس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اس ساری کامیابی کا دولت کا کیا فائدہ جب تم اپنی زندگی کو ہی آسان نہ بنا سکو۔

ہر چیز کو ٹھوکر ماردو ان کی تو سب محنت اکارت جائے گی۔“ فراز نے اچانک نیا پینترا بدلا تو رنم سے ہضم نہیں ہوا۔ ”فراز ٹرائی ٹو انڈر سٹینڈ۔ ”میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں ہر نئی چیز، نیا منصوبہ تمہیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ تمہیں لگے بندھے فرسودہ راستوں پہ چلنے سے نفرت ہے تمہیں نئے نئے کام کرنے کا شوق ہے کچھ ایسا کہ سب حیران ہوجائیں۔

یہ سب خیالات تمہارے ذہن میں راعنہ کی شادی کے بعد آئے ہیں کیونکہ اپنے سرکل میں تم نے راعنہ کے ہزبینڈ جیسا کوئی نوجوان نہیں دیکھا اس لئے تم شہریار کی خودداری سے متاثر ہوگئی ہو کیونکہ اس خودداری میں کم سے کم تمہارے لئے نیا پن ہے اب تم بھی یہی چاہتی ہو کہ راعنہ کی طرح خالی ہاتھ رخصت ہو۔ تمہارے خاندان میں ملنے جلنے والوں کے لئے یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہوگا کہ احمد سیال جیسے کامیاب بزنس ٹائیکون کی بیٹی جہیز کے نام پہ ایک تنکا بھی لے کر نہیں گئی۔

یہ خبر ہر جگہ ڈسکس ہوگی۔ تم اور تمہاری شادی گرما گرم موضوعات کا حصہ بنے گی۔ اور تم سب کو چونکانے میں کامیاب رہو گی۔ تمہارے لئے یہ سب وقتی ایڈونچر ہے، کیونکہ تم جدت پسند ہو ایکسائیٹڈ ہو رہی ہو کہ تمہیں ایسا شخص ملے جو کہے کہ میں تین کپڑوں میں قبول کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس کے بعد کیا ہوگا تمہیں نہیں معلوم۔ راعنہ کی شادی اپنی فیملی میں ہوئی ہے۔

بعد میں شہریار کا طرز عمل کیا ہوگا ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، جبکہ تمہارے لئے آؤٹ آف فیملی پروپوزل آیا ہے تمہیں معلوم نہیں وہ لوگ کیسے ہیں۔ تمہارے پپا کا ایک نام ہے عزت ہے وہ بھلا اپنے منہ سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں اپنی بیٹی کو کچھ نہیں دوں گا یا میری بیٹی کو یہ سب پسند نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں معاشی لحاظ سے گیا گزرا گھرانہ بھی بیٹی کو جب رخصت کرتا ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق سب کچھ دینے کی کوشش کرتا ہے بیٹی پیدا ہوتے ہی اس کے لئے جہیز جمع کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔

ایسے ہی تمہارے پپا کی بھی خواہش ہے کہ تمہیں شایانِ شان طریقے سے رخصت کرسکیں۔ تمہاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی۔“ فراز بہت رسان سے بات کر رہا تھا۔ رنم کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ اس سے ذرا بھی متفق نہیں ہے۔ بس بحالت مجبوری اس کی بات سن رہی ہے۔ تب ہی تو فراز کوبولتا چھوڑ کر تھوڑی دیر بعد وہ بیگ اٹھائے چلتی بنی۔ فراز الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک ایڈونچر، ایک تبدیلی، ایک نئے پن ایک تجربے کی خاطر کچھ بھی کرسکتی تھی۔ اس سے کچھ بھی بعید نہ تھا

Episode 31 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 31 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد بوا کے ساتھ گپ شپ کر رہی تھی۔ جب وہاب کی اچانک آمد ہوئی بوا اور ذیان صحن میں بیٹھی تھیں۔ وہاب سیدھا اُدھرہی آیا۔ بہت دن بعد اپنے گوہر مقصد کو دیکھا تھا ، اس کے روم روم میں سکون و راحت طاقت بن کر دوڑنے لگی۔ السلام علیکم کیسے ہیں آپ لوگ؟ اس کی چہکتی آواز سے ہی اس کی خوشی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ ذیان نے ہلکی آواز میں سلام کا جواب دیا جبکہ بوا گرمجوشی سے اس سے حال احوال پوچھ رہی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد بوا اس کی خاطر مدارات کے لئے اٹھ گئیں۔ تب وہاب نے بڑی فرصت سے ذیان کو دیکھنا شروع کردیا اس کی یہ حرکت ذیان سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی تھی۔ زرینہ بیگم نے اسے قبل از وقت ہی وہاب کے ارادوں سے آگاہ کردیا تھا۔ اس لئے وہاب کی نظروں نے اسے بے پناہ غصے سے دو چار کردیا تھا۔

وہ اچانک اپنی جگہ سے اٹھی، وہاب کو پتہ تھا ذیان یہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی جائے گی اور پھر اس کے جانے کے بعد ہی باہر نکلے گی اس لئے اس نے کمال جرأت سے کام لیتے ہوئے اچانک اپنا ایک بازو آگے کردیا جیسے اُسے جانے سے روکنا چاہتا ہو۔

”یہ کیا ہے؟“ وہ کڑوے لہجے میں بولی۔ ”تمہیں گھر آئے مہمان سے ذرا بھی خوش اخلاقی برتنا نہیں آتی۔“ وہاب اس کا تپا تپا چہرا دیکھتے ہوئے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سامنے میٹنگ روم میں بیٹھی زرینہ نے گلاس ونڈو سے یہ منظر پوری وضاحت کے ساتھ دیکھا۔ نفرت میں ڈوبی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آئی۔ ”ذیان کو جلدی یہاں سے بھگانا پڑے گا ورنہ وہاب جھگڑے کھڑے کرسکتا ہے۔

“ وہاب کے چہرے کے والہانہ تاثرات نوٹ کرتے ہوئے زرینہ کے دل میں اس خیال نے جڑ مضبوط کرلی۔

بہت زور دار طوفان تھا ہوا کے بہت تیز جھکڑ چل رہے تھے۔ بند دروازوں اور کھڑکیوں کے باوجود ہوا کی زوردار سائیں سائیں کی آواز اندر کمروں تک آرہی تھی۔ عتیرہ ایک کونے میں سکڑی سمٹی خوفزدہ بیٹھی ہوئی تھی۔ حویلی میں کام کرنے والی ایک نوکرانی ان کے پاس تھی۔

ارسلان باہر زمینوں پہ ڈیرے کی طرف تھے وہیں سے وہ اپنے ایک دوست کی دعوت پہ اس کے گھر چلے گئے تھے۔ سرشام سے ہی موسم کے تیور بدلے تھے پہلے آہستہ آہستہ ہوا چلنا شروع ہوئی پھر اس نے زور دار طوفان کی شکل اختیار کرلی، عتیرہ نے فوراً حویلی کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کروائیں۔

باہر سے زوردار آواز آئی تھی شائد کوئی درخت ٹوٹ کر گرا تھا۔

عتیرہ نے سہم کر بند دروازے کی طرف دیکھا جیسے طوفان دروازے سے اندر کا رخ کرلے گا۔ نوکرانی اپنی مالکن کے خوف کو بہت اچھی طرح محسوس کر رہی تھی اور اسے ہمدردی بھی تھی کیونکہ جب بھی آندھی یا طوفان آتا عتیرہ کمرے میں بند ہوجاتی۔

اچانک ہی لائیٹ چلی گئی اور گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کھڑکیوں پہ پہلے ہی بھاری پردے پڑے تھے رہی سہی کسر لائیٹ نے پوری کردی۔

نوکرانی نے اٹھ کر ایمرجنسی ٹارچ آن کی۔ تب تک باہر موجود ملازم جنریٹر آن کرنے کی تیاری میں جت گئے۔ چند منٹ بعد ہی جنریٹر کے چلنے سے حویلی پھر جگ مگ کرنے لگی۔ عتیرہ اپنے ماضی میں پہنچ گئی۔ یہاں سے بہت دور بہت سال پہلے کا منظر ذہن کے بند دروازوں پہ رہ رہ کے دستک دے رہا تھا۔

اس کھلے کھلے برآمدے والے گھر میں ایسی ہی ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔

بہت تیز طوفان تھا۔ وہ اپنے سامنے پڑے ننھے منے سے وجود کو پریشان نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جسے طوفان یا تیز ہواؤں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

دروازے کو زور زور سے دھڑدھڑایا جارہا تھا۔ عتیرہ کے ذہن میں سب کچھ گڈمڈ ہو رہا تھا۔ دو مضبوط تنو مند، چھینا جھپٹی چیخ و پکار، آنسو، آہیں پھر لمبی خاموشی۔ دروازے پہ پھر سے دستک ہو رہی تھی مگر یہ ماضی نہیں تھا۔

عتیرہ چونک کر حال میں آئی، نوکرانی دروازہ کھول چکی تھی۔ آنے والے ملک ارسلان تھے۔ عتیرہ نے سکون کی سانس لی۔ کم سے کم ملک ارسلان اس کی زندگی میں طوفان لانے والے نہیں تھے۔

                                   

بند کھڑکی کے شیشے سے چہرا لگائے وہ باہر دیکھ رہی تھی جہاں تیز ہوا کی شدت سے ہر چیز پھڑ پھڑا رہی تھی۔ درخت زور دار طریقے سے ہل رہے تھے بند دروازوں کی دھمک سے عجیب سی آواز پیدا ہو رہی تھی۔

زرینہ بیگم اور سب اپنے اپنے کمروں میں دبک گئے تھے۔ وہ طوفان اور آندھی سے بہت ڈرتی تھی، یہی حال بوا کا تھا۔ موسم کے باغی تیور دیکھتے ہوئے انہوں نے تسبیح اٹھا کر استغفار کا ورد شروع کردیا تھا۔ وہ اس طوفان کو دیکھتے ہوئے اس کی شدت سے ڈرگئی تھیں۔ ذیان کو تیز ہوا اس کی شدت اور طوفان سے ذرہ بھر بھی ڈر محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ پوری دلچسپی سے ہوا کو مختلف چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھ رہی تھی۔

پر بوا کو چین نہیں آرہا تھا۔ تسبیح اٹھائے ہانپتے کانپتے اس کے پاس پہنچ گئیں۔ سب سے پہلے کچھ پڑھ کر اس پہ پھونک ماری۔ ”تم یہاں کھڑکی کے پاس کیوں کھڑی ہو، جاؤ وہاں جا کر بیٹھو۔“ انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ ”کیوں بوا یہاں کیا ہے طوفان سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔“ اس نے ہنس کر بے نیازی دکھائی۔ ”تمہیں نہیں پتہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ طوفان میں بہت سی بلائیں بھی آتی ہیں ہوا کے ساتھ۔

“ ”بوا ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ سب فرسودہ باتیں ہیں ایمان کی کمزوری کی علامت ہے یہ۔“ اس نے ہنس کر بات ٹالی۔ بوا اسے پریشانی سے دیکھ کر رہ گئیں۔ ”بہت سال بعد آج پھر وہی ویسا طوفان دیکھ رہی ہوں۔ اللہ خیر کرے۔“ بوا کا ہاتھ اپنے سینے پہ تھا۔ ”کیا بہت پہلے بھی ایسا طوفان آیا تھا؟“ وہ دلچسپی سے بولی۔ ”ہاں ایسا ہی ہولناک وحشت ناک طوفان تھا وہ۔

”میں تب کہاں تھی مجھے کیوں نہیں پتہ اس طوفان کا؟“ اس کے لبوں پہ ڈھیروں سوال مچل رہے تھے۔

”تب تم چھوٹی سی تھی اتنی سی۔ تمہیں طوفان کا کیسے پتہ چلتا۔“ بوا نے بمشکل جتن کر کے آنکھوں میں پھیلنے والی نمی کر روکا۔ ذیان پھر سے کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ بوا نے شکر ادا کیا ورنہ اسکے مزید سوالوں کا جواب دینا نہایت کٹھن ہوتا۔

                                 

احمد سیال نے رنم سے ملک جہانگیر اور ان کی فیملی کی متوقع آمد کا ذکر کیاتھا پر اس نے کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی اس بات پہ اچھی خاصی بد مزگی ہوئی جس کا اختتام زور دار نتیجہ بحث پہ ہوا۔ رنم ہنوز اپنی بات پہ قائم تھی۔ احمد سیال نے ایک بار پھر نرمی سے لاڈلی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ اسے دھوم دھام سے رخصت کریں گے۔

                                     

روبینہ، زرینہ سے فون پہ بات کر رہی تھیں۔ زرینہ ہمیشہ کی طرح اپنے دکھڑے رو رہی تھی۔ آدھے گھنٹے سے وہ مسلسل ذیان کے موضوع سے چمٹی ہوئی تھی۔ کافی دیر بعد وہ زرینہ سے بات کر کے فارغ ہوئی تو وہاب کو غور سے اپنی طرف دیکھتے پایا۔ ”امی آج کل خالہ آپ سے کچھ زیادہ ہی قریب نہیں ہوگئی ہیں۔“ وہ استفسار کر رہا تھا۔

”کیوں کیا ہوا ہے؟“ روبینہ نے پوچھا۔ ”آج کل جب دیکھو آپ انہی کے ساتھ فون پہ بات کر رہی ہوتی ہیں۔ ویسے ایک لحاظ سے اچھا ہی ہے بہت جلد آپ دونوں بہنیں ایک اور رشتے میں منسلک ہوجائیں گی۔“ وہ معنی خیز انداز میں بولا۔ روبینہ فوراً اس کی بات کی تہہ میں پہنچ گئیں۔ ”یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو وہاب۔“ بیٹے کی بات پہ ان کے دل کو کچھ ہوا مگر اسے سمجھانا بھی ضروری تھا۔

”اماں یہ خواب نہیں ہیں مجھے خوابوں کو حقیقت میں کیسے بدلنا ہے مجھے اچھی طرح اس کا علم ہے۔ آپ زرینہ خالہ کے گھر جانے کی تیاری کرلیں بہت جلدی آپ کو میرا رشتہ مانگنے جانا ہے۔“ اس کے لبوں پہ پراسرار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ روبینہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ وہاب تو کسی صورت بھی پیچھے ہٹنے یا ان کی ماننے والا نہیں لگ رہا تھا۔

Episode 32 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 32 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال زندگی میں پہلی مرتبہ سخت غصے میں تھے۔ انہوں نے رنم کو بہت بار سمجھایا لیکن وہ ماننے میں نہیں آرہی تھی۔ انہیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی فضول سی ضد چھوڑنے کے لئے تیار کیوں نہیں ہے۔ تھک ہار کر وہ رنم کے علم میں لائے بغیر راعنہ اور شہریار سے ملے۔ احمد سیال کی پریشانی کی وجہ جان کر وہ دونوں خود بھی فکر مند ہوگئے راعنہ نے تو یونیورسٹی میں رنم کو جا پکڑا۔

کچھ دن سے وہ بیحد مضطرب اور تھکی تھکی نظر آرہی تھی اکثر کلاسز بنک کردیتی جب دیکھو گراؤنڈ میں بیٹھی غیر مرئی نقطے کو دیکھتی پائی جاتی۔ ”رنم کیا بات ہے کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ مجھے فیل ہو رہا ہے تم بہت اپ سیٹ ہو؟“ راعنہ نے کمال ہوشیاری سے بات شروع کی۔ ”ہاں اپ سیٹ ہوں۔“ اس نے فوراً اقرار کیا اور رکے بغیر سب بتاتی چلی گئی۔

”پپا میری بات نہیں سمجھ رہے ہیں۔

مجھے صرف شہریار بھائی جیسا لائف پارٹنر چاہیے جو کوئی ڈیمانڈ نہ کرے۔“

”فرض کیا کوئی ایسا شخص مل بھی جاتا ہے جو بغیر کسی ڈیمانڈ کے تم سے شادی کرلے اور پھر کچھ عرصے بعد سب چیزوں کا مطالبہ کردے کیونکہ تمہاری احمقانہ ضد تمہیں کسی بھی بڑے نقصان سے دو چار کرسکتی ہے۔“ ”مجھے نقصان ہوگا کسی اور کو تو نہیں…“ ”وہ نروٹھے پن سے بولی۔

”رنم تمہاری ضد کا ہر جگہ چرچا ہے بہت سے نوجوان لالچ میں آ کر تم سے شادی کرنے پہ تیار ہوجائیں گے کہ جی ہمیں کچھ نہیں چاہیے بعد میں جب تم نکاح کے بندھن میں جکڑی جاؤ گی تو تمہارا شوہر زبردستی دھونس دھمکی بلیک میلنگ کے ذریعے تمہاری سب دولت جائیداد اپنے نام کروا سکتا ہے۔ تب تم کیا کرو گی۔ انکل کسی ایسے ویسے نوجوان سے تمہاری شادی نہیں کریں گے۔

”راعنہ نے اسے ایک اور پہلو سے سمجھانے کی کوشش کی۔“ تو کوئی ایسا ویسا نوجوان مجھ سے میرے پپا کی دولت کے بغیر شادی کیوں نہیں کرلیتا۔ اتنی بڑی دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، کیا جیسا مجھے چاہیے۔“ ایک عجیب سی حسرت پنہاں تھی اس کے لہجے میں۔ ”مائی ڈئیر فرینڈ یہ لائف ہے کوئی فلم یا ناول کی کہانی نہیں ہے۔“ ”تمہاری شادی بھی تو شہریار بھائی سے ہوئی ہے ناں۔

“ وہ چہک کربولی۔ ”شہریار میرے کزن ہیں بچپن سے دیکھے بھالے ہیں پھر ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں شروع سے ہی۔ میں نے ان کی محبت میں سب کچھ قبول کیا ہے کیونکہ شہریار میری فیملی سے کسی قسم کی فنانشل سپورٹ حاصل کر کے زیر بار نہیں ہونا چاہتے انہیں اللہ کی ذات پہ محنت پہ بھروسہ ہے۔“ راعنہ نے اسے حقیقت بتائی۔ ”ہماری فیملی میں آپس میں بہت سے Conflicts ہیں جس کی وجہ سے شہریار نے یہ سب کہا۔

میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی بس اتنا کہوں گی اپنی ضد سے باز آجاؤ۔“ رنم جواب میں کندھے جھٹک کر رہ گئی۔

بہت دن بعد رنم اور احمد سیال اکھٹے کھانا کھا رہے تھے۔ ”تم نے مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیا ملک جہانگیر کی فیملی کے بارے میں۔“ احمد سیال نے کھانے کے درمیان بات شروع کی۔ رنم نے حیرانی سے انہیں دیکھا جیسے اسے پپا سے اس سوال کی توقع نہ ہو۔

”میں کیا جواب دوں۔“ وہ ناراض لہجے میں بولی۔ ”اینی وے وہ آرہے ہیں تم خود کو تیار کرلو اس کے بعد خواجہ صاحب ہیں وہ بھی تمہارے سلسلے میں آنا چاہ رہے ہیں۔“ انہوں نے اسے انفارم کیا۔ ”پپا مجھے نہ تو ملک جہانگیر کی فیملی میں کوئی انٹرسٹ ہے اور نہ کسی خواجہ صاحب میں۔ اگر آپ میری بات مانتے ہیں تو میں اس بارے میں سوچوں گی۔“ نہ چاہنے کے باوجود بھی رنم کے لہجہ میں تیزی آگئی۔

”میں تم پہ کوئی اپنی مرضی نہیں ٹھونس رہا صرف یہ چاہ رہا ہوں کہ مہمانوں سے مل لو دیکھ لو۔ اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا۔“ احمد سیال نرم لہجہ میں بول رہے تھے۔

”پپا I Know That آپ چاہتے ہیں کہ میری شادی ہوجائے۔ پپا میں شادی کرلوں گی لیکن میں آپ سے کچھ بھی نہیں لوں گی یہ بات آپ ان لوگوں کو بھی بتا دیں جو ہمارے گھر آئیں۔ اگر وہ لوگ بغیر کسی جہیز کے مجھے قبول کرنے کے لئے تیار ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔

“ رنم کا انداز قطعی بے لچک اور ٹھوس تھا۔ وہ ایک انچ بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ”رنم کیوں بچوں والی باتیں کر رہی ہو۔ سب لوگ ہنسیں گے مجھ پہ۔“ احمد سیال کی قوت برداشت آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی۔ ”پپا آپ کو لوگ عزیز ہیں یا اپنی اکلوتی اولاد؟“ وہ انہیں جذباتی طور پہ بلیک میل کرنے پہ اتر آئی۔ ”مجھے تم پوری دنیا سے عزیز ہو مگر تمہاری خواہش ناقابل قبول ہے۔

وہ بے چارگی سے بولے۔ ”پپا آپ میری شادی کسی مڈل کلاس غریب خاندان میں تو کریں گے نہیں۔ جہاں بھی کریں گے وہ لوگ ہمارے ہم پلہ ہوں گے۔ ان کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جو ہمارے پاس ہے پھر میں کیوں آپ سے کچھ لوں۔“ رنم اپنی بات پہ اڑی ہوئی تھی۔ ”رنم میں پاگل ہوجاؤں گا Try To Understand“ ”پپا آپ میری بات سے اتفاق کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ…!“ ”ورنہ کیا بولو تم…“ احمد سیال نے غصے میں آ کر اس کی بات کاٹ دی۔

”پپا میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گی۔“ اس نے تیزی سے جواب دیا۔ وہ کھانا چھوڑ کر جا چکی تھی۔ احمد سیال نا سمجھی کے عالم میں ابھی تک اُدھر ہی دیکھ رہے تھے جہاں سے وہ باہر گئی تھی۔ ان کے چہرے پہ بے پناہ پریشانی تھی۔

بہت تیز ہوا چل رہی تھی۔ رنم بار بار چہرے پہ آجانے والے بالوں کو سمیٹ رہی تھی۔ وہ فراز کے ساتھ پارک میں بیٹھی تھی۔ اسی نے فراز کو کال کر کے پارک میں بلوایا تھا۔

وہ سب کام چھوڑ کر چلا آیا۔ کیونکہ نہ آنے کی صورت میں رنم سے کچھ بھی بعید نہ تھا وہ ہر الٹی سیدھی بات سوچ سکتی تھی۔

اب وہ اس کے سامنے بیٹھا اسکا پریشان چہرہ اور تاثرات دیکھ رہا تھا۔ ”تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو پر تم بھی میرے لئے کچھ نہیں کرسکتے۔“ اس کا لہجہ رونے والا ہو رہا تھا۔ ”میں تمہارے لئے ایک ایسا نوجوان ڈھونڈ سکتا ہوں جو تم سے بغیر جہیز کے شادی کرسکے۔

“ اس نے قصداً ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا۔ ”میں یہاں پریشان بیٹھی ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔ ”مذاق کون کر رہا ہے۔“ ”فراز پپا نے مجھ پہ غصہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ آرہے ہیں تم ملو اور فیصلہ کرو۔“ ”ہاں تو مل لینا۔“ اس نے روانی میں کہا تو رنم نے اسے گھور کر دیکھا۔

 ”میں نے پپا سے بول دیا ہے کہ اگر آپ نے میری بات نہ مانی تو میں ساری عمر شادی نہیں کروں گی۔

“ ”تم نے ایسے پپا سے بول دیا۔“ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ”ہاں بول دیا ہے۔“ اس نے تصدیق کی۔ ”تم پپا کی بات مان لو۔“ اس نے خلوص دل سے ایک بار پھر پرانا مشورہ دہرایا۔ ”بھاڑ میں جاؤ تم۔“ وہ پاؤں پٹختی اٹھ کھڑی ہوئی۔ فراز سر پہ ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

وہ راکنگ چیئر پہ بیٹھی آنکھیں موندے ہلکے ہلکے جھول رہی تھی۔ اسے آج فراز پہ بے پناہ غصہ تھا۔

وہ پارک سے نکل آئی تھی بعد میں اس نے رنم کو کتنی بار کال کی پر اس نے غصے میں ریسیو نہیں کی۔

اچانک دروازے پہ ہلکی سی دستک ہوئی۔ ”یس کم آن۔“ اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔ آنے والے احمد سیال تھے۔ رنم نے انہیں بیٹھنے کے لئے نہیں کہا وہ بھی اپنے انداز سے بیٹھنے والے نہیں لگ رہے تھے۔ ”میں نے کبھی تم پہ اپنی مرضی نہیں ٹھونسی ہے لیکن مجبوراً یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔ ملک جہانگیر کی فیملی کو بلوا رہا ہوں میں۔ بس یہی بتانے کے لئے آیا تھا۔“

                                     

                                   

Leave a Comment