Episode 67 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 67 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

آئینے کچھ تو بتا ان کا ہمراز ہے تو

تو نے وہ زلف وہ مکھڑا وہ دہن دیکھا ہے

ان کے ہر حال کا بے ساختہ پن دیکھا ہے

وہ نہ خود دیکھ سکیں جس کو نظر بھر کے کبھی

تو نے جی بھر کے وہ ہر خطِ بدن دیکھا ہے

ئینے کچھ بتا ان کا ہمراز ہے تو

اس کی آنکھیں دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ابھی پلکوں کو چھوا تو رو پڑے گی۔ اس کے پورے چہرے اور آنکھوں میں اداسی رچی ہوئی تھی۔

ابیک تکیہ بازوؤں میں دبائے لیٹا ہوا ذیان کے کمرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

سب لائیٹیں آن تھیں پر وہ خود نیچے تھی۔مایوں بیٹھنے کے بعد اس کا داخلہ اوپر ممنوع ہوگیا تھا۔اس لیے ایک ہفتے سے ابیک نے اس کی کوئی جھلک نہیں دیکھی تھی۔ آخری بار جب وہ اس کے کمرے میں گیا تھا تب اس سے ملا تھا اور دیکھا تھا۔اسے شادی پہ اعتراض نہیں تھا تبھی دونوں طرف سے جھٹ پٹ تیاری ہوئی۔پرسوں ذیان نے مسز ابیک بن کر اس کے پاس آجانا تھا۔

ابیک کے پاس اس موقعے پہ بہت سے سوالات تھے جن کے جوابات اسے ذیان سے حاصل کرنے تھے۔ فی الحال تو اسے معاذ کا شکریہ ادا کرنا تھا جس نے ذیان کی فوٹو بنا کر اسے دکھائی تھیں۔

سب ملک ارسلان کی طرف تھے۔ اس طرف شورو ہنگامہ عروج پہ تھا۔ معاذ اسے کیمرہ دے کر جاچکا تھا۔ ابیک اٹھ کر ٹیرس پہ آگیا۔ ایک بار پھر اس کی نگاہ ذیان کے کمرے کی طرف اٹھ گئی۔

اس کمرے میں ابیک نے پہلی بار اسے محو خواب دیکھا تھا۔ اور پھر ارسلان چچا کے گھر میں اس سے تعارف حاصل کیا تھا۔ پہلی ملاقات میں ہی اس نے ابیک کو لفٹ نہیں کروائی تھی۔ پھر ابیک نے اسے اپنے گھر میں بابا جان کے لیے پریشان دیکھا تو اس کا وہ روپ بالکل ہی جدا تھا۔ بابا جان سے بات کرتے ان کی طرف دیکھتے وقت اس کے چہرے اور لبوں پہ نرمی تھی چہرے پہ محبت تھی۔

پھر معاذ کے آنے پہ ابیک نے ذیان کو ہنستے مسکراتے دیکھا تو اس روپ میں وہ اور بھی اچھی لگی اپنی اپنی سی۔

افشاں بیگم کو وہ بھا گئی تھی اور ملک ابیک کو حیرت ہو رہی تھی کہ امی جان نے جب ذیان کے بارے میں اس کی رائے لی تو اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا بخوشی رضا مندی دی۔ کیا اس میں ذیان کے بے تحاشہ حسن کا عمل دخل تھا یا اس کی بے رخی ابیک کو بھڑکا گئی تھی یا پھر اسے واقعی ذیان اچھی لگی تھی۔

اس سے پہلے بابا جان نے احمد سیال کی بیٹی کی لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی تھی تب ابیک دل سے آمادہ نہیں تھا۔پر ذیان کے معاملے پہ اس کی باری ایسا نہیں ہوا۔ افشاں بیگم کو آگاہ کرتے ہوئے وہ پوری طرح خوش اور مطمئن تھا۔ ملک ابیک نے اپنے سب جذبے سب محبتیں، چاہتیں اپنی شریک حیات کے لیے سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ذیان یقینا بہت خوش قسمت تھی جو ابیک اس کا ہمسفر بن رہا تھا۔

آج ذیان کی طرف سے ملک ابیک کی مہندی کی جانی تھی۔ سب تیار ہو رہے تھے، گھر میں ذیان کے ساتھ عمر رسیدہ نوکرانیاں تھیں اور ساتھ ملک ابیک کی ایک رشتے کی خالہ تھیں۔ سب ملک ابیک کی طرف جاچکے تھے۔ ابیک کی خالہ اس کے پاس سے اٹھ کر کسی کام سے باہر نکلی تھیں۔ ملک محل کے دوسرے رہائشی حصے میں ڈھول، باجوں شور شرابے، ہنسی مذاق کی آوازیں ہوا کے دوش پہ سفر کرتی بخوبی اس کے کانوں تک رسائی حاصل کر رہی تھیں۔

بلند آواز میں بجتے شادی بیاہ کے گانوں کی آواز اس کے علاوہ جو اس کی سماعتوں کو گویا چیر رہی تھی۔

وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اس کا ویران اداس سراپا بڑا واضح تھا۔ پیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اسے اپنا چہرہ کچھ اور بھی پیلا لگ رہا تھا۔ خود کو آئینے میں تکتے تکتے اسے ملک ابیک اور اس کی باتیں یاد آنے لگیں جب وہ شادی کے بارے میں رضا مندی معلوم کرنے آیا تھا۔

وہ پچھتا رہی تھی کیوں ہاں کی ہے اس کے پاس انکار کرنے کا سنہرا موقعہ تھا جو ملک ابیک کی معرفت اسے آسانی سے حاصل ہوا تھا۔ لیکن اس نے اپنی بیوقوفی سے گنوا دیا۔ وہ ایک بار انکار کر کے ملک ابیک کے تاثرات تو دیکھتی۔ بہت ناز ہوگا ملک ابیک کو خود پہ اپنی شخصیت پہ اپنے خاندان پہ جب وہ انکار کرتی تو بے چارے ابیک کا سارا غرور ناز مٹی میں مل جاتا۔

عتیرہ بیگم اس کی نام نہاد ماں اسے اذیت دینے کا اچھا بہانہ تھا اس انکار سے ان کی کتنی توہین ہوتی وہ ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور تو اور ملک ارسلان جیسے محبوب شوہر کی نگاہوں سے بھی گرجاتی۔ عین وقت پہ جب بارات لانے کی تیاری ہو رہی ہے پورے گاؤں کے رشتہ داروں کو ملک ابیک اور ذیان کی شادی کی خبر ہے وہ ،خوشی منانے ملک محل میں جمع ہوئے ہیں وہ اس موقعے پہ شادی سے انکار کرتی ہے تو کیسی رسوائی ہوتی ملک خاندان کی بے چاروں کے اٹھے سر جھک جاتے۔

مگر اپنی بے وقوفی یا جلد بازی سے اس نے سب ضائع کردیا۔ ذیان کے پاس پچھتانے کے لئے بہت کچھ تھا۔

اپنے اور ابیک کے ملن کے بارے میں سوچنے کے بجائے وہ بدلے، انتقام اور اذیت دینے کے طریقوں پہ غور کر رہی تھی۔ سوچتے سوچتے اس کا دماغ جیسے گھٹن سے بھر گیا۔ اس نے بے اختیار میکانکی انداز میں سب کھڑکیاں وا کر دیں اور خود پہ ایک کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر لمبے لمبے گہرے سانس لینے لگی۔

اتنے میں آہٹ ہوئی، ملک ابیک کی رشتے کی خالہ واپس لوٹ آئی تھیں اسے یوں کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر ان کی فکر و حیرانی بڑھی۔ ”پتر کھڑکی کھول کے کیوں کھڑی ہو۔ ہٹو اِدھر سے اور اپنا چہرہ چھپاؤ۔“ انہوں نے بڑے آرام سے کھڑکیاں بند کردیں۔ ذیان کو دل میں بے پناہ غصہ آیا۔ ”تمہاری شادی میں کل کا دن باقی ہے ابھی سے اپنا چہرہ کھول کر کمرے سے باہر مت جھانکو تم مایوں کی دلہن ہو سو چیزیں چمٹ جاتی ہیں۔

تمہیں کچھ ہوگیا تو سب میری جان کو آجائیں گے۔“ وہ سمجھانے والے انداز میں بول رہی تھیں۔ ذیان خاموشی سے کچھ کہے بغیر بیڈ پہ جا کر بیٹھ گئی۔ اسے ابیک کی رشتے کی خالہ سے اختلاف تھا پر وہ کچھ بولنا نہیں چاہ رہی تھی۔ ادھر وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اس کی معصومیت اور بے خبری پہ ترس کھا رہی تھیں۔

مہندی کا ہنگامہ تھمے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی، عتیرہ واپس آچکی تھیں۔

ذہنی اور جسمانی تھکن نے انہیں نچوڑ کے رکھ دیا تھا۔ ان کی اذیت بھی تو حد سے سوا تھی۔ ذیان نے زندگی میں پہلی بار ان سے اتنی طویل اور مکمل بھرپور گفتگو کی تھی۔ ہر ہر جملہ ہر ہر لفظ برچھی بن کر ان کے دل میں اترا تھا۔ وہ تو اس کی ماں ہی نہیں تھیں بلکہ آشنا کے ساتھ جانے والی ہوس پرست عام سی عورت تھی۔ وہ عورت جو اپنی ڈیڑھ سال کی بیٹی کا خیال کیے بغیر رحم کھائے بغیر اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔

وہ بیٹی جس نے اپنی ماں کے لمس، محبت اور ممتا کو محسوس ہی نہیں کیا وہ بیٹی جو ماں کے وجود کے بغیر اکیلی ہی پلتی رہی اس نے ماں کے سہارے کے بغیر ہی پہلا قدم اٹھایا بولنا سیکھا۔ وہ بیٹی جو ماں کے بغیر ہی پہلی بار بیگ تھامے سکول گئی اور واپسی پہ راہ تکنے والی کوئی ماں نہیں تھی۔ خوف کے ہاتھوں لڑ لڑ کر وہ اکیلی ہی سوتی رہی۔ وہ اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن لیتی رہی پر اس کی ماں نہیں تھی جو اس کی کامیابی پہ خوش ہوتی۔

اب وہ بیٹی بڑی ہوگئی تھی اب وہ کمزور نہیں تھی اس پوزیشن میں تھی کہ ماں سے بدلہ لے سکتی وہ ماں جس نے ماں والی کوئی رسم نہیں نبھائی تھی۔ عتیرہ خالی اندہنی کے عالم میں کسی غیر مرئی چیز کو دیکھ رہی تھی، آنسو سلسلہ وار انکی آنکھوں سے رواں تھے۔ انہیں خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب ملک ارسلان کمرے میں آئے، وہ اس وقت چونکیں جب انہوں نے عتیرہ کے کندھے پہ تسلی دینے والے انداز میں ہاتھ رکھا۔

وہ بری طرح رو رہی تھیں۔ ارسلان ان کے پاس بیٹھ گئے۔

”تم ذیان کی خاطر رو رہی ہو۔ ماں ہو ناں۔“ عتیرہ نے دہل کر جیسے ان کی طرف دیکھا کیا اس دن کی باتیں انہوں نے سن تو نہیں لی تھیں۔

ذیان نے ماں کے حوالے سے کیسی کیسی باتیں کی تھیں یقینا ارسلان کو غصہ آیا ہوگا کیونکہ وہ عتیرہ سے بے پناہ پیار کرتے تھے اور ذیان کی باتوں میں کوئی صداقت بھی نہیں تھی۔

وہ اس کے پاس بیٹھ چکے تھے عتیرہ کے بہتے آنسو انہوں نے اپنے ہاتھ سے صاف کیے۔ ”ہر ماں بیٹی کی رخصتی پہ روتی ہے اور تم خوش قسمت ہو کہ ہماری بیٹی رخصت ہو کر کہیں دور نہیں جارہی ہے۔ وہ اسی گھر میں ہماری آنکھوں کے سامنے رہے گی، اس لیے تم دل چھوٹا مت کرو۔ ابیک ہمارے بیٹے جیسا ہے ذیان کو بہت خوش رکھے گا۔“ وہ عتیرہ کے دل میں چبھے کانٹے ایک بار پھر نکالنا شروع کر چکے تھے وہ قدرے پرسکون ہوئیں صد شکر انہوں نے اس دن والی باتیں نہیں سنی تھیں۔

عتیرہ نہیں چاہتی تھیں ارسلان کے دل میں ذیان کی طرف سے کوئی میل آئے۔

”تم سوجاؤ، کل کا دن بہت مصروف ہوگا۔“ انہوں نے تکیے درست کرتے ہوئے عتیرہ کو کندھوں سے پکڑ کر بستر پہ لٹایا۔ خود تھوڑی دیر بعد وہ بھی چینج کر کے آگئے۔ عتیرہ نے آنکھوں پہ بازو رکھ لیا۔ ارسلان تھکے ہوئے تھے پندرہ منٹ بعد ان کے ہلکے ہلکے خراٹے گونجنا شروع ہوگئے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ گہری نیند سوچکے ہیں۔

عتیرہ نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر آہٹ پیدا کیے بغیر بستر سے اتر کر کھڑکی کے پاس پڑی ایزی چیئر پہ بیٹھ گئیں۔ آج کی رات نیند آنے والی نہیں تھی۔ یہ کرب و اذیت کی رات تھی تکلیف دہ ماضی کی طرف اذیت ناک سفر کی رات تھی۔ انہوں نے اپنے تئیں ماضی کی طرف کھلنے والا ہر دروازہ ہر کھڑکی ہر روزن بند کردیا تھا پر ماضی ذیان کی صورت زندہ تھا۔

Episode 68 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 68 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

قاسم صاحب بہت خوش تھے، وہ کھانے پینے کی انواع واقسام کی اشیاء لے کر آئے تھے۔ عتیرہ نے اس سے پہلے انہیں بہت کم خوش رکھا تھا۔ اسی خوشی کا سبب بہت جلد اس کے علم میں آگیا کیونکہ اس کے رشتے کے لیے خاص الخاص مہمان آرہے تھے۔ ابو نے اچھی طرح گھر کی صفائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عتیرہ سب کچھ کر کے فارغ ہوگئی تھی۔ کام ختم کر کے وہ نہائی اور دوسرے کپڑے زیب تن کیے ابو کل رات کو اس کے لیے یہ ریڈی میڈ سوٹ لائے تھے۔

انہوں نے بیٹی سے نظریں ملائے بغیر بتایا کہ کل مہمان آرہے ہیں تم نیا سوٹ پہن لینا۔ عتیرہ اسی وقت سمجھ گئی تھی کہ یہ مہمان کون ہوسکتے ہیں۔ قاسم صاحب بیٹی کے رشتے کی طرف سے بے حد پریشان تھے۔ ان کے دیرینہ دوست نے ان سے امیر علی کے خاندان کا ذکر کیا تھا وہ بیٹے کے لیے اچھے خاندان کی لڑکی ڈھونڈ رہے تھے۔

قاسم صاحب کے ان دوست کی اپنی کوئی بیٹی نہیں تھی اس لیے انہوں نے قاسم کی بیٹی کو اپنے ذہن میں رکھا۔

اب انہی کی کوششوں اور توسط سے رشتے کی بات آگے چلی تھی اور وہ لوگ عتیرہ کو دیکھنے آرہے تھے۔ قاسم صاحب بہت خوش تھے، ان کی دلی خوشی ان کے چہرے سے عیاں تھی۔

امیر علی کے گھر سے ان کی والدہ، دور پرے کی رشتے کے چچا اور دو رشتہ دار خواتین آئی تھیں۔ جس گاڑی میں وہ قاسم صاحب کے گھر آئے تھے اسی گاڑی نے قاسم صاحب کو مرعوب کیا تھا۔ وہ بے پناہ خوش تھے کہ بیٹی کا رشتہ کھاتے پیتے خاندان سے آیا ہے۔

امیر علی کے گھر والوں کو عتیرہ بے پناہ پسند آئی تھی پہلی ملاقات میں ہی ان کی کوشش تھی کہ قاسم صاحب سے جواب لے کر جائیں۔ مگر انہوں نے رسمی طور پہ سوچنے کی مہلت طلب کی تھی۔ مہمان بہت خوش رخصت ہوئے مگر عتیرہ کے دل میں سناٹے پھیلنا شروع ہوچکے تھے۔

ارسلان پاکستان سے باہر تھا۔ اس سے بہت کم رابطہ ہوپاتا تھا، خط لکھنے سے اسے عتیرہ نے خود ہی منع کیا ہوا تھا۔

فون ان کے گھر نہیں تھا۔ عتیرہ کو جب کبھی ارسلان سے بات کرنی ہوتی تو اپنی ایک کلاس فیلو کے گھر چلی جاتی جسے ارسلان اور عتیرہ کے دلی معاملات کا علم تھا۔ ارسلان اس مشترکہ کلاس فیلو کو فون کر کے دن اور ٹائم بتا دیتا مقررہ ٹائم پہ عتیرہ کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتی۔ ابھی دو دن پہلے ہی تو ارسلان سے اس کی بات ہوئی تھی وہ اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھا۔

زیادہ دیر بات نہیں ہو پائی تھی کیونکہ عتیرہ کی طرف لائن میں گڑبڑ تھی ارسلان تک عتیرہ کی آواز کٹ کٹ کے جارہی تھی۔ دونوں دل کی بیقراری ایک دوسرے پہ عیاں ہی نہیں کرپائے تھے۔

وہ بے حد پریشان تھی، قاسم صاحب اپنی خوشی میں اس کی اداسی کو محسوس ہی نہیں کرپائے۔ وہ اس کے پاس بیٹھے امیر علی کی فیملی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ”امیر علی بہت اچھے خوشحال خاندان سے ہے۔

میری خواہش تھی کہ میری بیٹی خاندانی لوگوں میں بیاہ کر جائے، اللہ نے جیتے جی میری خواہش پوری کردی ہے۔ تمہاری ماں کے بعد میں دعائیں مانگتا تھا کہ میری بیٹی عزت سے اپنے گھر کی ہوجائے۔ میں زندگی کا بوجھ اکیلے ڈھوتے ڈھوتے تھک گیا ہوں…“ بولتے بولتے قاسم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئے تو عتیرہ نے ان کا چہرہ دیکھا۔ وہ ایک پریشان حال باپ کا چہرہ تھا جس پہ وقت اور مسائل نے بے پناہ جھریاں قبل از وقت ہی ڈال دی تھیں۔

وہ اپنی عمر سے کم از کم بارہ سال زیادہ نظر آتے تھے۔ ”تمہاری ماں زندہ ہوتی تو خود تم سے یہ سب باتیں کرتی سمجھاتی…“وہ پھر گویا ہوئے۔ عتیرہ کا چہرہ اور تاثرات جیسے جامد ہو رہے تھے۔ وہ سر جھکائے آنکھیں نیچی کیے بیٹھی تھی۔ قاسم صاحب سمجھ رہے تھے وہ شرما رہی ہے۔ ”میں جلدی تمہاری شادی کرنا چاہتاہوں تاکہ عزت سے مرسکوں۔“ وہ آخری جملہ بول کر اس کے پاس سے اٹھ گئے تھے۔

بت بنی عتیرہ کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی۔اس کے ہاتھ اپنے چہرے کی طرف بڑھے وہ ٹٹول کر کچھ محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کیا واقعی وہ زندہ ہے اس کی دکھ، درد تکلیف محسوس کرنے کی حس ختم تو نہیں ہوگئی ہے۔

اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے یعنی وہ زندہ تھی ابھی پتھر نہیں بنی تھی۔اذیت اور کرب سہہ سکتی تھی۔ آج سے پہلے وہ سوچا کرتی تھی کہ اگر ارسلان سے دور ہوگئی تو مرجائے گی ان کے درمیان کوئی تیسرا آیا تو وہ سہہ نہیں پائے گی اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا پھٹ جائے گا۔

مگر اب امیر علی اس کا امیدوار بن کر درمیان میں آگیا تھا اور اس کا دل ریزہ ریزہ بھی نہیں ہوا تھا۔

ابو خوش تھے اس کی باعزت رخصتی کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے۔ وہ بے بس مجبور بنت حوا ہی تو تھی۔ صرف کڑھ سکتی تھی اپنے خوابوں کا ماتم کرسکتی تھی اور وہ کر رہی تھی۔

قاسم صاحب کو بہت جلدی تھی وہ امیر علی کے گھر گئے ہوئے تھے خاندان والوں نے انہیں دعوت پہ مدعو کیا تھا ساتھ قاسم صاحب کے وہ دوست بھی تھے جن کے توسط سے امیر علی کے بڑے ان کے گھر آئے تھے۔

عتیرہ،قاسم صاحب کے جانے کے بعد اپنی کلاس فیلو راحت سے ملنے چلی گئی۔وہ عتیرہ کا ویران اُجڑا سراپا دیکھ کر ہی جان گئی کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جو عتیرہ جیسی متوسط طبقے کی لڑکیوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ بھلا زمین اور آسمان کیسے مل سکتے ہیں۔ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند کون جان بوجھ کر اپنی مرضی سے لگاتا ہے۔

عتیرہ کے آنسو اس کے دل کو موم کر رہے تھے۔

ملک ارسلان کے دئیے گئے نمبر پہ عتیرہ نے راحت کے گھر بیٹھ کر کئی بار کال کی لیکن نمبر نہیں مل رہا تھا۔امریکہ کے جس شہر میں ملک ارسلان بغرض تعلیم مقیم تھا وہاں شدید سردی اور کئی کئی انچ پڑنے والی برف نے نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ کئی پروازیں اسی وجہ سے منسوخ کردی گئی تھیں، سڑکیں آمدورفت کے لیے مکمل طور پہ برف باری کی وجہ سے بند ہوگئی تھی۔

رہی سہی کسر برف کے طوفان نے پوری کردی تھی۔امدادی ٹیمیں کام کر رہی تھیں مگر شدید موسم اس میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔اب دعا ہی کی جاسکتی تھی کہ قدرت خود ہی رحم کرے ورنہ انسان قدرتی آفات کے سامنے بے بس تھے۔عتیرہ کو پورا یقین تھا ارسلان سے اس کی بات ہوجائے تو وہ فوراً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لوٹ آئے گا پلک جھپکتے سب بدل جائے گا وہ اپنے گھر والوں کو راضی کر کے لے آئے گا اور وہ دونوں اسی دنیا میں رہیں گے جو انہوں نے اپنے خوابوں میں سجا رکھی ہے۔

ارسلان سے بات کرنے کی کوشش مکمل طور پہ ناکام ہوگئی تھی۔وہ تھکے تھکے قدموں سے گھر لوٹی۔قاسم صاحب ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔عتیرہ تکیے میں منہ چھپا کر روتی رہی۔ قاسم صاحب امیر علی کے گھر سے کھانا کھا کر وہیں سے ہی اپنے دوست کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے تھے۔

انہیں بیٹی کی شادی دیگر معاملات میں ان سے مشورہ کرنا تھا۔

عتیرہ کا سر رونے کی وجہ سے بے تحاشہ درد کر رہا تھا۔

اس نے باورچی خانے میں آ کر اپنے لیے چائے بنائی اور سردرد کی دو گولیاں کھائیں۔ صحن میں رات اُتر آئی تھی ابو ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔وہ اپنے اندر کے شور سے بے تحاشہ ڈر گئی تھی۔اس شور پہ قابو پانے کے لیے اس نے ٹی وی لگا لیا جہاں رات نو بجے والا خبرنامہ دکھایا جارہا تھا۔ نیوز کاسٹر بتا رہا تھا کہ امریکہ کی ریاست نیو جرسی میں شدید برف باری اور ہواؤں کے تیز جھکڑ کی وجہ سے ذرائع آمدورفت کے ساتھ ذرائع مواصلات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں ابھی مزید برف باری کی توقع تھی اور موسم کے صاف ہونے کی فی الحال کوئی توقع نہیں تھی۔

عتیرہ نے سانس روک کر جیسے خبر سنی تھی۔ تویہ وجہ تھی جس کی بدولت اس کا رابطہ ارسلان کے ساتھ نہیں ہونے پایا تھا۔ابھی وہ اس پہ سوچ سوچ کے مزید پریشان ہونے کی تیاری باندھ رہی تھی کہ قاسم صاحب آگئے۔ وقتی طور پہ اس کی توجہ ان کی طرف ہوئی، وہ بے پناہ خوش تھے۔

اگلے دن قاسم صاحب نے امیر علی کے رشتے کے لیے ہاں کہلوا دی تھی۔ عتیرہ کا رونا دھونا آنسو آہیں سب بیکار گئے۔

سب فریادیں دل میں ہی دبی رہ گئیں۔ اس کی اور ارسلان کی محبت کا پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا چکا تھا۔ امیر علی کے گھر والوں کو بہت جلدی تھی وہ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے چکر میں تھے۔

ارسلان اگزامز سے فارغ ہوا تو عتیرہ کی یاد دل پہ بری طرح حملہ آور ہوئی۔ اسے پتہ تھا وہ اس کے فون نہ کرنے پہ سخت ناراض ہوگی۔ ایک اگزامز کی مصروفیت تھی اوپر سے قدرتی آفت کی وجہ سے موسم خراب تھا وہ چاہنے کے باوجود بھی عتیرہ سے رابطہ نہیں کرپایا تھا۔

اس نے راحت کو کال کی۔ عتیرہ کی بابت پوچھنے پہ جو جواب ملا اس نے ارسلان کے ہوش ہی اڑا دئیے دل کی دنیا جو اس نے بڑے ارمانوں سے ننھے منے حسین خوابوں سے سجائی تھی وہ اجڑ گئی تھی۔ راحت بتا رہی تھی کہ آج عتیرہ کا ولیمہ ہے وہ اس میں شرکت کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ارسلان سائیں سائیں کرتے کانوں سے سن رہا تھا الفاظ تھے کہ پگھلا ہوا سیسہ۔ آج عتیرہ کا ولیمہ ہے۔آج عتیرہ کا ولیمہ ہے آج عتیرہ کا ولیمہ ہے۔ نیو جرسی کی سڑکیں بھی چنگھاڑ رہی تھیں درخت بھی چیخ رہے تھے اس کا روم بھی شور کر رہا تھا آج عتیرہ کا ولیمہ ہے۔ آج عتیرہ کا ولیمہ ہے۔ شور اس کے لیے ناقابل برداشت ہو رہا تھا۔ ”نہیں نہیں نہیں۔“قسط نمبر 68 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

قاسم صاحب بہت خوش تھے، وہ کھانے پینے کی انواع واقسام کی اشیاء لے کر آئے تھے۔ عتیرہ نے اس سے پہلے انہیں بہت کم خوش رکھا تھا۔ اسی خوشی کا سبب بہت جلد اس کے علم میں آگیا کیونکہ اس کے رشتے کے لیے خاص الخاص مہمان آرہے تھے۔ ابو نے اچھی طرح گھر کی صفائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عتیرہ سب کچھ کر کے فارغ ہوگئی تھی۔ کام ختم کر کے وہ نہائی اور دوسرے کپڑے زیب تن کیے ابو کل رات کو اس کے لیے یہ ریڈی میڈ سوٹ لائے تھے۔

انہوں نے بیٹی سے نظریں ملائے بغیر بتایا کہ کل مہمان آرہے ہیں تم نیا سوٹ پہن لینا۔ عتیرہ اسی وقت سمجھ گئی تھی کہ یہ مہمان کون ہوسکتے ہیں۔ قاسم صاحب بیٹی کے رشتے کی طرف سے بے حد پریشان تھے۔ ان کے دیرینہ دوست نے ان سے امیر علی کے خاندان کا ذکر کیا تھا وہ بیٹے کے لیے اچھے خاندان کی لڑکی ڈھونڈ رہے تھے۔

قاسم صاحب کے ان دوست کی اپنی کوئی بیٹی نہیں تھی اس لیے انہوں نے قاسم کی بیٹی کو اپنے ذہن میں رکھا۔

امیر علی کے گھر سے ان کی والدہ، دور پرے کی رشتے کے چچا اور دو رشتہ دار خواتین آئی تھیں۔ جس گاڑی میں وہ قاسم صاحب کے گھر آئے تھے اسی گاڑی نے قاسم صاحب کو مرعوب کیا تھا۔ وہ بے پناہ خوش تھے کہ بیٹی کا رشتہ کھاتے پیتے خاندان سے آیا ہے۔

امیر علی کے گھر والوں کو عتیرہ بے پناہ پسند آئی تھی پہلی ملاقات میں ہی ان کی کوشش تھی کہ قاسم صاحب سے جواب لے کر جائیں۔ مگر انہوں نے رسمی طور پہ سوچنے کی مہلت طلب کی تھی۔ مہمان بہت خوش رخصت ہوئے مگر عتیرہ کے دل میں سناٹے پھیلنا شروع ہوچکے تھے۔

ارسلان پاکستان سے باہر تھا۔ اس سے بہت کم رابطہ ہوپاتا تھا، خط لکھنے سے اسے عتیرہ نے خود ہی منع کیا ہوا تھا۔

فون ان کے گھر نہیں تھا۔ عتیرہ کو جب کبھی ارسلان سے بات کرنی ہوتی تو اپنی ایک کلاس فیلو کے گھر چلی جاتی جسے ارسلان اور عتیرہ کے دلی معاملات کا علم تھا۔ ارسلان اس مشترکہ کلاس فیلو کو فون کر کے دن اور ٹائم بتا دیتا مقررہ ٹائم پہ عتیرہ کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی جاتی۔ ابھی دو دن پہلے ہی تو ارسلان سے اس کی بات ہوئی تھی وہ اپنے امتحانات کی تیاری میں مصروف تھا۔

زیادہ دیر بات نہیں ہو پائی تھی کیونکہ عتیرہ کی طرف لائن میں گڑبڑ تھی ارسلان تک عتیرہ کی آواز کٹ کٹ کے جارہی تھی۔ دونوں دل کی بیقراری ایک دوسرے پہ عیاں ہی نہیں کرپائے تھے۔

وہ بے حد پریشان تھی، قاسم صاحب اپنی خوشی میں اس کی اداسی کو محسوس ہی نہیں کرپائے۔ وہ اس کے پاس بیٹھے امیر علی کی فیملی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ ”امیر علی بہت اچھے خوشحال خاندان سے ہے۔

میری خواہش تھی کہ میری بیٹی خاندانی لوگوں میں بیاہ کر جائے، اللہ نے جیتے جی میری خواہش پوری کردی ہے۔ تمہاری ماں کے بعد میں دعائیں مانگتا تھا کہ میری بیٹی عزت سے اپنے گھر کی ہوجائے۔ میں زندگی کا بوجھ اکیلے ڈھوتے ڈھوتے تھک گیا ہوں…“ بولتے بولتے قاسم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوئے تو عتیرہ نے ان کا چہرہ دیکھا۔ وہ ایک پریشان حال باپ کا چہرہ تھا جس پہ وقت اور مسائل نے بے پناہ جھریاں قبل از وقت ہی ڈال دی تھیں۔

وہ اپنی عمر سے کم از کم بارہ سال زیادہ نظر آتے تھے۔ ”تمہاری ماں زندہ ہوتی تو خود تم سے یہ سب باتیں کرتی سمجھاتی…“وہ پھر گویا ہوئے۔ عتیرہ کا چہرہ اور تاثرات جیسے جامد ہو رہے تھے۔ وہ سر جھکائے آنکھیں نیچی کیے بیٹھی تھی۔ قاسم صاحب سمجھ رہے تھے وہ شرما رہی ہے۔ ”میں جلدی تمہاری شادی کرنا چاہتاہوں تاکہ عزت سے مرسکوں۔“ وہ آخری جملہ بول کر اس کے پاس سے اٹھ گئے تھے۔

بت بنی عتیرہ کے جسم میں حرکت پیدا ہوئی۔اس کے ہاتھ اپنے چہرے کی طرف بڑھے وہ ٹٹول کر کچھ محسوس کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کیا واقعی وہ زندہ ہے اس کی دکھ، درد تکلیف محسوس کرنے کی حس ختم تو نہیں ہوگئی ہے۔

اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے یعنی وہ زندہ تھی ابھی پتھر نہیں بنی تھی۔اذیت اور کرب سہہ سکتی تھی۔ آج سے پہلے وہ سوچا کرتی تھی کہ اگر ارسلان سے دور ہوگئی تو مرجائے گی ان کے درمیان کوئی تیسرا آیا تو وہ سہہ نہیں پائے گی اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا پھٹ جائے گا۔

مگر اب امیر علی اس کا امیدوار بن کر درمیان میں آگیا تھا اور اس کا دل ریزہ ریزہ بھی نہیں ہوا تھا۔

ابو خوش تھے اس کی باعزت رخصتی کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے۔ وہ بے بس مجبور بنت حوا ہی تو تھی۔ صرف کڑھ سکتی تھی اپنے خوابوں کا ماتم کرسکتی تھی اور وہ کر رہی تھی۔

قاسم صاحب کو بہت جلدی تھی وہ امیر علی کے گھر گئے ہوئے تھے خاندان والوں نے انہیں دعوت پہ مدعو کیا تھا ساتھ قاسم صاحب کے وہ دوست بھی تھے جن کے توسط سے امیر علی کے بڑے ان کے گھر آئے تھے۔

عتیرہ،قاسم صاحب کے جانے کے بعد اپنی کلاس فیلو راحت سے ملنے چلی گئی۔وہ عتیرہ کا ویران اُجڑا سراپا دیکھ کر ہی جان گئی کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جو عتیرہ جیسی متوسط طبقے کی لڑکیوں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ بھلا زمین اور آسمان کیسے مل سکتے ہیں۔ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند کون جان بوجھ کر اپنی مرضی سے لگاتا ہے۔

عتیرہ کے آنسو اس کے دل کو موم کر رہے تھے۔

ملک ارسلان کے دئیے گئے نمبر پہ عتیرہ نے راحت کے گھر بیٹھ کر کئی بار کال کی لیکن نمبر نہیں مل رہا تھا۔امریکہ کے جس شہر میں ملک ارسلان بغرض تعلیم مقیم تھا وہاں شدید سردی اور کئی کئی انچ پڑنے والی برف نے نظام زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ کئی پروازیں اسی وجہ سے منسوخ کردی گئی تھیں، سڑکیں آمدورفت کے لیے مکمل طور پہ برف باری کی وجہ سے بند ہوگئی تھی۔

رہی سہی کسر برف کے طوفان نے پوری کردی تھی۔امدادی ٹیمیں کام کر رہی تھیں مگر شدید موسم اس میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔اب دعا ہی کی جاسکتی تھی کہ قدرت خود ہی رحم کرے ورنہ انسان قدرتی آفات کے سامنے بے بس تھے۔عتیرہ کو پورا یقین تھا ارسلان سے اس کی بات ہوجائے تو وہ فوراً سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لوٹ آئے گا پلک جھپکتے سب بدل جائے گا وہ اپنے گھر والوں کو راضی کر کے لے آئے گا اور وہ دونوں اسی دنیا میں رہیں گے جو انہوں نے اپنے خوابوں میں سجا رکھی ہے۔

ارسلان سے بات کرنے کی کوشش مکمل طور پہ ناکام ہوگئی تھی۔وہ تھکے تھکے قدموں سے گھر لوٹی۔قاسم صاحب ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔عتیرہ تکیے میں منہ چھپا کر روتی رہی۔ قاسم صاحب امیر علی کے گھر سے کھانا کھا کر وہیں سے ہی اپنے دوست کے ساتھ اس کے گھر چلے گئے تھے۔

انہیں بیٹی کی شادی دیگر معاملات میں ان سے مشورہ کرنا تھا۔

عتیرہ کا سر رونے کی وجہ سے بے تحاشہ درد کر رہا تھا۔

اس نے باورچی خانے میں آ کر اپنے لیے چائے بنائی اور سردرد کی دو گولیاں کھائیں۔ صحن میں رات اُتر آئی تھی ابو ابھی تک واپس نہیں آئے تھے۔وہ اپنے اندر کے شور سے بے تحاشہ ڈر گئی تھی۔اس شور پہ قابو پانے کے لیے اس نے ٹی وی لگا لیا جہاں رات نو بجے والا خبرنامہ دکھایا جارہا تھا۔ نیوز کاسٹر بتا رہا تھا کہ امریکہ کی ریاست نیو جرسی میں شدید برف باری اور ہواؤں کے تیز جھکڑ کی وجہ سے ذرائع آمدورفت کے ساتھ ذرائع مواصلات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں ابھی مزید برف باری کی توقع تھی اور موسم کے صاف ہونے کی فی الحال کوئی توقع نہیں تھی۔

عتیرہ نے سانس روک کر جیسے خبر سنی تھی۔ تویہ وجہ تھی جس کی بدولت اس کا رابطہ ارسلان کے ساتھ نہیں ہونے پایا تھا۔ابھی وہ اس پہ سوچ سوچ کے مزید پریشان ہونے کی تیاری باندھ رہی تھی کہ قاسم صاحب آگئے۔ وقتی طور پہ اس کی توجہ ان کی طرف ہوئی، وہ بے پناہ خوش تھے۔

اگلے دن قاسم صاحب نے امیر علی کے رشتے کے لیے ہاں کہلوا دی تھی۔ عتیرہ کا رونا دھونا آنسو آہیں سب بیکار گئے۔

سب فریادیں دل میں ہی دبی رہ گئیں۔ اس کی اور ارسلان کی محبت کا پھول کھلنے سے پہلے ہی مرجھا چکا تھا۔ امیر علی کے گھر والوں کو بہت جلدی تھی وہ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے چکر میں تھے۔

ارسلان اگزامز سے فارغ ہوا تو عتیرہ کی یاد دل پہ بری طرح حملہ آور ہوئی۔ اسے پتہ تھا وہ اس کے فون نہ کرنے پہ سخت ناراض ہوگی۔ ایک اگزامز کی مصروفیت تھی اوپر سے قدرتی آفت کی وجہ سے موسم خراب تھا وہ چاہنے کے باوجود بھی عتیرہ سے رابطہ نہیں کرپایا تھا۔

Episode 69 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 69 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہ زور زورسے چیخ رہا تھا۔اس کے دونوں روم میٹ ہمدردی اور ترحم آمیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ ارسلان نے اپنا سر دیوار سے ٹکرا کے خود کو زخمی کرلیا تھا۔اُسے بمشکل تمام قابو کر کے ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ پاکستان بھی اطلاع دے دی گئی کہ ارسلان کی طبیعت خراب ہے۔

اس پہ شدید نوعیت کا ڈیپریشن حملہ آور ہوا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے رونے لگتا۔

ملک جہانگیر چند دن میں ہی اس کے پاس امریکہ پہنچ گئے۔ان کے گلے لگ کر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ ”بھائی جان میں زندہ نہیں رہ پاؤں گا عتیرہ کے بغیر۔ وہ چلی گئی ہے میں نے بہت دیر کردی ہے ناں۔“ وہ اونچا لمبا مرد بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ ملک جہانگیر نے پہلی بار اسے ایسے دیکھا تھا۔وہ ڈر گئے تھے کہ ارسلان خود کو نقصان نہ پہنچا لے۔

وہ اسے پاکستان ساتھ لے آئے۔

یہاں بھی اس کی وہی حالت تھی بلکہ اب تو وہ پہلے سے زیادہ قابل رحم ہوگیا تھا۔یہاں اسے عتیرہ اور بھی زیادہ یاد آنے لگی تھی۔وہ بری طرح روتا اپنے بال نوچتا۔وہ پاگل پنے کی حدود کو چھو رہا تھا۔ملک افتخار بیٹے کے اس دکھ کو لے کر قبر میں ابدی نیند جا سوئے۔ملک ارسلان پہلے سے بھی زیادہ ڈیپریشن کا شکار ہوگیا تھا۔وہ پہروں خاموش رہتا خلاؤں میں گھورتا۔

افشاں بیگم اور ملک جہانگیر نے اسے شادی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی پر وہ تو کف اڑانے لگا اسے صرف عتیرہ چاہیے تھی۔ملک جہانگیر نے اس کے لئے بہترین ڈاکٹرز اور سائیکا ٹرسٹ سے رجوع کیا انہوں نے انٹی ڈیپریشن میڈسن کے نام پہ سیلپنگ پلز دے دیں۔ ملک ارسلان سویا رہتا۔اس کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب آنکھوں اور دل تک ہی محدود رہ گیا تھا۔

ملک جہانگیر اس کی یہ حالت دیکھ دیکھ کر کڑھتے۔

وہ دنیا سے بے خبر ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا تھا۔

شادی کے بعد امیر علی کے ساتھ عتیرہ کی زندگی نارمل ڈگرپہ رواں دواں تھی۔باقی سب ٹھیک تھا بس عتیرہ کے دل کا ایک حصہ ویرانیوں کی زد میں تھا۔اپنے گھر سے وہ روتی دھوتی سسرال میں آئی تھی۔ امیر علی کے سر پہ اس کے حسن کا جادوچڑھ چکا تھا۔

شادی کے شروع میں وہ سمجھ ہی نہیں پایا کہ عتیرہ اسقدر اداس اور چپ چپ کیوں رہتی ہے۔ حالانکہ وہ گھر کے سب کاموں میں حصہ لیتی سب کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہنستی بولتی مگر اکثر اوقات ایسا لگتا جیسے یہ مسکراہٹ مانگے کی ہے اس کے قہقہے مستعار لیے ہوئے ہیں۔ امیر علی کا اپنا کاروبار تھا وہ دس بجے ناشتہ کر کے آرام سے آفس جاتا۔اس کے جانے کے بعد عتیرہ بوا رحمت کے ساتھ ان کے نہ نہ کرنے کے باوجود کاموں میں لگ جاتی۔

کپڑے دھونے پہ آتی تو گھر بھر کے کپڑے جمع کرلیتی کھڑکیوں دروازوں کے پردے تک اتار لیتی۔حالانکہ اسے کپڑے دھونے کی ضرورت نہیں تھی اس مقصد کے لیے امیر علی نے تین تین ملازمائیں رکھ چھوڑی تھیں۔ عتیرہ خود کو کاموں میں غرق کر کے ارسلان کی یادوں سے پیچھا چھڑانا چاہ رہی تھی۔ اس نے پوری ایمانداری کے ساتھ امیر علی کے ہمراہ زندگی کا یہ نیا سفر شروع کیا تھا۔

گھر میں سب ہی اس سے خوش تھے۔ بوا رحمت تو اس سے بہت پیار کرتی تھیں۔ چپ چپ بھیگی بھیگی آنکھوں والی عتیرہ انہیں بہت اچھی لگتی تھی۔

اس نے کسی کو بھی شکایت کا موقعہ نہیں دیا تھا۔ امیر علی کے ساتھ شادی کے چند ماہ بعد ہی عتیرہ کی ساس کا انتقال ہوگیا۔اسی دوران اس کی طبیعت خراب رہنے لگی، چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے خوشخبری سنائی تو امیر علی کے تن من میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

مگر عتیرہ کی کھوئی کھوئی حالت مستقل طور پہ انہیں ڈسٹرب کرنے لگی۔پتہ نہیں ہنستے وقت آنکھیں عتیرہ کا ساتھ کیوں نہیں دیتی تھیں وہ روبوٹ کی طرح ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتی جس میں صرف جسم اس کا ساتھ دیتا اور روح دور پیچھے بہت پیچھے ارسلان کے پاس رہ جاتی۔ویسے بھی وہ امیر علی کے پاس ان کے گھر میں صرف اپنا جسم ہی لے کر تو داخل ہوئی تھی روح ارسلان کے پاس رہ گئی تھی اس کے خواب ارسلان کے پاس رہ گئے تھے محض گوشت پوشت کا ڈھیر تھی جس میں کوئی جذبہ اور احساس نہیں تھا۔

قاسم صاحب اس سے ملنے آتے تو اسے اتنے بڑے گھر کی مالکن کے روپ میں دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ عتیرہ کی اندرونی حالت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اب تو امیر علی اس کی خاموشی سے چڑنے لگے تھے۔انہی خاموشیوں کے درمیان عتیرہ نے بیٹی کو جنم دیا۔

ملک جہانگیر اس لڑکی کا پتہ چلانے کی کوشش کر رہے تھے جس کی وجہ سے ملک ارسلان ان کا لاڈلا چھوٹابھائی ان حالوں کو پہنچا تھا۔

اس تلاش کے دوران ان کے ہاتھ ارسلان کی ڈائری لگی جس میں بہت سے نمبر لکھے ہوئے تھے۔ اس میں راحت کا نمبر بھی تھا۔

وہ ایک دن سراغ لگانے کے بعد خاموشی سے راحت کے گھر پہنچ گئے۔ وہ بیحد خوفزدہ ہوئی، ملک جہانگیر کا کروفر اور شاہانہ جاہ و جلال بتا رہا تھا کہ وہ عام سی شخصیت نہیں ہیں۔جہانگیر سمجھ رہے تھے کہ راحت ہی وہ لڑکی ہے جس کی وجہ سے ارسلان کی یہ حالت ہوئی ہے مگر راحت سے ملنے کے بعد ان کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی۔

ملک ارسلان سے وہ جب بھی اس موضوع پہ بات کرنے کی کوشش کرتے وہ ہسٹریک ہوجاتا اور ہذیان بکنے لگتا۔ اسی وجہ سے انہوں نے چھپ کر بھائی کے کمرے اور سامان کی تلاشی لی تھی۔

راحت سے ملنے کے بعد ان کی مایوسی بڑھ گئی تھی امید کے سب جلتے دئیے ایک ایک کر کے بجھ گئے تھے۔ جس لڑکی کی محبت میں ارسلان سودائی ہوگیا تھا وہ تو اپنا گھر بسا کر ایک بیٹی کی ماں بھی بن چکی تھی۔

وہ تھکے تھکے قدموں سے واپس لوٹے تھے۔

ملک جہانگیر کی آمد اور ارسلان کی موجودہ حالت راحت کے لیے بہت بڑی خبر تھی۔ وہ عتیرہ کو بتانے کے لیے بے چین تھی۔

امیر علی حسب معمول آفس میں تھے۔شام کو راحت عتیرہ کے پاس پہنچی،ملک جہانگیر کی آمد سے لے کر ملک ارسلان کی حالت تک اس نے الف تا یے سب عتیرہ کے گوش گزار کردیا۔

اسے جوش جذبات میں امیر علی کے آنے کی خبر ہی نہیں ہوئی۔

وہ راحت کی زبان سے نکلا ایک ایک لفظ سن چکا تھا۔ پر اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کچھ دن تک اس نے بہت مشکل سے خود پہ قابو پائے رکھا اور اپنا رویہ نارمل رکھا، مگر کب تک اس کے اندر جوالا مکھی ابل رہا تھا۔ اس نے بہت دھیمے سے نرمی سے عتیرہ سے باز پرس کی۔ وہ ابھی اتنی پختہ اور چالاک نہیں ہوئی تھی کہ کچھ چھپا پاتی۔ اس نے بہت سادگی سے ارسلان کے یونیورسٹی میں ملنے اور پھر باہم پسندیدگی کا بتایا۔

اس کے دل میں چور نہیں تھا کیونکہ اس نے اپنی زندگی ایمانداری کے ساتھ امیر علی کے گھر سے شروع کی تھی۔ ٹھیک تھا اس کے دل اور یادوں میں ارسلان کا قبضہ تھا پر اس نے امیر علی کی امانت میں خیانت نہیں کی تھی نہ ایسا کرنے کاسوچا تھا۔

امیر علی جیسے تنگ دل تنگ نظر شوہر کے نزدیک اس کا جرم ناقابل معافی تھا۔حالانکہ وہ عتیرہ کا ماضی تھا خود امیر علی کا ماضی ایسی پسندیدگی سے خالی نہیں تھا پر عتیرہ عورت تھی اس لیے سزا کے لائق تھی۔

اس نے اسی ٹائم سزا سنا دی، کھڑے کھڑے عتیرہ کو گھر سے نکال دیا۔ ایک سال تین ماہ کی ذیان کو امیر علی نے عتیرہ کی گود سے چھین لیا تھا۔ عتیرہ روئی تڑپی فریادیں کیں دہائیاں دیں واسطے دئیے پر امیر علی کا دل ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پتھر کا ہوچکا تھا۔ اسے باپ کے گھر زبردستی بھیجنے کے ایک ہفتہ بعد اس نے عتیرہ پہ وہ ستم بھی توڑ ڈالا جس سے ہر شریف عورت ڈرتی ہے۔

امیر علی نے اسے طلاق دے دی تھی۔ عتیرہ نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اسے ذیان مل جائے پر وہ کمزور عورت تھی ساتھ قاسم صاحب کی اپروچ نہ ہونے کے برابر تھی امیر علی بزور طاقت جیت گیا۔ طلاق کے ساتھ بدنامی، رسوائی اوربدکرداری کا طعنہ بھی امیر علی نے عتیرہ کی جھولی میں ڈالا تھا۔ ایک مرد ہونے کے ناطے اس نے وہ سب کیا تھا جو وہ کرسکتا تھا۔

وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی قصور وار تھی۔ اس پہ دنیا بھر کے جھوٹے الزامات تھوپ کر امیر علی سچا اور مظلوم بن گیا تھا۔ خاندان میں ہر کوئی اسے اپنی بیٹی دینے کے لیے تیار تھا۔ حالانکہ عتیرہ نے اپنا گھر بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی وہ امیر علی کے پاؤں پہ اپنا سر تک رکھ کے دیکھ چکی تھی۔پر وہ ماضی بھولنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ شادی کے بعد عتیرہ کا ملک ارسلان کے ساتھ کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ اسے امیر علی نے معاف نہیں کیا تھا۔ کیونکہ خدا معاف کرتا ہے اور وہ انسان تھا عام سا انسان، خدا بننے کے لیے بہت بلند ہونا پڑتا ہے جبکہ امیر علی کی تو سوچ تک پستی میں سفر کر رہی تھی۔

Episode 70 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 70 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان کو مہندی لگانے کے لیے شہر کے معروف بیوٹی پارلر سے بیوٹیشن خاص طور پہ بلوائی گئی تھی۔ بیوٹیشن کو بھاری معاوضے پہ ملک محل بلوایا گیا تھا۔

وہ بڑی مہارت سے مہندی کی کون پکڑے ذیان کے ہاتھوں پہ خوبصورت ڈیزائن والی مہندی لگا رہی تھی۔ ابھی دونوں پاؤں پہ بھی مہندی لگانا باقی تھا۔ ذیان ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی۔ خدا خدا کر کے مہندی لگانے کا مرحلہ تمام ہوا تو اس نے سکون کی سانس لی۔

بیوٹیشن نے بڑی محنت اور دل سے ذیان کو مہندی لگائی تھی اس کے جانے کے بعد ذیان نے ٹانگیں سامنے پڑے ٹیبل پہ رکھ دیں۔ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اس کا پورا سراپا واضح نظر آرہا تھا۔اس کے چہرے پہ پژمردگی تو جیسے کھب کر رہ گئی تھی۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ اور کلائیاں دیکھیں جو کہنی تک مہندی کے نقش و نگار سے آراستہ تھی پھر اس کی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف گئی۔

سفید اور گلابی مرمریں پاؤں میں مہندی الگ ہی چھب دکھلا رہی تھی۔اپنا رنگ روپ اپنا آپ اسے کچھ بھی تو اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ ہر چیز سے بیزار ہو رہی تھی۔ کل ابیک کے ساتھ اس کا نکاح اور رخصتی تھی پر وہ خوش نہیں تھی۔ آئینے میں اسے اپنا سراپا بڑا اجنبی اجنبی سا نظر آرہا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے بالوں میں لگے موتیے کے گجرے نوچ دئیے۔ابیک کے رشتے کی خالہ دو دن سے اِدھر ہی تھی۔

شادی کے دن حسین ترین نظر آنے کے لیے انہوں نے گھر پہ ہی ذیان کے لیے خاص ابٹن تیار کیا تھا جونہی وہ اس کے کمرے میں آتی ابٹن کا پیالہ ان کے ساتھ ہوتا ان کے حکم پہ وہ ابٹن ذیان کو ہاتھ پاؤں اور چہرے پہ لگانا پڑتا۔ سورج ڈھل رہا تھا انہوں نے ایک دفعہ اور ابٹن اسے لازمی تھوپنا تھا فی الحال ذیان کمرے میں اکیلی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا باہر جا کر تازہ ہوا میں سانس لے۔

اتنے دن سے وہ مجبوراً اپنے کمرے تک محدود تھی۔

تازہ ہوا اور کھلا آسمان دیکھنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ ذیان نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا کوئی ذی نفس نظر نہیں آرہا تھا اس نے جلدی سے جوتے پہنے اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ باؤنڈری وال عبور کر کے اس نے باغ کا رخ کیا۔ سورج مغرب کی طرف جھک چکا تھا۔ گھر کو لوٹتے پرندوں کی آوازیں ماحول پہ چھائے عجیب سے اسرار کو اور بھی بڑھا رہی تھیں۔

باغ کی سمت جلنے والی لائٹس آن ہوچکی تھیں۔ وہ سنگی بنچ پہ بیٹھ گئی جس کے اوپر پیپل کے گھنے درخت کا سایہ تھا۔ اوپر درخت کے سرے پہ پتوں میں ہلچل اور شور مچا ہوا تھا چڑیاں اپنے اپنے ٹھکانے پہ بیٹھ رہی تھیں۔ یہ سب شور اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ ذیان نے ایک بار پھر اپنے مہندی سے آراستہ ہاتھ پاؤں کو دیکھا مہندی خشک ہوچکی تھی۔سر پہ پیلا گوٹا لگا دوپٹہ ماتھے تک اس نے اوڑھا ہوا تھا۔

اپنا آپ دیکھ کر اسے عجیب سی وحشت نے آن گھیرا۔

اس کے اندر کیوں اتنا خالی پن تھا جب وہ اپنے سگے باپ کے گھر میں تھی تب بھی اس کے اندر سناٹے بولتے تھے اب سگی ماں کے پاس تھی سب سہولیات قدموں میں ڈھیر تھیں کوئی ڈر کوئی خوف نہ تھا پھر بھی کوئی کمی ستا رہی تھی کوئی خواہش آنکھیں موندے رو رہی تھی دل کا درد قطرہ قطرہ اس کی آنکھوں سے ٹپکنے لگا۔

ماں باپ کا گھر چھوڑتے وقت ہر لڑکی روتی ہے پر اس کا رونا عجیب بات پہ تھا کہ اس نے عین وقت پہ ملک ابیک کو انکار کیوں نہیں کیا۔ وہ ایسا کر گزرتی تو سینے میں لگی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی۔

جس طرح زرینہ بیگم اسے ماں کا طعنہ دیتی تھیں پھر ایسا ہی طعنہ عتیرہ ملک کو بھی سننا پڑتا کہ ان کی بیٹی نے عین وقت پہ شادی سے انکار کردیا۔ سب ان کے خلاف ہوجاتے، وہ دکھی ہوتیں کرب سے گزرتیں تب انہیں اس کا دکھ اور کرب کا اندازہ ہوتا۔

اچانک ذیان کو اپنے پیچھے آہٹ کا احساس ہوا۔ اس نے گردن کارخ موڑ کر دیکھا، ابیک ملک کے رشتے کی خالہ، فریدہ اور زیبو سمیت اِدھر ہی آرہی تھیں۔ شاید وہ اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔ ان تینوں کا رنگ ذیان کو دیکھتے ہی فق ہوگیا۔ رونے سے اس کی آنکھیں لال سرخ انگارہ بنی ہوئی تھیں۔ بکھرے بال چہرے پہ وحشت آنکھوں میں ویرانی اور گہری اُداسی۔

یہ پہلے والی ذیان ہرگز نہیں لگ رہی تھی۔

ملک ابیک کی رشتے کی خالہ پریشان نظر آرہی تھیں یہی حال زیبو اور فریدہ کا تھا۔ ”پتر ادھر سے اٹھو فوراً…!! تم مایوں کی دلہن ہو۔ تمہیں اس طرح کمرے سے باہر نہیں آنا چاہیے تھا۔ اور وہ بھی اس طرح یہاں مغرب کے وقت تم درخت کے نیچے بیٹھی ہو۔“ انہوں نے نرمی سے فہماشی انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی اور اس کے شانے پہ دباؤ ڈالا تاکہ وہ ان کی بات پہ عمل کرے۔

”چھوٹی بی بی جس طرح آپ پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھی ہیں ناں ایسے جن چمٹ جاتے ہیں۔ بھوت بلائیں پیچھے لگ جاتی ہیں۔ یہ درخت بہت پرانا ہے۔“ فریدہ کا لہجہ ذیان کو بتاتے ہوئے اندرونی خوف سے کانپ سا رہا تھا۔

”میں تو عصر کے بعد اِدھر سے گزرتی بھی نہیں ہوں اتنا ڈر لگتا ہے۔“ زیبو کا حال بھی فریدہ سے مختلف نہیں تھا۔

”اٹھو پتر یہ دونوں ٹھیک کہہ رہی ہیں مغرب کے وقت اس طرح کھلے آسمان تلے درختوں کے نیچے نہیں بیٹھنا چاہیے تم دلہن ہو۔

خیال کرنا چاہیے تمہیں۔“ ملک ابیک کی رشتے کی خالہ نے اس کا بازو پکڑ کر اٹھایا تو وہ میکانکی انداز میں ایسے اٹھی جیسے اس کے اندر کوئی طاقت حلول کر گئی ہو۔ اور پھر جیسے خواب کے عالم میں وہ سوئی سوئی کمرے تک آئی۔

ان تینوں کو ایسے لگ رہا تھا وہ جیسے ہوا میں تیر رہی ہو۔ فریدہ اور زیبو کی آنکھوں اور چہرے پہ بے پناہ خوف تھا۔ ذیان بالکل خاموش تھی۔

ابیک کی خالہ اور ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آنکھوں آنکھوں میں کوئی بات کی۔ ابیک کی خالہ نے کچھ پڑھ کر ذیان پہ پھونک ماری۔ ذیان کا ماتھا اور جسم آہستہ آہستہ گرم ہو رہا تھا۔ اسے اپنا جسم حدت سے ٹوٹتا محسوس ہو رہا تھا۔ ابیک کی خالہ اس کے پاس ہی تھیں متفکر اور پریشان ذیان بھی بالکل خاموش تھی۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اور سوجن کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی۔

ابیک کی خالہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سورتیں پڑھ کر اس پہ دم کر رہی تھیں۔ ذیان پہ رفتہ رفتہ غنودگی طاری ہو رہی تھی۔

ابیک کی رشتے کی خالہ عتیرہ کو سب کچھ بتا چکی تھیں۔ زیبو اور فریدہ بھی وہیں بیٹھی تھیں۔ دونوں نے ذیان کے باغ میں جانے کا احوال،اس کا وحشت زدہ انداز، آنکھوں کی سرخی اور جسم کے اچانک گرم ہوجانے کے متعلق تفصیل سے بتایا تھا۔

”کنواری لڑکی مایوں کی دلہن اس طرح مغرب کے وقت درختوں کے نیچے جا کر بیٹھے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ میری مانو تو صبح سویرے مولوی صاحب سے دم کروا کے کوئی تعویذ لے لو۔مجھے ذیان کی حالت اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ کل رخصتی ہے اس کی۔خدانخواستہ کچھ بھی ہوسکتا ہے آگ کی طرح تپ رہا ہے اس کا پنڈا۔“ابیک کی رشتے کی خالہ نے اپنی عقل کے مطابق مشورہ دیا۔ وہ معمر اور سمجھدار خاتون تھیں پڑھی لکھی بھی تھیں مذہب سے خاصا لگاؤ تھا ان کو۔

”ہاں بی بی جی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔“زیبو کا جسم بات کرتے ہوئے کانپ رہا تھا۔ ”چھوٹی بی بی باغ سے کمرے تک ایسے آئی ہیں جیسے ان کے قدم زمین پہ نہ ہوں۔“فریدہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ عتیرہ پریشان ہو رہی تھیں۔واقعی ذیان کا پورا جسم اور ماتھا شدید گرم ہو رہا تھا۔ آنکھیں بند کیے وہ نڈھال انداز میں ان سب سے بے خبر پڑی ہوئی تھی۔ ”اسے کوئی دوائی وغیرہ دے دوں میں۔

بہت تیز بخار ہو رہا ہے ذیان کو۔“عتیرہ نے مشورہ طلب نگاہوں سے ابیک کے رشتے کی خالہ کی طرف دیکھا تو انہوں نے شدت سے نفی میں سر ہلایا۔ ”ذیان کو دوائی کی ضرورت نہیں ہے سمجھا کرو اسے فوراً دم کراؤ۔“ وہ آہستہ آواز میں بولیں۔

”میں مولوی صاحب کو صبح صبح ادھر ہی بلوا لوں گی۔“ عتیرہ نے فوراً ان سے اتفاق کیا۔

”کسی کو بھی یہ بات مت بتانا۔

“ انہوں نے آہستہ آواز میں پھر کہا تو عتیرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”ذیان ہے بھی تو رج کے سوہنی…“ ان کی نگاہ بیڈ پہ سوئی ذیان کی طرف تھی۔ وہ چاروں اسی کے کمرے میں تھیں۔

ذیان ان کی طرف سے کروٹ لیے سو رہی تھی۔وہ چاروں اگر سامنے سے ذیان کا چہرہ دیکھ لیتیں تو ڈر جاتیں۔ اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھلی ہوئی تھیں اور ان میں عجیب سی وحشت ابھی بھی ناچ رہی تھی۔

ہونٹوں پہ ایک ایسی مسکراہٹ تھی جسے کوئی بھی نام نہیں دیا جاسکتا تھا۔زیبو اور فریدہ دیکھ لیتیں تو مارے ڈر کے کمرے سے ہی بھاگ جاتیں۔

ملک ابیک کی رشتے کی خالہ اور عتیرہ بیگم نے رات ذیان کے کمرے میں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ زیبو اور فریدہ اجازت لے کر چلی گئی تھیں۔جانے سے پہلے دونوں نے پانی کا جگ گلاس اور دیگر چیزیں کمرے میں رکھ دی تھیں۔

دونوں بے حد خوفزدہ تھیں۔پیپل کے درخت سے متعلق انہوں نے بڑوں سے بہت سی باتیں سن رکھی تھیں۔ وہ درخت بہت پرانا تھا۔باغ کے عین درمیان میں ایستادہ تھا اور بیحد گھنا تھا اس کی شاخیں دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور تنا بھی گولائی میں بہت زیادہ تھا۔

ذیان عین مغرب کے ٹائم وہاں عجیب وحشت زدہ حال میں بیٹھی پائی گئی تھی۔

الجھے بال سرخ آنکھیں اس کا عجیب طریقے سے تکنا جیسے وہ انہیں پہچان ہی نہ پا رہی ہو۔

اس کی لمبی خاموشی، پھر اس کا چلتے ہوئے کمرے تک آنا اور ایسے چل کے آنا جیسے اس کے قدم زمین پہ نہ پڑ رہے ہوں۔

بے چاری زیبو کو تو آج رات مشکل سے ہی نیند آنی تھی بار بار ذیان کی شکل اس کی آنکھوں کے آگے آرہی تھی۔ اسے سو فی صد یقین تھا کہ چھوٹی بی بی کو درخت سے جن چمٹ گیا ہے مہندی لگا کے پیلے کپڑے پہن کر درخت کے نیچے جو گئی تھی۔

ملک ابیک کی رشتے کی خالہ اور عتیرہ ملک نے زیبو اور فریدہ کو سختی سے منع کردیا تھا کہ ذیان کی بابت کسی سے کوئی بات بھی نہیں کہنی۔

یہ بہت نازک اور کڑا وقت تھا کل ذیان کی بارات آنی تھی اس موقعے پہ ایسی کوئی بھی بات مسائل پیدا کرسکتی تھی۔

ملک ابیک کی رشتے کی خالہ نے ایسے بہت سے قصے عتیرہ کو سنائے جب کنواری لڑکی ایسے مغرب کے وقت کھلے سر کھلے آسمان کے نیچے گئی تو آسیب کا اوپری اثرات کا شکار ہوگئی۔ عتیرہ ایسی پریشان ہوئیں کہ انہیں صبح و سویرے مولوی صاحب کو بلاتے ہی بنی۔

اس ہنگامی بلاوے سے مولوی صاحب خود پریشان اور تجسس کا شکار ہو رہے تھے۔ملک محل پہنچنے پہ ذیان کو دیکھ کر انہیں صورتحال کا اندازہ ہوا۔ملک ابیک کی رشتے کی خالہ کل کا واقعہ پورے سیاق و سباق کے ساتھ مولوی صاحب کو بتا رہی تھیں۔فریدہ اور زیبو بھی شوق اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں پہنچی ہوئی تھیں۔عتیرہ چادر میں لپٹی ذیان کو مولوی صاحب کے پاس لائیں۔

انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھے بغیر منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کردیا۔زیبو، فریدہ اور ملک ابیک کے رشتے کی خالہ کی نظر ذیان کی طرف ہی مرکوز تھی۔

اس کا چہرہ چادر میں چھپا ہوا تھا،آہستہ آہستہ ذیان نے اپنے سر کو غیر محسوس انداز سے حرکت دی۔چادر اب اس کے چہرے سے سرک گئی تھی۔ وہ شعلہ بار نگاہوں سے سورتیں پڑھتے مولوی صاحب کو دیکھ رہی تھی۔

مولوی غلام ربانی آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں پڑھ رہے تھے۔ ذیان کی نگاہوں کے ارتکاز نے انہیں آنکھیں کھولنے پہ مجبور کردیا۔ آہستہ آہستہ غصے کی کیفیت ذیان سے ختم ہوتی جارہی تھی اب وہاں صرف حیرانی تھی سوال تھے کہ مولوی صاحب صبح صبح اس کے کمرے میں کیوں آئے بیٹھے ہیں۔ اس نے اپنی زبان سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔

شام کو ذیان کی رخصتی تھی، عتیرہ سخت متفکر تھی۔

Episode 71 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 71 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال نڈھال انداز میں لیٹے ہوئے تھے۔ ان کی نگاہیں وال کلاک پہ مرتکز تھیں جہاں دن کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ آج ملک جہانگیر کے بڑے بیٹے کی شادی تھی اس نے بہت اصرار سے انہیں مدعو کیا تھا۔ خود اپنے بیٹے ملک معاذ کے ساتھ شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تھے۔ معاذ انہیں بہت اچھا لگا تھا کیا تھا اگر وہ بے وقوف لڑکی ملک جہانگیر کے دونوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو پسند کرلیتی۔

پر وہ ضدی لڑکی اپنی حماقت اور سرکشی کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر چھوڑ کر جانے کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھاتی پھر رہی تھی۔ ملک جہانگیر نے جب وہ بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تھے ایک بار پھر رنم کے بارے میں اس کی واپسی کے بارے میں کافی دلچسپی سے پوچھا تھا۔ ابیک کی تو شادی ہو رہی تھی پر معاذ تو کنوارا تھا پڑھ رہا تھا اور ملک جہانگیر کے خیال میں احمد سیال کی بیٹی بھی پڑھ رہی تھی۔

اگر انہیں علم ہوجاتا کہ جس لڑکی کے بارے میں وہ اس قدر شوق سے پوچھ رہے ہیں وہ گھر چھوڑ کر اپنی مرضی سے کہیں جا چکی ہے تو انہیں کیسا شاک لگتا وہ اسے بہو بنانے کا ارادہ ترک کردیتے جو معاذ کی پاکستان آمد پہ انہوں نے پھر سے باندھ لیا تھا۔ وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ رنم پڑھنے کے لیے ملک سے باہر گئی ہوئی ہے۔

احمد سیال بجھ کر رہ گئے تھے۔

طبیعت میں خرابی کی وجہ سے وہ شادی میں شرکت کرنے سے معذور تھے۔ اصل حقیقت صرف وہی جانتے تھے۔ رنم کے جانے کے بعد ان کا دل ہر شے سے اچاٹ ہوچکا تھا۔ تب ہی تو دیرینہ دوست کے بلاوے پہ بھی وہ اس کے بیٹے کی شادی میں بھی نہیں جا رہے تھے۔

نیناں یعنی رنم کو کسی کی تیز نگاہوں کا احساس ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، ہرطرف شور و غل اور ہنگامہ تھا اتنے سارے لوگ تھے۔

ابیک اور ذیان کا نکاح ابھی نہیں ہوا تھا۔ کافی سارے مہمان ابھی نہیں پہنچے تھے۔ نیناں خوبصورت سوٹ زیب تن کیے عتیرہ اور افشاں بیگم کے ساتھ ساتھ تھی۔ اسے بہت بار احساس ہوا کہ کوئی گہری نگاہ سے اس کا جائزہ لے رہا ہے۔ ہر کوئی دولہا، دلہن کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا ایسے میں پتہ چلانا ناممکن ہی تھا کہ کون اسے گھور رہا ہے۔

یہ معاذ تھا۔

نیناں کی تو آج تیاری ہی دیکھنے والی تھی۔ ایک بار پھر معاذ کو احمد سیال کی بیٹی یاد آگئی تھی۔ وہ ان کے گھر ان کی اکلوتی بیٹی کی ڈھیروں ڈھیر فوٹو دیکھ کر آیا تھا۔ نیناں، احمد سیال کی بیٹی سے کافی حد تک مل رہی تھی فرق صرف اتنا تھا کہ نیناں کا حلیہ عام سا تھا بال کچھ لمبے تھے اور پیچھے کی طرف سمٹے ہوئے تھے وہ احمد سیال کی بیٹی کی طرح فیشن ایبل اور طرحدار نہیں تھی۔

اگر نیناں کے بال اسٹیپس میں کٹے ہوتے شانوں پہ لہراتے وہ نیک کالر کی ٹاپ اور جینز میں ملبوس ہوتی ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہوتا زندگی سے بھرپور ہنسی اس کے لبوں پہ سجی ہوتی تو کوئی بھی تعین نہ کرتا کہ یہ دو الگ الگ شخصیت کی مالک لڑکیاں ہیں۔

معاذ سوچ رہا تھا دونوں لڑکیوں میں اتنی حیرت انگیز مماثلت اتفاقیہ ہے یا کوئی خاص بات ہے۔ احمد سیال کی بیٹی پاکستان سے باہر تھی اور یہ نیناں نہ جانے کون تھی کہاں سے آئی تھی ایک اتفاقی نتیجے میں وہ عتیرہ چچی اور ملک ارسلان کو ملی تھی اس کی تفصیل وہ دونوں ہی بتانے سے گریزاں تھے بس بڑی دلسوزی سے بے سہارا بے آسرا کہہ کر اپنے گھر میں ٹھہرا رکھا تھا اور ادھر ابیک بھائی نے انڈسٹریل ہوم کے تمام امور اس کے سپرد کر رکھے تھے۔

بظاہر اس کے وجود سے کسی کو بھی شکایت یا تکلیف نہیں تھی۔ پر معاذ کے ذہن میں رہ رہ کے کوئی بات چبھتی تھی۔

پاکستان آنے سے کچھ ماہ قبل بابا جان نے اس کے لیے لڑکی پسند کی تھی یعنی ان کے دوست احمد سیال کی بیٹی۔ معاذ راضی نہیں تھا اس لیے ملک جہانگیر نے ارادہ بدل دیا اور ملک ابیک کے لیے دست سوال دراز کیا لیکن بعد میں اسے اطلاع ملی کہ وہ محترمہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر چلی گئی ہیں۔

ابیک کا نکاح اب ذیان سے ہونے جارہا تھا۔ بابا جان کے ساتھ جب وہ احمد انکل کے گھر گیا تو ان کی بیٹی کی فوٹو دیکھی جو شکل میں ہو بہو نیناں سے مشابہہ تھی۔ بابا جان نے وہاں بڑی دلچسپی سے احمد انکل سے ان کی بیٹی کی تعلیم اور پاکستان آمد کے بارے میں پوچھا۔ اسے خدشہ تھا کہ بابا جان کہیں پھر سے اس کے لیے وہاں بات نہ چلا دیں لیکن خیریت رہی انہوں نے یہ ذکر چھیڑا ہی نہیں اگر وہ ایسی کوئی بات اس سے کرتے تو اس نے سوچا ہوا تھا کہ وہ احمد انکل کی بیٹی سے خود روبرو ملاقات کی شرط لگائے گا۔

عتیرہ نے شادی میں بوا رحمت کی رشتے کی بھانجی صغریٰ اور اس کے اہل خانہ کو بھی مدعو کیا تھا۔

ان سے ذیان کی اداسی دیکھی نہیں جارہی تھی۔

ان کا خیال تھا کہ صغریٰ کو بوا رحمت کے ٹھکانے یا رہائش کے بارے میں ضرور علم ہوگا مگر وہ بھی انجان تھی۔ عتیرہ نے ملک ارسلان کے ذریعے اپنے طور پہ بوا رحمت اور زرینہ بیگم کے نئے گھر کا معلوم کرنے کی کوشش کی تھی جو ذیان اور ابیک کی شادی کی مصروفیات کی وجہ سے اتنی سرگرم اور پرجوش نہیں تھی۔

عتیرہ بوا رحمت سے ملنے کی متمنی تھی جنہوں نے اتنے سال ذیان کی دیکھ بھال کا خیال رکھا اور ایک ماں جیسی محبت ذیان کو دی وہ بوا کی محبتوں اور احسانات کا قرض اتارنا چاہ رہی تھیں۔ ان کی بدقسمتی کہ بوا عین وقت پہ غائب ہوگئی تھیں۔ ورنہ وہ ذیان کی شادی میں شریک ہوتیں تو وہ بہت خوش ہوتی۔ بوا کے نہ ملنے نے ہی تو اسے عتیرہ کے سامنے شکوے کرنے کی طاقت دی تھی اس نے دل کا سب زہر عتیرہ پہ انڈیل دیا تھا وہ سب کہہ دیا تھا جو اٹھارہ برس سے لاوا بن کر اس کے دل ہی دل میں پک رہا تھا۔

عام حالات وہ شاید ان سے یہ سب نہ کہہ پاتی۔ بوا کی اچانک گمشدگی نے اس کے دل پہ چرکا لگایا تھا۔

ذیان نے احساس سے عاری خالی دل خالی جذبوں کے ساتھ نکاح نامے پہ سائن کیے نیناں اس کی پشت پہ کھڑی اس کے حنائی ہاتھوں میں تھامے سنہری پین کو دیکھ رہی تھی جس سے ذیان نے نکاح نامے پہ سائن کیے تھے۔ ذیان کی پشت اس کی سمت تھی۔ نکاح کے لیے مولوی صاحب دیگر مردوں کے ہمراہ جن میں ملک جہانگیر، ملک ارسلان اور دو اُن کے خاندان کے اور مرد تھے ذیان کے پاس آئے تو اسے بڑی سی چادر اڑھا دی گئی جس میں وہ سر سے پاؤں تک چھپ گئی تھی۔

ایجاب و قبول اور نکاح کے بعد وہ جاچکے تھے سب عورتیں عتیرہ کو مبارکباد دے رہی تھیں۔ نیناں وہاں کھڑی ذیان کی پشت کو گھور رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے لپک رہے تھے گھر کے افراد میں سے کوئی دیکھ لیتا تو برا مناتا۔ پر آج احتیاط کا دامن نیناں کے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ ذیان کی طرف نفرت سے اٹھی جھلستی نگاہیں معاذ کے دماغ پہ نقش ہوگئی تھیں۔ وہ اس کا دیکھنا دیکھ چکا تھا، معاذ کے دماغ میں ایک لفظ گونجا تھا خطرہ۔ اس وقت بہت رش تھا سب عورتیں ذیان کو دیکھنے کے لیے ٹوٹی پڑی تھیں۔ معاذ کے پاس سوچنے کے لیے غور کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا۔

Episode 72 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 72 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک ابیک کا بیڈ روم بہت شاندار تھا۔ پردے، فرنیچر، کارپٹ سے لے کر ڈیکوریشن پیسز اور جہازی سائز بیڈ تک ایک ایک چیز کمرے کے مکین کے ذوق کو سراہ رہی تھی، داد دے رہی تھی۔ خواب آگیں فضا میں مدھر گیت کا ارتعاش تھرتھرا رہا تھا۔

یہ پربتوں کے دائرے یہ شام کا دھواں

ایسے میں کیوں نہ چھیڑ دیں دلوں کی داستاں

یہ روپ یہ رنگ یہ پھبن چمکتے چاند سا بدن

برا نہ مانو تو تم اگر چوم لوں کرن کرن

کہ آج حوصلوں میں ہیں بلا کی گرمیاں

یہ پربتوں کے دائرے یہ شام کا دھواں

معاذ کچھ دیر پہلے ذیان کے پاس آیا تھا اس نے میوزک سسٹم آن کیا تھا یہ اسی کی شرارت تھی کہ وہی گیت بار بار ریوائنڈ ہو رہا تھا۔

ملک ابیک نے اندر قدم رکھا تو ہر شے بولتی کلام کرتی محسوس ہوئی یہاں تک کہ خاموشی بھی سرگوشیاں کر رہی تھی۔

ذیان کا وجود قابل توجہ اور پرکشش تھا اپنے اندر عجیب سی مقناطیسیت سموئے وہ کسی پرانی عمارت کی مانند شاندار اور پراسرار نظر آرہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سرخی چھلک رہی تھی۔ جب وہ ذیان کے قریب جا کر بیٹھا تو تب اس نے ذیان کی آنکھوں کی لالی واضح طور پہ دیکھی۔

اس کی آنکھوں کے کنارے سوجے سوجے نظر آرہے تھے۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی ذیان کے دونوں ہاتھ گھٹنوں پہ دھرے تھے۔ ابیک نے ایک پل میں دل ہاتھوں سے نکلتا محسوس کیا۔ وہ اتنی حسین اور دل کش نظر آرہی تھی کہ ابیک کے حواس کی نبض سست پڑ گئی تھی۔ آج سے پہلے جب بھی ذیان سے ملاقات یا آمنا سامنا ہوا اور وہ”میں ہی میں ہوں“ کی عملی تفسیر بنی ملی تھی رسائی سے کوسوں دور جس کو چھونے کا سوچنا بھی محال تھا۔

آج وہ اپنی تھی ہمیشہ کے لیے اس کی ملکیت بن چکی تھی اور وہ احساس ملکیت کے نشے میں سرشار تھا۔

ملکیت کو عملی طور پہ ثابت کرنے کے لیے اس نے ذیان کے گھٹنوں پہ دھرا اس کا ایک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما شاید وہ یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ ذیان اس کے پاس ہی ہے۔ خاموشی اور بھی کھل کر کلام کر رہی تھی۔ رنگ خوشبو اور روشنی کا ایک مجسم وجود ابیک کے سامنے اس کی دسترس میں تھا۔

ابیک نے ذیان کے پاس سے ایک تکیہ اٹھا کر اپنے کندھے کی طرف رکھا اور قدرے جھک کر نیم دراز ہوگیا۔ اب ذیان کا چہرہ اس کے بالکل سامنے اور قریب تھا۔ اس کے حنائی پاؤں ابیک کے دائیں بازو کو چھو رہے تھے۔ اس کے پاؤں میں سجی پائل تک کو وہ بڑی وضاحت سے دیکھ اور چھو سکتا تھا۔ آج ابیک کی نگاہوں کا رنگ بدلا ہوا تھا ذیان نے ابھی تک اس سے نظر نہیں ملائی تھی۔

پر وہ اس کے بہت قریب تھا۔ ذیان کے دل کی دھک دھک اسے اپنی سماعتوں کے قریب تر محسوس ہو رہی تھی۔ 

ذیان کے نچلے ہونٹ کے کنارے کالا تل، اس کے لبوں کی خفیف تھرتھراہٹ سے لرز رہا تھا۔ ابیک نے اچانک اپنی انگشت شہادت وہاں رکھی۔ انگلی کی پور تلے اس نے بھی لرزاہٹ محسوس کی۔ ”میں کہاں سے آغاز کروں کہ مجھے کب کہاں کس وقت تم سے محبت ہوئی؟“ ابیک کی نگاہ اس کے ایک ایک نقش کو چھو رہی تھی وہاں شوق کا گرمئی جذبات کا ایک جہاں آباد تھا۔

ذیان کی آنکھوں کی سرخی کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی۔ تب اس نے پہلی بار نگاہیں اٹھا کر ابیک کی طرف دیکھا تو صبر و قرار جیسے سرپٹ دوڑا اور اس کی گرفت سے آزاد ہوگیا اس نے کمال جرأت سے پہلی بار ذیان کا دوسرا بھی ہاتھ پکڑا۔ وہ ہاتھوں پہ لگائی گئی مہندی کو دیکھ رہا تھا اس کی نازک انگلیوں میں سجی بیش قیمت انگوٹھیوں کو چھو رہا تھا۔ اگلے مرحلے میں ابیک نے اس کا ہاتھ اپنے سینے پہ رکھا تو وہ نیچے اس کے سینے اور سر کی طرف جھک سی آئی کیونکہ ابیک نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔

ذیان کا ہاتھ اس کے سینے پہ دھرا تھا جہاں دل کی دھڑکن بہت پرجوش اور شوخ ہو رہی تھی۔ ابیک کی نگاہوں میں بڑی خوبصورت التجائیں اور گستاخ جذبے مچل رہے تھے۔ اس نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر ذیان کی پلکوں کو چھوا تو اس کا ہاتھ پلکیں اور پورا وجود گویا بھونچال کی لپیٹ میں آگیا۔ ابیک نے کندھا اوپر کرتے ہوئے ذیان کا بھاری آنچل اس کے سر سے کھسکایا وہ قدرے پیچھے ہٹی لیکن آج وہ ہار ماننے کے موڈ میں نہیں تھا۔

ذیان کے لبوں سے پہلی چیخ نکلی اس کے بعد اس کے حلق سے نہ رکنے والی چیخوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ رات کے گہرے ہوتے سناٹے میں یہ آواز ایسی دلخراش تھی جیسے اسے ذبح کیا جارہا ہو۔ ملک محل کے مکین ایک ایک کر کے اس کا سبب معلوم کرنے کے لئے دوڑ پڑے۔

ملک ابیک ایک مضبوط اعصاب کا مالک اور بے مثال قوت برداشت رکھتا تھا لیکن اس وقت اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے۔

ذیان کے بالوں کے خوبصورت سٹائل کا حشر ہوچکا تھا بالوں میں سجے پھول پتی پتی بکھر گئے تھے۔ لپ اسٹک پھیل کر لبوں کے کنارے سے باہر نکل رہی تھی مسکارے اور آئی شیڈ اور دیگر میک اپ کا بھی یہی حال تھا جو بڑی مہارت اور نفاست سے کیا گیا تھا۔

دوپٹہ سر سے اتر کر بیڈ کے نیچے جاپڑا تھا۔ اس کی وحشت زدہ لال لال آنکھیں بے قراری سے گردش کر رہی تھیں۔

کچھ دیر پہلے تک وہ دلہن کے خوبصورت ترین روپ میں تھی مگر اب اس ہیت کذائی میں وہ خون آشام چڑیل لگ رہی تھی۔

دوڑتے قدموں اور شور کی آوازیں اس کے کمرے کے دروازے تک آ کر قدرے تھم گئی تھیں۔

دروازہ زور دار طریقے سے دھڑ دھڑایا جارہاتھا۔ اس اچانک لگنے والے شاک سے ابیک کے حواس ماؤف ہو رہے تھے اس نے اسی کیفیت میں دروازہ کھولا۔ اس کے کھلنے کی دیر تھی عورتوں کا ریلا اندر گھس آیا۔

عورتوں کے پیچھے ملک جہانگیر اور معاذ بھی تھے پر وہ مصلحت کے تحت دروازے سے باہر ہی رک گئے تھے۔ پر جب اندر کا منظر ملاحظہ کیا تو وہ بھی داخل ہوگئے۔ ذیان بے ہوش ہو کر بیڈ پہ عجیب سے انداز میں لڑھک گئی تھی۔ ہر کوئی ابیک سے پوچھ رہا تھا کیا ہوا کیا ہوا۔ وہ بولنے میں سخت دقت محسوس کر رہا تھا اس وقت لفظ اس کی گرفت سے بھاگ گئے تھے۔ ذیان کی حالت ہی بتانے کے لئے کافی تھی۔

نوکرانی جا کر عتیرہ کو بھی بلا لائی تھی۔ ”چھوٹی بی بی پہ جن کا اثر ہوگیا ہے کل مغرب کے ٹائم باغ میں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھی تھیں اور ایسی ہی حالت تھی جیسی ابھی ہے۔“

فریدہ نے آخر کار راز اگل دیا تھا جسے چھپانے کی اسے تنبیہہ کی گئی تھی۔ عتیرہ اس وقت اپنی پریشانی میں تھی اس لیے فریدہ کو کچھ بھی نہ کہا۔ فریدہ کو دیکھ کر زیبو کو بھی حوصلہ ہوا۔

اس نے بھی کل کی روداد بڑھا چڑھا کے بتائی اس دوران اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔ ”چھوٹی بی بی پہ جن عاشق ہوگیا ہے۔“ اس نے انکشاف کیا تو سب کے سر اُس کی طرف گھوم گئے واقعی زیبو کی بات قابل غور تھی۔ گاؤں دیہات میں حسین لڑکیوں پہ آسیب کا آجانا، جن کا عاشق ہوجانا کوئی نئی بات یا انوکھی بات نہیں تھی۔

Episode 73 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 73 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ابیک بھانت بھانت کی بولیاں سن رہا تھا اور گاہے بگاہے بے سدھ پڑی ذیان کو بھی دیکھ رہا تھا۔ وہاں عورتوں کا میلہ سا لگا ہوا تھا اور ان سب کا مشترکہ متفقہ خیال تھا کہ ذیان پہ باغ میں جن عاشق ہوگیا ہے یا کسی ہوائی مخلوق کا اثر ہوگیا ہے۔ ملک جہانگیر اور معاذ کچھ دیر بعد وہاں سے چلے گئے تھے کیونکہ پورا کمرہ عورتوں سے بھرا ہوا تھا گھر میں مہمان موجود تھے چیخیں سن کر سب باری باری پوچھنے آرہے تھے۔

یہ گرما گرم واقعہ تھا کہ نئی نویلی دلہن پہ جن عاشق ہوگیا ہے۔ ”میری سہیلی کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا تھا اس کی شادی طے ہوئی تو جن نے شوہر کو قریب ہی نہیں آنے دیا۔ پیروں فقیروں کو دکھایا تعویذ گنڈے کیے سائیں بابا نے چلا کاٹا تب کہیں جا کر جان چھوٹی۔“

مہمانوں میں سے ایک نوجوان عورت بتا رہی تھی اسے دیکھ کر ایک اور کو حوصلہ ہوا وہ بھی میدان میں کود پڑی۔

”میں تو کہتی ہوں کہ دلہن کو بالکل الگ رکھیں۔ دولہا کو دوسرے کمرے میں بھیج دیں ایسا نہ ہو کہ جن غصے میں آ کر گھر والوں کو نقصان پہنچا دے ساتھ اس نے مفت کے مشورے سے بھی نوازا۔

رنگ رنگ کی بولیاں سن کر عتیرہ پریشان ہو رہی تھیں۔ انہوں نے افشاں بیگم کو کمرے میں ہی الگ لے جا کر درخواست کی کہ سب عورتوں کو کمرے سے نکالا جائے۔

ویسے بھی کافی دیر گزر چکی تھی۔

افشاں بیگم کی نرمی سے کہی گئی بات کا اچھا اثر ہوا۔ عورتیں ایک ایک کر کے چلی گئیں۔ صرف اب نیناں، افشاں بیگم، عتیرہ اور ملک ابیک ہی وہاں تھے۔ ان سب افراد میں اگر کوئی خوش اور پرسکون تھا تو وہ صرف اور صرف نیناں تھی۔ ذیان کی اس حالت کا جواز اسے سمجھ نہیں آرہا تھا نہ ہی وہ کوئی تاویل خود کو دے پا رہی تھی بیڈ پر پڑی آڑی ترچھی پڑی ذیان اس کے دل کو مسرور کر رہی تھی۔

افشاں بیگم سب کی باتیں سن سن کر دہل گئی تھی۔ ذیان کی اس حالت کے بعد وہ ابیک کو کوئی نقصان پہنچا نہیں دیکھ سکتی تھی اس کا فی الحال ذیان سے دور رہنا ہی بہتر تھا۔

”ابیک پتر تم نیچے والے کمرے میں سو جاؤ۔“ انہوں نے بیٹے سے نگاہیں ملائے بغیر کہا۔ کتنے ارمانوں سے وہ ذیان کو دلہن بنا کر لائی تھیں ابیک کی سب خوشیاں خاک میں مل گئی تھیں۔

وہ جیسے خود کو ذمہ دار سمجھ رہی تھیں۔ ابیک ان کی دلی کیفیت خوب اچھی طرح سمجھ رہا تھا اس لیے اس نے بنا کسی پس و پیش کے ان کی بات پہ سر تسلیم خم کردیا۔ عتیرہ اور افشاں بیگم دونوں ذیان کے پاس تھیں۔

ابیک کو کمرے سے باہر جاتا دیکھ کر نیناں نے آسودہ سانس لی۔ جلتے بلتے دل کو سکون مل گیا تھا۔ وہ دریا کے پاس رہ کر پیاسا لوٹ گیا تھا۔ اس تشنگی میں نیناں کی خوشی اور سکون مضمر تھا۔

ابیک دوسرے کمرے میں چت لیٹا چھت کو دیکھ رہا تھا انگلیوں کے بیچ جلتی سگریٹ دبی تھی وقتاً فوقتاً وہ اس کے کش لگا رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ذیان کو اچانک ہوا کیا ہے پہلے کچھ دیر تک وہ اس کے کمرے میں آنے کے بعد ٹھیک رہی تھی بعد میں اس پہ جنون طاری ہوا جیسے اس میں کوئی غیبی طاقت حلول کر گئی ہو۔ وہ دلہن تو لگ ہی نہیں رہی تھی۔

صبح ولیمہ تھا۔ گھر دور دراز سے آنے والے مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اور ذیان خود حال سے بے حال پڑی تھی اسے کوئی ہوش نہ تھا کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے کیا باتیں کی جارہی ہیں۔ پریشان سوچیں ابیک کو سونے تک نہ دے رہی تھی کہ جانے کل کیا ہوگا۔ اگر ذیان کل تک ایسی رہی تو کیا ہوگا۔ صبح دم سوالوں کے جواب ڈھونڈ تے ڈھونڈتے اس کی آنکھ لگی تھی۔

صبح سویرے مولوی صاحب آگئے۔

ذیان کو جھنجھوڑ کر اٹھایا گیا۔ مندی مندی آنکھوں سے وہ مولوی صاحب کے سامنے بیٹھی تھی۔ انہوں نے سورتیں پڑھ کر اس پہ دم کیا۔ اور دم کیا ہوا پانی بھی اس پہ چھڑکا۔ ان کے دم کرنے کے بعد وہ بالکل نارمل ہوگئی۔ رات والی حالت کا شائبہ تک نہ تھا کہ یہ وہی ذیان ہے۔ پر مولوی صاحب خود پریشان نظر آرہے تھے۔ ”مولوی صاحب میری بہو ٹھیک ہوجائے گی ناں؟“ افشاں بیگم نے سوال کیا جواب میں انہوں نے جس طرح افشاں بیگم کو دیکھا اس کے بعد انہوں نے پھر اپنا سوال نہیں دہرایا۔

کیونکہ مولوی صاحب کو اس کا جواب معلوم نہیں تھا۔ دامے درمے سخنے انہوں نے اپنی طرف سے جو کرسکتے تھے کیا۔ تعویذ لکھ دئیے دو بتیاں بھی سلگانے کے لیے دیں۔ دم کرتے ہوئے ذیان انہیں گھور گھور کر دیکھ رہی تھی اور وہ دل میں بری طرح ڈر رہے تھے۔ یقینا اس پہ عاشق ہونے والا جن بہت طاقتور تھا۔ ایسے جن سے ان کا واسطہ نہیں پڑاتھا۔ وہ گاؤں کی مسجد میں نئے نئے آئے تھے ساتھ ان معاملات کا انہیں زیادہ تجربہ بھی نہیں تھا اور ہوائی چیزوں سے وہ ویسے بھی ڈرتے تھے۔

اس لئے ذیان کو دم کرنے کے بعد وہ زیادہ دیر وہاں نہیں رکے۔

ولیمے کی پوری تقریب کے دوران ذیان بالکل نارمل رہی۔ لگ ہی نہیں رہا تھا اس پہ جن آنے والا سنگین واقعہ رونما ہوچکا ہے۔ وہ شرمگیں مسکراہٹ جھکی نگاہوں سمیت شادی سے پہلے والی ذیان لگ رہی تھی۔ گزرے دو دن کا عکس تک اس کے چہرے پہ نہیں تھا۔ ولیمے کی تقریب سے فارغ ہو کر شام سے پہلے پہلے سب مہمان رخصت ہوچکے تھے۔

افشاں بیگم نے نیناں کو مزید ایک دن اپنے پاس روک لیا تھا۔ ذیان کو وہی کندھوں سے تھام کر کمرے تک لائی۔ ذیان آج پہلے سے بڑھ کر حسین لگ رہی تھی۔ ولیمے کی دلہن کے روپ میں وہ معصوم و دلکش نظر آرہی تھی۔ اس کی کمر کے پیچھے تکیے سیٹ کرتے ہوئے نیناں نے اس کے من موہنے روپ کو غور سے دیکھا۔ کل تو ابیک کے خوابوں کی تکمیل نہیں ہو پائی تھی پر آج ایسا ہونا ممکن تھا۔

ذیان بالکل ٹھیک نظر آرہی تھی۔ ابیک اور ذیان دونوں امنگوں بھرا دل رکھتے تھے پھر قدرت نے انہیں ایک مضبوط شرعی رشتے میں باندھ دیا تھا وہ خوابوں کی حسین رہگزر پہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے خوشی خوشی تمام عمر ساتھ چل سکتے تھے۔ نیناں کے دل میں دھڑ دھڑ بھانبھڑ جلنے لگے۔ اندر بیٹھا کوئی دہائیاں دے رہا تھا کہ ابیک تو میری تلاش کا حاصل تھا امیدوں کاثمر تھا پھر ذیان کیسے مالک بن بیٹھی۔

ذیان آنکھیں بند کیے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ وہ بری طرح تھک گئی تھی۔ پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگی تھیں۔ افشاں بیگم نے نیناں کو ذیان کے تمام کپڑے الماری میں رکھنے کی ہدایت کی۔یہ کام اس نے ایک اور ملازمہ کے ساتھ مل کر منٹوں میں نمٹا لیا۔ وہ جانے سے پہلے ذیان کا نائیٹ ڈریس ڈریسنگ روم میں ہینگ کرآئی۔ پنک کلر کی ریشمی نائٹی ہاتھ میں لیتے ہوئے ابیک کی جذبوں سے بھری نگاہیں نیناں کے ذہن میں روشن ہوگئیں۔

اس نے ریشمی نائیٹی پھینکنے والے انداز میں رکھی۔ اس کا تنفس بڑھ گیا تھا۔

ملازمہ دودھ کے دو گلاس ٹرے میں رکھے ذیان کے پاس آئی تو نیناں وہاں سے نکل آئی جیسے مزید برداشت کرنا اس کے بس سے باہر ہو۔

دن بھر کی بھاگ دوڑ اور ولیمے کی مصروفیت نے ملک ابیک کو تھکا دیا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا بستر ملے اور وہ سو جائے۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول کر اندر جاتا وہیں پہ اسے افشاں بیگم مل گئیں وہ نیچے کی طرف جارہی تھیں۔

”کہاں؟“ وہ حیرت سے بولیں ان کے سوال پہ ابیک گڑبڑا گیا۔ ”میں اپنے کمرے میں سونے لگا ہوں۔“ اسے جواب دینا پڑا۔ ”آج کی رات تمہیں نیچے ہی سونا پڑے گا۔ ذیان کے پاس عتیرہ رکے گی اس کی طبیعت ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے۔ تمہارا ذیان کے پاس ٹھہرنا کم از کم آج کی رات مناسب نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کل والا واقعہ پھر دہرایا جائے۔ مولوی صاحب صبح منع کر کے گئے ہیں وہ کچھ دیکھنا چاہ رہے ہیں۔

ایک دو دن صبر کرجاؤ۔“ افشاں بیگم نے تفصیلی جواب دیا۔ ابیک کو غصہ تو بہت آیا پھر پی گیا۔ دو دن بعد پھر نہ جانے کون سی بلی تھیلے سے باہر آنی تھی۔ اور مولوی صاحب نے کون سا دھماکہ کرنا تھا۔ اب اسے دو دن انتظار کرنا تھا۔

عتیرہ دو دن اور دو راتیں ذیان کے پاس رہیں۔ مولوی صاحب کے مشورے پہ کمرے سے سب پھول باہر نکالے گئے جو سجاوٹ میں استعمال ہوئے تھے۔

پھر دیگر سجاوٹی اشیاء بھی ہٹا لی گئیں۔ بیڈ کور سفید رنگ کا بچھایا گیااور پورے کمرے کو لوبان کی دھونی دی گئی۔

دو دن ذیان بالکل نارمل رہی۔ مولوی صاحب مطمئن ہوگئے کہ سب ٹھیک تھا۔ افشاں بیگم کو انہوں نے خوشخبری سنائی کے بہو بالکل ٹھیک ہے اور ملک ابیک اس کے پاس جاسکتا ہے۔ وہ اسی انتظار میں تھی انہوں نے ابیک کو فوراً اپنے کمرے میں جانے کی ہدایت کی۔

رات کے دس بجے تھے۔ ذیان ازسر نو دلہن کے روپ میں تھی سولہ سنگھار سمیت یہ کارنامہ افشاں بیگم کا تھا کیونکہ عین شادی کی رات ہی تو ذیان پہ جن آیا تھا اور ابیک جی بھر کر اسے دلہن کے روپ میں دیکھ بھی نہیں سکا تھا۔

عتیرہ اپنے گھر جا چکی تھیں۔ سب ہی تھکن کا شکار تھے شکر کیا جب نیند میسر ہوئی۔

ابیک دور صوفے پہ بیٹھا تھا۔ سوفٹ ڈرنک سے بھرا گلاس اس کے ہاتھ میں تھا وہ آہستہ آہستہ پی رہا تھا۔

ذیان بیڈ کراؤن سے کمر ٹکائے ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھی تھی۔ شاہانہ جوڑے میں ملبوس وہ پہلے سے بڑھ کر حسین لگ رہی تھی مگر ابیک نے جذبات کی لگام کو ڈھیلا نہیں پڑنے دیا وہ صوفے سے اٹھا اور ہاتھ میں تھاما خالی گلاس سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے نائیٹ شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے اور آستین کہنیوں تک فولڈ کیں۔ رسٹ واچ اتار کرسائیڈ پہ رکھی۔ اب وہ سامنے کھڑا تھا، ذیان چاہتی تو نظر اٹھا کر دیکھ سکتی تھی ان دونوں میں زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ ابیک نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا وہ ذیان کو اپنی طرف سے پیش قدمی کا تاثر دینا چاہ رہا تھا۔ اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہا تھا۔

Episode 74 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 74 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

چند لمحے بعد وہاں ذیان کی ہذیانی چیخیں گونج رہی تھیں۔ چیخیں تھیں کہ صور اسرافیل تھا۔

اس بار افشاں بیگم کے ساتھ ملک جہانگیر بھی افتاداں و خیزاں ابیک کے کمرے میں موجود تھے۔ ذیان کی حالت بہت بری تھی۔ لمبے بال چہرے کے اطراف جھول رہے تھے اور وہ خود آنکھیں بند کیے جھوم رہی تھی جیسے اپنے حواس میں نہ ہو۔ وہ کچھ بڑبڑا رہی تھی۔ اس کے حلق سے دبی دبی مردانہ آوازیں برآمد ہو رہی تھیں۔

”نہیں چھوڑوں گا نہیں چھوڑوں گا اس کے پاس آیا تو بھسم کردوں گا۔“ اشارہ یقینا ابیک کی طرف تھا۔ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم نہایت پریشانی اور حواس باختگی سے ذیان کو دیکھ رہے تھے۔ خاص طور پہ افشاں بیگم کی حالت بہت پتلی ہو رہی تھی۔ ”میری بہو پہ سچ مچ کا جن عاشق ہوگیا ہے ملک صاحب۔

“ ان کا لہجہ مارے خوف کے کانپ رہا تھا۔

انہوں نے ذیان پہ عاشق ہونے والے جن کی دھمکی سن کر ابیک کو کمرے سے باہر جانے کو کہا۔

کیونکہ ذیان لال لال آنکھیں نکالے ابیک کو گھور رہی تھی۔ ابیک اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا تو وہ اسے بہلا کر باہر لے گئی۔ بہو پہ تو جن عاشق ہوگیا تھا اب بیٹے کی سلامتی بھی خطرے میں تھی۔

ایک بار پھر وہی صورت حال تھی۔ ذیان بے ہوش ہوچکی تھی۔ عتیرہ اور ملک ارسلان بھی افشاں بیگم کے بے وقت بلاوے پہ آچکے تھے۔ ذیان کی حالت دیکھ دیکھ کر عتیرہ رو رہی تھیں۔

”ذیان کی حالت تمہارے سامنے ہے جن نے براہ راست دھمکی دی ہے تمہیں میرے بچے۔ اس لئے تمہیں اس کے سامنے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ افشاں بیگم الگ لے جا کر ابیک کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ”امی آخر ایسا کب تک ہوگا۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے یہ کیسے ممکن ہے کہ میرا اس کے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو۔“ اس بات پہ افشاں بیگم اسے بے بسی سے دیکھ کر رہ گئی۔

حالات نے انہیں حواس باختہ کردیا تھا۔ نئی نویلی دلہن گھر میں لاتے ہی پریشانی نے منہ دیکھ لیا تھا۔ ابیک کو دیکھتی تو دل مسوس کر رہ جاتیں اس نے ازدواجی زندگی کی خوشی ہی نہیں پائی تھی جن نے صاف بولا تھا کہ قریب آئے تو بھسم کردوں گا۔

”ذیان کو ایسے تو نہیں چھوڑیں گے ناں۔ طاہرہ کہہ رہی تھی آپ کو سائیں بابا کے پاس لے جاؤں گی جن نکالنے کے ماہر ہیں۔

“ افشاں بیگم نے اپنی بہن کا نام لیا تو وہ دل میں محض افسوس ہی کرسکا۔

افشاں بیگم اپنی بہن طاہرہ کے ساتھ سائیں بابا کے ڈیرے پہ پہنچیں تو وہ بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ سائیں بابا کا ڈیرہ گاؤں سے باہر قبرستان کے پاس بنا ہوا تھا۔ طاہرہ کے ساتھ افشاں بیگم پہلی بار وہاں آئی تھیں۔ اپنی حویلی میں کام کرنے والی نوکرانیوں سے بھی انہوں نے سائیں بابا کی بہت تعریفیں سن رکھی تھیں لیکن ابھی بابا جی کے آستانے پہ الو بول رہے تھے۔

ملازم صورت ایک آدمی آستانے کے وسیع صحن سے جھاڑو لگا رہا تھا۔ طاہرہ نے اس آدمی سے سائیں بابا کی بابت دریافت کیا۔

”سائیں بابا اپنے عقیدت مندوں کی خواہش پہ دوسرے ڈیرے پہ چلے گئے ہیں۔ میں ان کا مرید ہوں۔ صبح و شام یہاں کا ایک چکر لگا لیتا ہوں۔“ ملازم صورت شخص سائیں بابا کا مرید تھا وہ ان کے بارے میں بہت ادب و احترام سے بات کر رہا تھا۔

”دوسرا ڈیرہ کہاں ہے؟“ افشاں بیگم نے خود سوال کیا۔ ”وہ تو جی دوسرے ضلع میں ہے۔“ مرید نے جواب دیا۔

”یعنی اب بابا جی اس ڈیرے پہ نہیں آئیں گے؟“ طاہرہ کے لہجے میں امید تھی۔

”سائیں بابا اب اس سال کے آخر میں یہاں آئیں گے۔“ مرید فکر انگیز لہجے میں بولا۔

”ویسے آ پ کو کیا کام ہے۔ کافی پریشان لگ رہی ہیں آپ دونوں۔“ مرید غضب کا ذہین ثابت ہوا فوراً تاڑ گیا کہ دونوں عورتیں کسی خاص مسئلے کے لیے آئی ہیں۔

”ہاں پریشانی تو بہت بڑی ہے بابا سائیں ہوتے تو ان سے بات کرتے ہم۔“ طاہرہ نے جواب دیا۔ ”آپ اپنی پریشانی مجھے بتائیں تو ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے کام آؤں۔ ساتھ والے پنڈ میں سائیں بابا کے مرید خاص”جلالی باوا“ اللہ کے پریشان حال بندوں کی مدد کے لیے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ سائیں بابا کے ساتھ ہی جانا چاہ رہے تھے پر ان کے حکم پہ نور پور میں رک گئے۔

وہاں اللہ کی مخلوق بڑی پریشانیوں کا شکار ہے بابا جی سارا دن اپنے پاس آنے والوں کی مشکلات سنتے ہیں اور اللہ کے حکم سے ان کی پریشانیاں دور کرتے ہیں۔ نور پور کے وسنیک بہت خوش ہیں کہ ایک اللہ والا ان کے درمیان موجود ہے۔

”بابا جی اپنے پاس آنے والوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ان کی دعا سے بے اولادوں کو اولاد بیماروں کو شفا ملتی ہے لاعلاج سے لاعلاج بیماری کا علاج وہ محض اپنی دعا سے کرتے ہیں۔

بابا جی جن اتارنے کے ماہر ہیں۔“ سائیں بابا کا مرید”جلالی باوا“ سے خاص عقیدت رکھتا تھا اس نے تفصیل سے”جلالی باوا“ کی کرامات کے بارے میں بتایا۔ خاص طور پہ بابا جی جن اتارنے کے ماہر تھے۔ طاہرہ نے افشاں کا ہاتھ دبایا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ ٹھیک جگہ پہ پہنچی ہیں۔ انہوں نے”جلالی باوا“ کا پتہ ٹھکانہ اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔ ویسے بھی نور پور اتنا دور نہیں تھا۔

نیناں عتیرہ کی طرف واپس آگئی تھی۔ نوکرانیاں دبی دبی آواز میں ذیان کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ نیناں دلچسپی سے سن رہی تھی خود وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی۔

”بے چاری چھوٹی بی بی پہ جن آگیا ہے اب ملک صاحب کی خیر نہیں ہے۔“ فریدہ نے جھرجھری لی۔ ”جن نے ملک صاحب کو تو کمرے کے اندر قدم بھی نہیں رکھنے دیا ہے۔“ یہ زیبو تھی۔

”ہاں تو کیا کرتے پھر وہ۔

چھوٹی بی بی کی حالت ہی اتنی خراب ہو رہی تھی۔“ زیبو کو بھی ملک ابیک سے ہمدردی ہو رہی تھی۔

عتیرہ ذیان کے پاس تھیں بلکہ افشاں بیگم، اپنی بہن طاہرہ کے ساتھ جلالی باوا کے پاس گئی ہوئی تھیں۔

جلالی باوا کا آستانہ گاؤں کے انتہائی سرے پہ باہر کی طرف اور قبرستان کے پا س تھا۔

آستانے کی طویل و عریض دیوار کے بیچ میں لوہے کا خاصا بڑا اور موٹا گیٹ لگا ہوا تھا۔

افشاں بیگم اور طاہرہ ڈرائیور کے ساتھ”جلالی باوا“ کے آستانے پہ آئی تھیں۔ گیٹ کے باہر خالی میدان میں دو گاڑیاں کھڑی تھیں افشاں بیگم اور طاہرہ نے متاثر کن نگاہوں سے آستانے کے گیٹ کو دیکھا اس کا چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا جبکہ بڑا گیٹ بند تھا۔

دونوں گاڑی سے اتر کر آستانے کے چھوٹے گیٹ سے اندر داخل ہوئیں۔ اندر صحن میں اچھا خاصا سبزہ تھا۔

دیوار کے ساتھ ساتھ اونچے اونچے درخت ایستادہ تھے۔ صحن کے بالکل درمیان میں برگد کا درخت تھا جس کی گھنی چھاؤں نے صحن کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس کے علاوہ پھولوں کے پودے تھے۔ یعنی جلالی باوا کو قدرتی حسن سے بڑی دلچسپی تھی لگتا تھا خاصی باغ و بہار قسم کی شخصیت ہوں گے۔ صحن سے آگے برآمدہ تھا اور اسکے پیچھے چار بڑے بڑے کمرے تھے۔

کمروں کے علاوہ صحن میں بھی اچھے خاصے مرد و زن اپنی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کمرہ جلالی باوا کا حجرہ تھا جس میں وہ آرام فرماتے اور عبادت کرتے۔ ایک کمرے میں بیٹھ کر وہ سائلین کے مسائل سنتے اور ان کے حق میں دعا فرماتے جس کو تعویذ دھاگہ دینا ہوتا اس کو اگلے دن پھر بلواتے۔ باقی دو کمروں میں ان کے مرید رہتے تھے۔

آستانہ صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک ہر خاص و عام کے لیے کھلا رہتا۔

کوئی خاص قسم کی پریشانی کا شکار ہوتا تو جلالی باوا اسے ہمیشہ مغرب کے بعد بلواتے اور خاص قسم کی پریشانی کا علاج خاص قسم کے عمل سے کرتے۔ یہ سب باتیں آستانے پہ موجود عورتوں سے افشاں بیگم اور طاہرہ کو معلوم ہوئیں۔ افشاں بیگم بے حد مرعوب نظر آرہی تھیں۔ جلالی باوا کے پاس صاحب حیثیت پیسے والے امیر ترین لوگ بھی آتے تھے۔ باہر کھڑی دو گاڑیاں اس کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔

اتنے رش اور ہجوم دیکھ کر دونوں مایوس ہو رہی تھیں۔ بالا آخر ان کی پریشانی پہ جلالی باوا کے ایک مرید کو ترس آگیا۔ اس نے ایک پرچی پہ ان کے نام لکھ کر اندر بجھوائے تو انہیں جلالی باوا کی بارگاہ میں حاضری کا اجازت نامہ مل گیا۔ افشاں بیگم خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھیں۔ ورنہ انہیں لگتا تھا آج تو مایوس ہی لوٹنا پڑے گا اور جلالی باوا سے ملاقات نہیں ہوپائے گی۔

پر بھلا ہو اس مرید کا جس کو ان کی پریشان صورتوں پہ رحم آگیاتھا۔ اس نے دونوں کو جلالی باوا کے پاس پہنچا دیا۔

جلالی باوا دیوار کے ساتھ ایک مسند پہ تشریف فرما تھے جس پہ سفید چاندنی بچھی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے مستغرق تھے اور ایک ہاتھ سے اپنی بالشت بھر لمبی داڑھی میں خلال کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھ کی انگلیوں میں چاندی کی نگینے جڑی انگوٹھیاں سجی تھیں۔

گلے میں منکے کے دو ہار تھے انہوں نے سفید چغہ زیب تن کر رکھا تھا۔ سر کے بال کندھوں تک بڑھے ہوئے تھے۔

ان کا ڈیل ڈول خاصا بھاری بھرکم اور رعب دار تھا۔ کمرے میں لوبان اور عنبر کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور نیم اندھیرا تھا۔ دونوں خواتین عقیدت سے ایک طرف بیٹھ گئیں۔ ان سے پہلے ہی وہاں پانچ مرد و زن موجود تھے۔ جلالی باوا غور سے ان کے مسائل سن رہے تھے اور دعا کرتے جارہے تھے۔

ان پانچوں کو فارغ کرنے کے بعد وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”ہاں بی بیو کیا مسئلہ ہے۔ بہت پریشان ہو۔ پریشانی سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔“ وہ سرخ سرخ آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ افشاں بیگم جلالی باوا کی آنکھوں کی تاب نہ لاپائی اور فوراً زمین پہ نظر گاڑی۔ ”بابا جی ہم واقعی بہت بڑی پریشانی کا شکار ہیں۔“ طاہرہ نے لب کشائی کی جرأت کی۔ ”سب پتہ ہے سب پتہ ہے اس لیے تو تم دونوں کو یہاں اکیلے میں بٹھایا ہے۔ تم اپنی پریشانی کسی پہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی اس لیے ہم نے بھی تمہارا پردہ رکھا ہے۔“ جلالی باوا اپنی بھاری گونجدار آواز میں بولے تو افشاں بیگم اس بات پہ ایمان لے آئی کہ بابا واقعی بہت پہنچے ہوئے ہیں۔

Episode 75 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 75 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

 ”بابا جی میری بہو پہ جن…“ ”بس خاموش سب پتہ ہے ہمیں آگے کچھ مت بولنا۔“ جلالی باوا نے ہاتھ اٹھا کر انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا۔ اب تو وہ دونوں ان کی کرامات کی بھی قائل ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اپنا مسئلہ بتایا ہی نہیں تھا اور جلالی باوا جان گئے تھے وہ روشن ضمیر تھے۔“ ”ہم کیا کریں اب؟“ ڈرتے ڈرتے افشاں بیگم گویا ہوئیں۔

”دیکھو بی بی تمہارا مسئلہ بہت بڑا اور خطرناک ہے آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے۔

تمہاری بہو خطرناک جن کے زیر اثر آگئی ہے۔ ہمیں پوری حقیقت سمجھنے کے لیے تمہارے گھر آنا پڑے گا۔“ جلالی باوا اپنی مخصوص رعب دار آواز میں بول رہے تھے۔ افشاں بیگم سر ہلا رہی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد جلالی باوا اپنے مخصوص حجرہ میں تشریف لے گئے۔ تب ان کا مرید اندر آیا۔

”تم بہت خوش قسمت ہو بی بی ورنہ”جلالی باوا“ ہر کسی کے گھر نہیں جاتے۔

اب سمجھو کہ تمہاری کشتی پار لگ گئی ہے۔“ مرید نے انہیں خوشخبری سنائی۔ طاہرہ اور افشاں بیگم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ افشاں بیگم کے چہرے پہ اب پریشانی کا نام و نشاں تک نہ تھا۔ جلالی باوا بہت جلد ملک محل میں رونق افروز ہونے والے تھے۔ یعنی ان کی پریشانی کے خاتمے کے دن قریب آگئے تھے۔ دونوں خوشی خوشی واپس آئیں۔

ابیک تاحال نیچے مقیم تھا۔

ذیان اوپر اسی کے بیڈ روم میں تھی۔ عتیرہ اسی کے پاس تھیں نوکرانیاں اکیلی اس کے پاس جاتے ہوئے ڈرتی تھیں اس لئے عتیرہ یاافشاں بیگم میں سے کوئی ایک لازمی اس کے پاس موجود رہتی۔ ابیک کا اوپر جانا تقریباً ممنوع ہی ہوچکا تھا۔ کیونکہ اسے دیکھتے ہی ذیان کی طبیعت خراب ہوجاتی تھی۔

عامل جلالی باوا کی سواری باد بہاری ان کے گھر تشریف لا رہی تھی وہ چپ چاپ ان کے استقبال کی تیاریاں دیکھ رہا تھا۔

ذیان اوپر ہی تھی۔ جلالی باوا نے وہیں قدم رنجہ فرمانا تھا۔ افشاں بیگم، عتیرہ اور ملک جہانگیر خاصے سرگرم تھے۔

عامل جلالی باوا اپنے ساز وسامان سمیت”ملک محل“ تشریف لاچکے تھے۔ ان کے دو چیلے اور مرید خاص بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ملک جہانگیر نے خصوصی طور پہ پکوان تیار کروائے تھے۔ لذیذ مرغن کھانے کھانے کے بعد خوشبودار دودھ پتی ڈکار کے جلالی باوا نے اپنے کام کا آغاز کیا۔

وہ اوپری پورشن کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے باقی لوگ ان کے پیچھے پیچھے سر جھکائے آرہے تھے۔ وہ سیدھے ذیان کے کمرے میں داخل ہوئے جہاں وہ دلہن بن کر داخل ہوئی تھی۔ جلالی باوا نے ذیان سمیت پورے کمرے اور چیزوں کا جائزہ لیا۔ ان کی نگاہ جیسے ہر چیز کو چھید رہی تھی۔ ان کے حکم پہ ذیان کو ان کے سامنے بٹھایا گیا۔

ملک ابیک الگ تھلگ رکھے ون سیٹر صوفے پہ بیٹھا خاموشی سے سب کارروائی ملاحظہ کر رہا تھا۔

وہ ان سب سے آخر میں آیا تھا اس لیے کسی نے اتنی توجہ نہیں دی تھی۔

جلالی باوا نے اپنے آنے سے پہلے کچھ سامان لانے کی خصوصی تاکید کی تھی اس خاص الخاص سامان میں تین عدد صحت مند کالے بکرے اتنی ہی تعداد میں کالی مرغیاں، سوا میٹر کالا کپڑا، تین مٹی کے کورے دئیے، الو کی مردہ آنکھیں، نر چمگادڑ کے پر، شیر کی چربی کا تیل اور گیدڑ سنگھی شامل تھی۔

کچھ چیزیں تو مل گئی باقی رہ جانے والا سامان ہر ممکنہ جگہ پتہ کروانے کے باوجود بھی نہیں مل پایا تھا۔ ملک جہانگیر نے افشاں بیگم کے کہنے پہ ان چیزوں کے پیسے عامل جلالی باوا کے حوالے کردئیے تاکہ وہ خود ہی خرید لیں۔ یہ اچھی خاصی موٹی رقم تھی۔ کچھ چیزیں جلالی باوا اپنے ساتھ ابھی ابھی لے کر آئے تھے یہ انہیں ذیان کے علاج کے لیے استعمال کرنی تھیں۔

ذیان”جلالی باوا“ کے سامنے بیٹھی تھی درمیان میں کوئلوں سے بھری انگیٹھی دہک رہی تھی۔

جلالی باوا پاس پڑی دانے دار سی کوئی کالی چیز وقفے وقفے سے جلتے انگاروں پہ ڈال رہے تھے۔ جس سے فضا میں عجیب سی سرانڈ پھیل گئی تھی بو ناقابل برداشت تھی سب نے ناک منہ پہ ہاتھ رکھ لیے۔ اس کے بعد جلالی باوا نے ایک بوتل اٹھائی یہ وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔

بوتل میں سرخی مائل سفوف تھا یہ سفوف انہوں نے کوئلوں پہ چھڑکا تو سامنے بیٹھی ذیان کی حالت بری ہوگئی۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا رگڑ رگڑ کر اس نے آنکھیں سرخ کرلیں۔ اس کے بعد جلالی باوا نے سرخ مرچوں سے ملتی جلتی کوئی شے کوئلوں پہ ڈالی تو ذیان بری طرح کھانسنے لگی حیرت انگیز طور پہ باقی افراد میں سے کسی پہ بھی کوئی اثر نہیں ہوا یعنی وہ چیز ذیان پہ ہی اثر کر رہی تھی۔

 عامل جلالی باوا کے چہرے پہ عجیب سی ہنسی نمودار ہوئی۔ اس نے اپنے ساتھ لائے سامان میں سے چھوٹی سلاخ برآمد کی اور کوئلے کے انگارے کریدنے لگے۔ذیان کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جلالی باوا اب پوری طرح ذیان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”کیا لینے آیا ہے تو اس لڑکی سے۔ بدبخت تیرا نام کیا ہے؟“ اپنی گونجدار آواز میں وہ ذیان پہ عاشق ہونے والے جن سے مخاطب تھے۔

ذیان نے سرخ سرخ لال آنکھوں سے عامل جلالی باوا کو گھورا۔ ”آتم توش نام ہے میرا۔میں اس لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔“ ذیان کے لبوں سے مردانہ آواز برآمد ہوئی۔

یہ سو فیصد مردانہ آواز تھی وہاں پہ موجود سب افراد کو گویا سانپ سونگھ چکا تھا۔ صرف عامل جلالی باوا جن سے سوال جواب کر رہے تھے۔ ”کیا لینا ہے تجھے اس لڑکی سے؟“ ”میں ذیان سے محبت کرنے لگا ہوں۔

جب یہ باغ میں اکیلی بیٹھی رو رہی تھی میں تب اس پہ عاشق ہوا۔ اب میں اس کے قریب کسی کی موجودگی برداشت نہیں کرسکتا خاص طور پہ اس کے شوہر کی۔ یہ صرف میری ہے۔“ ذیان کے لبوں سے غصے بھری آواز برآمد ہوئی۔ اس نے گردن موڑ کر ون سیٹر صوفے پہ بیٹھے ملک ابیک کو گھور کر دیکھا جیسے کچا چبا جائے گا۔ ابیک اپنے اعصاب پہ قابو پائے برداشت کر رہا تھا۔

جلالی باوا نے جلتے انگاروں پہ ایک بار پھر سفید سفوف چھڑکا جیسے انگارے آہستہ آہستہ بجھنے لگے ان کی تپش کم پڑتی جارہی تھی۔ اب ذیان کی آنکھوں کی سرخی اور چہرے پہ چھائی وحشت میں کمی آتی جارہی تھی۔

عامل جلال باوا ذیان کے کمرے سے اٹھ کر نیچے آگئے تھے۔

ان کے چہرے پہ فکرو تردد کی گہری لکیریں نمایاں تھیں۔ ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور ملک ابیک ان کے پاس تھے۔

”جن بہت طاقتور اور شدی ہے آپ کو بہو کے علاج کے لیے بہت وقت اور صبر کی ضرورت ہے۔“ جلالی باوا نے اپنے سامنے بیٹھے تینوں افراد کو باری باری دیکھا تو افشاں بیگم بول پڑیں۔ ”میں اپنی بہو کی تندرستی کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہوں۔“

”آپ کی بہو بالکل تندرست ہے بی بی اس کی روح بیمار ہے۔ اس کی روح پہ قبضہ ہوگیا ہے یہ قبضہ کسی انسان کا نہیں ہے بلکہ غیر مرئی مخلوق کا ہے۔

نظر آنے والے دشمن سے تو با آسانی مقابلہ کیا جاسکتا ہے پر جو دشمن ہی پوشیدہ ہو اس کے ساتھ کوئی کیسے نمٹے۔ نمٹنے کے لیے خاص عمل اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ خاص عمل نوری عمل کہلاتا ہے۔ وقتی طور پہ میں نے کسی حد تک سب ٹھیک کردیا ہے لیکن یہ سب عارضی ہے۔ میں ہفتے بعد آؤں گا اور بتاؤں گا کہ علاج کیسے شروع کیا جائے۔ علاج کے دوران اور ابھی بھی لڑکی کے شوہر کو اس سے دور رہنا ہوگا ورنہ آتم توش غصے میں آ کر شدید قسم کا نقصان بھی پہنچا سکتا ہے جیسا کہ اس نے دھمکی بھی دی ہے۔

“ عامل جلالی باوا گونجدار آواز میں بول رہے تھے۔ ملک ابیک کے علاوہ سب ہی متاثر اور پریشان ہو گئے تھے۔ ابیک اندرونی اور بیرونی دونوں طرح پرسکون تھا۔

وہ ذیان کے اس علاج کے حق میں نہیں تھا۔ مخالفت کرتا تو افشاں بیگم کے ناراض ہونے کا سو فی صد امکان تھا لہٰذا اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جلالی باوا کی کرامات کا بھی جائزہ لینا چاہ رہا تھا۔

کہ آخر ان کا دعویٰ کتنا سچا ہے۔ افشاں بیگم تو ان کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئی تھیں ملک جہانگیر نے بھی ذیان کے روحانی علاج کے کلی اختیارات انہیں سونپ دئیے تھے۔

عامل جلالی باوا اپنے چیلوں مریدوں اور سامان سمیت رخصت ہوگئے تھے، انہوں نے اگلے ہفتے پھر قدم رنجہ فرمانا تھا۔

عتیرہ کے جانے کے بعد ذیان نے تیزی سے بیڈ روم کا دروازہ بند کیا۔

ان پانچ دنوں میں اسے ایک پل کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑا گیا تھا۔ وہ ہر قسم کی فکر و پریشانی سے دور رہ کر بھرپور قسم کی نیند لینا چاہ رہی تھی۔ عامل باوا کے انگیٹھی والے عمل کے بعد اس کا سر ویسے بھی بہت بھاری بھاری ہو رہا تھا۔ عتیرہ کسی ضرورت سے باہر گئی تھیں انہیں واپس اس کے پاس آنا تھا جبکہ وہ ایسا نہیں چاہتی تھیں۔ ایک بار پھر اس نے بیڈ روم کا دروازہ کھول کر باہر جھانکا اور پاس سے گزرتی نوکرانی کو آواز دی۔

”شمو میری بات سنو۔“

شمو اس کی آواز سن کر رک تو گئی پر اس کے چہرے پہ بے پناہ خوف تھا۔ ”جی چھوٹی بی بی۔“ وہ مرے مرے لہجے میں بولی۔“ میں سونے لگی ہوں دروازہ بند کر کے۔ بڑی بی بی سے جا کر کہو وہ بھی سوجائیں جا کر۔“ ”ٹھیک ہے چھوٹی بی بی جی ابھی جا کر کہتی ہوں۔“ شمو کی پھرتی اور تیز رفتاری قابل دید تھی اس نے شکر ادا کیا اور دوڑ لگائی۔

ذیان بی بی سے تو سب ہی ڈرنے لگے تھے ان سے کسی نوکرانی کا سامنا ہوجاتا تو اس کی تو جیسے روح ہی فنا ہونے لگتی۔ صرف نیناں ہی دل گردے کی مالک تھی اس نے ایک بار بھی کسی ڈر یا خوف کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اگر اسے کسی کام کے لیے ذیان کے پاس بھیجا جاتا تو وہ انکار نہ کرتی۔ اس کا رویہ بھی نارمل رہتا چہرے پہ خوف اور گھبراہٹ کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ ذیان نے پھر سے دروازہ بند کیا اور اطمینان سے بستر پہ دراز ہوگئی ابیک کے اِدھر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ کیونکہ عامل جلالی باوا نے سختی سے منع کردیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے فی الحال دور رہے۔ وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بے سدھ ہو کر سوئی۔

Episode 76 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 76 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ابیک اور ذیان کی شادی کے بعد نیناں نے سلائی کڑھائی کے مرکز میں پھر سے جانا شروع کردیا تھا۔ گھر میں ذیان کے حوالے سے جو پریشانی چل رہی تھی وہ اپنی جگہ تھی۔ ابیک نے اس طرف سے دھیان ہٹا کر سکول والے پراجیکٹ پہ توجہ دینا شروع کردی تھی۔ اس نے شادی کے بعد پہلی مرتبہ سکول کی ادھوری تیزی سے تعمیر کے مراحل طے کرتی عمارت کا جائزہ لیا۔ ٹھیکیدار اسے کام کی تفصیلات بتا رہا تھا۔

ابیک اس کی کارکردگی سے مطمئن تھا۔ آدھ گھنٹہ گھوم پھر کر اطمینان کرلینے کے بعد وہ انڈسٹریل ہوم کی طرف آگیا۔ بہت دن بعد اس طرف آنا ہوا تھا۔ نیناں اسے دیکھتے ہی الرٹ ہوگئی۔ دل کی دھڑکنوں نے خوشگوار الاپ الاپنا شروع کردیا تھا۔ بہت دن کے بعد نیناں اسے اپنے سامنے ایسے اکیلے دیکھ رہی تھی۔ ابیک کو سامنے پا کر وہ بے اختیار اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

”اسلام وعلیکم۔“ ابیک نے دھیمے سے سلام کیا۔ ”وعلیکم السلام آپ کیسے ہیں بیٹھیے پلیز۔“ نیناں نے آداب میزبانی نبھائیے۔ ”وہ دھیرے سے سر کو جنبش دیتا بیٹھ گیا۔ ”کام کیسا چل رہا ہے کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔“ اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو لسٹ بنا کر بھجوا دیجئے گا۔“ وہ اپنے مخصوص مہذب انداز میں گویا ہوا۔

”پریشانی تو نہیں ہے البتہ کچھ مشینیں خراب ہوگئی ہیں ساتھ کڑھائی کی ایک نئی مشین کی ضرورت ہے۔

“ ”آپ گھر جا کر مجھے ایک بار یاد کروا دیجئے گا۔ منشی شہر سے لے آئے گا۔“ ”ایک بات پوچھوں آپ برا تو نہیں مانیں گے۔“ نیناں نے پہلی بار بولنے کی ہمت کی تھی۔ ابیک کرسی پہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ نیناں کے لہجے میں محسوس کی جانے والی جرأت تھی۔ ”جی مس نیناں پوچھیں۔“ ”آپ بہت پریشان اور تھکے تھکے نظر آرہے ہیں کیا وجہ ہے اس کی؟“ نیناں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔

”لگتا ہے میری بات آپ کو بری لگی ہے معذرت چاہتی ہوں۔“ابیک کی طرف سے خاموشی طاری رہی تو اس نے دبے دبے انداز میں شرمندگی ظاہر کی۔ ”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔“وہ پھیکے پھیکے انداز میں مسکرایا۔ ”یعنی آپ کو میری بات بری نہیں لگی ہے؟“ نیناں نے ایک ثانیے کے لیے اس کی طرف نظر جمائی پر زیادہ دیر دیکھ نہ پائی۔ وہ روز اول کی طرح ماحول پہ چھایا ہوا لگ رہا تھا۔

”نہیں بری تو نہیں لگی ہے آپ کی بات۔“ ”تو پھر…؟“ وہ تیزی سے گویا ہوئی۔ ”میں حیران ہوا ہوں کیونکہ آج سے پہلے آپ نے کبھی ایسی بات نہیں کی ناں۔“ نیناں دھیمے سروں میں ہنسی۔ ابیک ٹھٹھک کر اُسے تکنے لگا۔

آج تو وہ حیران کردینے پہ تلی ہوئی تھی۔ ”آپ کو میری بات بری نہیں لگی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اچھی لگی ہے۔“ وہ بالکل عام سے انداز میں بولی۔

ابیک بے ساختہ ہنس پڑا۔ یہ سادہ اور بے ریا ہنسی تھی۔ نیناں سب کچھ بھلائے اس کی ہنسی کے سحر میں گم ہونے لگی تھی۔ یہ پہلا اتفاق تھا جو ابیک نے اس سے اتنی باتیں کی تھیں۔

”ہاں میں ڈسٹرب ہوں تھوڑا۔“ وہ ہنستے ہنستے اچانک خاموش ہوا تو سارا سحر اچانک ٹوٹ گیا۔ ”آپ ذیان بی بی کی وجہ سے پریشان ہیں ناں؟“ وہ ہمدردی سے اسے دیکھ رہی تھی وہ ہولے سے سر ہلا کر رہ گیا۔

”آپ انہیں کسی ڈاکٹر کو دکھائیں ناں۔“ نیناں نے خلوص سے مشورہ دیا۔ پر یہ خلوص ابیک کے لیے تھا ذیان کے لیے ہرگز نہیں تھا۔

”آپ کی اس ہمدردی اور خلوص کا بے حد شکریہ۔“ ابیک اس کی بات کے جواب میں گویا ہوا۔ اس نے ڈاکٹر کو دکھانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ ”اچھا مس نیناں میں جارہا ہوں یہاں کسی قسم کی کوئی پرابلم ہو تو مجھے بتا دیا کریں۔

“ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”پلیز آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا۔“ وہ دروازے کی طرف مڑ چکا تھا جب پیچھے سے نیناں کی آواز آئی۔ایک ثانیے کے لیے وہ رُکا اورپھر فوراً ہی نپے تلے باوقار قدموں سے چلتا اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔

آج اس نے ڈرائیور کو ساتھ نہیں لیا تھا خود ڈرائیو کر کے آیا تھا۔ نیناں کھڑکی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا گاڑی سٹارٹ کر رہا تھا۔

وہ وہاں سے روانہ ہوا تو نیناں کھڑکی سے ہٹی۔

معاذ کی واپسی میں صرف کل کا دن تھا۔ وہ بجھے بجھے دل کے ساتھ تیاری میں مصروف تھا۔ ابیک بھائی کی شادی کا سارا مزہ کرکرا ہوگیا تھا۔ اس نے بھائی اور بھابھی کی شادی کے بعد سیروتفریح گھومنے پھرنے کے بہت سے پروگرام بنائے تھے۔

جو ذیان بھابھی کے جن کی وجہ سے غارت ہو کر رہ گئے تھے۔ پورے ملک محل میں عجیب سا سناٹا تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ یہاں کسی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے نہ چوڑیوں کی کھنک نہ رنگین آنچل کی بہار نہ دبی دبی ہنسی کی آواز کچھ بھی تو نہیں تھا۔

ملک جہانگیر اور افشاں بیگم ذیان کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ گھر میں کام کرنے والی نوکرانیاں تک خوفزدہ تھیں۔ بات بھی سرگوشیوں میں کرتیں، معاذ الگ جھنجھلایا ہوا تھا۔ ذیان بھابھی کی شکل دیکھنے کو نہ ملتی چوبیس گھنٹے وہ کمرے تک محدود رہتیں۔ اس نے کتنی بار مشورہ دیا کہ بھابھی کو کسی سائیکاٹرسٹ کو دِکھائیں مگر اس کے مشورے پہ کسی نے بھی کان نہیں دھرا اس کا دل کرتا ذیان سے فرمائش کرے لاڈ اٹھوائے چھوٹے چھوٹے کام کروائے اسے لے کر گھومنے پھرنے جائے۔

معاذ کو بہن کا بہت شوق تھا وہ اکثر و بیشتر بڑے حسرت ناک انداز میں اللہ سے بہن نہ ہونے کا شکوہ کرتا تھا۔ ذیان کو دیکھتے ہی اس کے دل نے کہا کہ اس کی بہن کی کمی پوری ہوگئی ہے۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسا اس کے ذہن میں بہن کا تصور تھا۔ آنے والے دنوں میں بہت جلد وہ دونوں آپس میں بے تکلف ہوگئے۔ ذیان اس کی باتوں پہ ہنستی دلچسپی لیتی تو اسے بہت اچھا لگتا۔

ان دونوں یعنی ذیان اور ابیک بھائی کی شادی پہ اس نے کیسی رونق لگائی، خوشی منائی۔ذیان رخصت ہو کر آئی تو معاذ نے اس کے بیڈ روم میں جا کر سب سے پہلے اس کا چہرہ دیکھا اور منہ دکھائی دی۔

اس کے شرارتی جملوں کی مار سے وہ نروس ہو رہی تھی اپنی مسکراہٹ چھپا رہی تھی۔معاذ نے کتنی ڈھیر ساری اس کی فوٹو بنائیں۔ سب ٹھیک تھا وہ میوزک سسٹم آن کر کے وہاں سے باہر آیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑی دیر میں ہی خوشیوں بھرا ماحول پریشانی میں بدل گیا تھا۔

معاذ نے بھی دیکھا ذیان بھابھی پہلے والی تو لگ ہی نہیں رہی تھیں۔ نہ ہنستی نہ بولتی نہ اس کی شرارتوں پہ مسکراتی۔ اب تو اس کے جانے میں ایک دن باقی تھا۔ وہ بے حد اداس ہو رہا تھا۔ لگ رہا تھا ان کے گھر کو کسی کی نظر کھا گئی ہے۔

نئے نویلے شادی شدہ جوڑے کی خاندان بھر والے دوست احباب سب دعوتیں کرتے تھے مگر یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا بلکہ الٹا جس کسی کو ملک جہانگیر کی بہو کے بارے میں علم ہوتا وہ ہمدردی کرنے آجاتا۔

وہ حواس میں ہوتی تو کوئی دعوت میں مدعو بھی کرتا الٹا وہ تماشہ بن گئی تھی۔ ادھر ملک ارسلان اور عتیرہ کے ساتھ بھی وہی مسئلہ تھا۔خاندان بھر میں بات پھیل گئی تھی۔ کیونکہ شادی کے موقع پہ سب نے ہی ذیان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کی حالت سب کے لیے دلچسپ قصہ تھی۔ ہر کوئی ہمدردی جتاتا اپنے اپنے مشورے دیتا، عاملوں کا بتاتا وظیفے کرنے کا بولتا۔

عتیرہ سے بھی جو ہو رہا تھا وہ کر رہی تھی۔ ہر وقت ذیان کے ساتھ سائے کی طرح لگی رہتی۔ وہ مستقل طور پہ ابیک کی طرف ہی رہتی۔ اس چکر میں گھر اور ملک ارسلان بری طرح نظر انداز ہو رہے تھے۔ پر انہوں نے شریک حیات سے کوئی شکوہ نہیں کیا تھا۔

بلکہ وہ تو صبح و شام خود ذیان کو دیکھنے کے لیے آتے اس پہ سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونکتے۔

مگر مسئلہ بڑھتا جارہا تھا، ذیان ویسے تو اکثر ٹھیک ہی رہتی لیکن جیسے ہی ابیک کو دیکھتی یا اس سے سامنا ہوتا تو اس پہ آنے والا جن جلال میں آجاتا پھر وہ ابیک کی طرف لپک لپک پڑتی اسے مارنے کی نوچنے کی کوشش کرتی۔

یکدم ہی وہ تو جیسے اپنا روپ ہی بدل لیتی بالکل اجنبی نظر آتی لال لال آنکھوں سے گھورتی تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے کیونکہ اس کی آنکھوں کے ڈھیلے ایک جگہ ساکت ہوجاتے اور سفید سفید پتلیاں بہت ہیبت ناک نظر آتیں ایسے میں سب کی کوشش ہوتی کہ ذیان کے سامنے سے ہٹ جائیں کیونکہ وہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آتی تھی ایسے محسوس ہوتا جیسے اس کے اندر کوئی انجانی غیرمرئی طاقت حلول کر گئی ہے۔

ملک ابیک کو افشاں بیگم نے منتیں کر کر کے نیچے ہی رکنے پہ آمادہ کرلیا تھا۔ اسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو وہ نوکرانیوں سے کہتا۔ اس کے بیڈ روم سے اس کے استعمال کی سب چیزیں نیچے منتقل ہوگئی تھیں۔

اس کا بیڈ روم تو جیسے اس کے لیے ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا تھا۔ جہاں وہ قدم بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔ اوپر اس کے بیڈ روم میں ذیان اور عتیرہ چچی تھی۔

کبھی کبھی افشاں بیگم بھی اوپر ٹھہر جاتیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ جن ذیان کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے اس لیے وہ زیادہ وقت اس کے ساتھ ہی رہتیں۔

معاذ ذیان کے بیڈ روم کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ افشاں بیگم بھی تھیں وہ اس کے ساتھ آئی تھیں انہیں انجانا سا خوف تھا کہ شاید ذیان معاذ کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ حالانکہ شادی کے بعد سے لے کر اب تک ایسا ہوا نہیں تھا”آتم توش“ نامی جن کا سب غصہ و غیض و غضب صرف اور صرف ابیک کے لیے ہی تھا۔

ذیان بیڈ پہ بیٹھی تھی چہرے پہ فکر کے سائے تھے پر مجموعی طور پہ وہ بالکل ٹھیک نظر آرہی تھی۔ ”آؤ معاذ کہاں غائب ہو اتنے دن سے؟“ اسے دیکھتے ہی وہ بیڈ سے اتر آئی۔ چہرے پہ گزشتہ دنوں والی طاری وحشت کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ”بھابھی آپ کی طبیعت ہی ٹھیک نہیں تھی میں دو تین بار آیا تو تھا لیکن کھڑے کھڑے واپس ہوگیا۔

Episode 77 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 77 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہ معاذ سے تین ساڑھے تین سال چھوٹی تھی پر وہ انتہائی احترام سے مخاطب کر رہا تھا۔ ذیان جواب میں دھیرے سے مسکرا دی ایسی مسکراہٹ جس میں بے بسی کی آمیزش تھی۔ افشاں بیگم نے معاذ کو فہماشی انداز میں دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں ذیان کی طبیعت کے حوالے سے کوئی بات مت کرنا وہ ان کی آنکھوں کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔

ذیان اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔

افشاں بیگم دیکھ دیکھ کر نہال ہو رہی تھیں ذیان بالکل نارمل اور ٹھیک ٹھاک نظر آرہی تھی لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی پرانی ذیان ہے۔ابیک کو سامنے دیکھتے ہی جن بے قابو ہوجاتا ویسے وہ ٹھیک ہی رہتی۔

ملک ارسلان اور عتیرہ بیگم کے شاندار ڈرائنگ روم میں عامل جلالی باوا کا بھیجا ہوا خاص مرید موجود تھا۔ وہ جلالی باوا کا خاص الخاص پیغام صرف اور صرف ان کے لیے لے کر آیا تھا۔

مرید کی نظریں ایک ایک چیز کو نگاہوں ہی نگاہوں میں تول رہی تھیں جیسے دل ہی دل میں قیمت کا تعین کر رہا ہو۔واضح طور پہ اس کی آنکھوں میں مرعوبیت موجود تھی۔

عتیرہ اس کے سامنے بیٹھی تھیں انہوں نے نوکرانیوں کی مہمان کی خاطر مدارات کا خاص اہتمام کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس درمیانی وقفے میں مرید کام کی باتیں عتیرہ بیگم کو بتاتا جارہا تھا۔

”بابا جی نے آپ کو فوراً بلایا ہے۔“ ”کیوں بلایا ہے مجھے؟“ عتیرہ نے بے قراری سے پوچھا۔ ”یہ تو وہ آپ کو خود ہی بتائیں گے کیونکہ کوئی ضروری بات ہے جو صرف آپ سے کرنے والی ہے۔“ مرید ایک عجیب شان بے نیازی سے گویا ہوا۔ باتوں کے دوران کھانے کی ٹیبل اشیائے خوردونوش سے سجائی جاچکی تھی اور عامل باوا کا خاص مرید کھانے پینے کی نعمتوں سے خوب خوب انصاف کررہا تھا۔

ڈرائنگ روم میں بیٹھے اس اجنبی آدمی یا مرید خاص کی جھلک نیناں بھی دیکھ چکی تھی۔ اس نے اندر آ کر بطور خاص سلام کیا۔ عتیرہ نے اس کا تعارف کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی نیناں سمجھ گئی کہ یہ شخص خاندان سے باہر کا ہے۔ ویسے بھی حلیے سے ملک خاندان کا نظر آبھی نہیں رہا تھا۔

مرید نے نیناں کو گہری نگاہ سے دیکھا۔ عتیرہ نے نیناں کو ڈرائنگ روم سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔

باہر آ کر وہ ایک طرف کھڑی ہوگئی۔ مگر اندر موجود افراد کی آواز بہت آہستہ تھی کوشش کے باوجود ایک لفظ بھی اس کے پلے نہ پڑ سکا۔ وہ مڑنے ہی لگی تھی جب معاذ کو دیکھ کر ادھر ہی ساکت ہوگئی۔ شاید وہ اسے اس طرح مشکوک انداز میں اندر کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا مگر اس وقت اس کے چہرے پہ ایسا کوئی تاثر نہیں تھا۔ نیناں اسے سلام کر کے وہاں سے جانے لگی، تیزی سے اس کا پاؤں بری طرح پھسلا اور مڑا۔

ایک زور دار چیخ اس کے لبوں سے برآمد ہوئی۔ اس کے پاس سب سے پہلے معاذ ہی پہنچا، نیناں کے پاؤں میں موچ آگئی تھی۔

وسیع و عریض کمرے میں عتیرہ”عامل جلالی باوا“ کے سامنے ادب و احترام سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس بار انہوں نے عتیرہ کو فوراً ڈائریکٹ اپنے حجرے میں کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے بلوا لیا تھا ورنہ نمبر پہ تو انہیں جانا پڑتا تو رات ادھر ہی تھی۔

جلالی باوا نے تولنے والی نگاہوں سے عتیرہ کا جائزہ لیا اور اپنی انگلیوں سے داڑھی کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ایک ہاتھ سے وہ تسبیح کے دانے گرا رہے تھے اس میں ذرہ بھر بھی خلل نہیں پڑ رہا تھا وہ ایک مخصوص ردہم کے ساتھ مصروف عمل تھے۔ ان کی مقناطیسی نگاہوں سے عتیرہ اپنا سر جھکانے پہ مجبور ہوگئی تھی۔

”میں نے دو رات پہلے تمہاری بیٹی کے سلسلے میں استخارہ اور مراقبہ کیا ہے۔

مجھے بہت خطرناک اشا رے ملے ہیں اس لیے کل اپنے مرید شاکر کو میں نے تمہارے گھر بھیجا تھا۔“ عامل باوا کا لہجہ انکشافات سے لبریز تھا۔ ”کون سے اشارے بابا جی؟“ عتیرہ نے فوراً جھکا سر اوپر اٹھایا۔ ”میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا بی بی بات ہی ایسی ہے۔“ ”بابا جی خدا کا واسطہ ہے جو بھی ہے مجھے بتا دیں۔“ عتیرہ رو دینے والے انداز میں بولی تو بابا جی نے تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کرلیں پوزیشن مراقبے والی تھی۔

 عتیرہ اضطراری انداز میں پہلو بدل رہی تھی۔ بابا جی نے تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول دیں تو عتیرہ کی جیسے جان میں جان آئی۔ ”لڑکی کا علاج کراؤ بی بی۔ ورنہ جن اسے مار ڈالے گا۔ اس نے ضد باندھ لی ہے کہ لڑکی کو سسکا سسکا کر مارے گا۔“ ”بابا جی بتائیں ناں میں کیا کروں۔ میری بچی ہنستے کھیلتے اس حال کو پہنچ گئی ہے میں کیا کروں۔“ عتیرہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔

ہلکی ہلکی نمی اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ لہجہ میں بھی در آئی تھی۔ جلالی باوا نے اسے بڑے جلال سے دیکھا تو ایک بار پھر انہوں نے اپنا سر جھکا لیا۔ ان کی نگاہوں کی تاب لانا آسان نہ تھا۔ بابا جی نے اسے قریب آنے کا اشارہ کیا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ ان کی آنکھیں ایک بار پھر بند ہوگئی تھیں منہ ہی منہ میں وہ عجیب سے کلمات بڑبڑانے والے انداز میں پڑھ رہے تھے مجال ہے جو ایک لفظ بھی عتیرہ کے پلے پڑا ہو۔

”لڑکی کو فوراً سسرال سے اپنے گھر لے آؤ۔“عامل جلالی باوا بند آنکھوں کے ساتھ اس سے مخاطب ہوئے۔ ”بابا جی میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے کیسے لا…“ ”بیٹی کی زندگی چاہیے تو اسے فوراً اپنے گھر لے کر آؤ چلہ کاٹنا ہے۔ چالیس دن کا چلہ ہوگا۔ بہت بھاری عمل ہے کسی کی بھی جان جاسکتی ہے اس لیے مجھے بالکل تنہائی چاہیے ہوگی۔ تمہاری بیٹی کی سسرال میں چلہ کاٹنا ممکن نہیں ہے۔

لڑکی کے شوہر کو یہاں سے باہر بھیج دو۔ چالیس دن کے لیے۔ پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ”جلالی باوا نے محبت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو عتیرہ کی آنکھوں میں رکا سیلاب بہنے کے لیے بے تاب ہونے لگا۔

”بابا جی چالیس دن کے لیے میں اپنے داماد کو کہاں بھیجوں بہت مشکل ہے۔“ ”چالیس دن پورے نہیں ہوں گے اس سے پہلے ہی چلہ مکمل ہوجائے گا دس دس دن کا ہوگا تین بار۔

ویسے دو بار میں ہی کام ہوجاتا ہے لیکن میں نے پھر احتیاطاً چالیس دن بتائے ہیں ہوسکتا ہے مجھے دو دفعہ اورچلہ کاٹنا پڑے اور چالیس دن تمہاری بیٹی کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں بی بی۔ یہ کام کرسکتی ہو تو کرو میں صرف تمہارے لیے یہاں رُکا ہوا ہوں ورنہ دوسرے شہروں میں میرے ہزاروں مرید ہیں جو مجھے وہاں آنے کے لیے بول رہے ہیں۔

 مجھے ضروری لاہور جانا تھا لیکن تمہاری پریشانی دیکھ کر رک گیا ہوں کہ مخلوق خدا کے کام آنا عین عبادت ہے۔

ورنہ اس گاؤں سے باہر بھی بہت سے لوگ تمہاری طرح مشکلات کا شکار ہیں۔ میں نے ان کی طرف توجہ نہ کی تو میرا رب ناراض ہوجائے گا۔ میں لاہور سے آ کر تم سے رابطہ کروں گا۔“ ”نہیں باوا جی آپ میرا کام کر کے جانا۔ میری بیٹی عذاب میں ہے۔“ عتیرہ نے بابا جی کے ہاتھ ایسے پکڑے جیسے انہیں جانے سے روکنا چاہتی ہو۔ اب آنسو باقاعدہ طور پہ اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہوگئے تھے۔

”بابا جی میں کیسے ملک ابیک کو کہوں بات کروں۔ وہ میری بیٹی کا شوہر ہے ہوسکتا ہے اسے میری بات بری لگے۔“ ”تمہیں ہر حال میں یہ کام کرنا ہے ورنہ بیٹی کی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار رہو۔“ جلالی باوا رکھائی سے بولے۔

”بابا جی آپ نورپور سے باہر مت جانا میں گھر جا کر بات کرتی ہوں۔ پوری کوشش کروں گی اپنی طرف سے۔“ ”تمہیں یہ کام کرنا ہے۔

“وہ زور دے کربولے۔ ”مجھے تمہارے گھر آ کر چلہ کاٹنا ہے اور زیادہ افراد کوبتانے کی ضرورت نہیں ہے اس عمل میں رازداری شرط ہے ورنہ یہ چلہ اکارت جائے گا اور پھر کوئی بھی تمہارے خاندان کو تباہی سے نہیں بچا پائے گا۔“ ”بابا جی میں صرف بیٹی کے ساس، سسر کو بتاؤں گی اور اپنے داماد کو۔“ وہ فوراً بولیں۔

”ہاں کوشش کرنا کہ کوئی سوال نہ کرے تم سے۔

“’ بابا جی اُسے آہستہ آہستہ سمجھانے لگے۔

عتیرہ سر ہلا رہی تھیں جیسے جلالی باوا کی بات پوری طرح ان کی سمجھ میں آئی ہو۔

”میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دوں گی۔“ عتیرہ نے انہیں یقین دلایا۔ ”بس پھر خوش ہوجاؤ تمہاری بیٹی میرے چلے سے بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔“ عامل جلالی باوا کے لہجے میں یقین نمایاں تھا۔

”یہ موذی جن تمہاری بیٹی کا پیچھا چھوڑ دے گا۔

“ ”ایسا ہوگیا تو میں آپ کی ہر ممکن خدمت کروں گی بابا جی۔“ عتیرہ کا لہجہ عقیدت سے شرابور ہو رہا تھا۔

عامل جلالی باوا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ہمیں کسی خدمت کی ضرورت نہیں ہے بی بی۔ تم اپنے ہاتھ سے کسی محتاج کو دے دلا دینا۔ ہاں عمل کے لیے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوگی وہ لانا تمہاری ذمہ داری ہے۔“ جلالی باوا فقیرانہ انداز میں گویا ہوئے تو عتیرہ کچھ اور بھی ان کی کرامات اور بے نیازی کی قائل ہونے لگی۔

 ”بابا جی جس چیز کی بھی ضرورت ہوئی آپ کو مل جائے گی۔“ ”لڑکی کو جتنا جلدی ہوسکے اپنے گھر لے کر آؤ تاکہ میں عمل شروع کروں۔“ ”بابا جی میں گھر جا کر بات کرتی ہوں پھر آپ کو مطلع کردوں گی۔“ عتیرہ نے مضبوط انداز میں کہا۔بابا جی نے مطمئن انداز میں سر ہلایا۔ انہیں اب اپنی کامیابی کا پورا یقین ہو چلا تھا۔ ان کے آستانے کے باہر ویسے بھی ایک لوہے کی بورڈ پہ جلی حروف میں لکھا تھا ہر تمنا پوری ہوگی۔

“ پھر یہ کیسے ممکن تھا عتیرہ کا مسئلہ حل نہ ہوتا۔

ملک جہانگیر اور افشاں بیگم سے عتیرہ نے بات کرلی تھی۔ انہیں عامل جلالی باوا کے یہاں آنے اور ذیان کے علاج کے لیے خاص عمل کرنے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ملک جہانگیر تھوڑی ہچکچاہٹ کا شکار تھے پر افشاں بیگم نے انہیں را م کرلیا تھا۔ وہ خود چاہتی تھی کہ ذیان جلدی ٹھیک ہوجائے اور ابیک کے ساتھ نارمل ازدواجی زندگی کا آغاز کرے۔ملک ابیک کو دیکھ کر ان کی یہ خواہش اور بھی شدت پکڑ جاتی۔ وہ تو اپنے کمرے تک میں جانے سے عاجز تھا بحیثیت ماں ان کی خواہش تھی کہ بہو بیٹا ہنسی خوشی زندگی گزاریں۔بہو بھی تو وہ چن کر چندے آفتاب ماہتاب لائی تھیں۔

Episode 78 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 78 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

جس پہ جن عاشق ہوگیا تھا۔اب اسی حسین و جمیل بہو کو جن سے بچانے کے لیے عامل جلالی باوا”ملک محل“ میں خاص عمل کرنے آرہے تھے تو کسی کو بھی منع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ملک جہانگیر کو ابیک کو حویلی سے باہر بھیجنے پہ اعتراض تھا ویسے وہ شانت تھے۔افشاں بیگم نے انہیں منا لیا تھا۔اب عتیرہ کو ملک ابیک سے خود بات کرنی تھی۔ ایک مشکل مرحلہ ابھی سر کرنا باقی تھا۔

عتیرہ کو ملک ابیک سے بات کرنے کے لیے مناسب الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے۔موضوع ہی ایسا تھا انہیں ابیک سے جھجک محسوس ہو رہی تھی۔جبکہ وہ ان کے تاثرات اور ہاتھ پاؤں کی اضطراری حرکات سے ہی الجھن محسوس کر رہا تھا۔ ”چچی جان آپ نے کوئی خاص بات کرنی ہے؟“وہ ان کا تذبذب بھانپ چکا تھا۔ کچھ دیر وہ بے بسی سے اسے تکتی رہیں جیسے بولنے کے لیے حوصلہ اکٹھا کر رہی ہوں۔

”ہاں ابیک بیٹا مجھے ذیان کے سلسلے میں بات کرنی ہے۔“ آخر انہوں نے ہمت کرہی لی۔ وہ ہمہ تن گوش تھا۔ ”جی چچی جان آپ کہیے میں سن رہا ہوں۔“وہ بہت نرم انداز میں گویا ان کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ ”تمہیں پتہ تو ہے ذیان کے جن نے جو دھمکی دی ہے۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ میرا دل ہے کہ کچھ عرصے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جاؤں۔شاید وہ ٹھیک ہوجائے۔

اس کے لیے تمہاری اجازت چاہیے۔“ ”چچی جان اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ ذیان مجھ سے دور رہ کر ٹھیک ہوجائے گی تو بے شک آپ اسے لے جائیں۔“ ابیک کے لہجہ میں لطیف سا طنز تھا۔ عتیرہ محسوس ہی نہ کرپائی۔ وہ تو خوش تھیں کہ ابیک نے اجازت دے دی ہے۔“

میں اس کا روحانی علاج کراؤں گی۔ کیونکہ ڈاکٹر وغیرہ کے بس کا یہ کام ہی نہیں ہے۔“ ابیک کا دل چاہا ان کی جہالت پہ اپنا سر پیٹ لے۔

”چچی جان مجھے خود آپ سے بات کرنی تھی مجھے شہر میں اپنے کچھ کام نمٹانے ہیں۔ ایک دو ماہ تو میں مصروف رہوں گا۔ ذیان کو ٹائم بھی نہیں دے پاؤں گا آپ نے تو میری بہت بڑی مشکل حل کردی ہے۔ ذیان آپ کے پاس رہے گی تو میں اپنے کام سکون سے کر پاؤں گا۔ اس دوران میں گاؤں نہیں آسکوں گا۔“ ابیک کی بات پہ عتیرہ کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ مسئلہ ان کا بھی حل ہوچکا تھا۔

عامل جلالی باوا نے رازداری کی شرط رکھی تھی۔ عتیرہ نے ویسے بھی ابیک کو تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تھا یہ بھی عامل جلالی باوا کی ہی ہدایت تھی کہ زیادہ لوگوں کو علم نہیں ہونا چاہیے ورنہ ذیان پہ آنے والا جن غصے میں آسکتا تھا جس سے چلہ ناکام ہونے کا خطرہ تھا۔ ابیک دو ماہ کے لیے شہر جارہا تھا اس کی غیر موجودگی میں ذیان کا علاج کامیابی سے مکمل ہوتا اور گھر واپسی پہ وہ اسے بالکل ٹھیک ٹھاک ملتی۔

ملک ابیک نے چچی کے چہرے پہ پھیلتے سکون کے رنگوں کو فوراً دیکھ لیا تھا۔ ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آگئی جو عتیرہ بیگم پہلے کی طرح دیکھ ہی نہ پائیں۔ ان کا دل تو عامل جلالی باوا کی ملک محل میں آمد، ذیان کے علاج میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ ویسے بھی وہ تھوڑی خود غرض ہوگئی تھیں۔ ابیک کے بارے میں اس کی پریشانی اور احساسات کے بارے میں انہوں نے بطور خاص کچھ سوچا نہیں تھا۔

معاذ ساری رونقیں اپنے ساتھ سمیٹ کر لے گیا تھا۔ اس کی موجودگی سے ایک تازگی اور زندگی کا احساس تھا۔ سارا دن وہ اودھم مچائے رکھتا نت نئی شرارتیں کرنا اس کا مشغلہ تھا۔وہ جب تک ملک محل میں رہا نیناں اس کی موجودگی سے پریشان ہی رہی۔بظاہر لاپرواہ اور شرارتی معاذ در حقیقت بہت حساس تھا۔ قدرت نے اس کو اپنی حساسیت کی بدولت خاص خوبی عطا کی تھی۔

وہ معمولی سے معمولی بات کو بھی فوراً محسوس کرتا۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلات اس کے علم میں آجاتیں دوسرے جن کو نظر انداز کرتے وہ ان کا جائزہ لیتا۔ اکثر ایسی باتیں وقوع پذیر ہوتیں جن کو وہ گہرائی میں جا کر محسوس کرتا۔ وہ اس بار ملک محل میں زیادہ عرصہ نہیں رہا تھا پر نیناں کے بارے میں اس کی رائے اوروں سے مختلف تھی۔ ابیک بھائی کی شادی میں اس نے دو بار نیناں کی نگاہوں کی چوری پکڑی تھی۔

ایک بار اپنے تئیں وہ سب سے چھپ کر ذیان کو نفرت سے گھور رہی تھی جبکہ ابیک بھائی کے لیے اس کے انداز کچھ اور تھے۔

جانے سے پہلے معاذ کا دل چاہا کہ وہ ابیک بھائی کو اپنے خیالات سے آگاہ کرے پھر اس نے ارادہ بدل دیا۔ احمد سیال کے گھر میں پائی جانے والی ان کی بیٹی کی تصویریں اور نیناں کی ان کی بیٹی سے مشابہت بھی حیران کن تھی۔ وہ اس کا ذکر بھی ابیک سے کرنا بھول گیا تھا۔

نیناں کی شخصیت خاصی پراسرار اور شک و شبہے کے دائرے میں لپٹی ہوئی تھی۔

اس کے جانے کے بعد نیناں کم از کم خوش تھی۔

کیونکہ معاذ کی موجودگی اسے خائف ہی رکھتی تھی۔ہر پل ہر لحظہ اسے دھڑکا لگا رہتا جیسے معاذ اس کے بارے میں جانتا ہو۔ جبکہ ملک محل میں آنے اور ملک ابیک کو دیکھنے کے بعد اس کی پوری کوشش تھی کہ اس کی شخصیت کا راز کسی پہ بھی عیاں نہ ہو۔

جب سے وہ یہاں آئی تھی اپنی شخصیت ذات اور پہچان کو اس نے نیناں کے رنگ میں ڈھال لیا تھا۔ رنم بہت دور بہت پیچھے رہ گئی تھی۔ شروع شروع میں وہ روئی پچھتائی پھر زندگی کے اس رنگ نے اسے بہت کچھ سکھایا بتایا۔ ملک ابیک ہو بہو اس کے آئیڈیل کے روپ میں تھا پر وہ اسے پا نہیں سکتی تھی وہ کسی اور کا تھا۔ دکھ کے ساتھ خوشی بھی ملی احمد سیال زندہ تھے۔

ابیک اس کا آئیڈیل کسی اور کا تھا اور رنم نے اپنی پسند کی ہر چیز پائی تھی۔ پہلے اس نے ضد کی خاطر گھر چھوڑا اب ملک ابیک جسے وہ چپکے چپکے چاہنے لگی تھی اس کی خاطر کچھ بھی کرسکتی تھی۔ ویسے بھی ذیان کی نگاہوں میں اس کے انداز سے کبھی رنم نے ایک لحظے کے لیے محبت محسوس نہیں کی تھی۔ وہ عورت تھی اور عورت کی مخصوص حس اس معاملے میں بہت تیز ہوتی ہے۔

ابیک اس کے نصیب میں ہوتا تو وہ اس کے قدموں میں بچھ بچھ جاتی دیوتا بنا کر اس کی پوجا کرتی۔ رنم نے ساری عمر اپنی مرضی کی تھی۔ لیکن ملک ابیک ایسا مرد تھا جسے دیکھتے ہی اس کے دل میں ہلچل مچی تھی۔ یہ وہی مرد تھا جس کے پیچھے وہ تمام عمر آنکھیں بند کر کے چل سکتی تھی ہر حکم بجالاسکتی تھی۔ ہر بات میں اس کی مان سکتی تھی۔

وہ کتنی بے وقوف اور احمق تھی جس آئیڈیل کو پانے کے لیے گھر چھوڑ کر نکلی تھی وہ رشتے کی صورت خود اس کے گھر آیا تھا۔

پاپا نے کتنی بار کہا تھا تم کہو تو میں ملک جہانگیر کی فیملی کو بلواؤں۔ آخری بار اسی بات پہ تو اس کی پپا سے لڑائی ہوئی تھی۔ وہ ملک جہانگیر کو گھر بلوانا چاہ رہے تھے اور وہ گھر چھوڑنا چاہ رہی تھی۔ من پسند مرد اسے کتنی آسانی سے سیدھے راستے سے مل رہا تھا اور وہ بے وقوف ہر آسائش پریوں جیسی زندگی عیش و آرام کو ٹھوکر مار کر گھر سے نکل پڑی تھی۔

اس کا احساس زیاں ختم ہونے میں نہیں آتا تھا اس کے لیے ملک ابیک کا رشتہ آیا تھا۔

وہ ہمیشہ پہلے نمبر پہ رہے گی، وہ خود کو بہلاتی۔ اسے ملک ابیک کو ہر صورت ہر قیمت پہ حاصل کرنا تھا۔ وہ ذیان سے شادی کر کے بھی نامراد رہا تھا۔ پر اس کی نامرادی کی عمارت پہ ہی اپنا خوابوں کا محل تعمیر کرنا تھا۔ اس کی دعا تھی کہ وہ کبھی بھی ذیان کے قریب نہ جاسکے۔

رنم کی حسیات ملک ابیک کے معاملے میں بہت شارپ تھیں۔ اسے پتہ تھا وہ ذیان کی وجہ سے بہت اداس اور اپ سیٹ ہے۔ اس کے دل کو کچھ ہونے لگتا۔ کاش ایک دن ایسا آئے جب ملک ابیک اس کے لیے پریشان ہو۔ اس کے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی۔ کاش کوئی معجزہ رونما ہو اور ملک ابیک اس کا ہوجائے۔ دل میں شور مچاتے جذبوں پہ بند باندھنا اب اس کے لیے ممکن نہیں رہا تھا۔

ساری عمر اس نے من پسند چیزیں حاصل کی تھیں اسے امید تھی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وہ اپنی من پسند مراد آسانی سے پا لے گی۔ کسی طرح بھی اسے ملک ابیک کا مزاج آشنا ہونا تھا اس کا قرب اور اعتبار حاصل کرنا تھا۔ وہ آج کل جن خطوط پہ سوچ رہی تھی اس کی وجہ اس کا نیناں والا راز بہت جلدی افشاء ہونے کا خطرہ تھا کیونکہ اب اسے اپنے جذبات پہ قابو نہیں تھا۔

اس کا دل چاہتا ابیک سے روز ملاقات ہو وہ اسے ڈھیروں باتیں کرے پہروں تکتی رہے۔

ملک محل میں اور نیناں کے روپ میں اس کی خواہش پوری ہونانا ممکن تھا۔ اسے اپنی اصل شخصیت میں رنم کے روپ میں واپس آنا تھا۔ وہ رنم جو احمد سیال کی اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی۔ احمد سیال بزنس ٹائیکون دولت جن کے گھر کی لونڈی تھی۔ وہ اسی احمد سیال جیسے بااختیار شخص کی بیٹی تھی۔ احمد سیال ملک جہانگیر کے گہرے دوست تھے۔ ذیان ملک ابیک کی زندگی سے باہر ہوجاتی تو اسے ملک ابیک کی زندگی میں آنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا تھا۔

وہ آسیب زدہ لڑکی کسی طرح بھی تو ملک ابیک کے قابل نہیں تھی۔

Episode 79 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 79 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

نیناں لڑکیوں کے کام کی نگرانی کر رہی تھی جب دروازے پہ متعین چھوٹی سی لڑکی نے ملک ابیک کے آنے کی اطلاع دی۔یہ نو دس سال کی نامرہ تھی عارفہ کی بیٹی۔عارفہ سات سال پہلے بیوہ ہوگئی تھی۔ ابیک نے اسے سلائی کڑھائی کے اس مرکز میں کینٹین کھولنے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ دوسرے دیہاتوں سے بھی عورتوں نے اس انڈسٹریل ہوم کا رخ کیا تھا۔اب اچھی خاصی تعداد ہوگئی تھی شام میں چھٹی ہوتی تھی۔

صبح سے لے کر شام تک اچھا خاصا وقت ہوجاتا تھا سب کوبھوک بھی لگتی تھی۔

عارفہ چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ گھر کے بنے سموسے اور چائے بھی یہاں فروخت کرتی۔شروع میں ملک ابیک نے ہی تمام چیزوں کے لیے اسے پیسے دئیے تھے۔ اب اس کا کام چل نکلا تھا۔ سکول کی تعمیر کے بعد ملک ابیک نے کینٹین کا ٹھیکہ عارفہ کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔

اپنی بیٹی ناصرہ کو سکول میں داخلہ دلوانے کے خواب اس نے ابھی سے دیکھنے شروع کردئیے تھے۔

وہ گھر کے کام کاج ختم کر کے ناصرہ کو بھی ساتھ لے آتی۔ وہ بہت سمجھدار بچی تھی۔ یہاں کئی ایک کام نمٹا دیتی اس لیے نیناں کو یہاں اس کی موجودگی پہ کوئی اعتراض نہیں تھا۔

نیناں پہ تو جیسے شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی۔ ابیک کو اس نے چار دن سے نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ بہانے سے دوبار ملک جہانگیر کی طرف گئی تھی۔ ملک ابیک گھر پہ نہیں تھا۔

آج وہ خود چل کر آگیا تھا۔ ابیک اس کے آفس میں اسی کا انتظار کر رہا تھا۔

وہ ہواؤں پہ چلتی رقص کرتی جیسے آفس میں آئی۔ اسے دیکھ کر وہ رسمی انداز میں مسکرایا۔ نیناں دوسری کرسی سنبھالے اس کے سامنے بیٹھ گئی۔ ابیک موسم کے حساب سے ہلکی سی ٹی شرٹ اور جینز کی پینٹ میں ملبوس تھا۔ ٹی شرٹ کی آدھی آستینوں سے اس کے مضبوط صحت مند مردانہ بالوں بھرے بازو جھانک رہے تھے۔

اس کے پاس سے سحر انگیز مہک آرہی تھی۔ نیناں کے تو جیسے حواس ہی مختل ہونے لگے۔

”مس نیناں میں دو ماہ کے لیے شہر جارہا ہوں۔ وہاں مجھے اپنے پراجیکٹ پورے کرنے ہیں۔ درمیان میں شاید میں ایک آدھ چکر لگاؤں۔ لیکن شہر میں مجھے کافی زیادہ ٹائم لگ سکتا ہے۔ اس دوران یہاں کی سب ذمہ داری آپ کے سپرد ہوگی۔“ اس کے دو ماہ کے لیے جانے کا سن کر نیناں کا دل اداسی سے بھر گیا اور چہرہ تو ایک دم جیسے اتر گیا تھا۔

”یہ میرا سیل نمبر ہے کوئی بھی پرابلم ہو ضرورت ہو اس نمبر پہ کال کر کے آپ مجھے بتا سکتی ہیں۔“ ابیک نے کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔ کارڈ اس سے لیتے نیناں کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ واضح لرزش ابیک نے بھی محسوس کی۔ ”ٹھیک ہے۔“ وہ مرے مرے انداز میں بولی۔ ایک دم جیسے ہر چیز میں اس کی دلچسپی ختم ہوگئی۔

ابیک جاچکا تھا۔ پر اس کی سحر انگیز خوشبو ابھی تک اس کے حواس پہ سوار تھی۔

وہ پورے دو ماہ کے لیے غائب ہو رہاتھا۔ ان دو ماہ میں وہ اسے دیکھے بغیر کیسے رہ پائے گی۔ اف قیامت در قیامت تھی۔ ”اے اللہ یہ شخص میرا نصیب ہے تو نے اسے ذیان کی جھولی میں کیوں ڈالا ہے وہ ناشکری لڑکی تو کسی طرح بھی ملک ابیک کے قابل نہیں ہے۔“ وہ چھت کی طرف دیکھتے ہوئے خدا سے شکوہ کناں تھی۔

ذیان کو عتیرہ ساتھ لے گئی تھیں، آج پھر اس پہ جن آیا تھا۔

چار نوکر انیوں، عتیرہ اور افشاں بیگم کے قابو کرنے کے باوجود بھی وہ ان کے ہاتھوں سے نکلی جارہی تھی۔ اس نے کمرے میں سخت توڑ پھوڑ مچائی تھی۔ ابیک نیچے بیٹھا سب شورو ہنگامہ سن رہا تھا اور بری طرح کڑھ رہا تھا۔

وہ اوپر جانا چاہ رہا تھا۔ ذیان کے آتم توش سے دو دو ہاتھ کرنا چاہ رہا تھا۔ پر ملک جہانگیر نے سختی سے منع کردیا تھا۔ آج ذیان کا جن کچھ زیادہ ہی غیض و غضب میں بھرا ہوا تھا۔

عتیرہ نیناں کو بھی اپنے ساتھ لائی تھیں۔ ذیان کرسٹل کے تمام ڈیکوریشن پیسز توڑ چکی تھی۔ اس کے بعد اس نے کپڑوں کی الماری کھولی اور ابیک کے تمام کپڑے ایک ایک کر کے باہر پھینکنے شروع کردئیے۔ ”نہیں چھوڑوں گا نہیں چھوڑوں گا جلا کر بھسم کردوں گا۔“

ذیان کے حلق سے غراتی مردانہ آواز برآمد ہو رہی تھی۔ کپڑوں کے بعد ابیک کے قیمتی مردانہ پرفیومز کی باری آئی جو ابیک نیچے لے جانا بھول گیا تھا۔

ایک ایک کر کے ذیان نے تمام پرفیومز کی بوتلیں توڑ ڈالیں۔ کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی جو اسے روکتا۔ ذیان نے ابیک کی تمام ٹائیوں کا ایک گولہ سا بنا کر بیڈ کے نیچے پھینک دیا۔ اس نے ابیک کے کپڑوں پہ اپنے پاؤں مارے۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کپڑوں میں ابیک کا وجود ہو اور آتم توش اسے مسل رہا ہو۔ ذیان اب چیخیں مار رہی تھی بال نوچ رہی تھی اس کی آنکھوں میں غضب کا طوفان جیسے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔

نیناں واحد ہستی تھی جو اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہی تھی۔ اس وقت ملک ابیک سے اس کی ہمدردی عروج پہ تھی اور ذیان کے خلاف دل میں نفرت کا طوفان برپا تھا۔ ارمانوں سے یہ شادی ہوئی تھی اور شادی کے اولین دن سے ہی وہ بدترین عذاب میں گرفتار تھا۔ نیناں کا دل کر رہا تھا ذیان کو مار مار کر اس کا بھرکس نکال دے۔ پر اس حیثیت میں وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی۔

ایسی جسارت کا صرف سوچ سکتی تھی۔ اس کی چھٹی حس بار بار اسے ریڈ سگنل دے رہی تھی۔

بال نوچنے کے بعد ذیان نے بال چہرے کے اطراف بکھرا کے جھومنا شروع کردیا۔ اس کا چہرہ اب مکمل طور پہ بالوں کے گھیرے میں تھا۔

سوائے نیناں کے سب کمرے سے جاچکے تھے۔

وہ ایک کونے میں کھڑی بہت خاموشی سے اور غور سے ذیان کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے اپنے چہرے سے بال پرے کیے اور لمبی سانس لی۔

اب اس کے چہرے پہ کسی بھی قسم کی وحشت نہیں تھی وہ بالکل نارمل خوش باش نظر آرہی تھی۔ نیناں پہ نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھک سی گئی۔ ایسا صرف لمحے بھر کے لیے تھا ذیان نے اس کی سمت خشمگین نگاہوں سے دیکھا۔ ”بھاگ جا یہاں سے۔ جلا کر بھسم کردوں گا۔“ ذیان کے حلق سے آتم توش کی مخصوص آواز برآمد ہوئی۔ نیناں کے لبوں پہ طنزیہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ وہ ذیان کی طرف اپنی نگاہوں سے تکتی باہر جارہی تھی۔

اس کے چہرے پہ وہ کیفیت ہرگز نہیں تھی جو محکوموں کا خاصہ ہوتی ہے۔ بلکہ اس کے تاثرات میں آنکھوں میں ہونٹوں پہ ایک عجیب سی حقارت تھی۔

وہ لبوں سے کچھ نہیں بولی تھی آنکھوں سے سب کچھ جتا دیا تھا۔

ذیان گھٹنوں میں سر دئیے خاموش بیٹھی تھی۔ آتم توش نے اسے تھکا دیا تھا۔

عتیرہ، ذیان کو اپنے ساتھ لے جاچکی تھیں۔ ذیان کے جانے کے بعد ابیک نے اپنے بیڈ روم میں قدم رکھا۔

عنبرلوبان، عود اور اگر بتی کی خوشبوئیں ہر طرف چکرا رہی تھیں۔ بلکہ ان میں اس کے ضائع کیے جانے والے پرفیومز کی مہک بھی الگ سے شناخت کی جارہی تھی۔ اس کا بیڈ روم، بیڈ روم نہیں بلکہ بارونق مزار لگ رہا تھا۔ حالانکہ نوکرانیوں نے ذیان کی کارگزاری کے آثار پوری طرح مٹانے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھنا کر رہ گیا۔ اسی وقت افشاں بیگم سے شکایت کی۔ عامل جلالی باوا کی ہدایت پہ ابیک کے بیڈ روم کا یہ حال ہوا تھا۔

افشاں بیگم نے فوراً صفائی کے لیے تین نوکرانیوں کو ابیک کے کمرے پہ مامور کیا۔ سب سامان سائیڈوں پہ کر کے کمرہ سرف سے مل مل کر دھویا گیا۔ اس کے بعد ڈھیروں ڈھیر ائیر فرشنیئر اسپرے کر کے وہ ناگوار بو ختم کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ابیک کا موڈ خراب ہوا تھا۔ اب اس کا کمرہ واقعی اس کا کمرہ لگ رہا تھا۔ عود عنبر، لوبان اور دیگر عطریات کی حواس طاری تیز خوشبوئیں ختم ہوگئی تھیں۔

اتنے دن سے اس کے اعصاب میں شدید ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی۔ آج قدرے سکون ہوا تھا۔

اس نے وارڈ روب کھول کر اپنا نائیٹ ڈریس نکالنا چاہا۔ مگر خالی الماری اس کا منہ چڑا رہی تھی۔ اسے شدید قسم کا غصہ آیا۔ حالانکہ افشاں بیگم نے اس کا ایک اور شب خوابی کا لباس دھو کر استری کروا کے رکھوا دیا تھا۔ وہ اسے آج کا واقعہ بتا چکی تھیں کہ ذیان کے جن نے تمام کپڑے خراب کردئیے ہیں۔

وارڈ روب کھولتے ہوئے وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ بات بھول ہی گیا تھا کہ عزت مآب آتم توش نے اس کے پہنے جانے والے کپڑوں اور دیگر استعمال کی چیزوں کا ستیاناس کردیا ہے۔ حیرت انگیز طور پہ محترم جن نے ذیان کی کسی بھی چیز کو کوئی ہلکا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ ذیان کا بھاری عروسی سوٹ سلیقے سے تہہ کیا ہوا سب سے اوپری خانے میں پڑا تھا۔ دیگر کپڑوں کا بھی یہی حال تھا۔ ابیک نے اپنا شب خوابی کا لباس باہر نکالنا چاہا اس کے نیچے ذیان کی نائٹی پڑی تھی ابیک کے کپڑوں کے ساتھ وہ بھی باہر نکل آئی۔ اسے دیکھتے ہی ابیک کو اپنے شہید کیے جانے والے ارمانوں کا احساس ہوا۔ اس نے کپڑے نکال کر بیڈ پہ پھینک دئیے۔

Episode 80 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 80 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان اپنے بیڈ روم میں آ کر بالکل پرسکون تھی۔ آزادی اور سرشاری کا انوکھا احساس ہوا تھا۔ وہ شادی کے بعد پہلی مرتبہ یہاں قدم رکھ رہی تھی۔ اس لیے سب کچھ بہت اچھا لگ رہا تھا۔

یہ ویسی ہی خوشی تھی جیسی بیاہتا بیٹی کو شادی کے بعد پہلی بار میکے آ کر ہوتی ہے۔ وہ لاکھ سب کی محبتوں سے منہ موڑتی مگر دل میں پہنچنے والے جذبوں سے دامن نہیں چھڑا سکتی تھی تب ہی تو ملک ارسلان نے گھر آنے پہ میرا بچہ کہہ کر سر پہ ہاتھ پھیرا ماتھا چوما اور فرط محبت سے اپنے ساتھ لگایا تو دل ہی دل میں کنڈلی مارے بیٹھی شرمندگی نے سر اٹھایا۔

پہلی بار بے ریا ہو کر اس نے ان سے باتیں کیں۔ اس کے دل میں کوئی کڑواہٹ نہیں تھی۔ ملک ارسلان سے تو اسے ویسے بھی کوئی شکایت نہیں تھی کوئی تھی بھی تو اس نے اندر ہی دل میں دفن کردی تھی۔

کیونکہ ان کا سلوک اتنا اچھا اور محبت بھرا تھا کہ شکوے شکایتیں مسمار کیے جانے قبرستان میں مدفن ہوتے جارہے تھے۔ وہ اسے ایک بیٹی کی سی ہی اہمیت دیتے تھے۔ ذیان خود ہی ان سے دور دور رہتی لاکھ کوشش کے باوجود بھی ذیان نے انہیں بحیثیت باپ خود سے بے تکلف ہونے کا موقعہ نہ دیا تھا۔

آج جب انہوں نے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا تو اسے رونا آنے لگا۔ اسے پھر امیر علی یاد آگئے تھے اور یہ کیسے ممکن تھا اسے امیر علی کے ساتھ جڑے غم یاد نہ آتے۔ ان غموں کے ساتھ اس کی تکلیف دہ ماضی وابستہ تھا۔ وہ ماضی جسے وہ بھول کر بھی بھول نہ پائی تھی۔ سر جھٹک کر ذیان نے تکلیف دہ یادوں سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی۔ موسم بہت شدت پہ مائل تھا سخت گرمی اور حبس تھا۔

اس نے شب خوابی کا ہلکا پھلکا سا کاٹن کا لباس نکالا اور شاور لینے گئی۔

بال سلجھاتے ہوئے اس نے میوزک سسٹم آن کردیا گانے کے ساتھ ساتھ اس کے لب بھی ہل رہے تھے۔

Give Me SOme Sun Shine

Give Me Some Rain

Give Me Another Chance

Wana Grow Up Once Again

وہ باہر آ کر ٹیرس پہ پڑی کرسی پہ بیٹھ گئی۔ رات کے اس پہر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ گرمی اور گھٹن کا احساس کچھ کم ہوا تھا۔

ملک ابیک نہا کر بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا۔ کمرے کے کھڑکیاں دروازے کھلے تھے اور لائٹیں آف تھیں۔ اچانک ہوا کے دوش پہ کچھ آوازیں اس کی سماعتوں پہ دستک دینے لگیں۔ ابیک نے کروٹ بدلی تو نظر کھلے دروازے سے باہر سامنے والے ٹیرس کی طرف اٹھ گئی۔ ذیان کرسی پہ بیٹھی میوزک سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ رات کے اس سناٹے میں آواز بخوبی ابیک کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔

لگ ہی نہیں رہا تھا یہ وہی ذیان ہے جس پہ آتم توش نامی جن عاشق ہے۔ وہ مکمل ہوش و حواس میں تھی شب خوابی کے ہلکے سے لبادے میں رات کے اس پہر وہ ترشی ہوئی مورت لگ رہی تھی۔ کتنی قریب اور کتنی دور تھی وہ۔ بیوی ہوتے ہوئے بھی میلوں صدیوں کا فاصلے پہ تھی۔ ابیک کو اپنی انگلیوں کے پوروں تلے ذیان کا لمس ابھی بھی تازہ اور آنچ دیتا محسوس ہو رہا تھا۔

اسے نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے اٹھ کر پوری قوت سے کمرے کا دروازہ اور سب کھڑکیاں بند کیں۔ یقینا ذیان نے یہ آوازیں سنی تھیں تب ہی تو اس نے مڑ کر اس طرف دیکھا تھا۔ کھلا دروازہ اور کھڑکیاں سب بند ہوچکے تھے۔ ابیک نے اے سی فل آن کر کے پہنی گئی ہلکی سی شرٹ اتار کر دور پھینک دی تھی۔ ذیان اس ٹائم اس کے سامنے ہوتی تو جانے وہ کیا کر بیٹھتا شاید اس کا گلا ہی دبا دیتا۔

وہ ذیان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ کچھ تو تھا جو اسے محسوس ہوا تھا۔ اس نے سر جھٹکتے ہوئے گویا اس خیال سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی۔

فاصلے کے معنی کا کیوں فریب کھاتے ہو؟؟

جتنے دور جاتے ہو…اتنے پاس آتے ہو

ابیک شہر میں تھا۔ ملک ارسلان اور عتیرہ کے گھر عامل جلالی باوا پوری شان کے ساتھ تشریف فرما چکے تھے۔ ذیان کے جن کو اتارنے کا عمل وہ شروع ہی کیا چاہتے تھے پر عمل کے لیے مطلوبہ اشیاء کی فراہمی کو عتیرہ ممکن نہیں بنا سکی تھیں کیونکہ جن چیزوں کے نام بابا جی نے انہیں بتائے تھے عتیرہ نے کبھی ان کے نام تک نہیں سنے تھے۔

مجبوراً چیزوں کے حصول تک بابا جی کو اپنا عمل موٴخر کرنا پڑا تھا۔ عتیرہ نے انہیں پیسے دے دئیے تھے تاکہ وہ خود ہی سب چیزیں لے آئیں۔ عامل جلالی باوا نے اک شان استغنا سے اس کی سات پشتوں پہ جیسے احسان کرتے ہوئے پیسے لیے تھے۔ عتیرہ قدرے مطمئن ہوگئی تھیں کہ بابا جی خود ہی مطلوبہ اشیاء خرید لیں گے۔ ان کے لیے ملک محل کے الگ تھلگ حصے میں کمرہ مخصوص تھا جہاں رات بھر وہ عمل کرتے۔

اس طرف کسی کو بھی جانے کی اجازت نہ تھی سوائے عتیرہ کے۔ تینوں وقت کا کھانا وہ خود وہاں پہنچاتیں۔ جلالی باوا کمرہ اندر سے لاک رکھتے تھے۔ عتیرہ جب کھانا لاتیں تو ان کی ہدایت پہ دروازہ بجا کر کھانے کے ٹرے وہیں رکھ جاتیں۔ اس کے جانے کے بعد وہ کھانے کی ٹرے اندر لے جاتے۔

کبھی کبھی وہ ذیان کو بھی اپنے حضور طلب کرتے۔ اس موقعہ پہ عتیرہ اس کے ہمراہ ہوتیں، ملک ارسلان پڑھے لکھے روشن خیال انسان تھے۔

انہیں یہ سب پسند نہ تھا۔ پر عتیرہ کی خاطر وہ خاموش تھے۔ پھر انہیں ذیان سے بھی بے پناہ محبت تھی وہ دل سے چاہ رہے تھے کہ ذیان ٹھیک ہو کر ابیک کے ساتھ خوشگوار نارمل زندگی گزارے۔

یہ تب ہی ممکن تھا جب اس کی جان آتم توش سے چھوٹ جاتی اور وہ مکمل طور پہ ٹھیک ہوجاتی۔ جلالی باوا کو چلے کا پہلا حصہ مکمل کیے گیارہ روز ہوچکے تھے۔ یہ ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔

دوسرے حصے کو مکمل کرنے کے لیے انہیں پھر سے کچھ خاص اشیاء کی ضرورت تھی۔ اس بار بھی انہوں نے عتیرہ سے ڈیمانڈ کی۔ پہلے کی طرح وہ ان چیزوں کے نام تک سے ناواقف تھیں۔ لہٰذا انہوں نے بھاری رقم جلالی باوا کے سپرد کی۔

جلالی باوا کا مرید مطلوبہ اشیاء لاچکا تھا۔ اب انہیں چلے کا دوسرا عمل شروع کرنا تھا۔

اس عمل کے دو ران ذیان کو ان کے سامنے رہنا تھا۔

یہ پوری رات کا عمل تھا۔ عتیرہ اسے اپنے ساتھ بابا جی کے پاس لے گئی تھی۔ عامل جلالی باوا لمبا سا چغہ پہنے آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ ”بی بی تم جاؤ اور بیٹی کو ہمارے پاس چھوڑ جاؤ۔ یہ ہماری پناہ میں رہے گی۔ یہ بہت ضروری ہے ورنہ جن اتارنا اور نکالنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ عامل جلالی باوا اپنے مخصوص جلالی انداز میں بول رہے تھے۔ عتیرہ کبھی انہیں اور کبھی ذیان کو دیکھ رہی تھی۔

عامل جلالی باوا کی بالشت بھر لمبی داڑھی میں سفید بال بھی جھانک رہے تھے۔ سر کے لمبے بالوں کے گرد انہوں نے ہرے رنگ کی پگڑی لپیٹ رکھی تھی۔ سرخ و سفید چہرے پہ موٹی موٹی سرخ ڈوروں والی آنکھیں سجی تھیں۔ مجموعی طور پہ ان کی شخصیت میں بے پناہ رعب داب تھا ان کے حکم سے سرتابی نہیں کی جاسکتی تھی۔ آنکھوں میں ایسی خطرناک مقناطیسی چمک تھی کہ تاب لانا مشکل تھا۔

کوئی بات ان میں ایسی ضرور تھی کہ ان پہ اعتبار کیا جاسکتا تھا۔ آخر کو وہ روحانی بزرگ تھے ان کے سینکڑوں مرید اور عقیدت مند تھے۔ عتیرہ ان کے بارے میں ایسا ویسا خیال بھی دل میں نہ لانا چاہ رہی تھی۔ لہٰذا ذیان کو عامل جلالی باوا کے پاس چھوڑ کر وہ واپس آگئی جہاں ارسلان سونے کے لیے لیٹ چکے تھے۔

رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔

ملک ابیک کی گاڑی ملک محل کے بلند و بالا گیٹ کے سامنے رکی۔ گارڈ نے موٴدب انداز میں سلام کرتے ہوئے گیٹ کھولا۔

ملک جہانگیر اور افشاں بیگم اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس نے تو دو ماہ بعد آنے کا کہا تھا لیکن بارہویں دن ہی چلا آیا تھا۔ ابیک اپنے پراجیکٹ کی ضروری فائل گھر پہ ہی بھول گیا تھا۔ اسے وہ فائل چاہیے تھی اس لیے وہ اس طرح اچانک بغیر اطلاع دئیے گھر آیا تھا۔

کھانا کھا کر وہ اوپر اپنے بیڈ روم میں آیا تو غیر ارادی طور پہ سامنے والے ٹیرس کی طرف نگاہ اٹھ گئی۔ وہ جگہ آج خالی خالی تھی۔ کرسی بھی ایسے ہی پڑی تھی۔ کمرے کا دروازہ بھی نیم وا نظر آرہا تھا اور سب لائٹیں بھی بند تھیں۔ حالانکہ ابھی اتنا ٹائم نہیں ہوا تھا۔ مختصر سی جان پہچان میں وہ جان گیا تھا کہ ذیان اتنا جلدی سونے کی عادی نہیں ہے سونے سے پہلے وہ کچھ نہ کچھ پڑھتی تھی ساتھ میوزک لگائے رکھتی۔

ابیک کا اندازہ تھا وہ نیچے ہوگی۔

وہ دیوار پہ بازو ٹکا کر کھڑا ہوگیا۔ ذیان اوپر آتی تو فوراً اس کی نگاہوں کی زد میں آتی۔ ساتھ وہ اس کا رد عمل دیکھنا چاہ رہا تھا کہ اسے رات کے اس وقت اچانک دیکھ کر وہ کیسا ری ایکشن ظاہر کرتی ہے۔ وہ ایسے رخ پہ تھا کہ ذیان اور وہ دونوں آمنا سامنا ہونے پہ ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔

ابیک آدھا گھنٹہ وہاں اس کے انتظار میں کھڑا رہا۔

پر اس کے آنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ مایوس ہو کر وہ بیڈ روم میں آگیا۔ اگلے تیس منٹ کے دوران وہ سونے کے لیے لیٹ چکا تھا۔ وہ غیر شعوری طور پہ ابھی بھی ذیان کا منتظر تھا۔ نظریں اور سماعتیں اسی طرف لگی تھیں۔

ملک محل کے مغربی حصے کی طرف کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی۔ نیناں کو فریدہ نے بتایا تھا کہ کوئی پیر سائیں ذیان بی بی کا علاج کرنے اس کا جن اتارنے آئے ہوئے ہیں۔

پھر اس نے کتنی بار عتیرہ بیگم کو خود ٹرے میں اس طرف کھانا لے جاتے دیکھا تھا۔ اتفاقی طور پہ ہی نیناں نے اس طرف عتیرہ اور ذیان کو بھی جاتے دیکھا تھا۔ بڑی پراسرار سی سرگرمیاں جاری تھیں۔ ایک دوبار وہ مغربی حصے کی دیوار کی طرف گئی اور پھر لوٹ آئی۔ کسی کو پتہ چلتا اور وہ عتیرہ بیگم یا ملک ارسلان کو بتاتا تو یقینا انہیں برا لگتا۔ کیونکہ انہوں نے اس طرف جانے سے سب کو منع کردیا تھا۔

ذہن سے سب کچھ جھٹک کر وہ لیٹ گئی۔

ملک ابیک چھن سے تصور کے پردوں پہ اتر آیا۔ ایسے لگ رہا تھا ابیک کو دیکھے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں۔ ابیک کو دیکھنا سوچنا اور پھر سوچتے چلے جانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ نیناں کا دل کر رہا تھا ابیک سے بات کرے اس کی آواز سنے۔ ایک دو بار اس نے فون اٹھایا مگر پھر رکھ دیا۔ ابھی وہ فون کرتی تو جانے وہ اس کا کیا مطلب اخذ کرتا۔

یہ مناسب وقت نہیں تھا۔ ابیک کو فون کرنے کے لیے اسے رنم کی شخصیت کی ضرورت تھی۔

نیناں تو ملک محل میں رہنے والی ایک عام سی بے سہارا لڑکی تھی۔ ابیک تک اس پہ تر س کھاتا تھا۔ تب ہی تو سلائی کڑھائی کے مرکز کا اسے انچارج بنایا تھا۔ اس میں اور عارفہ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ عارفہ پہ بھی تو ترس اور رحم کھاتے ہوئے ابیک نے کینٹین کا ٹھیکا اسے دینے کا وعدہ کیا تھا۔

وہ اس کی مالی مدد بھی کرتا تھا۔ وہ نیناں کو بھی مہینے کے اختتام پہ تنخواہ دیتا۔ ادھر افشاں بیگم نے بھی بیٹے کی شادی پہ اسے ترس کھا کر بہت قیمتی سوٹ بنوا کر دئیے تھے۔

عتیرہ بیگم اور ملک ارسلان اسے ترس کھا کر ہی تو اپنے ساتھ ملک محل لائے تھے۔ احمد سیال کا گھر چھوڑتے ہی وہ”قابل رحم“ بن گئی تھی حقیر سی مخلوق۔ سب عزت دم خم تو پپا کے حوالے سے تھا۔ ان کے بغیر ان کے نام کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں تھی۔ احمد سیال کا نام تو اس کے لیے Magic Key تھا ہر دروازہ کھلتا چلا جاتا۔ ملک ابیک کو پانے کے لیے اسے احمد سیال نامی Magic Key چاہیے تھی۔

Episode 81 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 81 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

عامل جلالی باوا کے کمرے میں ان کے سامنے ذیان بیٹھی تھی۔ عتیرہ کو وہاں سے گئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ بابا جی ذیان کے ساتھ اکیلے تھے۔

ذیان کو وہ اپنی مقناطیسی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے وہ بہت مشکل سے ان کی نگاہوں کو ذہن و نظر سے جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی ان کی پرکشش پراسرار نگاہیں جیسے اس کے اندر چھپے رازوں بھیدوں کوٹٹول رہی تھیں۔ ”اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے لڑکی۔

“ بابا جی گونجدار لیکن آہستہ آہستہ آواز میں مخاطب ہوئے۔ ذیان نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ”لڑکی میں تجھ سے کہہ رہا ہوں کہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے۔“ اس بار وہ قدرے تحکم آمیز انداز میں گویا ہوئے۔ ذیان نے اپنی سب ہمتوں کو جمع کرتے ہوئے عامل جلالی باوا کی نگاہوں کو ذہن سے پرے جھٹکا۔اب وہ پلک تک جھپکائے بغیر ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔

عامل جلالی بابا سے وہ ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوئی تھی۔

کم سے کم اس کا اعتماد یہی بتا رہا تھا۔

”بہت طاقت ہے تجھ میں۔بہت گھمنڈ ہے تجھے خود پہ۔ تیری ساری طاقت کو پھونک مار کر خاک میں ملا دوں گا۔“ ذیان کی مسلسل ہٹ دھرمی پہ بابا جی کو غصہ آگیا تھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑنے کی کوشش کی پر وہ پھرتی سے فوراً پرے ہوگئی۔ عامل جلالی باوا کی آنکھیں شدت غضب سے لال ہو کر دہک اٹھیں۔

وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہے تھے۔

اور مسلسل ذیان پہ پھونک مار رہے تھے۔ کوئلوں والی انگیٹھی سخت گرمی میں بھی دہک رہی تھی اور وہ انگاروں پہ مٹھی بھر بھر کر کچھ ڈال رہے تھے۔ حیرت کی بات تھی اس گرم موسم کے باوجود وہ حرارت بری نہیں لگ رہی تھی کمرے میں اے سی بھی چل رہا تھا۔ اور عجیب بے خود کردینے والی مہک پھیلی ہوئی تھی۔ عامل جلالی باوا انگاروں پہ مٹھی بھر بھر کر جو کچھ ڈال رہے تھے یہ مہک اسی کی مرہون منت تھی۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ ذیان اپنے آپ میں عجیب سی بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ اسے سخت گرمی محسوس ہو رہی تھی دل چاہ رہا تھا دوپٹہ اتار کر پرے پھینک دے۔ بابا جی نے اپنے سامان سے سیال مادے سے بھری بوتل نکالی اور اپنے منہ سے لگا کر چند گھونٹ لیے۔ وہی بوتل انہوں نے ذیان کی طرف بڑھائی۔ ”لے پی لے آسمانوں میں اڑے گی لال پری بن کر۔

“ بابا جی نے بوتل ذیان کی طرف بڑھائی۔ انہیں پورا یقین تھا اب وہ کسی صورت بھی انکار نہیں کرے گی۔ عامل جلالی باوا کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ ذیان نے بوتل ان کے ہاتھ سے لے لی تھی اگلے ہی لمحے ذیان نے ہاتھ میں تھامی بوتل لے کر زمین پہ پٹخ دی۔ اور مڑ کر زناٹے دار تھپڑ عامل جلالی باوا کے منہ پہ رسید کیا۔ سیال مادہ بوتل سے بہہ نکلا۔ جلالی باوا نے اس موقعے پہ اپنے حواس سلامت رکھے اور سیال مادہ تولیے سے فوراً صاف کیا جو اچھا خاصا کارپٹ میں جذب ہوگیا تھا انہوں نے کوئلوں والی انگیٹھی سے کچھ کوئلے وہاں الٹ دئیے گیلے کارپٹ سے دھواں اٹھنے لگا اور ذیان نے چیخیں مارنا شروع کردیں۔

 بھیانک چیخوں کے سلسلے نے سوئے ہوئے افراد کو یکایک ہی جاگ کر بدحواس ہونے پہ مجبور کردیا۔ سب سے پہلے ابیک کی آنکھ کھلی وہ ویسے بھی کچی نیند میں تھا۔ ذیان کی آواز اس نے فوراً پہچان لی۔ نائیٹ شرٹ کے بٹن عجلت میں لگاتا وہ بھاگ کر چیخوں کے منبع تک پہنچا پھر عتیرہ، ملک ارسلان ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور نیناں سب ہی عامل جلالی باوا کے کمرہ خاص میں آموجود ہوئے۔

بکھرے بالوں سرخ آنکھوں والے ابیک کو دیکھتے ہی ذیان کا جسم لرزنا شروع ہوگیا۔ اس کے ہاتھ پاؤں مڑ چکے تھے”ماردوں گا بھسم کردوں گا“ آتم توش اپنی خوفناک آواز میں دھاڑ رہاتھا۔ عامل جلالی باوا پہلے ذیان کے چیخنے کی وجہ سے کافی پریشان نظر آرہے تھے اب کافی سے بھی زیادہ اطمینان محسوس کر رہے تھے۔ ”لڑکی کا جن کافی خطرناک ہے اس نے عمل کے دوران مجھ پہ حملہ کرنے کی کوشش کی ہے میں نے اپنے وار سے اس حملے کو ناکام بنا دیا ہے ناکامی نے آتم توش کو آگ بگولہ کردیا ہے اس وجہ سے یہ شور کر رہا ہے۔

اب یہ پھر میری جان لینے کی کوشش کرسکتا ہے۔ آتم توش بہت طاقتور ہے۔“ جلالی باوا نے صورت حال کی سنگینی و سفاکی ان سب کے سامنے بیان کی۔

نیناں سب سے پیچھے کھڑی ذیان کو عجیب سے انداز میں دیکھ رہی تھی۔ ذیان کے اس عمل کے درپردہ محرکات کو اس کی چھٹی حس کا فی حد تک محسوس کر چکی تھی۔ اس کا دل کر رہا تھا ذیان کا منہ تھپڑوں سے لال کردے۔ یہ آسیب زدہ جن زدہ ڈرامے باز لڑکی ابیک کو کیسی کیسی ذہنی و جذباتی اذیت سے دو چار کر رہی تھی۔

افشاں بیگم اور ملک جہانگیر کے علم میں تھا کہ عامل جلالی باوا ذیان کا علاج کر رہے ہیں مگر ابیک کو یہ بات ابھی ابھی معلوم ہوئی تھی۔ وہ غصے سے پلٹ کر واپس چلا آیا۔ نیناں نے اس کی نگاہوں میں واضح غصہ کرب اور پریشانی کی تحریر پڑھ لی تھی۔ یقینا اس نے بہت مشکل سے اپنے اعصاب پہ قابو پایا تھا۔ جلالی باوا کے کہنے پہ ذیان کو وہاں سے لے جایا گیا۔

ابیک کے اچانک چلے جانے کو سب نے محسوس کیا۔ عتیرہ پریشان نظر آرہی تھی۔ جلالی باوا کی ہدایت پہ انہوں نے ابیک کو نہیں بتایا تھا اور اس سے رازداری برتی تھی یہی بات اس کی خفگی اور ناراضگی کا باعث بنی تھی۔

وہ اگلے دن صبح و سویرے ہی شہر واپس چلا گیا جہاں بہت سے کام پہلے ہی اس کے منتظر تھے۔

اس نے افشاں بیگم، عتیرہ چچی اور کسی فرد سے بھی ذیان کے علاج کے سلسلے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔

جاتے وقت وہ بالکل نارمل تھا۔

نیناں خراماں خراماں چلتی گیٹ سے باہر نکلی۔ آج اس کی آنکھ خاصی دیر سے کھلی تھی۔

رات ذیان والے واقعے کی وجہ سے وہ بہت دیر سے سوئی نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ اس لیے جاگنے میں بھی وہ اپنے معمول پہ کار بند نہ رہ پائی تھی۔ اچھی خاصی دیر ہوچکی تھی۔ اس وقت تک تو وہ سلائی کڑھائی کے مرکز کے آفس میں بیٹھی ہوتی تھی۔

ناشتہ کیے بغیر وہ تیار ہوئی۔ گیٹ سے باہر گارڈ ایک نوجوان کے ساتھ باتیں کر رہاتھا۔ ”مجھے فوری طور پہ ذیان سے ملنا ہے، آپ مجھے اندر جانے دیں۔ ”نوجوان کا انداز بے حد لجاجت بھرا اور التجائیہ تھا۔ نیناں کے قدم وہیں رک گئے۔ وہ غور سے نووارد کو دیکھنے لگی۔ پینٹ شرٹ میں ملبوس وہ نوجوان خاصا معقول اور مہذب نظر آرہا تھا لیکن نیناں نے پہلے اسے کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔

گارڈ اسے اندر لے جانے میں متامل نظر آرہا تھا۔ ملک ارسلان کی طرف سے کسی اجنبی کے لیے ملک محل کا گیٹ کھولنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے گارڈ پس و پیش کر رہا تھا پر وہ نوجوان بار بار بے تکلفی سے ذیان کا نام لے رہا تھا یہ بات نیناں کو چونکانے کا باعث بن رہی تھی۔

ملک ابیک تو صبح سویرے ہی شہر کے لیے نکل چکا تھا ورنہ وہ اس نوارد کو ملک ابیک سے ملنے کا مشورہ دیتی وہ ذیان کا شوہر اس کا جملہ حقوق کا مالک تھا ایک اجنبی نوجوان کے منہ سے ذیان کا نام سن کر جانے وہ کیا محسوس کرتا۔

”ملک صاحب کی طرف سے کسی اجنبی کو حویلی میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔“ گارڈ کا لہجہ بدستور سخت تھا۔ ”ذیان میری خالہ کی بیٹی ہے میری منگیتر ہے۔“ آخر مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ کیوں مجھے ملنے سے روکا جارہا ہے۔“ نوارد جو کہ وہاب کے سوا کوئی بھی نہیں تھا جھنجھلا سا گیا۔

”خدا بخش گیٹ کھولو میں خود ان کو اندر لے کر جاتی ہوں۔

“ وہ یکدم اضطراری انداز میں بولی۔ ”لیکن ملک صاحب ناراض تو نہیں ہوں گے…“ گارڈ ابھی تک تذبذب میں تھا۔

”نہیں ناراض ہوتے میں خود اس کی ذمہ داری لیتی ہوں۔“ نیناں نے وہاب کی طرف اشارہ کیا تو ناچار اس نے گیٹ کھول کر وہاب کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔ اس کی گاڑی پاس ہی کھڑی تھی مگر اس نے ایسے ہی اندر جانے کو ترجیح دی۔ یہ لڑکی تو اس کے لیے فرشتہ رحمت بن کر آئی تھی ورنہ گارڈ سے پچھلے آدھے گھنٹے سے وہ بحث کر رہا تھا اور خدا بخش کسی صورت بھی گیٹ کھولنے کے لیے تیار نہیں تھا حالانکہ وہاب بار بار ذیان کا حوالہ دے رہا تھا پر خدا بخش کا دل اس کی بات ماننے کی لیے آمادہ نہیں تھا۔

وہاب تو قریب قریب مایوس ہی ہوچکا تھا جب یہ لڑکی باہر نکلی۔ اب وہ اس کی معیت میں ملک محل کے اندر داخل ہورہا تھا۔

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا وہاب ادھر ادھر دیکھتا دل ہی دل میں خاصا مرعوب ہوچکا تھا۔ ملک محل کی شان و شوکت کا رعب اس پہ طاری ہوچکا تھا۔

”کون ہو تم کہاں سے آئے ہو اور ذیان سے کیا رشتہ ہے تمہارا؟“ نیناں نے چلتے چلتے اس سے پوچھا۔

”میرا نام وہاب ہے اور ذیان میری خالہ کی بیٹی ہے منگیتر ہے میری۔“ وہ پورے اعتماد سے بولا۔ نیناں نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔ اس کی معلومات کے مطابق عتیرہ کی کوئی بہن یا عزیز رشتہ دار نہیں تھا جبکہ وہاب نامی یہ نوجوان ذیان کو خالہ کی بیٹی بتا رہا تھا۔

”ذیان کی تو شادی ہوچکی ہے ملک ابیک کے ساتھ اس حویلی کے مالک کے ساتھ۔“ نیناں نے انکشاف کرتے ہوئے بغور اس کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھے۔

وہ ایکدم یوں اچھلا جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ ”یہ کیسے ممکن ہے ہو ہی نہیں سکتا میں اور ذیان ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں وہ بھلا کسی اور سے کیسے شادی کرسکتی ہے۔“ وہ سر جھٹکتے ہوئے بول رہا تھا۔ اس دوران وہ دونوں ڈرائنگ روم میں پہنچ گئے۔ نیناں اسے بٹھانے کے بعد عتیرہ بیگم کو اطلاع کرنے چلی گئی۔

Episode 82 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 82 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہاب ڈرائنگ روم میں سجے قیمتی فرنیچر کا جائزہ لینے میں مصروف تھا جب عتیرہ اندر داخل ہوئیں۔ وہاب انہیں دیکھتے ہی بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ موسم کے لحاظ سے سکن کلر کے سوتی کپڑوں میں ملبوس چادر لیے وہ بے انتہا بارعب اور خوبصورت نظر آرہی تھیں ان کے نقوش میں نمایاں طور پہ ذیان کی جھلک موجود تھی۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

نیناں صوفے کے پیچھے کھڑی باری باری ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ ”کون ہو تم اور کس لیے یہاں آئے ہو؟“ ان کی شخصیت کی طرح آواز میں بھی عجیب سا وقار اور نرمی تھی۔ ”میرا نام وہاب ہے ذیان سے ملنے آیا ہوں۔“ وہاب نے اعتماد کی کمزور پڑتی ڈور کو مضبوطی سے تھامنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ عتیرہ کے ماتھے پہ ناگواری کی شکنیں ظاہر ہوئیں جیسے انہیں اس کے منہ سے ذیان کا نام سننا اچھا نہ لگا ہو۔

”تم ہو کون کیا رشتہ ہے تمہارا ذیان سے۔“ ”ذیان میری خالہ زرینہ امیر علی کی بیٹی ہے میری منگیتر ہے پچھلے چند ماہ میں، میں ذیان کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا ہوں۔ خالہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہیں اور ذیان بھی۔ اس لیے مجھے بتائے بغیر یہاں آپ کے پاس چلی آئی ہے۔ آپ مجھے اس سے ملوا دیں میں بہت پریشان ہوں۔“ وہاب کے لہجہ میں پریشانی اور اعتماد تھا۔

عتیرہ الجھی نگاہوں سے اسے تکنے لگی۔ بوا رحمت نے ہی صغریٰ اور نواز کی معرفت ان سے رابطہ کیا تھا۔ پھر عتیرہ کی خود بوا رحمت سے بات ہوئی انہوں نے امیر علی کے انتقال اور ذیان کی مشکلات کے حوالے سے کھل کر بات کی تھی ذیان کو فوراً یہاں سے لے جانے کی درخواست کی تھی اور اب یہ وہاب جانے کیوں اس کی پرسکون زندگی میں ہلچل مچانے آیا تھا۔ عتیرہ کی سوچ تیزی سے کام کر رہی تھی۔

اس دوران انہیں نیناں کی یہاں موجودگی کا دھیان ہی نہیں رہا تھا۔ وہ تجسس آمیز دلچسپی سے وہاب کی سب باتیں سن رہی تھی۔

”ذیان کی شادی ہوگئی ہے اور بوا مجھے سب حالات سے آگاہ کرچکی ہیں۔ میں بہت نرمی سے بات کر رہی ہوں۔ عزت سے واپس چلے جاؤ اور آئندہ تمہاری زبان پہ میری بیٹی کا نام نہیں آنا چاہیے۔“ یہ کہتے ہی عتیرہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئیں۔

صد شکر اس وقت حویلی میں ملک جہانگیر، ملک ارسلان یا ملک ابیک میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

عتیرہ دروازے کی طرف مڑیں۔ نیناں کو وہاں دیکھ کر انہیں پہلی بار اس پہ غصہ آیا مگر وہ مصلحتاً پی گئیں۔ ”انہیں باہر کا راستہ دکھاؤ۔“ وہ تحکم آمیز لہجے میں بولتیں ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئیں۔

نیناں نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ گیٹ تک پہنچتے پہنچتے اس میں اور وہاب میں بہت سی معلومات کا تبادلہ ہوچکا تھا۔

خاص طور پہ یہ معلومات نیناں کے لیے بہت مفید تھیں۔

گھر لوٹتے ہی ملک ارسلان کو کسی غیر معمولی تبدیلی کا احساس ہوا۔ کیونکہ عتیرہ کے چہرے پہ بے پناہ پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ ”کیا بات ہوئی ہے میرے پیچھے۔ میں تمہیں اچھا خاصا چھوڑ کر گیا تھا صبح؟“ ”واقعی میں بے حد پریشان ہوں آج وہاب آیا تھا ذیان سے ملنے۔“ وہ دونوں ہاتھ مسل رہی تھیں۔

”کون وہاب؟“ فوری طور پہ ملک ارسلان کو یادداشت کا خانہ کھنگالنے کے باوجود بھی وہاب نامی شخص یاد نہ آسکا۔ ”آپ کو سب بتایا تو تھا میں نے جب ذیان کو آپ خود جا کر لائے تھے۔ بوا رحمت نے مجھے وہاں کے سب حالات بتائے تھے صغریٰ اور نواز بھی آ کر ہم سے ملے تھے آپ کو یاد نہیں ہے؟“ وہ اچھنبے سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ ارسلان کو فوری طور پہ سب یاد آگیا۔

وہاب وہی نوجوان تھا جو اپنے سگے باپ کے گھر میں کرب برداشت کرتی ذیان کا امیدوار تھا اس کی نیت میں کھوٹ تھا اس نے ذیان کو دست درازی کے ذریعے نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔

عتیرہ نے ایک ایک بات ملک ارسلان کو بتائی تھی۔ وہ اس کے دکھ میں برابر کے شریک تھے اور ذیان کے لیے ایک باپ جیسے جذبات ہی اپنے دل میں رکھتے تھے۔ قدرتی طور پہ انہیں اس واقعے پہ افسوس تھا جس کے بعد ذیان ملک محل میں آئی تھی۔

یہ واقعہ ہی ذیان کی ملک محل میں آمد کا سبب بنا تھا ورنہ وہ تو سگی ماں کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتی تھی۔

”وہ کیوں آیا تھا یہاں۔ کس نے بتایا اسے یہاں کا؟“ملک ارسلان اضطراری انداز میں گویا ہوئے۔

”مجھے نہیں پتہ۔ ذیان کی شادی کا دعوت نامہ دینے جب میں شہر گئی تھی تو وہاں سے بوا رحمت کہیں اور جاچکی تھیں۔“ عتیرہ نے دانستہ زرینہ بیگم کی فیملی کا نام لینے سے احتراز کیا تھا۔

”ذیان نے سب کے نمبر پہ بہت بار رابطہ کرنے کی کوشش کی پر ناکامی ہوئی اسے۔اب وہاب کہہ رہا ہے کہ میں پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا ہوں خالہ بھی مجھ سے ناراض ہوگئی ہیں وہ ذیان سے ملنے اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔میری بیٹی پہلے ہی ان کے ہاتھوں دکھی ہے اب وہ یہاں بھی پہنچ گیا ہے۔جہانگیر بھائی اور ابیک کو ذیان کے گزشتہ معاملات پتہ نہیں ہیں اس لیے مجھے عجیب سا ڈر لگ رہا ہے۔

میں نے وہاب کو فوراً یہاں سے چلتا کیا ہے اگر اس کی ملاقات میری جگہ جہانگیر بھائی، افشاں بھابھی یا ابیک سے ہوجاتی تو کیا ہوتا۔ وہ کیا سوچتے ذیان کے بارے میں۔ کیونکہ وہ اس کے ماضی سے آگاہ نہیں ہیں اس کی مشکلات کا انہیں اندازہ نہیں ہے جو اپنے سگے باپ کے پاس رہتے ہوئے اس نے برداشت کی ہیں۔ میں پہلے ہی کرائسس میں ہوں ملک صاحب!! ذیان کا علاج کر رہے ہیں جلالی باوا۔

اس مرحلے پہ وہاب والی بات کھلتی تو سوچیں کیا ہوگا۔“

عتیرہ رو دینے کو تھیں۔ ”سب سے پہلے تم یہ غلط فہمی دور کرلو کہ ذیان صرف تمہاری بیٹی ہے۔ وہ اب ہماری بیٹی ہے۔ تمہیں کتنی بار کہا ہے خود کو مجھ سے الگ مت کیا کرو نہ سمجھا کرو۔ ہمارے دکھ سکھ ایک ہی ہیں خوشیاں سانجھی ہیں۔رہی بات ذیان کی تو میں اس کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دوں گا۔

مجھے اپنی بیٹی پہ تم پہ پورا یقین ہے۔“ انہوں نے عتیرہ کا ہاتھ تھپکا۔

 ”کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ فرشتہ ہیں بھول کر ہماری دنیا میں آگئے ہیں۔ آپ کو اللہ نے میرے دُکھوں کی دوا بنا کر اتارا ہے زمین پر۔ آپ نہ ہوتے جانے ہمارا کیا ہوتا۔“ ”میں محبت نہیں عشق کرتا ہوں تم سے۔ اب ہماری بیٹی بھی اس محبت کا اس عشق کا مرکز ہے اس لیے خود کو اکیلا مت سمجھا کرو۔

ابھی میں زندہ ہوں۔ دیکھ لوں گا سب۔“ ملک ارسلان کا تسلی آمیز لہجہ عتیرہ کو پرسکون کر رہا تھا۔

 ”جب وہ لڑکا آیا تھا تم مجھے انفارم کر دیتی میں گھر آتا خود ملتا اس سے۔“ ”مجھے اس کی تیوروں سے لگتا ہے وہ ہماری ذیان کی زندگی کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کرے گا۔ بوا رحمت نے ایک ایک بات بتائی تھی مجھے۔ جانے کیوں پہلے یہ سب میرے دھیان میں کیوں نہیں آئیں۔

اب تو جانے بوا کہاں ہیں کیوں وہ گھر چھوڑ کر گئی ہیں۔“ عتیرہ کا لہجہ خدشات سے بھرپور تھا۔ ”تم زیادہ مت سوچو وقت آنے پہ دیکھا جائے گا۔“ آپ بوا رحمت کا پتہ چلانے کی کوشش کریں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ اس لڑکے نے انہیں خود ہی کہیں غائب کر دیا ہو؟“ عتیرہ کی ذہنی رو اس طرف چل پڑی تھی۔ ”میں کرتا ہوں کچھ۔“ ”ذیان بوا رحمت سے بہت اٹیچ ہے اور دل ہی دل میں کافی پریشان بھی ہے وہ شادی میں بھی تو شریک نہیں ہوئیں ہیں۔

آپ بوا رحمت کو تلاش کرنے کی کوشش کریں یہ آپ کا میری ذات پہ ایک اور احسان ہوگا۔ کیونکہ بوا کے مجھ پہ بہت احسانات ہیں۔ میں ان احسانات کا بدلہ چکانا چاہتی ہوں۔“ وہ لجاجت سے گویا ہوئیں۔ ”بیگم صاحبہ آپ کا حکم۔ بندا انکار کی جرأت نہیں کرسکتا۔“ وہ انہیں ٹینشن سے نکالنے کے لیے قصداً ہلکے پھلکے انداز میں بولے۔ وہ اس میں کامیاب رہے۔ کیونکہ عتیرہ مسکرا رہی تھیں۔

وہاب نیناں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔

نیناں انڈسٹریل ہوم میں تھی۔ ملک محل میں تو وہاب سے ملاقات کرنا مشکل تھا اس لیے اس نے وہاب کو یہاں بلوایا تھا۔ وہ جس طرح مایوس و ناکام ہو کر ملک محل سے نکلا تھا اس کے بعد نیناں سے ملاقات اس کے لیے امیدوں کا مرکز ثابت ہوئی تھی۔ نیناں اسے کرید کرید کر ذیان، امیر علی، زرینہ بیگم اور اس کے بارے میں سوال کر رہی تھی۔

وہاب نے بڑی تفصیل سے ذیان کی گزشتہ زندگی کے ابواب ایک ایک کر کے اس کے سامنے کھولے تھے۔ نیناں کو ذیان کے بارے میں کارآمد معلومات حاصل ہوئی تھی۔ وہاب سے ملاقات خاصی سود مند ثابت ہوئی تھی۔

”ذیان اور میں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں۔ میری خالہ نے ہمارے بیچ غلط فہمیوں کی دیوار کھڑی کی ہے ایک سازش کے تحت خالہ نے ذیان کو یہاں بھیجا ہے اس کے بعد بوا رحمت کے ساتھ خود بھی روپوش ہوگئی ہیں۔

میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں۔ ذیان کو جب یہاں بھیجا گیا تو تب ہماری شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ لیکن خالہ نے جانے کون سی دشمنی نکالی ہے۔ ذیان کو چپ چپاتے یہاں بھیجا ہے۔

اور جانے کون کون سی جھوٹی سچی کہانیاں سنائی ہیں کہ سب نے یقین کرلیا ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے میری منگیتر کی شادی زبردستی میرے علم میں لائے بغیر کی گئی۔ میں آرام سے نہیں بیٹھوں گا۔

امیر خالو کی مرضی سے سب کچھ ہوا تھا۔ دھوم دھوم سے منگنی ہوئی تھی ہم دونوں کی۔“ وہاب نے پوری طرح نیناں کا اعتماد حاصل کرلیا تھا۔

”میں تمہاری پوری پوری مدد کروں گی۔ پر اس کے لیے تمہیں میری ہدایات پہ عمل کرنا ہوگا۔“

”ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ ذیان کو حاصل کرنے کے لیے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ “ وہ جوش سے بولا۔ ”اب تم جاؤ کل اسی وقت ہم یہاں سے شہر کے لیے روانہ ہوں گے۔

ہم دونوں بہتر طور پہ ایک دوسرے کے کام آسکتے ہیں۔ تمہاری ذیان اور میرا ابیک مجھے مل جائے گا۔“ آخری جملہ نیناں نے دل میں کہا۔

وہاب نے تو اس کی ساری پرابلمز ہی حل کردی تھیں۔ ورنہ ابیک کا حصول اسے دنیا کا ناممکن ترین کام لگ رہا تھا۔ اندرونی ہیجان اور اضطراب سے اس کی رنگت سرخ ہو رہی تھی۔ جانے سے پہلے اسے ابیک کو کال کرنی تھی۔ آخر کو اسے وہاب کی آمد کی اطلاع دینی تھی۔

اس کے بعد ملک محل میں رکنا تھا۔ اسے اب ایک نئے نام اور نئے چہرے کے ساتھ ملک ابیک سے ملنا تھا۔ نیناں نامی شخصیت کے ساتھ وہ ابیک کو حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا حصول دشوار تھا۔ ہاں رنم کو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا تھا۔ رنم جو خوبصورت، دلکش، حسین تھی دولت مند تھی۔ اسے کوئی کافر ہی انکار کرسکتا تھا۔اسے اب واپس احمد سیال کے پا س جانا تھا۔

Episode 83 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 83 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

جلالی باوا ذیان کے علاج کے لیے کامیابی سے چلہ کاٹ رہے تھے۔ ابیک کے جانے کے بعد سے لے کر اب تک ذیان بالکل ٹھیک رہی تھی۔ عمل کے دوران جلالی باوا نے اپنے معمول میں تبدیلی کی تھی۔ تھپڑ کھانے کے بعد انہوں نے دوبارہ ذیان کو اکیلے میں اپنے پاس نہیں بلایا تھا۔ ذیان سے تھپڑ کھانے والی بات انہوں نے خود تک ہی محدود رکھی تھی۔ چلے کا دوسرا دور مکمل ہونے پہ جلالی باوا نے ذیان کی نسبت خاصے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

کیونکہ وہ بالکل نارمل رہی اسے کوئی دورہ نہیں پڑا تھا نہ ہی آتم توش اس پہ پھر سوار ہوا۔ جلالی باوا نے اسے صدفی صد صحت مند قرار دیا تھا۔ باقی کسر چلے کے تیسرے دور میں نکل جانی تھی۔

جلالی باواکے ٹرانس میں آ کر عتیرہ بیگم نے گھریلو باتیں بھی انہیں بتا دی تھیں۔

اپنی امیر علی سے شادی کا احوال، ذیان کی پیدائش، امیر علی سے علیحدگی، جوان ہونے کے بعد ذیان کی خود سے نفرت سب کچھ ہی تو جلالی باوا کے علم میں آچکا تھا۔

جلالی باوا نفسیات انسانی کے ماہر تھے۔

قافیہ شناسی کا ہنر ان میں الگ سے تھا۔ وہ سائلوں کی نفسیات اور ان کی کمزوریوں سے کھیلتے تھے۔ اسی طریق پہ آہستہ آہستہ ان کے عقیدت مندوں میں اضافہ ہوا تھا۔ انہوں نے ہمدرد بن کر عتیرہ کی سب ہمدردیاں حاصل کرلی تھیں ہمدردیوں کے ساتھ ساتھ انہیں عتیرہ سے سود مند معلومات بھی حاصل ہوئی تھیں۔ ذیان تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ثابت ہوئی تھی۔

چلے کے دوران انہوں نے عتیرہ بیگم کے ساتھ ساتھ افشاں بیگم سے بھی خوب مال پانی بٹورا تھا۔ افشاں بیگم بھی تو ان کے کہنے میں آگئی تھی اپنے طور پہ بھی وہ بہت سے پیروں فقیروں کے پاس گئی تھی انہیں شک تھا کہ ذیان پہ کسی نے کچھ سفلی علم نہ کروایا ہو۔ ان کے اس شک کی بناء پہ عامل جلالی باوا کی ملک محل میں آنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ حالانکہ گھر کے تینوں مردوں کو جلالی باوا کے طریقہٴ علاج سے اختلاف تھا۔

ملک جہانگیر اور ملک ارسلان دونوں بھائی اپنی اپنی بیویوں کی وجہ سے خاموش تھے اور ملک ابیک افشاں بیگم کی وجہ سے چپ تھا۔ ورنہ اس نے جب رات کو ذیان کو جلالی باوا کے کمرے میں دیکھا تھا اس کا جی چاہ رہا تھا کہ مار مار کر باوا کا حلیہ ہی بگاڑ دے۔

بھلا ذیان کو تنہائی میں آدھی رات کو بلا کر کون سا علاج ہونا تھا۔ اس کی حساس حس شامہ نے جلالی باوا کے کمرے میں قدم رکھتے ہی ایک مخصوص بو فوراً محسوس کی تھی۔

اگرچہ یہ بہت ہی خفیف سی تھی لیکن اس نے جان لیا تھا کہ یہ شراب کی بو ہے۔ جلالی باوا نے قالین کے اس حصے پہ جہاں بوتل ٹوٹی تھی وہاں انگیٹھی کے انگارے پھینکے تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہو لیکن اس احتیاط کے باوجود بھی ابیک کو معلوم ہوگیا تھا۔ تب ہی تو اسے شدید غصہ آیا تھا۔

جلالی باوا کی گھبراہٹ اور خوف وہراس اس نے کمرے میں قدم رکھتے ساتھ ہی محسوس کیا تھا بعد ازاں ذیان کے جن کی وجہ سے باوا کو خود کو سنبھالنے کا موقعہ مل گیا۔

ابیک ذیان کی طرف سے بے خبر نہیں تھا اس نے حویلی میں کام کرنے والے اپنے ایک اعتماد کے بندے کی ڈیوٹی لگائی۔

ابیک کا یہ ملازم انور بہت سمجھدار تھا۔ وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر جلالی باوا کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ اگر جلالی باوا ذیان کو دوبارہ تنہائی میں طلب کرتا تو اس موقعہ پہ اسے لازمی اپنی موجودگی ثابت کرنی تھی ایک طرح سے وہ ذیان کی حفاظت کر رہا تھا۔

خیریت رہی اس دن کے بعد سے باوا جی کو عقل آگئی تھی۔ انہوں نے اپنی خوابیدہ تمناؤں کو تھپک تھپک کر سلا دیا تھا جو ذیان کے بھرپور حسن و شباب کو دیکھ کر ان کے دل میں بیدار ہوئی تھیں۔ انہوں نے ذیان کو باقیوں کی طرح ترنوالا سمجھا تھا مگر اس نے تو باوا جی کو لوہے کے چنے چبوا دئیے تھے۔

ابیک نے اپنے ایک پولیس ڈیپارٹمنٹ میں موجود قریبی دوست کو عامل جلالی باوا کے بارے میں تفصیلات مہیا کردی تھیں اب باقی کام اس کا تھا بہت جلد اس کے ہاتھ جلالی باوا کی موٹی چربیلی گردن کو ناپنے والے تھے۔

عامل جلالی باوا ذیان کے علاج کے آخری مر حلے میں تھے۔ اس نے شکر ادا کیا تھا کہ باوا جی نے پھر اسے اکیلے اپنی خلوت میں طلب نہیں کیا۔ اس رات ذیان نے باوا جی کی آنکھوں میں ناچتی ہوس فوراً محسوس کرلی تھی۔ باوا جی نے جو مشروب اسے پینے کے لیے دیا تھا وہ اس نے پھینک دیا تھا بوتل ٹوٹ گئی تھی۔ بابا جی کی نگاہوں کا سحر اسے بے بس کرتا رہا تھا۔

ایسا لگ رہا تھا اس کا ذہن عامل جلالی باوا کے قبضے میں جارہا ہے کیونکہ وہ پلک جھپکائے بغیر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ انہوں نے اس کی چال اسی پہ آزمانے کی سعی لاحاصل کی تھی۔ ذیان کچھ دیر اور ان کی آنکھوں میں دیکھتی رہتی تو وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہوتے۔ وہ ویسے بھی انسانی نفسیات اور کمزوریوں سے پوری طرح واقف تھے پہلی بار ہی بھانپ گئے تھے کہ ذیان ڈرامہ کر رہی ہے۔

ذیان جیسی بہت سی لڑکیوں کا جن انہوں نے اتارا تھا۔ مجبور بے بس لڑکیاں اپنی عزت کے ڈر سے خاموش ہوجاتی تھیں کچھ تو اپنی مجبوری کی وجہ سے لب سینے پہ مجبور تھیں کچھ کو بابا جی کا ڈر زبان نہ کھولنے دیتا۔

 باوا جی کے آستانے کے درو دیوار نے اپنے اندر ایسے بہت سے گھناؤنے راز چھپائے ہوئے تھے۔ وہ جن اتارنے کے ماہر تھے۔ ان کے پاس ایسی جتنی بھی لڑکیاں علاج کے غرض سے لائی گئی تھیں پھر زندگی بھر ان پہ جن نہیں آیا۔

ان لڑکیوں کے ماں باپ جلالی باوا کو دعائیں دیتے نہ تھکتے۔ جن کی وجہ سے تین چار لڑکیوں کی شادیاں رک گئی تھیں کیونکہ ان پہ آنے والے جن کسی صورت بھی یہ شادیاں نہیں ہونے دے رہے تھے۔ انہیں باوا جی کے پاس لایا گیا۔ اب وہی لڑکیاں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ خوشگوار زندگی بسر کر رہی تھیں۔

ذیان نے وہ بوتل کیا توڑی گویا بابا جی کا ٹرانس توڑ دیا جس نے اس کے ذہن کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا تھا۔

باوا جی کے گال پہ لگنے والا تھپڑ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ مکمل طور پہ ٹرانس سے باہر آچکی ہے۔ اس کی عزت جلالی باوا جیسے لٹیرے سے بچ گئی تھی۔

جلالی باوا نے اس کی عقل کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ تب ہی تو اس رات ابیک کا سامنا ہونے کے بعد سے اس پہ آتم توش نہیں آیا تھا۔ اس نے آخری بار ملک ابیک کو اپنا رنگ دکھایا تھا۔ عتیرہ بے پناہ خوش تھیں عامل جلالی باوا واقعی بہت پہنچے ہوئے تھے۔

ذیان کے جن کو قابو کرلیا تھا۔ وہ اب نارمل طریقے سے معاملات زندگی میں حصہ لے رہی تھی۔

نیناں بہت خاموشی سے اس کا سکون و اطمینان نوٹ کر رہی تھی۔ ابیک کے جانے کے بعد وہ ٹھیک ہوگئی تھی۔ گویا اسے ابیک کی ذات اور موجودگی سے پرابلم تھی۔ نیناں کی ابیک کے ساتھ ہمدردی محبت میں ڈھل گئی تھی۔ ملک ابیک جیسے خوبرو کڑیل نوجوان کو وہ چھٹانک بھر ذیان ذہنی اذیت دے دے کر جذباتی طور پہ تباہ کر کے اس کے نازک محسوسات ارمانوں بھرے دل سے ظالمانہ طریقے سے کھیل رہی تھی۔

بلکہ اس نے پورے گھر کو عذاب میں ڈالا ہوا تھا۔ اسے اس کا ذرہ بھر احساس تک نہ تھا۔ الٹا سب اس کی فکر اور علاج کی کوشش میں ادھ موئے ہوئے جارہے تھے۔ نیناں کو پورا یقین تھا کہ ذیان ڈرامہ کر رہی ہے وہاب سے ملاقات کے بعد یہ بات ثبوت کو پہنچ گئی تھی۔ مگر اپنے خیالات کا اظہار وہ کر نہیں سکتی تھی۔ وہ محکوم اور ذیان حاکم تھی۔ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کی لاڈلی بہو۔

جس کے لیے بطور خاص عامل جلالی باوا کو گھر میں ٹھہرایا گیا تھا۔ عتیرہ اور ملک ارسلان نے پانی کی طرح پیسہ بہایا تھا۔ عامل جلالی باوا کے تو وارے نیارے ہوگئے تھے۔ اس بے حس لڑکی کو احساس تک نہ تھا۔ نہ جانے کس ذہنی ٹیڑھ کی وجہ سے وہ ایسا کر رہی تھی۔ ملک ابیک نے اسے بغیر کسی چیز کے قبول کیا تھا اسے تو شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ الٹا سب کو اذیت میں ڈالا ہوا تھا۔ بہت جلد اس کے ڈرامے کا نیناں کے ہاتھوں ڈراپ سین ہونے والا تھا۔ ملک ابیک اسے ملتا تو وہ اس کی پوجا کرتی وہ ذیان کی طرح ناشکری نہیں تھی۔ بہت جلد وہ ذیان کی جگہ لینے والی تھی۔

Episode 84 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 84 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

نیناں ملک محل سے غائب ہوگئی تھی۔ اس کے کمرے سے اس کے ہاتھ سے لکھا ہوا پرچہ ملا تھا۔

اس نے بغیر کسی القاب و آداب کے بطور خاص کسی کو بھی مخاطب کیے بغیر لکھا تھا۔

”میں اپنی مرضی سے ملک محل چھوڑ کر جارہی ہوں۔ میں اپنی زندگی اور حالات سے تنگ آچکی ہوں۔ مجھے اب مزید جینے کی تمنا نہیں ہے۔ میں اپنے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کروں گی۔میں گمنام موت مرنا چاہتی ہوں اس لیے برائے مہربانی مجھے تلاش کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

کیونکہ یہ کوشش بیکار ثابت ہوگی میں یہاں سے نکل کر پہلی فرصت میں اپنی زندگی ختم کروں گی۔ فقط نیناں۔“ خط پڑھ کر عتیرہ کا تو جو حال ہوا سو ہوا ذیان بھی پریشان ہوگئی۔

افشاں بیگم بھی روہانسی ہو رہی تھیں۔ ملک ارسلان اور ملک جہانگیر نے اسے قریب کے علاقوں میں تلاش کروانے کی ناکام کوشش کی۔

وہ جس طرح ایک دن اچانک ملک محل میں آئی تھی اسی طرح اچانک غائب بھی ہوگئی تھی۔

اس کا کوئی اتا پتہ کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس کی اصل حقیقت اس کی محسن عتیرہ تک کو معلوم نہ تھی جو اسے ہوٹل سے بچا کر اپنے ساتھ لائی تھیں۔ ملک محل میں کافی دن نیناں کے جانے کے بعد سوگواری چھائی رہی۔ عتیرہ تو پورا دن ٹی وی دیکھتیں اخبار پڑھتیں کہ شاید کہیں سے نیناں کی خبر مل جائے۔

جلالی باوا نے ذیان کے علاج کا عمل کامیابی سے مکمل کرلیا تھا۔

انہوں نے ذیان کو مکمل طور پہ صحت مند قرار دیا تھا۔ جلالی باوا نے ان سب کا یعنی ملک محل کے مکینوں کا سب سے بڑا مسئلہ حل کردیا تھا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا وہ وقتاً فوقتاً ملک محل کا چکر لگاتے رہیں گے اور ذیان کی خبر گیری کرتے رہیں گے تاکہ اگر جن دوبارہ اس پہ سوار ہوجائے تو وہ اس کا سدباب کرسکیں۔

عتیرہ ،افشاں بیگم بے پناہ خوش تھیں۔

ملک جہانگیر بھی پرسکون تھے۔ ابیک کی شادی کے بعد تو جیسے گھر کی رونق ہی روٹھ گئی تھی۔ وہ خود گھر سے کتنے ہفتوں سے دور تھا۔

ملک ارسلان نے اسے اطلاع کر وا دی تھی کہ عامل جلالی باوا ملک محل سے رخصت ہوگئے ہیں تم گھر آجاؤ۔

ملک ابیک کو تو ویسے بھی گھر آنا تھا۔ نیناں کی اس طرح ملک محل سے پراسرار روانگی اس کے لیے معمہ بنی ہوئی تھی۔

وہ شہر میں اتنا مصروف تھا کہ کوشش کے باوجود بھی نیناں کی گمشدگی کی خبر سن کر نہیں آسکا تھا۔ البتہ فون پہ اس کا سب سے برابر رابطہ تھا۔

سلائی کڑھائی کے سینٹر میں بھی نیناں کے جانے سے مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ اب وہاں جا کر حالات کا جائزہ لینا تھا کسی کو انچارج بنانا تھا تاکہ مقصد کماحقہ پورا ہوسکے جس کی وجہ سے اس نے یہ ادارہ بنایا تھا۔

اپنی گمشدگی سے ایک دن پہلے نیناں نے اسے فون پہ رابطہ کیا تھا انڈسٹریل ہوم کے بارے میں تسلی بخش رپورٹ دی تھی۔ اور آخر میں اس نے ڈرتے ڈرتے کسی وہاب نامی نوجوان کا ذکر کیا تھا جو ملک محل میں ذیان کا پوچھتا آیا تھا۔ ملک ابیک نے خود کو کام میں غرق کرلیا تھا اس لیے نیناں کی بات وقتی طور اس کے ذہن سے نکل گئی تھی۔ ملک ارسلان سے بات کرنے کے بعد ایک تلخ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ نمودار ہوئی۔

تمہیں جب دیکھتا ہوں تو…

میری آنکھوں پہ رنگوں کی پھواریں پڑنے لگتی ہیں!

تمہیں سنتا ہوں تو…

مجھ کو قدیمی مندروں سے

گھنٹیوں اور مسجدوں سے ورد کی آواز آتی ہے!

تمہارا نام لیتا ہوں تو…

صدیوں قبل کے لاکھوں صحیفوں کے

مقدس لفظ میرا ساتھ دیتے ہیں

تمہیں چھو لوں تو…

دنیا بھر کے ریشم کا ملائم ہیں

میری پوروں کو آ کر گدگداتا ہے

تمہیں گر چوم لوں تو…

ناچیدہ ذائقے یوں پھیل جاتے ہیں

کہ اس کے بعد مجھ کو

شہد بھی پھیکا پھیکا لگتا ہے

تمہیں جب یاد کرتا ہوں تو

ہر ہر یاد کے صدقے میں

اشکوں کے پرندے چوم کر آزاد کرتا ہوں

تمہیں ہنستی ہوئی سن لوں تو

ساتوں سر سماعت میں سما کر رقص کرتے ہیں

تمہارے اور اپنے درمیان

ہر کیفیت سے آشنا ہوں میں

مگر… جاناں!!!

تمہیں بالکل بھلا دینے کی جانے کیفیت کیا ہے!

مجھے محسوس ہوتا ہے

کہ مرگ ذات کے احساس سے بھر جاؤں گا فوراً

تمہیں میں بھولنا چاہوں گا تو

مرجاؤں گا فوراً!!!

                                         

احمد سیال کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آرہا تھا۔

یقین تو رنم کو بھی اپنی آنکھوں پہ نہیں آرہا تھا۔احمدسیال زندہ سلامت اس کے سامنے موجود تھے اور وہ اپنے گھر میں تھی۔

وہ بھاگ کر پوری شدت سے ان سے لپٹی تھی۔منظر تو پہلے ہی اس کی آنکھوں میں دھندلا رہا تھا اب پپا سے گلے مل کر آنسوؤں کو بہنے کا راستہ مل گیا تھا۔ اتنے ماہ کی دوری سخت زندگی اور اپنی ضد کے منفی نتائج نے اس کے سب کس بل نکال دئیے تھے۔

وہ پپا سے بے حد شرمندہ تھی ان سے نگاہیں تک نہ ملا پا رہی تھی۔وہ اسے لپٹائے اس کا ماتھا ہاتھ بال بار بار چومتے اس کے ہونے کا یقین کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ واقعی ان کی لاڈلی رنم تھی ان کا جگر گوشہ وہ تو تقریباً مایوس ہی ہوچکے تھے۔اب ان پہ شادی مرگ کی سی کیفیت طاری تھی۔ وہ اتنے سارے دنوں کا احوال پل بھر میں معلوم کرلینا چاہ رہے تھے۔

”پپا میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گی پہلے اپنا گھر تو دیکھ لوں۔ میں نے اپنا گھربہت مس کیا ہے۔“

وہ بھیگی بھیگی آنکھوں سمیت مسکرائی۔

احمد سیال بھی مسکرا رہے تھے۔ ”آؤ میں تمہیں گھر دکھاتا ہوں۔ تمہارے بغیر تو میں جیسے مردہ ہو گیا تھا۔ “ احمد سیال نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔

وہ چپہ چپہ گوشہ گوشہ دیکھ رہی تھی۔خوش ہو رہی تھی۔

نیناں بن کر اس نے جو زندگی گزاری تھی وہ بہت قابل رحم اور مشکل تھی۔وہ سوچ رہی تھی جیسی زندگی اس نے گزاری ہے ویسی زندگی گزارنا وہ بھی نیناں بن کر بہت مشکل ہے۔جبکہ احمد سیال کی بیٹی کی حیثیت سے اس نے سب لگژی لائف انجوائے کی تھی وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ ملک محل میں نیناں کی حیثیت سے اس نے اچھی طرح جان لیا تھا۔

وہ شہر یار اور راعنہ کی شادی کے بعد جیسے پاگل ہوگئی تھی۔

ان کی شادی اس کے نزدیک خوابوں بھرا ایڈونچر تھی۔اس ایڈونچر کو وہ صرف چند دن ہی انجوائے کرسکتی تھی۔

راعنہ نے شہریار کی حیثیت کو قبول کرلیا تھا اس کے چھوٹے گھر میں خوش تھی۔

شہریار اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کرنا چاہتا تھا راعنہ ہر قدم اس کے ساتھ تھی۔ اسے اچھی طرح علم تھا کہ شہریار کے ساتھ شادی کے بعد ہر طرح کی مشکلات پیش آئیں گی۔

شہریار نے اس کے ڈیڈی سے کوئی مدد نہیں لی تھی وہ اپنے شوہر کی خودداری پہ خوش تھی۔ جبکہ رنم کو اب اگر شہریار جیسا انسان ملتا تو وہ اس کے ساتھ شادی کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتی اور پھر انکار کردیتی۔ پہلے وہ مری جارہی تھی کہ کاش کوئی شہریار جیسا لائف پارٹنر اسے بھی مل جائے لیکن ایسا لائف پارٹنر ملنے کی صورت میں اسے تمام تر عیاشیوں سے ہاتھ دھونے پڑتے۔

وہ اتنے ماہ ملک محل میں رہی تھی وہاں اسے شدت سے احساس ہوا تھا کہ اس نے پپا کو انکار کر کے کتنی بڑی حماقت کا ثبوت دیا ہے۔

پپا اس کی باتوں میں آ کر کسی کے ساتھ اس کی شادی کر بھی دیتے تو یقینا اس کاا نجام حسرت ناک ہوتا۔ یعنی وہ صرف اس کی سوچ تھی بچگانہ سوچ کہ وہ پپا سے شادی کے بعد کچھ بھی نہیں لے گی۔اب سوچتی تو جھرجھری آتی۔ سہولیات اور اختیار کے بغیر بھی زندگی کوئی زندگی ہوتی ہے۔

اور اختیار دولت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ ملک محل میں خادمہ کی سی زندگی نہ گزارتی۔

اب وہ بھی ملک محل کے مکینوں کی ہم پلہ ہوگئی تھی۔

احمد سیال کو اس نے حرف بہ حرف سب داستان کہہ سنائی تھی۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ سچ کہہ رہی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ اتنے ماہ وہ ملک جہانگیر کی حویلی میں رہی اور انہیں خبر ہی نہیں ہوئی۔

کاش دوست کی دعوت پہ وہ ابیک کی شادی میں چلے جاتے۔ معاذ کے پاکستان آنے پہ چلے جاتے تو انہیں اتنی اذیت نہ اٹھانا پڑتی۔ رنم ان کے اتنے پاس رہ کر بھی دور رہی تھی۔وہ انہیں گزرے دنوں کا حسرت ناک احوال سنا رہی تھی۔

”پپا آپ کی بیٹی نے وہاں خادمہ کی سی زندگی بسر کی ہے۔ ایک آواز پہ بھاگ بھاگ کے کام کیے ہیں۔ ملازموں کی نگرانی کی ہے دیکھ بھال کی ہے… پپا وہ ایک خواب تھا بھیانک خواب میں یہ خواب پھر کبھی نہیں دیکھنا چاہوں گی۔

پپا یہاں ہمارے گھر میں اتنے ملازم ہیں جبکہ وہاں میں خود نوکرانی تھی۔پپا یہاں میں پانی مانگ کر پیتی تھی جبکہ وہاں…“

رندھی ہوئی آواز کی وجہ سے اس سے بات بھی مکمل نہ کی گئی۔

احمد سیال نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان کا اپنا دل شدت غم سے پھٹا جارہا تھا۔

”میرے بچے ملک جہانگیر نے تمہارا رشتہ اپنے بیٹے کے لیے ہی تو مانگا تھا۔

میں تمہیں عزت سے دھوم دھام سے رخصت کر کے ملک محل میں بھیجنا چاہ رہا تھا جبکہ تم ضد میں آ کر غلط طریقے سے وہاں پہنچی۔ ملک ابیک نے شادی کے بعد کسی بھی قسم کا جہیز نہیں لیا تم یہی چاہتی تھی ناں کہ تمہیں صرف تمہارے حوالے سے قبول کیا جائے۔ تم ایک بار میری بات مان لیتی تو ایک مضبوط حوالہ لے کر ملک محل میں جاتی۔ مگر تم نیناں بن کر گھر سے اپنی ضد کی خاطر نکلی اور سب کچھ گنوا دیا۔

“ احمد سیال جیسا مرد بیٹی کا دکھ سہہ نہیں پایا تھا وہ رو رہے تھے۔ رنم بھی تو رو رہی تھی۔ اس کے دل کو جیسے کوئی سینے میں مسل رہا تھا۔ ذیان کی جگہ وہ بھی تو ہوسکتی تھی۔ ملک ابیک نے ذیان کو ایسے ہی تو قبول کیا تھا وہ بیوی جیسا مضبوط اور باعزت حوالہ لے کر اس کی زندگی میں آئی تھی۔ اور رنم نے پا کر بھی سب کچھ گنوا دیا تھا۔ دونوں باپ بیٹی اپنے اپنے نقصان پہ رو رہے تھے۔

بہت دن بعد رنم اپنے بیڈ روم میں اپنے بیڈ پہ تھی۔ اس کا جہازی سائز بیڈ پردے کارپٹ ڈیکوریشن کھڑکی سے باہر دکھائی دینے والے سرسبز مناظر۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔

حتیٰ کہ اپنا سیل فون جو گھر سے جاتے وقت وہ آف کر گئی تھی ویسا ہی پڑا تھا۔

اس نے عتیرہ بیگم کا دیا ہوا سیل فون بیگ سے نکالا۔ سیل فون ہاتھ میں لیتے ہی اس کے لبوں پہ تمسخرانہ مسکراہٹ آگئی۔

اس میں ابیک، وہاب، ذیان، عتیرہ اور دیگر ملک محل کے مکینوں کے فون نمبر تھے۔ ورنہ وہ یہ کبھی بھی اپنے ساتھ نہ لاتی۔ احمد سیال کی بیٹی کا ذوق ایسا غریبانہ اور تھرڈ کلاس تو ہو نہیں سکتا تھا۔ اس نے نمبر ڈائری میں نوٹ کر کے سیل فون کمرے میں پڑے آرائشی ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ اسے اب اس گھٹیا کم قیمت فون کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

اپنے بیڈ روم میں بیڈ پہ لیٹتے ہی اسے چین آگیا۔ کل تک وہ ملک محل میں تھی سرونٹ کوارٹرز کے ایک کمرے میں زندگی بسر کر رہی تھی۔ اب وہ اپنے اصل ٹھکانے پہ لوٹ آئی تھی۔

Episode 85 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 85 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ، ذیان کو لے کر افشاں بیگم کے پاس آئی تھیں۔ ذیان نے اتنے ہفتے بعد سسرال میں قدم رکھا تھا وہ بھی بالکل تندرست و توانا ہو کر وہ آتم توش کی قید سے آزاد ہوچکی تھی۔ ان کے لیے یہ خوشی بہت بڑی تھی۔ انہوں نے شکرانے کے نوافل ادا کر کے بہو کی نظر اتاری اور صدقے کے بکرے ذبح کروائے۔ ذیان سجی سنوری بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔ انہوں نے دل کی گہرائیوں سے رب کا شکر ادا کیا تھا۔

ذیان سب کے ساتھ ہنس بول رہی تھی۔ گھر واپس آتے ساتھ ہی اس نے اپنے اور ابیک کے مشترکہ بیڈ روم کی سیٹنگ تبدیل کروائی۔ اپنے سارے کپڑے الماری میں رکھے۔ زیر لب گنگناتے ہوئے وہ بے حد مسرور تھی۔

افشاں بیگم نے گہری نگاہ سے اس کا جائزہ لیا۔ یہ وہی پہلے والی ذیان تھی جسے انہوں نے ابیک کے لیے پسند کیا تھا۔

آتم توش اس کے اور ابیک کے درمیان سے ہٹ چکا تھا۔

دو دن بعد عتیرہ، ملک ارسلان، ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کو دوسرے شہر ایک شادی میں جانا تھا۔ انہیں تین چار دن وہاں قیام بھی کرنا تھا۔ پہلے افشاں بیگم تذبذب میں تھیں جائیں کہ نہ جائیں۔ اب ذیان ہنسی خوشی اپنے گھر واپس آچکی تھی تو انہوں نے تیاری شروع کردی۔ ان کے جاتے ہی ابیک نے آجانا تھا اس لیے ذیان کو ساتھ لے جانے کے لیے انہوں نے اصرار نہیں کیا۔

ملک ابیک شہر سے لوٹ آیا تھا۔ مگر وہ گھر آنے کے بجائے دوسرے گاؤں میں ایک دوست کے پاس رک گیا تھا۔ چوہدری عثمان اس کے خاص دوستوں میں سے تھا۔ وہ دونوں دوست چوہدری عثمان کے ڈیرے پہ تھے۔ ڈیرے میں چھ کمرے، تین باتھ روم کشادہ صحن اور برآمدہ اس کے علاوہ تھا۔ ان کمروں میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔

چوہدری عثمان شکار کا شوقین تھا۔

کچھ سال پہلے تک ملک ابیک بھی اس کا ساتھ دیتا رہا تھا لیکن جب سے وہ عملی زندگی میں مصروف ہوا تھا شکار و کار سب بھول گیا تھا۔

عثمان کے شہری دوست شکار کی غرض سے گاؤں آتے تو وہ انہیں اسی ڈیرے پہ ٹھہراتا تھا۔

چھ میں سے چار کمرے بطور بیڈ روم استعمال ہو رہے تھے۔ جبکہ ایک ڈرائنگ روم اور ایک گیسٹ روم کے طور پہ سیٹ کیا گیا تھا۔

ملک ابیک نے گھر میں کسی کو بھی اپنے آنے کی اطلاع نہیں دی تھی۔

اس نے عثمان کو بھی منع کردیا تھا۔ ابیک نے بہانہ بنایا تھا کہ وہ پرانی یادیں بغیر کسی مداخلت کے تازہ کرنا چاہتا ہے۔ عثمان نے یقین کرلیا تھا، ویسے بھی اس کے پاس یقین نہ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ اس کے لیے یہی کافی تھا کہ ابیک اس کے پاس ڈیرے پہ تھا۔

ملک جہانگیر، ملک ارسلان، افشاں بیگم اور عتیرہ کے ہمراہ تیار ہو کر ملک محل سے جاچکے تھے۔

ملک ارسلان نے اپنے جانے کی اطلاع ملک ابیک کو کردی تھی۔ اس نے یقین دہانی کروائی تھی کہ رات سے پہلے پہلے گھر ذیان کے پاس پہنچ جائے گا۔

ارسلان چچا سے بات کرنے کے بعد ملک ابیک نے عثمان کوبتایا۔ اس کے ملازم ابیک کی گاڑی کا تیل پانی چیک کر رہے تھے۔

ملک ابیک اس پل اسی دن اسی ساعت کے انتظار میں تھا۔ ذیان سے دو دو ہاتھ کرنے کا ٹائم آگیا تھا۔

سب کے سامنے ابیک کو دیکھتے ہی اس کا جن جلال میں آجاتا تھا۔ دوروں میں بھی جان اور شدت بڑھ جاتی۔ وہ ذیان کو سب کی موجودگی میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔

لیکن آج اکیلے میں یہ کام اس نے آسانی سے انجام دے لینا تھا۔ قدرت نے یہ موقعہ بن مانگے فراہم کردیا تھا۔ اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھانا کفران نعمت کے زمرے میں آتا۔ وہ جلد از جلد ملک محل پہنچنا چاہ رہا تھا۔

واپسی سے پہلے اس نے اپنے ہوشیار ملازم انور کو فون کر کے کہا کہ آج رات سب ملازمین کو کسی بہانے رہائشی عمارت سے دور رکھے۔ انور بہت تیز تھا اس نے اسی وقت سوچ لیا کہ یہ کام کس طرح کرنا ہے۔ انور ساتھ والے گاؤں کا رہائشی تھا۔ شادی کے دس سال بعد اللہ نے اسے بیٹا عطا کیا تو اپنی بساط کے مطابق اس نے دل کھول کر خوشی منائی۔

اس نے بیٹے کا عقیقہ کرنا تھا۔

ملک ارسلان اور ملک جہانگیر خود اس کے گھر جا کر نومولود کو تحفے تحائف دے آئے تھے آج شام کو اس نے خود بھی گاؤں جانا تھا۔ ملک ابیک کی کال آنے سے پہلے وہ چھوٹی بی بی ذیان کے پاس اجازت لینے ہی جارہا تھا۔ اب کال آنے کے بعد اس نے اپنے پروگرام میں تھوڑی سی ترمیم کرلی تھی۔ ملک محل میں کام کرنے والے سب ملازمین کو اس نے اپنے گھر ہونے والی دعوت میں شرکت کی دعوت دی جو اس نومولود بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں کی تھی۔

انور کی سب کے ساتھ بہت بنتی تھی۔ اس لیے جب ذیان سے اس نے بات کی تو اس نے بخوشی سب ملازمین کو دعوت میں شرکت کے لیے چھٹی دے دی۔ ایک رات ہی کی تو بات تھی۔ گیٹ پہ موجود دو دو گارڈ تھے خود عتیرہ کی طرف زیبو اور فریدہ تھیں جو گھر کی حفاظت کے نقطہٴ نظر سے انور کی دی جانے والی دعوت میں شریک نہیں ہوئیں۔ اب ذیان دو گارڈز کے ساتھ گھر میں اکیلی تھی، ملک ارسلان اور عتیرہ کی طرف زیبو، فریدہ کے علاوہ دو گارڈز بھی تھے۔

اس لیے خطرے کی کوئی بات نہیں تھی۔ ویسے بھی گارڈز پوری طرح مسلح تھے۔ ایک گارڈ گیٹ پہ تھا اور دوسرے وقفے وقفے سے گھر کے اندر کے چکر لگا رہا تھا۔

عشاء کی نماز کے بعد کھانا کھا کر اوپر بیڈ روم میں آگئی تھی۔ زیبو اور فریدہ نے اسے پیش کش کی تھی وہاں اس کے ساتھ رکنے کی مگر اس نے انکار کردیا کیونکہ گیٹ پہ چاق و چوبند گارڈ موجود تھے۔

رات دس بجے کا وقت تھا جب ملک محل کے گیٹ کے سامنے ملک ابیک کی گرے پجیرو رکی۔

گیٹ پہ موجود گارڈز نے اسے دیکھ کر زور دار سلام جھاڑا۔ گھر کا مالک آگیا تھا اب وہ دونوں مطمئن تھے۔ گھر کا رہائشی حصہ گیٹ سے کافی فاصلے پہ تھا۔ بیرونی حصے میں ہونے والی سرگرمیوں کا رہائشی حصے کے مکینوں کو باہر آئے بغیر علم ہونا مشکل ہی تھا۔

ملک ابیک نے گیٹ سے ہی ڈرائیور کو پیجیرو سمیت ڈیرے کی طرف روانہ کردیا۔

لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ رہائشی اندرونی عمارت میں داخل ہوا۔

اس کی چال میں ہمیشہ کی طرح وقار اور اعتماد تھا۔ سب اندرونی لائٹیں آن تھیں۔

دوسری منزل بھی روشن تھی۔ اس نے نظر اٹھا کر اپنے بیڈ روم کی طرف دیکھا۔ کھڑکیوں پہ پردے گرے ہوئے تھے۔ نومبر کا آغاز تھا اس بار خلاف معمول بارشیں جلدی ہوئی تھیں اس لیے موسم اچھا خاصا خنکی لیے ہوئے تھا کھلی فضا میں تو گرم کپڑوں کے بغیر گھومنا پھرنا مشکل تھا۔

خوش آئند بات یہ تھی کہ اس کے بیڈ روم کا دروازہ ہلکا سا بھڑا ہوا تھا ذیان نے ابھی تک لاک نہیں کیا تھا۔ وہ ابھی تک اندر نہیں گیا تھا اس لیے ذیان کی سرگرمیوں سے لاعلم ہی تھا۔

ابیک نے بہت آرام سے کوئی آواز پیدا کیے بغیر دروازہ کھولا۔ کمرے میں خوشگوار حرارت پھیلی ہوئی تھی باہر کے مقابلے میں اندر کا درجہٴ حرارت معتدل تھا۔ ذیان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے لیپ ٹاپ گود میں رکھے مصروف عمل تھی۔

اس کے لمبے بال کھلے تھے اور اوپری وجود تقریباً ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ دوپٹے سے بے نیاز بے تکلف آرام دہ حلیے میں تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس وقت ابیک آسکتا ہے۔ اس نے قدم بڑھائے اور اپنے پیچھے ہاتھ مار کر دروازہ بند کیا۔ آہٹ اور دروازہ بند ہونے کی آواز پہ ذیان نے نگاہیںا ٹھائیں۔

Episode 86 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 86 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک ابیک مضبوط پر اعتماد قدموں سے چلتا اس کی طرف آرہا تھا۔ وہ بے انتہا خوفزدہ ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اچانک اس طرح وہ اس کے سامنے ہوگا۔ وہ چیخ مارنا چاہتی تھی پر اسے دیر ہوگئی تھی۔ ابیک اس کے منہ پہ اپنا مضبوط ہاتھ رکھ چکا تھا۔ ابیک کا ایک ہاتھ بازو سمیت اس کے کندھے کے گرد لپٹا ہوا تھا اور دوسرا مضبوط ڈھکن کی مانند اس کے منہ پہ جما تھا۔

نہ وہ بھاگ سکتی تھی نہ منہ سے آواز نکال سکتی تھی۔ غنیمت تھا کہ وہ ناک سے سانس لے رہی تھی ابیک کی مضبوط گرفت میں اس کا دم گھٹ رہا تھا اس کا نازک وجود گویا چرمرا کر رہ گیا تھا۔

شاید ابیک اسے مارنے آیا تھا۔ خوف کسمپرسی، بے چارگی درماندگی نے اس کی حالت قابل رحم بنا دی تھی۔ اس وقت وہ یہی سوچ سکی تھی یقینا سب اس سازش میں شریک تھے تب ہی تو اسے گھر میں اکیلا چھوڑا گیا تھا تاکہ ملک ابیک کو اپنے منصوبے پہ عمل کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔

اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ ”بعد میں جتنا مرضی چاہے چیخ لینا ڈرامہ بازی کرلینا ابھی مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے۔“ ابیک اس کے کانوں کے قریب اپنے ہونٹ لا کر بولا۔ اس کی آواز اورالفاظ میں شدید قسم کا غصہ تھا۔ اسے یقین تھا اب وہ شور نہیں کر ے گی کیونکہ ملک ابیک کے الفاظ اور تاثرات نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اب اداکاری سے کام نہیں چلے گا وہ اس کی ڈرامہ بازی سے واقف تھا۔

ابیک نے اس کے منہ سے ہاتھ ہٹالیا تھا وہ اب اس سے دور بیٹھا تھا۔ اس کے بولنے کے انتظار میں تھا جواب ہاتھ پاؤں چھوڑ کر مرے مرے انداز میں بیٹھی تھی جیسے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی معصوم لاچار اور قابل رحم دوسرا نہیں ہے۔

 ابیک کے اچانک حملے سے اس کی گود میں رکھا لیپ ٹاپ پھسل کر بیڈ کی پائنتی جا پڑا تھا۔ ملک ابیک کے آنے سے پہلے وہ معاذ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ونڈومیں اسکائپ اوپن نظر آرہاتھا۔ ابیک نے اٹھ کر لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کردیا تھا۔ اب تو وہ بالکل ہی ڈھے گئی تھی۔ ابیک نے آج سے پہلے اسے تم کہہ کر کبھی بھی مخاطب نہیں کیا تھا آج اس کا ہر انداز بدلا ہواتھا۔ یقینی طور پہ وہ غیض و غضب میں بھرا ہوا آیا تھا۔ ”میں وجہ جان سکتا ہوں کہ تم نے یہ سب کیوں کیا۔ کیوں ڈرامہ رچایا۔ ایسی کیا مشکل تھی جو تم نے ہم سب کو ذہنی عذاب میں ڈالا۔

“ وہ بڑی کوشش کے بعد اپنے لہجہ کو نارمل کر پایا تھا۔ جواباً وہ خاموش رہی اس کا وہ حال تھا جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ نگاہیں جھکی ہوئیں۔ جیسے وہ اس کے بجائے دیواروں سے مخاطب ہو۔ ”ذیان صاحبہ میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔“ اس بار وہ اس کے قریب آ کر دھاڑا تو مارے خوف کے اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ابیک کے سامنے آج سے پہلے وہ اس طرح کے بے تکلف حلیے میں کبھی بھی نہیں آئی تھی۔

اب اسے اس بات کا بھی احساس ہو رہا تھا اس لیے اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ ابیک سے اس کی موجودگی سے اس کے غصے سے خائف ہو رہی تھی۔

”کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لینا کہ گھر میں اس وقت باہر گیٹ پہ موجود گارڈز کے علاوہ کوئی نہیں ہے میں نے سب کو چھٹی دے دی ہے۔ اور ویسے بھی تمہارے ڈرامے اور اداکاری سے متاثر ہونے والے یہاں نہیں ہیں“اس کا اشارہ افشاں بیگم اور ملک جہانگیر کی طرف تھا۔

ذیان کٹ سی گئی۔

 ”اس لیے سچ بولنا اور کوئی الٹی حرکت مت کرنا۔“ ابیک نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی تو اس نے ہراساں رحم طلب نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا۔ ابیک کی نگاہوں میں ترحم یا ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں تھا۔ ”شاباش بولو جلدی جو بھی ہے۔ میں نے سونا بھی ہے سخت تھکا ہوا ہوں۔“ وہ جھنجھلایا ہوا تھا۔ ”میں نے سب کچھ مما اور آپ کی وجہ سے کیا۔

“ اس کے حلق سے مری مری آواز برآمد ہوئی۔ ”گڈ آگے بولو۔“ وہ اس کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ ”مما مجھے چھوڑ کر آگئی تھیں میں نے اپنی عمر کا وہ حصہ بہت کرب اور اذیت میں بسر کیا ہے مجھے مما اور مما سے وابستہ ایک ایک شے ایک ایک رشتے سے چڑ تھی جن میں آپ بھی شامل ہیں۔“ اب کی بار صاف لگ رہا تھا کہ وہ روپڑے گی۔ ”گڈ اور بھی بتاؤ۔“ وہ بالکل نارمل لگ رہا تھا۔

ذیان بولتی چلی گئی بے ربط ٹوٹے پھوٹے فقرے جس کا لب لباب یہی تھا کہ اس نے سب کچھ ماما اور ان کی تمام فیملی کو اذیت دینے کے لیے بدلہ لینے کے لیے انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر کیا ہے۔ اسے ملک محل کے سب افراد سے مما کی وجہ سے شدید چڑ ہے۔ ظاہر ہے ان میں ملک ابیک بھی شامل تھا۔

ذیان اپنا پول کھلنے پہ شرمندہ تھی ویسے بھی عامل جلالی باوا کی اندرونی خباثت سے واقف ہونے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ جلدی اس ڈرامے کا ڈراپ سین کرے گی اور کوئی نیا طریقہ سوچے گی مگر یہ جان کر کہ ابیک شروع دن سے ہی واقف تھا وہ اب اس سے نگاہیں تک نہ ملا پا رہی تھی۔

وہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی شرمندگی سے اس کا جی چاہ رہا تھا زمین میں گڑ جائے۔ ابیک سوچوں میں گم تھا۔ و ہ اسے انجان اور بے وقوف اور خود کو بہت بڑی چیز سمجھتی رہی جو اپنی دانست میں سب کے جذبات سے کھیل کر انہیں بے وقوف بنا رہی تھی اور وہ خود انجانے میں نتائج سے لاپرواہ ہو کر اتنی بڑی بے وقوفی کر رہی تھی۔

ابیک نے بہت دیر بعد سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا وہ اپنی سوچوں کے حصار سے باہر آکر کسی نتیجے تک پہنچ چکا تھا۔

”ذیان آپ کو اب کوئی بھی ڈرامہ یا الٹی سیدھی حرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے میری وجہ سے میری فیملی سے چڑ اور نفرت کی وجہ سے یہ سب کیا۔ جس وجہ سے بھی آپ نے یہ سب کیا اب آپ اس وجہ سے پریشان نہیں ہوں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ آپ کو مجھ سے دور بھاگنے کے لیے یا فیملی کو اذیت دینے کے لیے کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ میں اپنے سے وابستہ کسی بھی رشتے یا شخص کو اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔

آپ پہلے بھی اپنی حماقت یا نفرت کی وجہ سے ہم سب کے جذبات سے کافی سے زیادہ کھیل چکی ہیں۔ میں آپ کو اور اس عمل کی اجازت نہیں دے سکتا۔

باقی جہاں تک عتیرہ چچی سے نفرت کی بات ہے تو دلوں کے حال اللہ جانتا ہے لیکن ہم نے شروع سے ہی انہیں اپنی بیٹی کی یاد میں روتے تڑپتے دیکھا۔ انہیں دکھی دیکھ کر ارسلان چچا بھی پریشان ہوتے یہی وجہ ہے کہ جب عتیرہ چچی نے آپکے بارے میں بات کی تو وہ پوری خوشی اور آمادگی سے خود آپ کو لینے گئے۔

انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ وہ چچی کی دلجوئی کرتے رہے کہ کچھ بھی ہوجائے زندگی میں ایک بار کسی طرح بھی سہی انہیں ان کی بیٹی سے ملا دیں گے۔ قدرت نے خود ہی آپ کو ملک محل میں پہنچا دیا۔ آپ کے آنے سے ہم سب نے سالوں بعد چچی کو خوش دیکھا مسکراتے دیکھا اس سے پہلے ایسے لگتا تھا جیسے وہ خوش نظر آنے کا ڈرامہ کرتی رہی ہیں۔

 ارسلان چچا خوش ہوئے انہوں نے بہت بار مجھے کہا کہ ذیان مجھے اپنی اولاد کی طرح پیاری ہے اگر اللہ مجھے بیٹی دیتا تو وہ ذیان جیسی ہوتی۔

یہ دونوں آپ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ان سچے رشتوں کی قدر کیجیے۔ ماضی پہ کڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ نرم دھیمے پھوار برساتے لہجے میں بات کر رہا تھا۔ ایک ایک لفظ دل پہ اثر کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں سچائی تھی۔ ”باقی میں اپنی اور اپنی فیملی کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دے سکتا نہ دینا چاہتا ہوں اس لیے میری باتوں کو ذہن میں رکھیے گا۔“

ذیان بہت کچھ کہنا چاہتی تھی پر اب اس کی زبان جیسے تالو سے چپک گئی تھی۔ ابیک اپنی بات پوری کر کے جس طرح آیا تھا اسی طرح جاچکا تھا۔

وہ نڈھال سے انداز میں بیڈ پہ اوندھی ہو کر گر پڑی۔ اسے سمجھ نہیںآ رہی تھی اپنی جیت پہ ہنسے خوشی منائے یا اپنی ہار پہ سوگ منائے ماتم کرے۔

Episode 87 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 87 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

نیناں کی پراسرار گمشدگی کا سراغ لگانے کے لیے ابیک انڈسٹریل ہوم کی عمارت میں موجود تھا۔

کیونکہ اطلاعات کے مطابق وہ صبح اپنے معمول کے مطابق گھر سے انڈسٹریل ہوم جانے کے لیے نکلی۔پھر اس نے وہاں کچھ ٹائم گزارا اور طبیعت میں گرانی کی شکایت کرتے ہوئے وقت سے کافی پہلے اٹھ آئی۔ پھراس کے بعد وہ کہاں گئی یہ کسی کے علم میں بھی نہیں تھا۔

انڈسٹریل ہوم میں آنے سے پہلے اس نے اپنے کمرے میں خط چھوڑا تھا کیونکہ وہاں سے طبیعت کی خرابی کا عذر پیش کر کے وہ اپنے کہے کے مطابق گھر نہیں لوٹی تھی۔ یعنی جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔اس سے ایک رات پہلے اس نے ابیک کو کال کی تھی اور حویلی میں ایک نوجوان کی آمد کا ذکر کیا تھا۔ عارفہ نے بھی اسے ایک اہم بات بتائی تھی۔

غائب ہونے سے کچھ دن پہلے وہ یہاں ایک اجنبی نوجوان کے ہمراہ آئی تھی جو کافی دیر اس کے آفس میں اس کے ساتھ موجود رہا تھا۔ عارفہ کے علاوہ دو تین اور عورتوں نے بھی اس نوجوان کو دیکھا تھا لیکن کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا اور نیناں کے ساتھ اس کا کیا رشتہ تھا۔

ابیک اس کی پرسرار گمشدگی سے الجھتا جارہا تھا۔ ملک ارسلان نے بھی عتیرہ کے زور دینے کی وجہ سے نیناں کی بازیابی کے لیے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔

ہر ممکن کو شش کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے۔ کسی نے اس کے ساتھ زبردستی نہیں کی ہے۔ لیکن اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط تمام تر دعوؤں اور قیاس آرائی کی نفی کر رہاتھا۔ اگر وہ اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے کہیں گئی تھی تو اسے ایسا خط لکھنے کی کیا ضرورت تھی جس کو پڑھ کر وہ سب پریشان اور خدشات کا شکار ہوگئے تھے۔

ابیک اس کی گمشدگی سے حد درجہٴ پریشان تھا۔ وہ اس سے انسیت محسوس کرنے لگا تھا۔ بے شک اس نے ملک محل میں کم عرصہ گزارا تھا مگر کبھی کسی کو شکایت کا موقعہ نہیں دیا تھا۔ ابیک نے اسے ہمیشہ سر جھکائے کسی نہ کسی کام میں مصروف دیکھا تھا۔ اس نے نیناں کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے سلائی کڑھائی کے سینٹر کا انچارج بنا دیا تھا اور وہ اس کے اعتماد پہ پوری اتری تھی۔

 عتیرہ بیگم اور ارسلان چچا اسے اپنے ساتھ لائے تھے ان کے مطابق وہ بے سہارا اور بے آسرا تھی ایک اتفاق کے نتیجے میں ان سے ٹکرائی اور وہ اسے ہمدردی میں اپنے ساتھ لے آئے۔ اس کے علاوہ ابیک سمیت کسی کو بھی نیناں کے بارے میں اور کچھ معلوم نہیں تھا۔ اگر نیناں بے سہارا اور بے آسرا تھی تو آفس میں جس نوجوان کو وہ اپنے ساتھ لائی تھی وہ کون تھا۔

بہت سے سوال اس کے ذہن میں ازخود پیدا ہو رہے تھے۔

نیناں نے ملک محل میں کسی اجنبی نوجوان کی آمد کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہ بات اس کے ذہن سے نکل ہی گئی تھی۔ وہ گھر واپس جارہا تھا۔ سب سے پوچھ گچھ کے بعد بھی کوئی سرا ہاتھ نہیں لگا تھا سوائے اس اجنبی نوجوان کے جس کو ایک دن وہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ پھر اس کے بعد اس نوجوان کو کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا اور نیناں خود بھی غائب ہو گئی تھی۔

پتہ نہیں اس اجنبی لڑکی کی خاطر وہ کیوں اتنا پریشان ہو رہا تھا۔ حالانکہ ملک محل میں بسنے والے باقی سب افراد نے نیناں کی گمشدگی کو ذہنی طور پہ قبول کرلیا تھا اور چپ ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ اس کی واپسی سے یہ قصہ ازسر نو تازہ ہوچکا تھا۔ اور وہ شد و مد سے اس کی گمشدگی کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔

اسے ملک محل واپس آئے چوتھا دن تھا۔

ان چاروں دنوں میں وہ ایک بار بھی سکون سے نہیں بیٹھا تھا پوری طرح مایوس ہوئے بغیر اس کی تلاش میں جتا ہوا تھا۔ نیناں اس کی پریشانی سے واقف ہوجاتی تو اپنی دعاؤں کی قبولیت پہ سجدہ شکر بجا لاتی۔

                                 

احمد سیال بیٹی کی پاکستان واپسی پہ سب دوست احباب کو ڈنر پہ انوائیٹ کر رہے تھے۔ انہوں نے اس کی گمشدگی کے دوران بہت کرائیسس کو فیس کیا تھا خاص طور پہ سب ایک ہی سوال کرتے تھے کہ رنم سیال اچانک کیوں باہر چلی گئی ہے جبکہ ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا اس کا۔

احمد سیال اس دعوت کے ذریعے سب کی تسلی کروانا چاہ رہے تھے۔

یہ آئیڈیا رنم کا تھا۔ وہ ملک ابیک کی پوری فیملی سے ایک نئی حیثیت سے ملاقات کرنا چاہ رہی تھی۔ اس لیے احمد سیال نے جب ملک جہانگیر کو فیملی سمیت انوائیٹ کیا تو انہیں یہ جان کر ازحد خوشی ہوئی کہ احمد کی بیٹی پاکستان واپس آئی ہے۔

رنم نے واپس آ کر اپنی ایکٹوٹیز میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔

اس نے سب سے پہلے بیوٹی سیلون کا رخ کیا تھا۔ملک محل میں رہتے رہتے اس کی اسکن ہاتھ پاؤں کی نرمی اور بالوں کا بیڑہ غرق ہوگیا تھا۔اسے اپنا آپ پرانی کنڈیشن میں واپس لانا تھا۔ بیوٹی سیلون کے بعد اس نے مارکیٹس اور شاپنگ مالز کا رخ کیا۔

بیوٹی سیلون میں صرف کیا گیا ٹائم اس کے لیے اچھے نتائج لایا۔ وہ پرانی رنم نظر آنے لگی تھی۔

بالوں کی کٹنگ کروا کر اس نے انہیں نئی لک دی تھی یہ سٹائل پہلے سے بھی زیادہ اس پہ سوٹ کر رہا تھا۔

اس کی نرم چمکدار جلد کی شادابی گالوں کی سرخی بالوں کا ریشمی ملائم پن ہاتھوں پاؤں کی نرمی سب کچھ لوٹ آئی تھی۔

احمد سیال نے ملک جہانگیر کی فیملی کو انوائیٹ کرلیا تھا۔ ان کے بیٹے کی شادی ہوگئی تھی وہ بھی اپنی بیوی کے ساتھ آرہا تھا۔ رنم بے پناہ خوش تھی۔

پپا نے اس کا ملک محل میں نیناں والا روپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں دفن کردیا تھا۔

یہ حقیقت صرف وہی دونوں جانتے تھے کہ رنم اتنے ماہ کہاں اور کیسے رہی ہے۔وہ دونوں ہی نیناں نامی باب کو کھولنا نہیں چاہتے تھے۔ احمد سیال کو بس اتنا پتہ تھا کہ رنم پڑھنے کے لیے کینیڈا گئی تھی لیکن وہاں پپا کے بغیر اس کا دل نہیں لگا تو واپس آگئی۔ انہیں رنم سے بڑھ کر دنیا میں کچھ بھی عزیز نہیں تھا۔

اور رنم جانتی تھی دنیا میں اگر اس کے لیے سب سے بڑھ کر قابل اعتماد اور قابل بھروسہ رشتہ صرف احمد سیال ہی کا ہے۔

ملک ابیک ارسلان چچا کی طرف تھا۔ اس نے رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھایا تھا۔

کھانے کے بعد ملازمہ موسم کے حساب سے کافی بنا کر لے آئی۔عتیرہ بھی ان دونوں کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ ملک ارسلان، ذیان کے بارے میں ابیک سے بات کر رہے تھے۔ وہ ایک باپ کی طرح اس کے لیے فکر مند تھے۔ ”ابیک اب ذیان بالکل ٹھیک ہے شکر ہے اللہ کا، جلالی باوا نے سب کچھ ٹھیک کردیا ہے۔“عتیرہ کا روئے سخن ابیک کی سمت تھا۔ اس کے لبوں پہ ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ کر دم توڑ گئی۔

Episode 88 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 88 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

 ”ہاں عامل جلالی باوا نے پکی گارنٹی دی ہے کہ اب ذیان پہ جن نہیں آئے گا،ملک ارسلان نے عتیرہ کی بات میں گرہ لگائی۔“ اب ذیان پہ جن آ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ابیک کا جن ذیان کے جن سے بڑا ہے۔“ارسلان اسے چھیڑ رہے تھے۔ عتیرہ خوشی اور امید سے سرشار تھیں۔ فضا میں ان تینوں کے قہقہے کی چہکار تھی۔

ذیان ملک جہانگیر کے پاس بیٹھی انہیں ایک کتاب سے مختلف اقتباسات پڑھ کر سنا رہی تھی۔

افشاں بیگم ذیان کو نثار ہوجانے والی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں وہ اندرونی خوشی سے سرشار تھیں اتنے دن سے ذیان پہ جن نہیں آیا تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی دورے کے آثار تھے۔ اس نے خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا تھا۔ سب سے بڑھ کر اس کی گم صم کیفیت ختم ہوگئی تھی۔

وہ ہنستی بولتی پہلے والی ذیان سے الگ ہی لگتی۔

اور تو اور اب وہ نوکرانیوں سے بھی بات چیت کرنے لگی تھی۔

عامل جلالی باوا کے عمل نے تو واقعی کام کردکھایا تھا۔ وہ جن اتارنے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے اور اس میں کوئی جھوٹ بھی نہیں تھا۔ ذیان ان کے علاج کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ وہ واقعی اپنے کام کے ماہر تھے۔

”بابا جان کیا ہو رہا ہے؟“ ابیک ارسلان چچا کی طرف سے واپس آگیا تھا۔ ملک جہانگیر بستر پہ سیدھے ہو کربیٹھ گئے۔

ان کے دائیں طرف ذیان تھی جو انہیں کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی۔ابیک کے آنے کے بعد وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو ذیان نے کتاب بند کر کے گود میں رکھ لی۔ ”پرسکون زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔“ملک جہانگیر نے مسکرا کر جواب دیا۔ ”آپ پہلے سے کافی بہتر لگ رہے ہیں۔“ابیک ان کے پاس بیٹھ گیا۔ ”میں بس اپنی آنکھوں کی وجہ سے پریشان ہوں ٹھیک طرح سے پڑھ ہی نہیں سکتا ذیان کے ذریعے اپنا شوق پورا کرتا ہوں۔

“انہوں نے بہت محبت سے ذیان کی سمت دیکھا تھا۔

 ”میں آپ کو شہر لے جاؤں گا اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کراؤں گا۔“ابیک نے انہیں تسلی دی۔ ”اب ڈاکٹر کیا ٹھیک کریں گے مجھے۔جب سے آنکھوں میں موتیا اترا ہے یہ مسائل پیش آرہے ہیں آپریشن کروانے کے باوجودبھی کبھی کبھی تو سب کے چہرے ہی گُڈ مُڈ ہوجاتے ہیں رشتہ داروں کے علاوہ کسی کی شکل ہی نہیں پہچان پاتا میں۔

خیر بڑھاپے میں یہ سب توچلتا ہی ہے میں نے اسے جان کا روگ نہیں بنایا ہے۔ تمہاری شادی کی خوشی میں نے اپنے جیتے جی دیکھ لی ہے اب معاذ کی فکر ہے۔“

 ”بابا جان معاذ کا آخری سمیسٹر ہے وہ جلد ہی آجائے گا۔“ابیک نے نرمی سے ان کی جھریوں بھرے ہاتھ کو تھپکا۔ ملک جہانگیر نے اپنے کڑیل جوان بیٹے کو بڑی محبت سے دیکھا۔ ”تم نے ہمیشہ مجھے طاقت دی ہے۔

اور ہاں احمد سیال کے ہاں دعوت پہ بھی جانا ہے۔اس نے پورے گھر والوں کو بلایا ہے۔اس کی بیٹی پاکستان واپس جو آگئی ہے۔“ ملک جہانگیر نے ایک بار پھر یاد دہانی کروائی۔

”ہاں بابا جان میں چلا جاؤ ں گا۔“وہ سعادت مندی سے بولا۔ ”تم اکیلے نہیں جاؤ گے ذیان بھی ساتھ جائے گی اور واپسی پہ تم سیدھے گھر آؤ گے۔میں نے تم دونوں کو شادی کے بعد ایک بار بھی اکٹھے ہنستے بولتے نہیں دیکھا ہے۔

ابھی ٹکو کچھ دن گھر میں۔“افشاں بیگم نے ٹوکا تو وہ ہنسنے لگا۔

ذیان نے نظر بچا کر اسے دیکھا۔ کھدر کے کرتے شلوار میں ملبوس ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھے وہ مغرور لگ رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی ذیان کی سمت نہیں دیکھا تھا۔ ”امی جان آپ کی بہو پہ اگر جن آگیا تو میرا کیا بنے گا۔“ ذیان کو اچھی طرح علم تھا وہ اس پہ طنز کر رہا ہے تب ہی تو اس پہ جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا تھا۔

 ”اب جن نہیں آئے گا۔ جلالی باوا نے پکا کام کیا ہے۔“ وہ چکرا کر رہ گیا۔پہلے عتیرہ چچی اور اب افشاں بیگم عامل جلالی باوا کے گن گا رہی تھیں ان دونوں سادہ لوح کم عقل اور کمزور ایمان کی مالک خواتین کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ بحیثیت عامل باوا کتنا بڑا فراڈ اور شیطان ہے۔اس کا ذکر سن کر ابیک کا موڈ آف ہوگیا تھا۔ ”چلو تم دونوں جاؤ اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔

“افشاں بیگم نے حاکمانہ انداز میں بول کر بات ختم کرنی چاہی۔ابیک نے فوراً سعادت مندی سے سر ہلایا وہ ذیان سے پہلے اٹھ کر گیا۔

ذیان نے مرے مرے قدموں سے بیڈ روم کا رخ کیا۔ ابیک بیڈ کے بالکل کونے پہ لیٹا ہوا تھا۔ذیان کو آتا دیکھ کر اس نے کروٹ بدل کر اس کی طرف پشت کرلی۔

ذیان کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔ ٹوٹی کرچیوں کی چبھن ناقابل برداشت تھی۔

اسے اپنی چیخیں روکنا مشکل ہوگیا۔ اس کی سسکیوں کی آواز فوراً ابیک کے کانوں تک پہنچی تھی۔ وہ جوتکیہ منہ پہ لیے لیٹا ہوا تھا۔ تکیہ منہ سے ہٹا کر اس کی طرف آیا جھٹکے سے کمبل اس کے منہ سے سرکایا۔ ”اب کیا پرابلم ہے سب کچھ آپ کی مرضی سے ہو رہا ہے میں آپ پہ کسی قسم کا کوئی شوہرانہ حق بھی نہیں جتا رہا ہوں جو آپ کو اس قسم کے ڈرامے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

“ ابیک کا اشارہ اس کی لال آنکھوں کی طرف تھا۔ ذیان کو اس کی باتیں تیر کی طرح لگیں۔ اس کی باقی سسکیاں سینے میں ہی گھٹ گئیں۔

”میرے سر میں درد ہے اس لیے رونا آگیا تھا۔“اس نے بمشکل خود کو سنبھالا۔ ”تو کوئی پین کلر لے لیں۔ یا میری موجودگی کی وجہ سے آپ کو پرابلم ہورہی ہے۔بتا دیں میں دوسرے روم میں سوجاؤں گا۔ آپ سے ویسے بھی ڈر لگنے لگا ہے جانے کس وقت آپ پہ جن آجائے۔

اور میرا تماشہ بن جائے۔“ ابیک کا لہجہ نرم مگر الفاظ بہت کاٹ دار تھے۔ ایک بار پھر ذیان کا دل چاہا کہ وہ غائب ہوجائے۔

وہ ابیک کی بات کا جواب دئیے بغیر کمبل تان کر لیٹ گئی۔ ابیک بھی اپنی طرف آ کر لیٹ گیا۔

”امی جان کی وجہ سے یہاں آنے اور سونے پہ مجبور ہوں کیونکہ مجھے سب کی نظروں میں موضوع گفتگو بننا پسند نہیں ہے۔ پہلے ہی بہت تماشہ اور مذاق بن چکا ہے میرا، آپ کے جن کی وجہ سے۔

اندھیرے میں اس کی آواز برچھی کی مانند اس کے کانوں میں آ کر لگی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

ذیان فیض احمد فیض کا نسخہٴ ہائے وفا ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی۔ فیض کی شاعری اسے حد سے زیادہ پسند تھی۔ وہ کتاب میں پوری طرح کھوئی ہوئی تھی جب پاس پڑا اس کا سیل فون سریلے سر بکھیرنے لگا۔ اس نے نمبر دیکھے بغیر فون آن کر کے کان سے لگالیا۔

”ذیان فون بند مت کرنا ورنہ حد سے بھی زیادہ پچھتاؤ گی۔“ اس کی ہیلو کے جواب میں دوسری طرف سے وہاب اپنی مخصوص سفاک آواز میں بول رہا تھا۔ ذیان کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔ ”کیوں کیا ہے فون مجھے تم نے۔“ اس نے اپنے لہجہ میں اعتماد سمونے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ”میں تو تمہارے گھر بھی آیا تھا کیا کسی نے بتایا نہیں تمہیں۔

تمہاری ماں سے مل کر گیا ہوں باتیں کی ہیں ان سے۔ تم یہ سمجھ رہی تھی کہ گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤ گی تو بچ جاؤ گی مجھ سے۔ میں تمہیں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالتا۔ تم تو مل گئی ہو اب مجھے زرینہ خالہ کو تلاش کرنا ہے۔ بہت حساب ہیں تم دونوں کی طرف۔“

حیرتوں کے بہت سے پہاڑ اکٹھے ذیان کے سر پہ ٹوٹے تھے۔وہاب یہاں ملک محل میں آیا تھا اور اسے پتہ بھی نہیں چلا۔

وہ مما سے ملا اور انہوں نے بھی اس سے یہ بات چھپائی۔

وہ ملک محل میں کیسے پہنچا۔ کس نے اسے یہاں کاپتہ دیا تھا۔اس کا پرسنل نمبر وہاب تک کیسے پہنچا۔ اور اب وہ کس برتے پہ اسے اتنی بڑی بڑی دھمکیاں دے رہا تھا۔وہ ملک محل میں آگیا اور اسے ذرا بھی ڈر نہیں لگا۔

گارڈز تو کسی اجنبی شخص کو ملک محل کے گیٹ سے اندر تک نہیں داخل ہونے دیتے اور اس نے عتیرہ سے ملاقت بھی کرلی۔

وہ ان سوالوں کے جواب اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی۔

”آئندہ مجھے فون کرنے کی کوشش مت کرنا۔“ذیان نے کمزور لہجہ میں اسے دھمکی دینے کوشش کی جیسے واقعی وہ ڈر جائے گا۔ اس کی توقع کے برخلاف وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس کی مسکراہٹ آج سے پہلے اسے کبھی اتنی مکروہ نہیں لگی تھی۔

”تمہیں فون کرنا کیسے چھوڑ دوں۔

تم میری زندگی کی ضمانت ہو میری محبت ہو۔کتنی مشکل سے تو تمہارا سراغ پایا ہے اور تم کہتی ہو کہ مجھے فون ہی نہ کرو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں نے ٹوٹ کر محبت کی ہے تم سے ذیان اور تم میری محبت، چاہت وفا سب کچھ ٹھکرا کر مجھ سے دور یہاں آگئی۔ تم سوچتی ہوگی کہ میں کبھی بھی تم تک نہیں پہنچ پاؤں گا۔ لیکن دنیا گول ہے اور میرے لیے اتنی بڑی نہیں ہوئی ہے کہ تمہیں تلاش نہ کرسکوں۔

Episode 89 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 89 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

سیل فون آف کر کے ذیان عتیرہ کی طرف چلی آئی۔ وہ عصر کی نماز میں مصروف تھیں۔

ذیان بے چینی سے اِدھر اُدھر چکر کاٹنے لگی۔ عتیرہ نماز سے فارغ ہو کر اس کی طرف آگئیں۔ وہ ایسے کم ہی آتی تھی اور آتی بھی تھی تو ان سے بات نہیں کرتی تھی۔ پر آج آتے ہی اس نے نوکرانی سے مما کے بارے میں پوچھا تھا۔ زیبو نے انہیں بتایا تھا اس لیے وہ فوراً اس کی طرف آئیں۔

جہاں وہ بے قراری سے چکر کاٹ رہی تھی۔

ذیان کے چہرے پہ پریشانی اور اضطراب تھا۔ عتیرہ کے دل میں خدشات سر اٹھانے لگے کہیں اس کے اور ابیک کے مابین کوئی جھگڑا یا تلخی تو نہیں ہوگئی ہے۔ ”کیا بات ہے بیٹا۔ آؤ میرے پاس بیٹھو۔“ انہوں نے محبت سے اپنی طرف بلایا۔ خلاف توقع وہ اعتراض اور انکار کیے بغیر ان کے پاس آ کربیٹھ گئی۔

ورنہ جب سے ذیان نے انہیں اپنی نفرت سے آگاہ کیا تھا اس کے بعد سے ان دونوں میں شاذو نادر ہی بات ہوتی تھی۔

ضرور کوئی نہ کوئی ایسی بات تھی جس نے ذیان کو نفرت بھی بھلا دی تھی۔

”مما یہاں وہاب آیا تھا؟“ اس نے انگلیاں باہم ایک دوسرے میں پھنسائی ہوئی تھیں۔

وہ امید افزاء نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی جیسے وہ انکار کر دیں گی۔ پر ان کا سر اثبات میں ہلا۔ جو اس کے خوف کو کئی گنا بڑھا گیا۔

”تمہیں کس نے بتایا ہے؟“ انہوں نے فوراً پوچھا۔

”میں نے تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ جلالی باوا تمہارا علاج کر رہے تھے۔ ساتھ میں بے حد پریشان ہوگئی تھی۔ تمہیں اپنے ساتھ پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہ بتاؤ تمہیں کس نے بتایا ہے۔ میرے علاوہ کوئی اس کا نام نہیں جانتا، بلکہ ملک محل میں کوئی بھی اسے نہیں جانتا۔“ ”مما ابھی اس کا فون آیا تھا۔“ ”کیا…!!“

عتیرہ شاکڈ تھیں۔ ”کیسے فون آیا اس کا؟“ وہ بدحواس ہوگئی تھیں۔

”مما میرے سیل فون پہ ابھی ابھی اس کی کال آئی تھی۔“ ”تمہارا نمبر کس نے دیا ہے اسے؟“ ”مما مجھے نہیں معلوم۔ میرا پرسنل نمبر کیسے اس کے پاس پہنچا، ملک محل سے باہر میرا نمبر کسی کے پاس نہیں ہے۔ یہاں تک کہ میرا یہ نمبر بوا رحمت کے پاس بھی نہیں ہے۔“ وہ بکھرے لہجہ میں بولی۔ ”پھر تمہارا نمبر اس نے کہاں سے لیا۔ پہلے وہ یہاں تک پہنچا پھر تمہارا نمبر حاصل کیا… پھر یہ کیسے ہوا سب؟“

عتیرہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔

”مما مجھے نہیں معلوم یہ سب۔ اس لیے تو آپ کے پاس آئی ہوں۔“ پریشانی سے اس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ تم نے کسی اور سے توبات نہیں کی۔“ ”نہیں مما میں سیل فون آف کر کے آپ کے پاس آگئی ہوں۔“ ”اوہ کسی سے فی الحال بات مت کرنا۔“ ”مما وہاب یہاں آیا تھا یہ بات کس کس کو پتہ ہے۔“ اس نے رک رک کر پوچھا۔“ میں نے یہ بات صرف ملک صاحب کو بتائی ہے۔ ہم دونوں کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔

“ ”مما یہ بات ابیک کو تو معلوم نہیں ہے ناں؟“ اس بار اس نے مما سے نظر چرائی تھی۔ ”نہیں اسے یہ بات معلوم نہیں ہے اور نہ ہی جہانگیر بھائی کو۔ یہ مصیبت بھی تم پہ میری وجہ سے آئی ہے میرے ماضی کی وجہ سے آئی ہے۔ تمہاری نفرت میں کئی گنا اضافہ ہوچکا تھا۔“ عتیرہ دل گرفتگی سے گویا ہوئیں تو ذیان ان کی طرف بس دیکھ کر رہ گئی۔

آج تک تم نے جو دیکھا سنا وہ ایک طرف کا موٴقف تھا۔

میں مانتی ہوں برسوں کی دوری نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ لیکن میں چاہتی ہوں تم ایک بار مجھ سے بھی حقیقت کے بارے میں جان لو پھر تمہیں نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہوگی۔“ عتیرہ کے چہرے پہ امید و بیم کی ملی جلی کیفیت تھی جیسے وہ آج ان کی بات سن لے گی۔ ذیان ان کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں بولی تھی۔ اس کی خاموشی کو عتیرہ نے اس کا اثبات تصور کیا اور تکلیف دہ ماضی کی طرف کھلنے والے دریچے نیم وا کردئیے۔

عتیرہ طلاق لے کر ابو کے پاس لوٹ آئی تھی۔ امیر علی نے بچی ا س سے چھین لی تھی۔

انہوں نے امیر علی کے خاندان کے بڑوں کو درمیان میں ڈال کر مصالحت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ بچی عتیرہ کے سپرد کردے۔ پر امیر علی نے سب کو ٹکا سا جواب دیا۔ وہ تو بچی کی شکل تک ماں کو دکھانے کا روادار نہ تھا کجا کہ اس کے حوالے کردیتا۔ اسے عتیرہ سے شدید قسم کی نفرت تھی۔

اس نفرت کا نشانہ ذیان اور عتیرہ دونوں ہی بنی تھیں۔ دونوں کو جیتے جی ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا۔

عتیرہ کے سامنے عدالت سے مدد لینے کا راستہ بھی موجود تھا۔ پر ابو نے یہ تجویز مسترد کردی۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے اگر انہوں نے بچی کی کسٹڈی کا کیس دائر کیا بھی تو جیت امیر علی کی ہوگی۔ اس کے پاس پیسے تھے وہ وکیل کو خرید سکتا تھا۔ جھوٹے گواہ پیش کرسکتا تھا ان کی رہی سہی عزت کو سرعام نیلام کروا سکتا تھا۔

وہ باپ بیٹی امیر علی کے مقابلے میں کمزور تھے۔ اس لیے چپ سادھ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ عتیرہ کی مسلسل خاموشی قاسم صاحب کے دل پہ قیامت ڈھانے لگی۔ وہ خود کو بیٹی کا مجرم تصور کرنے لگے۔ انہوں نے ہی تو شادی کروائی تھی ایک بار بھی اس کی مرضی یا رضا مندی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ چپ چاپ ان کے فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئی پر اس قربانی کا کوئی فائدہ نہیں ہوا سب رائیگاں تھا۔

راحت نے ملک ارسلان کو اس سانحے کی خبر کردی تھی۔ اس کے بجھے بجھے بے رونق چہرے پہ پھر سے خوشی نمودار ہونے لگی تھی۔ ادھر ملک جہانگیر کو بھی عتیرہ کے حالات سے آگاہی ہوگئی تھی۔ وہ پہلی بار جا کر قاسم صاحب اور عتیرہ سے ملے۔ ان کا چھوٹا سا گھر ایک عام متوسط علاقے میں تھا۔ مالی طور پہ وہ کسی طرح بھی ملک خاندان کے ہم پلہ نہیں تھے۔پر یہاں ان کے چھوٹے بھائی کا دل اٹکا ہوا تھا اس کی خوشی اس چھوٹے سے گھر میں ہی موجود تھی۔

انہوں نے قاسم صاحب سے عتیرہ کا رشتہ اپنے چھوٹے بھائی کے لیے مانگا۔

خلاف توقع عتیرہ نے سختی سے انکار کردیا۔ وہ کسی صورت بھی دوسری شادی کے حق میں نہیں تھی وہ اس امید پہ بیٹھی تھی کہ امیر علی ذیان کو اس کے سپرد کردے گا۔ وہ باقی زندگی اپنی بیٹی کے ساتھ گزار سکتی تھی۔ اس کے انکار نے ملک ارسلان کو پھر سے مایوسی کے اتھاہ غار میں دھکیل دیا۔

امیر علی نے دھوم دھام سے دوسری شادی کرلی۔ عتیرہ نے قاسم صاحب کے ذریعے اپنی فریاد ایک بار پھر امیر علی تک پہنچانے کی کوشش کی۔ پر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ بلکہ الٹا اس نے دھمکی دی کہ تم باپ بیٹی میں سے کوئی میرے گھر کے آس پاس بھی نظر آیا تو میں دونوں پہ جھوٹا مقدمہ بنوا دوں گا۔

اسی غم میں قاسم صاحب نے ایک رات خاموشی سے آنکھیں موند لیں۔

اب اس اکیلے گھر میں صرف عتیرہ اور اس کی تنہائی تھی۔ محلے والوں نے کچھ عرصہ ساتھ دیا لیکن کوئی کب تک خبر گیری کرسکتا تھا سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس کے سامنے تنہائی اور پہاڑ سی زندگی تھی۔ ملک جہانگیر ایک بار پھر اس کے پاس آئے۔ اس بار ان کے سمجھانے بجھانے پہ عتیرہ نے خاموشی سے ان کی بات مان لی۔ اس کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

Episode 90 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 90 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک محل میں سب نے کھلے دل سے اسے خوش آمدید کہا۔ ملک ابیک اور ملک معاذ چھوٹے چھوٹے تھے۔ انہیں دیکھ کر عتیرہ کو ذیان یاد آنے لگتی۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے ایک بار پھر اسے ملنے کی سعی کی۔ اس مقصد کے لیے اس نے بوا رحمت کو خط لکھا اور ذیان سے کسی بھی طرح چھپ کر ملاقات کروانے کو کہا۔ اس خط کے مندرجات الفاظ دل ہلا دینے والے تھے یہ صرف ایک خط نہیں تھا ماں کے دکھی دل کی فریاد تھی۔

اس نے جس جتن سے یہ خط بوا کو بھیجا یہ وہی جانتی تھی۔ پر اسے خط کا کوئی جواب نہیں ملا۔

ملک ارسلان اس کی حالت دیکھ دیکھ کر کڑھتے۔ وہ اسے گھمانے پھرانے کے لیے ورلڈ ٹور پہ لے گئے۔ پر عتیرہ کے دل کی بے کلی ختم نہ ہوئی۔وہ کافی عرصہ نفسیاتی معالج کے زیر علاج رہیں لیکن دل سے بیٹی کی یاد کو نہ نکال سکیں۔

ملک ارسلان نے انہیں اندھیری راتوں میں سب سے چھپ کر اللہ کے سامنے فریاد کرتے روتے گڑگڑاتے دعائیں مانگتے دیکھا۔

عتیرہ کی دعاؤں کی قبولیت میں سالوں لگ گئے۔ پھر ایک دن وہ معجزہ ہوگیا جس کی توقع وہ جانے کب سے کر رہی تھیں۔ بوا رحمت نے خود ان سے رابطہ کیا اور ذیان کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کہا۔ اٹھارہ برس بعد یہ انہونی ہوئی تھی۔ خوشی سے ان کے ہاتھ پاؤں پھولے جارہے تھے۔ ملک ارسلان عتیرہ کو خوش دیکھ کر خود بھی شادمان تھے۔ وہ بذات خود جا کر ذیان کولے کر آئے۔

عتیرہ جس بیٹی سے ملنے کی تمنا میں برسوں سے تڑپ رہی تھی یہ وہ تو نہیں تھی۔ ذیان تو ان کی شکل تک دیکھنے کی روا دار نہ تھی۔

”بس یہ تھی میری زندگی کی کہانی اور سچائی۔“ عتیرہ ماضی کا سفر کر کے حال میں لوٹ آئی تھیں۔ انہوں نے ذیان کی طرف دیکھا دونوں بغیر پلک جھپکائے ایک دوسرے کی سمت دیکھ رہی تھیں۔ اچانک ذیان اپنی جگہ سے اٹھی اور بھاگ کر ان کے گلے سے آلگی۔

آنسوؤں کی جھڑی اس کی آنکھوں سے بہہ رہی تھی۔ اپنی غلط فہمیوں غلط سوچوں پہ وہ جی بھر کر شرمندہ تھی۔ اپنی ماں کی مجبوریوں کا ادراک اسے اب آ کر ہوا تھا۔ ذیان نے انہیں ہمیشہ انہیں قصور وار اور مستوجب سزا ہی تصور کیا کتنا برا کرتی آئی تھی وہ ان کے ساتھ۔ پھر انہوں نے اپنی تکلیف کا اظہار کبھی بھی نہیں کیا۔ ذہنی اذیت کرب آنسو جو وہ انہیں دے چکی تھی کچھ بھی تو بھولنے کے قابل نہ تھا۔

ذیان اپنی گزشتہ زندگی اور رشتوں سے بدگمان ہی رہی۔ امیر علی کی کمزوری اور نفرت کی بدولت زرینہ بیگم کے ہاتھ مضبوط ہوئے جس کی وجہ سے وہ ذیان کو اذیت دیتی رہی۔ امیر علی گھر کے سکون کو خراب ہونے سے بچانے کی خاطر خاموش رہے ان کی یہی خاموشی اور چشم پوشی ذیان کو اذیت پرستی اور خود اذیتی کے گہرے اندھیروں میں لے جانے کا باعث بنی۔ وہ خود سے وابستہ خود سے چاہنے والوں کو اذیت دینے کی عادی ہوتی گئی۔

یہ بات بھی قابل غور تھی کہ وہ خود سے وابستہ بہت قریبی رشتوں کو ہی اذیت دیتی آئی تھی سب سے پہلے امیر علی ہی اس کا نشانہ بنے تھے نفرت کا جو بیج انہوں نے بویا تھا اب ذیان کی صورت کاٹنا تو تھا۔ اسے انہیں بے سکون کر کے نظر انداز کر کے عجیب سی خوشی ملتی۔ امیر علی کے بعد عتیرہ اور پھر ابیک کا نام اس فہرست میں تھا۔

وہ ملک ارسلان سے بھی برگشتہ رہی تھی اس کے خیال میں وہ بھی برابر کے قصور وار تھے۔

اب وہ عتیرہ کی گود میں سر رکھے رو رہی تھی۔

ملک ارسلان اچانک اس طرف آئے تھے۔ دونوں ماں بیٹی کو دھواں دھار روتے دیکھ کر وہ بغیر کچھ پوچھے ہی سمجھ گئے تھے۔ انہوں نے دونوں کو چپ کروایا۔ عتیرہ کے آنسو اب بھی نہیں رک رہے تھے۔ ملک ارسلان کا ایک ہاتھ ذیان کے سر پہ تھا وہ اسے تسلی دے رہے تھے وہ ننھے بچے کی طرح ہمک کر ان کے دائیں بازو سے آلگی۔

”بابا ایم سوری بابا میں آپ دونوں کو غلط سمجھتی رہی۔“ ندامت سے اس کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔ ملک ارسلان نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

عتیرہ، ذیان اور ارسلان، تینوں ایک ساتھ ، روتی آنکھوں کے ساتھ چہرے پہ مسکراہٹ لیے، یہ تصویر اب مکمل تھی۔

احمد سیال کی طرف سے دی گئی دعوت میں ملک جہانگیر، افشاں بیگم ملک ابیک اور ذیان چاروں ہی آئے تھے۔

ذیان کا اس قسم کی دعوت میں آنے کا پہلا اتفاق تھا۔ احمد سیال کا تعلق بزنس کلاس سے تھا ان کے مدعو کیے گئے مہمانوں میں اکثران کے سوشل سرکل سے تعلق رکھتے تھے۔

احمد سیال نے بڑی گرمجوشی سے ان سب کی اور خاص طور پہ ذیان کی خیر خیریت دریافت کی تھی۔ اسے ایک ثانیے کے لیے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے انہوں نے اسے گہری نگاہ سے دیکھا ہو بعد میں یہ احساس پوری تقریب کے دوران اس پہ حاوی رہا۔

احمد سیال نے اپنی اکلوتی صاجزادی سے ان کا تعارف کروایا۔ ریڈ کلر کے ماڈرن ڈریس میں ان کی بیٹی شعلہٴ جوالہ بنی ہوئی تھی۔ ذیان بھی ڈیپ ریڈ کلر کے کامدار سوٹ میں ملبوس تھی۔ مگر نہ جانے احمد سیال کی بیٹی سے تعارف حاصل کرنے کے بعد ذیان کو اپنی تیاری اپنا قیمتی ڈریس میچنگ جیولری نفاست سے کیا گیا میک اپ سب کا سب ہی انتہائی فضول لگنے لگا۔

احمد سیال کی لاڈلی بیٹی پوری محفل پہ چھائی ہوئی تھی۔

ذیان اسے دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ وہ احمد سیال کے گھر میں ان کی بیٹی کے روپ میں اس حلیے میں اسے نہ ملتی تو وہ کبھی بھی اسے رنم سیال ماننے پہ آمادہ نہ ہوتی ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ نیناں کی مشابہت لیے رنم سیال ہے۔ لیکن یہ سو فیصد احمد سیال کی بیٹی رنم تھی بھلا کہاں نیناں ایک عام سی لڑکی اور کہاں رنم سیال ایک بزنس ٹائیکون کی ماڈرن بیٹی جو پڑھنے کی غرض سے پاکستان سے باہر گئی ہوئی تھی۔

کچھ ایسا ہی حال ملک ابیک کا بھی تھا جب احمد سیال نے رنم کا تعارف ملک فیملی سے کروایا۔ وہ بے یقینی سے رنم سیال کو دیکھ رہا تھا جس کے ریڈ لپ سٹک سے سجے ہونٹ بہت خوبصورتی سے مسکرا رہے تھے۔ اس نے انتہائی گرمجوشی سے ملک ابیک سے ہاتھ ملایا۔ خیر مقدمی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ابیک بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ رنم کی آنکھوں میں شناسائی کی کوئی رمق نہ تھی۔

ابیک اور ذیان تو اسے دیکھ کر چونک گئے تھے جبکہ افشاں بیگم کا رویہ نارمل تھا۔

کیونکہ رنم سیال کی پوری لک ہی Change تھی صرف ہلکی پھلکی نقوش کی مشابہت سے کیا ہوتا تھا۔ رہ گئے جہانگیر ملک تو ملک محل میں بہت کم ان کا سامنا نیناں سے ہوا تھا اور انہوں نے اس پہ خاص توجہ ہی نہیں دی تھی ویسے بھی موتیے کے آپریشن کے بعد ان کے ساتھ بصارت کے مسائل ہو رہے تھے۔

ابیک اور ذیان دونوں رنم سیال کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ اس کا ہر انداز نیناں سے مختلف تھا۔

ڈنر کے بعد گاؤں واپسی کے لیے ٹائم نہیں رہا تھا۔ احمد سیال نے بڑی محبت کے ساتھ انہیں رکنے کی پیش کش کی۔ تقریب ختم ہوچکی تھی ان کے سوا باقی سب مہمان واپس جا چکے تھے۔ رنم نے اپنے کلاس فیلوز میں سے کسی کو بھی مدعو نہیں کیا تھا انہیں اس کے آنے کی ابھی تک خبربھی نہیں ملی تھی۔

وہ دل ہی دل میں ان سے ناراض تھی خاص طور پہ کومل اور فراز سے تو وہ انتہائی بدگمان اور برگشتہ تھی اس لیے تو اس نے ان دونوں کو ابھی تک اپنی واپسی کا بھی نہیں بتایا تھا۔

رنم بہت خوش تھی ابیک پہلی بار اس سے ملا تھا۔ وہ رنم سیال کے چہرے کے ساتھ تھی اس کی حیرت دیکھ دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پہ الجھن تھی یہی حال ذیان کا بھی تھا پر رنم نے اسے خاص اہمیت نہیں دی تھی۔

اس کی پوری توجہ ملک ابیک کی طرف تھی۔

ملک جہانگیر، افشاں بیگم، احمد سیال اور ذیان ایک ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے تھے بلکہ ذیان صرف سامع کے فرائض سر انجام دے رہی تھی۔ جبکہ رنم ایک الگ صوفے پہ ملک ابیک کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے چکر میں تھی۔

”اچھا آپ شہر کے ساتھ ساتھ گاؤں میں بھی پراجیکٹ پہ کام کر رہے ہیں واؤ گریٹ۔

“ رنم نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ ”جی ہاں میں ایک سکول بھی بنوا رہا ہوں تعمیر کے مراحل میں ہے وہ۔ اور انڈسٹریل ہوم مکمل ہو کر کام شروع کرچکا ہے۔ بہت سی عورتیں بچیاں وہاں آتی ہیں ان کے ہاتھ کا تیار کیا ہوا کام ہنر اور دست کاری کے نمونے شہر کی مارکیٹس تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ نیا نیا کام ہے آہستہ آہستہ میں اپنا دائرہ کار بڑھاؤں گا۔

“ رنم کی دلچسپی محسوس کرتے ہوئے ملک ابیک اسے تفصیل سے بتا رہا تھا۔

 ”آپ تو بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ مجھے بھی سوشل ورک سے دلچسپی ہے میرا دل چاہتا ہے غریب بے سہارا لوگوں کے لیے کچھ کروں۔“ ”آپ ضرور کریں اگر اللہ نے توفیق دی ہے تو قدم آگے بڑھائیں۔ معاشرے کے یہ محروم پسے ہوئے لوگ بہت سے حقوق اور صحت کی بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔

“ ”میں آپ کے گاؤں آؤں گی۔ سکول اور انڈسٹریل ہوم دیکھنے۔ مجھے بھی گائیڈ لائن چاہیے جس پہ کام شروع کرسکوں۔“

”آپ آئیے گا میں آپ کا انتظار کروں گا۔“ ملک ابیک بہت خوش ہوا۔ اس ماڈرن لڑکی کے منہ سے غریب، غریب لوگوں کے مسائل سن کر اسے بہت اچھا محسوس ہوا۔ وہ غریب لوگوں کے لیے ہمدردی رکھتی تھی اس کی سوچ عام امیروں کی مانند صرف اپنے آپ تک محدود نہیں تھی وہ انسان اور انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتی تھی۔ پہلی ملاقات میں ہی وہ دونوں بے تکلف ہوگئے تھے۔

Episode 91 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 91 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

آہستہ آہستہ سب ہی سونے کے لیے جا چکے تھے صرف ابیک اور رنم ہی وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے باتوں کے دوران انہیں تیزی سے گزرتے وقت کا احساس تک نہ ہوا۔ اچانک وال کلاک پہ ابیک کی نظر پڑی جو ڈھائی بجے کا وقت بتا رہا تھا۔ تب ابیک اسے گڈ نائیٹ کہہ کر اٹھا۔

ذیان صوفے پہ سکڑی سمٹی لیٹی ہوئی تھی پر وہ سو نہیں رہی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پہ اس نے بے اختیار گردن موڑ کر دیکھا۔

دوسری نظر اس نے وال کلاک پہ ڈالی۔ عام طور پہ وہ اتنی رات گئے جاگنے کا عادی نہیں تھا کیونکہ اس کا پورا دن مصروف گزرتا تھا اس لیے وہ رات جلدی سوتا اور صبح جلدی بیدار ہوتا تھا آج وہ اپنے معمول سے کافی لیٹ تھا۔ ذیان کو نئی جگہ اور رنم سیال کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی۔ رنم سیال بالکل نیناں کی ہمشکل تھی۔

نیناں کی پراسرار گمشدگی اور رنم کا اس سے مشابہت رکھنا دونوں باتیں اسے ناقابل یقین لگ رہی تھیں جتنا سوچتی الجھتی جاتی۔

افشاں بیگم نے رنم سیال پہ زیادہ توجہ نہیں دی تھی، ماڈرن لک میں اسے ویسے بھی نیناں کی حیثیت سے شناخت کرنا قریب قریب مشکل تھا۔

”کیا بات ہے ابھی تک آپ سوئی نہیں ہیں؟“ ابیک نے ایک دوستانہ نظر اس پہ ڈالی۔ ورنہ تنہائی میں وہ کم ہی اس سے مخاطب ہوتا۔ وہ شہر میں کافی مصروف ہوگیا تھا ہفتے میں دو چکر گاؤں کے لگتے اور تب بھی وہ مصروف ہی ہوتا سارا دن گھر سے باہر رہتا رات کو آتا تو پڑ کے سوجاتا۔

اس دن کے بعد سے وہ تو ذیان کے لیے جیسے بالکل ہی اجنبی ہوگیا تھا۔ افشاں بیگم نے اس کی بے تحاشہ مصروفیت کی وجہ سے گھر میں ٹک کر بیٹھنے اور رہنے کی پابندی لگا دی تھی۔ انہیں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کی مصروفیت کی وجہ سے ذیان نظر انداز ہو رہی ہو۔ تب ہی انہوں نے کہا کہ کچھ دن گھر میں رہو ذیان کو گھمانے پھرانے لے جاؤ اسے ٹائم دو۔جواب میں اس نے نہ انکار کیا نہ اقرار۔

ملک ارسلان نے ابیک کا مصروف ترین شیڈول دیکھتے ہوئے ذیان کو آگے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ گھر میں کسی کو بھی اعتراض نہیں تھا۔

وہ اپنا تعلیمی سلسلہ شروع کرتی تو لامحالہ اسے شہر میں رہنا پڑتا۔ اور شہر میں ملک ابیک کے پاس اپنی رہائش تھی اس صورت میں دونوں زیادہ سے زیادہ اکٹھے رہ سکتے تھے کیونکہ ملک ابیک کا زیادہ وقت شہر میں ہی گزرتا تھا آج کل وہ گاؤں میں جو مصروف تھا۔

”جی نیند نہیں آرہی ہے۔“ ذیان نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا کیونکہ ابیک نے اسے خود سے مخاطب کیا تھا۔ وہ صوفے پہ بیٹھ کر شوز اتار رہا تھا ذیان نے دزدیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اب ابیک پاؤں میں پہنی گئی جرابیں اتار رہا تھا۔ اس کے پاؤں بالکل صاف ستھرے ناخن شیپ میں تراشے ہوئے تھے اس کے پاؤں کی انگلیوں پہ ہلکے ہلکے بال موجود تھے جو بہت بھلے لگ رہے تھے۔

اب وہ اپنی شرٹ کے اوپری دو بٹن کھول رہا تھا کوٹ اس نے پہلے ہی اتار کر صوفے کی بیک پہ ڈال دیا تھا۔ اس کی شرٹ کی آستیش فولڈ تھیں جو صوفے پہ بیٹھے بیٹھے اس نے ابھی ابھی کی تھیں۔اس کی ہاتھ کی پشت اور بازوؤں پہ بھی گھنے بال تھے۔ وہ غور سے دیکھ رہی تھی۔”میرا خیال ہے آپ کا جائزہ مکمل ہوچکا ہے میں Change کرلوں ذرا۔“ ابیک نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا وہ باتھ روم کی طرف جارہا تھا۔

ذیان اس کی بات پہ جھینپ سی گئی اس نے ذیان کی نگاہوں کی چوری پکڑلی تھی۔ اسے شرمندگی ہونے لگی۔ اس نے منہ کمبل کے اندر کرلیا۔ ابیک شاور لے کر آیا تو کمبل میں سر سے پاؤں تک ملفوف تھی یہاں تک کہ اس کی ایک انگلی یا بال تک بھی نظر نہ آرہا تھا۔

ابیک لائیٹ بند کر کے بیڈ پہ آگیا، وہ اب فارغ تھا۔ ذیان کی طرح وہ بھی نیناں اور رنم کی حیرت انگیز مشابہت پہ حیران تھا۔

لیکن اپنی حیرانی اس نے رنم سیال پہ ظاہر نہیں کی۔

گھر لوٹنے پہ ذیان سب سے پہلے عتیرہ کی طرف گئی۔ وہ انہیں کچھ بتانے کے لیے بے چین تھی۔

عتیرہ لان میں بیٹھی خوشگوار دھوپ سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔ ذیان بھاگنے والے انداز میں ان کے پاس آ کر بیٹھی تھی۔ وہ فوراً اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔ ذیان کے چہرے پہ جوش جھلک رہا تھا۔ ”مما مما میں نے نیناں سے ملتی جلتی لڑکی دیکھی ہے۔

“ اس نے دانستہ طور پہ اپنے لہجہ میں سسپنس سمویا تھا۔

”کہاں دیکھی ہے؟“ عتیرہ فوراً سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں۔ ”مما ہم جن کے گھر دعوت میں گئے تھے ان کی بیٹی بالکل نیناں کی ہم شکل ہے۔ وہ پاکستان سے باہر تھی حال ہی میں وہ واپس آئی ہے۔“ ”اوہ تو تم سب جہانگیر بھائی کے دوست احمد سیال کی طرف گئے تھے…“ عتیرہ نے پرسکون سانس لی۔ ”آپ کو جہانگیر انکل نے بتایا تو تھا کہ ہم سب ان کی طرف انوائیٹ ہیں۔

”ہاں میرے ذہن سے یہ بات نکل ہی گئی تھی۔ جہانگیر بھائی کو اپنے اس دوست کی بیٹی بہت پسند تھی ابیک کے لیے جا کر دیکھ بھی آئے تھے۔ ہم سب نے بھی احمد سیال کی بیٹی دیکھنے کے لیے جانا تھا لیکن پھر بعد میں پتہ چلا کہ وہ پڑھنے کے لیے باہر چلی گئی ہے یوں بات آگے بڑھے بغیر ہی ختم ہوگئی۔“ عتیرہ نے اپنی دھن میں بے ساختہ اسے بتایا۔ ذیان کے دل کو کچھ ہوا تھا۔

اسے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اس سے پہلے بھی ابیک کے لیے کسی کو پسند کیا گیا ہے۔

ابھی مما کی زبانی اسے یہ علم ہوا تھا اور جانے کیوں اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔

بات مکمل کر کے عتیرہ نے اس کی طرف دیکھا تو وہاں انہیں اداسی نظر آئی۔ انہوں نے جیسے اس کا چہرہ اور نگاہیں پڑھ لی تھیں۔ ”اصل میں احمد سیال کی بیٹی جہانگیر بھائی کو معاذ کے لیے پسند تھی پر اس نے کہا کہ میں لڑکی دیکھے بغیر شادی نہیں کروں گا اس نے جہانگیر بھائی کو ٹال دیا تھا۔

معاذ نے کہا میں تو ابھی شادی کروں گا نہیں آپ کو اپنے دوست کی بیٹی اتنی ہی پسند ہے تو آپ ابیک بھائی کے لیے بات چلائیں۔ یہ بات جہانگیر بھائی کے ذہن میں بیٹھ گئی۔ حالانکہ افشاں بھابھی اس کے لیے قطعی طور پہ راضی نہیں تھیں اور ابیک بھی خاموش خاموش سا رہنے لگا تھا۔ پھر بعد میں خود بہ خود ہی بات ختم ہوگئی۔

تم یہاں آئی تو افشاں بھابھی کو پہلی نظر میں ہی بھاگئی۔

جہانگیر بھائی کا بھی یہی حال تھا اور رہا ابیک تو اسے بھی کوئی اعتراض نہیں تھا اس نے خوشی سے تمہارے ساتھ شادی کے لیے رضا مندی دی تھی۔“ عتیرہ کو ٹوٹ کر ذیان پہ پیار آیا اسوقت وہ چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی۔ اس بات نے اسے بری طرح ہرٹ کیا تھا کہ جہانگیر انکل نے اس سے پہلے احمد سیال کی بیٹی کو ابیک کے لیے پسند کیا تھا۔ لیکن یہ بات خوشی کا باعث تھی کہ افشاں بیگم راضی نہیں تھیں اور معاذ نے تو دیکھے بغیر ہی انکار کردیا تھا۔

نہ جانے کیوں اسے رنم سیال سے حسد محسوس ہو رہا تھا اپنا آپ اسے کمتر لگ رہا تھا وہ اپنا اور اس کا موازنہ کر رہی تھی۔ رنم سیال ایک امیر باپ کی بیٹی تھی جبکہ وہ کرب ناک حالات سے گزر کر حویلی پہنچی تھی۔ رنم سیال کے ساتھ شادی کی صورت میں ابیک کو بے پناہ مالی فوائد حاصل ہوتے لیکن اس نے ذیان کو بغیر کسی لالچ کے اور جہیز کے اپنی زندگی میں شامل کیا تھا۔

جوں جوں وہ سوچتی جارہی تھی احساس کمتری کے گہرے غار میں اترتی جارہی تھی۔

”پاپا مجھے گاؤں جانا ہے ابیک کے ساتھ مجھے بھی وہاں ایک پراجیکٹ شروع کرنا ہے۔“ وہ انہیں مطلع کر رہی تھی۔ احمد سیال نے اسے بے بسی سے دیکھا۔ وہ ان کے ہاتھوں میں پلی بڑھی تھی وہ انہیں بہت کچھ بتانے کے لیے کافی تھا۔ جب وہ آئی تھی اس نے تفصیل سے پپا کو ایک ایک بات سے مطلع کیا تھا۔

ابیک سے اپنا لگاؤ اور پسندیدگی ظاہر کرنے میں اسے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی تھی۔

اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ ابیک شادی شدہ ہے۔ وہ اسے بری طرح بھا گیا تھا۔ احمد سیال نے صرف اس کی خواہش پہ ملک جہانگیر کی فیملی کی خاطر اتنی بڑی تقریب منعقد کی تھی۔ وہ اس کی کوئی بات بھی نہیں ٹال سکتے تھے۔ وہ ضدی تھی اس نے روتے ہوئے پپا سے التجا کی تھی کہ وہ اسے کسی بھی طرح ابیک سے ملوا دیں شادی کروا دیں۔

وہ رو رہی تھی اور ان کا دل کٹ رہا تھا۔ پہلے بھی اپنی بات نہ ماننے پہ وہ گھر چھوڑ گئی تھی اس بار وہ کوئی انتہائی قدم اٹھا لیتی تو وہ کیا کرتے۔ انہوں نے اس کی آنکھوں میں ایک نیا رنگ دیکھا تھا یہ جنون کا وحشت کا رنگ تھا۔ وہ ملک ابیک پہ صرف اور صرف اپنا حق سمجھ رہی تھی کیونکہ ابیک کا رشتہ پہلے اسی کے لیے ہی تو آیا تھا۔ وہ گھر چھوڑ کر نہ جاتی تو آج ابیک کی بیوی بن کر ملک محل میں بیٹھی ہوتی اس کی محبتوں پہ بلا شرکت غیرے صرف اور صرف اسی کا حق ہوتا۔

کاش یہ بات اسے ملک محل میں رہتے ہوئے ہی معلوم ہوجاتی تو وہ کسی صورت بھی ابیک اور ذیان کی شادی نہ ہونے دیتی۔ بھلا ذیان ہوتی کون ہے ابیک کی زندگی میں آنے والی۔ جہانگیر انکل نے اسے اپنے بیٹے کے لیے پسند کیا تھا۔ ابیک صرف اسی کا ہے۔

وہ گاؤں میں ابیک کے قریب رہنے کے لیے پلاننگ کر رہی تھی۔احمد سیال نے اس مقصد کے لیے بھاری رقم اس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دی تھی۔

Episode 92 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 92 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

رنم سیال ملک محل آرہی تھی۔ ملک جہانگیر اس کے لیے گیسٹ روم از سر نو ڈیکوریٹ کروا رہے تھے۔ ملک جہانگیر رنم سیال کی آمد پہ خوش تھے وہیں پہ ذیان پریشان تھی۔ ابیک کے ساتھ صرف ایک ملاقات کے بعد ہی اس نے گاؤں آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جواباً ملک ابیک نے بڑے خلوص سے اسے گاؤں آنے کی دعوت دی تھی۔

”معاذ ہم ان کے گھر گئے تھے دعوت پہ۔ یقین کرو وہ بالکل نیناں جیسی ہے۔

“ میں تو اسے دیکھ کر چونک گئی تھی وہ ہو بہو نیناں جیسی تھی شکل و صورت میں صرف ڈریسنگ کا فرق تھا حیرت انگیز مشابہت دیکھی ہے میں نے تو پہلی بار۔“ وہ معاذ کے ساتھ سکائپ پہ بات کرتے ہوئے جوش و خروش سے احمد سیال کے گھر جانے اور ان کی بیٹی سے ملنے کا احوال بتا رہی تھی۔ معاذ کو کچھ دن پہلے ہی نیناں کی گمشدگی کے بارے میں علم ہوا تھا۔

وہ اپنی پڑھائی کی وجہ سے مصروف تھا اس لیے اتنی توجہ نہ دے سکا تھا۔

آج فرصت سے ذیان سے بات ہو رہی تھی تو وہ اسے نئی نئی باتیں بتا رہی تھی۔

 ”تو آپ سب سے وہ کیسے ملی؟“ معاذ اندر سے چونک گیا تھا لیکن ذیان کے سامنے اس نے اظہار نہیں کیا۔ ”ہم سب سے تو اچھے طریقے سے ملی تمہارے بھائی جان کو تو اس نے خاص طور پہ کمپنی دی ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی بے تکلف ہوگئی اور اب وہ ہمارے گھر بھی آرہی ہے گیسٹ روم تیار ہے اس کے لیے۔

“ آخر میں ذیان جل کر بولی تو معاذ ہنسنے لگا۔ ”وہ ہمارے گھر کیوں آرہی ہے؟“ ”گاؤں دیکھنے آرہی ہے اور کچھ سوشل ورک کرنے۔“ ذیان نے سادگی سے بتایا۔ ”سوشل ورک کے لیے اسے شہر میں کچھ نظر نہیں آیا جو گاؤں آرہی ہیں وہ اتنی دور۔“ معاذ دل میں کچھ سوچ رہا تھا۔“ وہ اسے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ رنم کی طرف سے ہوشیار ہوجائیں۔ ذیان پریشان ہوجاتی۔

احمد سیال کے گھر جب اس نے ان کی بیٹی کے فوٹو دیکھے تو نہ جانے کیوں آپ ہی آپ اس کی سوچوں کا دھارا نیناں کے گرد مڑ گیا تھا۔ اسے جان کر تنگ کرتا تھا۔

بہت سے مواقع پہ معاذ کو ایسا محسوس ہوا کہ نیناں اصل میں وہ ہے نہیں جو وہ خود کو ظاہر کرتی ہے اگرچہ اس نے خود کو ملک محل کے رنگ میں ڈھالنے کی پوری پوری کوشش کی تھی پھر بھی معاذ کی حساس اور زیرک نگاہ کو کسی گڑ بڑ کا احساس ہوتا رہا۔

وہ معاذ کے سوالوں سے ڈر جاتی۔ اس کی نگاہوں سے بچنے کی کوشش کرتی۔

احمد سیال کی بیٹی اب اچانک بیرون ملک سے واپس آگئی تھی جس طرح اچانک گئی تھی۔

نیناں غائب ہوئی تو وہ منظر عام پہ آگئی۔ جانے کیا گورکھ دھندا تھا، پہلی ملاقات میں ہی ابیک سے بے تکلفی بھی معنی خیز تھی۔ معاذ اس کے بارے میں شاید کبھی بھی ایسے تجسس کا شکار نہ ہوتا۔

اگر وہ اسے اتفاقاً ذیان بھابھی کی طرف عجیب حسد سے بھری نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نہ پکڑتا۔ وہ کیسی عجیب مبہم نگاہیں تھیں جن کی نفرت کا جواز پیش کرنا مشکل تھا۔

معاذ کو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے نیناں اور اب رنم سیال ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں۔

اس نے اپنے اندازے اور محسوسات سے ذیان کو لاعلم ہی رکھا تھا۔ وہ بے پناہ حساس طبیعت کی مالک تھی پریشان ہوجاتی۔

ملک ابیک تیار ہو کر پرفیوم اسپرے کر رہا تھا۔

سلمیٰ ادھر ہی پاس بیٹھی اس کے جوتے پالش کر رہی تھی۔ ذیان سیل فون ہاتھ میں تھامے خواہ مخواہ ہی مصروف نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔

ابیک پرفیوم اسپرے کر کے بیٹھ گیا تھا۔ سلمیٰ نے بڑی پھرتی سے شوز اس کے پاؤں کے قریب رکھے۔ ذیان نے گردن موڑ کر ابیک کی طرف دیکھا وہ صاف دھلی ہوئی جرابیں پہن رہاتھا۔

اس کی ظاہری حالت بھی بہت منظم تھی اس کی شخصیت کی طرح۔ وہ اسے مجبور کر رہا تھا ذیان اس کی طرف دیکھے کچھ ایسا سحر تھا اس کی شخصیت میں۔

سلمیٰ نے آخری بار اپنے دوپٹے کے کونے سے ابیک کے شوز پہ لگی نادیدہ گرد جھاڑی۔ اس سمے اس کی نگاہوں میں ابیک کے لیے خاموش سی عقیدت تھی کیونکہ وہ بغیر اس کے کہے اس کی ضرورتوں کو سمجھ کر اکثر وبیشتر اس کی مدد کرتا تھا اس لیے وہ اس کا بے پناہ ادب کرتی تھی۔

ذیان کے اندر تک جلن اور کڑواہٹ پھیلی تھی۔“ سلمیٰ جاؤ میرے لیے پانی لے کر آؤ۔“ اس کی آواز اس سمے غراہٹ سے مشابہہ تھی۔ سلمیٰ نے دہل کر چھوٹی بی بی کی طرف دیکھا۔ وہ بہت تیزی سے وہاں سے بھاگی۔ چھوٹی بی بی کے جن سے وہ بھی ڈرتی تھی۔

”آپ سلمیٰ سے آرام سے بھی یہ بات کہہ سکتی تھیں۔“ ابیک نے خاصے رسان سے ذیان کو اس کے روئیے کی بدصورتی کا احساس دلایا تھا۔

”میں نے کیا کیا ہے؟“ ذیان کے انداز میں حیرت آمیز رنج تھا جیسے اسے ابیک کی بات سے تکلیف پہنچی ہو۔

”سلمیٰ کو ہم نے کبھی بھی نوکر نہیں سمجھا ہے۔ ان لوگوں کی بھی عزت نفس ہوتی ہے آپ نرمی سے تحمل سے بات کیا کریں سب کوو ہم ہی رہتا ہے آپ کے بارے میں… نہ جانے آپ بول رہی ہیں یا آپ کا جن…!“ وہ مسکراہٹ لبوں میں دبا گیا تھا۔

وہ آرام سے بول کر اس کے پاس سے گزرتا جا چکا تھا۔

ذیان کو شدید غصہ آرہا تھا۔ لیکن وہ ظاہر نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے جن کی آڑ میں وہ خوب چیخ چلا سکتی تھی لیکن ابیک جن کی حقیقت سے واقف ہوچکا تھا اب وہ صبر اور جبر ہی کرسکتی تھی خود پہ۔

رنم سیال ملک محل میں آگئی تھی۔ نوکرانیاں اسے دیکھ کر ششدر تھیں ایسے لگ رہا تھا نیناں کپڑے بدل کر ماڈرن سوانگ بھر کر پھر سے آگئی ہے۔ حیرت انگیز مشابہت تھی دونوں کی۔

عتیرہ بھی اسے دیکھ کر چونک گئی تھیں پر رنم سیال کی نگاہوں میں شناسائی کی کوئی بھی رمق نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا ملک محل میں اسے ایسے رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لیے وہ ذہنی طور پہ خود کو سمجھا بجھا کر لائی تھی۔ اپنی اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب تھی۔ کیونکہ نوکرانیاں اور ملک محل میں رہنے بسنے والے اللہ کی شان کے گن گا رہے تھے وہ چاہے تو کیا نہیں بنا سکتا پھر ایک جیسی شکل کے دو انسان کیوں نہیں بنا سکتا۔

عتیرہ، افشاں بیگم خاصی محبت سے ملی تھی اسے۔ ابیک سکول کی طرف تھا۔ وہ بھی رنم سیال کی وجہ سے جلدی گھر آگیا تھا۔کھانے میں خاصا اہتمام تھا۔

ڈائننگ ہال میں سب کے ساتھ کھانا کھا کر رنم کو اپنی انا اور عزت نفس کے سرخرو ہونے کا احساس ہوا۔ اسی ملک محل میں وہ نیناں کی عام حیثیت میں رہی تھی اب رنم سیال کی حیثیت میں سب کیسی عزت اور وقار کے ساتھ پیش آرہے تھے۔

اس کے جلتے دل پہ پھوار پڑ رہی تھی۔

کھانے کے بعد وہ آرام کرنے کے موڈ میں نہیں تھی جھٹ ملک ابیک سے سکول اور انڈسٹریل ہوم دیکھنے کی فرمائش کردی۔ ابیک اسے اپنی گاڑی میں پہلے انڈسٹریل ہوم دکھانے لایا۔

یہاں آ کر رنم کو طاقت اور اختیار کا احساس ہوا۔ یہاں وہ میڈم کی حیثیت میں بیٹھا کرتی تھی۔

چھٹی ہوچکی تھی ورنہ سب عورتیں اسے دیکھ کر حیران ہوتیں۔

اس نے اشتیاق سے ایک ایک حصہ دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔ یہاں اچھا خاصا ٹائم لگ گیا تھا۔ سکول دیکھنے جاتے تو رات کا اندھیرا پھیل جاتا۔ سو ابیک نے اسے واپسی کا کہا۔ اس نے فوراً مان لیا۔

رات کے کھانے کے بعد وہ کافی دیر ابیک کے ساتھ میٹنگ ایریا میں بیٹھی رہی۔

ذیان بیڈ روم میں معاذ کے ساتھ بات کرتے ہوئے تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کر رہی تھی۔

ابیک اٹھ کر آیا تو ذیان اور معاذ میں رنم سیال کی باتیں چھڑی ہوئی تھیں۔ ابیک کے آتے ہی ذیان نے فوراً موضوع تبدیل کردیا۔ ویب کیم میں معاذ ابیک کو دیکھ کر اس تبدیلی کی وجہ جان چکا تھا۔ ذیان نے جلدی بات ختم کردی۔ ابیک باتھ روم میں نہا رہا تھا۔ دن کا بیشتر حصہ اس نے گھر سے باہر گزارا تھا۔ بری طرح تھکا ہوا تھا۔

وہ نہا کر آیا تو ذیان کمرے میں نہیں تھی۔

ابیک نے تولیے سے بال خشک کرتے ہوئے دروازے سے باہر نظر دوڑائی وہ سخت سردی میں ٹیرس کی دیوار پہ کہنیاں ٹکائے کھڑی تھی۔

”باہر ٹھنڈ ہے ذیان آپ بیڈ روم میں آجائیں۔“ وہ اس کے پیچھے پیچھے آگیا تھا۔ ابیک ہلکی سی شرٹ میں بغیرکسی گرم کپڑے کے تھا۔ ”میں چاند کو دیکھ رہی ہوں آجاؤں گی۔“ وہ قدرے رکھائی سے بولی تو ابیک سرہلاتا پلٹ گیا۔ اس نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔

ٹھنڈی ہوا نے اندر کی حرارت کو سرد پنے میں تبدیل کردیا تھا اوپر سے ذیان نے ہیٹر بھی آن نہیں کیا تھا۔ ابیک نے ہیٹر آن کیا اور بک شیلف سے ایک کتاب نکال کر بیڈ پہ آگیا۔ آدھے گھنٹے بعد ذیان بھی آگئی۔ دروازہ بند کر کے اس نے اپنا کمبل اٹھایا اور صوفے پہ لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ابیک نے اس کی طرف دیکھا وہ سوچکی تھی۔ اس نے کتاب رکھ دی آج سردی کافی زیادہ تھی اس نے فالتو کمبل لا کر صوفے پہ دراز ذیان کے اوپر ڈالا، کچھ بھی سہی وہ اس کی ذمہ داری تھی۔

ذیان ہلکی نیند میں تھی۔ ابیک نے اس کے اوپر کمبل ڈالا تو وہ پوری طرح بیدار ہوگئی۔ ابیک اس پہ کمبل ڈال کر جاچکا تھا۔

وہ اس دن کے بعد سے بیڈ پہ نہیں سوئی تھی آخر کو وہ بھی عزت نفس رکھتی تھی۔ اتنی گری پڑی نہیں تھی جب وہ اسے اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھا تو اسے بھی زبردستی بچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔

وہ سوچوں سے پیچھا چھڑاتے سونے کی کوشش کرنے لگی۔

Episode 93 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 93 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

رنم سیال ملک ابیک کے ساتھ اس کی جاگیر دیکھنے جارہی تھی۔ گاڑی نہر والی سڑک کے ساتھ ساتھ ہموار رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ کھلے کھلے شیشے سے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے رنم کے بالوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔ اس کے بال بار بار اڑ کر ابیک کے کندھے سے ٹکرا رہے تھے اس کے دل میں گدگدی سی ہو رہی تھی۔ ابیک کی توجہ ڈرائیونگ کی طرف تھی۔ رنم سیال نے دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر میوزک پلیئر آن کردیا۔

تب ابیک چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا، وہ دھیرے سے مسکرا دی۔

بن پوچھے میرا نام پتہ

رسموں کو رکھ کے پرے

چار قدم بس چار قدم چل دو ناں ساتھ میرے

بن کچھ کہے

بن کچھ سنے


بن پوچھے میرا نام پتہ

رسموں کو رکھ کے پرے

چار قدم بس چار قدم چل دو ناں ساتھ میرے

بن کچھ کہے

بن کچھ سنے

ہاتھوں میں ہاتھ لیے

چار قدم بس چار قدم

چل دو ناں ساتھ میرے

رنم اسٹیئرنگ ویل پہ جمے ابیک کے مضبوط مردانہ ہاتھوں کو دیکھے جارہی تھی۔

اس کی نظروں کے ارتکاز سے ابیک کی توجہ ایک ثانیے کے لیے تقسیم ہوئی۔ رنم کی آنکھیں لو دیتے جذبوں سے دہک رہی تھیں نگاہیں ملنے پہ

ہاتھوں میں ہاتھ لیے

چار قدم بس چار قدم

چل دو ناں ساتھ میرے

رنم اسٹیئرنگ ویل پہ جمے ابیک کے مضبوط مردانہ ہاتھوں کو دیکھے جارہی تھی۔

اس کی نظروں کے ارتکاز سے ابیک کی توجہ ایک ثانیے کے لیے تقسیم ہوئی۔ رنم کی آنکھیں لو دیتے جذبوں سے دہک رہی تھیں نگاہیں ملنے پہ اس نے چرانے کی یا چہرہ موڑنے کی کوشش نہیں کی۔ گانے کے بول اس کے دلی جذبوں کے عکاس تھے۔ ابیک جز بز ہو رہا تھا۔ رنم سیال بہت تیزی سے اس سے بے تکلف ہوئی تھی۔ اس میں صاف گوئی اور بیباکی تھی۔

بہت آرام سے ہر بات کرلیتی۔

پہلی ملاقات میں ہی اس نے ابیک سے اس کے گاؤں آنے کی بات کی تھی بقول اس کے ابیک کی طرح اسے بھی سوشل ورک سے دلچسپی ہے۔ حالانکہ اسے دور دور تک سوشل ورک سے واسطہ نہیں تھا۔ اپنے علاوہ وہ کسی کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ دوران تعلیم اسے سب دوستوں میں نمایاں رہنے کا جنون تھا اس کی گاڑی، ڈرائیونگ مہنگی برانڈڈ اشیاء کا استعمال فراخدلی سے پیسے کا استعمال اس کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

اس کے قریبی دوست اس بات سے آگاہ ہوجاتے کہ وہ گاؤں میں عام لوگوں کی بھلائی کے لیے کچھ پراجیکٹ شروع کرنے لگی ہے تو اس کایا پلٹ پہ ضرور حیران ہوتے۔ ملک ابیک کی قربت حاصل کرنے اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتی تھی۔

اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے دل کی بات کرنے کے لیے اس کے پاس وقت کم ہے۔ وہ گزرتے وقت کی تیز رفتاری سے خائف تھی۔

اس کے دلی جذبے اس کی نگاہوں سے جھلکنے لگے تھے۔ ملک ابیک نے سر جھٹک کر جیسے اس کی طرف سے دھیان ہٹایا۔ ”آپ اپنی وائف کو بھی ساتھ لے آتے۔“ رنم نے پھر خاموشی کو توڑنے کی کوشش کی جو اچانک ان کے درمیان در آئی تھی۔ وہ فقط سر ہلا کر رہ گیا۔ حالانکہ وہ ابیک سے تفصیلی جواب سننے کی متمنی تھی۔ ”میں آپ کے ساتھ اس طرح گھومتی پھرتی ہوں ذیان کو اعتراض تو نہیں ہوتا۔

آخر کو آپ کی نئی نئی شادی ہے۔“ اس نے کرید جاری رکھی۔

”نہیں ذیان کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ ابیک نے مختصراً جواب دیا۔ ”مجھے کئی بار فیل ہوا ہے کہ آپ دونوں میں کچھ…“ رنم نے بولتے بولتے بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ اپنی بات کا تاثر اس کے چہرے پہ دیکھنا چاہ رہی تھی۔ ابیک اور وہ دونوں اس وقت کھیتوں کے درمیان بنی پگڈنڈی سے گزر رہے تھے۔

ابیک اپنی جگہ رک گیا تھا۔ ”آپ کو برا تو نہیں لگا۔“ رنم نے اس کی خاموشی سے کچھ اخذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ”اصل میں مَیں نے ذیان کے روئیے سے اندازہ لگایا ہے کہ اسے آپ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“ رنم نے صاف گوئی سے کہا۔ ابیک کا دل لمحہ بھر کے لیے سکڑا۔ اتنے برے حالات ہوگئے تھے کہ ان دونوں کے درمیان جو سرد خلیج حائل ہوگئی تھی یہ اجنبی نوارد لڑکی کتنی جلدی اس کی تہہ تک پہنچ گئی تھی۔

رنم کا ملک محل سے کوئی تعلق نہیں تھا اسے آئے ایک ہفتہ ہی تو ہوا تھا اور صرف چند دنوں میں ان دونوں کے مابین تعلقات کی نوعیت سے واقف ہوگئی تھی۔

ابیک اب آگے بڑھ گیا تھا۔ اس کی خاموشی اس بات کا ثبوت تھی کہ رنم کے اندازے بالکل درست تھے۔ وہ سرمستی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی عین اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وقت، ہوا سانسیں تھم گئی ہوں اور وہ صدیوں سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی ہو آنکھیں بند کیے خود فراموشی کے عالم میں۔

ابیک اس کے سوالوں اور اندازوں کی درستگی سے خائف ہو رہا تھا۔ اس لیے تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا تھا۔

ٹیبل پہ بہت سے پیپرز پھیلائے ابیک اور رنم سیال سکول کی تعمیر اور دیگر پراجیکٹ کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ابیک کے ہاتھ میں پین تھا وہ اسے بتانے کے لیے پیپرز پہ نشاندہی کر رہا تھا۔ ابیک اور وہ کرسی جوڑے پاس پاس بیٹھے تھے۔ ابیک کے مردانہ پرفیوم کی مہک رنم بڑی وضاحت کے ساتھ محسوس کر رہی تھی۔

اس کی توجہ ابیک کی بتائی جانے والی تفصیلات کی طرف چنداں نہیں تھی۔ بلکہ وہ ابیک کی طرف متوجہ تھی۔ ذیان تین چار بار وہاں سے گزری اور تین چار بار ہی انہیں مگن پایا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اس طرف نہیں آئی۔ وہاں ابیک اور رنم کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ ذیان خود کو مصروف رکھنے کے لیے کچن میں آگئی۔

ابیک اور رنم جہاں بیٹھے تھے وہاں سے کچن کافی قریب تھا۔

ذیان کو کچن میں گئے تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ وہاں سے زور زور سے رونے کی آواز آنے لگی سو فی صد یہ آواز ذیان کی تھی، ابیک نے محسوس کرلیا تھا۔ وہ اور رنم ایک ساتھ وہاں پہنچے تھے۔ گھر میں کام کرنے والی دیگر ملازمائیں بھی صورت حال سے آگاہ ہونے پر بھاگی بھاگی آئیں پر ابیک نے سب کو وہاں سے ہٹا دیا۔ رنم نے معنی خیز نگاہوں سے ابیک کی سمت دیکھا۔

ذیان کی نظر بہت حساس تھی اور ابھی تو ویسے بھی اس کی سب حسیات ان دونوں کی طرف متوجہ تھیں۔ کچن میں آ کر اس نے سبزی کاٹنے کی کوشش کی تھی۔ دھیان سارا ابیک اور رنم کی طرف تھا اس لیے سبزی کاٹتے کاٹتے اس کے ہاتھ پہ چھری سے اچھا خاصا گہرا کٹ لگ گیا تھا جس سے بھل بھل خون بہہ رہا تھا۔ اس بہتے خون کو دیکھ کر وہ زور زور سے رو رہی تھی ابیک کو پہلے غصہ آیا پر اس کے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھ کر دھیما پڑ گیا۔

افشاں بیگم بھی وہاں پہنچ گئی تھیں۔ وہ ذیان پہ خفا ہو رہی تھیں۔ اس کا رونا دھونا اسی طرح جاری و ساری تھا۔

ابیک نہ تو اس کے قریب گیا نہ کسی ہمدردی کا اظہار کیا بس دیکھ کر پلٹ گیا۔ وہ پھر سے رنم اور پیپرز کے ساتھ مصروف عمل تھا۔ ذیان ہاتھ پہ بینڈیج کروا کر اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ سلمیٰ نے ٹنکچر آیوڈین سے خون صاف کر کے اس کے ہاتھ پہ پٹی لپیٹی تھی۔

یہاں سے ڈسپنسری کافی دور تھی اس لیے ذیان نے وہاں جانے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی تھی ویسے بھی اس کا زخم اتنا خطرناک نہیں تھا۔ اب وہ بستر میں گھسی رو رہی تھی۔

رنم سیال کی نگاہ اس کے دل میں خنجر کی طرح اتری تھی۔ اوپر سے ابیک کا رویہ، وہ بولنا چاہ رہی تھی احتجاج کرنا چاہ رہی تھی پر ازلی خود سری اور ضد نے زبان پہ تالے ڈال دئیے تھے۔ وہ کیوں ابیک کے سامنے اپنی زبان کھولے وہ اتنا زیرک، باشعور اور سمجھدار ہے اس کی ذرا سی حرکت اور تاثرات سے اس کے محسوسات کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے پھر اس بار وہ کیوں نہیں سمجھ پارہا ہے۔

اور رنم سیال جانے کیا بلا ہے جو ابیک پہ قابض ہونے کی کوشش کر رہی ہے اسے پھانس رہی ہے۔ اس کے گھر میں بیٹھ کر اسے جلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ہوتی کون ہے…“ ذیان روتے روتے خود سے لڑ رہی تھی۔ اس کی مخصوص حس نے رنم سیال کے بارے میں مخصوص اشارہ دے دیا تھا۔

پر وہ جان کر بھی انجان بننے کی کوشش کر رہی تھی اسے خود سے اقرار کرتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اسے ماننے میں قبول کرنے میں خود کو سمجھانے میں کوئی مشکل نہ پیش آتی اگر وہ رنم کی نگاہوں میں وہی تحریر نہ پڑھ لیتی جو اس کے اپنے دل میں لکھی تھی۔

Episode 94 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 94 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان کو اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آرہا تھا کہ بوا رحمت اس کے سامنے بیٹھی ہیں۔ زندہ سلامت جیتی جاگتی۔ ذیان بھاگ کر ان سے لپٹ گئی تھی انہیں چومتے ہوئے وہ روئے جارہی تھی۔ ”بوا آپ کہاں چلی گئی تھیں میری شادی پہ بھی نہیں آئیں۔“ وہ روتے روتے نروٹھے پن سے گویا ہوئی۔ بوا کے لیے ذیان کی شادی خوشگوار سرپرائز سے کم نہ تھی۔

نواز انہیں ملک محل پہنچا کر واپس جا چکا تھا۔

ذیان جلد از جلد سب کچھ جان لینا چاہتی تھی۔ اس کے چہرے پہ سچی مسکراہٹ تھی، وہ محل نما گھر دیکھ کر مرعوب ہو رہی تھیں یہ بات ان کے لیے اطمینان کا باعث تھی کہ ذیان اس محل نما گھر کی مالکہ بن گئی ہے۔ وہ دل میں اللہ کی شکر گزار تھیں۔

امیر علی کا گھر افرا تفری میں فوری طور پہ فروخت کر کے زرینہ بیگم بوا رحمت اور تینوں بچوں کے ساتھ ایک اور علاقے میں چلی گئی تھیں۔

پڑوسیوں میں سے کسی کو بھی ان کے نئے گھر کا اتہ پتہ ٹھور ٹھکانہ معلوم نہ تھا۔ یہ سب اقدام اور احتیاط صرف اور صرف تحفظ کے لیے تھی۔ بعد میں ثابت ہوا کہ یہ احتیاط ان کے لیے بہت ضروری تھی کیونکہ وہاب زرینہ بیگم کاپتہ معلوم کرنے وکیل صاحب کے دفتر تک پہنچ گیا تھا۔ یہ سب باتیں وکیل صاحب نے زرینہ بیگم کو بتا دی تھیں۔ انہوں نے پرانے رابطہ نمبر تک بدل دئیے تھے۔

نئے گھر نئی جگہ میں وہ سب پرسکون زندگی گزار رہے تھے تینوں بچوں کا داخلہ بھی اچھے تعلیمی ادارے میں ہوگیا تھا ساتھ یہ علاقہ ہر طرح سے محفوظ تھا اس کی اپنی سکیورٹی تھی کوئی انجان شخص تصدیق کروائے بغیر یہاں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ اب وہاب کی طرف سے کوئی خوف نہ تھا۔ بوا کو ذیان کی یاد ستا رہی تھی۔ زرینہ بیگم سے اجازت لے کر وہ نواز کے ساتھ یہاں تک پہنچی تھیں۔

ذیان کی شادی کی خبر ان کے لیے سکون اور طمانیت کا باعث تھی۔ وہاب اس کے جانے کے بعد جس طرح زرینہ بیگم کو ہراساں کرتا رہا یہ سب ذیان کے علم میں بھی آگیا تھا۔ اور اس نے کسی نہ کسی طرح اسے ڈھونڈ بھی نکالا تھا۔ جس ذریعے سے وہ ملک محل تک پہنچا تھا وہ ذریعہ بھی اسے معلوم ہوچکا تھا۔ اس نے دھمکی کے زور پہ ذیان کے بارے میں سب کچھ اگلنے پہ مجبور کیا تھا زرینہ بیگم کو گھر تبدیل کرنے کے بعد اپنے تئیں وہ پرسکون ہو کر بیٹھ گئی تھیں لیکن وہ نچلا بیٹھنے والا نہیں تھا۔

وہ ذیان تک پہنچ کر اس کا پرسنل نمبر تک معلوم کر چکا تھا۔

عتیرہ بوا سے برسوں بعد ملی تھیں دونوں گھل مل کر باتیں کر رہی تھیں۔ ذیان کی خوشی دیکھنے والی تھی وہ بوا کو اپنے گھر لے کر آئی انہیں سب سے ملوایا۔ ابیک ذیان کے شوہر کی حیثیت سے ملا انہوں نے گہری نگاہ سے اسے دیکھا پھر دعائیہ انداز میں ہاتھ اٹھائے بوا، ذیان کے بارے میں گزرے لمحوں کا احوال بتا رہی تھی۔

رنم کو واضح طور پہ ذیان کی بوا پسند نہیں آئی تھیں کیونکہ انہوں نے ہی ذیان کو پالا پوسا تھا وہ اس کی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے واقف تھیں۔ جو منصوبہ وہاب کی مدد سے اس نے تیار کیا تھا بوا کے منظر عام پہ آنے کے بعد اس منصوبے کی ناکامی کا امکان تھا لیکن رسک تو ہر حال میں لینا تھا۔

افشاں بیگم بوا کی باتیں بہت دلچسپی سے سن رہی تھیں۔ ”اتنی سی تھی ذیان۔

میں اسے تیار کر کے سکول بھیجا کرتی تھی۔“ بوا نے ہاتھ سے ذیان کا سائز بتایا تو ابیک کے لبوں پہ مسکراہٹ آگئی۔ ”پڑھائی میں بہت تیز تھی میری بچی۔ ذرا سا دھیان دینے سے ہی اچھے نمبر لیتی تھی۔ کبھی اس نے مجھے تنگ نہیں کیا۔ آج کل کے لڑکیوں والے چھل فریب ناز انداز کچھ بھی نہیں ہے میری بچی میں۔ ہاں کالج میں گئی تو وہاں ڈراموں میں حصہ لیتی تھی۔

“ بوا نے اس کی غیر نصابی سرگرمیوں میں سے ایک کا ذکر کیا تو ابیک جی جان سے متوجہ ہوا۔ یعنی اس نے جن والا جو ڈرامہ کامیابی سے رچایا تھا وہ اس کی ایکٹنگ کا ہی مرہون منت تھا۔ ”بہت رشتے آئے میری بچی کے اچھے اچھے گھروں سے۔ لیکن امیر میاں نے کہا ذیان ابھی بیس کی بھی نہیں ہوئی ہے میں اتنی جلدی شادی نہیں کروں گا۔ ساتھ ذیان کو پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا۔

شادی کا نام سنتے ہی غصے میں آجاتی شور کرتی کہ میں نے شادی نہیں کرنی۔“ بوا مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی۔ ذیان مرکز نگاہ موضوع گفتگو بنی ہوئی تھی۔ رنم سے برداشت نہیں ہو پا رہا تھا۔ یہ بڑھیا اپنی سادگی میں ہر بات بتاتی جارہی تھی۔ ”ابیک سکول کی تعمیر کب تک مکمل ہوگی؟“

ذیان نے ابیک کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ ”ہونہہ“ وہ عدم توجہ سے بولا۔

رنم نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔ اتنے میں ذیان کا سیل فون بجنے لگا۔ وہ اس کے سامنے ٹیبل پہ پڑا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اٹھایا، وہاب کی کال آرہی تھی۔ ایک دم اس کے چہرے کی رنگت بدلی اور اس نے کال منقطع کردی۔ وہ پھر کال کر رہا تھا۔ ذیان نے سیل فون ہی آف کردیا اس کی حالت بری ہو رہی تھی۔ وہ بہانہ کر کے سب کے درمیان سے اٹھ آئی۔ اب ابیک کا فون بج رہا تھا۔

وہ معذرت کر کے کال سننے باہر آگیا۔

 ”مسٹر ابیک آپ کی وائف نے تو سیل فون آف کر دیا ہے اس لیے آپ سے رابطہ کیا ہے۔“ اس کے پہلے جملے نے ہی ابیک کو جلتے توے پہ بٹھا دیا۔ وہ اس کی بیوی کا ذکر کر رہا تھا۔ ”کون ہو تم اور کال کرنے کا مقصد؟“ اس نے غصے پہ قابو پا کر معتدل انداز میں کہا۔

”میں وہاب ہوں۔ آپ کے دولت خانے پہ پہلے بھی حاضری دے چکا ہوں۔

یقین نہ آئے تو اپنی ساس سے پوچھ لیں۔“ وہ جو کوئی بھی تھا اسے پریشانی میں ڈال چکا تھا۔ ”اب کیا ہے یہ بتاؤ۔“ میں آپ سے ملاقات کر کے کچھ حقائق آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔ آپ مجھے ٹائم دیں میں ملنے حاضر ہوجاؤں گا۔“ وہ بہت مہذب انداز میں بات کر رہا تھا۔

”اوکے وہاب کل کسی بھی وقت آجاؤ۔“ ابیک نے بات کر کے فون بند کردیا۔ حویلی سے جاتے وقت نیناں نے بھی اس سے بات کی تھی اور کسی اجنبی نوجوان کی آمد کا ذکر کیا تھا۔

وہ گاؤں آیا تو مصروفیات میں اس غیر اہم بات کو بھول بھال گیا۔ ذیان کی سیل فون پہ اس کے سامنے ہی تو کال آئی تھی اس نے سنے بغیر رابطہ ہی منقطع کردیا تھا بعد میں بہانے سے اٹھ گئی تھی۔ جانے یہ وہاب نامی شخص کون تھا اور کون سے حقائق اس کے علم میں لاناچاہ رہا تھا۔ ذیان کو عتیرہ چچی کو وہ کیسے جانتا تھا۔

فون سننے کے بعد وہ دوبارہ بوا کے پاس آ کربیٹھا تو اس کا چہرہ سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔

اس کے تاثرات سے رنم کو اندازہ ہوا کہ وہاب نے منصوبے کے پہلے حصے پہ عمل کردیا ہے کیونکہ ذیان بھی وہاں سے اٹھ گئی تھی۔ بوا اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی۔ رنم دل ہی دل میں استہزائیہ مسکرا رہی تھی۔ ذیان کی کہانی کا بہت جلدی دی اینڈ ہونے والا تھا۔ وہاب آہستہ آہستہ کامیابی کی طرف بڑھتا جارہا تھا۔ وہاب اس کے لیے امداد غیبی تھا ورنہ وہ کبھی بھی اپنے منصوبے پہ عمل نہ کرسکتی تھی۔

بوا رحمت جو اس کی یعنی ذیان کی تعریفیں کر کر کے رنم کا دل جلا رہی تھیں ان کا بھانڈا پھوٹنے والا تھا۔

”ملک صاحب مجھے یہ آپ کی دوست کی بیٹی کچھ خاص پسند نہیں آئی ہے۔“ ملک جہانگیر کے گرد لحاف درست کرتے ہوئے افشاں بیگم نروٹھے پن سے گویا ہوئیں۔ ”کیوں کیا ہوا ملکانی کیوں پسند نہیں آئی تھیں؟ ملک جہانگیر موڈ میں تھے اس لیے ان کی بات کا برا نہیں مانا۔

”جب سے آئی ہے ابیک کو لے کر نکل جاتی ہے کبھی کہتی ہے مجھے گاؤں دکھاؤ تو کبھی سکول ہر وقت اس کے پاس بیٹھی رہتی ہے۔ ابیک ایک بار بھی اس کے ساتھ ذیان کو لے کر نہیں گیا۔“ ”ارے اس کے دل میں انسانیت کا درد ہے غریبوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے وہ تب ہی تو گاؤں میں آئی ہے۔“ ملک جہانگیر رسان سے بولے۔ ”آپ نہیں جانتے ملک صاحب میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا ہے اس کی آنکھوں کا رنگ وہ نہیں ہے جو عام عورت کا ہوتا ہے۔

وہ ہمارے ابیک میں کچھ اور طرح کی دلچسپی لے رہی ہے۔ صرف ایک ملاقات میں ہی اتنی بے تکلف ہوئی کہ یہاں ہمارے گھر پہنچ گئی۔ ٹھیک ہے آپ کے دوست کی بیٹی ہے لیکن مجھے اس کے عادات و اطوار کچھ بھائے نہیں ہیں۔“ ”ارے تمہارا وہم ہوگا یہ کہ وہ ابیک میں خاص دلچسپی لے رہی ہے۔ وہ شادی شدہ بیوی والا ہے۔“ ملک جہانگیر چنداں ان باتوں کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

افشاں بیگم غصے سے ان کی طرف دیکھ کر رہ گئیں۔ ”کرتی ہوں میں ابیک سے بات چلتا کر کے اسے یہاں سے۔ شہر میں انسانیت کا درد جگائے۔ اپنے تنگ اور چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر۔“ افشاں بیگم نے پہلی نظر میں ہی رنم کو ناپسند کردیا تھا۔ اس کا جدید اسٹائلش پہناوا انہیں بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ وہ شکر کر رہی تھیں کہ معاذ نے انکار کردیا تھا اور ابیک کی بار خود احمد سیال کی بیٹی باہر چلی گئی تھی۔

شکر ہے ان کے دونوں بیٹے بچ گئے تھے ورنہ ملک جہانگیر کو اپنے دوست کی بیٹی بہت پسند تھی۔

Episode 95 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 95 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہاب، ملک ابیک کے سامنے ان کے ڈرائنگ روم میں موجود تھا۔ اس کے پاس تکلیف دہ انکشافات کا خزانہ تھا۔ ”ذیان اور میں شروع سے ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر جی رہے تھے ہم۔ امیر خالو کی مرضی سے ہمارا رشتہ طے ہوا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، ذیان کے گریجویشن کر لینے کے بعد ہماری شادی ہونی تھی۔ پر زرینہ خالہ کو کسی صورت ہماری خوشی منظور نہیں تھی۔

انہیں شروع سے ہی ذیان سے چڑ تھی کیونکہ وہ ان کی سوکن کی بیٹی تھی۔ ساری عمر انہوں نے ذیان سے نفرت کی، میری امی کو ذیان پسند تھی۔ میں اسے اس نفرت بھرے ماحول سے نکالنا چاہتا تھا۔ بظاہر خالہ نے ہنسی خوشی سب قبول کرلیا تھا۔ امیر خالو کے مرتے ہی انہوں نے میری اور ذیان کی شادی کرنے سے انکار کردیا۔ انہیں خوف تھا کہ اس شادی کی صورت میں ذیان کو اس کے باپ کے ترکے میں سے حصہ دینا پڑے گا کیونکہ میں نے خالہ کو صاف صاف کہا تھا کہ میں ذیان کے ساتھ مزید کوئی ناانصافی برداشت نہیں کروں گا۔

خالہ نے سازش تیار کی اور خالو کا گھر بیچ کر غائب ہوگئیں۔ خود انہوں نے ذیان کو زبردستی یہاں پہنچا دیا۔ میری محبت کو قتل کردیا۔ مجھے کچھ دن قبل ہی اطلاع ملی کہ میری محبت تو کسی اور کی زوجیت میں ہے۔ وہ اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے یہاں نہیں آئی ہے ظالم دنیا نے ہمیں ایک دوسرے سے الگ کردیا ہے۔ ذیان کچھ دن اور وہاں رک جاتی تو ہم کورٹ میرج کر کے اب تک ایک ہوجاتے، وہ میری محبت ہے۔

میں کتنی مشکلات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ میرے لیے خوشی کا پہلو یہ ہے کہ ذیان نے میری محبت کو اب تک سینے سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔

 اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے اپنی محبت اپنا وجود اب تک کسی کو نہیں سونپا ہے۔ میں اسی اعتماد کے سہارے یہاں تک پہنچا ہوں۔ آپ میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ چاہیں تو مجھے دھکے دے کر نامراد کر کے ذلیل و خوار کر کے یہاں سے نکال دیں چاہیں تو میری محبت میری جھولی میں ڈال کر مجھے بامراد کردیں سب آپ پہ ہے ملک ابیک۔

“ وہ بات کے اختتام پہ اچانک اس کے پاؤں پہ جھک گیا۔ اور اس کے دونوں پاؤں پکڑ لیے۔ ملک ابیک بھونچکا ہو کر اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بمشکل اپنے پاؤں اس سے چھڑائے۔ وہاب کی اداکاری بے حد غضب کی اور جاندار تھی۔ دھڑ دھڑ دھڑ ساتوں آسمان اس کے سر پہ گرے تھے۔ اپنی گفتگو میں وہاب نے جس طرف اشارہ کیا تھا ملک ابیک بخوبی اس کی تہہ تک پہنچ گیا تھا۔

ذیان نے پہلی رات ہی آتم توش والا ڈرامہ کر کے ابیک کو خود سے دور رہنے پہ مجبور کردیا تھا۔ شادی سے پہلے ہی وہ اس سے کترائی کترائی اور گریز پا رہتی۔ جیسے یہ شادی اس کی مرضی کے بغیر زبردستی ہو رہی ہے۔ گویا اس کا چپ چپ رہنا گریزپائی کسی کے قریب نہ ہونا سب کچھ وہاب کی محبت کی وجہ سے تھا۔

اسے وہاب سے ملنے سے پہلے اس بات کا علم نہیں تھا کہ ذیان کن حالات میں ملک محل تک پہنچی ہے۔

گویا اس کی سوتیلی ماں نے اسے اور وہاب کو دور کرنے کے لیے یہاں بھیجاتھا۔ جب وہ شادی کا کارڈ دینے کے لیے شہر امیر علی کے گھر گئے تو ان کی بیوہ وہ گھر چھوڑ کر کسی نامعلوم مقام پہ رہائش اختیار کر چکی تھیں گویا وہاب اپنی بات میں سچا تھا۔ ذیان کے اور اس کے مابین کیسے تعلقات ہیں اس کا علم ان دونوں کے سوا صرف اللہ کو تھا مگر وہاب بھی ان کے تعلقات کی ذاتی نوعیت سے آگاہ تھا ظاہر ہے اسے بتانے والی ذیان تھی۔

اس کی بیوی، اس کے ماں باپ کی من چاہی لاڈلی بہو۔ من میں کسی اور کی چاہت کے دیپ جلائے دلہن بن کر ابیک کے گھر میں آئی تھی۔ جس طرح وہاب نے اسے اس بات سے آگاہ کردیا تھا ایسے ذیان اسے بتا دیتی تو وہ کبھی بھی اس کے ساتھ شادی نہ کرتا۔ وہاب اپنی محبت اور جذبوں میں سچا تھا تب ہی تو اس کے پاؤں میں جھک گیا تھا۔ اس کے آنسو مگر مچھ کے تو نہیں تھے اس کا دل دکھی تھا اس کی محبت چھن گئی تھی اس کے ارمانوں کا خون ہوا تھا۔

اس لیے وہ مرد ہو کر بھی رو رہا تھا۔

دکھ، اذیت، کرب کیا ہوتا ہے کوئی اس وقت ابیک سے پوچھتا۔ وہاب کا ایک ایک جملہ اس کے ذہن پہ ہتھوڑے برسا رہا تھا ایسے لگ رہا تھا اس کا وجود روح میں ڈھل گیا ہو اور اس کی روح کو کانٹوں پہ گھسیٹا جارہا ہو۔ وہ اپنے ہمزاد کو مجسم اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ سکتا تھا۔اس کا ہمزاد تکلیف میں تھا شدید تکلیف میں۔

وہ تکلیف میں بھی ہنس رہا تھا ابیک پہ۔ ابیک اس سے چھپ رہا تھا چہرہ چھپا رہا تھا۔ وہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔

”ملک ابیک تم نے کتنا بڑا دھوکا کھایا ہے۔ تم اس لڑکی کو دلہن بنا کر لائے ہو جو کسی اور کو پسند کرتی ہے۔ اور تم اور تم بھی تو اسے پسند کرتے ہو محبت کرتے ہو جو وہاب کو چاہتی ہے۔“ وہ اسے آئینہ دکھا رہا تھا۔

ملک ابیک کے چہرے پہ اذیت رقم تھی۔

وہ کوشش کے باوجود بھی وہاب سے ایک لفظ بھی نہ کہہ پایا تھا۔ اس نے جواب میں وہاب سے اتنا بھی نہیں کہا کہ تم جو اتنے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہو تمہارے پاس اس کا کوئی ثبوت بھی ہے کہ نہیں۔ وہاب اس کی مسلسل خاموشی سے اپنے من پسند نتائج اخذ کر چکاتھا۔

”آپ بس مجھ پہ ایک احسان اور کرنا…“ وہاب نے التجائیہ انداز میں ابیک کی سمت دیکھا۔ ابیک نے شکست خوردہ آنکھیں اس پہ جما دیں۔

”میری آمد کی اطلاع کسی کو نہیں ہونی چاہیے۔“ ”کیوں؟“ ابیک پہلی بار بولا۔ ”ذیان پاگل ہے ایسا نہ ہو کچھ الٹا سیدھا کربیٹھے۔“ وہاب کی طرف سے عجیب جواب موصول ہوا۔

مرد کبھی عورت پہ کھل کر اعتبار نہیں کرتا خاص طور پہ اس عورت پہ جو اس کی بیوی بھی ہو۔ اپنی شریک حیات کے بارے میں جھوٹی سچی ذرا سی بات اسے بدگمان کرسکتی ہے چاہے لمحہ بھر کے لیے ہی سہی وہ برگشتہ ضرور ہوتا ہے۔

تصدیق اورتحقیق کی ضرورت تو بعد میں پڑتی ہے پہلا مرحلہ شک اور بدگمانی سے بچنے کا ہوتا ہے اور وہ عورت خوش قسمت ہوتی ہے جس کا شوہر اس کی طرف سے لمحہ بھر کی بدگمانی کا بھی شکار نہ ہو۔

ابیک ذیان سے محبت کرتا تھا۔ اسے نکاح کے بندھن میں باندھنے کے بعد ابیک نے بہت سے خواب بھی آنکھوں میں سجا لیے تھے۔ اور وہاب ان خوابوں کو کرچی کرچی کرنے چلا آیا تھا۔

آتم توش والا قصہ کھلنے کے بعد ابیک ذیان کو سنبھلنے کا اپنی محبت کو پہچاننے کا موقعہ اور وقت دے رہا تھا تاکہ وہ اس کے جذبوں کی سچائی سے واقف ہو کر خود اپنی محبت کا اقرار کرے۔

اور اس کے بعد اس میں تبدیلی کا عمل شروع ہوگیا تھا۔ اس کی خاموشی ٹوٹ گئی تھی۔

اس نے ملک محل کو اپنا گھر تسلیم کرلیا تھا۔ بابا جان اور امی اس سے خوش تھے۔

خاص طور پہ بابا جان اسے بہت پیار کرتے تھے تو افشاں بیگم واری صدقے جاتی، رہ گیا معاذ تو وہ ذیان کا دوست تھا۔ ذیان نے سب سچائیوں کو تسلیم کرلیا تھا۔ ماضی کی تلخیوں اور کڑواہٹ کو فراموش کر کے وہ حال میں جینا شروع کر چکی تھی۔ ابیک صرف اس کی انا کی شکست کا انتظار کر رہا تھا کیونکہ وہ محسوس کر رہا تھا کہ ذیان کو اس کا رویہ ہرٹ کرنے لگا ہے۔

وہ اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھتی ہے بولتی کچھ نہیں ہے۔ صرف ایک بار اسے بول دے کہ ابیک میں تمہاری محبت پہ ایمان لے آئی ہوں۔ ابیک کو محسوس ہو رہا تھا اس کا انتظار زیادہ طول نہیں پکڑے گا ذیان کی توانائی اور حوصلہ کمزور ہوتا جارہا تھا۔

جہاں وہ تھک کر گر پڑتی ابیک اسے اٹھا کر سینے میں چھپا لیتا۔ اس کا انتظار جوں کا توں تھا کہ اب وہاب اس کی جنت کو دوزخ بنانے چلا آیا تھا۔

وہ اس کی جنت میں آگ لگانے آیا تھا۔ اور اپنا کام مکمل کر کے گیا۔ ملک ابیک کسی کو بتائے بغیر شہر آگیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کی شکست خوردگی کا تماشہ دیکھے۔

اسے اپنے آپ کو خود ہی سنبھالنا تھا حوصلہ دینا تھا اپنے آنسو خود صاف کرنے تھے۔

”ہا ہا ہا ہا ذیان میں ہار کربھی جیت گیا ہوں۔ تم یہاں آ کر یہ سمجھتی تھی کہ مجھ سے محفوظ ہو گئی ہو۔

یہ تمہاری بھول تھی۔ اب تم ابیک کی طرف سے طلاق نامے کا انتظار کرو۔“

وہ فون پہ بات کرتے ہوئے اونچی آواز میں قہقہے لگا رہا تھا۔ ”بکواس بند کرو اپنی۔ ابیک محبت کرتے ہیں مجھ سے۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے۔“ وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔“ ایسا بہت جلد ہونے والا ہے۔ اور جب تمہیں طلاق مل جائے تو سیدھی میرے پاس چلی آنا میرے دل کے دروازے کھلے ہیں تمہارے لیے۔

ویسے میں ملک ابیک کے پاس آیا تھا تمہارے ڈرائنگ روم میں تمہارے شوہر کی میزبانی سے مستفید ہو کر گیا ہوں۔“

وہ اسے ترنگ میں آ کر بتا رہا تھا۔ ”وہاب تم نے یہ سب اچھا نہیں کیا ہے۔ ابیک سمیت کوئی بھی تمہاری بات کا اعتبار نہیں کرے گا۔ تم جھوٹ بولتے ہو بکواس کرتے ہو۔“ وہ مسلسل اسے جھٹلا رہی تھی۔ ”میرا تو فائدہ ہی فائدہ ہے ایک طرف سے پیسے ملے ہیں تو دوسری طرف سے تم ملی ہو۔

ہا ہا ہا۔“

 کامیابی کے نشے میں سرشار وہاب نے ایک اور اہم بات کا انکشاف کیا۔“ کس نے دئیے ہیں پیسے تمہیں؟“ وہ ہذیانی انداز میں بولی۔ ”اسی نے جو آج کل ابیک کے پیچھے پاگل ہے۔“ وہ اسی انداز میں بولا تو ذیان کے ذہن میں تارے کی مانند ایک نام چمکا۔ ذیان کی طرف سے مسلسل خاموشی پہ وہاب کو محسوس ہوا جیسے اس نے بہت بڑی غلطی کردی ہے۔ ذیان فون بند کر چکی تھی، اب وہ ریسیو کرنے والی نہیں تھی۔ ذیان نے اسی ٹائم معاذ سے رابطہ کیا۔ معاذ ہمیشہ اسے اچھے مشورے دیتا تھا۔

Episode 96 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 96 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

بیل جارہی تھی پر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ ذیان نے مایوسی سے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو دیکھا۔ وہ ایک بار پھر معاذ کا نمبر ڈائل کرنے جارہی تھی کہ اچانک اس کی فون گیلری کھل گئی۔ اس میں وہاب کی اس کال کی ریکارڈنگ موجود تھی جو وہاب نے اس سے ابھی ابھی کی تھی۔ وہاب کی یہ کال اس نے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ریکارڈ نہیں کی تھی بس اتفاقاً اس نے کرلی تھی۔

اب وہ یہ ریکارڈنگ معاذ کو بھی سنوانا چاہ رہی تھی۔ پر وہ کال ہی ریسیو نہیں کر رہا تھا۔

معاذ سکائیپ پہ آن لائن تھا اس نے ذیان کی کال کی جانے والی ریکارڈنگ سن لی تھی۔ حقیقی معنوں میں آج وہ پریشان ہوا تھا۔ وہاب نے جب اسے پہلی بار کال کی تھی تو تب ہی سے ذیان نے اسے شریک راز کرلیا تھا۔ وہ اس کی گزشتہ زندگی سے واقف تھا۔

”بھابھی بھائی کہاں ہیں؟“ اس نے پریشانی چھپاتے ہوئے دریافت کیا۔

”وہ کل بتائے بغیر اچانک شہر چلے گئے ہیں۔ میں نے کال کی وہ بھی نہیں اٹھائی۔“ ”آپ اب انہیں کال مت کرنا۔ اور وہاب کی کوئی کال آئے تو اسے بھی ریکارڈ کرلینا لیکن اسے احساس نہ ہونے پائے۔ اور آپ رنم سیال کی طرف سے محتاط رہیں۔“

 آپ ایسا کریں جا کر ارسلان چچا کو یہ سب بتا دیں۔ فون ریکارڈنگ بھی سنوا دیں۔“ اور پھر میرے ساتھ رابطے میں رہیں۔

“ وہ جلدی جلدی بول رہا تھا۔ ذیان ہر بات پہ سعادت مندی سے سر ہلا رہی تھی۔ معاذ خود بے حد پریشان تھا مگر ذیان کے سامنے نارمل پوز کر رہا تھا۔

ترک محبت کر بیٹھے ہیں ہم ضبط محبت اور بھی ہے

ایک قیامت بیت چکی ہے ایک قیامت اور بھی ہے

ہم نے اس کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا

ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی ایک صورت اور بھی ہے

ڈوبتا سورج دیکھ کر خوش ہو رہنا کس کو راس آیا ہے

دن کا دکھ سہہ جانے والو رات کو وحشت اور بھی ہے

میری بھیگی پلکوں پہ جب اس نے دونوں ہاتھ رکھے

پھر یہ بھید کھلا ان اشکوں کی قیمت اور بھی ہے

اسے گنوا کے محسن اس کے درد کا قرض چکانا ہے

ایک اذیت ماند پڑی ہے ایک اذیت اور بھی ہے

دوسرے دن کا بھی سورج ڈھل چکا تھا۔

ابیک کمرہ بند کیے پڑا تھا۔ اس کا سیل فون بج بج کر خاموش ہو چکا تھا۔ وہ خود میں اتنی ہمت نہیں پا رہا تھا کہ کسی سے بات کرے اس نے سیل فون لے کر کال ریکارڈنگ چیک کیا۔ سب سے آخری کال ذیان کی تھی اور دو دن میں اس کی یہ واحد کال تھی۔ باقی ایک سو بیس کالز رنم سیال کی تھیں۔ اس کا ان باکس رنم کے پیغامات سے بھرا ہوا تھا۔ ”ابیک آپ میری کالز ریسیو کیوں نہیں کر رہے ہو۔

پلیز مجھے اپنی خیریت بتا دو۔ میں بہت پریشان ہوں۔“

رنم سیال کی طرف سے ملنے والا یہ میسج چند منٹ پہلے کا تھا۔ سیل فون ابیک کے ہاتھ میں تھا جب اس پہ ایک بار پھر رنم سیال کالنگ کے الفاظ جگمگائے۔

اس نے غیر ارادی طور پہ کال ریسیو کرلی۔ لاشعوری طور پہ وہ اپنا درد بانٹنا چاہ رہا تھا۔ رنم تو جیسے درد کا درماں بن کر آئی تھی۔

ابیک سب کچھ بتاتا جارہا تھا۔

رنم سیال یہی تو چاہتی تھی کہ وہ بولے اور خوب کھل کر بولے۔ جب وہ دل کی بھڑاس نکال لے پھر رنم سیال اس کے دکھتے دل پہ اپنی ہمدردی کے پھاہے رکھے۔ اسے احساس دلائے کہ وہ اس کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ پھر کھل کر جذبات کا اظہار کرے۔“ ابیک انسان زندگی میں شادی ایک بار کرتا ہے اور یہ کام اسے سوچ سمجھ کر دیکھ بھال کر کرنا چاہیے۔ ورنہ آپ کی طرح انسان ہاتھ ملتا ہے۔

آپ کے رشتے کی ابنار ملیٹی میں نے چند دن میں ہی فیل کرلی ہے اور آپ خود اس چھوٹی سی بات کو بھی نہ سمجھ سکے کہ ذیان کے دل میں آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اس نے مارے بندھے شادی تو کرلی ہے مگر تمام عمر اس رشتے کو تسلیم نہیں کرے گی اس کے دل میں آپ سے پہلے ہی کوئی اور بستا ہے وہ اسے دل سے کبھی نہیں نکالے گی۔ یعنی دہری زندگی گزارتی رہے گی۔“

رنم سیال کی باتیں بجائے اسے تسلی دینے کے اور بھی پریشان کر رہی تھیں۔

لیکن یہ بات تو طے شدہ تھی کہ وہ اس کے اس طرح یہاں آنے پہ پریشان تھی۔ ڈھیروں مسڈ کالز اس کا ثبوت تھیں۔ جبکہ ذیان نے صرف ایک کال کی تھی ان باکس میں کوئی پیغام نہیں تھا اس کا۔

”مجھے گھر جا کر ذیان سے اس معاملے پہ بات کرنی چاہیے۔ میں یہاں کیا اکیلا اپنی ہی آگ میں جل رہا ہوں۔ مجھے بات کرنی چاہیے سب صاف کرنا چاہیے۔“ عقل نے اسے راستہ دکھایا تھا۔

اس نے اٹھ کر کپڑے تبدیل کیے اور تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ بغیر ڈرائیور کے اکیلا ڈرائیو کر کے آیا تھا اس لیے واپسی پہ بھی خود ڈرائیونگ کرنی تھی۔ یہ مصروفیت اسے سوچوں کی وحشت سے نکالنے کے لیے بہت ضروری تھی۔

وہ تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے مطلوبہ وقت سے آدھے گھنٹے پہلے ہی حویلی پہنچ گیا تھا۔ صد شکر کہ کسی سے اس کا سامنا نہیں ہوا ورنہ اس کا چہرہ بہت کچھ بتانے کے لیے کافی تھا۔

وہ ذیان کو ڈھونڈتا میٹنگ روم میں آیا۔ وہاں ذیان تو نہیں البتہ رنم سیال بیٹھی کسی سے فون پہ بات کر رہی تھی۔ ”ابیک آپ آگئے تھنکس گاڈ۔ میں بہت اپ سیٹ ہو رہی ہوں۔ مجھے انفارم تو کردیتے۔“ اس نے ابیک کو دیکھ کر فون بند کردیاتھا۔ اس کے لہجے میں بے پناہ اپنائیت تھی۔

”مجھے اچانک جانا پڑ گیا تھا۔اس نے سرسری انداز میں وضاحت کی۔ ”مجھے پتہ آپ بہت اپ سیٹ ہو لیکن ڈونٹ وری۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم اکیلے نہیں ہو۔“

بلا کی بے تکلفی تھی اس کے لہجے میں۔ ابیک آپ سے تم ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی پریشانی میں رنم کی بے تکلفی نظر انداز کردی تھی۔ ”میں جارہا ہوں بیڈ روم میں آپ انجوائے کریں امی جان کے پاس بیٹھیں۔“ ابیک لمبے لمبے ڈگ بھرتا اوپر آگیا۔

Episode 97 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 97 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان بیڈ روم میں موجود تھی۔ ابیک اچانک کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے تاثرات بتا رہے تھے کہ کوئی نہ کوئی طوفان آنے والا ہے۔ وہ بے پناہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔

”ذیان بیٹھو مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی بیٹھ گیا۔

اس نے خود کو پرسکون کرنے کے لیے پانی پیا۔ اور بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ ذیان سمجھ گئی تھی کہ اس نے کیا بات کرنی ہے۔

”مجھے معلوم ہے میرا آپ کے ساتھ شادی کا فیصلہ غلط ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ رشتہ طے کرتے وقت آپ کی مرضی معلوم نہیں کی گئی یہ بڑی غلطی تھی مگر نہ جانے رشتہ ہونے سے لے کر شادی کے درمیانی عرصے تک میں یہی سمجھتا رہا کہ آپ مجھے پسند کرتی ہیں۔ ورنہ پہلے میں نے سوچ رکھا تھا آپ کو سوچنے کا ٹائم دوں گا شادی لیٹ کروں گا تاکہ آپ ذہنی اور جذباتی طور پہ آمادہ ہوجائیں۔

لیکن وہ میری غلطی تھی میں مانتا ہوں اور شادی کے دن ہی میں نے آپ کا رویہ محسوس کرلیا تھا۔ میں آپ کے کہے بغیر جان گیا۔ آپ کو کم سے کم مجھے تو بتانا چاہیے تھا کہ شادی میں آپ کی رضا مندی شامل نہیں ہے۔ آپ کسی اور کے ساتھ وابستہ رہیں کچھ دن پہلے تک ہرگز مجھے علم نہیں تھا۔ آپ صرف ایک بار مجھے بتا دیتیں تو میں آپ کو آپکے گھر واپس بجھوا دیتا۔

لیکن ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے وہاب آپ کا انتظار کر رہا ہے۔“ ذیان بڑے تحمل سے اس کی ایک ایک بات ایک ایک لفظ ایک ایک فقرہ سن رہی تھی آخر میں اس سے رہا نہیں گیا وہ بول ہی پڑی۔

”آپ میرے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں اور میں اپنے گھر میں ہی ہوں۔ مجھے اور کہیں نہیں جانا۔ مجھے کیا کرنا ہے میں جانتی ہوں۔ میں کوئی مٹی کا کھلونا نہیں ہوں جسے آپ اپنی مرضی کا روپ دینے پہ تل گئے ہیں۔

میری ایک اپنی شخصیت ہے اپنا نام ہے میں اپنے فیصلے خود کرتی ہوں۔ کون میرا انتظار کر رہا ہے کون نہیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ مجھے اپنی ذات سے غرض ہے بس۔باقی دنیا کا ٹھیکہ میرے ذمے نہیں ہے۔“ وہ بری طرح بھری ہوئی تھی۔ ابیک جو یہ سوچ کر آیا تھا کہ وہاں روتی، بسورتی صفائیاں دیتی ذیان ملے گی اس کی جگہ آگ بگولہ بنی حسینہ سے ملاقات ہوئی تھی وہ بھی حسینہ ایٹم بم سے۔

“میں تمہارے اور وہاب کے راستے سے ہٹ جاؤں گا۔“

”بڑی خوشی سے۔ لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ میں کسی وہاب کو نہیں جانتی۔ ایک وہاب تھا روبینہ آنٹی کا بیٹا۔ لیکن مجھے کبھی بھی اس سے دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہے۔“ آپ چاہیں تو بوا اور زرینہ آنٹی سے تصدیق کرسکتے ہیں وہ آپ کو سب کچھ بتائیں گی لیکن خدا را مجھے میری نظروں میں مت گرائیں۔

میں نے صاف ستھری لائف گزاری ہے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سر اٹھا کر۔ اور میرا یہ اٹھا سر کوئی نہیں جھکا سکتا ایک چھوڑ دس وہاب آجائیں۔ آپ کو ہیرو بننے کا شوق ہے تو شوق سے فضول قربانیاں دیں۔ لیکن مجھے کسی کے ساتھ انوالو مت کریں۔“

ذیان کا غصہ بولتے بولتے کم ہوگیا تھا۔

ابیک نے مکمل توجہ کے ساتھ اسے گرجتے برستے دیکھا۔ یہ انداز محبت میں چوٹ کھائی ہوئی زبردستی شادی کی جانے والی لڑکی کا تو نہیں تھا۔

یہ تو اپنی انا اور عزت نفس کو بچانے والی عزیز رکھنے والی کا تھا۔ جس کے لیے اس کا پندار اور نسوانی غرور سب سے بڑھ کر تھا۔ اس کے بعد ابیک کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔

ذیان نے آناً فاناً بوا کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کی ایک ہی رٹ تھی مجھے کچھ دن کے لیے بوا کے ساتھ جانا ہے۔ عتیرہ اسے بوا کے ساتھ بھیجنے کے حق میں نہیں تھیں۔

پہلے ہی وہ اس گھر سے بہت دکھ اٹھا چکی تھی۔ عتیرہ وہاب کی طرف سے بھی ڈری ہوئی تھیں۔

اور سب سے بڑھ کر بوا اسے ساتھ نہیں لے جانا چاہ رہی تھیں۔ ”تم اب شادی شدہ شوہر والی ہو۔ اپنے گھر میں رہو ہنسی خوشی۔“ انہوں نے رسان سے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

”بوا میں تو صرف کچھ دن کے لیے آپ کے ساتھ جا کر رہنا چاہتی ہوں۔“ وہ نروٹھے پن سے گویا ہوئی۔

”بوا کو بہت جلدی ہم یہاں لے آئیں گے کیوں بوا؟“ عتیرہ نے تائید چاہنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا۔ ”میں چھوٹی دلہن کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی ناں اور ذیان بھی بہت پیاری ہے مجھے۔ میں مہینے دو مہینے میں ملنے آجایا کروں گی۔ ناراض مت ہونا۔“ ذیان کو بوا کی وفاداری پہ پیار آگیا کون کسی کے ساتھ اتنا مخلص ہوسکتا تھا جتنی بوا ان کے خاندان کے ساتھ تھیں۔

”ٹھیک ہے بوا جیسی آپ کی خوشی۔ ورنہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں اور باقی زندگی آرام سے گزاریں۔“ ”میں بہت خوش باش ہوں وہاں سب کے ساتھ۔“ بوا نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی۔ ”بوا میں بہت دن کے بعد آؤں گی آپ سے ملنے۔“ ”ہاں اپنے شوہر کے ساتھ آنا۔“ جاتے جاتے انہوں نے پھر نصیحت کی تو ذیان بے بس سی ہنسی ہنس دی۔

ذیان نے براہ راست ملک جہانگیر سے بات کی۔

وہ یونیورسٹی میں ایڈمشن لینا چاہ رہی تھی۔

داخلے کی آخری تاریخ میں چند روز ہی باقی تھے۔ ملک جہانگیر نے اسے بخوشی اجازت دے دی تھی لیکن افشاں بیگم کو دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا۔ ابیک شہر میں تھا۔ رنم بھی اس کے ساتھ چلی گئی تھی۔ وہ دعا کر رہی تھیں کہ اب وہ ان کے گھر میں واپس نہ آئے۔

لیکن حیرت انگیز طور پہ خلاف توقع وہ ابیک کے ساتھ تیسرے دن ہی لوٹ آئی۔

وہ سارا سارا دن ابیک کے ساتھ مصروف رہتی۔ وہ یہاں ایک چھوٹا سا ہاسپٹل بنوانا چاہ رہی تھی۔ ملک ابیک نے ہاسپٹل کے لیے اسے مفت زمین اپنے پاس سے دی تھی۔ اب وہ دونوں دن رات اسی میں لگے ہوئے تھے۔ جبکہ ذیان یونیورسٹی میں ایڈمشن لینے پہ تل گئی تھی۔ ملک ارسلان ایڈمشن فارم لے کر جمع بھی کروا آئے تھے کیونکہ ابیک ان دنوں بہت مصروف تھا۔ ابیک کو تو ذیان کی سرگرمیوں کی فکر ہی نہیں تھی۔

ادھر وہاب نے بھی کچھ دنوں سے چپ سادھ رکھی تھی۔ اس نے رنم کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ترنگ میں اس نے ذیان کے سامنے کیا اگل دیا ہے ورنہ اپنے وعدے کے مطابق وہ باقی پیسے اسے ہرگز نہ دیتی۔

جب ابیک طلاق نامہ سائن کر کے ذیان کے حوالے کر دیتا تو رنم اسے باقی پیسے بھی دے دیتی۔

وہاب کے ساتھ ملک ابیک کی ملاقات کو اتنے دن ہوگئے تھے لیکن ابھی تک اس ملاقات کے ویسے نتائج سامنے نہیں آئے تھے جیسے وہ توقع کر رہی تھی۔

اس نے ہاسپٹل کا نقشہ بھی منظور کروالیا تھا۔ ابیک کے ساتھ باہر دھوپ میں گھوم گھوم کر اس کی سرخ و سفید رنگت جھلسنے لگی تھی۔ اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے شوق میں وہ اس کے ساتھ گھنٹوں دھوپ میں جلتی۔ وہ روز سکول کی تعمیر کا جائزہ لینے آتا۔

ٹھیکے دار اور مستریوں کے ساتھ مغز ماری کرتا پھر وہ انڈسٹریل ہوم کا بھی چکر لگاتا۔

کبھی تعمیراتی سامان آرہا ہے تو وہ بھاگ بھاگ کر ادھر جا رہا ہے۔ کوئی چیز کم پڑ گئی ہے تو وہ بھی اس کی درد سری۔ رنم سیال تو مرجھا کر رہ گئی تھی۔ اس تگ و دو کا پھل یا صلہ اسے ابھی تک ملا نہیں تھا کیونکہ وہ ابیک تک نہ تو حال دل پہنچا پائی تھی اور نہ ہی اس کے منصوبے کے مطابق اس نے ذیان کو طلاق دی تھی اگرچہ دونوں میں تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ کیونکہ ابیک کے منہ سے کوئی نہ کوئی ایسی بات اس کے سوال کے جواب میں منہ سے نکل ہی جاتی تھی جس سے وہ واقف ہونے کے چکر میں مری جاتی۔ وہ بس اس کے ساتھ ہوتا تو ہر ٹائم اپنے پراجیکٹس کی باتیں کرتا۔ جیتی جاگتی رنم گویا اسے نظر ہی نہ آتی۔

Episode 98 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 98 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

اب ہم نے کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے…

بھلے ہمیں زخم لگ جائے

بھلے وہ عمر بھر سل نہ پائے

ہمیں خاموش رہنا ہے

اب ہمیں کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے…!

ہم نے رو کے دیکھا ہے

ہم نے شور مچا کے دیکھا ہے

اپنے زخم دکھا کے دیکھا ہے

پر ہوا کچھ نہیں حاصل

اب ہمیں کسی سے کچھ نہیں کہنا ہے

تمہیں گر یاد ہو تو

ہم نے تمہیں قصہ سنایا تھا

اپنا درد بتایا تھا

تم پل بھر

عمر کے کرب کے مداوا بنے تھے

جلتے زخموں کی دوا بنے تھے

جلتے زخموں کی دوا بنے تھے

اور پھر!!!

ذرا جو وقت گزرا تو

زمانے کے چلن میں ڈھل گئے تم بھی

وقت کے ساتھ بدل گئے تم بھی

تمہیں تو بہت

زمانہ شناسی کا دعویٰ ہے

پھر کیوں نہ پہچان پائے تم

ہمیں کیوں نہ جان پائے تم

اب ہمیں تم سے کچھ نہیں کہنا ہے

ہمیں خاموش رہنا ہے

سب آنسو پی کے…

سب زخم سی کے…

ذیان کا ایڈمشن ہوگیا تھا۔

اس کی رہائش یونیورسٹی ہوسٹل میں ہی تھی۔ ذیان جارہی تھی۔ افشاں بیگم بری طرح تپی ہوئی تھیں۔ وہ دندناتی ہوئی غصے میں عتیرہ کے پاس آئیں۔ انہوں نے غالباً پہلی بار افشاں بھابھی کو اس طرح غصے میں دیکھا تھا۔

”بھابھی کیا بات ہے کیا ہوا ہے؟“ انہوں نے ہولتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ ”ہونا کیا ہے میرے بیٹے کو سوشل ورک سے فرصت نہیں ہے اور ذیان گھر سے ہی جارہی ہے۔

کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے سب آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہیں۔ اور وہ جو موئی رنم میرے گھر میں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ گئی ہے کوئی پرواہ نہیں کسی کو۔ ارے میرا گھر اجڑ رہا ہے…“

”اللہ نہ کرے بھابھی کہ آپ کا گھر اجڑے۔ آپ بیٹھیں میں پانی دیتی ہوں آپ کو۔“

عتیرہ نے ہاتھ کا دباؤ ڈال کر انہیں پاس پڑے صوفے پہ بٹھا دیا۔ پانی پی کر ان کے حواس تھوڑے بحال ہوئے۔

”جب سے رنم یہاں آئی ہے میرے گھر کا سکون غارت ہوگیا ہے۔ ملک صاحب سے کچھ کہتی ہوں تو وہ میری بات کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ ابیک سارا دن اس پر کٹی لومڑی کے ساتھ غائب رہتا ہے اور ذیان اسے پوچھتی ہی نہیں۔“ پر کٹی لومڑی کی اطلاع پہ عتیرہ کو بے اختیار ہنسی آگئی۔

 ”وہ اس کے لیے میدان کھلا چھوڑ کر خود بھاگ رہی ہے یونیورسٹی۔ آجائے معاذ اس سے بات کرتی ہوں۔

وہی میرا دکھ سمجھتا ہے۔ باقی سب اندھے گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔“ افشاں بیگم ایک بار پھر اشتعال میں آرہی تھیں۔ ”بھابھی ذیان اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے باقی باتیں پریشان کن ہیں۔ آپ ابیک سے خود بات کریں یا میں ارسلان صاحب سے کہوں گی۔“ عتیرہ کو ذیان نے یہی بتایا تھا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہے۔ باقی اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔

عتیرہ نے اسی حوالے سے بات کی تھی۔ باقی قصے کا انہیں عمل ہی نہیں تھا۔ افشاں بیگم جوں جوں بتاتی جارہی تھیں توں توں ان کی فکر بڑھتی جارہی تھی۔ذیان نے ان تمام باتوں کی انہیں ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی۔

انہوں نے اپنے تئیں فرض کرلیا تھا کہ وہاب والا قصہ بھی دفن ہو چکا ہے۔ ذیان کس عذاب سے گزر رہی ہے اس کا احوال اس کے چہرے اور آنکھوں میں رقم نہیں تھا۔

”مجھے رنم سیال کو اپنے گھر سے دفعان کرنا ہے۔ نوکرانیاں تک اس کے کرتوت سے واقف ہو گئی ہیں آنکھوں آنکھوں میں میرے بچے کو کھانا چاہتی ہے۔ رنم سیال محویت سے ابیک کو تکتی تھی جیسے افشاں بیگم نے آنکھوں آنکھوں میں کھانے سے تشبیہہ دی تھی۔

”ذیان سے کہو۔ ابیک کو ڈھیلا مت چھوڑے۔“ عتیرہ سر ہلا کر رہ گئی۔

ساتھ والے روم میں موجود ذیان ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ سن چکی تھی۔

ابیک کو تو بس اس پہ فرد جرم عائد کرنی تھی اس کے بعد اس کی بلا سے جو وہ چاہے کرتی پھرے۔ ملک ارسلان نے یونیورسٹی میں اس کا ایڈمشن کروایا تھا۔

وہ تیاری مکمل کر کے گاڑی میں بیٹھ رہی تھی۔ ادھر اس کی گاڑی گیٹ سے باہر نکلی۔

ادھر ابیک کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ ابیک اسے دیکھ چکا تھا۔ ابیک کے ساتھ بیٹھی رنم سیال کو بھی ذیان نے جی بھر کر دیکھا تھا۔

کس استحقاق اور دھڑلے سے وہ اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ذیان کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔ اس نے چاہنے کے باوجود پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔

ابیک کے ساتھ ایک گھر میں ایک چھت تلے رہتے ہوئے اس درد کو برداشت کرنا کتنا مشکل تھا جو آجکل وہ سہہ رہی تھی۔ رنم سیال کی نگاہیں والہانہ ابیک کا طواف کرتیں وہ صبح سے شام تک باہر اس کے ساتھ رہتی۔

گھر آ کر بھی وہ ابیک کے ساتھ لگی رہتی۔

ادھر وہاب نے اسے طلاق کی خوشخبری سنائی تھی۔ معاذ اور وہ دونوں کسی نتیجے پہ پہنچنے کے انتظار میں تھے۔ آج کل معاذ کے ساتھ بھی اس کا رابطہ کم کم تھا۔

گاڑی رکتے ہی ملک ابیک لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا افشاں بیگم کی طرف آیا۔ اس نے ذیان کو گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

ایسے تو وہ کہیں بھی نہیں جاتی تھی ہمیشہ گھر کے افراد میں سے کوئی نہ کوئی اس کے ساتھ ہوتا۔

”امی جان ذیان کہاں گئی ہے؟“ اس کے لہجہ میں بے قراری تھی۔ ”بیوی تمہاری ہے وہ اور پوچھ مجھ سے رہے ہو۔ ویسے آج اس کا خیال کیسے آگیا ہے تمہیں۔ تم سوشل ورک کرو۔ انسانیت کے درد بانٹو اور وہ یونیورسٹی میں پڑھنے جائے۔“ افشاں بیگم نے اپنی توپوں کا رخ سیدھے سیدھے اس کی طرف کیا تو وہ بوکھلا سا گیا۔

Episode 99 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 99 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

 ”اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہیں ہوش ہو تب ناں۔“ اس کے پیچھے آتی رنم پہ انہوں نے ترچھی نگاہ ڈالی اور مڑ کر چلتی بنیں۔ ابیک بے بسی سے دیکھ رہا تھا۔ رنم سیال نے اس کے کندھے پہ اپنا ہاتھ رکھا۔ ”تمہاری وائف تمہیں بغیر بتائے چلی گئی۔ دیٹس امیزنگ۔ دس از ناٹ فیئر۔“ اس کے لہجہ میں مصنوعی تاسف تھا جبکہ اندر سے اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔

ابیک نے اپنے کندھے پہ رکھے اس کے ہاتھ کو ہٹا دیا۔

ایک ثانیے کے لیے وہ شرمندہ ہوئی پھر نارمل ہو گئی۔ ”ابیک چلو شہر چلیں۔ کسی اچھے ریسٹورنٹ میں لنچ کریں گے رات میں بھی پپا کے پاس رکوں گی کل آجائیں گے۔“ ”میں نہیں جاسکتا بزی ہوں۔“ ابیک نے کنپٹی مسلتے ہوئے کہا۔ اس کے سر میں درد ہو رہا تھا۔ ”اوکے تم ریسٹ کرو۔“ اس نے فراخدلی سے کہا۔

وہ ریسٹ کرنے کے لیے لیٹا تھا کہ شاید لمحہ بہ لمحہ بڑھتے سر درد سے نجات مل جائے۔

مگر درد اور سوچیں بڑھتی جارہی تھیں۔ ذیان نے اسے بتائے بغیر یونیورسٹی میں ایڈمشن لے لیا تھا کم از کم وہ اسے بتاتی تو سہی۔ وہ خود اسے ساتھ لے جاتا ایڈمشن کرواتا۔ وہ ضدی اور خودسر لڑکی اس کی مانتی کہاں تھی۔ اوپر سے امی جان نے بھی اس پہ چڑھائی کردی تھی۔ ابیک کو نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ کچھ منٹ کے لیے اس کی آنکھ لگی تھی کہ باہر سے آتی تیز تیز آوازوں سے کھل گئی۔

وہ اٹھ کر ٹیرس کی طرف آیا اور نیچے آواز کے مرکز کی طرح دیکھا۔ وہاں معاذ موجود تھا حسب معمول شور مچاتا ہنستا مسکراتا۔ وہ امی جان اور بابا سے مل رہا تھا پاس ہی بیگز اور سوٹ کیس پڑے تھے وہ یقینا ابھی ابھی آیا تھا۔ ابیک نیچے اتر آیا۔

”تم نے اپنے آنے کی اطلاع ہی نہیں دی میں خود ائیرپورٹ پہ ریسیو کرتا تمہیں۔“ اس سے گلے ملتے ابیک نے شکوہ کیا۔

”سنا ہے لوگ آج کل اپنے مہمان کے ساتھ بہت بزی ہیں اس لیے میں نے سوچا آپ کو اپنے مہمان کی نازبرداری میں مگن رہنے دوں۔“معاذ نے انتہائی لطیف انداز میں اس پہ چوٹ کی ابیک کچھ بول ہی نہ پایا۔ پہلے امی جان اور اب یہ معاذ…

معاذ امی جان کو بازو کے گھیرے میں لیے آگے کی طرف جارہا تھا جب اچانک ایک کمرے سے رنم برآمد ہوئی۔ معاذ افشاں بیگم کے کندھے پہ رکھا ہاتھ ہٹاتا بڑے پرجوش انداز میں اس کی طرف بڑھا۔

”اوہ مس نیناں۔ یہ آپ ہیں میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ آپ اتنا زیادہ Change ہوگئی ہیں قمیض شلوار سے ٹاپ اور ٹراؤزر پہ آگئی ہیں سبحان اللہ کیا ترقی کی ہے آ پ نے۔ دوپٹہ بھی غائب کردیا ہے۔“

رنم اس کے پے درپے حملوں سے بوکھلائی جارہی تھی۔ ”معاذ یہ نیناں نہیں رنم سیال ہیں ابو کے دوست احمد انکل کی بیٹی۔“ ابیک نے معاذ کو ٹوکتے ہوئے اس کا تعارف کروایا تو رنم کی جان میں جان آئی۔

”کیوں مذاق کر رہے ہیں آپ۔ یہ نیناں ہیں مس نیناں۔ لباس بدلنے سے شخصیت بدل نہیں جاتی۔“

پے درپے حملوں سے رنم کا اعتماد خوف بن کر ڈھے گیا تھا۔ نیناں کہہ کر مخاطب کیے جانے پہ معاذ نے اس کا رکنا اور چونکنا واضح طور پہ محسوس کیا تھا۔ معاذ سے وہ ویسے بھی خائف رہتی تھی وہ رنگ میں بھنگ ڈالنے پھر آپہنچا تھا۔

ملک ابیک چھوٹے بھائی کو رنم سیال کے بارے میں بتا رہا تھا۔

معاذ کو دیکھ کر رنم کمرے میں جا چکی تھی۔ اس کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ مستقل طور پہ واپس آگیا تھا۔ رات کے کھانے کے لیے نوکرانی اسے بلانے آئی تو رنم نے بھوک نہ ہونے کا عذر کر کے دروازہ بند کرلیا۔

معاذ، کھانے کے بعد دیر تک ابیک کے پاس بیٹھا رہا۔ ذیان نے یونیورسٹی میں ابیک کو بتائے بغیر ایڈمشن لیا تھا اس کے اس اقدام سے معاذ کو اس کی بے وقوفی پہ تاؤ آیا تھا۔

معاذ ذیان اور ابیک کی وجہ سے بغیر بتائے اچانک واپس آیاتھا۔ اس معاملے میں خود کا جان کر بھی مزید لاعلم رکھنا حماقت کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔

اس نے براہ راست بھائی سے اس موضوع پہ بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

معاذ نے سب سے پہلے اسے وہاب کی کال ریکارڈنگ سنوائی۔ سنتے سنتے ابیک کے چہرے کا رنگ بدلتا جارہا تھا۔ ”یہ تم تک کیسے پہنچی؟“ ”ذیان بھابھی کی مہربانی سے۔

اب آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔

میں بابا جان کے ساتھ احمد انکل کے گھر گیا تو وہاں ان کی بیٹی کے فوٹو گرافس دیکھ کر چونک گیا۔ ملک محل میں آ کر میں نے اشاروں سے جب نیناں سے کسی لڑکی کی مشابہت کا ذکر کیا تو وہ چونک گئی۔ میں نے بہت سے مواقع پہ اس کی گھبراہٹ نوٹ کی۔ میں نے اسے عتیرہ چچی اور ارسلان چچا کی باتیں چھپ چھپ کر سنتے دیکھا۔

ذیان بھابھی کے لیے اس کی نفرت نوٹ کی۔ پھر اس کی پراسرار گمشدگی اور وہاب کا ٹپکنا۔احمد انکل کی بیٹی کا حویلی میں نزول۔ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں نہیں ہیں۔“وہ تائید چاہ رہا تھا۔

”میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔“ بھائی جان کا من سینس کی بات ہے کوئی آپ کو اور بھابھی کو کیوں الگ کروانا چاہ رہا ہے۔ کس نے وہاب کو پیسے دئیے ہیں وعدے پہ؟“

”نیناں اور رنم کا راز کیا ہے۔

اس سے کون پردہ اٹھا سکتا ہے میں ان کے سب سوالوں کے جواب جان کر رہوں گا۔“ ”تم کیا کرو گے؟“ ”میں احمد انکل کے پاس جاؤں گا۔ ان سے پوچھوں گا۔ آپ نے بھابھی کو کیوں جانے دیا۔ آپ ان کی طرف سے اتنے لاپرواہ ہوگئے ہیں۔“

وہ پھر سے ذیان کے ایڈمشن والے واقعے کی طرف آگیا تھا۔

”معاذ وہاب نامی یہ شخص یہاں مجھ سے بھی ملنے آیا تھا۔ اس نے ذیان کے ماضی کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں۔

وقتی طور پہ میں تھوڑی دیر کے لیے منفی انداز میں سوچنے لگا تھا۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں نے کوئی منفی قدم نہیں اٹھایا۔“

”بھائی جان ہر رشتہ اعتبار مانگتا ہے۔جب اعتماد اور اعتبار دم توڑ جائے تو رشتہ بھی دم توڑ جاتا ہے۔ انسان دل میں ہی رشتوں کا قبرستان بنا لیتا ہے۔ ذیان بھابھی نے اپنے فادر کے گھر سوتیلی ماں کے ساتھ بہت مشکل میں زندگی گزاری ہے۔

ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور خواہشات تھیں جو باوجود کوشش کے بھی پوری نہ ہوسکیں۔ لاشعور میں دبی لاحاصل تمناؤں نے انہیں اذیت پرست بنا ڈالا وہ تلخ ہوتی گئیں۔ ان کے دل میں بہت سی غلط فہمیاں تھیں جو یہاں آنے کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئیں۔بھابھی بہت زود رنج اور حساس ہیں آپ کو اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ذیان بھابھی اور میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

وہ ایک قریبی دوست کی طرح مجھ سے کچھ شیئر کرتی ہیں۔ ان کی نظر میں میں نے یہ اعتبار محنت سے قائم کیا ہے ورنہ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو آسانی سے اپنی ذات کے اندر کسی کو جھانکنے تک نہیں دیتے۔ اس لحاظ سے میں خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں۔“ ”واقعی معاذ تم خوش قسمت ہو۔ میں اس کے ساتھ اتنے قریبی رشتے میں منسلک ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ نہ جان سکا جو مجھے جاننے کا حق تھا۔

اس نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا۔“وہ احساس زیاں میں گھرا ہوا تھا۔

 ”بھائی جان وہ کھونے کے احساس سے ڈرتی ہیں۔“ معاذ نے بہت گہری بات کی۔ ”معاذ اس طرح کے حالات میں کوئی بھی مرد بدگمانی کا شکار ہوسکتا ہے۔میں انسان ہوں کوئی فرشتہ نہیں ہوں عام سا آدمی ہوں۔ میں نے جب اس سے بات کی تو وہ مجھے وضاحت دے سکتی تھی سب کچھ کلیئر کرسکتی تھی۔

”بھائی جان جہاں محبت ہوتی ہے وہاں وضاحت کی کیا ضرورت ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ چونکہ وہ آپ سے محبت کرتی ہیں اس لیے انہیں کسی وضاحت یا صفائی کی ضرورت نہیں۔“

ابیک کے لیے یہ انکشاف حیران کن تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے۔ اس نے اپنے کسی عمل سے آج تک اظہار نہیں کیا تھا کہ وہ اس کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ کتنی گہری تھی وہ اور ابیک یہی سمجھتا رہا کہ ذیان نے بحالت مجبوری اس کے ساتھ شادی کی۔

”آپ محترمہ رنم صاحبہ کا بوریا بستر گول کریں۔ میں اپنی بھابھی کو اُداس یا مایوس نہیں دیکھ سکتا۔ آپ وہاب پہ تھوڑا کام کریں بہت سے باتیں اگلوا سکتے ہیں اس سے۔“

معاذ نے مشورہ دیا۔ ”ہاں ٹھیک ہے۔“ ”میں ذرا بابا جان کے پاس جارہا ہوں ان کے علم میں یہ باتیں لانا ضروری ہیں۔“ ابیک نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خوبصورت خیالوں کی رومیں بہتا ہوا بہت دور تک جاچکا تھا۔ یہ احساس ہی کیسا خوش کن اور جانفزاء تھا کہ ذیان اس سے محبت کرتی ہے۔

Episode 100 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja


قسط نمبر 100 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

”احمد سیال کے پاس جانے یا پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔کیونکہ رنم جب گاؤں دیکھنے کے بہانے دوسری بار ملک محل میں آئی تو احمد نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا۔میں اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ اس نے مجھے سب بتا کر پیشگی معذرت کرلی تھی۔ رنم ضد میں اپنی بات نہ مانے جانے پہ گھر سے نکلی تھی ایک اتفاق کے تحت وہ ہوٹل میں ارسلان اور عتیرہ سے ٹکرائی وہ اسے اپنے ساتھ لے آئے۔

یہاں کی مشکل زندگی اور بدلی ہوئی شخصیت کے ساتھ جینا رنم کو بہت دشوار لگا اور وہ لوٹ گئی۔ اس نے تسلیم کرلیا کہ وہ غلطی پہ تھی اس کے جذبات میں وقتی طور پہ ابال اٹھا تھا وہ ایسے نوجوان سے شادی کرے جو اسے بغیر جہیز اور مال و دولت کے قبول کرے۔ وہ سہولیات کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ لیکن احمد نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ رنم ابیک کو پسند کرنے لگی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے چالیں چل رہی ہے۔

تمہاری ماں نے کتنی بار شکایت کی لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا شک درست ہوسکتا ہے۔“بابا جان نے اس کی بہت بڑی پریشانی بیٹھے بٹھائے حل کردی ۔

وہ اس لیے اطمینان سے بیٹھے تھے کہ احمد انکل نے انہیں سب بتا دیا تھا سوائے ایک بات کے۔ وہ باپ تھے اپنے منہ سے کیسے بتاتے کہ رنم ابیک کو پسند کرنے لگی ہے اسے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ان کے خوش فہمی میں حالات اس نہج تک جا چکے تھے اور انہیں خبر ہی نہیں تھی۔

”بابا جان اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے؟“ معاذ امید افزاء نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

”’دیکھو معاذ، احمد سیال میرا بہت اچھا دوست ہے میں اس کی بیٹی کو براہ راست کچھ نہیں کہہ سکتا ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ابیک خود رنم کی حوصلہ شکنی کرے۔ وہ ضدی اور جذباتی لڑکی ہے ایسا نہ ہو کہ کچھ الٹا سیدھا کر بیٹھے۔ ویسے میں احمد کو شرمندہ نہیں کرسکتا۔

اللہ بھی تو عیب چھپانے والوں کو پسند کرتا ہے۔ باقی میں اس گھر کا سربراہ ہوں۔ میرے جیتے جی ذیان کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ وہ میری آنے والی نسلوں کی وارث ہے میری بہو ہے اسے کوئی ٹیڑھی نگاہ سے بھی دیکھے میں برداشت نہیں کرو ں گا۔“ ملک جہانگیر کے انداز میں عزم تھا۔ معاذ نے ہولے سے سر ہلایا۔

                                       

معاذ اسے لینے کے لیے پہنچا ہوا تھا۔

پہلے تو وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئی پھر اس کے ساتھ لے جانے کے مطالبے پہ ناراض ہوگئی۔

”میں فی الحال گھر نہیں جاسکتی۔ میری پڑھائی ابھی ابھی سٹارٹ ہوئی ہے سمیسٹر کے اینڈ پہ چھٹیاں ہوں گی تو میں آجاؤں گی۔“ اس نے رکھائی سے جواب دیا۔ ”آپ یہاں پڑھائی کے چکر میں بیٹھی رہیں اور ادھر وہ آپ کے شوہر نامدار کو لے اڑے گی اس کے ارادے بہت خطرناک ہیں۔

“معاذ نے اسے ڈرانا چاہا پر وہ ذرا بھی مرعوب نہ ہوئی۔

”جو چیز آپ کے نصیب میں نہ ہو آپ کچھ بھی کرلو آپ کو نہیں مل سکتی۔ تمہارے بھائی نے مجھے کوئی بات کرنے کا موقعہ نہیں دیا اور فیصلہ سنا دیا۔ میں اس کے نکاح میں ہوں اور وہ مجھے کسی بے جان گڑیا کی مانند وہاب کے سپرد کرنا چاہتا ہے۔ میں اپنی قسمت کا فیصلہ خود کروں گی تم جاؤ اپنا وقت ضائع مت کرو۔

“صاف لگ رہا تھا وہ اس کی بات نہیں مانے گی۔ واپسی کے لیے مڑتے معاذ کے قدم بہت مایوس اور سست تھے۔

معاذ واپسی پہ اکیلا آیا تھا۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ اسے مایوسی ہوئی ہے۔

”بھائی جان اس بار وہ بہت غصے میں ہیں۔ انہیں چھیڑنا مناسب نہیں ہے۔ کچھ وقت کے لیے خاموشی اختیار کریں اور اس رنم سیال والے مسئلے کو لگے ہاتھوں نمٹا دیں۔

میں آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔“ آخر میں اس نے اپنی خدمات پیش کیں۔ ابیک غائب دماغی سے سر ہلا کر رہ گیا۔

ابیک نے گھر سے غائب رہنا شروع کردیا تھا۔ رنم کال کرتی تو وہ ریسیو نہ کرتا۔ اب کسی جگہ وہ اسے ساتھ لے جانے سے احتراز کرتا۔ ہفتے بھر میں رنم بور ہوگئی اور پپا کے پاس آگئی۔ وہ اسے دیکھ کر کھل اٹھے۔

”اب میرے پاس رہو۔مجھے تمہاری کمپنی چاہیے۔

بوڑھا اور محتاج آدمی ہوں۔جانے کب بلاوا آجائے۔“ پپا پلیز ایسی باتیں مت کریں مجھے ڈر لگتا ہے۔“وہ ناراض ہوگئی۔ ”ملنا بچھڑنا زندگی کا حصہ ہے یہ حقیقت ہے۔“ ”پپا مجھے آپ سے نہیں بچھڑنا۔“ وہ ضدی بچگانہ لہجہ میں گویا ہوئی۔ ”ارے ہاں یاد آیا فراز تین چار بار تمہارا پوچھنے آچکا ہے۔“ ”کیوں آیا ہے وہ یہاں؟“

وہ غصے سے بولی۔ ”ارے ملنا چاہتا تھا تم سے۔

تم لوگ اچھے دوست رہ چکے ہو۔“ انہوں نے اسے کچھ یاد کروانے کی کوشش کی۔ ”پپا میں جب اس سے ہیلپ مانگنے اس کے پاس گئی تو اس نے میرے ساتھ بلف کیا فوراً آپ کو کال کر کے بتا دیا کہ میں اس کے گھر ہوں۔“ وہ ابھی تک پرانی ناراضگی دل میں رکھے بیٹھی تھی۔ ”اس نے تمہارے ساتھ بلف نہیں کیا بلکہ بھلائی کرنے کی کوشش کی تھی۔ تم ہمیشہ بے وقوف رہی ہو۔“

 ”ہاں پپا آپ نے میری ذہانت کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔

“ اس نے منہ بسورا۔ ”اور تمہارا Complextion کتنا ڈارک اور ڈل ہو رہا ہے بالوں کا بھی یہی حال ہے میرے بچے۔“ احمد سیال نے اسے غور سے دیکھا تو اس کے سراپے میں آنے والی تبدیلیاں فوراً نوٹ کرلیں۔ ”پپا میں دھوپ میں گھومتی پھرتی رہی ہوں ناں اس لیے۔“

”تم گھر بیٹھو ایڈمشن لو اپنی پڑھائی سٹارٹ کرو۔ یہ گاؤں میں سوشل ورک کرنا تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔

دیکھو آئینے میں خود کو۔“ پپا نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر شیشے کے سامنے کھڑا کردیا۔ وہ کتنی کمزور اور روکھی پھیکی سی لگ رہی تھی۔ جلد بھی عجیب بدرنگ اور ڈل نظر آرہی تھی۔ وہ خود کو غور سے دیکھ کر ڈر سی گئی۔ ”میں آج ہی سیلون جاتی ہوں۔“ اس نے فوراً پروگرام بنایا۔

رنم نے پورا ہفتہ پارلر میں اپنا حلیہ سکن اور بال ٹھیک کروانے میں لگایا تھا۔

اسے واپس آئے چوتھا دن تھا جب فراز سے اس کی ملاقات ہوئی۔ وہ برابر اسے ملنے کے لیے آرہا تھا پر وہ گھر نہیں ہوتی تھی آج شومئی قسمت اس کی شکل دیکھنے کو ملی تھی۔ فراز اسے دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔ ”رنم یہ تم ہی ہو یا تمہاری فوٹو کاپی ہے۔“ ”کیا ہوا ہے مجھے؟“

اس نے ایکدم اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا تھا۔اس وقت وہ بھول بیٹھی تھی کہ وہ فراز سے ناراض ہے۔

”تم ایکدم Change ہوگئی ہو۔ کہاں گئی وہ لڑکی جو محفلوں اور پارٹیز کی جان تھی اتنی ڈل اور اووڈ لگ رہی ہو دیہاتی دیہاتی سی۔“ فراز نے اسے چھیڑا تو وہ بدک گئی۔ ”میں گاؤں میں سوشل ورک کر رہی ہوں ناں۔“ اس نے جیسے خود کو بہلایا ۔

”سوشل ورک کرنا ہے تو اپنے شہر میں کرو۔ گاؤں میں مارے مارے پھرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ذرا دیکھو تو اپنا حلیہ۔

بالکل مڈل کلاس کی عورت لگ رہی ہو۔“ اُف یہ طعنہ اس کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ تو ابیک کی خاطر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شہر سے چلی گئی تھی۔

اس کا خیال تھا کہ وہ وہاب کو پیسے دے کر ابیک کو ذیان کی طرف سے بدگمان کروا کے طلاق دلوا دے گی اور پھر آرام سے اس کی شادی ابیک کے ساتھ ہوجائے گی۔

لیکن یہ تو بہت مشکل تھا وہ ابیک کے طلاق دینے تک گاؤں میں رکتی تو اس سٹائلش پرسنالٹی کا کباڑا ہوجاتا جیسے ابھی ہو رہا تھا۔

وہاب اس سے آدھے پیسے لے کر غائب ہو چکا تھا رابطے میں ہی نہیں آرہا تھا۔ اور ابیک کسی طرح بھی طلاق دینے کے موڈ میں نظر نہیں آرہا تھا۔ حالانکہ وہاب نے بڑے وثوق سے پیش گوئی کی تھی کہ دو دن میں ہی ابیک ذیان کو طلاق دے دے گا۔ تنہائی میں کتنے موقعوں پہ رنم نے اس پہ ناز و انداز کے تیر چلانے کی کوشش کی تھی پر مجال ہے وہ ذرا بھی پگھلا ہو۔

وہ آخری بار اس سے بات کرے گی پھر دیکھتی ہے وہ کیا جواب دیتا ہے۔

رنم نے اس دن فراز کے ساتھ اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے ڈنر کیا بعد ازاں وہ اسے لانگ ڈرائیو پہ لے گیا۔ وہ بہت آرام سے گاڑی چلا رہا تھا۔ 

”رنم میں تم سے آج کچھ کہنا چاہتا ہوں اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔“ فراز کا انداز بہت خاص تھا۔ رنم جو شیشے سے باہر دیکھ رہی تھی ایکدم رخ موڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔

”ہاں بولو۔“ رنم آئی لو یو۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ جب تم مدد مانگنے میرے پاس آئی تھی تو میں اسی وقت تم سے یہ بات کہنا چاہتا تھا لیکن میری بزدلی نے اجازت ہی نہیں دی۔ تم جس نوجوان کو ڈھونڈ رہی تھی وہ میں بھی تو ہوسکتا ہوں۔ میں تمہیں بغیر جہیز کے تمہارے پپا کی حیثیت کے بغیر قبول کرسکتا ہوں میرے کہنے کا مطلب ہے کہ تم کچھ بھی مت لے کر آنا پھر بھی میں تم سے شادی کرلوں گا۔

رنم کی آنکھوں میں اچانک آنسو آئے تھے۔ ”فراز تم یہ بات اس وقت بھی تو بول سکتے تھے ناں جب میں گھر چھوڑ کر تمہارے پاس آئی تھی۔ تمہیں پتہ بھی نہیں ہوگا کہ میں نے گاؤں میں کیسی زندگی گزاری ہے۔ یہ چند ماہ جو میں نے پپا سے تم سب سے دور رہ کر گزارے کتنے ہارڈ تھے تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہاں مجھے بے آسرا بے سہارا لڑکی کا ٹائٹل ملا تھا میری قسمت اچھی تھی جو اللہ نے مجھے اچھے لوگوں سے ملوایا۔

تمہیں پتہ ہے میں جہانگیر انکل کے گھر رہی ہوں وہی پاپا کے دوست۔“ وہ روتے روتے بتا رہی تھی۔ فراز نے گاڑی ایک ذیلی سڑک پہ موڑتے ہوئے روک دی تھی۔ اس نے ٹشو پیپر باکس سے ٹشو پیپرز نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ ”ہاں احمد انکل مجھے بتا چکے ہیں۔ سوری میں نے تمہیں ہرٹ کیا۔“ فراز نے معذرت کی۔ ”تو تم مجھے آفیشلی پروپوز کر رہے ہو؟“ اس نے بے یقینی سے فراز کو دیکھا۔

”ہاں میں تمہیں پروپوز کر رہا ہوں۔ تمہیں اعتراض نہ ہوتو میری فیملی تمہارے گھر آئے؟“ ”ہاں میں سوچوں گی۔“ وہ مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ میں اس کا فیصلہ چھپا ہوا تھا۔ فراز کے اظہار نے اسے شانت کردیا تھا۔

گھر جا کر اس نے پپا کو بڑی بے تکلفی سے فراز کے ساتھ ہونے والی باتیں بتائیں۔ وہ خوش نظر آرہی تھی۔ یعنی اس نے فراز کو قبول کرلیا تھا۔

احمد سیال کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ تھوڑے دن میں ہی گاؤں سے اکتا جائے گی اس لیے انہوں نے اسے اجازت دے دی تھی۔ وہ ابیک پہ اپنا حق جتا رہی تھی انہیں علم تھا کہ یہ سب وقتی ہے کیونکہ وہ مشکلات برداشت کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ کہاں وہ ابیک کے حصول کے لیے مری جارہی تھی اور اب فراز کے پروپوزل کے آگے ڈھیر ہوگئی تھی۔ رنم سیال کے بارے میں وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ وہ حیران کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھی کسی وقت کہیں بھی کچھ بھی کرسکتی تھی۔

Last Episode – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

آخری قسط – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

فراز کے پرپوزل نے رنم سیال کو ابیک اور گاؤں، سوشل ورک سب کچھ بھلا دیا تھا۔

وہ آخری بار ابیک کو کال کرکے بات کرنے کا سوچتی آئی تھی کہ اسے اظہار محبت کرے گی ۔ اگر اس نے قبول کرلیا تو ٹھیک ورنہ آخری آپشن پھر بھی اس کے پاس موجود تھا۔ وہ ملک ابیک کو خود کشی کی دھمکی دیتی بلیک میل کرتی وہ خود ہی ہتھیار پھینک دیتا۔

وہ ابیک کے ساتھ گاؤں میں صحت کی سہولتوں کی دستیابی کے لیے ہاسپٹل بنوانا چاہ رہی تھی۔

ابیک نے ہاسپٹل کے لیے اسے مفت زمین فراہم کی تھی۔ اس کا نقشہ بھی منظور ہوچکا تھا۔

فراز سے ملاقات سے پہلے تک اس کا ارادہ برقرار تھا۔ ہاسپٹل کے لیے تعمیراتی سامان کی لاگت ابیک نے ٹھیکے دار سے معلوم کرلی تھی۔

اب تعمیراتی سامان آتا تو ہاسپٹل کے تعمیر کا آغاز ہوتا۔

وہ بھول بھال گئی تھی۔ حالانکہ صرف کچھ دن پہلے تک اس کا جوش و جذبہ برقرار تھا۔

اپنی افتاد طبع کے ہاتھوں مجبور رنم سیال ہاسپٹل، سوشل ورک، غریب اور غریب کے مسائل سب بھول گئی تھی۔

ابیک نے اس کی ذرہ بھر بھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ وہ اسے بھول بھال کر فراز کے ساتھ محبت کے نئے سفر پہ گامزن تھی۔

فراز کی فیملی ان کے گھر آئی تھی۔

احمد سیال خوش تھے۔ انہیں رنم کا یہ کلاس فیلو پسند تھا۔ انہیں پوری امید تھی کہ فراز رنم سے شادی کے بعد اسے سنبھال لے گا اور اس کی غیر مستقل مزاجی کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔

احمد سیال نے فراز کے گھر والوں کو ہاں کردی تھی۔

رنم، فراز کے ساتھ مارکیٹس کے چکر لگا رہی تھی۔ اسے منگنی پہ پہنا جانے والا ڈریس خریدنا تھا اسے کچھ پسند ہی نہیں آرہا تھا۔ راعنہ، کومل، اشعر تینوں دوست رنم سیال کی کایا پلٹ پہ حیران تھے کہاں تووہ بغیر جہیز کے شادی کے لیے مری جارہی تھی اور اب منگنی کے فنکشن کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ انتظامات پہ زور دے رہی تھی۔

اس کی خواہش تھی کہ اس کی منگنی کا فنکشن شاندار اور یادگار ہو۔ سب برسوں یاد رکھیں ایک دوسرے کو بتائیں کہ رنم سیال کی منگنی کیسے شاندار طریقے سے ہوئی تھی اس نے کتنا مہنگا ڈریس اور جیولری پہنی تھی ،کھاناکتنا اچھا اور ذائقے میں لاجواب تھا۔

منگنی کے عام سے فنکشن کے لیے اتنے اعلیٰ پیمانے پہ انتظامات ہو رہے تھے۔

رنم کے قریبی دوستوں کو اندازہ تھا کہ رنم اور فراز کی شادی کیسے ہوگی۔

نمودو نمائش اور پیسے کا زیاں۔ شان و شوکت کا مظاہرہ۔ شو آف۔ سب یاد رکھیں گے کہ احمد سیال کی بیٹی جیسی شادی تو اب تک ان کے سرکل میں کسی کی بھی نہیں ہوئی ہے۔

رنم سیال کے دل سے غریبوں کا درد نکل چکا تھا۔ ملک ابیک بھی فراز کی آمد کے بعد نکل چکا تھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا ابیک نے اس کی محبت کو کسی صورت بھی قبول نہیں کرنا تھا۔

رنم سیال کی منگنی کا دعوت نامہ ٹیبل پہ پڑا تھا۔

احمد سیال خود ملک جہانگیر کے پاس آئے تھے۔

کہاں تو رنم ایسے نوجوان سے شادی کرنا چاہ رہی تھی جو اسے بغیر جہیز کے تین کپڑوں میں قبول کرے اور اب اس کی منگنی کا فنکشن فائیو سٹار ہوٹل میں ہو رہا تھا۔ اس کا منگنی پہ پہنا جانے والا جوڑا ہی صرف لاکھوں روپے میں تھا۔ معاذ نے کارڈ دیکھ کر بدلے کا نعرہ لگایا۔

معاذ کی شادی اس کی خالہ کی بیٹی سے ہو رہی تھی۔

وہ اعتدال کو شروع سے پسند کرتا تھا۔ کسی کو بھی اس رشتے پہ اعتراض نہیں تھا۔ بس شادی جلدی میں ہو رہی تھی کیونکہ ملک جہانگیر کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ ذیان سب ناراضگی بھلائے انہیں دیکھنے کے لیے گھر آگئی تھی۔ یہاں ملک محل بقعہ نور بنا ہوا تھا۔

معاذ کی مہندی تھی۔ ملک جہانگیر نے اسے دیکھتے ہی بازو کھول دئیے۔ وہ بھاگ کر ان کے سینے سے لپٹی تھی۔

”میرے بغیر ہی شادی کر رہے تھے آپ؟“ وہ نروٹھے پن سے بولی۔ ”تمہارے بغیر اس گھر میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ جاؤ اچھی طرح تیار ہوجاؤ۔ ملکانی تمہارے انتظار میں ہے۔“ ملک جہانگیر شفقت سے مسکرائے۔

وہ ان سے الگ ہو کر پلٹی تو دروازے پہ عتیرہ، ملک ارسلان، افشاں بیگم اور معاذ سب کھڑے تھے۔ ایک شرمندہ سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آئی۔ افشاں بیگم نے اچانک آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔

”آؤ تیار ہوجاؤ۔“

وہ بنا چوں چراں کیے ان کے ساتھ ہولی۔ وہ افراتفری میں تیار ہوئی۔ گہرے رنگ کے بھاری جوڑے میں وہ بے حد دل کش لگ رہی تھی۔ باہر سے مسلسل دروازہ پیٹا جارہا تھا کہ”جلدی کرو باہر آؤ۔“

بڑے کمرے میں وہ دیگر لڑکیوں کے ساتھ مہندی کی سجاوٹ میں مصروف تھی۔ ہر طرف شور ہنگامہ اور خوشی تھی۔ ذیان مہندی کی سجاوٹی طشتریوں میں موم بتیاں سیٹ کر کے جلا رہی تھی۔

جب اس کی بے خبری میں اس کا دوپٹہ جلتی موم بتیوں پہ جاگرا۔ ریشمی دوپٹے نے پل بھر میںآ گ پکڑ لی۔ ذیان نے بدحواسی میں چیخنا چلانا شروع کردیا۔

سب لڑکیاں بجائے اس کے دوپٹے کو اس کے وجود سے الگ کرنے کے دور ہٹ کر کھڑی ہوگئیں۔ وہ ذیان سے خوفزدہ تھیں۔ کیونکہ اس پہ عاشق ہونے والے جن کی مبالغہ آمیز کہانیاں انہوں نے بھی سن رکھی تھیں۔

ایک نے عقل مندی کی بھاگ کر ابیک کو بلا لائی کہ ذیان بھابھی پہ جن آگیا ہے۔

وہ شدت سے اس کی آمد کا انتظار کر رہا تھا وہ نہ آتی تو ابیک نے خود جا کر اسے زبردستی لے کر آنا تھا۔ وہ مردانے میں تھا اس لیے اسے نہیں پتہ تھا کہ ذیان واپس آگئی ہے۔ وہ کچھ منٹ پہلے ہی اپنے کمرے میں آیا تھا۔ وہ نہا کر نکلا تھا شرٹ کے بٹن بھی پوری طرح نہیں لگائے تھے جب ذیان پہ جن آنے کی خوشخبری ملی۔ وہ فوراً بیڈ روم سے نکل کر ہال کی طرف دوڑا۔

لگ رہا تھا ذیان نے اس بار اس کا تماشہ بنوانے کے لیے زبردسست پلاننگ کی ہے۔ وہاں عجیب سی ہڑبونگ مچی تھی۔ ذیان کے دوپٹے کو آگ لگی ہوئی تھی اور وہ مسلسل چیخ رہی تھی۔ باقی لڑکیاں اسے دیکھ کر خود بھی یہی کام کر رہی تھیں۔ اتنا کسی سے نہ ہوسکا کہ جلتا دوپٹہ الگ کر کے دور کر کے پھینک دیتیں۔ دوپٹے کے جلتے کنارے نے ذیان کی شرٹ کے دامن کو چھو لیا تھا۔

جب ابیک نے بجلی کی تیزی سے دوپٹہ اس کے وجود سے الگ کر کے پھینکا۔

ذیان کو کھینچ کر وہ اپنے ساتھ بیڈ روم میں لے آیا۔ ذیان ڈر رہی تھی کیونکہ ابیک کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا جانے اب یہ غصے کی سرخی تھی یا کسی اور چیز کی کیونکہ ساری لڑکیاں چیختے ہوئے ایک بات دہرا رہی تھیں کہ ذیان بھابھی پہ جن آگیا ہے۔

ابیک اس کے سامنے کھڑا تھا بالکل پاس۔

”ذیان آگ نے کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا۔“

اس کے لہجہ میں بے قراری تھی۔ ذیان نے حیران نگاہیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ تو یہ سمجھ رہی تھی کہ ابیک کمرے سے لا کر اس کی کلاس لے گا۔ اتنی نرمی کی وہ توقع نہیں کر پا رہی تھی تب ہی تو چند ثانیے بعد کمرے میں اس کی سسکیوں کی آواز گونج رہی تھی۔

 ”آئی سوئیر اس بار میری غلطی نہیں ہے ساری لڑکیوں نے خود ہی کہا کہ مجھ پہ جن آگیا ہے۔

“ روتے روتے اس نے ہر ممکن طور پہ اپنی صفائی دینے کی کوشش کی۔

”جن تو تم پہ سچ مچ آنے والا ہے آتم توش سے زیادہ زور آور اور طاقتور۔“

ابیک مسکراہٹ چھپانے کے لیے پلٹا تو ذیان نے پیچھے سے اس کا کندھا پکڑ لیا۔ ”میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔“ اس بار اس کے رونے میں شدت تھی۔

 ”تم نے ہی تو سب کچھ کیا ہے۔ اب معصوم بن رہی ہو۔“ ابیک نے دروازہ لاک کر دیا اور پلٹ کر دوبارہ ذیان کے پاس واپس آیا جو حد درجہ خوفزدہ نظر آرہی تھی۔

حالانکہ وہ دل میں ابیک سے ناراض تھی دھڑلے سے واپس گھر آئی تھی۔ ”کہو تو تمہارے جرائم بتاؤں۔“ ابیک نے اس کے دونوں بازو پکڑ لیے۔ وہ اب اس کے مقابل تھی۔ گھیردار پاؤں کوچھوتے سٹائلش فراک اور چوڑی دار پائجامے میں ملبوس بغیر دوپٹے کے ابیک اس کا ایک ایک نقش وضاحت سے دیکھ سکتا تھا۔ ”اپنی مرضی سے تم نے سب کچھ کرلیا۔ مجھے ذہنی اذیت دی۔ مجھ سے محبت کرتے ہوئے بھی مجھے لاعلم رکھا بچتی رہی مجھ سے۔

بڑے دھڑلے سے مجھے کہا کہ اپنے بارے میں میں خود فیصلہ کروں گی۔ گھرسے چلی گئی تم۔ فیصلہ کیے بغیر۔ میں تو انتظار ہی کرتا رہا۔ اتنے دن جو میں تم سے دور رہا خاموش رہا صرف اس لیے کہ تم اپنی غلطیوں سے سیکھو اور صرف ایک بار مجھے اپنا فیصلہ سناؤ۔ تم نے مجھے اپنی محبت سے لاعلم رکھا لیکن میں تم سے محبت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا تمہیں بتا رہا ہوں صاف صاف۔

کیونکہ میں تم سے محبت کرنا نہیں چھوڑ سکتا۔ اور میں یہ بھی جان چکا ہوں کہ تمہارے صبر کا پیمانہ پوری طرح بھر گیا ہے۔ اب بھی اگر میں نے کوئی غلطی کی تو میرا حشر کردو گی۔“ مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائے وہ انوکھے طریقے سے اعتراف محبت کر رہا تھا۔

ذیان زیادہ دیر حیرتوں کے سمندر میں غوطہ زن نہ رہ پائی تھی۔ ابیک نے اس کی کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے گرد بانہوں کا حصار مضبوط کردیا تھا۔

”آپ چھوڑیں مجھے۔ آپ کو سب پتہ تھا جب اچھی طرح سے آپ میرے جذبات سے آگاہ ہوچکے تھے پھر یہ سب کرنے کی اجنبی بننے کی کیا ضرورت تھی۔“ ذیان نے اپنے ناخن ابیک کے بازو میں چبھونے کی کوشش کی۔ ”میں ایسا نہ کرتا تو مجھے کیسے پتہ چلتا کہ تم مجھ سے اتنی شدید محبت کرتی ہو اتنی زیادہ کہ رنم کی محبت بھری نگاہ بھی میرے اوپر برداشت نہیں کرسکتی۔

“ ابیک نے شرارت سے بولتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

”اچھا چلیں آپ باہر جائیں مجھے Change کرنا ہے ڈریس۔“ ذیان نے اس کے بازو پرے کیے۔ ”ایسا کرو آج برائیڈل ڈریس پہن لو۔“ ابیک نے معصومیت سے کہا۔

”ہونہہ، کیوں؟“ ”بس میرا دل کر رہا ہے۔“ ابیک نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔

”پتہ ہے روشنی کی ایک کرن میری مٹھی میں ہے۔“

”کون سی کرن؟“

”ملک ابیک۔

“جواباً وہ کھل کھلائی۔ ”یہ گمان نہیں ہے سراسر یقین ہے۔“

وہ اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

وقت کی گردش اس سمے تھم گئی تھی۔

وہ گھڑی کی ٹک ٹک میں ابیک کے دل کی دھڑکنیں بھی گن سکتی تھی۔

ابیک کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔

”ذیان۔“ ابیک کی نگاہ سرگوشی بن گئی تھی۔

خاموشی اور سکوت۔ شوخ لمحوں کی آہٹ۔

ذیان کا گمان یقین بن کر محبت کے سچے جذبوں پہ مہر ثبت کر رہا تھا۔

                                      ختم شد


 



 

                                           




                                       

 

                       



 

                                   


 

Leave a Comment