Episode 33 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 33 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال کا لہجہ بے لچک اور سخت تھا۔ اپنی بات پوری کر کے وہ جا چکے تھے۔ جھولتی راکنگ چیئر اب ساکت تھی۔ ”پپا آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔ میں کبھی بھی برداشت نہیں کروں گی۔ تمام عمر آپ نے میرے منہ سے نکلی ایک ایک بات پوری کی ہے۔ اور اب چھوٹی سی بات ماننے میں آپ کو اعتراض ہے۔ کیا شہریار بھائی جیسا ایک ہی مرد تھا دنیا میں۔ اگر ایسا ہے تو میں شادی ہی نہیں کروں گی۔

“ رنم غصے کی انتہائی حد پہ جا کر سوچ رہی تھی۔ احمد سیال نے اسے لاڈ پیار میں پالا تھا اس لئے یہ سب اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

اس نے لمحوں میں فیصلہ کیا۔ ویسے بھی فیصلے کرنے میں وہ دیر نہیں لگاتی تھی۔ جذباتی تو شروع سے ہی تھی۔ اس وقت بھی شدید غصے اور جذبات کے زیر اثر اس نے انتہائی فیصلہ کیا تھا۔

وہ اب الماری کے سامنے کھڑی تھی۔

نچلے خانے میں کچھ کیش پڑا تھا۔ ساتھ گولڈ کی جیولری تھی۔ اس نے دونوں چیزیں اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالیں پھر کپڑوں کی باری آئی۔ تین چار جوڑے اس نے ایک الگ چھوٹے سے بیگ میں ڈالے جسے آسانی سے اٹھایا جاسکتا تھا۔ دوسرے دراز سے اس کا اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ بھی مل گیا۔ وہ بھی اس نے ہینڈ بیگ کے چھوٹی پاکٹ میں ڈال دئیے۔

اس دوران اس کی آنکھیں دھواں دھار برستی رہیں۔

غصے کے عالم میں اس نے اچانک گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اس پہ عمل کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھی۔ جانے سے پہلے اس نے آخری مرتبہ اپنے کمرے پہ نظر دوڑائی۔ سائیڈ ٹیبل پہ فوٹو فریم میں اس کی اور پپا کی ایک یادگار فوٹو سجی ہوئی تھی۔ اس نے دھندلاتی نگاہوں سے فوٹو کو آخری بار دیکھا۔

سارا منظر ہی دھندلا رہا تھا۔ اس کے واپسی کے لئے باہر کی طرف پلٹتے قدم جیسے یکایک ہی لڑکھڑانے لگے۔

آوازیں اس کے کانوں میں چیخ رہی تھیں۔ وہ ان پہ غور نہیں کرنا چاہتی تھی پر وہ اسے اپنی طرف بلا رہی تھی پلٹنے پہ مجبور کر رہی تھی۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی غور سے سنا۔ یہ تو اس کے گھر کی تعمیر میں لگی ایک ایک اینٹ کی آواز تھی۔ اس نے بمشکل تمام آوازوں سے پیچھا چھڑاتے ہوئے آگے کی طرف قدم بڑھائے۔ پر یہاں بھی آوازیں اس کا دامن تھام کے فریاد کرنے لگیں۔

درخت گھاس، لان کی دیوار، براؤن آہنی گیٹ سب ہی اس سے التجا کر رہے تھے کہ خدارا اپنے بڑھتے قدم پیچھے ہٹا لو۔ چھوٹا سا سوٹ کیس ہاتھ میں تھامے وہ تیز تیز قدموں سے گیٹ کی طرف جارہی تھی۔ اس نے ہزار جتن کر کے آوازوں کی طرف سے دھیان ہٹایا۔ اب وہ گیٹ سے باہر تھی۔ سب آوازیں پیچھے رہ گئی تھیں۔ اس نے پیچھے مڑ کر براؤن گیٹ اور سبزے سے ڈھکی دیوار کو دیکھا دونوں خاموش تھے مایوس تھے انہیں یقینا پتہ چل گیا تھا کہ وہ اب واپس پلٹنے والی نہیں ہے۔

وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر کومل کے پاس اس کے گھر پہنچی تھی۔ اتفاق سے گھر میں کومل اور ملازموں کے سوا اور کوئی نہیں تھا کیونکہ مما پپا ایک فیملی فنکشن میں گئے ہوئے تھے۔ کومل کا جانے کا موڈ نہیں تھا اس لئے وہ گھر رک گئی تھی۔ ایک لحاظ سے رنم کے حق میں یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ کومل کے گھر پہ نہ ملنے سے اسے پریشانی لاحق ہوسکتی تھی۔

کومل اسے دیکھ کر فوراً ہی کھٹک گئی کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔

کیونکہ رنم کے پاس ہینڈ بیگ کے علاوہ ایک چھوٹا سا سوٹ کیس بھی تھا۔ اس کے چہرے پہ حد درجہٴ پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ دروازہ جیسے ہی کھلا وہ کومل کو ہاتھ سے ہٹاتی جھپاک سے اندر داخل ہوئی جیسے کسی کے دیکھ لیے جانے کا خطرہ ہو۔ بیٹھتے ہی اس نے رونا شروع کردیا۔ کومل کے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ ”ارے کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ تو۔ میرا دل ہول رہا ہے۔“ اس نے چھٹی بار بڑے صبر سے اپنا سوال دہرایا۔

پر رنم اسی رفتار سے روتی رہی۔ دسویں بار اس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں پوچھا تب رنم نے منہ کھولا۔ ”میں گھر چھوڑ آئی ہوں۔“ کہیں دھماکہ ہوتا تو شائد کومل کی ایسی حالت نہ ہوتی جو اَب ہو رہی تھی اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ شاید اسے سننے میں غلطی ہوئی تھی۔ بڑی مشکل سے اس کے منہ سے آواز نکلی۔ 

”کک کیا کہہ رہی ہو تم مذاق تو نہیں کر رہی ناں۔

“ کومل کے منہ سے بے یقین سا جملہ برآمد ہوا۔ ”نہیں نہیں ہاں میں ہمیشہ کے لئے اپنا گھر چھوڑ آئی ہوں۔“ کیوں چھوڑا تم نے گھر؟“ کومل نے اپنے حواس یکجا کرتے ہوئے خود کو سنبھالا۔ ”پپا میری بات جو نہیں مان رہے تھے۔“ اس نے پریشانی سے جواب دیا۔ ”تم اب کیا کرو گی؟“ میں گھر چھوڑ آئی ہوں واپس نہیں جاؤں گی۔ یہ لو میرا بیگ اس میں کپڑے ہیں اور یہ میرا ہینڈ بیگ بھی حفاظت سے رکھ دو اس میں جیولری اور کیش ہے۔

“ رنم نے آنکھیں مسلتے ہوئے دونوں چیزیں اس کی طرف بڑھائیں۔

کومل یوں پیچھے ہوئی جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ ”نہیں رنم تم گھر واپس لوٹ جاؤ میرے مما پپا فنکشن میں گئے ہیں انہیں پتہ چل گیا تو میری شامت آجائے گی۔“ کومل سخت خوفزدہ لگ رہی تھی۔ اس نے رنم کے ہاتھوں کی طرف مطلق توجہ نہ دی جن میں سامان دبا تھا۔ ”نہیں میں واپس نہیں جاؤں گی مجھے تم اپنے پاس رکھ لو۔

“ رنم ایسے بولی جیسے کومل انکار نہیں کرے گی۔“ پلیز کومل تم میری دوست ہو۔“ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔ ”تمہارے پپا کی اپروچ سے سب واقف ہیں اگر انہیں تمہاری یہاں موجودگی کی خبر ہوگئی تو میری فیملی کی شامت آجائے گی۔ ویسے تم رکنا چاہو تو موسٹ ویلکم مگر دوسری صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ میری دوست بن کر تم سو بار آؤ۔ مگر گھر چھوڑ کر آنے کی صورت میں مَیں تم سے معذرت خواہ ہوں۔

“ اس کا لہجہ با اعتماد اور مضبوط تھا۔

کومل سمجھدار اورباشعور تھی۔ احمد سیال کے بارے میں ان کی طاقت اور اثرورسوخ کے بارے میں بھی سب کچھ جانتی تھی۔ اگر انہیں رنم کی یہاں موجودگی کا علم ہوجاتا تو اس کی ذات لازمی شک کی لپیٹ میں آتی۔ وہ مما، پپا کے گھر واپس آنے سے پہلے پہلے رنم کو یہاں سے چلتا کرنا چاہ رہی تھی۔ دوستی اپنی جگہ پر اسے پپا کی عزت اور سلامتی بھی عزیز تھی۔

رنم پہ پہلے اسے ہمیشہ رشک آتا تھا پر ابھی ترس آرہا تھا۔ ابھی خاصی سپر لائف انجوائے کرتے کرتے وہ جانے کیوں یہ حماقت کرنے پہ تل گئی تھی اور گھر چھوڑ کر یہاں پہنچ چکی تھی۔

اس نے تو دوستی کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا جھٹ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی تھیں حالانکہ یونیورسٹی میں کیسے آگے پیچھے پھرا کرتی تھی اس کی دوستی کا دم بھرتی ہر شرارت پر ہر پروگرام میں اس کے ساتھ ہوتی۔

اب ایکدم کیسے بدل گئی تھی مدد کے نام پہ اسے گھر لوٹ جانے کا مشورہ دینے والی اس کی گہری دوست کتنی خود غرض تھی۔ رنم کو بہت شدید طریقے سے رونا آرہا تھا پر وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر رونا نہیں چاہتی تھی۔ ڈرائیور شوقین مزاج لگتا تھا۔ رنم کے بیٹھتے ہی اس نے میوزک سسٹم آن کردیا تھا۔ رنم اپنی ٹینشن میں تھی ورنہ اسے ٹوکتی ضرور۔

میں ڈھونڈنے کو زمانے میں جب وفا نکلا

پتہ چلا کہ میں لے کے غلط پتہ نکلا…

گلوکار سریلے انداز میں دنیا کی ایک اہم حقیقت بیان کر رہا تھا۔

نہ چاہتے ہوئے بھی رنم نے سنا اور پھر اس کے ہونٹوں پہ تلخ مسکراہٹ آگئی۔ وہ بھی کومل کے پاس کتنی امیدیں لے کر پہنچی تھی۔

فراز اس کا بیسٹ فرینڈ تھا رنم کو اس پہ بے پناہ مان تھا اس لئے اس نے فراز کی طرف جانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ فی الحال اس کی آخری امید فراز ہی تھا۔

فراز کے گھر کے سامنے ٹیکسی والے کو اس نے ہزار کا نوٹ دے کر فارغ کیا۔

وہ کبھی اسے دیکھ رہا تھا اور کبھی ہزار کے نوٹ کو۔

رنم پیسے دے کر آگے بڑھ گئی تھی اس نے نہ کرایہ پوچھا اور نہ باقی پیسے طلب کیے۔ ٹیکسی ڈرائیور اس کی عقل پہ ماتم کرتا اور دریا دلی پہ خوش ہوتا واپس جا چکا تھا۔ رنم کو فراز کا چوکیدار بہت اچھی طرح پہچانتا تھا سو اس نے رنم کو زوردار سلام جھاڑاا ور گیٹ کھول دیا۔

اندر ایک اورملازم نے ڈرائینگ روم تک اس کی رہنمائی کی۔

فراز یہاں اکیلا اپنے ملازمین کے ساتھ رہتا تھا۔ اندرون پنجاب اس کا آبائی گھر تھا اور سینکڑوں ایکڑ زمینیں تھیں یہاں وہ پڑھائی کے ارادے سے رہ رہا تھا۔ اس کے والد کھاتے پیتے خوشحال زمیندار تھے اس لئے وہ یہاں ٹھاٹھ سے رہ رہا تھا دیکھنے والے اس کی قسمت پہ رشک کرتے تھے۔ فراز کو جیسے ہی ملازم نے رنم کے آنے کی اطلاع دی وہ فوراً ڈرائنگ روم میں آگیا۔

نظر رنم کے پاس رکھے سوٹ کیس پہ پڑی۔ ہینڈ بیگ اس کی گود میں دھرا تھا۔ ذہین تھا فوراً تاڑ گیا کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ ”کیا یہاں رہنے کے ارادہ ہے جو سوٹ کیس بھی ساتھ لائی ہو۔“ اس نے قصداً ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا اُدھر فراز کے پوچھنے کی دیر تھی رنم کی آنکھیں برس پڑیں۔ اس نے نئے سرے سے سب کچھ دہرایا۔ کومل کی بے حسی خود غرضی، طوطا چشمی پہ وہ بے پناہ رنجیدہ تھی۔

فراز اس کی رگ رگ سے واقف تھا اس لئے اس نے کوئی اظہار خیال کرنے کی حماقت نہیں کی۔ ”تم کتنی دیر پہلے گھر سے نکلی تھی؟“ فراز کی نگاہیں دیوار گیر کلاک پہ مرکوز تھیں۔

”کافی گھنٹے ہوگئے ہیں۔“ رنم بڑ بڑائی تھی۔ ”ابھی تک تمہارے پپا کو تمہاری گمشدگی کا علم نہیں ہوا ہوگا وہ یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ تم فرینڈز کے ساتھ ہو۔ اور تمہارا سیل فون کہاں ہے؟“ اسے اچانک خیال آیا۔

”میں آف کر کے گھر رکھ آئی ہوں۔ ”اس نے فراز سے نظر چراتے ہوئے کہا۔ ”اچھا تب ہی ایک گھنٹہ پہلے میں نے تمہیں کال کی تو آف مل رہا تھا۔ ”فراز نے جیسے خود کلامی کی۔ ”فراز میں اب اِدھر ہی رہوں گی جب تک پپا میری بات نہیں مان جاتے تمہیں کومل کی طرح کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟؟“ رنم کی آنکھوں میں بے پناہ اندیشے نظر آرہے تھے۔ ”تم جب تک چاہو یہاں رہو۔

“ اس نے دوستانہ آفر کی تو رنم پہلی بار پرسکون ہو کر مسکرائی۔ ”تم سیرئیس ہو؟“ اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔ ”ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں۔ تم اپنا سامان رکھو۔ ملازم کمرہ بتا دے گا۔ میں کہتا ہوں اسے اور جاؤ تھوڑا فریش ہوجاؤ پھر کھانے کا کچھ کرتے ہیں۔“ فراز اسے تسلی دے کر اٹھا۔ ”سنو مجھے بھوک لگی ہے۔“ رنم کو تھوڑا اطمینان ہوا تو بھوک ستانے لگی ویسے بھی اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔

”تم ایزی ہوجاؤ میں کھانے کا بول کر آتا ہوں۔“ فراز باہر جا چکا تھا۔ رنم صوفے سے ٹیک لگائے ٹانگیں اوپر کیے نیم دراز تھی۔ اسے نیند آرہی تھی۔ صبح کی جاگی تھی دن بھر کی بے آرام تھی اب پریشانی کچھ کم ہوئی تو جسم آرام طلب کرنے لگا۔ ساتھ بھوک بھی لگ رہی تھی۔

فراز کو گئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ رنم اسے دیکھنے کے لئے باہر آئی۔

ٹی وی لاؤنج سے کسی کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔

اور یہ سو فی صد فراز ہی تھا وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی فراز بہت آہستہ آواز میں بات کر رہا تھا۔ ”انکل وہ یہاں میرے گھر میں ہے۔ میں نے کافی تسلی دی ہے اسے آپ جلدی آئیں۔ میں فون بند کر رہا ہوں ایسا نہ ہو اسے شک ہوجائے۔“ وہ اگرچہ آہستہ آواز میں بول رہا تھا پر بغور کان لگا کر سننے سے حرف حرف رنم کی سماعتوں میں اتر گیا تھا۔ فراز فون بند کر چکا تھا۔

رنم کچھ ثانیے کے لئے جیسے اُدھر ہی سن ہوگئی، قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ فراز نے بھی کومل کی طرح اُسے دھوکہ دیا تھا۔ کتنی بری طرح فراز نے اس کے اعتبار کو توڑا تھا۔ اس کا سب سے بیسٹ فرینڈ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکا تھا۔ یہ وقت افسوس کرنے کا نہیں تھا۔ اسے یہاں سے نکلنا تھا۔فراز پپا کو کال کر کے انفارم کر چکا تھا۔ وہ جہاں کہیں بھی تھے انہوں نے فراز کے گھر پہنچ جانا تھا۔

وہ ایک اور نمبر ملا کر بات کر رہا تھا۔ رنم الٹے قدموں چلتی ڈرائنگ روم میں پہنچی۔ وہاں سے سوٹ کیس اور ہینڈ بیگ اٹھایا۔ اس کا کل اثاثہ یہی دو چیزیں تھیں۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی گیٹ تک آئی ورنہ باہر موجود چوکیدار کو شک ہوسکتا تھا۔

پر خیریت رہی۔ گیٹ کے ساتھ رکھی اس کی کرسی خالی تھی۔ وہ شاید کسی ضرورت سے کہیں گیا ہوا تھا۔ وہ تیز تیز چلتی ہوئی روڈ تک آئی، اب آہستہ چلنے کا مطلب ناکامی تھا۔

خوش قسمتی سے فوراً ٹیکسی بھی مل گئی۔

وہ پھرتی سے دروازہ کھول کربیٹھ گئی۔ ”کسی اچھے سے ہوٹل لے چلو مجھے۔“ اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔ اس کے ذہن میں کچھ بھی نہیں تھا۔ کومل اور فراز کو اس نے آزما لیا تھا اب اشعر کو آزمانے کی کوشش فضول تھی وہ اگر راعنہ کے پاس جاتی تو اس نے بھی نصیحتوں کے انبار لگا دینے تھے اور فوراً سے بھی بیشتر اس کے پپا کو انفارم کرنا تھا۔

اس لئے رنم نے تھک ہار کر ہوٹل کا سوچا تھا۔ اس کے ذہن میں کوئی بھی لائحہ عمل نہیں تھا حماقت در حماقت کرتی جارہی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے بیک مرر سے اس کا جائزہ لیا۔ رنم کوشش کر رہی تھی اس کی کسی حرکت سے پریشانی یا اضطراب کا اظہار نہ ہو۔ ٹیکسی والے نے بہت غور سے اسے کئی بار دیکھا۔ لڑکی شکل و صورت، لب و لہجہ اور لباس سے امیر گھر کی لگ رہی تھی اور جس جگہ سے وہ ٹیکسی رکوا کر بیٹھی تھی وہ علاقہ بھی پوش تھا۔ سو ایسے لوگ کس قسم کے ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں ٹیکسی ڈرائیور کو اچھی طرح علم تھا۔ اس نے اپنی ٹیکسی ایک عمدہ مہنگے قسم کے ہوٹل کے سامنے لاکھڑی کی۔

Episode 34 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja


قسط نمبر 34 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ڈرائنگ روم میں کمال اور اس کی والدہ عفت خانم آئی ہوئی تھیں۔ بوا نے شاندار طریقے سے خاطر مدارات کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

اتوار کا دن تھا۔ عفت خانم بغیر کسی اطلاع کے اچانک اپنے سپوت کے ساتھ آن وارد ہوئی تھیں۔ زرینہ بیگم کوپتہ ہوتا کہ آج انہوں نے آنا ہے تو وہ انہیں منع کردیتی۔ کیونکہ اتوار کے دن وہاب لازمی ان کے گھر آتا تھا اور اچھا خاصا ٹائم گزار کر جاتا۔

وہ ذیان کے دیدار کے لئے آتا تھا اورگھنٹوں بیٹھتا تھا۔ کیونکہ اسے چھٹی کا ایک ہی دن ملتا تھا ویسے بھی وہ درمیان میں گاہے بگاہے چکر لگاتا تھا پر اتوار کے دن اس کی آمد لازمی ہوتی۔

بوا نے جلدی جلدی میں اچھا خاصا کھانا تیار کر لیا تھا جسے مہمان ڈکار کے ہضم بھی کر چکے تھے۔ اب زرینہ بیگم ان کے ساتھ باتوں میں لگی ہوئی تھیں۔

عفت خانم جواب لینے آئی تھی کیونکہ زرینہ بیگم نے امیر علی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ابھی تک انہیں کچھ نہیں کہا تھا۔

اسی لئے آج وہ خود آئی تھی کچھ کمال کا دباؤ تھا۔ ذیان کی خوبصورتی، کم عمری من موہنی صورت نے اسے بے صبرا کردیا تھا اسی کے نتیجے میں وہ اس وقت عفت خانم کے ساتھ امیر علی کے گھر میں بیٹھا ہوا تھا۔ جبکہ زرینہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ وہاب آج یہاں کا رخ کرنا بھول جائے۔ پر ہونی ہو کر رہتی ہے وہاب آج خاصا لیٹ آیا جب تک خاص الخاص مہمان پر تکلف لنچ کر کے گپیں ہانک رہے تھے۔

وہاب نے ڈرائنگ روم کے باہر سے ہی جھانکا اندر نہیں گیا اور سیدھا بوا رحمت کے پاس آگیا۔ ”بوا کوئی مہمان آئے ہیں کیا؟“ اس نے استفسار کیا۔ ”ہاں وہاب میاں مہمان آئے ہوئے ہیں۔“ بوا نے وہاب کا چہرہ غور سے دیکھا۔ ”کون سے مہمان ہیں؟“ وہ تیزی سے بولا۔ ”آپ خود اندر چل کر دیکھ لیں۔ چھوٹی دلہن کے کوئی جاننے والے ہیں۔“ بوا نے مصلحت سے کام لیا کیونکہ اڑتی اڑتی کچھ باتیں ان کے کانوں تک بھی پہنچی تھیں اس لئے انہوں نے وہاب کو زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔

پر نہ جانے کیوں اس کا چہرہ اندرونی اضطراب کی شدت سے لال ہو رہا تھا۔ بوا مہمانوں کے لئے چائے کے ساتھ دیگر لوازمات رکھ رہی تھیں۔ ذیان کے کمرے کا دروازہ حسب معمول حسب توقع بند تھا۔ امیر علی اپنے کمرے میں تھے۔ بوا نے چائے کا کپ اس کے آگے رکھا اس نے چھوا بھی نہیں۔ اندر ڈرائنگ روم سے اونچی آواز میں باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔

 ہنسی مذاق اور قہقہے بتا رہے تھے جیسے کسی دلچسپ موضوع پہ بات ہو رہی ہو۔

وہاب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر زرینہ خالہ کا انتظار کرنے لگا۔ نہ جانے کیوں رہ رہ کر اسے احساس ہو رہا تھا ان مہمانوں کا آنا بے سبب نہیں ہے۔ اور جو سبب اس کی سوچ میں آیا تھا اس نے وہاب کے ذہن میں ہلچل مچا دی تھی۔کچھ دنوں سے وہ نوٹ کر رہا تھا کہ امی اور زرینہ خالہ میں فون پہ لمبی لمبی باتیں ہونے لگی ہیں حالانکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا بہت ہوا تو روبینہ نے فون کر کے زرینہ سے دعا سلام کرلی خیر خیریت پوچھ لی اور بس۔

لیکن اب جب وہ آفس سے کبھی امی کے سیل نمبر پہ فون کرتا تو نمبر ہمیشہ مصروف ملتا۔ گھر میں ہوتا تب بھی زرینہ خالہ کی کال وقفے وقفے سے آتی اور روبینہ اپنا فون لے کر اِدھر اُدھر ہوجاتی۔ وہاب نے ایک دوبار بے دھیانی میں ان کی یک طرفہ گفتگو سنی تو خدشوں کے ناگ سرسرانے لگے۔

آج وہ اپنے خدشات کی تصدیق کے لئے ہی یہاں آیا تھا اور اسے محسوس ہو رہا تھا اس کے بے نام خدشات بہت جلد حقیقت بن کر اس کے سامنے آنے والے ہیں۔

وہ صبر سے خالہ کا انتظار کر رہا تھا۔ مہمان چائے پینے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے اسے اونچی آوازوں سے کوفت سی ہونے لگی۔زرینہ خالہ خاصی دیر بعد مہمانوں سے فارغ ہوئیں تب انہوں نے وہاب کو دیکھا۔ ”تم کب آئے؟“وہ خاصی پریشان نظر آرہی تھیں حالانکہ وہاب کو دیکھنے سے پہلے ان کا موڈ بالکل نارمل تھا اب چہرے پہ تفکر نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔

کوشش کے باوجود وہ اپنی پریشانی چھپانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔و ہاب یک ٹک انہیں دیکھ رہا تھا جیسے ان کے تاثرات میں آنکھوں میں کوئی راز چھپا ہو۔ ”تم کب آئے وہاب مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں۔“وہ گڑ بڑائی۔” مجھے تو آئے ہوئے تین گھنٹے سے اوپر ہوگئے ہیں۔“ وہاب کا لہجہ عجیب سا تھا۔ ”کوئی چائے وائے پی تم نے۔“ زرینہ بیگم اس کی طرف دیکھنے سے احتراز برت رہی تھی۔

”خالہ یہ کون سے مہمان تھے میں نے پہلے نہیں دیکھا کبھی۔“ ”میرے ملنے والے تھے۔“ ”آپ کے سب ملنے والوں کو میں جانتا ہوں۔“ وہ سخت لہجہ میں ایک ایک لفظ کو چبا کر بولا تو زرینہ کے تاثرات بھی یکسر بدل گئے۔ اسے کیا ضرورت تھی وہاب سے ڈرنے یا دبنے کی۔

”یہ مہمان ذیان کے رشتے کے لئے آئے تھے۔“ زرینہ کے انداز میں فطری اعتماد لوٹ آیا تھا۔

”تو گویا آپ اور امی اتنے دن سے مل کر یہی کھچڑی پکا رہی تھیں۔“ وہ زہر خند ہو کر بولا۔ ”خالہ آئندہ مجھے یہ مہمان یہاں نظر نہ آئیں۔“ وہ انگلی اُٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں بولا تو زرینہ کے تلوؤں میں آگ لگی اور سر پہ بھی گویا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال انار ہوگیا۔ ”تم مجھے یہ حکم دینے والے کون ہوتے ہو۔ میرے گھر کس کو آنا ہے کس کو نہیں آنا اس کا فیصلہ میں کروں گی نہ کہ تم۔

“ میں تمہاری مرضی یا حکم کی پابند نہیں۔“ ”خالہ یہ لوگ ذیان کے رشتے کے لئے آئے ہیں اس لئے میں نے کہا ہے کہ آئندہ مجھے یہاں نظر نہ آئیں۔“ ”ذیان ہماری اولاد ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ذیان کی شادی کس کے ساتھ کرنی ہے یا ہونی ہے اس کا فیصلہ بھی ہم نے کرنا ہے تم نے نہیں۔“ زرینہ چیخ ہی تو پڑی۔ وہاب تھوڑا خائف سا ہوگیا۔کچھ بھی سہی وہ اس وقت خالہ کے گھر میں تھا اور کچھ کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔

اس اچانک صورت حال نے اس کے حواس سلب کر لئے تھے اوپر سے خالہ شیرنی کی مانند اس پہ چڑھ دوڑی تھی۔ ”خالہ آپ کو شاید پتہ نہیں ہے میں ذیان کو پسند کرتا ہوں شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ اس کا انداز اب دفاعی ہوگیا تھا۔ ”مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا ورنہ کچھ نہ کچھ کرتی۔“زرینہ نے بھی ایکدم سے پینترا بدلا۔ ”کیا مطلب خالہ میں سمجھا نہیں۔“

”مطلب یہ ہے کہ امیر علی کبھی نہیں مانیں گے کہ تمہارے اور ذیان کے رشتے کے لئے۔

”کیوں خالہ آخر کیوں نہیں مانیں گے وہ؟“

”کیونکہ وہ میرے خاندان میں اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتے۔“ زرینہ وہاب کی نرمی اور پسپائی محسوس کر کے شیر ہوگئی تھی۔ ”خالہ آپ امیر خالو سے بات تو کریں بلکہ میں امی کو بھیجوں گا رشتے کے لئے فوراً۔ پہلے میرا ارادہ کچھ اور تھا پر اب دیر نہیں کروں گا ایسا نہ ہو”ٹور شور“بنانے کے چکر میں سب کچھ ہی میرے ہاتھ سے نکل جائے۔

“ ”ٹور شور سے تمہارا کیا مطلب ہے؟“

وہ وہاب کی بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ”میں کچھ سیونگ کے چکر میں تھا اتنا ہوجائے کہ میں گولڈ کا ایک سیٹ منگنی کے لئے اور شاندار سا سوٹ لے سکوں۔ کسی اچھے ہوٹل میں اپنی منگنی کا فنکشن دھوم دھام سے کروں۔ ذیان کے شایانِ شان“ اس نے ٹور شور کی طویل وضاحت کی۔ ”میں امی کو جلدی بھیجوں گا آپ کے پاس“ ”آپا کو میرے پاس رشتے کی نیت سے بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے ہم عفت خانم کو ہاں کر چکے ہیں۔

“ زرینہ نے جھوٹ فراٹے سے بولتے ہوئے اس کے اعتماد کی مضبوط دیوار میں پہلا سوراخ کیا۔ تب زرینہ کو وہاب کے چہرے پہ چٹانوں کا سا عزم نظر آیا۔ ”آپ نے صرف رشتے کے لئے ہاں کی ہے ناں۔ نکاح تو نہیں ہوا ناں۔“ وہ عجیب سے انداز میں بولا۔ ”شریف خاندانوں میں زبانی رضا مندی نکاح سے کم نہیں ہوتی۔“ جواباً وہ ٹھنڈے ٹھار لہجہ میں بولیں۔ ”خالہ میں اس وقت جارہاہوں بعد میں پوری تیاری کے ساتھ آؤں گا۔

“ وہاب دروازے کوپاؤں سے ٹھوکر مار کر کھولتے ہوئے عبور کر گیا۔ بوا حیرانی اور نا سمجھی کے عالم میں وہاب کو دیکھ رہی تھیں۔

زرینہ نے اسی وقت ذیان کے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑایا۔ اس نے لاک کیا ہوا تھا، اور سر منہ لپیٹ کے لیٹی تھی۔ وہ مہمانوں کی آمد پہ ایک بار بھی باہر نہیں نکلی تھی۔ حالانکہ عفت خانم نے کتنی بار اس کا پوچھا تھا زرینہ نے جھوٹ بول کر انہیں مطمئن کیا تھا۔

زرینہ کو پتہ تھا ذیان اس کے کہنے کے باوجود بھی کمرے سے نکل کر عفت خانم سے نہیں ملے گی اس لئے انہوں نے ایسی کوشش کی ہی نہیں تھی۔

ذیان نے بولٹ گرا کر لاک ہٹا دیا تھا۔زرینہ تیزقدموں سے آگے اس کی طرف آئی تھی۔

”تم مہمانوں کے آنے پہ کمرے سے باہر کیوں نہیں نکلی؟“اسے ذیان پہ شدید غصہ آرہا تھا کیونکہ وہی تو اس سارے فساد کی جڑ تھی۔

”وہ آپ کے مہمان ہیں اس لئے آپ خود ہی ڈیل کریں۔“ ”خیر میں تمہیں یہ بتانے آئی تھی کہ کمال کی والدہ رشتے کی رضا مندی کا جواب لینے آئی تھی۔ تمہارے ابو کو کمال بہت پسند آیا ہے اس لئے تم خود کو ذہنی طور پہ کمال سے شادی کے لئے تیار کرلو۔“ ”مجھے نہیں کرنی کسی بھی کمال یا جمال سے شادی۔“وہ سرد لہجہ میں بولی۔ ”تمہارے ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

ان کے حال پہ رحم کرو۔“ زرینہ کا لہجہ کاٹ دار تھا۔ ”آپ میرے حال پہ رحم کریں نہیں کرنی مجھے شادی۔“ اس بار ذیان نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دئیے۔ ”تمہاری ماں خود عیش کر رہی ہے تمہیں میرے سینے پہ مونگ دلنے کے لئے یہاں چھوڑ گئی ہے۔ زرینہ نے آواز دبا کر ایک ایک لفظ پہ زور دیا۔ یہ ذیان کی کمزوری اور دکھتی رگ تھی۔

اس کے چہرے کا رنگ یکدم متغیر ہوا۔

زرینہ دل ہی دل میں خوش ہوئی۔ ”کمال نہیں پسند تو نہ سہی وہاب بھی تمہارے امیدواروں میں شامل ہے۔“ اس نے تاک کر ایک اور وار کیا۔ ”میں لعنت بھیجتی ہوں وہاب پر اور آپ سے وابستہ ہر چیز پہ۔“ ذیان زہر میں بجھے ہوئے لہجے میں بولی۔پہلی بار زرینہ نے اس کے اندر سرکشی کو سر اٹھاتے دیکھا۔ ”ایسی صورت میں کمال بیسٹ چوائس ہے۔“ غصے میں بھی زرینہ نے عقل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

”آپ کو کمال اتنا ہی پسند ہے تو رابیل یا مناہل میں سے کسی ایک کی شادی اس کے ساتھ کردیں۔“ ذیان نے یہ مشورہ دے کر گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ”رابیل یا مناہل کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان کی ماں ابھی زندہ ہوں میری بیٹیاں لاوارث نہیں ہیں۔ ذیان کاٹ ڈالوں گی جوآئندہ ان کا نام لیا۔ تمہاری ماں کی طرح نہیں ہوں اپنی بچیوں کی بھلائی عزیز ہے مجھے۔

“ ذیان کا چہرہ دھواں دھواں سا ہوگیا۔ زرینہ کا وار نشانے پہ لگا تھا۔ ذیان صوفے پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی۔ زرینہ کو اس کا شکست خوردہ چہرہ دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ اپنی ماں کا نام لئے جانے پہ اس کی یہی حالت ہوتی تھی۔ ذیان کی آنکھوں میں آنسو ڈول رہے تھے۔ زرینہ اسے چھوڑ کر باہر آگئی۔ اب جو طوفان پیچھے آتا اس کی بلا سے، اسے سروکار نہیں تھا۔

ذیان نے وحشیانہ انداز میں تکیے پہ مکے برسائے۔ دیواروں پہ لاتیں ماریں اپنے بال نوچے لیکن گھٹن بڑھتی جارہی تھی۔ تھک ہار کر اب وہ گھٹنوں میں سر دئیے سسک سسک کر رو رہی تھی۔ اس کی چند ثانیے پہلے والی ساری اکڑ اور تیزی رخصت ہوگئی تھی۔ طوفان آنے کے بعد سناٹے اور خاموشی والی کیفیت تھی۔

Episode 35 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 35 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابرراجہ

رنم کو گئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ کومل اس کے جانے کے بعد کافی دیر بلا وجہ لان کے چکر کاٹتی رہی۔وہ اسی کے بارے میں مسل سوچ رہی تھی جانے گھر پہنچی ہوگی کہ نہیں۔یہاں سے نکلے ہوئے اسے دو گھنٹے سے اوپر ہوچکے تھے۔ وہ ناراض ہو کر اس سے رخصت ہوئی تھی اسے منانا دشوار امر تھا لیکن یہ کام تو کرنا ہی تھا۔ کومل نے اسے فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سیل فون اٹھا کر رنم کا نمبر ڈائل کیا۔

پر اس کا نمبر آف جارہا تھا۔ اس نے تین چار بار ٹرائی کیا لیکن ہر بار ایک ہی جواب ملا۔ اس نے فراز کا نمبر ڈائل کیا۔اس وقت کومل کے دل پہ بے پناہ بوجھ تھا وہ فراز سے شیئر کرنا چاہ رہی تھی۔ فراز رنم کا کلوز فرینڈ تھا اسے سمجھا بجھا کر کومل کی طرف سے اس کا دل صاف کرسکتا تھا۔

فراز نے فوراً فون ریسو کیا۔

کومل کے بولتے ہی وہ جان گیا کہ وہ اس وقت بہت پریشان ہے۔

”کومل آر یو اوکے؟“ ”نو ناٹ ایٹ آل۔“ فراز رنم اپنا گھر چھوڑ کر میرے پاس آئی تھی لیکن میں نے سمجھا کر اسے گھر واپس بھیج دیا تھا وہ ناراض ہو کر گئی ہے مجھ سے۔ میں اس کے نمبر پہ کال کر رہی ہوں لیکن وہ پاور آف ہے۔ تم اس کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرنا ہوسکتا ہے میں کل یونیورسٹی نہ آسکوں بہت ڈسٹرب ہوں۔“ جواب میں فراز نے اسے جو کچھ بتایا وہ کومل کے ہوش اڑانے کے لئے کافی تھا۔

وہ گھر نہیں گئی تھی سیدھی فراز کے پاس آئی تھی اور اب وہاں سے بھی غائب تھی۔ یعنی کومل کے سمجھانے کا اس پہ کوئی اثر نہیں ہواتھا۔ ”میں اپ سیٹ ہوں بہت۔ میرا خیال ہے اس نے فون پہ میری باتیں سن لی تھیں جو میں احمد انکل کے ساتھ کر رہا تھا۔ گیٹ پہ چوکیدار بھی نہیں تھا جو اسے روکتا یا مجھے انفارم کرتا۔“ فراز کی آواز سے اس کی دلی پریشانی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔

”فراز وہ کہاں گئی ہے۔ تم نے اس کے گھر سے معلوم کیا؟“ کومل کا سوال بہت سے اندیشے سمیٹے ہوئے تھا۔ ”ہاں میں نے ابھی ابھی کال کی ہے کسی ملازم نے اٹینڈ کی ہے کال اور بتایا ہے کہ رنم بی بی گھر پہ نہیں ہیں۔“ ”اس کا سیل فون بھی آف ہے۔“ کومل نے بتایا۔ ”سیل فون آف کر کے وہ اپنے گھر میں چھوڑ آئی ہے۔ اس لئے آف مل رہا ہے۔“ ”فراز تم نے احمد انکل کو بتایا اس کے بار ے میں۔

“ کومل نے محتاط ہو کر پوچھا۔ ”نہیں میں نے کچھ نہیں بتایا ہے۔ جب وہ مجھ سے پوچھیں گے تو بتاؤں گا ورنہ نہیں۔“ ”فراز وہ مجھ سے بھی تو پوچھیں گے ناں۔“ ”ڈونٹ وری کومل۔“ فراز نے اسے تسلی دی۔ ”وہ کہاں ہوگی اب؟“ ”مجھے جیسے ہی پتہ چلا کہ وہ ڈرائنگ روم میں نہیں ہے تو اسی وقت میں نے اسے پورے گھر میں تلاش کیا، ناکامی پہ میں نے اُسے اِدھر اُدھر قریب کے علاقے میں ڈھونڈا۔

ابھی تمہاری کال آنے سے پانچ منٹ پہلے ہی گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے آیا ہوں۔“ فراز خود بہت پریشان تھا۔

”میں راعنہ سے کال کر کے پوچھتی ہوں اور اشعر سے بھی۔ ہوسکتا ہے وہ ان کی طرف ہو۔“ کومل پر امید تھی۔ ”اشعر کو میں نے کال کی تھی اس نے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ باقی میرا نہیں خیال کہ وہ راعنہ کی طرف جاسکتی ہے۔ پھر بھی تم پوچھ لو۔“ فراز کے ساتھ رابطہ منقطع کر کے کومل نے فوراً راعنہ کو کال ملائی۔

فراز کا اندیشہ سچ ثابت ہوا۔ رنم اس کی طرف بھی نہیں تھی۔

                                   

امیر علی کا کمرہ ڈرائنگ روم کی مشرقی سمت میں واقع تھا اس لئے گھر کے دیگر حصوں میں ہونے والی سرگرمیوں کی سن گن بہت کم ان تک پہنچ پاتی تھی۔ جب تک کوئی بات مکمل طور پہ ان کے علم میں نہ لائی جاتی وہ آگاہی سے محروم رہتے۔

پر وہاب اور زرینہ کے جھگڑے کی آواز ان کی سماعتوں تک بھی پہنچی تھی اسی لئے انہوں نے زرینہ سے استفسار کیا۔

”یہ وہاب اتنا تیز کیوں چلارہا تھا؟“ دوائی کھاتے کھاتے انہوں نے اچانک سوال کیا۔ ”اس کا دماغ خراب ہو رہا ہے اور بس۔“ زرینہ نے ٹالنے کی کوشش کی۔ ”وہ ذیان کا نام بھی لے رہا تھا کیوں؟“ اس بار سوالیہ بے بسی ان کے لہجے سے واضح تھی۔ ”اصل میں وہاب کی مرضی ہے ذیان سے اس کا رشتہ ہوجائے پر آپا روبینہ ایسا نہیں چاہتیں انہوں نے خاندان کی ہی ایک لڑکی وہاب کے لئے پسند کر رکھی ہے۔

وہ میرے پاس آیا تھا کہ اس کی ماں کو سمجھاؤں۔“

زرینہ نے اعتماد سے جھوٹ بولا۔ ”یہ میرا گھر ہے کوئی مچھلی بازار نہیں ہے جو وہ اتنا شور شرابا کر کے گیا ہے۔“ امیر علی کا انداز بتا رہا تھا کہ انہوں نے بہت کچھ سن لیا ہے۔

”عفت خانم کو آپ کوئی صاف جواب دے ہی نہیں رہے ہیں ذیان کی کشتی جب تک کسی کنارے نہیں لگتی تب تک یہی ہوگا۔ آپ کو کتنی بار کہا کہ کمال کے رشتے کے لئے ہاں کردیں ورنہ ذیان کی ماں کی شہرت کی وجہ سے اس کے ساتھ یہی ہوگا۔

“ زرینہ نے ان کے زخموں پہ نمک چھڑکنے میں انتہا کردی تھی۔ جواباً وہ بے بسی سے اسے دیکھ کر رہ گئے۔ بہت سال پہلے انہوں نے ذرا سے شک کے پیچھے اپنا گھر اجاڑ کر زرینہ سے شادی رچائی تھی اور اسے ایک ایک کمزوری سے آگاہ کیا۔ زرینہ بیگم تب سے اب تک ان کی کمزوریوں سے کھیلتی آرہی تھی، ذیان کی صورت میں ایک جیتا جاگتا کھلونا بھی ان کے پاس تھا۔ ”بس کرو جاؤ زرینہ بیگم۔

میں نے بہت بڑی غلطی کی تھی“ امیر علی نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا تھا۔ وہ دور بیٹھی تمسخرانہ نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

                                   

رنم کو اس ہوٹل میں کمرہ لینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ ہوٹل بہت اچھا تھا، کمرہ بھی اس کی پسند کے عین مطابق تھا۔ وہ مختصر سامان سیٹ کر کے بیٹھی ہوئی تھی، اندر ہی اندر کوئی چیز رہ رہ کر پریشان کر رہی تھی۔ اس نے بیرے سے کھانا بھی کمرے میں ہی منگوایا۔

وہ نہیں چاہتی تھی کھانا ڈائننگ ہال میں کھائے اور کوئی وہاں پہچاننے والا مل جائے۔ مشکل سے چند نوالے اس نے زہر مار کیے۔ باقی کا کھانا جوں کا توں رکھا تھا، دل انجانے خدشات سے بھرا ہوا تھا۔

Episode 36 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 36 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ سونے کے لئے لیٹ چکی تھیں۔ارسلان مطالعے میں مصروف تھے۔ عتیرہ بستر پہ نیم دراز ہوئیں تو انہوں نے بھی کتاب رکھ دی۔ ”کل کے لئے تیاری کرلی ہے ناں؟“وہ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ”جی ہاں سب تیاری مکمل ہے۔“وہ آنکھیں موندے موندے بولیں۔ ”اس کے چہرے پہ تھکن تھی۔ شاید دن بھر کی مصروفیت کا نتیجہ تھا۔ صبح انہیں اپنے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا تھا اور قیام ہوٹل میں تھا۔

ارسلان ادبی ذوق کے مالک تھے وقتاً فوقتاً وہ شہر میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں میں شرکت کرتے رہتے تھے۔ تقاریب کے دعوت نامے آئے دن ملتے۔ان دونوں یعنی ملک ارسلان اور عتیرہ نے کچھ روز کے لئے گاؤں سے باہر جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ عتیرہ ویسے بھی ادبی سرگرمیوں اور دلچسپیوں میں ان کیساتھ ہی ہوتی تھیں۔

ملک ابیک کو ان دونوں کے ہوٹل میں قیام پہ اعتراض تھا کیونکہ شہر میں ان کا عالیشان گھر موجود تھا۔

پر ہوٹل میں قیام کرنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ وہ جس ادبی تقریب میں شرکت کرنے جارہے تھے وہ اسی ہوٹل میں منعقد ہونی تھی اس لئے ملک ارسلان نے وہاں قیام کو اولیت دی تھی کیونکہ تقریب میں ان کے پسندیدہ شعرا بھی مدعو تھے۔ ابیک سے انہوں نے معذرت کرلی تھی۔

اولاد سے محرومی کے دکھ کو ان دونوں میاں بیوی نے اپنی اپنی مصروفیت میں بھلانے کی کوششیں کی تھیں اور اس میں کافی کامیاب بھی تھے۔

اس بار شہر آنے کا فیصلہ انہوں نے عتیرہ کی ذہنی صحت کے پیش نظر کیا تھا کیونکہ اسے بار بار ڈپریشن کے دورے پڑنے لگے تھے۔ وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو رہی تھی۔ ماضی جو ہمیشہ سے ان دونوں کے لئے اذیت ناک رہا تھا۔ ملک ابیک اسے ماضی کے عمیق غاروں سے نکالنا چاہ رہے تھے اور اس میں کافی کامیاب بھی رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عتیرہ کل شہر جانے کے تصور سے خوش تھیں۔

                                 

احمد سیال پاگلوں کی طرح رنم کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔

رات گئے انہوں نے باری باری رنم کے سب دوستوں کو کال کر کے اس کے بارے میں پوچھا۔ فراز نے سچائی سے سب حالات ان کے گوش گزار کردئیے تھے۔ وہ خود چل کر فراز کے پاس آئے تھے۔ کومل کی زبانی رنم کی بابت سن کر وہ ڈھے سے گئے۔ فراز کو ساتھ لے کر انہوں نے رنم کی سب سہیلیوں، دوستوں سے اس کے بارے میں پوچھا۔

بدنامی کے ڈر سے وہ اس بات کو پھیلانے سے ڈر رہے تھے ان کے دوست احباب رنم کی گمشدگی سے واقف ہوجاتے تو کتنی باتیں بنتیں۔ انہیں اپنی عزت اور خودداری عزیز تھی۔ اس لئے خاموشی سے انہوں نے رنم کی تلاش کے لئے ممکنہ جگہیں دیکھ ڈالی۔ ہاسپٹل، مردہ خانے، ائیرپورٹ بس اسٹینڈ ہر جگہ سے اس کے بارے میں معلوم کروایا۔

وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ اور کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں تھا جس کی بناء پر وہ اسے اغوا شدہ گردانتے۔

وہ خود اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی تھی۔ جو گم ہوجاتے ہیں انہیں تلاش کیا جاسکتا ہے پر وہ جو اپنی مرضی سے گئی تھی احمد سیال اسے کہاں تلاش کرتے اس نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا تھا۔ فراز کے مشورے پہ انہوں نے احتیاطاً رنم کی گم شدگی کی رپورٹ پولیس میں درج کروا دی تھی۔

فراز نے ان کی بہت مدد کی تھی ہر جگہ رنم کو تلاش کرنے کی مہم میں وہ احمد سیال کے ساتھ ساتھ رہا تھا۔

رنم کی پراسرار گمشدگی احمد سیال کے ساتھ ساتھ باقی ان سب دوستوں کے لئے بھی معمہ بنی ہوئی تھی۔

طویل سیاہ رات گزر چکی تھی۔ سپیدہ سحر اندھیری رات کا سینہ چیرتے ہوئے نمودار ہونے کی فکر میں تھا۔ احمدسیال پوری رات میں ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سو پائے تھے۔ انہیں ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ شدید کرب کے حصار میں ہیں ان کی یہ جان کنی کی کیفیت ختم ہونے والی نہیں تھی۔

ان کی رنم گھر پہ نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر تھے پر ان کی لاڈلی بیٹی نے کہاں اور کیسے رات گزاری تھی وہ اس سے لاعلم تھے۔ محض ایک رات میں ہی وہ برسوں کے بیمار نظرآرہے تھے۔ چوڑے کندھے جھک گئے تھے چہرے پہ زردی کھنڈی تھی۔ انہوں نے پولیس میں رپورٹ درج کروا دی تھی۔ ان کا دوست ایس پی گوندل خود رنم کی گمشدگی سے متعلق معاملات کو دیکھ رہا تھا پرابھی تک اس کی طرف سے بھی کوئی حوصلہ کن خبر نہیں ملی تھی۔

رنم کو اگر خبر ہوجاتی کہ احمد سیال کس کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں تو ایسے گھر چھوڑ کر جانے سے پہلے یقینا وہ بہت بار سوچتی۔ رات سے انہوں نے کھانے کے نام پہ پانی کے چند گھونٹ ہی پیئے تھے۔

ہوٹل میں رنم کا تیسرا دن تھا۔ اس دوران وہ ایک بار بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔ تینوں وقت ناشتہ چائے پانی کھانا کمرے میں ہی منگواتی۔ ہوٹل کے کچھ ملازم اور بیرے اس کی طرف سے نامعلوم تجسس کا شکار ہو رہے تھے۔

نہ وہ کہیں گئی تھی نہ اسے کوئی ملنے آیا تھا۔ اس شاندار سہولیات سے مزین ہوٹل میں اس نے پورے ایک ماہ کے لیے کمرہ بک کروایا تھا۔ سامان کے نام پہ اس کے پاس صرف چھوٹا سا ایک سوٹ کیس اور ہینڈ بیگ تھا اور سب سے حیرت انگیز بات اس کے پاس سیل فون بھی نہیں تھا۔ صفائی کرنے والے لڑکے نے نظر بچا کر اس کے سامان اور کمرے کی سرسری سی تلاشی لی تھی۔ ہوٹلوں میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں کسی کا قیام مختصر اور کسی کا طویل ہوتا ہے۔

پر رنم کی طرف سے ہوٹل اسٹاف کے کچھ لوگ تجسس کا شکار ہو رہے تھے۔ لڑکی خوبصورت اور اونچے گھرانے کی لگ رہی تھی صاحب حیثیت بھی تھی تب ہی تو اس مہنگے ہوٹل میں آ کر ٹھہری تھی۔ ورنہ عام انسان تو یہاں کی ایک چائے کی پیالی بھی افورڈ نہ کر سکتا تھا۔

رنم کے پاس پیسے تیزی سے کم ہو رہے تھے۔ وہ ہینڈ بیگ میں موجود سب چیزیں باہر نکال نکال کر دیکھ رہی تھی۔

بظاہر سب چیزیں پوری تھیں پر پھر بھی کہیں نہ کہیں کسی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔ رنم ہینڈ بیگ میں موجود چیزیں اندر ڈال کر نقد پیسے گن رہی تھی جب دروازے پہ ہلکی آواز میں دستک ہوئی۔ ”یس کم ان۔“ اس نے مصروف انداز میں کہا خود وہ اپنے کام میں لگی رہی۔ اسے کھانا پہنچانے والا بیرا دبے قدموں اندر داخل ہوا۔ وہ رنم کی پشت پہ کھڑا تھا۔ آہٹ پہ وہ چونک کر سیدھی ہوئی اور بیرے کو دیکھ کر ہڑبڑاتے ہوئے پیسے اور دیگر چیزیں سب تکیے کے نیچے کردیں۔

پر اس کے چھپانے سے پہلے ہی وہ سب کچھ دیکھ چکا تھا۔ 

بیرے کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔ اس نے اپنے تاثرات سے ذرا بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ سب دیکھ چکا ہے۔ اس نے کھانے کی ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور ادب سے سلام کر کے باہر آگیا۔ بیرے نے اسے پیسے گنتے دیکھا تھا پر ساتھ ہی اس نے ہینڈ بیگ سے باہر رہ جانے والے سونے کی زیورات بھی رنم کی لاپروائی کی وجہ سے دیکھ لئے تھے۔

اسے پوری امید تھی کہ لڑکی کے پاس اور بھی بہت کچھ ہوگا کیونکہ وہ موٹی آسامی لگ رہی تھی۔ اس کی نیت میں فتور آچکا تھا۔ لڑکی جوان اور خوبصورت تھی سونے پہ سہاگا اکیلی تھی ابھی تک تو اس نے لڑکی کے ساتھ کسی کو بھی نہیں دیکھا تھا نہ اس نے کسی سے رابطہ کیا تھا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہ اس کے لئے آسان ترین شکار ثابت ہوسکتی تھی۔ اس لئے رنم کو کھانا پہنچا کر واپس جاتے ہوئے اسے اپنے منصوبے کے بارے میں سوچتے ہوئے سرور آرہا تھا۔

کمرے میں بند رہ رہ کر رنم اکتا گئی تھی۔ ڈرتے ڈرتے اس نے پہلی بار کمرے سے باہر قدم رکھا۔ اس نے بیرے کو پہلے ہی کھانا لانے سے منع کردیا تھا۔ وہ آزاد فضا میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل سوچنا چاہ رہی تھی سب سے بڑا مسئلہ تو تیز ی سے ختم ہوتی ہوئی رقم کا تھا۔

اس نے گھر سے نکلنے سے پہلے گنے بغیر پیسے بیگ میں ڈالے تھے اچھی خاصی رقم تھی لیکن اسے گننے کے بعد کم لگ رہی تھی۔

اس کی فکر اپنی جگہ تھی لیکن ابھی اس کے پاس اچھی خاصی مالیت کے زیورات بھی تھے جو اس کی ذاتی ملکیت تھی کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈز اس کے علاوہ تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ پریشان تھی۔ شاید اسے پیش آنے والی تلخ حقیقتوں کا کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا۔ ایک ثانیے کے لئے اس کے جی میں آئی کہ گھر واپس چلی جائے لیکن فوراً ہی اس نے اپنے اس خیال کا گلا مضبوطی سے گھونٹ دیا۔

وہ احمد سیال سے بہت شدید ناراض تھی۔

کھانا ویٹر نے سرو کردیا تھا پر اس نے کھانے کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔

اسی ڈائیننگ ہال میں اور بہت سے لوگوں کے ساتھ عتیرہ بھی تھیں۔

عتیرہ کی نظر کھانے کے دوران اچانک رنم پہ پڑی۔ سب ہی کھانا کھا رہے تھے پر شکل سے اداس اور پریشان نظر آنے والی لڑکی کھانے کی طرف بالکل بھی متوجہ نہیں تھی۔ کھانے کو سامنے رکھے وہ غیر مرئی نکتے کو دیکھ رہی تھی۔ عتیرہ کو اپنے بائیں پہلو میں شدید چبھن کا احساس ہوا۔

Episode 37 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 37 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

کرب کی ایک لہر پورے وجود میں ایک ثانیے کے لئے بیدار ہوئی۔ دل اس اجنبی لڑکی کی طرف کسی معصوم بچے کی مانند ہمک رہا تھا۔ اپنی اس کیفیت سے وہ خود بھی حیران تھی۔لڑکی کے چہرے کی اُداسی دیکھ کر اس کا اپنا دل گہری اُداسی میں ڈوب گیا تھا۔ بہت ضبط کے باوجود جب عتیرہ سے رہا نہیں گیاتو وہ اٹھ کر اس کے ٹیبل کی طرف آگئیں۔ جو اَب بھی خوفزدہ ہرنی کی مانند اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔

اس کی آنکھوں میں کسی خوف کے گہر ے سائے صاف دکھائی دے رہے تھے۔

”کیا میں یہاں آپ کے پاس بیٹھ سکتی ہوں؟“ عتیرہ کی نرم شائستہ آواز پہ وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔ اب اس کے چہرے پہ خوف کے سایوں کی جگہ ایک رسمی مسکراہٹ نظر آرہی تھی پر اس میں بھی ہزاروں سوال اور خدشے تھے۔ جانے یہ کون تھیں اور کیوں اس کے پاس آئی تھیں۔

”میں کھانا کھا رہی تھی جب آپ پہ نظر پڑی آپ پریشان لگ رہی ہیں۔

“ ”پلیز بیٹھیے۔“ عتیرہ کا لہجہ، لباس اور شکل و صورت ہرگز بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہ تھی تبھی رنم نے انہیں بیٹھنے کی آفر کی۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ ادا کرتے ہوئے بیٹھ گئیں۔ اگلے دس منٹ میں رنم ان کے ساتھ کافی اطمینان سے باتیں کر رہی تھی۔ ملک ارسلان اپنے ایک شاعر دوست کے ساتھ کسی ادیب سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے عتیرہ کو بھی ساتھ چلنے کی آفر کی تھی پر اس نے نرمی سے منع کردیا۔

تبھی تو وہ یہاں اکیلے کھانا کھا رہی تھیں۔ ملک ارسلان کے ساتھ نہ جانے کی صورت میں ہی تو ان کی ملاقات نیناں نامی اپنی اپنی سی لگنے والی لڑکی سے ہوئی تھی۔ ایک لحاظ سے اچھا ہی ہوا تھا ورنہ وہ اسے کیسے ملتیں۔ دل کی اس بے اختیار کیفیت پہ وہ خود بھی حیران تھیں۔ نیناں اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ عتیرہ نے اسے اپنا کانٹیکٹ نمبر دیا تھا اور ہوٹل کے روم کے بارے میں بھی بتایا تھا۔

رنم نے انہیں اپنا نام نیناں بتایا تھا۔ عتیرہ نے اسے کافی ساری باتیں کی تھیں۔ سوال پوچھے تھے پر وہ صفائی سے ٹال گئی تھی۔

ملک ارسلان رات کو کافی لیٹ ہوٹل واپس آئے۔ عتیرہ بے تابی سے ان کا انتظار کر رہی تھی۔ محبوب بیوی کے چہرے پہ دبا دبا جوش انہیں ایک نظر ڈالتے ہی محسوس ہوگیا تھا۔ وہ بہت خوش نظر آرہی تھی۔ وہ نیناں کے بارے میں بات کر رہی تھی۔

ملک ارسلان اس کی اسقدر دلچسپی محسوس کر کے خود بھی پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ ”جانے کیا بات ہے پہلی ہی نظر میں وہ مجھے اپنی اپنی سی لگی ہے۔ کچھ پریشان اور کھوئی کھوئی سی تھی میں نے بہت پوچھا پر اس نے بتایا نہیں۔“ ”توکل پوچھ لینا۔“ ارسلان نے مسکراتے ہوئے مشورہ دیا۔ ”ہاں میں نے اسے اپنا سیل نمبر بھی نوٹ کروایا ہے اور روم نمبر بھی بتایا ہے۔

“ عتیرہ فوراً بولی۔ ”تو ہماری بیگم کو وہ لڑکی بہت پسند آگئی ہے۔“ ملک ارسلان محبت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ ”اسے دیکھ کر مجھے بہت کچھ یاد آگیا ہے۔ یہاں پہلو میں چبھن ہو رہی ہے۔“

عتیرہ اچانک سنجیدہ ہوگئیں۔ ان کا مسکراہٹ سے مزین روشن چہرہ اور جوت دیتی نگاہیں بجھ سی گئی تھیں۔ ملک ارسلان اچھی طرح جانتے تھے اب کیا ہوگا کیونکہ عتیرہ ان کی طرف سے کروٹ بدل کر لیٹ گئی تھیں۔

بظاہر آنکھیں بند کیے وہ سو رہی تھیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ آج کی شب ان پہ بہت بھاری تھی۔ انہوں نے خیالوں ہی خیالوں میں ماضی کا تکلیف دہ سفر طے کرنا تھا۔ اس کے اختتام پہ ان کا درد اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ یہ برسوں سے ہو رہا تھا لیکن ابھی تک اس اذیت ناک سفر کا پہلا پڑاؤ ہی ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ ملک ارسلان ان کی اذیت اور درد سے واقف ہونے کے باوجود انجان بنے ہوئے تھے وہ نہیں چاہتے تھے عتیرہ کا بھرم ٹوٹے۔

بدحواسی میں رنم نے پورا بیگ چھان مارا تھا۔ ایک ایک چیز باہر نکال کر دیکھی۔ نہ جیولری نہ پیسے نہ ہی کریڈٹ کارڈز۔ صرف اے ٹی ایم کارڈز پڑے اس کا منہ چڑا رہے تھے۔ اس نے موہوم سی امید کے سہارے دوسرا بیگ کھولا کہ شاید اس نے سب چیزیں بے دھیانی میں وہاں رکھ دی ہوں پر وہاں تو صرف استعمال کے کپڑے اور دیگر اشیاء تھیں۔ اس کا جی چاہ رہا تھا دھاڑیں مار کے روئے۔

اب اس کے پاس پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ وہ صرف ایک بار رات کو کھانا کھانے دوسرے الفاظ میں اندرونی گھٹن اور خلفشار سے پیچھا چھڑانے کے لئے کمرے سے باہر گئی تھی۔ اس دوران سب کچھ صفائی سے پار کیا گیا تھا۔ اس بات کا اسے سو فی صد یقین تھا۔

یہ حادثہ اس کے ساتھ رات کو ہوا تھا۔ اب دوپہر ہو چلی تھی وہ صدمے کی حالت میں بیٹھی تھی۔ دوپہر سے شام ہوگئی وہ باہر نہیں نکلی۔

روم سروس کی طرف سے کھانا آیا اس نے دروازہ ہی نہیں کھولا۔ اس کی حالت ابتر ہو رہی تھی۔ رات سر پہ تھی۔ ایک بار پھر دروازے پہ دستک ہوئی۔ اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے دروازہ کھولا۔ بیرا کھانا لایا تھا۔ رنم نے پیچھے ہٹ کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا خود وہ دروازے کے پاس کھڑی تھی کہ بیرا جائے تو وہ دروازے اندر سے لاک کرے۔ پر وہ کھانے کی ٹرے رکھ کر اس طرح کھڑا رنم کو دیکھ رہا تھا۔

”آپ پریشان لگ رہی ہیں کوئی پرابلم ہے بتائیں۔“ ہوٹل کا معمولی سا ملازم بڑے معنی خیز انداز میں پوچھ رہا تھا جیسے رنم کا اس سے بڑا ہمدرد ہی نہ ہو۔ ”تم سے مطلب جاؤ یہاں سے۔“ رنم کا فطری غصہ عود کر آیا۔ 

”میں آپ کے بہت کام آسکتا ہوں صرف ایک موقعہ دیں مجھے۔ مجھے سب معلوم ہے آپ اکیلی ہیں پریشان ہیں آپ کے پاس کچھ نہیں ہے۔ میں آپ کے سب مسئلے حل کر سکتا ہوں اگر آپ !!!…“ رنم کے غصے کے باوجود اس نے اپنی بات جاری رکھی۔

اس کے ادھورے فقرے کا مفہوم وہ اچھی طرح جان گئی تھی۔ ”یہاں سے فوراً نکل جاؤ میں منیجر سے تمہاری شکایت کردوں گی۔“ وہ اسے کھوکھلے لہجے میں دھمکی دے رہی تھی۔

 ہوٹل کے اس ملازم کو اس کی مجبوری اور کمزوری کا احساس تھا تب ہی تو ڈھٹائی سے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ”میں رات کام ختم کر کے آؤں گا۔ میری بات مانو گی تو فائدے میں رہو گی۔ ویسے مجھے تم گھر سے بھاگی ہوئی لگتی ہو۔

تمہارا عاشق عیش کرنے کے بعد تمہیں چھوڑ گیا ہے۔ اور تم اب مشکل میں ہو۔ اکیلی لڑکی ہو سب ہوٹل سٹاف کی نگاہوں میں آگئی ہو۔ چند دن کی بات ہے سب نے تمہیں بہتی گنگا سمجھ کر ہاتھ دھونے ہیں اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ مجھ سے سیٹنگ کرلو۔ فائدے میں بھی رہو گی اور سب سے بچ بھی جاؤ گی۔ اچھی طرح سوچ لو۔ ورنہ تم جیسی اکیلی لڑکی کو مار کر غائب کردینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

“ وہ انسانی نفسیات کا ماہر لگ رہا تھا رنم کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے بہت کچھ بھانپ گیا تھا۔ رنم بالکل سن تھی جیسے۔ وہ مسکراتا ہوا چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد رنم نے دروازے بند کیا اوربیگ میں ہاتھ مار کر اپنا سیل فون ڈھونڈا۔ وہ ہوتا تو ملتا۔ اسے یاد آیا وہ اپنا سیل فون تو آف کر کے اپنے بیڈ روم میں ہی چھوڑ آئی تھی۔ وہ اس وقت کو پچھتا رہی تھی جب سیل فون گھر چھوڑ کر نکلی تھی۔

اس کے دل میں اچانک ہی خیال آیا تھا کہ وہ اپنے گھر فون کرے پپا کو سب کچھ بتا دے اورپھر دیکھے کہ وہ کیسے ان ہوٹل والوں کی ایسی کی تیسی کرتے ہیں۔ مگر اس کے پاس فون نہیں تھا پیسے بھی نہیں تھے پر وہ ہوٹل کے ریسپشن سے تو فون کر سکتی تھی۔ اس خیال نے اس کے قدموں میں تیزی بھردی۔ اگلے پانچ منٹ میں وہ ہوٹل کے ریسپشن پہ موجود تھی۔ وہاں پہ اس وقت ہوٹل سٹاف کے تین نوجوان کھڑے تھے۔

تینوں نے اسے معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے بے ربط ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مدعا بیان کیا تو ایک آدمی کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ گویا اس کے کمرے میں کھانا سرو کرنے والے بیرے نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ وہ اس کے سب ساتھیوں کی نظروں میں آگئی ہے۔ ایک نے جیسے اس کی غیر ہوتی حالت پہ ترس کھاتے فون اس کی طرف کھسکایا۔ وہ ریسیور اٹھائے خالی الذہنی کے عالم میں پپا کا نمبر یاد کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اسے نمبر یاد نہیں آرہا تھا حالانکہ پپا کا نمبر اسے ازبر تھا اس نے تین بار پپا کا نمبر یاد کر کے ڈائل کرنے کی کوشش کی پر اسے ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی پہ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ 

Episode 38 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

سط نمبر 38 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

اچانک اسے یاد آیا وہ فکسڈ لائن نمبر پہ بھی تو کال کرسکتی ہے۔ اسے نمبر یاد تھا۔ اس نے تیزی سے نمبر پش کیے۔ بیل جارہی تھی بہت دیر بعد کال ریسیو ہوئی۔ کسی نے زور سے ہیلو کہا۔ پس منظر سے رونے پیٹنے کی آہ و بکا کی دلدوز آوازیں آرہی تھیں۔ اس کے دل نے ایک بیٹ مس کردی۔ نہیں نہیں اس کے پپا کو کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس کی زبان جیسے ہلنے سے انکاری تھی۔ اس کی متغیر ہوتی رنگت اور لرزتا کانپتا جسم دیکھ کر ایک نوجوان نے فون کا ریسیور اس سے لے لیا۔

وہ خود بات کر رہا تھا شاید اسے رنم کی حالت پہ ترس آگیا تھا۔ ایک منٹ بعد اس نے فون بند کیا تو اس کی آنکھوں اور لہجہ میں ہمدردی تھی دوسرے دو نوجوانوں کی نسبت اس نے مہذب روئیے کا مظاہرہ کیا۔ ”آپ نے جس نمبر پہ کال کی ہے اس گھر کے مالک کا آج انتقال ہوگیا ہے۔

“ اس نے پگھلا سیسہ رنم کے کانوں میں انڈیلا۔

وہ بہت مشکل سے خود کو کمرے تک واپس لائی اور بستر پہ گر سی گئی۔

صدمات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ یہ سب کیا ہو رہا تھا اس کا برا وقت آگیا تھا۔ جیولری، نقدی سب کچھ پراسرار طور پہ غائب ہوچکا تھا۔ وہ ہوٹل سٹاف کی نگاہوں میں تھی سب رال ٹپکانے کو تیار تھے اور اب پپا بھی اسے چھوڑ کر جاچکے تھے۔ وہ تو گھر واپس آنے کے لئے انہیں کال کرنے گئی تھی واپسی پہ دل پہ بھاری صدمے کا بوجھ اٹھائے لوٹی۔ اب اس کی عزت اور جان خطرے میں تھی۔

اسے اپنے بچاؤ کا راستہ تلاش کرناتھا۔ اچانک اسے عتیرہ ملک کا خیال آیا انہوں نے اسے اپنا فون نمبر دیا تھا اور روم نمبر بھی بتایا تھا۔ وہ سیکنڈ فلور روم نمبر 26 میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ پپا تو رہے نہیں تھے اب وہ گھر کس منہ سے جاتی۔ کاش وہ گھر نہ چھوڑتی کاش وہ ان کی بات مان لیتی۔ منہ پہ پانی کے چھپاکے مارتی وہ زارو قطار روتی جارہی تھی۔ وہ عتیرہ ملک کے پاس جانے کے لئے تیار تھی۔

اس وقت اس کے پاس اور کوئی بھی راستہ نہیں بچا تھا۔

اپنے اس گھر میں کیسے جاتی جہاں اب پپا نہیں رہے تھے۔ سب نے اسے پپا کا قاتل ٹھہرانا تھا۔ اس کی ضد تھی کہ وہ ان سے کچھ نہیں لے گئی تو یہ در بدری، محرومی کی سزا اس کے لئے بالکل جائز تھی۔ روم نمبر 26 کے سامنے کھڑے دروازہ ناک کرتے وہ اپنے پپا کے بارے میں یہی سوچے جارہی تھی۔

تیسری دستک پہ دروازہ کھل گیا۔

اندر عتیرہ کے ساتھ ملک ارسلان بھی تھے۔ وہ بجلی کی تیزی سے اندر آئی۔ ”پلیز ہیلپ می۔“ وہ عتیرہ ملک کے پاس ہاتھ پکڑ کربکھرے ہوئے لہجہ میں بولی۔ آنسوؤں کی برسات اس کی آنکھوں سے جاری تھی۔ وہ دونوں پریشانی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ نہ جانے یہ ستم رسیدہ حرماں نصیب کون تھی کون سا دکھ پہنچا تھا اسے جو اس کی آنکھیں ساون بھادوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔

روتے روتے وہ بول رہی تھی اور بار بار اس کی آواز ڈوب رہی تھی جیسے بولنے کی طاقت ختم ہوگئی ہو۔ اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ ہینڈ بیگ میں سے اس کی سب چیزیں غائب ہوگئی ہیں۔ والدین حیات نہیں ہیں وہ اکیلی ہے۔ وہ اتفاقی طور پہ ایک حادثے کا شکار ہو کر اس ہوٹل میں پہنچی ہے اس کی جمع پونجی پہ کسی نے ہاتھ صاف کردیا ہے۔ اور اب اسے اپنی جان اور عزت کی طرف سے شدید خطرہ ہے۔

وہ جس طرح رو رہی تھی جس ابتر حالت میں تھی اس پہ کسی طور بھی نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ اس کی من موہنی معصوم صورت دھوکہ دینے والی نہیں لگ رہی تھی۔ ملک ارسلان نے عتیرہ کو اشارہ کیا کہ رنم کوبٹھائے، تسلی دے۔ خود بہ خود ہی ان کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا۔

عتیرہ نے گلاس میں پانی ڈال کر زبردستی اسے پلایا۔

”میں منیجر سے خود بات کرتا ہوں۔“ ملک ارسلان نے اسے تسلی دی۔ ”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب کچھ گنوا چکی ہوں اب عزت نہیں گنوانا چاہتی۔“ اس بار ہچکیوں سے اس کا سارا جسم لرز رہا تھا۔ عتیرہ کی اپنی آنکھیں نم ہو رہی تھیں اس اجنبی لڑکی کے لئے وہ اپنے دل میں بے پناہ محبت محسو س کر رہی تھیں۔ اس کا دکھ انہیں اپنا دکھ لگ رہا تھا۔

”اب تم کیا کرو گی؟“ عتیرہ نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

”میں بے سہارا ہوں بے آسرا ہوں اتنی طاقت نہیں ہے کہ کچھ کرسکوں۔“ آنسو مسلسل اس کی آنکھوں سے بہے جارہے تھے۔ عتیرہ نے ارسلان کو اشارہ کیا۔ دونوں رنم کو کمرے میں چھوڑ کر باہر آگئے۔ جانے کیا بات تھی کہ رنم کا دل چاہ رہا تھا ان پہ اعتبار کرلے۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ دونوں اسے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکلے تو اسے ان کی نیت پہ کوئی شک نہ ہوا۔

عتیرہ، ملک ارسلان سے رنم کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی تھی اسی لئے دونوں ہوٹل کے ایک الگ تھلگ گوشے میں آگئے جہاں چہل پہل کافی کم تھی۔ ”یہ لڑکی بہت دکھی اور ستم رسیدہ لگتی ہے۔ پہلے بھی اکیلی تھی، اب کیا کرنا ہے اس کا۔ ہم سے کتنی امیدیں لے کر مدد مانگنے آئی ہے۔“ عتیرہ نے بات کا آغاز کیا۔

”میں اپنے ایک دوست کو کال کرتا ہوں۔

پولیس ڈیپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدے پہ ہے۔ اس لڑکی کو بحفاظت دارالامان پہنچا دے گا بے سہارا عورتوں کے محفوظ مرکز میں۔“ ”اس کی شکل و صورت دیکھی ہے آپ نے۔ میں نے بے سہارا عورتوں کے مرکز کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے۔ میں اس حق میں نہیں ہوں کہ یہ دکھی حرماں نصیب لڑکی وہاں جائے۔“

”تو پھر تم ہی بتاؤ کیا کیا جائے؟“ وہ سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگے۔

”نہ جانے کیا بات ہے یہ لڑکی چندگھنٹوں میں ہی مجھے اپنی اپنی محسوس ہونے لگی ہے۔ ایک بات کہوں اگر آپ برا نہ مانیں تو…“ وہ ہزاروں امیدیں لئے ملک ارسلان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ہاں بولو تو سہی۔ پہلے تم نے کبھی اجازت لینے کا تکلف نہیں کیا بات کرنے کے لئے تو پھر اب یہ غیروں والی باتیں کر رہی ہو۔“ ”ملک صاحب بات ایسی ہے کہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔

“ ”ہاں بولو ناں اب“ ”ملک صاحب اگر ہم اس لڑکی کو ساتھ لے جائیں تو؟“ عتیرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا تو وہ سوچ میں ڈوب گئے۔ ”میں لینے کو تو ساتھ لے جاؤں پر سوچ لو…“ کچھ توقف کے بعد وہ گویا ہوئے۔ ”جوان ہے۔ خوبصورت ہے کسی اچھے خاندان کی لگتی ہے۔ ہماری حویلی میں بہت جگہ ہے رہ لے گی ساتھ اسے حویلی میں ہی کسی کام پہ لگا دیں گے۔“ عتیرہ نے ملک ارسلان کو اور سوچنے کا موقع نہیں دیا۔

”بھائی جان کو اعتراض نہ ہو اس پہ۔“ ملک ارسلان نے اس طرف توجہ دلائی تو چند لمحوں کے لئے وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔ ”میں ان سے خود بات کروں گی۔ ویسے بھی یہ ہماری طرف رہے گی۔ بے چاری سی لڑکی ہی تو ہے کوئی نہیں ہے اس کا۔ ثواب ہوگا ہمیں اگر تحفظ دیا اس کو تو اور اللہ بھی خوش ہوگا۔“ عتیرہ نے انہیں خاموش دیکھ کر جذبہٴ ہمدردی ابھارنے کی کوشش کی۔

”میں صرف اسے اس لئے اپنے ساتھ لے کر جارہا ہوں کہ تم اس عمل سے خوش ہوگی۔“ ملک ارسلان محبت سے بولے تو حد درجہٴ انڈر سٹینڈنگ کے اس مظاہرے پہ عتیرہ کی آنکھیں بھر سی آئیں۔ وہ تو اپنی طرف سے انہیں کنوینس کرنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ وہ اس کے دل کی بات جان گئے تھے۔ ”بعد میں جو ہوا میں دیکھ لوں گا۔ تم ابھی سے پریشان مت ہو۔“ انہوں نے اسے تسلی دی تو عتیرہ کھل کے مسکرائیں۔ یہ جگہ اظہار ممنونیت کے لئے موزوں نہیں تھی ورنہ وہ شاید فرط جذبات سے رو ہی تو پڑتیں۔

Episode 39 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 39 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

قیامت در قیامت تھی۔ ملک جہانگیر، احمد سیال کے پاس آئے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔ جہانگیر اپنے دوست احمد سیال کو کچھ اپ سیٹ سا دیکھ رہے تھے۔ چائے پینے کے بعد وہ فارغ ہوئے تو ملک جہانگیر نے اپنی آمد کی غرض و غائیت بیان کی۔

”میں نے تم سے اپنے بڑے بیٹے کے رشتے کی بات کی تھی۔ اتنے دن گزر گئے ہیں تم نے کوئی جواب نہیں دیا۔

میں نے سوچا تم سے مل بھی لوں اور اس تاخیر کا سبب بھی دریافت کروں۔“ ملک جہانگیر ہلکے پھلکے انداز میں بولے۔ احمد سیال معذرت خواہانہ انداز میں مسکرائے۔ ”میں کچھ دن میں خود گاؤں تمہاری طرف آنے والا تھا۔“ اتنا بول کر وہ خاموش ہوگئے۔

ملک جہانگیر اس کے مزید بولنے کے منتظر تھے۔ ”میری بیٹی رنم اعلی تعلیم کے حصول کے لئے کینیڈا چلی گئی ہے۔

وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اس لئے میں تم سے معذرت خوا ہ ہوں۔“ وہ بہت دیر بعد آہستہ آہستہ گویا ہوئے۔ جہانگیر کے سینے سے ایک ٹھنڈی سانس خارج ہوئی۔

تو احمد سیال کی پریشانی کی وجہ یہ تھی اس لئے وہ شدید شرمندہ نظر آرہا تھا۔ ”اس میں معذرت والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ نہ تمہیں اس پہ کوئی شرمندگی ہونی چاہیے۔“ جہانگیر نے احمد سیال کے کندھے پہ دوستانہ انداز میں ہاتھ رکھتے ہوئے گویا انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔

لیکن خود اندر سے وہ بد دل ہوچکے تھے۔ وہ جلد از جلد ملک ایبک کی شادی کے چکر میں تھے اور احمد سیال سے دوستی کے رشتے کو رشتہ داری میں بدلنے کے خواہاں تھے۔ یہ امید تو ختم ہی تھی۔ احمد سیال کی لاڈلی اکلوتی بیٹی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر کینیڈا جاچکی تھی۔ اور بے چارا احمد سیال شرمندہ نادم ان کے سامنے بیٹھا تھا۔

”ہم دوست ہیں اور ہمیشہ رہیں گے کیا ہوا جو ہماری دوستی رشتہ داری میں نہ بدل سکی۔

ملک جہانگیر سے احمد سیال کی مسلسل خاموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ ”ہاں ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لیکن یقین جانو میں بہت شرمندہ ہوں۔ اس لئے اتنے دن گزرنے کے باوجود میری ہمت نہیں ہوئی کہ تم سے بات کروں۔“ لیکن میں تمہارا شکر گزار ہوں جو تم نے میری مجبوری کو سمجھا۔“ ”یار اَب بس بھی کرو میں شرمندہ ہو رہا ہوں اب۔“ جہانگیر نے قصداً مزاحیہ انداز اختیار کیا۔

اور واقعی کچھ دیر بعد احمد سیال بظاہر نارمل ہو کر ان سے بات کر رہے تھے۔

ملک جہانگیر جاچکے تھے پر احمدسیال اور بھی پریشان تھے۔ رنم کی پراسرار گمشدگی نے ان کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بھی متاثر کیا تھا۔ وہ اپنے مالی معاملات دفتری امور کسی پہ بھی توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ ان کا ذہنی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ انہیں لاڈلی بیٹی کی ناراضگی کا سبب معلوم تھا۔

وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جو ایک شخص کی محبت کی خاطر والدین کی محبتوں سے منہ موڑ کر گھر کی دہلیز پار کرجاتی ہیں۔ بلکہ رنم نے ایک احمقانہ ضد کی خاطر غصے میں آ کر یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا۔ اگر وہ کسی کو پسند کرتی محبت کرتی تو احمد سیال کو اس کی بات ماننے میں تامل نہ ہوتاوہ تو ان کی ہستی کی بنیادیں تک ہلا گئی تھی۔ اب وہ پچھتا رہے تھے کہ پہلی بار ہی اس کی بات تسلیم کرلی ہوتی تو بہلا دیا ہوتا بیٹی کو۔

وہ رنم کے سب دوستوں خاص طور پہ فراز اور کومل کو روز ہی فون کرتے کہ شاید اس نے ان سے رابطہ کیا ہو یا اس کی کوئی خیر خبر مل جائے۔ فراز نے اپنے طور پہ بہت کوشش کی تھی اس کا سراغ لگانے کی۔ پولیس نے الگ اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش کی تھی۔ یہ سب کام رازداری سے ہوئے تھے کیونکہ احمد سیال کی شرط ہی یہی تھی کہ رنم کی گمشدگی کا پتہ نہیں چلنا چاہیے۔

غالباً اسی رازداری والی شرط کے سبب رنم کی گم شدگی معمہ بنی ہوئی تھی۔

ملک ارسلان اور عتیرہ ہوٹل سے چیک آؤٹ کر رہے تھے۔ رنم سخت خوفزدہ تھی۔ ان حالات میں جب ان دونوں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کی پیش کش کی تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ امداد غیبی ہو۔ اس نے ان کی یہ پیش کش فوراً قبول کرلی۔

عتیرہ اس کے پہنے گئے کپڑوں کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں ان کی حویلی کے حساب سے یہ قطعی ناموزوں تھے اس لئے ہوٹل چھوڑنے سے پہلے انہوں نے اس کے لئے کچھ ضروری خریداری کی۔

ہوٹل کے پاس ہی شاپنگ مال تھا انہو ں نے رنم کو بھی ساتھ چلنے کی پیش کش کی پر اس نے انکار کردیا۔ عتیرہ اس کے لئے کپڑے جوتے اور استعمال کی کچھ اور چیزوں کی خریداری مکمل کر کے واپس آئیں تو ملک ارسلان گاؤں روانگی کے لئے تیار تھے۔ عتیرہ نے خریدے گئے کپڑوں میں سے ایک سوٹ رنم کی طرف بڑھایا۔ ”نیناں تم یہ پہن کر جلدی سے تیار ہوجاؤ اور بال بھی باندھ لو۔

“ عتیرہ نے تنقیدی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ رنم خاموشی سے کپڑے لے کر چلی گئی۔ یہ ایمبرائڈری والی قمیض ٹراؤزر اورساتھ ہمرنگ دوپٹہ تھا۔ اسیٹپس میں کٹے بالوں کو اس نے بمشکل تمام پنیں لگا کر سمیٹا اورپھر پونی باندھی۔ اب اس کی ظاہری شکل و صورت اور حلیہٴ کافی تبدیل ہو چکا تھا۔ عتیرہ نے دیکھا تو مطمئن ہوگئیں۔

رات کو انہوں نے رنم سے کافی باتیں کی تھیں۔

اپنے خاندان، گاؤں اور حویلی کے بارے میں معلومات دی تھیں۔

رنم کو انہوں نے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ حویلی میں کیسے رہنا ہے اور کسی کے پوچھنے پہ کیا جواب دینا ہے۔ رنم نے ان کو اپنا فرضی نام نیناں بتایا تھا۔ اس لئے جب وہ دونوں اسے نیناں کہہ کر مخاطب کرتے تو وہ ایک ثانیے کے لئے چونک سی جاتی۔ شکر ہے انہوں نے اس پہ توجہ نہیں دی تھی۔

رنم نے دوپٹہ اچھی طرح اپنے سر پہ جمایا۔ وہ دوپٹہ سر پہ لینے کی عادی نہیں تھی کیونکہ جیسی ڈریسنگ وہ کرتی تھی اس میں دوپٹہ لینے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس لئے دوپٹہ سر پہ لینے میں اسے ازحد مشکل پیش آرہی تھی۔ عتیرہ نے دوپٹہ اس کے سر پہ اوڑھا کر ایک سائیڈ پہ پن لگا دی تھی۔ ان کی اس حکمت عملی سے رنم بار بار دوپٹہ سنبھالنے کی زحمت سے بچ گئی تھی۔

وہ ملک ارسلان اور عتیرہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ ایک نئی منزل کی طرف اس کا سفر شروع ہوچکا تھا۔

گاڑی شہر سے نکل کر گاؤں والے راستے پہ رواں دواں تھی۔ رنم شیشے کی طرف چہرہ کیے باہر دیکھ رہی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف سرسبز کھیت اور بلند و بالا درخت ایستادہ تھے۔ کہیں کہیں کچے مکانات بھی نظر آرہے تھے۔ نیز دور سبز چراگاہوں میں مویشی چرتے نظر آرہے تھے۔ عورتیں کھیتوں میں کام کر رہی تھیں۔

یہ سب مناظر رنم کے لئے بالکل نئے اور انوکھے تھے۔ شیشے سے باہر کا نظارہ کرتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لئے وقتی طور پہ اپنے سب دکھ بھول گئی تھی۔ یہاں کا ماحول اور فضا شہر سے بالکل ہی اچھوتی اور مختلف نظر آرہی تھا۔

Episode 40 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 40 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہاب، روبینہ پہ گرج برس رہا تھا۔ ”آپ دونوں مل کر کون کون سے منصوبے تیار کر تی رہی ہیں سب پتہ چل گیا ہے مجھے۔“ ”کیا پتہ چل گیا ہے تمہیں؟“ روبینہ نے پریشانی سے اس کی شکل دیکھی۔ ”سنا ہے زرینہ خالہ نے ذیان کا رشتہ طے کردیا ہے؟“ ان کے چہرے پہ نظر جمائے وہ لفظ چبا چبا کے بول رہا تھا۔ ”ہاں اگر اس نے طے کردیا ہے تو ذیان اس کی بیٹی ہے۔“ انہوں نے لہجہ کو سرسری رکھنے کی پوری کوشش کی تھی۔

”امی میں نے آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ میں ذیان سے شادی کرنا چاہتا ہوں آپ خالہ سے بات کریں…“

”میں نے اُن سے ایک بار نہیں بہت بار بات کی۔ امیر بھائی نہیں مانتے۔“ انہوں نے بیٹے سے نظر چرائی۔ ”سب جھوٹ ہے بکواس ہے۔ زرینہ خالہ نے تمام عمر ذیان سے نفرت کی ہے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ میری شادی اس کے ساتھ ہو۔

“ روبینہ نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔

گویا وہ اتنا بھی انجان نہیں تھا جتنا وہ تصور کرتی تھیں۔ ”میں نے بہت بار زرینہ سے بات کی ہے پر وہ نہیں مانتی۔“ وہاب کی محبت میں انہوں نے ایک اہم راز سے پردہ اٹھایا تھا۔ اس کا شک وہاب کو پہلے سے ہی تھا پر اب یہ شک یقین میں بدل چکا تھا کہ خالہ اس کی اور ذیان کی شادی ہونے کے حق میں نہیں ہیں۔

”زرینہ خالہ خود کو بہت ہوشیار سمجھتیں ہیں ناں۔

ان کی ہوشیاری میں انہی کے اوپر آزماؤں گا اب۔“ وہاب کے ہونٹوں پہ پراسرار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ ”کیا کرنا چاہتے ہو تم؟“ روبینہ متوحش ہوئیں۔ ”میں نے نہیں کرنا آپ نے کرنا ہے۔“ وہ اسی مسکراہٹ سمیت بولا۔ ”کیا کرنا ہے مجھے بتاؤ تو سہی وہاب۔ کیا پہیلیاں بجھوا رہے ہو۔“

”امی آپ نے میرے اور ذیان کے رشتے کی بات امیر خالو سے کرنی ہے اور میں۔

“ وہ دو ٹوک لہجہ میں بولا۔ ”اور جو کمال کا رشتہ آیا ہے ذیان کے لئے وہ۔“ ”اس کی آپ فکر مت کریں۔ میں نے کمال کا حل بھی سوچ لیا ہے۔“ ”میں نے زرینہ کو کتنا سمجھایا کہ ذیان کا رشتہ میرے وہاب کے لئے دے دو پر اس کی ایک ہی ضد تھی۔ سچ پوچھو تو مجھے کبھی کبھی ذیان پہ بہت ترس آتا ہے۔ مجھے تم دونوں کی شادی پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ بیٹے کی محبت میں وہ اس وقت زرینہ کی دی ہوئی سب ہدایات بھول گئی تھیں۔

یہ اولاد کی محبت ایسی ہی ہوتی ہے کہ باقی سب رشتوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ ”امی آپ مجھے پہلے بتا دیتی ناں تو اب تک میری شادی ذیان کے ساتھ ہوچکی ہوتی۔ میں زرینہ خالہ کو ان کے منصوبے میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔“ رفتہ رفتہ اس کے چہرے پہ غصہ جگہ لے رہا تھا۔ ”تم فکر مت کرو میں بہت جلد امیر بھائی سے تمہارے رشتے کی بات کرنے جاؤں گی۔ زرینہ کو برا لگتا ہے تو میں بیٹے کی خوشی کی قربانی نہیں کرسکتی۔

ان حالات میں وہ ایک روایتی ماں نظر آرہی تھیں۔ جو اولاد کی خوشی کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔

امیر علی کی طبیعت اچانک بگڑی تھی ان کے ناک منہ سے خون آنا شروع ہوگیا تھا۔ زرینہ کے دل کو خون دیکھ کر کچھ ہوا۔ اس نے پوری قوت سے چیخ ماری اور دروازہ کھول کر اندھا دھند ڈرائیور کے کوارٹر کی طرف بھاگی۔ ذیان، بوا، آفاق، مناہل، رابیل تینوں امیر علی کے کمرے میں تھے۔

ان کی حالت لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جارہی تھی۔

ذیان بے اختیار ان کی طرف بڑھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں۔ شروع میں وہ بے چین تھے ہاتھ پٹخ رہے تھے گردن کو ہلا رہے تھے پر اب ان کی حرکات سست تھیں۔ ڈرائیور انہیں ہاسپٹل لے جانے کے لئے تیار تھا۔ ذیان ان سے بہت کچھ کہنا چاہ رہی تھی پر ان کی حالت ایسی نہیں تھی۔

وہ ان کے ساتھ ہاسپٹل جانا چاہ رہی تھی اس لئے بھاگ کر پہلے گاڑی میں بیٹھی۔

زرینہ اور اس کا دکھ مشترک ہوگیا تھا اس لئے انہوں نے ذیان کے ساتھ ہاسپٹل جانے پہ کوئی اعتراض نہیں کیا۔

روبینہ نے امیر علی کے پاس جانے کی تمام تر تیاری مکمل کرلی تھی۔ وہاب انواع و اقسام کے ڈرائی فروٹس اور پھلوں کے ٹوکرے لایا تھا۔ آخر کو وہ اکلوتے بیٹے کی ماں تھیں وہاب نے کہا تھا کہ کسی بھی قسم کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔

وہاب کی خوشی پہ وہ زرینہ کی ناراضگی بھی قربان کرنے کے لئے تیار تھیں۔

انہیں اندازہ تھا کہ زرینہ ان کے اس اقدام سے بہت ناراض ہوگی ان کی بلا سے ناراض ہوتی ہے تو ہو۔ ذیان میں کوئی کمی تو نہیں ہے خوبصورت ہے تعلیم یافتہ ہے آج کل کی لڑکیوں والی چھل بھل اس میں نہیں ہے کم گو ہے۔ اور سب سے بڑھ کر وہاب کی پسند ہے۔ زرینہ نے برسوں کی نفرت ابھی تک دل میں دبا کر رکھی ہوئی ہے وہ اسے سمجھانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ زرینہ مان جاتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ انہیں ذیان اور وہاب کی شادی سے مطلب ہے۔

وہ جاتے ہوئے تمام راستہ اسی بارے میں سوچتی رہیں۔

زرینہ کے گھر کے گیٹ سے وہ اندر داخل ہوئیں تو کسی غیر معمولی تبدیلی کا احساس ہوا۔ خاموشی چھائی ہوئی تھی ورنہ جب بھی وہ آتی زندہ دلی، خوشی آوازیں ہنگامے گھر کے درو دیوار سے پھوٹتے محسوس ہوتے۔ ابھی سب پریشان بیٹھے تھے۔ بوا رحمت تسبیح تھامے مسلسل کچھ پڑھ رہی تھیں مناہل، رابیل اور آفاق تینوں اداس اور خاموش تھے۔

زرینہ اور ذیان دونوں کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ انہیں درست طور پہ صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ ”بوا کیا ہوا ہے۔ گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے۔ زرینہ اور ذیان کہاں ہیں؟“ انہوں نے ایک ہی سانس میں پوچھ ڈالا۔ ”امیر میاں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ناک منہ سے مسلسل خون آرہا تھا۔ پہلے گھر پہ ڈاکٹر کو بلوایا اس نے کہا دیر مت کرو ان کو فوراً ہاسپٹل لے جاؤ۔

ذیان اور چھوٹی دلہن ادھر ہی گئی ہیں۔“

بوا نے تسبیح سائیڈ پہ رکھتے ہوئے ان کے سوالوں کے جواب دئیے تو ان کے خدشات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ بوا کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ وہ کافی دیر روتی رہی تھیں۔ ان کے اس گھر اور مکینوں کے ساتھ پرانی وابستگی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ ہر دکھ سکھ میں برابر کی شریک ہوتیں۔ روبینہ نے وضو کر کے بوا سے قرآن مانگا۔

انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ روبینہ دوپٹہ سر پہ جمائے قرآن پڑھنے میں مصروف ہو گئیں۔ دل کسی انہونی کے خدشے سے لرز رہا تھا۔ آخر کو زرینہ ان کی ماں جائی تھی اور امیر علی اسکے سر کے سائیں۔ ”اللہ میری بہن کا سہاگ سلامت رکھنا۔“ قرآن پڑھ کر انہوں نے دل سے دعا کی۔

بوا نے دوبارہ ہاسپٹل ذیان کو کال کر کے امیر علی کی خیر خبر لی تھی۔ ذیان کے لہجہ میں مایوسی تھی آواز بھی روئی روئی لگ رہی تھی۔

روبینہ قرآن پڑھنے کے بعد وہیں اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ بوا بھی ان کے پاس تھیں وہ امیر علی کی طبیعت اور موجودہ حالت کے بارے میں ہی بات کر رہی تھیں جب گیٹ پر باہر ایمبولینس سائرن بجاتی رکی تھی۔ روبینہ کو ایسے محسوس ہوا جیسے وقت رک گیا ہو۔ زرینہ کے اونچی آواز میں رونے بین کرنے کی آواز یہاں تک آرہی تھی باہر بہت سے اورلوگوں کی بھی آوازیں تھیں لیکن ان سب پہ زرینہ کی آواز حاوی تھی۔

روتی، کرلاتی، بین کرتی صدمے سے چور چور آواز۔ جیسے اس کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔ واقعی اس کا تو سب کچھ لٹ گیا تھا۔ وہ امیر علی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گنوا بیٹھی تھی۔ بیوی سے بیوہ بن کر ہاسپٹل سے گھر لوٹی تھی۔

روبینہ نے سینے پہ دوہتٹر مارے اور باہر صحن کی طرف بھاگی۔ امیر علی کو ایمبولینس سے اتار کر گھر کے اندر لایا جارہا تھا۔

زرینہ کے رونے پیٹنے بین کرنے نے سب کو اس کی طرف متوجہ کردیا تھا۔

پر ذیان کی ناگفتہ بہ حالت کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں تھی۔ وہ خاموشی سے خالی الذہنی کے عالم میں سب کی طرف دیکھے جارہی تھی۔ جیسے اسے کچھ سمجھ ہی نہ آرہا ہو۔ اس کے سب آنسو دل پہ اندر ہی اندر گر رہے تھے اور ان آنسوؤں نے بہت دورتک آگ لگا دی تھی۔

امیر علی سفید کفن اوڑھے اس سے بہت دور جاچکے تھے۔ وہ ان سے اپنے دل کی بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی۔

جو وہ اس سے پہلے اپنی ناراضگی میں ان سے کر نہیں پائی تھی۔ وہ انہیں زرینہ آنٹی کی زیادتیوں کے متعلق آگاہ کرنا چاہتی تھی وہ انہیں رابیل مناہل اور آفاق کی بیگانگی سے مطلع کرنا چاہتی تھی وہ انہیں یہ سب کھول کھول کر بتانا چاہ رہی تھی کہ زرینہ آنٹی ان کی چہیتی بیوی نے بچپن سے ہی اس کے ساتھ زیادتیاں روا رکھی ہیں وہ اسے ذہنی طور پہ بے پناہ اذیت سے دو چار کرتی رہی ہیں۔

انہوں نے اس کے بچپن کو مسخ کردیا ہے۔ وہ اس کی ماں کے حوالے سے گندی، گری ہوئی گھٹیا باتیں کرتی رہی ہیں۔ حالانکہ اس نے اپنی ماں کو نہیں دیکھا تھا نہ وہ ان کے حسن سے واقف تھی۔

زرینہ آنٹی نے اس کے اور ابو کے درمیان دوری پیدا کردی ہے۔ حالانکہ اس کا دل چاہتا ہے وہ ان کے پاس بیٹھے ان سے لاڈ کرے ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرے۔ اس کے سینے میں دبی چھوٹی چھوٹی سی خواہشیں حسرت بن گئی ہیں۔

وہ چاہ کر بھی ان کے قریب نہ آسکی۔ اور وہ ان کے سینے سے لگ کر ان کے ہاتھوں کو پکڑ کر یہ شکایت کرنا چاہتی ہے کہ آپ بھی تو مجھ سے دور ہوگئے آپ بھی تو مجھ سے لاپرواہ ہوگئے آپ کوپتہ ہی نہیں کہ یہاں ابھی گھر میں آپ کی بیٹی ذیان بھی رہتی ہے۔ اسے بھی آپ کی محبت کی شفقت پدری کی ضرورت ہے۔ وہ آپ کی لاپروائی کی وجہ سے آپ سے دور ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ آپ کے پاس آنے کے لئے ترستی ہے۔

اس کی سب ناراضگی آپ سے ختم ہوگئی ہے۔ وہ اب دل سے آپ سے راضی ہے۔ آپ ایک بار آنکھیں کھول کراسے دیکھیں تو سہی۔ آپ دیکھیں ناں آپ کی بیماری کی وجہ سے وہ کتنی خوفزدہ رہتی ہے وہ تحفظ چاہتی ہے کیونکہ وہاب کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ وہاب یہاں گھر آتا ہے تو اسے ڈر لگتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ آپ اس کا ماتھا چومیں اور کہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں کسی گندی نگاہ کو تمہاری طرف اٹھنے سے پہلے ہی پھوڑ ڈالوں گا…!!!

پر امیر علی تو اس کی کوئی خاموش فریاد نہیں سن رہے تھے۔ وہ ان کی زندگی میں بھی ان سے کچھ نہیں کہہ پائی اور کٹی کٹی رہی اور اب موت جیسی اٹل حقیقت نے رشتوں کی ڈوری ہی کاٹ دی تھی۔

Episode 41 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 41 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

سفید حویلی جس میں نیناں یعنی رنم، ملک ارسلان اور عتیرہ کے ہمراہ آئی تھی بہت شاندارتھی۔ اپنی پریشانی کے باوجود وہ حویلی کی خوبصورتی، سجاوٹ اور وقار دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ حویلی کے ساتھ خوبصورت باغ بھی تھا۔ جس میں نایاب اقسام کے پودے اور درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ عتیرہ نے رنم کو نوکرانیوں والے حصے میں نہیں ٹھہرایا تھا بلکہ حویلی کے رہائشی حصے میں بنے کمروں میں سے ایک اس کے لئے مخصوص کردیا تھا۔

یہ فرق صاف ظاہر کر رہا تھا کہ رنم کو اس نے خاص اہمیت اور حیثیت دی ہے۔ رنم کی رہائش کا انتظام ہوگیا تھا اس کے بعد عتیرہ نے اسے حویلی کے تمام ملازمین سے متعارف کروایا اورسب سے آخر میں وہ اسے افشاں بیگم سے ملوانے لائیں۔

ملک جہانگیر شہر میں تھے وہاں ان کی آنکھوں کا آپریشن ہو رہا تھا۔

آنکھوں میں اترے موتیے کے سبب ان کی بینائی دن بہ دن متاثر ہو رہی تھی اسی لئے انہوں نے آپریشن کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہ اس کے لئے آج ہی ملک ارسلان کے ساتھ شہر روانہ ہوئے تھے۔ جہاں ملک ابیک نے ان کے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونے کے تمام تر انتظامات مکمل کرلئے تھے۔

افشاں بیگم کو نیناں یعنی رنم کی بے چارگی و درماندگی کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ وہ اس کے لئے دل میں ہمدردی محسوس کر رہی تھی۔

عتیرہ نے اسے پوری حویلی دکھا کر سب کاتعارف کروا چکی تھی۔ شروع میں رنم بہت خوفزدہ اور سہمی ہوئی تھی اب اس کا خوف آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہا تھا۔

حویلی میں ملک ارسلان اور عتیرہ بیگم ہی تھے اور باقی ڈھیر سارے ملازمین۔ ملک ارسلان صبح ناشتے کے بعد ڈیرے کی طرف نکل جاتے گھرمیں عتیرہ ہوتیں ملازموں کے ہمراہ۔ رنم کے ذمے کوئی خاص کام نہیں تھا اور فارغ بیٹھ بیٹھ کر وہ حقیقی معنوں میں اکتا گئی تھی اس کی اسی اکتاہٹ کے سبب عتیرہ نے حویلی کے ملازمین کی سپر ویژن کا کام اسے سونپ دیا۔ یعنی ایک لحاظ سے وہ سب کی انچارج تھی۔

رنم نے یہ کام یا اس نوعیت کی دیگر امور کبھی بھی سر انجام نہیں دئیے تھے اس لئے یہ مصروفیت اس کے لئے غنیمت تھی۔

عتیرہ نے فارغ اوقات میں حویلی کے دوسرے حصے میں مقیم ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کی طرف چلی جاتیں اور رنم فارغ ہوتی تو وہ اسے بھی ساتھ لے لیتیں۔ لیکن اکثر اوقات وہ ان کے ساتھ جانے سے معذرت کرلیتی۔ عتیرہ اس سے بہت خوش تھیں۔

انہیں ایسے محسوس ہوتا تھا نیناں نے آ کر ان کی ایک عرصے کی تنہائی کا مداوا کردیا ہے۔ وہ نیناں سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتیں شام کی چائے اکثر اس کے ساتھ پیتیں۔ یعنی وہ ان کے لئے خاص تھی۔ حویلی کے دیگر ملازمین بھی عتیرہ کی اس کے لئے خصوصی توجہ محسوس کر رہے تھے اس لئے سب اس سے ادب سے پیش آتے۔ ملک ارسلان نیناں کو حویلی لانے کے فیصلے سے مطمئن تھے کیونکہ اس کی آمد کے بعد عتیرہ خوش رہنے لگی تھی۔

ایک مخصوص اداسی اور یاسیت جو عرصہ دراز سے ملک ارسلان کی تمام تر توجہ اور محبت کے باوجود عتیرہ کی شخصیت کا حصہ بنی ہوئی تھی وہ اب کم ہونے لگی تھی۔ وہ زندگی کے معاملات میں پھر سے سرگرم ہمسفر کا رول ادا کرنے میں مطمئن تھی۔ یہ تبدیلی خوش آئند تھی۔ نیناں بہت مختصر عرصے میں حویلی کا حصہ بن گئی تھی۔

                                             

اب تو خواہش ہے یہ درد ایسا ملے

سانس لینے کی حسرت میں مرجائیں ہم

اب تو خواہش ہے یہ،

ایسی آندھی چلے…

جس میں پتوں کی مانند بکھر جائیں ہم

ایسی ٹھوکر لگے کہ جی نہ سکیں ہم

ایسی الجھیں سینے میں سانسیں کہ پھر

ہم دوا پینا چاہیں تو پی نہ سکیں

ایک پل کا سہارا نہ چاہت ملے

اب تو خواہش ہے یہ

دشت ہی دشت ہو، ننگے پاؤں چلیں

ہم سر جرم شمع کی مانند جلیں

جس کو چاہیں اسے پھر نہ پائیں کبھی

چھوڑ جائیں یوں چپ چاپ دنیا کو ہم

دل یہ چاہے بھی تو پھر نہ آئیں کبھی

اب تو خواہش یہ ہے کہ سزا وہ ملے

کوئی صحرا ہو قلعہ ہو یا بیاباں ہو

اپنے خالق و مالک سے میں نے جو کی

بے وفائی”وہاں پہ وہ ناپید ہو…

اب تو خواہش ہے یہ کہ سزا وہ ملے

روئے جاؤں تو چپ نہ کرائے کوئی

دور جنگل میں یا پھر کسی دشت میں

ہاتھ پکڑے میرا چھوڑ آئے کوئی…!!

ذیان پہلے سے گم صم رہنے لگی تھی۔

اپنی تنہائی، بے چارگی اور کسمپرسی کا احساس کچھ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ پہلے امیر علی کی زندگی میں کسی اپنے کے ہونے کا فرحت بخش اطمینان ہمراہ تھا۔ ان کے بعد یہ مان اور اطمینان بھی چھن چکا تھا۔

امیر علی کے انتقال کو ایک ماہ سے زائد ہوچکا تھا۔ روبینہ مستقل طور پہ زرینہ کے پاس ہی تھیں وہاب صبح و شام چکر لگاتا۔ امیر علی زندہ تھے تو اس کی آمدروفت کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے وہ بھی وقفے وقفے سے آتا پر اب کوئی آڑ کوئی دیوار نہیں رہی تھی۔

زرینہ عدت میں تھی۔ عفت خانم نے دبے دبے الفاظ میں کمال اور ذیان کی شادی کی بات چھیڑی۔ زرینہ نے انہیں اطمینان دلایا کہ عدت ختم ہوتے ہی وہ یہ معاملہ بھی نمٹا لیں گی۔ اُدھر روبینہ نے امیر علی کی ناگہانی موت اور اس کے بعد بہن کی بیوگی و عدت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بار بھی وہاب کے رشتے کی بات نہیں چھیڑی تھی۔ پر عفت خانم کی آمد اور شادی کے تقاضے نے ان کے کان کھڑے کردئیے۔

پھر وہاب کے صبح و شام کے چکر اس با ت کو کہاں تک چھپا سکتے تھے۔ وہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہا تھا۔ امیر علی کی موت نے اسے نڈر کردیا تھا۔ پھر زرینہ خالہ کا دم خم ختم ہوچکا تھا وہ اب شوہر سے محروم عام سی عورت تھی۔ وہاب نے عفت خانم کو ذلیل کر کے وہاں سے چلتا کیا۔ اچھا خاصا تماشہ بن رہا تھا۔ اب وہاب جیسے منہ زور کو قابو کرنا مشکل تھا۔

زرینہ کو اب اور خوف ستانے لگے تھے۔

وہ اکیلی اور بے سہارا تھیں۔ میکے میں رشتے داروں کے نام پہ روبینہ اور وہاب کے سوا ان کا کوئی بھی نہیں تھا اُدھر امیر علی بھی اکیلے تھے ان کے چند دور پار کے ہی رشتے دار تھے۔ وہ مشکل میں آجاتیں تو کوئی بھی ایسا نہیں تھا وہ جس پہ بھروسہ کرتیں۔ خود تو وہ عدت میں تھیں۔ وہاب اور روبینہ آپا ہی گھر کے کرتا دھرتا بنے ہوئے تھے۔ ہر چیز پہ ان کا کنٹرول تھا۔

ان دونوں کی بدلی بدلی کیفیت زرینہ محسوس کر رہی تھی سب سے پہلے تو وہاب نے عفت خانم کو بدتمیزی کر کے گھر سے نکالا پھر روبینہ آپا نے انہیں طویل لیکچر دیا کہ عفت خانم کو اب یہاں کسی صورت بھی قدم نہ رکھنے دیا جائے۔ ویسے بھی وہاب نے جس طرح عفت خانم کو ذلیل اور رسوا کر کے گھر سے نکالا تھا اس کے بعد ان کا یہاں آنا محال ہی تھا۔ ذیان، زرینہ کے گلے کی ہڈی بن گئی تھی نہ نگل سکتی تھیں نہ اگل سکتی تھیں۔

ذیان، بوا کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ عفت خانم اور وہاب کا ہنگامہ شروع ہوتے ہی ذیان وہاں سے ہٹ گئی تھی۔ اس کے خوف اور بے چارگی کو محسوس کر کے بوا بھی اس کے پیچھے آگئیں۔

”بوا یہ سب کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے۔ ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی بن گئے ہیں۔ میرے دن رات خوف میں بسر ہو رہے ہیں۔ میں کالج سے آتے ہی اپنے کمرے میں گھس جاتی ہوں۔

ایسے لگتا ہے اس گھر کے درو دیوار میرے لئے پرائے ہوگئے ہیں۔“ وہ بے حد شاکی اور ہراساں تھی۔ بوا اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ وہ خود امیر علی کے بعد ذیان کو دیکھ دیکھ کر جی میں کڑھتیں۔ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں۔ آنے والے حالات کا اندازہ انہیں کچھ کچھ ابھی سے ہو رہا تھا۔ ”اللہ پہ بھروسہ رکھو فکر مت کرو سب اچھا ہوجائے گا۔“ انہوں نے پھیکے انداز میں اسے تسلی دی۔ یہ الگ بات کہ یہ تسلی یقین سے خالی تھی۔

Episode 42 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 42 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

رنم کام کرتی نوکرانیوں کو ہدایات دے رہی تھی۔ عتیرہ دور بیٹھی ادھر ہی دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظر رنم پہ ہی تھی۔ رات سے ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جانے کیا بات تھی رہ رہ کر دل و دماغ میں عجیب سے خیال آرہے تھے۔ اب رنم کو دیکھتے ہوئے یہ خیال اور بھی طاقتور ہوتے جارہے تھے۔ وہ پیچھے بہت پیچھے ماضی میں جارہی تھیں۔ ماضی میں جانے کا یہ سفر اتنا آسان نہیں تھا انہیں کرب و اذیت کی کئی منزلوں سے گزرنا پڑتا تھا۔

وہ سب کے سامنے سے اٹھ آئیں۔ اس وقت صرف تنہائی اور اندھیرا درکار تھا۔ اندھیرا ہی تو ان کی ٹوٹی پھوٹی روح کو اپنی پناہ میں تحفظ دے سکتا تھا۔ اتنے برس گزر چکے تھے وہ بے خبر تھیں انہیں کچھ خبر نہ تھی جو وہ پیچھے چھوڑ آئی ہیں”وہ متاع جان“ کس حال میں ہے۔ کوئی مددگار کوئی سہارا نہ تھا۔

ملک ارسلان انکی کیفیت دیکھتے ہوئے انہیں صرف تسلی دے سکتے تھے اور اتنے برس سے وہ یہی کر رہے تھے۔

لیکن تسلی دلاسوں سے عتیرہ کے زخم کہاں بھرنے والے تھے۔

رات لمحہ بہ لمحہ تاریکی کا سفر طے کرتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ بوا بہت دیر سے اپنے بستر پہ لیٹی کروٹ بدل رہی تھیں۔ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد وہ معمول کے ذکر واذکار میں کافی دیر مشغول رہیں۔ اصولاً اب انہیں نیند آجانی چاہیے تھی۔ نیند نہ آنے کی وجہ ان کی ذہنی چبھن تھی۔

اس چبھن کو عفت خانم کے ساتھ وہاب کی منہ ماری نے اور بھی بڑھا دیا تھا۔ وہ برسوں سے اس گھر کے مکینوں کی خدمت کرتی چلی آرہی تھیں امیر علی انہیں گھر کا فرد کا درجہ دیتے تھے ان کے ادب و احترام میں امیر علی نے کبھی کوتاہی یا کمی نہیں کی تھی اول دن سے زرینہ بیگم بھی بوا کی اہمیت کو سمجھ گئی تھیں اس لئے ان کے تعلقات کے ساتھ خوشگوار ہی رہے۔ اس میں بوا کی مصلحت آمیز فطرت اور سمجھداری کا بھی دخل تھا۔

وہ سب کی مزاج آشنا تھیں اور اس کے مطابق ہی برتاؤ کرتیں۔ زرینہ کا ذیان کے ساتھ جو رویہٴ تھا وہ انہیں پسند نہیں تھا، ڈھکے چھپے لفظوں میں انہوں نے زرینہ کو اس کا احساس دلانا چاہا پر وہاں سے مطلوبہ ردعمل ظاہر نہ ہونے پہ انہوں نے اپنے ہونٹ سی لئے۔

امیر علی کی بیماری سے پہلے سب ٹھیک چل رہا تھا۔ وہ گھر کے سربراہ اور تمام اختیارات کے مالک تھے۔

اختیارات میں طاقت میں تبدیلی آئی تو بہت کچھ بدل گیا۔ زرینہ شوہر پرست عورت تھیں اس کے ساتھ ساتھ وہ ذیان سے سخت عناد بھی رکھتی تھیں۔

وہاب کی ذیان کے ساتھ پسندیدگی اور ذیان کے حصول کی خواہش اسے ذرہ بھر نہیں بھائی تب ہی تو اس نے کمال کے رشتے کے لئے راہ ہموار کی۔ جو وہاب کی غیض و غضب کو اور بھی ہوا دینے کا باعث بنی۔ بوا نے بہت قریب سے وہاب کی فطرت اور عادات کا مشاہدہ کیا تھا۔

وہ کینہ پرور ضدی اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے حد سے گزر جانے والوں میں سے تھا۔ وہاب جنونی تھا اور ذیان کو حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا اب امیر علی نہیں رہے تھے وہ کرتا دھرتا بنا ہوا تھا۔ بلکہ روبینہ نے وہاب کو اور بھی آگے کی راہ دکھائی دی تھی۔ذیان سے وہاب نے ہر حال میں شادی کرنی ہی تھی لیکن ذیان کے ساتھ ساتھ اب وہ اس کی جائیداد کا بھی حقدار بننا چاہ رہا تھا۔

روبینہ اور وہ دونوں مل کر اس مقصد پہ کام کر رہے تھے۔ بوا اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھتی تھیں۔ زرینہ بھی کچھ کچھ بھانپ گئی تھی کیونکہ روبینہ آپا اور وہاب نے امیر علی کی وراثت کے بارے میں اسے ہر طرح سے کریدا تھا کہ امیر علی کی کتنی دولت ہے کتنی جائیداد ہے اور ان کے بنک اکاؤنٹس میں اس وقت کتنا پیسہ موجودہے۔ ذیان کو شادی کے موقعے پہ کیا کچھ دیا جائے گا۔

روبینہ پہلے وہاب کی پسند کی وجہ سے ذیان کو بہو بنانا چاہ رہی تھی لیکن اب اس میں لالچ کا عنصر بھی شامل ہوگیا تھا۔ روبینہ نے بوا سے بھی بہانے بہانے سے امیر علی کی وراثت کے بارے میں سوال کیے تھے۔

اور اس میں وہاب کی پوری پلاننگ تھی۔ آنے والا وقت انہونیوں کی نوید دے رہا تھا اس لئے بوا بیحد پریشان تھیں۔

رات گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ گزرتی جارہی تھی۔

بوا اپنے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ وہ دروازے کے قریب اپنی تسلی کرنے کے لئے گئیں حالانکہ دروازہ اندر سے لاک تھا پھر بھی انہوں نے اپنی تسلی ضروری سمجھی تھی۔

کمرے میں زیرورپاور کا بلب جل رہا تھا۔ انہوں نے دوسری لائیٹ جلائی۔ اب کمرے میں بھرپور روشنی تھی سب کچھ نظر آرہا تھا۔ بوا کونے میں رکھے اپنے جستی ٹرنک کی طرف بڑھیں۔ جستی ٹرنک کے ساتھ ہی ایک طرف کپڑوں کی الماری تھی انہوں نے الماری کھول کر چابیوں کا گچھا برآمد کیا۔

جستی ٹرنک پہ موٹا تالا جھول رہا تھا۔ چابیوں کے گچھے میں سے ایک چابی منتخب کر کے انہوں نے تالے پہ آزمائی تو وہ فوراً کھل گیا۔ انہوں نے آگے جا کر ٹرنک میں رکھی اشیاء باہر نکالنی شروع کردیں۔

ٹرنک میں رکھی سب چیزیں اب باہر بچھے بستر پہ پڑی تھیں۔ ٹرنک کے سب سے نچلے حصے میں ایک پوٹلی تھی۔ بوا نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ پوٹلی باہر نکالی اور اس کی گرہیں کھولنی شروع کیں۔

ان کا اندازچوکنا اور رازدارانہ تھا۔ رات کے سناٹے میں اس طرح ٹرنک کھول کر کچھ ڈھونڈنا ظاہر کر رہا تھا کہ پوٹلی کے ساتھ یقینا کوئی اہم راز وابستہ ہے۔

ورنہ وہ دن کے کسی بھی حصے میں آ کر ٹرنک کھول کر کچھ بھی نکال اور رکھ سکتی تھیں۔ بوا پوٹلی کھول چکی تھیں۔ اس میں رکھی چیزیں بوا کے ہاتھوں میں تھیں۔ اس میں دو سونے کی انگوٹھیاں اور کانوں کی بھاری بالیاں پڑی تھیں۔

بوا نے ان پہ مطلق توجہ نہ دی بلکہ انہوں نے وہ چیزیں ایک طرف رکھ کر پوٹلی میں پڑے ایک شاپر کو باہر نکالا۔ شاپر مضبوط اور گہرے رنگ کا تھا۔ بوا نے شاپر کھول کر اندر موجود لفافے کو باہر نکالا۔ لفافہ مٹیالے رنگ کا تھا۔ اس کے اندر پڑا کاغذ گردش زمانہ سے پیلا اور بوسیدہ ہو رہا تھا۔ بوا نے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ کی تہیں کھولنا شروع کیں۔ یہ ایک خط تھا جو برسوں پہلے انہیں تحریر کیا گیا تھا۔

برسوں پہلے جب یہ خط بوا کو بھیجا گیا تھا تب وہ اس کا جواب چاہنے کے باوجود بھی نہ دے پائی تھیں۔ اس ناکامی نے انہیں عجیب سے احساس جرم کا شکار بنا دیا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ذیان کا بہت خیال رکھتی تھیں اسے ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں۔ ذیان ان کے ہاتھوں میں پلی بڑھی تھی انہوں نے ایک ماں کی طرح اس کی ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔ راتوں کو اس کے لئے جاگی تھیں اس کے کھانے پینے سے لے کر صفائی ستھرائی، تربیت ہر چیز کا خیال رکھا تھا۔ زرینہ سے امیر علی کی شادی کا ایک سبب ذیان بھی تھی۔ پر بوا نے زرینہ بیگم کو ذیان کی طرف سے بالکل بے فکر اور پرسکون کردیا تھا۔

Episode 43 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 43 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہ امیر علی کے باقی تینوں بچوں کی ماں اور محض بیوی تھی۔ بوا نے بس ذیان کو پیدا کرنے کا کرب برداشت نہیں کیا تھا باقی ہر لحاظ سے وہ اس کے لئے ماں جیسی تھیں۔ بوا خط کھول چکی تھیں۔ خط کے مندرجات پہ ان کی نگاہ تیزی سے دوڑ رہی تھی۔ انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اور کیسے ان کی آنکھیں بھیگنا شروع ہوئیں۔

اس خط کے جواب دینے کا ٹائم آگیا تھا۔

بوا نے خط پہلے کی طرح پوٹلی میں رکھا اور ٹرنک کی سب چیزیں پھر سے اس میں رکھیں۔ اب سب کچھ پہلے کی طرح تھا۔ رات کا آخری پہر شروع تھا۔ بوا کی تہجد کی نماز کا ٹائم ہوگیا تھا۔ وہ وضو کر کے اپنے اللہ کے حضور جھک گئیں۔

وہاب اپنے گھر کا چکر لگا کر دوپہر میں اِدھر زرینہ بیگم کی طرف آگیا تھا۔ ذیان کھانا کھا رہی تھی۔ اس کی آواز سنتے ہی کھانا چھوڑ کر کمرے میں چلی گئی۔

ابو کی موت کے بعد سے وہاب اور روبینہ اِدھر ہی تھے۔ ذیان کو وہاب کی معنی خیز نگاہوں سے عجیب سی گھبراہٹ اور الجھن ہوتی اس لئے اس کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ منظر سے غائب رہے۔ اب تو زرینہ کو بھی وہاب کے وجود سے بیزاری ہونے لگی تھی پر وہ عدت میں تھیں اس لئے خون کے گھونٹ پینے پہ مجبور تھیں۔

دوپہر سے رات ہوگئی تھی ذیان کا جی چاہ رہا تھا باہر کھلی فضا میں جائے۔

پر وہاب کی موجودگی اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔

بوا نے دروازہ بجا کر اسے رات کے کھانے کے لئے باہر بلایا پر اس نے باہر آنے سے انکار کردیا۔ تب وہ اس کے لئے کھانے کی ٹرے لائیں۔ ذیان نے کمرے میں ہی کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے بلا وجہ ہی کمرے کے چکر کاٹنے شروع کردئیے۔ اس مشغلے سے دل اکتایا تو اس نے ایک کتاب اٹھالی۔ کتاب کے مندرجات اور موضوع اتنا دلچسپ تھا کہ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔

باہر اب مکمل طور پہ سناٹا اور خاموشی طاری تھی۔ اس نے وال کلاک کی طرف دیکھا۔ کافی وقت گزر چکا تھا۔ سناٹا بتا رہا تھا کہ سب خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ وہ کتاب رکھ کر سونے کے لئے جونہی بستر پہ لیٹی اور بیڈ لیمپ آف کرنے کے لئے بٹن کی طرف ہاتھ بڑھایا اچانک لائیٹ چلی گئی۔ کمرہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ اسے یکدم سے ڈر لگنے لگا۔ کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔

اے سی اور پنکھا بند ہوا تو تھوڑی دیر میں ہی بند کمرے کی وجہ سے گھٹن بڑھنے لگی۔ اس کی قمیض بھیگ کر جسم سے چپک گئی تھی۔ اس سال معمول سے کم بارشیں ہوئی تھیں۔ اس لئے موسم گرما جلدی آن وارد ہوا تھا۔

ذیان سے مزید گرمی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر آہستگی سے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور اِدھر اُدھر دیکھا۔ باہر ہنوز خاموشی اور سناٹا طاری تھا۔

اس نے کمرے سے باہر قدم رکھا اور پلٹ کر کھلے دروازے کو بھیڑ دیا۔ اس گھر کے چپے چپے سے وہ واقف تھی۔ اسلئے اندھیرا ہونے کے باوجود وہ بہت تیزی تیزی سے سیڑھیاں طے کر کے اوپر چھت پہ آئی تھی۔ چھت پہ آتے ہی اسے احساس ہوا کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی اور ذی نفس پہلے سے موجود ہے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔ اس کی چھٹی حس نے اسے خبر دار کیا۔

اور اس کی چھٹی حس کبھی غلط نہیں کہتی تھی۔

وہ جہاں کی تہاں اپنی جگہ کھڑی رہی۔ چھت پہ چاند کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس ہلکی روشنی میں اس نے ایک سائے کو اپنی طرف بڑھتے محسوس کیا۔ ذیان قدم پیچھے کی طرف موڑتی بالکل دیوار کے ساتھ لگ گئی۔ آنے والا وہاب کے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ گویا اسکی چھٹی حس نے اسے بالکل درست سمت میں اشارہ دے کر خبر دار کیا تھا۔

”ذیان تم اس وقت یہاں… لگتا ہے میری طرح تمہیں بھی نیند نہیں آرہی ہے۔“ذیان جس طرف کھڑی تھی وہاب نے اس طرف دیوار پہ ایک بازو پھیلا دیا اب وہ اس کے سامنے دیوار بن کر خود بھی حائل تھا۔ وہ بہت دوستانہ انداز میں بات کر رہا تھا۔ ذیان کی طرف سے جواب میں خاموشی طاری رہی۔ ”کیا تم مجھ سے ناراض ہو؟“ اس نے ایک قدم آگے بڑھایا تو ذیان کو اندیشوں نے آن گھیرا۔

”میری کسی کے ساتھ کوئی ناراضگی نہیں ہے۔“ وہ رُکھائی سے بولی۔ ”پھر سارا دن تم اپنے کمرے سے کیوں نہیں نکلتی ہو۔ میں جب بھی آتا ہوں تم غائب ہوجاتی ہو۔“ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ”اس کی سرد مہری برقرار تھی۔ وہ چاہ رہی تھی وہاب آگے سے ہٹے تو وہ نیچے جائے۔ اگر اسے علم ہوتا کہ وہاب پہلے سے چھت پہ موجود ہے تو وہ اوپر کبھی نہ آتی۔ ”مجھے غلط فہمی نہیں ہوئی ہے میں جب بھی آتا ہوں تم جھٹ خود کو کمرے میں بند کرلیتی ہو جیسے میں کوئی آدم خور بلا ہوں۔

“ ”یہ میرا گھر ہے میں کمرے میں رہوں یا باہر بیٹھوں میری مرضی۔“ وہاب کو کوئی بھی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔ وہاب کے ساتھ اس وقت ٹکراؤ اسے ازحد کوفت میں مبتلا کر رہا تھا۔

”ذیان لائف ایسے تو نہیں گزرے گی تم میری ہونے والی بیوی ہو۔ خود کو بدلو۔“

”کیا کہا تم نے… تمہاری اتنی جرأت!!! کہ تم مجھ سے یہ بات کہو۔“ وہ شاکڈ تھی۔

حالانکہ اس نے عفت خانم اور وہاب کے مابین ہونے والی باتیں خود سنی تھیں پر وہاب نے آج تک کھل کر اسے کچھ نہیں کہا تھا۔ صرف نظروں سے اسے جلاتا اور اس کی یہ معنی خیز پراسرار نگاہیں ذیان کو سخت بری لگتیں۔ ابھی اس نے ایک دم اتنی بڑی بات کردی تھی۔ رات کے اس سناٹے میں ذیان کی آواز اچھی خاصی محسوس ہو رہی تھی۔ کیونکہ اس کی آواز میں غصہ اور تیزی تھی۔

”ذیان مجھے غصہ مت دلاؤ آگے ہی زرینہ خالہ نے حد کردی ہے۔“ وہاب منہ اس کے قریب لا کر جیسے پھنکارا تھا۔ ”آئی سے گیٹ آؤٹ ورنہ میں حشر کردوں گی تمہارا۔“ ذیان میں اس وقت اچانک جانے کہاں سے جرأت آگئی تھی ورنہ ابو کی وفات کے بعد اسے وہاب سے عجیب سا خوف محسوس ہونے لگا تھا۔

”میں نے بہت برداشت کیا ہے صبر کے ساتھ۔“ وہاب نے جھپٹ کر اس کا بازو اپنی مضبوط گرفت میں جکڑا۔

”میرا بازو چھوڑو۔“ وہ نیچی آواز میں غصے سے غرائی۔ ”نہیں چھوڑتا، انسان ہوں محبت کرتا ہوں تم سے۔ پیار کا اظہار کرنے کے لئے ترس رہا ہوں اور تم مجھے لفٹ ہی نہیں کرواتی۔“ وہاب نے اس کا دوسرا بازو بھی پکڑ لیا جیسے اسے پورا یقین ہو کہ وہ کہیں نہیں جائے گی۔ ذیان گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔ وہاب سے اس درجہٴ قربت اعصاب پہ اثر انداز ہو رہی تھی۔

پر یہ اثر خوشگوار معنوں میں ہرگز نہیں تھا منفی تھا۔

”میں جوان ہوں سینے میں دل رکھتا ہوں۔ میری عمر کے نوجوان بہت کچھ کرتے ہیں۔ مجھے بھی تمہارے ساتھ محبت کی وہ سب منزلیں طے کرنی ہیں۔“ وہاب کی دست درازی بڑھ رہی تھی۔ ذیان پیچھے ہوئی۔ ”مجھے چھوڑ دو اور شرافت سے نیچے چلے جاؤ۔ ورنہ میں شور مچا دوں گی۔“ ”تم کیا سمجھتی ہو شور مچا کر مجھ سے بچ جاؤ گی۔

“ وہاب عجیب سے لہجے میں بولتا اپنا چہرہ اس کے قریب لایا تو ذیان نے سوچے سمجھے بغیر اس کے چہرے پہ تھوک دیا۔ صورت حال کو سمجھنے میں وہاب کو صرف چند لمحے ہی لگے اس کے بعد شیطان پوری طرح اس پہ حاوی ہوگیا۔ اس نے ذیان کے منہ پہ اپنا بھاری ہاتھ رکھ دیا۔ ”میں تو صلح و صفائی سے تمام معاملات طے کرنا چاہتا ہوں مگر اب تم نے مجھے مجبور کردیا ہے کہ شادی سے پہلے ہی تمہیں دلہن بنادوں۔

“ 

وہ خون رنگ لہجے میں اس کے کان میں بولا۔ ذیان کے دونوں ہاتھوں کو اس نے اپنے ایک ہاتھ میں جکڑ رکھا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے ذیان کے منہ کو دبا رکھا تھا تاکہ وہ شور مچا کر کسی کو متوجہ نہ کرسکے اس لئے وہ اپنی من مانی نہیں کرپا رہا تھا۔ ایسے ہی ایک موقعے پہ اس کا ہاتھ ذیان کے منہ سے ہٹا تو اس نے زور دار چیخ ماری اور وہاب کے ہاتھ میں اپنے دانت گاڑھ دئیے۔

وقتی طور پہ وہاب کی توجہ اس کی طرف سے ہٹی تو اس نے اونچی آواز میں پہلے بوا اور پھر زرینہ آنٹی کو پکارا تھا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ پہلی چیخ پہ ہی بوا متوجہ ہوگئیں۔ وہ تہجد کی نماز سے فارغ ہو کر تسبیح پڑھ رہی تھیں جب ذیان کی جگر پاش آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ ”بوا مجھے بچاؤ۔ زرینہ آنٹی پلیز بچاؤ۔“ بوا نے دل پہ ہاتھ رکھا۔ لائیٹ آچکی تھی انہوں نے جوتے پہنے بغیر آواز کے ماخذ کی سمت رخ کیا۔

زرینہ کا دروازہ اوپر جانے سے پہلے انہوں نے زور دار آواز میں دھڑ دھڑایا۔ وہ اس اچانک افتاد پہ ہڑ بڑا کر بیدار ہوئیں۔

سب سے پہلے بوا اور ان کے پیچھے پیچھے زرینہ بیگم سیڑھیاں چڑھتی اوپر آئیں۔ ذیان نے جونہی چیخیں ماریں وہاب اسے چھوڑ کر بجلی کی تیزی سے غائب ہوا۔ بوا اور زرینہ کو ذیان اکیلی چھت پہ روتی ہوئی ملی۔ وہ غصے اور خوف کی زیادتی سے کانپ رہی تھی بوا نے اسے فوراً ساتھ لپٹا لیا۔ ”کیا ہوا میری بچی۔ سب ٹھیک ہے ناں؟

Episode 44 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 44 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

”بوا بوا وہ وہاب…!!!“ غصے اور شرم کی وجہ سے ذیان اپنی بات مکمل نہ کرسکی۔ اس کی ادھوری بات میں جو معنی پنہاں تھے اس کو سمجھنے کے لئے کسی خاص عقل یا دلیل کی ضرورت نہیں تھی۔

زرینہ بیگم کو وہاب کی طرف سے پہلے ہی کسی گڑ بڑ کی توقع تھی۔ اس کے تیور جارحانہ تھے وہ بپھرے ہوئے دریا کی مانند تھا جس پہ صبر اور جبر کا مزید کوئی بند باندھنا تقریباً نا ممکن ہوگیا تھا۔

ذیان جس کی ایک جھلک کی خاطر وہ چار سال سے خالہ کے گھر کے چکر کاٹ رہا تھا آج اسے اکیلا پا کر وہ چھوڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا۔ اسے پتہ تھا ذیان کو اس سے سخت نفرت ہے۔ ذیان کے نسوانی پندار کو روند کر وہ ہمیشہ کے لئے اسے سرنگوں کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ وہ پھر اس سے شادی سے انکار کی جرأت ہی نہ کرسکے۔ قسمت نے یہ موقعہ فراہم کیا تھا پر وہ اس موقعے سے ذیان کے شور مچانے کی وجہ سے استفادہ نہ کر پایا۔

اور تیزی سے منظر سے غائب ہوگیا۔

”کیا ضرورت تھی اس وقت چھت پہ آنے کی۔ میں کہاں تک رکھوالی کروں تمہاری۔“ زرینہ ذیان پہ غصے ہو رہی تھی۔ ”امیر علی خود تو مرگئے اپنی مصیبت میرے سر ڈال گئے۔ اچھا خاصہ رشتہ طے کیا تھا تمہارا لیکن تم نے مان کے نہیں دیا۔ اب بھگتو۔ بچاؤ اپنی عزت۔ بناؤ میرا تماشہ میرے پاس ایک عزت ہی تو ہے لگ رہا ہے اس کی بھی نیلامی ہونے والی ہے۔

“ بوا اور زرینہ کی مدد سے ذیان چھت سے نیچے آگئی تھی اب وہ تینوں بوا کے کمرے میں تھے۔ حیرت انگیز طور پہ روبینہ باہر نہیں نکلی تھی شاید اس تک ذیان کے شور مچانے کی آواز پہنچی ہی نہیں تھی اس لئے وہ مزے سے سو رہی تھیں۔

ذیان رو رہی تھی۔ زرینہ گرج برس کے خاموش ہوگئی تھی۔ کچھ بھی سہی بات پریشانی والی تھی۔ وہاب کی یہ گھٹیا حرکت نظر انداز کرنے والی نہیں تھی۔

اس نے ان کے گھر میں بیٹھ کر ذیان کی عزت کی دھجیاں اڑانے کی ناکام کوشش کی تھی اس نے زرینہ کی تازہ تازہ بیوگی کا بھی خیال نہیں کیا تھا۔“ بوا مجھے بتاؤ کیا کروں میں؟“ زرینہ سخت پریشان تھیں لے دے کے بوا ہی تھیں جن سے وہ حال دل کہہ سکتی تھیں۔“ چھوٹی دلہن میں کیا بتاؤں میرا تو اپنا دماغ ماؤف ہو گیا ہے۔ گھر میں عجیب عجیب باتیں ہو رہی ہیں۔

چھوٹا منہ بڑی بات، وہاب میاں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا ہے۔ انہیں لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔“ بوا نے ڈرتے ڈرتے مشورہ دیا۔

”بوا مجھ اکیلی عورت کو وہاب تو وہاب روبینہ آپا بھی آنکھیں دکھانے لگی ہیں۔ ان کی نظر امیر علی کی جائیداد پہ ہے اور ظاہر ہے ذیان بھی ان کی بیٹی ہے۔ دونوں ماں بیٹا لالچ میں آگئے ہیں۔“زرینہ بیگم نے آج پہلی بار ان دونوں کے بارے میں ان کے تازہ عزائم کے بارے میں زبان کھولی تھی۔

“ ہاں چھوٹی دلہن وہاب میاں نے مجھ سے بھی کرید کرید کر باتیں معلوم کرنے کی کوشش کی تھی میں نے آپ کے خاندان کا نمک کھایا ہے نمک حرامی نہیں کرسکتی۔“ ”بوا، عفت خانم کو وہاب نے ذلیل کر کے نکال دیا ہے اور میں پہلے شاید ذیان کی شادی وہاب سے کردیتی بشرطیکہ اس کا جذبہ سچا ہوتا مگر اب میں خود نہیں چاہتی کہ وہاب اپنے ارادوں میں کامیاب ہو۔ میں امیر علی کو کیا منہ دکھاؤں گی مرنے کے بعد۔

“ زرینہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ بوا حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ ساری عمر زرینہ نے ذیان سے نفرت کی تھی مگر شوہر کے گزرنے کے بعد اس کی شوہر پرستی ہنوز زندہ تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ امیر علی زندگی کے آخری ایام میں وہاب سے برگشتہ ہوئے تھے انہوں نے زرینہ سے کہا تھا کہ وہ یہاں ان کے گھر میں وہاب کو مت آنے دے۔ شاید وہ اپنی بیٹی کی خاموشی اور بے بسی سے بہت سی ان کہی باتیں از خود جان گئے تھے۔

اس لئے زرینہ نہیں چاہتی تھیں کہ امیر علی کی روح کو کوئی تکلیف ہو۔

ذیان نے جھٹکے سے سر اُٹھایا۔ آج زندگی میں پہلی بار زرینہ آنٹی نے اس کی سائیڈ لی تھی اس کے حق میں بات کی تھی۔ روتے روتے اس کے ہونٹوں پہ تلخ مسکراہٹ آگئی۔

بہت دیر بعد جب زرینہ کچھ سنبھلی تو وہاں سے آنے سے پہلے انہوں نے بوا کو ذیان کے بارے میں بہت سی ہدایات دیں۔

”بوا فی الحال آپ ذیان کو اپنے ساتھ ہی سلائیں۔ میں وہاب کو صبح دیکھوں گی اس وقت رات ہے سب سو رہے ہیں میں خواہ مخواہ ہنگامہ نہیں چاہتی۔“ بوا نے سر ہلایا۔ ذیان بیٹھی رو رہی تھی۔ بوا نے اس کے سر کو تسلی دینے والے انداز میں تھپکا۔ ”چلو بیٹا اب سو جاؤ تھوڑا۔“ ”بوا میں آپ کے پاس سوؤں گی مجھے ڈر لگ رہا۔“ وہ ڈری ہوئی تھی۔ ”ہاں ذیان بیٹا میں تمہارے ساتھ ہی سوؤں گی لیکن کب تک میں تمہیں بچا پاؤں گی۔

وہاب میاں کی نیت ٹھیک نہیں ہے اب ان کی نظر تمہارے ساتھ ساتھ امیر میاں کی دولت پہ بھی ہے۔ لیکن تم انہیں پسند نہیں کرتی۔ ناکامی کی صورت میں وہاب میاں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یا تو ان سے شادی کرلو یا پھر یہاں سے چلی جاؤ۔“

 ذیان رحمت بوا کے گرد بازو لپٹائے رو رہی تھی ان کے مشورے پہ ایک دم اس کے آنسو بہنا رک گئے۔ ”میں وہاب مردود سے کسی صورت بھی شادی نہیں کرسکتی۔

“ اس نے شدت سے نفی میں سر ہلایا۔ ”پھر تم یہاں کیسے رہو گی چھوٹی دلہن خود مشکل میں ہیں انہیں نے مجھے خود اپنے منہ سے کوئی بات نہیں بتائی ہے لیکن میں سب جان گئی ہوں۔ وہاب میاں مرد ذات ہیں موقعہ پا کر پھر سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔“ بوا متفکر تھیں۔ ”میں کہاں جاؤں بوا میرا کون ہے اس دنیا میں۔“ وہ اب سسک رہی تھی۔ ”ایسا مت کہو میرا رب تمہارے ساتھ ہے۔

تم کوئی لاوارث یا بے سہارا نہیں ہو۔ خود کو اتنا کمزور مت سمجھو۔ ”بوا کا دل اس کے دلگیر لہجے پہ کٹ سا گیا۔ ”بوا اس اتنی بڑی دنیا میں کون ہے میرا۔ نہ ماں نہ باپ نہ کوئی بہن بھائی۔ زرینہ آنٹی میری شکل تک دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔ رابیل، مناہل آفاق سے میں نے کبھی قریب ہونے کی کوشش کی بھی تو انہیں مجھ سے زبردستی دور کیا گیا انہوں نے آج تک مجھے بہن نہیں سمجھا۔

“ اس کے آنسو زور و شور سے بہہ رہے تھے۔ بوا ساتھ لگائے اسے تھپک رہی تھی۔

ذیان کے شور مچانے پہ وہاب فوراً نیچے اتر کر اپنے کمرے میں آگیا تھا۔ اسے ڈر تھا ابھی پورا گھر بیدار ہوجائے گا اسی لئے سب سے پہلے اس نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کیا پھر عجلت میں شب خوابی کا لباس پہنا اور چادر تان کر لپیٹ گیا۔ لیٹنے سے پہلے وہ اپنے زخمی ہاتھ پہ کس کے رومال باندھنا نہیں بھولا تھا جہاں ذیان نے اپنے دانت پوری قوت سے گاڑے تھے۔

اس کا ہاتھ اچھا خاصا زخمی تھا ابھی تک ہلکا ہلکا خون نکل رہا تھا۔ اور تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔

اسے نیچے آئے آدھا گھنٹہ ہو چلا تھا ابھی تک کسی نے ادھر کا رخ نہیں کیا تھا۔ شاید خطرہ ٹل گیا تھا۔ ویسے اس نے سب کچھ پہلے سے سوچ لیا تھا اگر کسی نے ذیان کے چیخنے کا سبب معلوم کیا اور اسے ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی تو وہ صاف مکر جائے گا اس کے پاس اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے بہت سے دلائل تھے۔

سناٹے میں اسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تو وہ چوکنا ہوگیا کہ ابھی کوئی دروازے پہ دستک دے گا پر وہ جو کوئی بھی تھا آگے نکل گیا تھا۔ یعنی اب وہ آرام کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرسکتا تھا۔ اب اسے چھت پہ ہونے والی بدمزگی اور چھوٹی سے چھوٹی بات کے ساتھ اپنی ذلت بھی یاد آرہی تھی۔ ذیان نے اس کے منہ پہ پوری نفرت کے ساتھ تھوکا تھا۔ پھر سے یاد آنے پہ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

 ”ذیان میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تم کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہو گی۔ تم نے جرأت دکھا کر اچھا نہیں کیا۔“ خود کلامی کرتے ہوئے اس کی مٹھیاں سختی سے بھینچی ہوئی تھیں۔ مٹھی بند کرنے سے ہاتھ میں تکلیف ہونا شروع ہوگئی تھی۔ وہاب نے زیر لب ذیان کو موٹی موٹی گالیاں دیں۔

Episode 45 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 45 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

زرینہ خالہ اس کے ہاتھ پہ بندھی پٹی کو معاندانہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ روبینہ بھی وہاں موجود تھیں۔ زرینہ نے رات والا واقعہ من و عن دہرایا تو وہاب غصے سے بھڑک اٹھا۔ حسب توقع اس نے تردید کی۔ ”زرینہ تم تو میری ماں جائی ہو۔ وہاب پہ ایسا شرمناک الزام لگاتے ہوئے تمہارا دل نہیں کانپا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی تم اتنا بدل سکتی ہو۔ آخر ہمارا قصور کیا ہے۔

اپنی سوتیلی بیٹی کی خاطر تم نے وہاب کا بھی لحاظ نہیں کیا حالانکہ یہی ذیان تمہاری نظروں میں کانٹے کی طرح چبھتی ہے اب تم اس کی حمایتی بن کر آگئی ہو۔ وہاب ایسا نہیں ہے۔“ روبینہ نے بہن کو بری طرح لتاڑا تو وہاب بھی شیر ہوگیا۔ ”ہاں خالہ آپ خود سوچیں مجھے ایسا کام کرنے کی بے صبری دکھانے کی کیا ضرورت ہے میں بھلا ذیان کے ساتھ ایسا کرسکتا ہوں۔

محبت کرتا ہوں میں اس سے۔ اور اب تو ہماری شادی بھی ہونے والی ہے۔ میں اپنی ہونے والی بیوی کی عزت کیسے خراب کرسکتا ہوں۔“ اس کی اداکاری اور ڈھٹائی قابل دید تھی۔ ایک ثانیے کے لئے تو زرینہ بھی چکرا گئیں۔ مگر جب نظر اس کے ہاتھ پہ باندھی گئی پٹی پہ پڑی تو ذیان کی باتیں پھر سے یاد آنے لگیں۔ وہاب نے صبح اٹھتے ساتھ ہی سب سے پہلے ڈاکٹر کے کلینک کا رخ کیا تھا۔

”یہ تمہارے ہاتھ کو کیا ہوا ہے۔ رات تک تو بالکل ٹھیک تھا۔“ انہوں نے نظریں جما کر غور سے اسے دیکھا تو وہ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ ’

’صبح جب میں جاگنگ کے لئے نکلا تو بھاگتے بھاگتے لڑکھڑا گیا راستے میں پتھر پڑا تھا نیچے گرا تو ہاتھ پہ چوٹ لگی آتے ہوئے ڈاکٹر سے بینڈیج کروائی ہے۔“ وہ ایسے فر فر بول رہا تھا جیسے ہر سوال کا جواب پہلے سے سوچ رکھا ہو۔

”تم ذیان سے پوچھو۔ وہاب کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہو ایسے ہی خواہ مخواہ الزام لگا رہی ہے میرے بچے پہ۔ میں خود پوچھوں گی اس سے۔“

روبینہ کو یہ پوچھ گچھ پسند نہیں آرہی تھی اُدھر انہوں نے ذیان سے پوچھنے کا قصد کیا اُدھر وہاب کے چہرے پہ بے چینی پھیل گئی۔ ”اماں چھوڑیں ناں بس اب۔ ذیان نہ جانے کیوں چڑتی ہے مجھ سے۔ خیر شادی کے بعد خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔

“ اس نے روبینہ سے زیادہ جیسے خود کو تسلی دی۔ ”ہاں زرینہ میں تو کہتی ہوں کہ اب تم ذیان کی شادی کر ہی ڈالو۔ میں شادی سادگی سے کرنے کے حق میں ہوں۔ میں تمہاری تنہائی کے خیال سے اتنے دن سے اپنا گھر چھوڑ کے بیٹھی ہوں۔ وہاب بھی تمہارے لئے فکر مند ہے۔اس لیے آفس سے سیدھا اِدھر چلا آتا ہے۔ لیکن ہم ماں بیٹا کب تک گھر سے دور رہ سکتے ہیں۔ تم میری مانو تو ذیان کو وہاب سے بیاہنے کے بعد خود بھی میرے گھر آجاؤ۔

اتنا بڑا گھر ہے میرا یہاں تم اکیلی کیسے رہو گی۔“ روبینہ کے لہجے میں بہن کے لئے مصنوعی فکر مندی تھی۔ زرینہ امیر علی کی موت کے بعد ان کے بدلتے روئیے اور دل میں آنے والی لالچ سے با خبر نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے اس آفر پہ خوشی سے پھولے نہ سماتی۔ اب یعنی روبینہ آپا اور وہاب یہ گھر ہتھیانے کے چکر میں تھے۔ یہ راہ ماں کو وہاب نے ہی دکھائی تھی۔

”میں عدت میں ہوں بعد میں اس پہ سوچوں گی۔“ زرینہ نے بات ٹالی۔ وہاب نے روبینہ کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ ”ہاں زرینہ پھر کب میں وہاب کی بارات لاؤں؟“ وہ پھر سے اصل موضوع پہ آگئیں۔ آپا میں ابھی دکھ اور صدمے میں ہوں، عدت بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور آپ کو شادی کی سوجھ رہی ہے۔ ”وہ رکھائی سے بولیں تو روبینہ قدرے شرمندہ ہوگئیں۔ ”بس یہ وہاب نے جلدی مچائی ہوئی ہے“ انہوں نے کن اکھیوں سے ساتھ بیٹھے وہاب کی طرف دیکھا۔

”تم ٹھیک کہتی ہو۔ عدت سکون سے گزار لو پھر شادی بھی ہوتی رہے گی۔ کون سا وہاب یا ذیان بھاگے جارہے ہیں۔ “زرینہ نے جیسے سکون کی سانس لی۔ 

”خالہ اس الزام کے بعد بھی میں ذیان سے شادی کے فیصلے پہ قائم ہوں اس سے آپ کو میری نیت کا اندازہ لگانے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ میں سچ میں ذیان سے محبت کرتا ہوں اسے اپنی عزت بنانا چاہتا ہوں۔

“ وہاب کا لہجہ بہت جذباتی تھا۔ روبینہ نے بیٹے کو والہانہ نگاہوں سے دیکھا جیسے دل ہی دل میں واری صدقے جارہی ہو پر زرینہ اس بار وہاب کی باتوں میں آنے والی نہیں تھی۔ اسے مطمئن کرنے کے لئے جیسے اس کی تائید میں سر ہلایا۔

”خالہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ امی کو یہاں آپ کے پاس چھوڑ کر خود گھر چلا جاؤں۔ اتنے دن سے ہمارا گھر بند پڑا ہے۔ اور پھر میں نہیں چاہتا کہ رات پیدا ہونے والی غلط فہمی کی وجہ سے کسی کو باتیں کرنے کا موقعہ ملے۔

میں بیچ بیچ میں چکر لگاتا رہوں گا۔“ وہاب نے بہت چالاکی سے خود کو عارضی طور پہ منظر سے ہٹانے کا پروگرام بنایا تھا۔ زرینہ دل میں بہت خوش ہوئی۔ وہاب کی موجودگی سے اسے ہمہ وقت خوف اور عدم تحفظ کا احساس ہوتا۔ اچھا تھا وہ کچھ عرصے کے لئے یہاں سے دفعان ہوجاتا۔ اس عرصے میں وہ اطمینان سے سوچ بچار کرسکتی تھی۔

”خالہ میں عارضی طور پہ جارہا ہوں پریشان مت ہونا۔

“ زرینہ کو مسلسل خاموش پا کر وہ بولا تو زرینہ جیسے جبراً مسکرائی۔ ”ہاں تم خیر سے اپنے گھر جاؤ۔ میں پریشان نہیں ہوتی۔ آپ ہیں نا یہاں میرے پاس۔“ انہوں نے وہاب کو اطمینان دلایا تو وہ مطمئن ہوگیا۔

روبینہ کھانے کے بعد لیٹ گئی تھی۔ وہیں لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی تو زرینہ جو ان کے پاس بیٹھی تھی اس نے انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اسی طرح سوتا رہنے دیا۔

خود وہ آہستگی سے باہر آگئی کیونکہ بوا نے ان سے اکیلے میں کوئی ضروری بات کرنی تھی۔ زرینہ انہیں ڈھونڈتی باہر نکلی ہی تھی کہ وہ اسے اپنی طرف بڑھتی دکھائی دیں۔ ”چھوٹی دلہن آپ میرے کمرے میں آجائیں۔“ بوا کا انداز چوکنا اور رازدارانہ تھا۔ زرینہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کے ساتھ آگئی۔ بوا نے کمرے کا دروازہ بند کر کے جستی ٹرنک کھولا اور اس میں رکھا بوسیدہ برسوں پرانا خط نکال کر ان کی طرف بڑھایا۔

زرینہ نے سوالیہ نگاہوں سے پہلے خط اور پھر بوا کی طرف دیکھا بوا نے جواباً انہیں خط پڑھنے کا اشارہ کیا۔ زرینہ خط پڑھ چکی تھی۔ خط بھیجنے والے نے آخر میں اپنا نام نہیں لکھا تھا پر پھر بھی زرینہ بیگم جان گئی تھیں کہ یہ خط بھیجنے والی ہستی کون ہے۔ 

”بوا آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہی ہیں۔“ زرینہ بیگم کی نگاہیں ہاتھ میں تھامے گئے خط پہ تھیں۔

ان کے چہرے پہ شدید ہیجانی کیفیت تھی۔ ”چھوٹی دلہن خدا گواہ ہے میں نے خود کو اس گھرانے کا فرد سمجھا ہے اور کبھی نمک حرامی نہیں کی اس لئے چاہنے کے باوجود میں نے اس خط کا جواب نہیں دیا کیونکہ یہ نمک حرامی ہوتی ہے پھر امیر میاں بھی پسند نہ کرتے۔ لیکن اب میں سمجھتی ہوں کہ اس خط کے جواب دینے کا ٹائم آگیا ہے۔“ ”بوا آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟“ ”چھوٹی دلہن اس خط کے آخر میں ایڈریس بھی لکھا ہوا ہے۔

یہ آپ کے مسئلے کا حل ہے۔ کیونکہ ذیان وہاب میاں سے کسی صورت کسی قیمت پہ شادی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔“ ”میں خود بھی ذیان کی شادی وہاب سے کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اس کی نظر میرے گھر پہ ہے میرے بچوں کے حق پہ ہے۔ذیان سے شادی کی صورت میں وہاب اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا۔ میں اور میرے بچے در در کی خاک چھانیں گے وہ ذیان سے بھی سب کچھ ہتھیا لے گا۔

میں امیر علی کی روح کو کوئی تکلیف پہنچتے نہیں دیکھ سکتی۔ ”ذرینہ کی آواز بھرا گئی۔ ”اور یہ ایڈریس کا کیا چکر ہے۔“ انہیں یاد آگیا کہ بوا نے خط کے آخر میں لکھے کسی ایڈریس کا ذکر کیا تھا۔ ”چھوٹی دلہن آپ ذیان کو اس کی ماں کے پاس بھیج دیں۔“ بوا نے نہایت سکون سے جواب دیا۔ ”خط کے آخر میں پتہ لکھا ہوا ہے میں اسی کی بات کر رہی تھی۔ ”بوا اتنے برس گزر چکے ہیں کیا پتہ اب حالات کیسے ہیں…“ وہ تذبذب میں تھیں۔

”حالات بالکل ٹھیک ہیں۔“ بوا پہلی بار سکون سے مسکرائیں۔ ”آپ کو کیسے پتہ بوا؟“ میری رشتے کی بھانجی صغراں اسی ساتھ والے گاؤں میں رہتی ہے جس کا پتہ خط میں لکھا ہے۔ میں نے اسے ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ معلومات کروانے کو کہا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو اس گاؤں میں بھیجا۔ وہ سب کچھ دیکھ بھال آیا ہے۔ بس میں اس بات اس جرأت پہ شرمندہ ہوں کہ میں نے آپ کو اطلاع دئیے بغیر یہ سب کیا؟ بوا کی نگاہوں میں شرمندگی تھی۔

”ارے بوا ایسی بات تو نہ کریں۔ آپ نے تو بیٹھے بیٹھے میرا مسئلہ حل کردیا ہے۔ میں جس کام کو مشکل سمجھ رہی تھی وہ اتنا ہی آسان ہوگیا ہے کیونکہ ذیان کی طرف سے میں ازحد پریشان ہوں۔ زرینہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ وہ سچ میں خوش تھیں۔

”چھوٹی دلہن میں صغراں کو وہاں جانے کے لئے بولتی ہوں وہ سب حالات بتا دے گی انشاء اللہ وہاں سے اچھی خبر ہی ملے گی۔

“ وہ پر امید تھیں۔ ”بوا کیا وہ ذیان کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار ہوگی؟“ مطلب وہ لوگ اسے قبول کرلیں گے؟“ زرینہ کا انداز خدشات سے بھرا تھا۔ ”چھوٹی دلہن صغری بہت تعریف کر رہی تھی کہ نیک اور خدا ترس لوگ ہیں بہت امیر بھی ہیں۔ باقی اللہ خوب جانتا ہے اور سمجھتا ہے۔“

”بوا ہمیں جلدی جلدی ذیان کو یہاں سے بھیجنا ہوگا۔ میں وہاب کی طرف سے مطمئن نہیں ہوں۔“ ”صغریٰ وہاں سے سب معلومات لے آئے پھر میں آپ کو بتاؤں گی۔“ ”بوا آپ اس کام میں دیر مت کرنا۔“ زرینہ لجاجت سے بولی۔ ”چھوٹی دلہن آپ اللہ سے دعا کریں بس۔“ بوا نے انہیں تسلی دی۔

Episode 46 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 46 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک محل کے شاندار ڈرائنگ روم میں صغری اپنے بیٹے نواز کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ اتنا شاندار محل نما گھر اس نے اپنی حقیقی زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ خود صغریٰ کا اپنا شوہر اچھا کھاتا پیتا خوشحال زمیندار تھا۔ ان کا اپنا گھر تھا زمینیں تھیں پر ملک محل کے مقابلے میں اس کا گھر کچھ بھی نہیں تھا۔ بوا رحمت رشتے میں صغری کی دور پار کی خالہ لگتی تھیں برسوں پہلے صغریٰ نے بوا کو دیکھا تھا تب وہ چھوٹی سی تھی۔

اب وہ ادھیڑ عمری اور بڑھاپے کی سرحد پہ کھڑی تھی۔

کچھ دن پہلے ہی بوا نے اس سے رابطہ کیا تھا۔ کبھی کبھار ان کی فون پہ بات چیت ہوجاتی تھی تو ایک دوسرے کی خیر خیریت سے آگاہی مل جاتی تھی۔ اس بار اس نے صغریٰ سے ایک کام کا بولا تھا جو اس نے اپنے بیٹے نواز کے ذریعے ہی طے کروانا تھا۔

گھر پہ روبینہ بیگم نہ ہوتیں تو بوا خود صغریٰ کے ساتھ”ملک محل“ جاتیں لیکن ایسی صورت میں روبینہ بیگم لازمی طور پہ کھٹک جاتی ان سے پوچھ گچھ ہوتی کہ وہ کہاں اور کیوں گئی تھیں بات کھل جاتی کیونکہ بوا کہیں آتی جاتی نہیں تھیں اس لئے انہوں نے اس بار بھی صغریٰ کی ہی خدمات حاصل کی۔

جس کے نتیجے میں وہ”ملک محل“ میں موجود تھیں۔ صغریٰ نے من و عن جو کچھ بوا رحمت نے انہیں بتایا تھا سب کچھ ملک ارسلان اور عتیرہ بیگم کے گوش گزار کردیا تھا۔ صغری اور نواز نہ ہوتے تو عتیرہ نے دھاڑیں مار مار کر اِدھر ہی رونا شروع کردینا تھا۔ انہوں نے بمشکل اپنے جذبات کو قابومیں رکھا۔ صغری نے انہیں بوا کا نمبر دیا۔

صغریٰ اور نواز ان کی بھرپور مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کے بعد جاچکے تھے۔

عتیرہ نے جس مشکل سے اپنے اعصاب کو کنٹرول کر رکھا تھا ان کے جاتے ہی بکھر گئی اور ملک ارسلان کے سینے سے لگ کر رو پڑی۔ ”ملک صاحب! میرے جگر کا ٹکڑا کن حالوں میں ہے۔ مجھے خبر ہی نہیں۔ ہائے میرے جیسی بے خبر ماں دنیا میں نہ ہوگی۔“ وہ روتے روتے یہی تکرار کر رہی تھیں۔

مجھے اپنی بچی کو وہاں سے نکالنا ہے مجھے اس سے اور دور نہیں رہنا اب۔

مجھے میری بچی لادیں ملک صاحب۔ مجھ پہ اورظلم نہ کریں اپنی بچی سے دور رہ کر میں نے جو سزا کاٹی ہے وہ بہت کڑی ہے۔ ملک صاحب میری سزا ختم کردیں۔ مجھے میری بچی چاہیے۔“ عتیرہ پہ ہذیانی کیفیت طاری ہو رہی تھی۔ ”وہ صرف تمہاری نہیں میری بھی بیٹی ہے میں خود اسے جا کر لاؤں گا۔ تم خود کو سنبھالو ورنہ میں بھی پریشان رہوں گا۔“ ارسلان نے اس کی آنکھوں سے بھل بھل بہتے آنسو صاف کیے۔

”سچ آپ اسے لے آئیں گے؟“ وہ انہیں بے یقینی سے دیکھ رہی تھی۔ ارسلان کا دل کٹ سا گیا۔ اس صورت اس چہرے سے انہوں نے دنیا میں موجود ہر رشتے ہر شے سے بڑھ کر محبت کی تھی وہ اس کی دکھ اس کے کرب سے اچھی طرح واقف تھے اس نے ان کے ساتھ شادی شدہ زندگی کا جتنا بھی عرصہ گزارا تھا جلتے تڑپتے سسکتے گزارا تھا۔ وہ ننگے پاؤں کانٹوں پہ چلی تھی۔ اس کے راستے کے خار چنتے چنتے ملک ارسلان کے اپنے ہاتھ زخمی ہوگئے تھے پر وہ شکوہ زباں پہ نہ لائے۔

ان کی محبت شکوے شکایتوں سے ماورا تھی۔ ساری عمر اس کی صدا پہ وہ آنکھ بند کر کے چلے تھے اور وہ اب بھی بے یقینی کا شکار تھی۔ ”ہاں میں اسے خود جا کر لاؤں گا اپنی بیٹی کو۔“ وہ اس کے راستے کے خار ایک بار پھر چن رہے تھے۔ ”کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا جہانگیر بھائی اور افشاں بھابھی کو!!“ ساری عمر بے یقینی کے عالم میں گزارنے کے بعد اب بھی اندیشوں کے ناگ اسے اپنی طرف بڑھتے محسوس ہو رہے تھے۔

جہانگیر بھائی اور افشاں بھابھی کون ہوتی ہیں اعتراض کرنے والی۔ تم اتنے سال یہاں رہنے کے باوجود بھی ابھی تک ان کے مزاج کو سمجھ نہیں پائی۔ انہوں نے نیناں کے آنے پہ بھی کچھ نہیں کہا نہ کوئی سوال کیا ایک بار بھی ٹوہ لینے ہماری طرف نہیں آئے۔ ان کا دل بہت بڑا ہے۔ جہانگیر بھائی ہمدرد فطرت کے ہیں افشاں بھابھی بھی ان کا پر تو ہیں۔“ ملک ارسلان نرم لہجے میں بولتے جیسے اس کے کانوں میں رس ٹپکا رہے تھے۔

”لیکن پھر بھی ہمیں ان کو بتانا چاہیے۔“ عتیرہ نے رخ موڑتے ہوئے ان سے اپنے تاثرات چھپانے چاہے۔ ”اچھا بابا آؤ ابھی بھائی جان کی طرف چلتے ہیں۔“ ارسلان نے عتیرہ کو کندھے سے تھامتے ہوئے اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر اپنے مقابل کھڑا کیا۔ ”تمہیں یاد ہے شادی کی پہلی رات میں نے تم سے ایک بات کہی تھی کہ”تم تمہاری خوشی، تم سے وابستہ ہر رشتہ مجھے بہت عزیز ہے میں اس کی اتنی ہی قدر کرتا ہوں جتنی تم کرتی ہو۔

کیونکہ میں نے محبت نہیں عشق کیا ہے تم سے۔“ ”ملک صاحب مجھے سب یاد ہے۔“ ”میں آج پھر وہی بات دہرا رہا ہوں کہ میں نے محبت نہیں عشق کیا ہے تم سے۔ وہ صرف تمہاری بیٹی نہیں بلکہ اب ہماری بیٹی ہے۔ میں کل بھی تمہارے ساتھ تھا آج بھی ہوں اور ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔ پتہ ہے میں جب اللہ سے دعا مانگتا ہوں تو کہتا ہوں کہ اے اللہ تو نے عتیرہ کو جس طرح اس دنیا میں میرے ساتھ رکھا ہے۔

مرنے کے بعد اس دنیا میں بھی میری محبوب بیوی میرا محبت کو میرا ہمسفر بنانا۔“

ملک ارسلان اس کی نم آنکھوں کی گہرائیوں میں بغور دیکھتے ہوئے اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہے تھے۔ عتیرہ ان کا دایاں ہاتھ تھام کر عقیدت سے لبوں تک لے گئی۔ یہ اس کے اظہار محبت کا خاص طریقہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں محبت و یقین کے ہزاروں دئیے جگمگا رہے تھے۔

###

عتیرہ صبح یونیورسٹی کے لئے تیار ہو کر نکلی تو ہلکی بوندا باندی کا سلسلہ جاری تھا۔

سورج کا آسمان پہ کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ گھنگھور گھٹاؤں نے پورے ماحول کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دن چڑھنے سے پہلے شام ڈھل آئی ہو۔

عتیرہ نے یونیورسٹی میں قدم رکھا تو رکے رکے بادل پوری قوت اور شدت کے ساتھ برس پڑے۔ اس کا یونیورسٹی میں پہلا دن تھا۔ وہ پریشانی سے اِدھر اُدھر اپنی ان دو کالج فیلوز کو ڈھونڈ رہی تھی جنہوں نے یونیورسٹی میں اس کے ساتھ ہی ایم اے اکنامکس میں داخلہ لیا تھا۔

وہ کیفے ٹیریا سے ابھی کافی فاصلے پہ تھی جب بادل شدت کے ساتھ چنگھاڑے اس نے اپنی جگہ پہ کھڑے کھڑے زوردار چیخ ماری۔ وہ درختوں کے سائے میں تھی اسلئے بھیگنے سے کافی حد تک محفوظ تھی۔ لیکن بادل گرجتے ساتھ ہی اس نے درختوں کے جھنڈ سے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔ کیونکہ اس نے سن رکھا تھا کہ درختوں پہ آسمانی بجلی گرتی ہے اور جس خوفناک آواز میں ابھی بادل گرجے تھے اسے ڈر لگ رہا تھا کہ بجلی بھی لازمی گرے گی۔

بھاگتے ہوئے اپنی دھن اور پاؤں کیچڑ میں پھسلنے کی وجہ سے وہ خود بھی گرنے والی تھی جب کسی نے پاؤں اپنی ٹانگ سمیت آگے کرتے ہوئے اسے کیچڑ بوس ہونے سے بچا لیا وہ فوراً اپنے قدموں پہ سنبھلی۔ ”یا وحشت آپ کے پیچھے ملک الموت تھا جو اندھا دھند بھاگ رہی ہیں آپ۔“ وہ جو کوئی بھی تھا اسے ڈانٹ رہاتھا۔ عتیرہ نے خفت سے نگاہیں اوپر اٹھائیں۔ لمبے چوڑے سراپے پہ پرکشش چہرہ اور شرارتی آنکھیں سجی تھیں۔

یہ ملک ارسلان کے ساتھ اس کا پہلا تعارف تھا۔

وہ اسی یونیورسٹی میں ایم بی اے کا سٹوڈنٹ تھا۔ ان کے درمیان تعارف کے ابتدائی مراحل بہت جلد طے ہوئے۔ ملک ارسلان پنجاب کے زمیندار خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس سے بڑا ایک بھائی اور تھا۔ حال ہی میں اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا۔ ملک ارسلان کابڑا بھائی شادی شدہ اور دو چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ تھا۔

ملک ارسلان یہاں شہر میں پڑھائی کی غرض سے مقیم تھا اور ایک شاندار گھر میں اس کی رہائش تھی۔

دو ماہ میں ایک بار گاؤں جاتا اور سب سے مل کر آجاتا۔

تھوڑے عرصے میں ہی وہ عتیرہ کے ساتھ بے تکلف ہوگیا۔

عتیرہ کی والدہ حیات نہیں تھیں صرف والد تھے جنہوں نے اسے ماں بن کر پالا تھا۔ وہ اکلوتی اولادتھی بہت ساری محبت اور توجہ سمیٹنے کے باوجود بھی خود کو اکیلا محسوس کرتی۔

اس اکیلے پن کے احساس کو کم کرنے کے لئے اس نے بہت ساری سہیلیاں بھی بنا رکھی تھیں۔

لیکن سارا دن ان کے ساتھ گزارنے کے باوجود بھی وہ خود میں تشنگی محسوس کرتی۔

ملک ارسلان کا یونیورسٹی میں ملنا تعارف بے تکلفی اس کے لئے زندگی کا دلچسپ ترین تجربہ تھا۔ ملک ارسلان اس کے ساتھ اپنے گاؤں،بھائی بھابھی اپنے بھتیجوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور شرارتوں تک کو بھی شیئر کرتا۔ اسے ارسلان کا بولنا بہت اچھا لگتا تھ

Episode 47 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 47 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ دھڑکتے دل کے ساتھ فون کان سے لگائے ہوئے تھیں۔ وہ برسوں بعد بوا رحمت کی آواز سننے والی تھیں۔ بالا آخر ان کا انتظار تمام ہوا۔ اب بوا سے ان کی بات ہو رہی تھی۔

”بوا آپ نے بہت دیر کردی۔ میں تو سمجھتی تھی کہ آپ میرے دکھے دل کی پکار کو سن لیں گی۔ میں اپنی بچی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ترستی رہی۔ میں اس کے لئے کتنا روئی کتنا تڑپی آپ کبھی نہیں جان پائیں گی۔

وہ صرف خط تھا ایک ماں کی حسرتوں کا نوحہ تھا الفاظ کی صورت میں ،میں نے اپنا دل چیر کر رکھا تھا۔ پر آپ کو کیا اندازہ ممتا کا کیونکہ آپ کا دامن اس جذبے سے خالی جو رہا۔“ بوا کے دل پہ گھونسہ سا لگا کچھ بھی تھا انہوں نے ذیان کو ماں بن کر ہی پالا تھا۔ ”ایسا مت کہیں۔ میری اپنی مجبوریاں تھیں جن کے بوجھ تلے میں سسکتی رہی ورنہ آپ کے اس خط نے میرے ضمیر پہ بہت کوڑے برسائے ہیں لیکن میں تھی تو ایک ملازمہ۔

میرے اختیارات محدود تھے۔“ بوا کی آواز میں نمی در آئی تو عتیرہ کو اپنے الفاظ کی کڑواہٹ کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے فورا بات کا رخ بدل دیا۔

”میری بچی کیسی ہے؟ خوش ہے ناں؟“ ”ہاں بہت خوش ہے۔“ بوا کی آواز دھیمی پڑ گئی۔ انہوں نے عتیرہ کے ساتھ بات چیت ختم کی تو ذیان کو انتظار میں پایا۔ ابھی انہیں ذیان کے ضروری سامان کو چیک کرنا تھا۔

جب سے بوا اور زرینہ آنٹی نے اسے اس کی ماں کے پاس روانہ کرنے کی بات کی تھی وہ پہلے سے بھی زیادہ خاموش ہوگئی تھی۔

”ابھی بھی وہ رو رہی تھی۔“ بوا میرا کوئی نہیں ہے ناں ابو کے بعد۔ میرا کوئی گھر نہیں ہے ناں؟؟“ وہ بچوں کی طرح استفسار کر رہی تھی۔ ”ذیان بیٹا اب تم نہ اکیلی ہو نہ بے گھر ہو تمہاری ماں ہے۔ اور تمہارے حصے کی محبت، خوشیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔

وہ دونوں میاں بیوی، ملک ارسلان وعتیرہ، اکیلے ہیں اس میں بھی قدرت کی مصلحت ہے کہ رب کو ان کی ممتا کی پیاس تم سے ہی بجھانی منظور ہے۔“

”مجھے نفرت ہے ان سے۔ اتنے برس وہ کہاں تھیں پہلے۔ میں قطرہ قطرہ مری ہوں۔“

ذیان پہ ہذیانی کیفیت یکایک طاری ہوئی۔ یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے جانے کا فیصلہ اتنا آسان نہیں تھا۔ یہاں سے جانا اسے کانٹوں پہ چلنے کے مترادف محسوس ہو رہا تھا۔

پر بوا نے زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے ہوئے جو تلخ حقیقتیں بیان کی تھیں وہ بھی اپنی جگہ کم سنگین نہیں تھیں۔ وہ یہاں رہتی تو اسے ہر حال میں وہاب سے شادی کرنی پڑتی جو کہ اسے منظور نہیں تھی۔ اب امیر علی بھی نہیں تھے جن کی وجہ سے طوہاً کرہاً وہ یہاں رہنے پہ مجبور تھی۔

زندگی گرداب میں گھری ہوئی تھی آگے کنواں پیچھے کھائی تھی۔ زرینہ بیگم نے اس کے یہاں سے جانے کے عمل کی حمایت کی تھی۔

کچھ بھی تھا اسے وہاب کی دست درازی پسند نہیں آئی تھی کم سے کم وہ اپنی ماں کے پاس ایسی صورت حال سے محفوظ رہتی۔ مگر کوئی ذیان سے پوچھتا وہ کس دل سے یہاں سے جارہی تھی۔ بوا کے لاکھ نرمی سے سمجھانے کے باوجود اس کی نفرت اور دل کا زہر جوں کاتوں تھا۔ بوا کو امید تھی کہ آنے والے وقت میں اپنی ماں کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پہ آجائیں گے۔ ماں کے ساتھ رہنے سے اس کی ممتا کی نرمی محسوس کرنے سے جلد یا بدیر اس کی نفرت کا خاتمہ ہوجانا تھا۔

”بس اب تمہیں رونے دھونے کی فکر کی ضرورت نہیں ہے۔“ بوا نے اسے چمکارا۔

”بوا میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی؟“ بے بسی سی بے بسی تھی اس کے لہجہ میں۔ ”میں آؤں گی تم سے ملنے۔“ انہوں نے آنکھوں میں در آنے والے آنسو پلکوں کی باڑھ پہ ہی روک لئے۔ ”بوا سچ آپ آیا کریں گی وہاں؟“ اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ ”ہاں زندگی نے مہلت دی تو ضرور آؤں گی۔

“ ”بوا آپ میرے ساتھ ہی چلیں ناں۔ یہاں کیا کریں گی؟“ وہ بچوں کی طرح ٹھنکی۔ ”میں نے ساری عمر یہاں گزار دی ہے۔ اب اس گھر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ اب میری میت ہی یہاں سے جائے گی۔ یہاں چھوٹی دلہن ہے۔ آفاق، رابیل، مناہل ہیں۔ میں ان کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاؤں۔“

ان کا چہرہ محبت کی روشنی سے جگمگ جگمگ کر رہاتھا اس محبت سے جو انہوں نے اس گھر کے مکینوں سے بے غرض ہو کر بغیر کسی صلے کی تمنا کے کی تھی۔

ذیان فرط محبت سے بے تاب ہو کر ان کے سینے سے لگ گئی۔

تھوڑی دیر بعد بوا ذیان کے کپڑے اور دیگر چیزیں سوٹ کیس میں رکھ رہی تھیں۔ وہ ان کے پاس بیٹھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ کل اسے یہاں سے چلے جانا تھا۔

وہاب کی طبیعت خراب تھی اس لئے شام کو روبینہ اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ بوا اور زرینہ دعا کر رہی تھیں کہ ذیان آرام و سکون سے چلی جائے۔ بعد میں جو ہوتا دیکھا جاتا۔

فی الحال وہاب کا لاعلم رہنا ضروری تھا۔

مرے دل میں مسافر

ہوا حکم پھر سے صادر

کہ وطن بدر ہوں ہم تم

دیں گلی گلی صدائیں

کریں رخ نگر نگر کا

کہ سراغ کوئی پائیں

کسی یار نامہ بر کا

ہر ایک اجنبی سے پوچھیں

جو پتہ تھا اپنے گھر کا

سر کوئے ناآشنائیاں

ہمیں دن سے رات کرنا

کبھی ان سے بات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا

تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے

شب غم بری بلا ہے

ہمیں یہ بھی تھا غنیمت

جو کوئی شمار ہوتا

ہمیں کیا برا تھا مرنا

اگر ایک بار ہوتا…

ذیان جانے کے لئے تیار تھی۔

آفاق، رابیل مناہل اسے حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ زرینہ نے انہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی ذیان کی یہاں سے روانگی کا بتایا تھا۔ وہ تینوں ابھی اتنے سمجھدار نہیں تھے کہ انہیں کھل کر کچھ بتایا جائے۔ ذیان نے ان کے ساتھ اب تک کی تمام عمرگزاری تھی لیکن ان میں بہن بھائی والی مخصوص محبت یا چاہت پیدا نہیں ہوپائی تھی پر ابھی جب وہ ذیان کو روانگی کی تیاری کرتے دیکھ رہے تھے تواس کا دل کر رہا تھا کہ تینوں کو گلے لگا کر روئے۔

ملک ارسلان اپنے ڈرائیور اور ایک گارڈ کے ساتھ ذیان کو لینے پہنچ چکے تھے۔ بوا ان کو یہاں کے حالات اور وہاب کے بارے میں مختصراً بتا چکی تھیں اس لئے وہ احتیاطاً کسی بھی بدمزگی سے نمٹنے کے لئے گارڈ کو ساتھ لائے تھے جو مسلح تھا۔

وہ جس شاندار گاڑی میں ذیان کو لینے آئے تھے اس نے بوا سمیت زرینہ بیگم کو بھی مرعوب کیا تھا۔

ذیان نے انہیں پہلی بار دیکھا تھا۔

انتہائی باوقار اور شاندار شخصیت کا مالک درمیانی عمر کا یہ مرد اس کے لئے اجنبی تھا۔ اس نے کسی خاص جذبے کا اظہار نہیں کیا۔

ملک ارسلان نے تب خود ہی آگے بڑھ کر تعارف کروایا اور اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرا۔ ذیان نے موہوم سی گرمجوشی سے ان کے سلام کا جواب دیا تو وہ مسکرائے وہ اس کے غیریت بھرے رد عمل کے پس منظر سے آگاہ تھے اس کا یہ رد عمل عین فطری تھا۔

اس کا مختصر سا سامان گاڑی میں منتقل ہوچکا تھا۔ وہ سب سے ملی، ایک نئی منزل اڑان بھرنے کے لئے اس کا انتظار کر رہی تھی۔

عتیرہ صبح سویرے جاگ گئی تھی۔ بے چینی اور خوشی حد سے سوا تھی۔ عتیرہ نے سب سے پہلے نیناں کو بتایا کہ میری بیٹی آرہی ہے پورے گھر کی صفائی کروانی ہے اور نئے پردے بھی لگانے ہیں۔ اس نے فوراً یہ کام اپنے ذمہ لیا۔ کوئی دیکھتا تو پہچان نہ پاتا کہ لان کے عام سے سوٹ میں ملبوس خوبصورت سٹائل میں تراشیدہ بالوں کو باندھے سر پہ دوپٹہ اوڑھے نوکرانیوں کے کام کو چیک کرنے والی یہ لڑکی رنم ہے۔

وہ پہلے سی اب رہی بھی کہاں تھی۔ وہ اب عام سی مڈل کلاس لڑکی لگتی تھی۔ نہ وہ سٹائلش ڈریسنگ نہ سب سے ممتاز کرتا رکھ کھاؤ، نزاکت اور نخرا۔ یہ تو نیناں تھی۔ حالات اور زمانے کی ستائی بے آسرا بے سہارا بے وسیلہ لڑکی جس کا دنیا میں آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ ملک ارسلان اور عتیرہ ترس کھا کر جسے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ عتیرہ نے یہاں اس پہ کمال مہربانی کرتے ہوئے اس کے سپرد چھوٹے موٹے کام کیے تھے۔

مثلاً نوکرانیوں کے کام کو چیک کرنا۔باغ کے پودوں کو دیکھنا کہ آیا ان کی درست دیکھ بھال ہو رہی ہے کہ نہیں۔ اسی نوعیت کے اور چھوٹے موٹے کام تھے جو ہر لحاظ سے حویلی میں کام کرنے والوں کے نزدیک باعزت تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنی حیثیت سے واقف تھی۔اس نے سب کے اچھے برتاؤ دیکھ کر دل میں کسی خوش فہمی کو جگہ نہیں دی تھی۔

فارغ ہو کر عتیرہ کے پاس بیٹھ جاتی۔

وہ سارا دن”ملک محل“میں آنے والی عورتوں کے دکھڑے اور مسائل سنتیں ان کا حل نکالتیں۔نیناں کو یہ کام بہت دلچسپ لگتا۔ہر عورت کے پاس الگ ہی موضوع ہوتا۔ جو دوسری عورت کے مسئلے سے بالکل ہی جدا ہوتا۔ اس نے شہر میں نازو نعم میں زندگی گزاری تھی۔ مسائل، مشکلات، غربت، بیماری، دکھ، تکلیف اور آفت کیا ہوتی ہے اسے ان باتوں کا ہرگز اندازہ نہ تھا۔

یہ سب اس کے لئے ایلس کی”ونڈرلینڈ“ جیسا تھا۔

عتیرہ آج بے پناہ خوش تھیں۔ صبح صبح ہی انہوں نے اسے اپنی بیٹی کی آمد کی نوید دی تھی۔ اسے یہاں آئے ایک ماہ سے اوپر ہو چلا تھا اس دوران اس نے ان کی بیٹی کی ایک جھلک تک نہ دیکھی تھی نہ ذکر سنا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود بھی ان سے پوچھ نہ پائی۔پوری حویلی لشکارے مار رہی تھی۔ عتیرہ نے گھوم پھر کر پورے گھر کا خود جائزہ لیا۔

حویلی کی اوپر والی منزل پہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے بطور خاص کمرہ تیار کروایا تھا۔ جس کی سجاوٹ اور فرنیچر دیکھنے کے لائق تھا۔

جا بجا کمرے میں تازہ پھول بہار دکھا رہے تھے اور خود عتیرہ آج بہت اہتمام سے تیار ہوئی تھیں۔ دونوں کلائیوں میں موتیے کے گجرے سجائے ارسلان کی پسند کا ڈیزائنر سوٹ زیب تن کیے خود کو خوشبو میں بسائے عتیرہ کسی نو عمر دوشیزہ کی مانند پرجوش اور تروتازہ لگ رہی تھیں۔

Episode 48 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 48 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

نیناں باغ میں تھی۔ دور دور تک ہریالی کی چادر بچھی تھی۔ وہ پھول توڑتے ہوئے عتیرہ ملک کی بیٹی کے بارے میں سوچ رہی تھی جس کے استقبال کی تیاریاں ایسے ہو رہی تھیں جیسے کسی ریاست کی شہزادی آرہی ہو۔ کچھ دیر کے لئے اسے عتیرہ ملک کی بیٹی سے حسد سا محسوس ہوا۔ اسے پپا یاد آگئے تھے۔ ان کی یاد آتے ہی دل پہ جیسے بھاری بوجھ آن گرا۔

نیناں یعنی رنم نے بہت جلد حویلی کے رنگ ڈھنگ اپنالئے تھے۔

یہاں کا ماحول شہر سے یکسر مختلف تھا۔ لیکن اس فرق میں اسے ایڈونچر اور کشش محسوس ہوتی۔ لگی بندھی زندگی سے یکسر مختلف۔ وہ یہاں ایک عام سی لڑکی تھی بے سہارا۔ بے آسرا عتیرہ ملک نے اپنے تئیں اسے ہر ممکن سہولت دینے کی پوری کوشش کی تھی۔ وہ نوکرانیوں کو ہدایات دیتی ان کی نگرانی کرتی تو اس میں بھی اسے لطف آتا کیونکہ اسکے اندر کی رنم سیال زندہ تھی جو احمد سیال کی لاڈلی نازوں پلی بیٹی تھی۔

اسے رات کی تنہائیوں میں ان کی یاد آتی تو دل میں ہوک سی اٹھتی انہوں نے اس کی ذرا سی بات تک نہ مانی تھی۔ مان لیتے تو آج یہاں نہ پڑی ہوتی، شادی کر کے اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی۔ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ لاوارثوں کی طرح یہاں پڑی تھی۔ اور وہ خود منوں مٹی تلے جا سوئے تھے۔ پھول توڑتے ہوئے کوئی کانٹا اس کے ہاتھ میں چبھا تھا جس نے تکلیف کے احساس سے دو چار کرنے کے ساتھ ساتھ پپا کی یادوں کے حصار سے بھی نکالا۔

لیکن یہ کیسے ممکن تھا آنسو اس کی آنکھوں میں نہ آتے۔

سنگ مرمر کی سفید عمارت ان کی منزل ثابت ہوئی۔ یہ عمارت دور ہی سے مکینوں کی امارت اور خوشحالی کا اعلان کر رہی تھی۔ اس میں قدم رکھتے ہی ذیان کو بہت سی باتوں کا اندازہ ہوگیا۔ لینڈ روور جس میں بیٹھ کر وہ یہاں پہنچی تھی رہائشی حصے سے باہر کھڑی تھی ذیان کا مختصر سا سامان اس میں سے نکال کر اندر پہنچایا جاچکا تھا۔

عتیرہ اس کے استقبال کے لئے منقش دروازے کے پاس ہی کھڑی تھیں۔ سفید سنگ مر مر کی اس عمارت کی طرح ان کی شخصیت بھی بے انتہا شاندار تھی۔ انکے ساتھ ہی باوقار سی ایک اور خاتون بھی تھیں یہ افشاں بیگم تھیں۔ عتیرہ کو دیکھتے ہی ذیان کے دل نے خاص گواہی دی کیونکہ ان کے چہرے پہ محبت ہی محبت تھی ممتا کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ انہوں نے دونوں بازو کھولتے ہوئے بڑھ کر ذیان کو سینے سے لگالیا۔

وہ اس کے چہرے، ہاتھوں، بالوں اور ماتھے پہ دیوانہ وار بوسے دے رہی تھیں۔ ”میری بچی میری ذیان مجھے امید نہیں تھی کہ جیتے جی میں تمہیں دیکھ پاؤں گی۔“

وہ اسے سینے سے چمٹائے بولتے ہوئے روتی جارہی تھیں۔افشاں بیگم اور ساتھ کھڑی نوکرانیوں کی آنکھیں اس جذباتی منظر پہ خود بہ خود ہی بھیگ گئیں۔ عتیرہ نے طویل عرصہ بعد اپنے جگر کے ٹکڑے کو دیکھا تھا برسوں محسوس کیا تڑپی اور آج وہ حقیقت بن کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔

ان کی ممتا امنڈی پڑ رہی تھی۔ لیکن ذیان بالکل نارمل انداز میں ملی۔ عتیرہ کی جذباتی دل گرفتہ کیفیت نے اس کے اندر وہ خاص جذبہ پیدا نہیں کیا جو برسوں بعد ماں سے ملنے والی بیٹی کے دل میں ہونا چاہیے تھا۔ عتیرہ کے بعد افشاں بیگم نے بھی اسے سینے سے لگایا اور اس کے ماتھے پہ بوسہ ثبت کیا۔ ذیان نے اچھے طریقے سے ان سے خیر خیریت دریافت کی۔ افشاں بیگم کے چہرے پہ ذیان کو دیکھتے ہی متاثر ہونے والی خاص کیفیت پیدا ہوئی تھی جسے مرعوبیت کا نام دیا جاسکتا تھا۔

سب نوکرانیوں نے فرداً فرداً اسے سلام کیا۔ عتیرہ ساتھ ساتھ تعارف بھی کرواتی جارہی تھیں۔ نیناں سب سے الگ آخر میں کھڑی تھی۔ اس نے بھی ذیان کو خوش آمدید کہا۔ ذیان نے سفید شیفون کی لانگ شرٹ اور چوڑی دار پائجامہ زیب تن کر رکھا تھا ساتھ ہمرنگ جھاگ جھاگ دوپٹہ جس کے کنارے پہ میرون اور سلور لیس کے ساتھ ننھے منے گھنگھرو لگے ہوئے تھے۔

پاؤں میں سلور نگوں والی ہائی ہیل جوتی، ریشمی بال جو دونوں شانوں کے گرد بکھرے تھے۔ ستواں ناک، مغرور جاذب نظر ناک نقشہ۔ وہ پہلی نظر میں ہی اوروں کے ساتھ ساتھ نیناں یعنی رنم کو بھی متوجہ کرگئی تھی۔ قدرت نے اسے جی بھر کر دل کشی اور جاذبیت سے نواز تھا۔ نیناں نے ایک گہری نظر اسے دیکھنے کے بعد خود کو دیکھا۔ کتنے عام سے کپڑے اور عام سے حلیے میں تھی وہ یونیورسٹی میں اسے فیشن آئیکون کہا جاتا تھا اس کے سٹائل کو کاپی کیا جاتا۔

اور اب یہ لڑکی جو کروفر سے ملک محل میں تازہ تازہ وارد ہوئی تھی اسے خواہ مخواہ ہی پریشانی سے دوچار کر گئی تھی۔ اتنے دن کے بعد نیناں عرف رنم کو اپنی پرانی زندگی یاد آئی تھی۔ کبھی وہ بھی اپنے پپا کے ساتھ اپنے گھر میں اسی کروفر اور آن بان کے ساتھ رہتی تھی۔ بالکل کسی شہزادی کی مانند۔ جو پروٹوکول عتیرہ ملک کی بیٹی کو یہاں مل رہا تھا اپنے گھر میں اسے بھی ملتا تھا۔

مگر اب سب بدل گیا تھا۔ وہ شہر سے گاؤں پہنچ چکی تھی۔ مالکن نوکرانی بن گئی تھی۔

عتیرہ محبت سے ذیان کو دیکھ رہی تھیں یہ پیاسی ممتا کی آنکھیں تھیں۔ انہوں نے ذیان کو کچھ دیر بعد نوکرانی کے ساتھ اوپر بھیج دیا تاکہ وہ فریش ہوجائے اور اپنا کمرہ بھی دیکھ لے۔

افشاں بیگم اور عتیرہ اب دونوں شاندار ویٹنگ روم میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔

موضوع گفتگو ذیان ہی تھی۔ ”ماشاء اللہ ذیان بہت خوبصورت ہے اپنے نام کی طرح۔ چاند کا ٹکڑا ہے۔“ افشاں بیگم نے چوتھی بار یہ جملہ کہا تو عتیرہ مسکرا دیں، یہ خوشی کی مسکراہٹ تھی کیونکہ ان کی ذیان کو حویلی میں قبول کرلیا گیاتھا۔ ”جہانگیر بھائی کی طبیعت اب کیسی ہے؟“ انہوں نے گفتگو کے دوران پوچھا۔ ”پہلے سے تو بہتر ہے لیکن آپریشن کروانے کے بعد بھی ملک صاحب کو آرام نہیں ہے۔

ڈاکٹر نے بہت احتیاط بتائی ہے پر سنتے ہی نہیں کسی کی۔“ افشاں بیگم کا لہجہ شکایتی تھا۔

”کل جب میں ان کی طبیعت کا پوچھنے گئی تو کہہ رہے تھے کہ لیٹے لیٹے تنگ آگیا ہوں کچھ پڑھ بھی نہیں سکتا۔“ ”ابھی تازہ تازہ موتیے کا آپریشن ہوا ہے اتنی جلدی کہاں کچھ پڑھ سکیں گے۔“ ”بھابھی۔ جہانگیر بھائی بھی کیا کریں مجلسی یار باش انسان ہیں۔ ایک کمرے میں رہ رہ کر گھبرا گئے ہیں۔

“ ”ہاں تم ٹھیک کہتی ہو یہ بڑھاپا اور بیماری انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی میں نے ذیان کا بتایا تھا پر وہ ٹھیک نہیں ہیں اس لئے نہیں آئے ہیں ملک صاحب۔“ ”بھابھی شرمندہ تو نہ کریں مجھے۔ ذیان خود جا کر مل آئے گی ان سے بزرگ ہیں وہ ہمارے۔“ ”اور یہ نیناں کہاں ہے کافی دیر سے نظر نہیں آرہی ہے۔“ افشاں بیگم نے بات کا رخ بدلا۔ ”صبح سے نوکرانیوں کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔

میں نے اوپر والا سب حصہ صاف کروایا ہے اور نئے پردے بھی لگوائے ہیں۔ نیناں بہت محنتی ہے۔ کہتی ہے بیٹھ بیٹھ کے تھک جاتی ہوں مصروف رہنا اچھالگتا ہے۔ اِدھر اُدھر کچھ نہ کچھ کرتی ہی رہتی ہے۔“ عتیرہ نے افشاں بیگم کو تفصیلی جواب دیا تو انہوں نے تاسف سے سر ہلایا۔ ”بے چاری۔“ ”ہاں بھابھی یہ ابیک انڈسٹریل ہوم کی تعمیر کب شروع کروائے گا؟“ عتیرہ نے اچانک پوچھا۔

”کہہ رہا تھا جلدی کام شروع کراؤں گا میٹریل تو منگوا لیا ہے۔ اسی سلسلے میں شہر گیا ہوا ہے۔“ افشاں بیگم نے سادہ انداز میں بتایا۔ ”بھابھی میں سوچ رہی ہوں جب ابیک اپنا انڈسٹریل ہوم بنالے تو میں نیناں کے بارے میں اس سے بات کروں۔“ ”کون سی بات؟“ وہ متفسر ہوئیں۔ ”یہی کہ نیناں کو بھی انڈسٹریل ہوم میں کوئی کام بتائے۔ پڑھی لکھی لڑکی ہے اسی حساب سے کام کرتی اچھی لگے گی ناں۔

“ ہاں بے چاری اچھے گھر کی لگتی ہے پر قسمت رول دیتی ہے انسان کو۔“ افشاں بیگم نے گہرے فلسفیانہ لہجہ میں کہا۔

”ہاں بھابھی ٹھیک کہتی ہیں آپ۔ مجھے تو بہت ترس آتا ہے نیناں پہ۔“ عتیرہ نے بھی ہمدردی کے جذبات کا اظہار کیا۔

وسیع و عریض ڈائننگ ہال میں کھانے کی میزپہ صرف تین نفوس تھے۔ عتیرہ، ملک ارسلان اور خود ذیان۔ ٹیبل انواع و اقسام کی ڈشز سے بھری ہوئی تھی۔

ملک ارسلان اور عتیرہ ایک ایک چیز خود اٹھا کر اس کی پلیٹ میں ڈال رہے تھے۔ چکھنے کے دوران ہی اس کا پیٹ بھر گیا تھا۔ یہ بات اس نے دل میں تسلیم کی تھی کہ کھانا بے حد لذیذ ہے عتیرہ نے ذیان کی آمد سے کئی گھنٹے پہلے ہی کھانا پکانے والی تینوں نوکرانیوں کو باورچی خانے میں مصروف کردیا تھا۔

ملک ارسلان کا رویہ بے حد دوستانہ اور اپنائیت بھرا تھا۔

کھانے کے بعد وہ اس کی اجنبیت دور کرنے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ عتیرہ محبت بھری نگاہوں سے ذیان کو دیکھے جارہی تھیں۔ ذیان بہت کم بول رہی تھی یا مختصر ترین جواب دے رہی تھی۔ ان کے لہجے اور اندازمیں ذیان کے لئے شفقت تھی۔ اسے بہت سوچنے کے بعد بھی ایسا کوئی لمحہ یاد نہیں آیا جب امیر علی نے پاس بیٹھ کر اسے اتنی محبت اور توجہ سے کوئی بات کی ہو یا پوچھا ہو۔ یہ اجنبی مرد کیوں اس پہ حد درجہ مہربان ہے کیوں اتنی شفقت کا برتاؤ کررہا ہے جبکہ اپنے سگے باپ تک نے اسے کبھی اتنی اہمیت نہیں دی جتنی یہاں مل رہی تھی۔ اس کے دماغ میں کشش مکش ہو رہی تھی۔

Episode 49 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 49 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک محل میں اس کی آمد کی پہلی رات تھی۔ عتیرہ خود ذیان کو کمرے میں چھوڑنے آئی تھیں۔ اس کا بیڈ روم اوپری منزل پہ تھا۔ ”چلو تم آرام کرو تھک گئی ہوگی لمبے سفر سے۔“ عتیرہ کو اس کے پاس بیٹھے پندرہ منٹ سے اوپر ہوگئے تھے۔ ان کی باتوں کے جواب میں ذیان ہوں ہاں کر رہی تھی یا پھر سر ہلانے پہ اکتفا کر رہی تھی۔ عتیرہ اسے نیند یا تھکن کا اثر سمجھی تھیں۔

”میں چلتی ہوں بیٹا تم ریسٹ کرو۔“ عتیرہ نے جانے سے پہلے اسے سینے سے لگا کر ایک بار پھر اس کا ماتھا چوما۔ وہ رسمی سے انداز میں مسکرائی۔ عتیرہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی نیچے جارہی تھی۔ ذیان کی نظریں جیسے ان کے آگے بڑھتے قدموں کا حساب کر رہی تھیں۔ وہ نگاہوں سے اوجھل ہوئی تو اس نے دروازہ بند کیا۔

اس نے دروازہ لاک کرنے کے بعد آگے پردے بھی کھینچ دئیے پھر کھڑکیوں کے ساتھ بھی اس نے یہی سلوک کیا تو بعد میں اسے اپنی احتیاط پہ خود ہی ہنسی آگئی۔

یہ زرینہ آنٹی کا گھر نہیں تھا بلکہ وہاں سے وہ آج یہاں آگئی تھی اور وہاب جیسا عفریت بھی نہیں تھا جو وہ اسطرح سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر رہی تھی۔ بلکہ یہاں تو ملک ارسلان تھے شاندار پرسنالٹی کے مالک۔ اس کی ماں تھی عتیرہ بالکل ملک ارسلان کی طرح باوقار۔ یہ بے پناہ سہولیات والا شاندار کمرہ اسکا تھا۔ پر اس کے دل میں بے پناہ نفرت بھی تو تھی۔

دل میں اگنے والے نفرت و بیگانگی کے تناور درخت کو تازہ پانی مل گیا تھا۔ وہ کچھ مثبت سوچنے پہ آمادہ نہیں تھی۔

کچھ دیر بعد اس نے کھڑکیوں پہ پڑے پردے سرکائے۔ داخلی دروازے کے ساتھ کی پوری دیوار شیشے کی تھی جس پہ پردے تھے اس نے وہ سب پردے بھی ہٹا دئیے۔ شیشے کی دیوار کے آگے طویل برآمدہ تھا جس کے کونے کے ساتھ پودوں کے پینٹ کیے ہوئے گملے تھے برآمدے کو سہارا دینے والے ستونوں کے گرد سرسبز بیلیں لپٹی اوپر تک جارہی تھیں۔

ذیان کو شیشے کی دیوار سے پرے نظارا بڑا دلچسپ لگا۔ وہ بیڈ روم کا دروازہ کھول کر باہر برآمدے میں آگئی۔ سامنے کنارے پہ چار فٹ اونچی دیوار تھی۔ سامنے آگے کچھ فاصلے پہ بالکل اسی بناوٹ کی ایک اور عمارت تھی۔ شام کو عتیرہ نے اسے بتایا تھا کہ سامنے والا رہائشی حصہ افشاں بھابھی کا ہے۔

دونوں عمارتیں ایک جیسی تھیں۔ دوسری عمارت کی اوپری منزل پہ ذیان کے کمرے کے عین سامنے بالکل اسی جیسا کمرہ تھا۔

وہ دیوار پہ کہنیاں ٹکا کر کھڑی ہوگئی اور سامنے موجود کمرے کو دیکھنے لگی جس کی کھڑکی اور دروازہ دونوں کھلے ہوئے تھے۔ کمرے کی برآمدے کی سب لائیٹیں بھی آن تھیں۔ وسیع ٹیرس پھولوں کے بڑے بڑے گملوں سے سجا ہوا تھا۔ کھلے دروازے سے اندر کوئی ذی نفس دکھائی دے رہا تھا۔ پردے سمٹے ہونے کی وجہ سے وہ اندر موجود ایک ایک چیز کو دیکھ سکتی تھی۔ مشرقی دیوار کے ساتھ جہازی سائز بیڈ پڑا تھا۔

سلینگ فین کے چلنے کی وجہ سے سمٹے پردے دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی سے جائزہ لے رہی تھی جب اچانک ایک نوجوان تولیے سے سر رگڑتا جانے کہاں سے برآمد ہوا اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ ذیان کی طرف اس کی پشت تھی، چوڑے کندھے اور بازوؤں کے مسلز واضح تھے۔ وہ بالوں میں برش کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ پلٹتا ذیان برآمدے سے ہٹ کر کمرے میں آگئی۔

افشاں آنٹی کے گھر سے ہی کوئی ہوگا اس نے اندازہ لگایا۔ اسے یہاں آئے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اس لئے یہاں کے مکینوں کے بارے میں لاعلم ہی تھی۔ شکر ہے کہ وہ اس اجنبی نوجوان کے رخ موڑنے سے قبل ہی کمرے میں آگئی تھی وہ برآمدے کی دیوار کے ساتھ کھڑی بے دھیانی میں جائزہ لینے میں مگن تھی وہ جو کوئی بھی تھا اسے اس انداز میں دیکھتا تو جانے کیا سوچتا۔

دونوں کمرے اوپری منزل پہ بالکل آمنے سامنے اور طرز تعمیر، نقشے، بناوٹ، رنگ میں ایک جیسے تھے۔ ملک محل کے دو حصے تھے۔ ایک میں ملک جہانگیر اور دوسرے میں ملک ارسلان رہائش پذیر تھے۔ دونوں حصوں کو الگ اور جدا کرنے کے لئے ڈم ڈم کی باڑ اور اس کے بعد سرسبز میدان تھا۔

ذیان صوفے پہ بیٹھ گئی۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی۔ اپنی بے معنی، لا یعنی سوچوں کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے جانے کتنی دیر گزر چکی تھی۔

اس کی پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگی تھیں۔ وہ اٹھ کربیڈ کی طرف آئی تو نہ چاہتے ہوئے نگاہ شیشے کی دیوار سے پرے کمرے کی طرف اٹھ گئی۔ دوسری طرف بھی شیشے کی دیوار پہ سے پردے سرکا دئیے گئے تھے۔ اندر زیروپاور کی سبز لائیٹ جل رہی تھی اور وہ جو کوئی بھی تھا بیڈ پہ لیٹا ایک تکیہ سیدھے بازو تلے دبائے سو رہا تھا۔ ذیان کے کمرے کی لائٹیں آف تھیں۔

پھر بھی احتیاطاً اس نے شیشے کے دیوار پہ پردے برابر کردئیے۔ البتہ کھڑکی ہنوز کھلی تھی اور پردے بھی ہٹے ہوئے تھے۔ وہ صوفے سے اٹھ کر مسہری پہ آئی اور نیم دراز ہوگئی۔

ذیان، عتیرہ اور ملک ارسلان تینوں ناشتہ کر رہے تھے۔ بیچ بیچ میں باتیں بھی جاری تھیں۔ ”ملک صاحب مجھے مارکیٹ جانا ہے۔ ذیان کو شاپنگ کروانی ہے۔“ عتیرہ نے ملک ارسلان کو مطلع کیا۔

ذیان نے ایک نگاہ اٹھا کر دونوں کے چہرے پہ ڈالی اور پھر سے ناشتے کرنے میں مصروف ہوگئی۔ ”ہاں تو تم ڈرائیور اور گارڈ کے ساتھ چلی جاؤ۔“ انہوں نے بخوشی عتیرہ کو اجازت دی۔

”آپ ساتھ نہیں جائیں گے؟“ عتیرہ کو جیسے تھوڑی مایوسی ہوئی۔ ”مجھے آج کورٹ جانا ہے چودھری ریاض والے کیس کے سلسلے میں۔ رات ابیک بھی واپس آگیا ہے۔ میرا جانا ضروری نہ ہوتا تو تمہارے ساتھ ضرور جاتا۔

ابیک بھی اسی وجہ سے آیا ہے۔“

”اچھا ابیک آگیا ہے۔“ عتیرہ نے خوشی کا اظہار کیا۔ ”ہاں رات کو آیا ہے۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد میں اس سے ملا ہوں۔“ ملک ارسلان نے تفصیل بتائی۔ ”اچھا میں ذیان کے ساتھ چلی جاؤں گی۔“ عتیرہ انہیں بتانے لگی۔ ”تم ناشتہ کرنے کے بعد جانے کی تیاری کرو اچھا خاصا ٹائم لگ جائے گا۔“ ملک ارسلان نے مشورہ دیا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

”ذیان بیٹا، ناشتہ کرچکی تو Change کرو ہمیں جلدی جانا ہوگا۔“ عتیرہ نے روئے سخن اس کی طرف موڑا تو اس نے دھیرے سے اثبات میں سرہلایا۔

خریداری کرتے ہوئے ذیان نے کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ بس عتیرہ جو لیتی گئیں وہ بغیر کسی تاثر کے دیکھتی رہی نہ پسندیدگی کا اظہار کیا نہ ناپسندیدگی کا۔ ایسے لگ رہا تھا وہ روبوٹ ہے سوئچ آن آف کرنے کا محتاج۔

عتیرہ نے اس کے لئے بے شمار کپڑے، جوتے جیولری کاسمیٹکس پروڈکٹس خریدیں۔ سب اشیاء برانڈڈ اور بیش قیمت تھیں۔ پر ذیان کے چہرے پہ ایک بار بھی کسی تاثر نے جگہ نہیں بنائی۔

اس کی یہ خاموشی، سرد مہری اور بیگانگی عتیرہ کے لئے تکلیف دہ تھی۔ گزرتے اٹھارہ برسوں نے ذیان کو ان سے صدیوں کے فاصلے پہ لا کھڑا کیا تھا۔ وہ اجنبی کی مانند برتاؤ کر رہی تھی۔

وہ خود سے مخاطب کرتیں تو ذیان بولتی ورنہ اس کے لبوں پہ چپ کا قفل تھا۔

واپسی پہ بہت دیر ہوجائے گی ورنہ آج میں تمہیں جہانگیر بھائی سے ملواتی۔ تم ان سے مل کر بہت خوشی محسوس کرو گی کیونکہ جہانگیر بھائی بہت محبت کرنے والے انسان ہیں۔“شاپنگ ختم کرنے کے بعد وہ اب واپس جارہی تھیں جب عتیرہ نے گفتگو کا آغاز کیا۔ جواب میں ذیان نے سر ہلایا۔

”پتہ ہے افشاں بھابھی تمہاری اتنی تعریف کر رہی تھیں کہتی ہیں ذیان چاند کا ٹکڑا ہے بہت خوبصورت ہے۔“ عتیرہ کا چہرہ یہ بتاتے ہوئے خوشی سے چمک رہا تھا۔ ذیان کے چہرے پہ مسکراہٹ ابھری۔ افشاں بھابھی کے دو بیٹے ہیں۔ چھوٹا معاذ پڑھنے کے لئے باہر گیا ہوا ہے جبکہ ابیک یہیں ہے۔ زیادہ تر شہر میں رہتا ہے۔بہت مصروف ہوتا ہے۔ کہتا ہے گاؤں میں انڈسٹریل ہوم بنواؤں گابلکہ اس نے کام بھی شروع کروا دیا ہے۔

اس کا ارادہ گاؤں میں بہت اچھا سکول بنانے کا بھی ہے۔ اس کے دل میں اوروں کے لئے کام کرنے کا جذبہ ہے۔ شہر کے ساتھ ساتھ وہ گاؤں میں بھی بہت مصروف رہتا ہے۔ ہم آج شاپنگ کے لئے لگے رہے ورنہ تمہاری اس سے ملاقات ہو جاتی ۔ ذیان خاموشی سے سر ہلائے جارہی تھی۔

ابیک ملک ارسلان کے ساتھ کورٹ سے واپس آچکا تھا۔ دونوں ایک ساتھ ایک ہی گاؤں میں گئے تھے۔

واپسی پہ ملک ارسلان نے اسے کھانے کے لئے روک لیا۔ کھانا تیار تھا صرف ٹیبل پہ لگانا تھا۔ نیناں نے ملک ارسلان کی واپسی کا سنتے ہی کھانا اپنی نگرانی میں لگوایا۔ وہ کھانے کی ڈشز اور ڈائننگ ہال کا جائزہ لے رہی تھی جب ملک ارسلان، ابیک کے ساتھ ڈائننگ ہال میں پہنچے۔ اب یہ اتفاق کی بات تھی کہ نیناں کا آج پہلی بار، ملک ابیک کے ساتھ سامنا ہوا تھا۔

حالانکہ اسے”ملک محل“ میں آئے کافی دن ہو چلے تھے۔ ایک اجنبی صورت ملک ارسلان کے گھر ابیک نے پہلی بار دیکھی تھی لہٰذا اس نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔ ”یہ نیناں ہے اور ہم…“ وہ نیناں کی موجودگی کے خیال سے بہت آہستہ آواز میں بات کر رہے تھے۔ ابیک نے کھوجتی نگاہوں سے نیناں کا جائزہ لیا تو اس نے ابیک کو سلام کیا۔ پڑھا لکھا مہذب لہجہ تھا کپڑے بھی اس نے طریقے سلیقے کے پہن رکھے تھے اس لئے اس نے نیناں کو غور سے دیکھا تھا۔

وہ اس کے دیکھنے سے اپنے آپ میں بے چینی سی محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اس کے بعد ابیک نے دوبارہ نیناں کی طرف نہیں دیکھا۔ بلکہ ارسلان کے ساتھ باتوں میں مگن ہوگیا۔ نیناں وہاں سے جاچکی تھی۔ ملک ارسلان اب کھل کر نیناں کے بارے میں بتا رہے تھے۔

”بس اس بے چاری کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ عتیرہ بہت نازک اور خدا ترس دل کی مالک ہے جھٹ سے اپنے ساتھ لے آئی۔

ہمیں اس کی موجودگی سے کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ہے۔ سارا دن حویلی میں لگی رہتی ہے۔ عتیرہ اس کے بارے میں تم سے بات کرنا چاہتی ہے۔ مجھے کہہ رہی تھی کہ ابیک سے کہوں گی انڈسٹریل ہوم اور سکول بنوانے کے بعد اسے بھی وہیں رکھ لو۔ پڑھی لکھی لڑکی ہے بہت کام آئے گی محنتی بھی ہے۔“ ملک ارسلان نے نیناں کے ہوٹل میں ٹکراؤ اور اس کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ گول کردیا تھا۔

پر ابیک کو رہ رہ کر ایک عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ نیناں کی پوری شخصیت سے کسی بھی قسم کی بے چارگی اور درماندگی کا اظہار نہیں ہو رہا تھا جس کا تذکرہ ابھی ابھی ارسلان چچا نے کیا تھا۔ اس نے چچا کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھا اس نے ان کی بات پورے غور سے سنی اور کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کیا۔

”تمہاری چچی تو شاپنگ کر کے ابھی تک نہیں لوٹی ہیں۔

“ارسلان کلائی میں پہنی گھڑی پہ ٹائم دیکھ رہے تھے۔ ”چچا میں رات کو آؤں گا۔“ ”ہاں تب میری بیٹی سے بھی مل لینا۔“ ملک ارسلان کے لہجے کا یہ رنگ بہت انوکھا سا تھا۔ وہ یک ٹک انہیں دیکھنے لگا۔ ”عتیرہ بہت خوش ہے۔ جب سے میں اسے بیاہ کر یہاں لایا ہوں تب سے وہ اتنی خوش کبھی نہیں ہوئی۔“ عتیرہ کا نام لیتے ہی ملک ارسلان کے لہجے میں محبت اتر آتی تھی۔

ابھی ابھی ابیک نے بھی یہ مظاہرہ دیکھا تھا۔ ملک ارسلان چچا اور عتیرہ چچی کی محبت کی کہانی سے وہ بہت اچھی طرح واقف تھا۔ دل سے وہ ان کی عزت کرتا تھا کیونکہ ابیک ان کی اعلیٰ ظرفی اور وسعت قلبی کا شاہد تھا۔ عتیرہ چچی کی بیٹی کا علم اسے کچھ برس پہلے ہوا تھا جب عتیرہ چچی پہ ڈیپریشن کا شدید حملہ ہواتھا توانہوں نے کمرے میں رکھی گئی ہر چیز توڑ دی تھی اور خود کو بھی زخمی کرلیا تھا تب ہاسپٹل میں ابیک نے ارسلان چچا کو طویل کوریڈور میں ٹہلتے اور اپنے آنسو چھپاتے دیکھا تھا۔

اس نے جرأت کر کے چچا سے پوچھا تھا۔ تب انہوں نے اسے سب بتا دیا کہ عتیرہ چچی کی اس شدید بگڑتی حالت کا سبب کیا ہے۔ ابیک کے بس میں ہوتا تو ان کی بیٹی کہیں سے لا کر ان کے سامنے کھڑی کردیتا۔ کیونکہ ارسلان چچا اور عتیرہ چچی اسے ماورائی اساطیری داستانوں کے کردار لگتے جو زندہ ہو کر ملک محل میں آگئے تھے۔

”چچا جان یہ تو اچھی بات ہے اللہ کرے چچی اب ایسے ہی خوش رہیں۔

“ ابیک نے دل کی گہرائی سے دعائیہ جملہ بولا تھا جس پہ ارسلان کا آمین کہنا بے ساختہ تھا۔

”تمہاری چچی کل سے اتنی خوش ہیں کہ مجھے بھی نظر انداز کر دیا ہے۔“ ملک ارسلان نے ہنستے ہوئے لطیف سا شکوہ کیا۔ ”چچی ایسی نہیں ہیں کہ آپ کو نظر انداز کریں۔“ اس نے پورے وثوق سے کہا۔

”ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو میں تو بس ایسے ہی آج ذرا اسے تنگ کرنے کا موڈ بنا رہا تھا۔“

ارسلان چچا کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ اس بار ابیک کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔

Episode 50 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 50 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان اور عتیرہ کافی لیٹ واپس آئیں۔ مغرب تو ہوہی چکی تھی۔ اس تاخیر کا سبب شہر سے گاؤں کا طویل فاصلہ تھا۔ پھر جیولر کے پاس انہیں کافی ٹائم لگ گیا تھا۔ عتیرہ نے ذیان کے لئے گولڈ کی اور دیگر جیولری خریدی تھی ڈائمنڈ کے ائیررنگز اور خوبصورت سی رنگ تو انہوں نے جیولر کی شاپ پہ ہی ذیان کو زبردستی پہنائی تھی۔

ذیان اس آنے جانے میں آج بہت تھک گئی تھی۔

اس کی تھکن دیکھتے ہوئے عتیرہ نے نوکرانی کو کوئی اشارہ کیا تو کچھ دیر بعد وہ ایک ٹب میں نیم گرم پانی لیے چلی آئی۔ پانی میں گلاب کے پھولوں کی پتیاں تیر رہی تھیں۔ عتیرہ کے حکم پہ یہ اس نے پانی والا ٹب صوفے پہ بیٹھی ذیان کے پاؤں کے پاس رکھ کر اس کے سوچنے سمجھنے سے بیشتر ہی اس کے پاؤں نرمی سے اٹھا کر ٹب میں ڈال دئیے۔

وہ احتجاج کرنا چاہتی تھی پر نہ جانے کیوں عتیرہ کا چہرہ دیکھ کر خاموش ہوگئی۔

 نوکرانی نمک ملے پانی سے اس کے پاؤں دھو رہی تھی پانی میں گلاب کی پتیوں اور نمک کے ساتھ نا جانے کیا کیا کچھ ڈالا گیا تھا۔ کیونکہ پانی میں سے بڑی اچھی خوشبو آرہی تھی۔ نوکرانی نے اس کے پاؤں دھوکر صاف کردئیے تھے۔ اب وہ تولیے سے اس کے پاؤں صاف کر رہی تھی جب نیناں کمرے میں شاپر اٹھائے داخل ہوئی پیچھے ملک ارسلان بھی تھے۔ ذیان آنکھیں کھولے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔

”آگئے آپ لوگ واپس اور میری بیٹی کیسی ہے لگتا ہے تھک گئی ہو۔“ وہ بیک وقت عتیرہ اور ذیان سے مخاطب ہوئے۔ ان کے منہ سے”میری بیٹی“ کا لفظ ذیان کو بہت عجیب سا لگا کیونکہ ابو نے بھی اسے میری بیٹی کہہ کر بلانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ تو اس کی پرواہ ہی نہیں کرتے تھے۔ ”جی بس تھوڑی سی تھکن ہے۔“ نظریں جھکا کر اس نے محتاط انداز میں جواب دیا۔ ”ذرا دکھائیے تو کیا کیا شاپنگ کی ہے آپ نے۔

“ اس بار بھی ان کا مخاطب سو فی صد ذیان ہی تھی۔ ناچار وہ نیناں کے لائے گئے شاپر اٹھا کر ان کے پاس بیٹھ کر خریدی گئی چیزیں دکھانے لگی۔ انہوں نے ایک ایک چیز شوق اور دلچسپی سے دیکھی اور تعریف کی۔ عتیرہ ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر نہال ہو رہی تھی۔ ملک ارسلان ذیان کو حد درجہٴ توجہ دے رہے تھے۔

نیناں اس رخ پہ کھڑی تھی کہ ذیان کا پورا چہرہ اور ہاتھ پاؤں اس کے سامنے تھے۔

وہ بڑی توجہ سے ارسلان کو مختلف چیزیں دکھانے میں مصروف تھی۔ برانڈڈ کپڑوں، جوتوں، پرفیومز، جیولری اور دیگر اشیاء کا ایک چھوٹا سا ڈھیر نیناں کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ ذیان کے گلابی آمیزش لیتے سفید بے داغ پاؤں اس کے دل کو عجیب بے عنوان سی پریشانی اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر رہے تھے۔ ”یہ سوٹ کل پہننا۔“ ملک ارسلان نے بلیک اور وائیٹ کانبینشن والا فراک نکال کر الگ سے رکھا۔

نیناں کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں مسلا۔

احمد سیال بھی تو اس سے ایسی ہی فرمائشیں کرتے تھے دونوں مل کر شاپنگ کرتے وہ رنم کو ہر چیز کے بارے میں اپنی رائے دیتے اور اپنی پسند سے اس کے لئے خریداری کرتے۔ اور جب ان دونوں کو مل کر کسی جگہ جانا ہوتا تو وہ خود اس کے لیے جانے والے کپڑے سلیکٹ کرتے۔

پورے دن میں پہلی مرتبہ ذیان کے ہونٹوں پہ بے ریا مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا جیسے کہہ رہی ہو ہاں میں کل یہی کپڑے پہنوں گی۔ رنم سے یہ منظر مزید برداشت نہیں ہو رہا تھا اس لئے وہاں سے ہٹ گئی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے ذیان کو دیکھ دیکھ کر وہ احساس کمتری کا شکار ہو رہی ہے۔

کھانا کھا کر ذیان اوپری منزل پہ اپنے بیڈ روم میں آگئی۔ لائیٹ جلا کر اس نے سب سے پہلے پردے سرکائے تو نگاہ دوسرے کمرے کی طرف اٹھ گئی۔

برآمدے کی سب لائیٹیں آن تھیں پر سامنے کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ سونے سے پہلے اس نے ٹھنڈے پانی سے شاور لیا تو طبیعت کی سب تھکن اور بوجھل پن دم توڑ گیا۔ تکیہ سرتلے رکھے وہ سونے کے لیے دراز ہوئی تو بہت جلد نیند کی وادیوں میں اتری۔

ابیک سونے کے لئے اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا۔ نیچے وہ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔

ملک جہانگیر نے پھر سے اس کی شادی کا موضوع چھیڑ رکھا تھا۔ اس بار جیسے اس نے اپنی مجبوری بتائی۔ ”بیٹا شادی اور دیگر کام سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔“ جہانگیر نے اس کی بات کو چنداں اہمیت نہ دی۔ بھلا ہوا افشاں بیگم کا جو انہوں نے ذیان کی آمد کا قصہ چھیڑ دیا تب کہیں جا کر ان کی توجہ ابیک کی شادی سے ہٹی۔ وہ خیر مناتا ان کے پاس سے اٹھ آیا۔

کمرے کی لائیٹیں آن تھیں۔

ملازم مغرب سے پہلے اس کے بیڈ روم اور اوپری حصے کی تمام بتیاں جلا دیتے تھے۔ اس نے شرٹ اتار کربیڈ پہ رکھی اور واش روم میں آگیا۔ نہانے کے بعد وہ نائیٹ شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس باہر آیا۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر گیلے بالوں میں حسب معمول برش پھیرا۔ ملک جہانگیر کی باتوں کو از سر نو سوچتے ہوئے اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اورباہر آگیا۔ جہاں دیوار کے ساتھ پھولوں کے گملے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے اور پاس ہی ایک کرسی پڑی تھی وہ اکثر یہاں آکر بیٹھتا تھا۔

وہ جیسے ہی کرسی پہ دراز ہوانگاہ اچانک ارسلان چچا کے گھر کی طرف اٹھی۔ اس کی نگاہوں کا مرکز اوپری منزل پہ واقع عین اس کے کمرے کے سامنے والا کمرہ تھا۔ اندر زیرو پاور کے بلب کے ساتھ بیڈ لیمپ بھی آن تھا۔ سب پردے سمٹے ہوئے تھے اس لئے منظر واضح تھا۔ سامنے بیڈ پہ اوندھے منہ ایک نسوانی وجود محو خواب تھا کیونکہ کھلے لمبے بال اس سوئے ہوئے وجود کے اردگرد بکھرے ہوئے تھے۔

اس کی معلومات کے مطابق اوپری حصہ خالی تھا خالی ان معنوں میں کہ سامان تو سب کمروں میں تھا پر کوئی رہتا نہیں تھا۔

عتیرہ چچی اور ارسلان چچا نیچے رہائش پذیر تھے۔ نوکروں کے لئے الگ رہائشی حصہ مخصوص تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ حویلی میں عتیرہ چچی کی بیٹی بھی تو آئی ہے۔ سو فی صد وہ یہی ہوگی۔ ملک ابیک نے اندازہ لگایا، اسے دوسری بار دیکھنا نامناسب محسوس ہوا اس لئے بیڈ روم میں آ کر لیٹ گیا۔

ذیان صبح خاصی دیر بعد بیدار ہوئی۔ ہلکا پھلکا ناشتہ کرنے کے بعد فارغ ہوئی تو نوکرانی مطلع کرنے آئی کہ آپ کے کپڑے استری ہوچکے ہیں آپ تبدیل کرلیں۔ یہی وہ سوٹ تھا جو ملک ارسلان نے الگ نکال کر رکھا تھا۔ ذیان تبدیل کر کے آئی تو وہی نوکرانی ہاتھوں میں موتیے کے گجرے لیے کھڑی تھی۔ ذیان کی دونوں کلائیوں میں اس نے گجرے پہنائے۔ ”چھوٹی بی بی آپ بہت سوہنی ہیں۔

“ اس نے ذیان کو بغور دیکھتے ہوئے تعریف کی تو وہ جھینپ سی گئی۔ نوکرانی نے اسے بڑی دلچسپی سے دیکھا۔

ذیان ٹی وی لاؤنج میں آئی تو عتیرہ بھی وہیں بیٹھی تھیں۔ انہوں نے اس کے لئے اپنے پاس جگہ بنائی تو وہ اُدھر ہی بیٹھ گئی۔ ٹی وی پہ مشہور زمانہ ایک ٹاک شو آن آئیر تھا۔ ذیان کی نظریں بظاہر ٹی وی سکرین پہ اور ذہن کسی اور شے کی طرف مرتکز تھا۔

عتیرہ ٹی وی دیکھنے کے ساتھ ساتھ اُس سے اِدھر اُدھر کی چھوٹی چھوٹی باتیں کر رہی تھیں جن کا جواب وہ سر ہلا کر بے دھیانی میں دے رہی تھی جب ملک ابیک کمرے میں داخل ہوا۔ ملک ابیک خوشبوؤں میں بسا نک سک سا رہتا۔ اسے دیکھ کر جیسے زندگی اور تازگی اور احساس فضا پہ حاوی ہو رہا تھا۔ ”السلام علیکم“ اس کی آواز سے گرمجوشی اور اپنائیت جھلک رہی تھی۔

ذیان نے سلام کا جواب بہت مدھم آواز میں دیا۔ وہ فوراً پہچان گئی تھی رات اپنے سامنے والے کمرے میں اس نے جس نوجوان کو دیکھا تھا وہ یہی تھا۔ ”کب آئے ہو بیٹا تم اور سب ٹھیک ہے ناں؟“ عتیرہ نے کھڑے ہو کر جس محبت سے اس کا ماتھا چوم کر حال احوال دریافت کیا تھا وہ ذیان کو ابیک کی اہمیت بتانے کے لئے کافی تھا۔

”چچی جان میں کل شام کو آپ کی طرف آیا تھا سوچا مہمانوں سے بھی ملاقات ہوجائے مگر آ پ لوگ نہیں ملے میں نے سوچا ابھی جا کر خیریت معلوم کر آؤں۔

“ اس کا اشارہ ذیان کی طرف تھا۔ بات کرتے کرتے ملک ابیک نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔ ذیان کے چہرے کے تاثرات میں کسی بھی قسم کی گرمجوشی اور مروت نہیں تھی۔ ”ابیک یہ میری بیٹی ذیان ہے اور ذیان پہ افشاں بھابھی اور جہانگیر بھائی کا بڑا بیٹا ابیک ہے۔ وہی جہانگیر بھائی جن کے گھر جانے کا میں نے تمہیں بولا تھا۔“ عتیرہ نے تعارف کروایا۔ ذیان عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ ابیک نے میزبانی کے اصول نبھاہتے ہوئے خود سے بات کا آغاز کیا۔ ”ذیان آپ کی کیا مصروفیات ہیں آج کل کیا کر رہی ہیں؟“ اس نے جھٹ سے جواب دیا۔ ”میں کچھ نہیں کرتی۔“ عتیرہ شرمندہ سی ہوگئیں۔ ذیان کا انداز لٹھ مارنے والا تھا۔

Episode 51 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 51 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

جیسے بول کر احسان کر رہی ہو۔ ”ابیک، ذیان نے حال ہی میں گریجویشن کیا ہے۔“ عتیرہ نے اس کے روئیے کی تلخی کو زائل کرنے کے لئے خود جواب دیا۔ ”آپ نے کن سبجیکٹ کے ساتھ گریجویشن کیا ہے ذیان؟“ ابیک کی طرف سے اگلا سوال آیا۔ ”میں نے ماس کیمونیکشن میں گریجویشن کیا ہے۔“ ”آگے کیا ارادے ہیں آپ کے؟“ ابیک نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔ ”کچھ خاص نہیں۔

“ وہ پہلے کی طرح سرد لہجہ میں بولی تو عتیرہ کو بے انتہا شرمندگی ہوئی۔ ”میں ذرا فریدہ کو دیکھ آؤں تمہیں اچھی سی چائے پلواتی ہوں۔“ ذیان کے روئیے کی شرمندگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی شرمندگی کے تاثر کو زائل کرنے کے لئے عتیرہ دانستہ طور پہ وہاں سے ہٹنا چاہ رہی تھیں۔ ”چچی میں آج دیر سے اٹھا ہوں ابھی کچھ دیر پہلے ناشتہ کیا ہے۔

فی الحال گنجائش نہیں ہے۔

“ ابیک نے سلیقے سے انکار کیا۔ ”اچھا میں جوس کا بول کر آتی ہوں ذیان، نے ناشتے میں صرف انڈہ اور ٹوسٹ کھایا ہے۔ اسی بہانے یہ بھی پی لے گی۔“ عتیرہ نے اس کی اگلی بات سنے بغیر قدم آگے بڑھا دئیے۔

ذیان نے عتیرہ کے جاتے ہی ریموٹ کنٹرول سے چینل تبدیل کردیا۔ اب صرف ٹی وی کی آواز تھی ابیک اور ذیان دونوں خاموش تھے۔ ابیک نے ایک نظر خاموشی سے بیٹھی ذیان کی طرف دیکھا۔

بلیک فراک اور ٹراؤزر میں ملبوس دوپٹہ سر پہ لیے ابیک سے بے نیاز تھی۔ ابیک کے مونچھوں تلے دبے عنابی ہونٹوں پہ عجیب بیساختہ سی مسکراہٹ در آئی تھی۔ ذیان مار دھاڑ سے بھرپور ایکشن تھرلر فلم دیکھنے میں پوری طرح مگن تھی۔ جیسے اس کے سوا اور کوئی ذی نفس موجود ہی نہ ہو۔ ابیک کی موجودگی کا اس نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا تھا۔

نیناں، فریدہ کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں داخل ہوئی۔

فریدہ اور نیناں کے ہاتھ میں دو ٹرے تھی۔ جن میں جوس سمیت کھانے پینے کے مختلف لوازمات تھے ان کے پیچھے ہی عتیرہ تھی۔ کھانے پینے کی سب اشیاء ٹیبل پہ سج گئی تھیں۔ ”نیناں آپ کیسی ہیں؟“ وہ گلاس میں جوس ڈال رہی تھی۔ ذیان نے حیرت بھری نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا وہ عام سی نوکرانی سے کتنے طریقے اور سبھاؤ سے بات کر رہا تھا۔ نیناں کے ساتھ اس نے فریدہ سے بھی حال احوال پوچھا۔

نیناں نے بہت ادب سے جوس کا گلاس ایک ابیک کے سامنے ٹیبل پہ رکھا۔ دوسرا گلاس اس نے ذیان کے سامنے رکھا۔ وہ کسی مغرور شہزادی کی طرح ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی تھی جیسے ساری دنیا اس کے قدموں تلے ہو۔ رنم کو جانے کیوں پھر اس پہ شدید غصہ آیا۔ ہر بار ذیان سے آمنا سامنا ہونے پہ اسے محسوس ہوتا جیسے اس نے رنم کی جگہ پہ قبضہ کرلیا ہو۔ ملک ارسلان، عتیرہ بیگم سے لے کر نوکرانیاں تک اس نک چڑھی ذیان کو اپنی پلکوں پہ بٹھا رہے تھے جیسے اسے اہمیت دے رہے تھے۔

ذیان کو اس قدر اہمیت دینا اسے کھل رہا تھا۔

”ابیک، نیناں پڑھی لکھی اور قابل لڑکی ہے۔ سارا دن حویل میں چھوٹے موٹے کاموں میں لگی رہتی ہے۔ میں چاہتی ہوں جب تم انڈسٹریل ہوم بنالو تو اس کو بھی وہاں رکھ لو۔ وہاں کے سب معاملات کو سنبھال لے گی۔“ عتیرہ نے ابیک کی توجہ نیناں کے مسئلے کی طرف دلائی۔ ”چچی میں اب گاؤں میں ہی ہوں۔ انڈسٹریل ہوم کی عمارت تکمیل کے مراحل میں ہے مزدوروں اور مستریوں نے جلدی بنانے کے لئے دن رات ایک کر رکھا ہے۔

ابھی تھوڑا ٹائم باقی ہے جب سلائی مشینیں اور دیگر سامان آجائے گا تو میں آپ کو بتاؤں گا اور نیناں کے لئے بھی جگہ دیکھوں گا۔“ اس نے عتیرہ چچی کو امید دلائی۔ وہ نیناں کے مسئلے کی طرف متوجہ تھا اسے خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ”ہاں اسے جو بھی کام دو گے کرلے گی۔“ عتیرہ نے اس کی تعریف کی”چچی جان آپ کا حکم سر آنکھوں پہ۔“ وہ مسکرایا۔ ذیان ایک بار پھر حیران ہو رہی تھی۔

عتیرہ اور ابیک ایک عام سی نوکرانی کے لئے کتنافکر مند تھے۔

ابیک نے اپنی طرف رکھا جوس کا گلاس اٹھایا۔ عتیرہ چچی کی مغرور بیٹی ایکشن فلم میں بری طرح ڈوبی ہوئی تھی۔ ابیک کو مزید یہاں بیٹھنا عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ واپسی کے لئے اٹھا۔ ذیان نے اسے جاتے ہوئے پیچھے سے دیکھا۔ 

 اس نے مہین شیفون کا جالی لگے بازوؤں والا کالا فراک اور ساتھ چوڑی دار پائجامہ زیب تن کر رکھا تھا۔

لمبے بال ربڑ بینڈ جکڑے پیچھے کمر پہ پڑے تھے۔ مہین شیفون کا دوپٹہ بہت سلیقے سے سر پہ جما تھا۔ ایک کلائی میں پرل کا نازک سا برسلیٹ تھا۔

افشاں بیگم بہت پیار سے اسے گلے لگا کر ملی تھیں۔ پھر وہ اسے ملک جہانگیر کے پاس ان کے کمرے میں لائیں۔ وہ بیڈ پہ نیم دراز تھے۔ طبیعت کی خرابی کیوجہ سے ڈاکٹرز نے انہیں بیڈ ریسٹ کا مشورہ دیا تھا۔ انہیں دیکھتے ہوئے ذیان کو امیر علی یاد آگئے۔

ملک جہانگیر اور امیر علی میں اسے مشابہت محسوس ہو رہی تھی زندگی کے آخری دو برسوں میں وہ بھی تو ملک جہانگیر کی طرح بیڈ کے ہوکے رہ گئے تھے۔ اس نے دل میں ہمدردی کی لہر اٹھتے محسوس کی۔ افشاں بیگم نے ذیان کا تعارف کروایا۔ ان کی نظر آپریشن کے بعد کافی کمزور اور دھندلائی ہوئی تھی مگر پھر بھی ذیان انہیں دیکھنے میں بہت اچھی لگی۔ انہوں نے پاس بلا کر اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔

ان کے اس عمل سے ذیان کو ایک بار پھر امیر علی یاد آگئے۔ انہوں نے ذیان کو بیڈ کے پاس رکھی گئی کرسی پہ اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ شروع میں تو وہ گم صم رہی پھر آہستہ آستہ ان کے ساتھ باتیں کرنے لگی۔ اس عمل سے عتیرہ خوف محسوس کر رہی تھیں۔ وہ افشاں بیگم کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔ بیچ بیچ میں وہ دونوں ذیان کو بھی مخاطب کرتی جس کی توجہ ملک جہانگیر کی طرف تھی۔

افشاں بیگم جب بھی ذیان کی طرف دیکھتی ان کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آجاتی۔ ابیک کو ان کی آمد کی اطلاع ملی تو وہ بھی وہیں آگیا۔ اس نے سب کو سلام کیا اور پھر بیٹھنے کے لئے جگہ تلاش کی۔ ذیان کے ساتھ والی ایک اور کرسی خالی پڑی تھی۔ وہ اسی پہ بیٹھ گیا۔ وہاں بیٹھنے میں اس کی کسی خاص سوچ یا نیت کا دخل نہیں تھا۔

وہ قیمتی مردانہ پرفیوم استعمال کرنے کا عادی معلوم ہوتا تھا۔

کیونکہ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی پسندیدہ مہک نے ذیان کی حس شامہ کو متوجہ کرلیا۔ وہ اب اس کے پاس ہی تو بیٹھا تھا۔ بابا جان کے ساتھ بات کرتے ہوئے ملک ابیک نے نگاہ ذیان پہ ڈالی آج اس نے کالے رنگ کی فراک زیب تن کی ہوئی تھی نازک سے پاؤں بھی کالی سینڈل میں مقید تھے۔ وہ خواہ مخواہ ہی توجہ اپنی طرف مبذول کروا رہی تھی۔ چہرے پہ خفگی والے تاثرات آج کچھ کم تھے۔

ابیک کو جانے کیوں ہنسی آگئی۔ اس کی موہوم سی مسکراہٹ افشاں بیگم کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ پائی۔ ان دونوں کو اکٹھے بیٹھے دیکھ کر ان کے دل میں خود ہی ایک خیال الہام بن کر اترا۔ دونوں ایسے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ وہ ملک جہانگیر کی کسی بات کا جواب دیتے ہوئے دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی اور ابیک عتیرہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ دونوں اپنی جگہ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک مکمل منظر کا حصہ لگ رہے تھے۔ ”اور اگر یہ دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہیں تو اور بھی اچھے لگیں۔“ 

Episode 52 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 52 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک ارسلان دو دن سے یونیورسٹی نہیں آرہا تھا۔ عتیرہ ان دِنوں میں بولائی بولائی پھرتی رہی۔ ”پوری دنیا اسے ویران اور اداس نظر آرہی تھی۔ پہلے تو اس کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ ارسلان دو دن کے بعد یونیورسٹی آیا تو وہ اس سے لڑ جھگڑ کر ناراض ہوگئی حالانکہ وہ صفائی دیتا رہا پھر بھی وہ نہ جانے کیوں ناراض ہوگئی تھی۔ ارسلان نے دو دن چھٹی کی تھی اس نے پورے ایک ہفتے کی چھٹی کی۔

عتیرہ کو پورے ہفتے شدید بخار رہا۔ جب وہ دوبارہ یونیورسٹی گئی تب بھی بخار سے ہونے والی کمزوری باقی تھی۔ ارسلان کو اس کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ بے تابی سے ڈھونڈتا ہوا لائبریری میں آیا۔ سامنے وہ کتاب رکھے پڑھنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ ارسلان اس کے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تو عتیرہ نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اسے جھٹکا سا لگا کیونکہ ارسلان کی حالت سے لگ رہا تھا وہ بہت پریشان ہے۔

ارسلان نے اسے اٹھنے کا اشارہ کیا وہ کشاں کشاں اس کے پیچھے چلی آئی۔ پارکنگ ایریا سے ارسلان نے اپنی نئی ٹویوٹا کرولا نکالی اور اگلا دروازہ کھولا۔ عتیرہ کوئی سوال کیے بغیر بیٹھ گئی۔ اس نے نہیں پوچھا کہ تم مجھے کہاں لے جارہے ہو نہ ارسلان نے بتایا۔

چند منٹ بعد ارسلان کے ساتھ وہ ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھی تھی۔ اس طرح وہ پہلی بار اس کیساتھ گھرسے اکیلی یونیورسٹی سے باہر آئی تھی۔

”عتیرہ میں پچھلے پورے ہفتے سے بہت پریشان ہوں۔ دیکھ لو میں نے شیو تک نہیں کی۔“ ثبوت کے طور پہ ارسلان نے اپنی داڑھی کی طرف اشارہ کیا۔ ”تم کیوں پریشان رہے؟“ ”عتیرہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے۔“ ارسلان نے اچانک روانی سے یہ جملہ بولا تو اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے وہ جیسے گم صم سی ہوگئی جیسے کسی نے جادو سے پتھر کردیا ہو۔ ”تمہیں بری لگی ہے میری بات؟“ کافی دیر وہ خاموش رہی تو ارسلان نے بے تابی سے پوچھا۔

”مجھے پتہ تھا تمہیں یہ بات بری لگے گی۔ لیکن میں اپنے دل سے پورا ہفتہ لڑتا رہا ہوں نہیں رہ پایا تو تم سے آج کہہ دیا۔“ وہ اس کی مسلسل خاموشی سے دل گرفتہ ہو رہا تھا۔ ”مجھے تمہاری بات بری نہیں لگی۔“ بالا آخر عتیرہ نے خاموشی کے پردے کو چاک کیا۔ ”تو پھر اچھی لگی ہے؟“ وہ فرط شوق سے اس کی آنکھوں میں جھانک کر جیسے اپنے سوال کا جواب ڈھونڈ رہا تھا۔

عتیرہ نے نظر چرالی۔ ملک ارسلان کو اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔

                             

عتیرہ، ملک ارسلان کے بازو پہ سر رکھے لیٹی اداس تھی۔ وہ انہیں مسلسل تسلیاں دے رہے تھے۔ ”دیکھو تمہارے اور ذیان کے درمیان چند برسوں کا فاصلہ نہیں ہے بلکہ یہ فاصلہ صدیوں کا ہے۔ ہمیں ان وجوہات کا سراغ لگانا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل میں دوری آئی ہے۔

اس کے شکوے، شکایت اس کا نامناسب سرد رویہ اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ لیکن وہ تمہاری مجبوری کو اس وقت نہیں سمجھ سکتی کیونکہ وہ بچپن سے جو دیکھتی سنتی آئی ہے وہ سب عجیب ہوگا، آخر وہ بھی تو انسان ہے۔“ ”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ سے ڈسکس کر کے میرا دل و دماغ پرسکون ہوگئے ہیں۔“ وہ مسکرا دئیے۔ ”چلو اب سب پریشانیاں ذہن سے جھٹک کر سو جاؤ۔“ انہوں نے عتیرہ کا سر نرمی سے تکیے پہ رکھ کر چادر ان پہ ڈالی۔

ملک ارسلان اس کے ساتھ باتیں کرتے کرتے کب کے سو چکے تھے۔ عتیرہ کو نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ ماضی کا سفر کرتے کرتے بہت پیچھے چلی گئی تھیں۔ اس وقت وہ صرف عتیرہ قاسم تھی۔ الھڑ، کم سن اور زندگی سے بھرپور عتیرہ قاسم۔ جس پہ ملک ارسلان بری طرح دل ہار بیٹھا تھا۔

عتیرہ کتابیں سر سبز گھاس پہ رکھے ملک ارسلان کی باتیں غور سے سن رہی تھی۔ 

”تمہارے ابو سے بہت جلد اب ملنا پڑے گا۔

”ارسلان نے شرارت سے اسے دیکھا۔ ”کیوں؟ میرے ابو سے کیا کام ہے؟“ اس نے موٹی موٹی آنکھیں پوری کھول کر اس کی طرف دیکھا تو وہ جیسے ان نگاہوں میں ڈوبنے لگا۔ پتہ نہیں اسے کب، کیسے کس وقت اور کہاں عتیرہ سے محبت ہوئی تھی لیکن اسے یہ خبر تھی وہ عتیرہ کے بغیر جی نہیں سکتا۔ اسے شرعی طور پہ ہمیشہ کے لئے اپنا بنانے اور اس کے جملہ حقوق کو محفوظ کرنے کے لئے وہ ملک افتخار سے بات کرنے کی سوچ رہا تھا۔

اسے پوری امید تھی معاشرتی تفاوت کے باوجود بھی ملک افتخار مان جائیں گے کیونکہ وہ بہت اچھی تھی خاندانی تھی اس کے ابو خود دار اور عزت نفس کی دولت سے مالا مال تھے۔اس نے ملک افتخار کو راضی کرلینا تھا ورنہ ملک جہانگیر سے سفارش کروانی تھی۔

شام ڈھل رہی تھی۔ ذیان سو کر اٹھنے کے بعد عجیب سی کسل مندی محسوس کر رہی تھی۔ موسم گرد آلود اور حبس سا تھا۔

وہ ٹھنڈے پانی سے جی بھر کے نہائی تو سستی قدرے کم ہوگئی۔ وہ کپڑے بدل کر نیچے آئی تو عتیرہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیں۔ نیناں دوسری نوکرانیوں کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ ذیان ایک ثانیے کے لئے اس کے پاس رکی۔ ’مما کہاں ہیں؟“ اس نے استفسار کیا۔ ”وہ اپنے کمرے میں ہیں۔ شاید سو رہی ہیں۔“ اس کے بجائے فریدہ نے جواب دیا تو ذیان نے غائب، دماغی سے سر ہلایا۔

نیناں نے ایک نظراس کے دھلے نکھرے گلابی چہرے کو دیکھا۔ جس کے گرد کھلے گیلے بالوں کا ہالہ تھا۔ سفید مومی راج ہنس جیسے پاؤں کالے رنگ کی نازک سی جوتی میں مقید تھے آج۔ ناپسندیدگی کا تیز و تند ریلا نیناں یعنی رنم کو شرابور کرگیا۔ کیونکہ سب نوکرانیوں کی نگاہوں میں رشک و ستائش کی نمایاں جھلک اس نے محسوس کی تھی۔ ”میں جہانگیر انکل کی طرف جارہی ہوں۔

مما سو کر اٹھیں تو بتا دینا۔“ ذیان نے انہیں مطلع کیا۔

”چھوٹی بی بی کتنی سوہنی ہیں۔“ اس کے جانے کے بعد ایک نوکرانی نے تبصرہ کیا۔ ”خوب صورت تو ہیں ساتھ مغرور بھی ہیں۔“ دوسری نے گرہ لگائی تو فریدہ بھی پیچھے نہیں رہی ”جو بھی ہے مجھے تو چھوٹی بی بی بہت اچھی لگتی ہیں۔ نہ غصہ کرتی ہیں نہ کچھ کہتی ہیں نہ کسی کام کا بولتی ہیں۔“ پہلی والی بولی۔

”ہاں ہیں تو بہت اچھی۔ کتنی چپ چپ رہتی ہیں۔“ دوسری نے بھی فوراً تائید کی۔ ”مجھے تو نہیں اچھی لگتیں۔“ رنم نے دلی تاثرات کے اظہار میں کسی بخل سے کام نہ لیا۔ تینوں اسے عجیب سی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ گڑبڑا گئی۔ ”میرا مطلب ہے مجھے ذیان بی بی کا غرور اچھا نہیں لگتا۔“ اس نے عقل سے کام لیا تھا۔ اگر عتیرہ بیگم سے کوئی شکایت کردیتا تو انہیں بہت برا لگنا تھا۔

ذیان اوپر ستونوں والے برآمدے کے پاس کھڑی تھی۔ جس کے گرد آتشی گلابی پھولوں والی نازک سی بیل لپٹی ہوئی تھی۔ وہ اس طرح اکیلی پہلی بار آئی تھی اس سے پہلے ایک بار عتیرہ کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ اب جہانگیر انکل سے ملنے آئی تھی تو خود سے اندر کا رخ کرتے ہوئے جھجھک سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ حویلی کا جائزہ لینے میں مگن تھی جب ایک نوکرانی کی نگاہ اس پہ پڑی وہ بھاگ کر اس کی طرف آئی۔

”بی بی جی آپ ادھر کیوں رک گئی ہیں آپ آئیں اندر میرے ساتھ۔“ وہ اس کے یہاں کھڑے ہونے پہ جیسے حیران ہوگئی تھی۔ ذیان نے رکے بغیر قدم آگے بڑھائے، نوکرانی اسے ملک جہانگیر کے پاس چھوڑ گئی۔ وہ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھے۔ سفید چادر ان کے سینے تک پڑی تھی۔ اے سی فل کولنگ کے ساتھ چلنے کی وجہ سے کمرے میں اچھی خاصی خنکی تھی۔

اس سمے وہ اسے بالکل امیر علی کی مانند محسوس ہوئے۔

انہی کی طرح لاچار اور بے بس یہ صرف اس کی سوچ تھی ورنہ وہ لاچار اور بے بس نہیں تھے یہ تو بیماری نے انہیں کمزور کردیا تھا۔

ذیان نے اپنے دل میں جھانکا اسے بہت حیرت ہوئی کیونکہ جہانگیر انکل کے لئے اس کے دل میں کسی بھی قسم کی تعریف نہیں تھی بلکہ اس کا دل ان کی طرف کھینچتا، تب ہی تو اس وقت وہ یہاں تھی۔

”انکل آپ سو رہے ہیں؟“ اس نے ان کے پاس جا کر آہستہ آواز میں یہ جملہ کہا تو انہوں نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔

“ نہیں میں سو تو نہیں رہا بس آنکھوں میں تھوڑی تکلیف تھی سو ایسے ہی بند کر کے پڑا ہوا ہوں۔“ انہوں نے تفصیل بتائی۔

باتیں کرتے کرتے اچانک ان کی حالت بگڑ گئی۔ سینے سے خرخراہٹ سی ملتی جلتی آوازیں آئیں۔ انہوں نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھاا ور ان کا سرتکیے پہ ڈھلک گیا۔

”انکل انکل کیا ہوا ہے؟“ اس نے ہذیانی انداز میں سینے پہ رکھا گیا ان کا ہاتھ ہٹایا انہیں جھنجھوڑا۔

ان کا سانس جیسے سینے میں اٹک گیا تھا۔ ”میں کسی کو بلا کر لاتی ہوں۔“ ذیان نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑتے ہوئے تسلی دی۔ وہ جانا چاہ رہی تھی پر انہوں نے کمزور گرفت سے اسے روکنے کی کوشش کی اور کسی چیز کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی جانے وہ کس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ انہوں نے اس کی بے چارگی اور پریشانی دیکھتے ہوئے ایک بار پھر اشارہ کیا۔ اس بار وہ سمجھ گئی۔ ان کا اشارہ سائیڈ ٹیبل پہ پڑے انہیلر کی طرف تھا۔ ملک جہانگیر کو دمہ بھی تھا کافی عرصے سے انہیں یہ مرض چلا آرہا تھا سردیوں میں تو ان کی حالت قابل رحم ہوتی۔ صرف اس سال سردیوں کے موسم میں وہ دوبارہ ہاسپٹل ایمر جنسی میں رہ کر آئے تھے۔

Episode 53 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 53 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ذیان نے بھاگ کر پھرتی سے انہیلر اٹھایا اور ان کی ناک سے لگایا۔

اتنے میں افشاں بیگم اور ملک ابیک کمرے میں داخل ہوئے۔ افشاں بیگم نماز پڑھ رہی تھیں نماز ختم کرنے کے بعد نوکرانی نے انہیں ذیان کی آمد کی اطلاع دی۔ وہ اسی کی طرف جارہی تھیں جب ملک ابیک سے سامنا ہوا۔ انہوں نے بیٹے کو بھی ذیان کی آمد کا بتایا۔ ان کی خوشی دیکھنے والی تھی۔

ابیک کو خوشگوار سی حیرت ہوئی۔

ذیان انہیلر ناک سے لگائے ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ملک ابیک پریشانی سے ملک جہانگیر کی طرف بڑھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ بابا جان کو دمہ کا اٹیک ہوا ہے۔ اگلے پندرہ منٹ میں ذیان کے ساتھ ساتھ اس کی بھی بھرپور کوشش سے ملک جہانگیر کی حالت سنبھل چکی تھی۔ اب وہ پرسکون تھے۔ انہیں دمہ کا اٹیک ہوا تھا۔

ابیک نے فارغ ہو کر سب سے پہلے اے سی بند کیا۔

”بیٹی کیسی ہو تم کب آئی۔ میں نماز پڑھ رہی تھی نوکرانی نے مجھے بتایا کہ تم آئی ہو تو نماز پڑھ کر فوراً ادھر آئی ہوں۔ تم بھی کہتی ہوگی کہ آتے ہی پریشانی سے واسطہ پڑ گیا۔“

ان کا اشارہ ملک جہانگیر کی اچانک بگڑ جانے والی طبیعت کی طرف تھا۔ انہوں نے قریب آ کر ذیان کا ماتھا چوما۔ ”ادھر یہاں میرے پاس بیٹھو۔

“ افشاں بیگم نے اپنے پاس اس کے لئے جگہ بنائی۔ وہ مڑی تو کمر پہ گرے بالوں کے آبشار نے خاص ردہم میں ہلکورے لئے۔ ”نہیں آنٹی اس میں پریشانی کیسی۔ بلکہ میں گھبرا گئی تھی۔ آپ کو بلانے کے لئے جانے ہی والی تھی کہ آپ لوگ خود ہی آگئے۔“ اس نے مدہم آواز میں وضاحت دی۔ ابیک نے اس کی طرف دیکھا پر ادھر نو لفٹ کا بورڈ آویزاں تھا۔ حالانکہ اس نے ذیان کو بڑی گرمجوشی سے سلام کر کے حال احوال دریافت کیا تھا۔

نوکرانی نے کمرے میں داخل ہو کر آہستہ آواز میں افشاں بیگم سے کچھ کہا۔ ذیان اس طرف متوجہ نہیں تھی اس لئے سن نہیں پائی۔ ”آؤ ذیان بیٹی ڈرائنگ روم میں چلتے ہیں یہاں ملک صاحب آرام کر رہے ہیں۔“ تو یہاں اِدھر ان کے پاس کون ہوگا؟“ اس نے فوراً سوال کیا۔

”اصل میں انکل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے پوچھا ہے۔ ”افشاں بیگم کی نگاہیں خود پہ مرکوز دیکھ کر اس نے وضاحت کی۔

“ یہاں ابیک ہے ناں تم فکر مت کرو۔“ انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ سمیت اپنائیت بھری نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا۔ ذیان نے ان کی معیت میں قدم آگے بڑھا دئیے۔

ڈرائنگ روم میں بڑی ٹیبل اشیاء، خوردو نوش سے پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ افشاں بیگم نے اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی اس کے لئے بڑی پلیٹ خوب بھر دی۔ ”تم نے اس دن بھی کچھ نہیں کھایا تھا پر آج تمہیں کھانا کھائے بغیر جانے نہیں دوں گی۔

“ انہوں نے اسے اپنے ارادوں سے خبردار کیا۔ آنٹی میں نے ابھی اتنا کچھ کھا لیا ہے۔ رات کے کھانے کی تو ذرا بھی گنجائش نہیں ہے۔“ ”کہاں تم نے اتنا کچھ کھایا ہے چکھا ہی تو ہے۔ تم کھاؤ پیئو میں باورچی خانے سے ہو کر آتی ہوں۔“ ذیان کے لاکھ انکار کے باوجود انہوں نے اس کی ایک نہ مانی۔ اب باورچی خانے میں ذیان کے لئے خاص طور پہ اہتمام ہو رہا تھا۔

وہ دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہی تھی کہ فضول میں ادھر آگئی ہے کیونکہ افشاں بیگم نے پیار بھرے اصرار کے ذریعے اسے پہلے ہی بہت کچھ کھلا دیا تھا۔ رات کے کھانے کے لئے وہ جگہ کہاں سے لاتی۔ افشاں بیگم اس کے پاس پھر سے آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ انہوں نے اسے اپنی فیملی فوٹو البم دکھائی جس میں ان کی شادی کی لاتعداد تصاویر تھی۔ انہوں نے اسے معاذ کی فوٹوز خاص طور پہ دکھائی۔

تصویروں میں ہنستا مسکراتا معاذ بہت اٹکریکٹو لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ابیک کے بچپن اور جوانی کے بھی بہت سے فوٹو گرافس تھے جو اس نے عدم دلچسپی کے ساتھ صرف اور صرف افشاں بیگم کا دل رکھنے کے لئے دیکھے۔ وہ اسے ان فوٹوؤں کے ساتھ جڑی تاریخ بھی بتا رہی تھیں۔ بہت دیر بعد انہوں نے بھاری بھرکم فوٹو البم واپس رکھی۔

”آنٹی میں ذرا انکل کو ایک نظر دیکھ آؤں؟“ اس نے سوالیہ نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا۔

افشاں بیگم کو ملک جہانگیر کے لئے اس کی پریشانی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ”ہاں ہاں ضرور جاؤ میں بھی آرہی ہوں۔“ انہوں نے بخوشی رضا مندی کا اظہار کیا۔

انکل جہانگیر اب پہلے سے کافی بہتر حالت میں تھے اور ابیک کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔

”ادھر میرے پاس آ کر بیٹھ پتر۔“ ذیان بیڈ کے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھنے والی تھی جب ملک جہانگیر نے بیڈ پہ اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

ان کی زبان سے”پتر“ کا لفظ ادا ہونے کے بعد ذیان کو بہت اچھا لگا تھا۔ وہ ان کے حکم کے تعمیل میں ان کے پاس بیٹھ گئی۔ ملک جہانگیر نے اپنے کمزور ہاتھوں سے ذیان کا مومی سفید ہاتھ تھاما۔

”اس بچی نے آج میری بڑی مدد کی ہے ذرا سی دیر ہوجاتی تو میرا سانس ہمیشہ کے لئے رک جانا تھا۔“ ملک جہانگیر کا مخاطب ملک ابیک تھا۔ وہ ایک سانس بولنے کے بعد لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔

افشاں بیگم بھی آچکی تھیں۔ ”بہت خدمت گزار اور پیاری بچی ہے یہ۔“

انہوں نے پیار بھری نگاہ اس پہ ڈالی تو وہ شرمندہ ہوگئی۔ کیونکہ کمرے میں موجود تینوں نفوس کی توجہ اس کی طرف تھی۔” نہیں انکل ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے آپ کی چھوٹی سی ہیلپ کی ہے کیونکہ آپ کی طبیعت بہت خراب ہو رہی تھی ناں۔“

وہ اس توجہ سے گھبرا رہی تھی۔ افشاں بیگم اور ابیک اس کی گھبراہٹ کو محسوس کر رہے تھے۔

پھر افشاں بیگم نے ہی اسے گھبراہٹ اور نروس پن کے حصار سے باہر نکالا۔ وہ ذیان کو خصوصی طور پہ بہت زیادہ توجہ دے رہی تھیں۔ کچھ محسوس کر کے اور سوچ کر ابیک کے لب گھنی مونچھوں تلے مسکرا اٹھے۔

                                         

افشاں بیگم نے رات کے کھانے پہ ملک ارسلان اور عتیرہ کو بھی اپنی طرف بلوا لیا تھا۔ ان دونوں کے آنے پہ ذیان کی گھبراہٹ قدرے کم ہوگئی۔

ان سب کو باتوں میں مصروف چھوڑ کر ذیان باہر آگئی۔ اندر کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر وہ بور ہوگئی تھی۔ پھر افشاں بیگم کی حد درجہ توجہ اور محبت بھی اسے پریشانی کے ساتھ ساتھ شرمندگی و جھنجھلاہٹ سے دوچار کر رہی تھی۔ اس نے منظر سے ہٹ کر سکون محسوس کیا۔

                                         

ملک افتخار نے ارسلان کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر بیرون ملک بجھوانے کا فیصلہ کیا تھا۔

ارسلان نے بجھے دل کے ساتھ عتیرہ کو یہ خبر سنائی۔ کتنی دیر تو وہ اسے بے یقینی کے عالم میں تکتی رہی۔ ”تم جھوٹ بول رہے ہو ناں؟“ کاش کہ یہ جھوٹ ہی ہوتا“ لیکن حقیقت یہی ہے کہ بہت جلد پاکستان سے جارہا ہوں۔“

ارسلان کے لہجے میں گہری اداسی کی آمیزش تھی۔ ”لیکن تم تو اپنے بابا جان اور بھائی کو رشتہ مانگنے کے لئے ہمارے گھر بھیجنے والے تھے۔

“ عتیرہ نے شاکی نگاہوں سے تکتے ہوئے اسے یاد دلایا۔ ”بابا جان ضرور آئیں گے تمہارے گھر میرا رشتہ لے کر۔ لیکن جب میں پڑھ کے ڈگری لے کے آؤں گا تب۔“ ارسلان نے اسے دلاسہ دیا۔ ”میری تعلیم مکمل ہونے والی ہے۔ ابو جان کو میری شادی کی بہت زیادہ فکر ہے۔“ عتیرہ نے مجبوری بتائی۔” تم کہتی ہوتو میں جانے سے پہلے ان سے بات کرلوں۔“ ارسلان نے اس کی اداسی بھری آنکھوں میں جھانکا۔

” نہیں رہنے دو۔“ یہ مناسب نہیں ہوگا کہ تم خود ان سے بات کرو۔“ ”تو پھر تمہیں میری واپسی تک انتظار کرنا ہوگا۔“ وہ مضبوط لہجے میں بولا۔ ”میں انتظار کرلوں گی۔“ وہ آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے زبردستی مسکرائی۔ ”تم آرام سے ہنسی خوشی مجھے الوداع کہو گی تو میں بھی یہ کڑا وقت تب ہی کاٹ پاؤں گا۔“ ”نہیں میں تمہیں الوداع نہیں کہوں گی۔ مجھے الوداع کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے جیسے تم ہمیشہ کے لئے بچھڑ جاؤ گے۔

“ ”تم پاگل ہو بس اور کچھ نہیں۔“ ”ہاں مجھے پاگل کہہ لو پر میں تمہیں گڈ بائے نہیں کہوں گی۔“ ”میں تمہیں گڈ بائے بول کے جاؤں گا۔“ وہ اسے ستانے کے لئے بولا تو عتیرہ نے فوراً اس کے لبوں پہ اپنا ہاتھ رکھا۔ ”پلیز ارسلان مجھے کبھی بھی گڈ بائے مت بولنا میں جی نہیں پاؤں گی۔ مجھے تم سے بچھڑنے سے خوف آتا ہے۔“ ارسلان اس پا گل لڑکی کو دیکھتا رہ گیا۔

Episode 54 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 54 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

افشاں بیگم بڑی دیر سے خاموش بیٹھی اپنی سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ ملک جہانگیر ان کا ارتکاز محسوس کر رہے تھے۔ وہ انہی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ افشاں بیگم اپنی سوچوں کی محویت سے چونکیں۔ ”کیا سو رہی ہو ملکانی؟“ وہ بڑے موڈ میں تھے۔ تب ہی انہیں ملکانی کہہ کر مخاطب کیا۔ ”ملک صاحب میں ذیان کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔“ ”کیا سوچ رہی ہو پتہ تو چلے۔

“ ”کل وہ جب تک یہاں تھی ہمارے گھر میں کتنی رونق تھی ناں۔ پوری حویلی اس کے آنے سے جیسے سج گئی تھی۔“ ”ہاں ملکانی اللہ نے ہمیں بیٹی نہیں دی بیٹی دیتا تو وہ ذیان جیسی ہوتی۔ محبت کرنے والی خیال رکھنے والی۔ کل وہ میرے لئے اتنی پریشان تھی۔ زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے گھر میں بیٹی کی کمی محسوس ہوئی۔“ وہ بولتے بولتے اداس ہوگئے۔

”ہم ذیان کو بیٹی بنا سکتے ہیں۔

“ افشاں بیگم کا لہجہ پرسوچ تھا۔ ”کیسے ہم اسے بیٹی بنا سکتے ہیں؟“ وہ الجھے۔ ”ذیان خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے۔ عتیرہ کی بیٹی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟“ افشاں بیگم نے ان کے سوال کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دی تھی۔ ”ملکانی مجھے لگتا ہے تم کچھ خاص سوچ رہی ہو؟“ ”ہاں آپ ایسا کہہ سکتے ہیں۔“ افشاں بیگم نے انہیں جھٹلانے کی کوشش نہیں کی۔

”لگتا ہے تم نے میرے دل کی بات سمجھ لی ہے۔ کل جب وہ آئی تو کمرے میں میرے پاس کوئی نہیں تھا۔ اس نے ڈھونڈ کر انہیلر دیا۔ سہارا دے کر اٹھایا، اس وقت وہ بہت پریشان نظر آرہی تھی۔“ تب سے ہی میں اس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔بہت سلجھی ہوئی خاموش طبع بچی ہے۔ ”ملک جہانگیر کا انداز تعریفی تھا۔

 ”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ذیان میں آج کل کی لڑکیوں والی بات ہی نہیں ہے نہ کوئی نخرا نہ چھچھورا پن۔

چپ چاپ رہتی ہے۔ ہمارے گھر آئی تو سب میں بیٹھ کر خاموش رہی۔ سچ مانو تو میرا دل دکھ رہا تھا۔“ افشاں بیگم کی بات پہ وہ تھوڑی دیر خاموش رہے جیسے لفظ جمع کر رہے ہوں۔ ”تو ملکانی صاحبہ کو ذیان بیٹی بہت پسند آگئی ہیں؟“ کچھ دیر بعد وہ بڑے شگفتہ لہجے میں گویا ہوئے۔ ”ہاں میرا تو ارادہ ہے کہ ہم ذیان کو بیٹی بنا کر اپنے گھر لے آئیں۔“ جہانگیر کی طرف سے حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہی افشاں بیگم نے اچانک دل کی بات کھل کر کہہ دی۔

اس سے اچھی تو کوئی بات ہی نہیں ہوگی پھر۔ ذیان عزت دار خاندان کا خون ہے پھر اس کی ماں عتیرہ ہے۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ ”ملک صاحب سچ پوچھیں تو مجھے ذیان پہلی نظر میں ہی بہت اچھی لگی تھی۔ میں نے دل میں سوچ لیا تھا اسے عتیرہ سے اپنے ابیک کے لیے مانگ لوں گی۔“ ”ملکانی تم نے اتنے بڑے فیصلے اکیلے ہی کرلیے۔“ ملک جہانگیر شرارت سے مسکرائے۔

”میں اکیلی رہ رہ کر تنگ آگئی ہوں اس لئے یہ فیصلہ کیا ہے۔ ابیک کی دلہن آئے گی تو میری تنہائی تو ختم ہوگی ناں۔ آپ باپ بیٹے کو میری پرواہ ہی کب ہے۔ میں عتیرہ سے بات کرتی ہوں جلدی۔“ افشاں بیگم شکوہ کناں انداز میں بولیں۔ ”ابیک کی رائے لے لینا۔“ انہوں نے مشورہ دیا۔ ”میں آپ کی طرح نہیں ہوں کہ اٹھ کر بیٹے کو بتائے بغیر عتیرہ اور ارسلان کے پاس چلی جاؤں۔

“ ان کا اشارہ احمد سیال کے گھر جانے کی طرف تھا۔ وہ کھسیانے سے ہو کر مسکرائے۔ ”میں ابیک سے بات کروں گا۔ ویسے میرا نہیں خیال کہ اسے اعتراض ہوگا۔ شہزادیوں جیسا حسن اور آن بان پائی ہے ذیان نے۔ ابیک انکار کر ہی نہیں سکتا۔“ افشاں بیگم کے یقین کا پیمانہ بھی عجیب تھا۔ وہ سر ہلا کر رہ گئے افشاں بیگم ابھی سے ہی ابیک اور ذیان کے بارے میں مستقبل کے خواب بننا شروع ہوگئی تھیں۔

ذیان کو وہ تصور کی آنکھ سے دلہن بنے گھر میں چلتے پھرتے دیکھ رہی تھیں۔ ابیک ان کی پوری بات سننے کے بعد خاموشی سے کچھ سوچ رہا تھا۔ افشاں بیگم کو الجھن سی ہو رہی تھی کہ جانے وہ خاموش کیوں ہوگیا ہے کیا سوچ رہا ہے۔ بہت دیر توقف کے بعد اس نے خاموشی کا قفل توڑا۔ ”امی ذیان مجھے بہت مغرور لگتی ہے!!“ افشاں بیگم کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں۔ اس نے کیا اعتراض کیا تھا۔

”وہ مغرور نہیں ہے بس زیادہ گھلتی ملتی نہیں ہے۔ نئی نئی یہاں آئی ہے تو مانوس ہونے میں کچھ وقت تو لگے گا ہی۔“

”ٹھیک ہے امی جیسی آپ کی مرضی۔“ ”میری مرضی نہیں۔ زندگی تم نے گزارنی ہے فیصلہ اور مرضی بھی تمہاری ہوگی۔ ابھی میں نے صرف سوچا ہے ذیان کے گھر جاکے بات نہیں کی ہے۔“

”امی رسک لے لیتے ہیں۔“ ابیک کا لہجہ آخر میں شرارتی ہوگیا۔

اس کی نگاہوں میں ذیان کا کچھ دن پہلے کا”میں ہی میں ہوں“ والا روپ لہرایا تھا۔ اس نے اپنی مسکراہٹ دبا لی تھی۔ ”میں عتیرہ اور ارسلان سے بات کروں گی جلدی۔“ آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے امی۔“ ابیک نے ان کو چھیڑا۔ ابیک کی رضا مندی کے بعد ان کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ ”میں سارا دن اکیلی ہوتی ہوں بات کرنے تک کو ترستی ہوں میری بہو آئے گی تو تنہائیاں بانٹ لے گی میری۔

“ ان کا لہجہ محبت میں ڈوب گیا تھا متوقع بہو کے خیال سے ہی۔ ”میں ایک دو دن میں جاؤں گی ذیان کے لئے بات کرنے۔“ انہوں نے ایک بار پھر اپنے پروگرام سے مطلع کیا کیونکہ اس نے انہیں اجازت دے دی تھی۔

ملک ارسلان، ذیان کی پرابلم سمجھ گئے تھے۔ وہ اسے خود سے سنبھلنے کا، سوچنے کا موقعہ دے رہے تھے۔ ان کا رویہ محبت بھرا تھا جس میں حد درجہ اپنائیت تھی۔

انہیں یقین تھا ایک دن وہ ان کی محبت کی قائل ہوجائے گی۔ وہ عتیرہ کی کوکھ سے تھی لیکن انہیں کبھی حسد محسوس نہیں ہوا کہ بیج کسی اور کا بویا ہوا ہے وہ اس سے اپنی سگی اولاد کا سا برتاؤ کر رہے تھے، رہ گئے ملک جہانگیر اور افشاں بیگم تو انہوں نے بڑی محبت سے اس کے لیے بازو وا کیے تھے۔ افشاں بیگم کو اس کی خوبصورتی بھا گئی تھی۔

اپنے سگے باپ کے گھر کے مقابلے میں وہ یہاں محفوظ تھی۔

ابیک اب گاؤں میں ہی تھا اس کا ملک ارسلان کی طرف روز آنا جانا تھا۔ ذیان سے بھی آمنا سامنا ہوتا پر اس نے ذیان کو جوان لڑکی سمجھ کر بری نظر نہیں ڈالی تھی۔

ذیان کو اس بات پہ شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ وہ خوف و ڈر کے حصار سے نکل آئی تھی پر ماضی کی تلخیوں کو وہ اتنی جلدی فراموش کرنے والوں میں سے نہیں تھی اس کی اپنی عدالت اور انصاف تھا۔

                                       

کمرے میں موجود سب نفوس سہمے ہوئے تھے۔ اور تو اور زرینہ بیگم بھی بے حد خائف تھیں وہاب بری طرح گرج برس رہا تھا اس کے ساتھ روبینہ بھی کینہ توز تیور چہرے پہ سجائے موجود تھی۔ ”خالہ سیدھی طرح بتا دو کہاں ہے ذیان؟“ وہ ایک بار پھر غصے سے غرایا۔ ”بتایا تو ہے مجھے نہیں پتہ کہاں ہے۔ گھر سے اپنی سہیلی کے ہاں جانے کا بول کر نکلی تھی اب مجھے کیا پتہ کہاں گئی۔

“ ”خالہ آپ نے پوچھا نہیں اس کی سہیلی سے۔“ وہ ان کی بات پہ یقین نہ کرنے والے انداز میں بولا۔ ”پوچھا تھا اس نے صاف انکار کردیا کہ وہ یہاں آئی ہی نہیں۔“ ”آپ نے کیا کیا پھر؟“ ”میں نے کیا کرنا تھا۔ خاموش ہوگئی ہوں اپنی عزت کے ڈر سے۔“ ”یہ مت سمجھنا کہ میں ان باتوں کا یقین کرلوں گا۔ میں خود کھوج لگاؤں گا۔ اور بوا اگر آپ کو کچھ پتہ ہے تو بتا دیں۔

میں کسی کو کچھ بھی نہیں کہوں گا، وہ بات کرتے کرتے بوا کی طرف مڑا۔ ”وہاب میاں مجھے کچھ پتہ نہیں ہے سارا دن اپنے کام میں لگی رہتی ہوں۔“ وہ خوفزدہ لہجے میں بولی۔ ”کمال ہے یہاں کسی کوکچھ پتہ نہیں ہے۔ جیتی جاگتی جوان جہان لڑکی غائب ہوگئی ہے اور سب آرام سے بیٹھے ہیں۔“ روبینہ طنزیہ تاثرات چہرے پہ سجائے زرینہ کودیکھ رہی تھیں۔ زرینہ نے بڑی مشکل سے خود کو کوئی سخت بات کہنے سے روکا۔

کیونکہ اس وقت ان کی پوزیشن کمزور تھی وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی بے سائباں تھیں۔ آفاق جس نے بڑے ہو کر ان کا سہارا بننا تھا خود نادان اور کمسن تھا۔

وہاب ذیان کی گم شدگی کا سن کر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے عدالت لگائی تھی۔ روبینہ پوری طرح ساتھ دے رہی تھیں اس لئے وہ اور بھی شیر ہو رہا تھا۔

وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامے بیٹھا تھا۔

ساتھ ٹیبل پہ پڑی ایش ٹرے سگریٹ کے ٹوٹوں سے بھر چکی تھی۔ ”اماں ذیان بھلا خود سے گھر چھوڑ کر کہاں جاسکتی ہے؟“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے جیسے سوال کیا۔ ”مجھے تو زرینہ پہ شک ہے کہ اسی نے کہیں ذیان کو اِدھر اُدھر کیا ہے کیونکہ وہ کسی صورت بھی ذیان کی شادی تم سے کرنے کے حق میں نہیں تھی۔“ روبینہ نے آج زرینہ کی ناپسندیدگی سے پردہ اٹھایا۔ ”اماں مجھے پتہ ہے سب۔

“ ”ساتھ ذیان باپ کی جائیداد میں حصے دار بھی تو ہے۔ زرینہ نہیں چاہتی کہ اسے کچھ دینا دلانا پڑے۔ روبینہ کا لہجہ پرسوچ تھا۔ ”میں چھوڑوں گا نہیں خالہ کو انہوں نے اچھا نہیں کیا ہے یہ سب کر کے۔“ ”ہاں زرینہ تو میری ماں جائی ہے اسے اپنی بہن کا بھلا سوچنا چاہیے تھا۔ ذیان کی شادی تمہارے ساتھ ہوجاتی تو اس کا کیا جاتا…“ روبینہ بہن سے بے حد شاکی اور کبیدہ نظر آرہی تھیں۔

”خالہ کو تو میں چھوڑوں گا نہیں۔ ساتھ بوا سے بھی پوچھ گچھ کروں گا۔“ اس نے خطرناک انداز میں اپنا ارادہ ظاہر کیا۔

وہاب اورروبینہ آپا کے جانے کے بعد، زرینہ تینوں بچوں اور بوا سمیت وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ”بوا اب کیا ہوگا؟ اس وہاب سے نمٹنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔“ خاموشی میں زرینہ کی پریشان آواز ابھری۔

”وہاب میاں اس معاملے کو یہاں چھوڑنے والے نہیں ہیں کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔

بوا خود از حد پریشان تھیں۔ ”بوا اس کا انداز دیکھا وہاب کا۔ کتنی بدتمیزی کے ساتھ بات کر رہا تھا۔ اس نے تو میرا بھی لحاظ نہیں کیا ہے اور آپا روبینہ نے اسے ذرا بھی نہیں روکا۔” ”چھوٹی دلہن میرا خیال ہے وہاب میاں پھر آئیں گے۔“ بوا کا لہجہ تفکر سے بھرپور تھا۔

”میں کیا کروں بوا۔ میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ ذیان کے جانے کے بعد یہاں ایسے ایسے مسئلے سر اٹھائیں گے“ ”چھوٹی دلہن حوصلہ مت ہاریں۔

اللہ مسب الاسباب ہے۔“ ”بوا میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں امیر علی کے بعد جیسے جلتے سورج کے نیچے آگئی ہوں۔ پے درپے پریشانیاں، مشکلات اور خوف۔“ زرینہ کا لہجہ تفکر آمیزتھا۔‘ ”چھوٹی دلہن آپ سنبھالیں خود کو۔ بچوں کا کیا ہوگا۔ آپ کا ٹھیک رہنا بہت ضروری ہے۔ اور آپ اکیلی تو نہیں ہیں میں ہر حال میں آپ کے ساتھ ہوں۔“ بوا نے حتی الامکاں تسلی دی۔ ”بوا آپ کا ساتھ غنیمت ہے ورنہ پتہ نہیں کیا ہوتا۔“ زرینہ پھیکے انداز میں مسکرائیں۔ ”آپ فکر مت کریں چھوٹی دلہن۔ جو ہوگا اچھا ہوگا۔“ ”انشاء اللہ۔“ جواباً زرینہ نے دل کی گہرائیوں سے

Episode 55 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 55 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک جہانگیر، افشاں بیگم کے ساتھ خود آئے تھے۔ حالانکہ ان کی طبیعت ابھی بھی پوری طرح سنبھلی نہیں تھی مگر یہ ان کے بیٹے کے رشتے کا معاملہ تھا، وہ از حد خوش تھے۔خود کو پہلے سے بڑھ کر توانا اور جوان محسوس کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ آئی نوکرانیوں نے مٹھائی کے ٹوکرے، خشک میوہ جات، موسمی پھل اور اس نوع کے دیگر لوازمات اٹھا اٹھا کے اندر لانے شروع کیے تو فریدہ نے تیز رفتاری سے عتیرہ کو مطلع کیا۔

وہ فون پہ بات کر رہی تھیں۔ اسی وقت فون بند کر کے ڈرائنگ روم کا رخ کیا۔ ذیان ظہر کی نماز پڑھ کر آئی تو اس نے بھی انواع و اقسام کی سب اشیاء دیکھیں۔ آج تو جہانگیر انکل بھی اس کی یہاں موجودگی میں پہلی بار وہاں آئے تھے اس لئے اسے بہت خوشی ہو رہی تھی۔ ”انکل میں بہت خوش ہوں آپ یہاں آئے ہیں۔

“ اس نے اپنی خوشی کا اظہار کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا۔

ساتھ آئی افشاں بیگم کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی انہوں نے اسے ساتھ لپٹا کے پیار کیا۔ جہانگیر نے اس کا ماتھا چوما۔

عتیرہ نے جہانگیر بھائی اور افشاں بیگم کی لائی گئی تمام چیزیں نیناں کے سپرد کیں۔

”انہیں رکھوا دو۔“ ان کا اشارہ ٹوکروں کی طرف تھا۔ فریدہ کے ساتھ مل کر اس نے سب کچھ اٹھوایا۔ دونوں اس بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔

فریدہ اسی گاؤں کی پروردہ تھی اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ یہاں مٹھائی اور دیگر چیزوں سمیت کسی کے گھر جانے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ مٹھائی خوشی کے اظہار، مبارک باد اور رشتہ مانگنے کے موقعہ پہ لازمی دی جاتی تھی یہ ان کی دیہاتی رسومات کا حصہ تھا۔ ”نیناں تمہیں پتہ ہے بڑے ملک صاحب یہ کس لئے لے کے آئے ہیں؟“ اس نے معنی خیز انداز میں پوچھا۔ وہ خاموشی سے کچھ بولے بغیر اسے تکنے لگی اتنا تو اسے بھی پتہ تھا کہ مٹھائی خوشی کے موقعوں کا لازمی جزوہوتی ہے۔

”میرا خیال ہے کہ بڑے ملک صاحب رشتہ مانگنے آئے ہیں۔“ اس نے انتہائی آہستہ کہا جیسے کسی کے سن لیے جانے کا ڈر ہو۔

”کس کا رشتہ؟“ ”ارے ذیان یعنی چھوٹی بی بی کا رشتہ۔“ فریدہ نے جیسے اس کی کم عقلی پہ ماتم کیا۔“ کس کے لئے؟“ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ ”مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ بڑے صاحب کے لیے، کیونکہ چھوٹے صاحب ولایت گئے ہوئے ہیں پڑھنے۔

“ فریدہ نے اس کی معلومات میں گرانقدر اضافہ کیا۔ نیناں یعنی رنم کے پھرتی سے چلتے ہاتھ یکدم سست پڑ گئے۔

ابیک کو وہ روز ہی دیکھتی تھی دل ہی دل میں اس نے کئی بار ابیک کی مردانہ وجاہت کو سراہا تھا اس میں وجاہت کے ساتھ وقار بھی تھا ذہن میں اسے دیکھتے ہی ایک لفظ گونجتا پیور، ریفائنڈ، اس کے باوقار وجاہت میں کسی شے کی بھی کمی نہیں تھی۔

ابھی مٹھائی اور دیگر اشیاء کے ٹوکرے اٹھاتے وقت اس نے ذیان کو بھی دیکھا تھا۔ اس نے آج بھی بہت مہنگا ڈیزائنر سوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ وہ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہی تھی۔ کھلے بالوں کو بار بار کان کے پیچھے کرتی سمیٹتی، وہ سادہ سے روپ میں بھی نیناں کو جانے کیوں شدید قسم کی کوفت میں مبتلا کر رہی تھی۔ ابھی فریدہ نے اپنے قیاس کی بناء پہ جوپیشن گوئی کی تھی اس نے اس کی جھنجھلاہٹ اور بھی بڑھا دی تھی۔

ذیان کچھ دیر ہی وہاں بیٹھی۔ افشاں بیگم کے تاثرات بہت معنی خیز قسم کے تھے۔ وہ اٹھ کے باہر نکلی تو فریدہ جو زیبو کے ساتھ بات کر رہی تھی اسے دیکھ کر یکدم چپ ہوگئی جیسے کسی نے چابی سے چلنے والے کھلونے کے سیل نکال دئیے ہوں۔ جبکہ ذیان افشاں بیگم اور ملک جہانگیر کے لائے ہوئے مٹھائی کے ٹوکروں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ چلتے چلتے باغ کی طرف نکل گئی۔

فریدہ اسے تلاش کرتی بھاگنے والے انداز میں چلتی اس کے پیچھے آئی۔ ”چھوٹی بی بی آپ کو ادھربلا رہے ہیں سب۔“ فریدہ کا اشارہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کی طرف تھا۔ اس کا سانس تیز چلنے اور بھاگنے کی وجہ سے بری طرح پھول گیا تھا۔ چہرے پہ بار بار اشتیاق تھا جیسے وہ کچھ کہنے کے لئے بے قرار ہو۔“ ٹھیک ہے جاؤ میں آرہی ہوں۔

“ فریدہ سر ہلاتی واپس چلی گئی۔ اس نے بھی اپنے قدم موڑ لیے۔

ذیان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی واپس رہائشی حصے کی طرف آرہی تھی جب اس کے پاس سے نیناں بہت تیز رفتاری سے گزری۔ عتیرہ بیگم نے نیناں کے بارے میں اسے تفصیل سے بتایا تھا۔ ذیان کو ایک ثانیے کے لیے نیناں بہت اداس اور پریشان محسوس ہوئی تھی۔ وہ ذرا دیر کے لئے بھی اس کے پاس نہیں رکی تھی۔

ذیان اس سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی اس لیے اس نے نیناں جس سمت میں گئی تھی اس طرف قدم بڑھائے۔ وہ چلتے ہوئے کافی آگے نکل آئی۔ نیناں کہیں نہیں تھی۔ البتہ آگے سے ملک ابیک اسی طرف آرہا تھا جہاں ذیان کھڑی متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ ابیک شاید ذیان کی یہاں اس وقت موجودگی کی توقع نہیں کر رہا تھا اس لیے رک گیا۔ ”کس کو ڈھونڈ رہی ہیں؟“ایسے لگا جیسے ابیک نے اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا ہو۔

”میں نیناں کو دیکھ رہی تھی وہ شایداسی طرف آئی ہے۔“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا ابیک دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے اسے غورسے دیکھ رہا تھا۔ ذیان اس کی گہری نگاہوں کے ارتکاز سے گھبرا گئی۔ اس کی چھٹی حس بار بار کوئی احساس دلا رہی تھی۔ ”آپ کو غیر اہم لوگوں اور واقعات سے دلچسپی کیوں ہے؟“ ابیک نے کوئی تبصرہ کرنے یا جواب دینے کے بجائے عجیب سا سوال کردیا۔

وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا، وہ انہی قدموں پیچھے ہٹنے لگی۔ ملک ابیک پہ اسے غصہ آرہا تھا۔

وہ جیسے ہی سیڑھیاں چڑھ کر رہائشی حصے میں داخل ہوئی سامنے سے آتی عتیرہ اسے دیکھ کر رک گئیں۔ ان کے ساتھ ملک ارسلان بھی تھے۔ ”افوہ کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں۔ اندر آؤ رسم کرنی ہے۔ افشاں بھابھی انتظار میں ہیں۔“ اس کے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی عتیرہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور ڈرائنگ روم میں لائیں۔

ملک ارسلان عتیرہ کے ساتھ تھے اس لیے وہ کچھ بول ہی نہیں پائی۔ افشاں بیگم نے اسے پکڑ کر اپنے برابر والی جگہ پہ بٹھایا۔ ملک جہانگیر اور ملک ارسلان دلچسپی سے ساری کارروائی دیکھ رہے تھے۔ افشاں بیگم نے سرخ رنگ کا بھاری کام سے مزین دوپٹہ اس کے سر پہ ڈال دیا۔ یہ دوپٹہ ان کی ساس نے ملک جہانگیر کے ساتھ نسبت طے ہونے کے موقعے پہ انہیں اوڑھایا تھا۔

اور اب انہوں نے نیک شگون کے طور پہ اور خاندانی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اسے اوڑھایا تھا۔ ملک جہانگیر نے مٹھائی کی پلیٹ میں سے ایک گلاب جامن اٹھا کر ذیان کا منہ میٹھا کروایا۔ ”مبارک ہو مبارک ہو۔“ سب ایک دوسرے کو آپس میں مبارک باد دے رہے تھے۔ ذیان کے اعصاب حیرت کی زیادتی سے جیسے فریز ہو رہے تھے۔ دماغ جو سمجھ رہا تھا دل اسے قبول کرنے سے انکاری تھا۔

”اب یہ میرے ابیک کی امانت ہے۔ میں بہت جلد اسے لے جاؤں گی دلہن بنا کے۔“

افشاں بیگم کا اشارہ یقینا ذیان کی سمت تھا۔ سرخ کامدار دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا اور زبان گنگ تھی۔

اس کی زندگی کا اہم فیصلہ اس سے پوچھے بغیر کردیا گیا تھا۔ ابیک کے ساتھ اس کا رشتہ طے ہوچکا تھا۔ وہ اتنی گئی گزری ہے کہ اس سے پوچھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔

یہ عورت جو اس کی ماں ہونے کی دعویدار ہے وہ اسے اس کی اس حرکت کا مزہ چکھا کے رہے گی۔ جس اذیت سے وہ گزری ہے ایسی ہی اذیت سے وہ انہیں بھی گزارے گی۔ اس عورت سے وابستہ ہر رشتے، ہر شخص سے اسے نفرت ہے۔

لیکن وہ الجھ رہی تھی۔ ملک جہانگیر نے اپنا کمزور سا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا تو ایک دم امیر علی اس کی نگاہوں کے سامنے آگئے۔ وہ ان سے بھلا کیسے نفرت کرے گی وہ انہیں کیسے اذیت دے پائے گی ان میں تو امیر علی کا عکس ہے۔

باقی سب عتیرہ کے حوالے سے اس کی زندگی میں آئے تھے وہ کسی کو بھی معاف نہیں کرے گی ہر وہ کام کرے گی جس سے انہیں تکلیف ہو دکھ پہنچے۔ ان کی اذیت میں اضافہ ہو۔ وہ انہیں کوئی رعایت نہیں دے گی رحم نہیں کرے گی۔“ ذیان کے چہرے پہ نفرت کی پرچھائیاں تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ الٹے ہاتھ کی تیسری انگلی میں ہیرے کی نازک سی انگوٹھی کا اضافہ ہوچکا تھا جو ملک ابیک کے ساتھ اس کے طے پانے والے واضح رشتے کا اعلان تھا۔

انگوٹھی کو تکتے ہوئے اس کے ہونٹوں پہ زہریلی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ اسے بتائے بغیر اچانک اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کا غصہ اور نفرت حد سے سوا تھی۔

عتیرہ اس رشتے سے بے پناہ خوش تھیں۔ ملک جہانگیر نے جب پہلی بار گھر میں ابیک کی شادی کی بات کی تھی تو ان کا دھیان فوراً ذیان کی طرف گیا تھا۔

ان کے دل نے بے اختیار خواہش کی تھی کہ کاش ذیان ان کے پاس ہوتی اور ابیک اس کا نصیب بنتا۔

ابیک ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل اور شاندار نوجوان تھا۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوئی اور قدرت نے ان کی یہ خواہش من وعن پوری کردی۔ وہ بے پناہ خوش تھیں کیونکہ ذیان نے اب ہمیشہ ان کے پاس رہنا تھا۔ یہ احساس ہی ان کے لیے طمانیت انگیز تھا۔ ذیان نے رشتہ طے ہونے کے بعد کوئی ہنگامہ یا احتجاج نہیں کیا تھا نہ کوئی باز پرس کی۔ ورنہ ان کا خیال تھا کہ اپنا رشتہ اس طرح طے کیے جانے پہ وہ شکوہ کرے گی۔

عتیرہ توقع نہیں کر پا رہی تھیں کہ افشاں بھابھی اور جہانگیر بھائی اسطرح اچانک ذیان کے لئے سوالی بن کر آئیں گے۔ اس خوشی نے ان کے ہاتھ پاؤں پھُلا دئیے تھے۔ انہوں نے ذیان سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور اس سے پوچھنے کا موقعہ بھی نہیں تھا۔ ملک ارسلان بھی خوش تھے۔ ابیک کو وہ شروع سے پسند کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ابیک اور ذیان کی جوڑی شاندار تھی۔

ذیان کے بیڈ روم کی لائیٹ بند تھی وہ خود ٹیرس پہ تھی۔

”ملک محل“ کے دوسرے حصے میں ابیک بھی ٹیرس پہ پڑی کرسی پہ نیم دراز تھا۔ سارے دن کی بھاگ دوڑ سے وہ تھک چکا تھا۔ انڈسٹریل ہوم کی تعمیر مکمل ہونے کے مراحل میں تھی۔ پھر اس کے بعد وہاں اصل کام کا آغاز ہوناتھا جس کے لیے اسے بنایاگیا تھا۔ گاؤں کی بہت سی عورتیں اور لڑکیاں ہنر مند اور محنتی تھیں وہ سب ہی اپنی محنت اور ہنر کے جوہر دکھانے کے لیے بے تاب تھی۔

ملک ابیک نے ان کے ہنر صلاحیتوں کے لیے انہیں انڈسٹریل ہوم کی صورت میں پلیٹ فارم دے دیا تھا۔ وہ اپنے گھر کی حالت بہتر بنا سکتی تھیں معیار زندگی اچھا بنا سکتی تھیں آمدنی میں اضافہ کرسکتی تھیں۔ ہاتھوں سے بنے کشیدہ کاری اور ہنرمندی کے دیگر نمونوں کی شہر میں بہت مانگ تھی۔ پچھلے دنوں وہ شہر اور گاؤں میں یکساں طورپہ مصروف رہا تھا۔ آم کی فصل پہ کیڑے مار اسپرے کروانا تھا زمینوں کے دیگر سو معاملات تھے کورٹ کے چکر، ملک محل کے اپنے معاملات، بابا جان کی آنکھوں کا آپریشن اور ان کی بیماری۔

اس کا ایک پاؤں شہر اور ایک گاؤں میں تھا۔ دن بھر مصروفیات کا وہی عالم رہا تھا۔ پورے دن میں یادگار لمحہ وہی تھا جب اچانک اتفاقی طور پہ ذیان سے سامنا ہوا تھا۔ بابا جان اور افشاں بیگم اس کی اطلاعات کے مطابق ارسلان چچا ہی کی طرف تھے۔ ابیک کے راستے میں آجانے سے اس کے چہرے اور آنکھوں میں غصہ اتر آیا تھا۔ وہ منظر یاد آتے ہی اسے ایک بار پھر ہنسی آئی۔

وہ کھانا کھا کے اوپر آیا تھا۔ دل چاہ رہا تھا تھوڑی دیر کھلے آسمان تلے بیٹھے۔ کبھی کبھی اچانک جڑ جانے والے تعلق کے بارے میں سوچنا کتنا حسین لگتا ہے ابھی ابیک بھی اسی کیفیت سے گزر رہا تھا۔ کرسی پہ بیٹھے بیٹھے اس کی نگاہ سامنے کی طرف اٹھی۔ وہاں آج مکمل اندھیرا تھا شاید آج روشنی سے کوئی پرانا ادھار چکایا جارہا تھا۔ اندھیرے کے باوجود بھی وہ نسوانی ہیولے کو پہچان چکا تھا، چاند کی ہلکی ہلکی سی روشنی چیزوں کی ہیت اور خدوخال کو واضح کر رہی تھی۔ ذیان ٹیرس پہ ٹہل رہی تھی۔ ابیک کے طرف کے حصے کی تمام لائیٹیں آن تھیں، وہ تھکے تھکے سے انداز میں پشت سے سر ٹکائے نیم دراز تھا۔

Episode 56 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 56 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

سر میں کچھ گھنٹے قبل شروع ہونے والا درد اب شدت اختیار کر چکا تھا۔ بے اختیار اس کے دل میں ایک خواہش ابھری، اِک دلنشیں اور خوبصورت سی خواہش کہ ذیان اس کے دکھتے سر اور کنپٹیوں کو ہاتھ سے دبائے۔ پھر یقینا اس کے سر درد میں افاقہ ہوگا۔ اپنی اس بچگانہ خواہش پہ اسے خود ہی ہنسی آگئی۔ ابھی ذیان صرف منگیتر تھی بیوی تو نہیں جو وہ اس سے ایسی توقع کر رہا تھا۔

ذیان اسے ٹیرس پہ بیٹھا دیکھ چکی تھی۔ پچھلے پندرہ منٹ سے وہ ایسی پوزیشن میں نیم دراز تھا۔ اس نے نگاہ موڑ لی اور ہونہہ کہہ کر رہ گئی۔کچھ دیر بعد کرسی سے اٹھا۔ اب ذیان کے سامنے اس کا چہرہ تھا۔اس نے پشت موڑ لی اور کمرے میں آ کر دروازہ بند کرلیا۔ پھر وہ بند دروازے کے پیچھے اس کو سوچ رہی تھی۔

معاذ سکائپ پہ سب گھر والوں سے بات کر رہا تھا۔

افشاں بیگم نے ابیک اور ذیان کا رشتہ طے ہونے کی بریکنگ نیوز سنائی تھی۔ وہ ذیان کے ملک محل میں آنے کے شاک سے بھی ابھی نہیں سنبھلا تھا۔ کیونکہ اسے عتیرہ کے ماضی کے بارے میں زیادہ نہیں پتہ تھا۔ پھر اس کے سامنے کم کم ہی تذکرہ ہوتا۔ وہ تعلیم کے سلسلے میں پہلے گھر سے دور رہا پھر پاکستان سے اس لئے جب اسے بتایا گیا کہ”ملک محل“ کے مکینوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے اور اضافہ بھی عتیرہ چچی کی بیٹی کا تو وہ حیران ہوا۔

پاکستان والوں نے شاید اسے جی بھر کے حیران کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔

”مجھے فوراً میری بھابھی کی فوٹو دکھائیں۔“ اس نے افشاں بیگم سے مطالبہ کیا۔ ”چھری تلے دم تو لو ابھی میں ابیک سے کہتی ہوں تمہیں بھیج دے گا۔“ اس کے بے قراری پہ وہ مسکرائیں۔ ”نہیں میں بات بعد میں کروں گا پہلے فوٹو دکھائیں مجھے۔“ اس نے ضدی لہجہ میں کہا۔

ملک ارسلان نے کمرے میں ذیان کی اس خاص موقعے پہ بیشمار فوٹو بنائی تھیں۔

وہ کیمرہ افشاں بیگم کے پاس تھا۔ نوکرانی ان کی ہدایت پہ ان کے کمرے سے جھٹ پٹ لے آئی۔ ”ابیک، معاذ کو ذیان کی فوٹو ابھی بھیجو باؤلا ہو رہا ہے۔“ افشاں بیگم نے کیمرہ اس کے ہاتھ میں تھمایا۔

ابیک، معاذ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ذیان کی تصویریں اسے سینڈ کرنے لگا۔ افشاں بیگم جا چکی تھیں لہٰذا ابیک نے بھی بڑی وضاحت سے ذیان کی سرخ دوپٹے والی تصویریں دیکھی۔

ہر فوٹو میں اس کے لب باہم پیوست تھے ہلکی سی مسکراہٹ تک کی رمق نہ تھی۔ جھکی آنکھیں اس کے تاثرات چھپانے میں کامیاب ثابت ہوئی تھیں۔ ابیک نے ذیان کی تمام تر فوٹو ایک الگ فولڈر میں سیو کرلیں۔

ذیان کے ساتھ رشتہ طے ہوجانے کے بعد ذیان کے لئے اس کے تاثرات خود بہ خود ہی بہت نرم اور خاص قسم کے ہوگئے تھے۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ اس طرح اچانک ایک اجنبی لڑکی اس کی زندگی میں خاص اہمیت اختیار کر جائے گی۔

اسے حویلی آئے ٹائم ہی کتنا ہوا تھا۔

آتے ساتھ ہی اس نے سب کے دل میں جگہ بنالی تھی اور اب تو ابیک کے خیالات پہ بھی اثر انداز ہونے لگی تھی۔

ذیان جب سے گاؤں آئی تھی سوائے ایک بار کے حویلی سے باہر نہیں نکلی تھی۔ صرف ایک بار وہ عتیرہ کے ساتھ شہر شاپنگ کرنے گئی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا باہر نکل کر گاؤں دیکھے لوگوں سے ملے۔ اس کی یہ بے ضرر سی خواہش عتیرہ اور ارسلان تک پہنچی تو انہوں نے فوراً اسے پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات کیے۔

لینڈر وور میں وہ دو نوکرانیوں اور ڈرائیور کے ساتھ جارہی تھی۔ گاؤں آنے کے بعد آج پہلی بار وہ حقیقی معنوں میں خوش نظر آرہی تھی۔ گاڑی دو رویہ درختوں والی سڑک سے گزر رہی تھی۔ تاحد نظر سبزہ تھا۔ سڑک کے اختتام پر ملک محل کے ذاتی باغات کا سلسلہ شروع تھا جو کافی وسیع رقبے پہ پھیلا ہوا تھا۔

اس کے اشارے پہ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔

ذیان نیچے اُتر آئی۔ نیناں اور فریدہ نے بھی اس کی تقلید کی۔ ذیان گھوم پھر کے باغ دیکھ رہی تھی۔ یہاں آم کی فصل کاشت کی گئی تھی۔ فریدہ نیناں کے ساتھ مل کر آم جمع کرنے لگی جبکہ ذیان باغ کے بیچوں بیچ گزرنے والی پانی کی نہر میں پاؤں لٹکا کے بیٹھ گئی۔ گرمی کے موسم میں گھنے درختوں کے سائے میں ٹھنڈا پانی اسے ایک عجیب سے لطف سے ہمکنار کر رہا تھا۔

ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جس نے گرمی کی شدت کو کافی قابو میں کیا ہوا تھا۔

ابیک صبح سے باغ میں تھا۔ وہ آج کل روزانہ اس طرف آتا کیونکہ تھوڑے دنوں تک پھل کو درختوں سے اتارنے کا کام شروع کیا جانے والا تھا۔ وہ باغ کے آخری سرے سے واپس آرہا تھا جب اس کی نظر نیناں پہ پڑی۔ ذیان اور فریدہ کو اس نے بعد میں دیکھا۔ اس کے ساتھ باغ میں کام کرنے والا ملازم بھی تھا اسے واپس بھیج کر وہ کچے راستے سے اوپر ذیان کی سمت آیا۔

فریدہ اور نیناں اسے سامنے دیکھ کر الرٹ ہوگئیں۔ ابیک کا رخ ذیان کی سمت تھا۔

”ادھر آنے کا موڈ تھا تو مجھے بتایا ہوتا۔ میں خود لے آتا آپ کو۔“ ابیک ذیان کے پیچھے درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔ خوشگوار موسم اس وقت کچھ اور بھی خوشگوار معلوم ہو رہا تھا۔ ذیان کی سفید سفید پنڈلیاں پانی سے جھانک رہی تھیں۔ لمبے بالوں کا آبشار حسب معمول اس کی کمر کو بوسے دے رہا تھا۔

وہ ابیک کی ہونے والی بیوی تھی وہ اسے اس وقت خاص نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ دل کی دھڑکن اور تال دونوں پہ احساس ملکیت کا تازہ تازہ خمار چھایا ہوا تھا۔

نیناں درخت کی اوٹ میں تھی۔ ابیک اور ذیان دونوں اس کی نگاہوں کی گرفت میں تھے اور اس ٹائم ذیان کی سمت اٹھی نگاہوں میں بے پناہ نفرت کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ”اب تو ہم آگئے ہیں۔“ نیناں کو ذیان کے اس جملے سے غرور کی بو آئی تھی۔

اس نے ترچھی نگاہ ذیان پہ ڈالی۔

پھر ملک ابیک کی سمت دیکھا جو سفید کڑکڑاتے لٹھے کے کرتے شلوار میں ملبوس اپنی تمام تر مردانہ وجاہت ماحول پہ چھایا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے ذیان کے پیچھے درخت کے تنے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اپنی پشت پہ وہ اس کی نگاہوں کی تپش محسوس کر چکی تھی پر نیناں کی نفرت سے بھرپور نگاہیں اس سے نہاں تھی۔

اس نے فوراً دونوں پاؤں پانی سے باہر نکالے۔

نازک سی سینڈل پاس ہی پڑی تھی۔ اس نے گیلے پاؤں جلدی جلدی سینڈلز میں ڈالے۔ ”میں واپس جارہی ہوں۔“ ذیان کی مخاطب نیناں اور فریدہ تھی۔ ابیک کو تو اس نے ذرہ بھر اہمیت نہ دی تھی۔

وہ ان دونوں کے ساتھ واپس گاڑی کی طرف جارہی تھی یہاں ڈرائیور اس کے انتظار میں تھا وہ اب لینڈروور میں بیٹھ رہی تھی۔ گیلے پاؤں کی وجہ سے اسے قدم اٹھانے میں تھوڑی مشکل ہوئی تھی پر اس وقت ابیک کی موجودگی میں وہ یہاں ایک پل بھی رکنے کے موڈ میں نہیں تھی۔

ملک ابیک کوپہلی بار شدید توہین کا احساس ہوا۔ مانا کہ حسن میں ادا، نخرہ اور بانکپن ہوتا ہے اپنے ہونے کا غرور ہوتا ہے۔ پر وہ تو سراسر اس کی مردانہ انا اور عزت نفس کو مجروح کر رہی تھی۔ حالانکہ اس کا ابیک کے ساتھ رشتہ طے ہوچکا تھا مستقبل قریب میں وہ ایک دوسرے کے جیون ساتھی بننے والے تھے۔ ایسے میں ذیان کی بے رخی بیگانگی کی حد سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔

ماناکہ وہ عتیرہ چچی کی بیٹی تھی پر وہ ان کے ہاتھوں اور گود میں نہیں پلی بڑھی تھی نہ ان کے زیر سائے پروان چڑھی تھی۔ ملک محل میں ابھی اسے آئے بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اس لئے عادات، مزاج اورطبیعت کا بھی ابیک کو خاص اندازہ نہ تھا۔ کہیں ملک جہانگیر نے اس کا رشتہ طے کرنے میں جلد بازی سے تو کام نہیں لیا۔ ابیک اسی پہلو پہ سوچ رہا تھا۔

ذیان اسے دیکھتے ہی افراتفری میں یہاں سے گئی تھی ورنہ وہ اچھے خاصے موڈ میں تھی۔ ابیک کا ارادہ تھا کہ وہ واپس جا کر عتیرہ چچی سے اس سلسلے میں بات کرے گا ذیان کے آج کے اس عمل سے اسے اپنی عزت نفس اور خودداری مجروح ہوتی محسوس ہوئی تھی۔ ذیان کے ساتھ آئی فریدہ اور نیناں نے بھی ذیان کا یہ انتہائی رد عمل نوٹ کیا تھا۔

افشاں بیگم نے ایک نوکرانی کے ہاتھ پیغام بھیج کر ذیان کو بلوایا تھا۔

وہ انہی سوچوں میں غلطاں ان کے پاس پہنچی کہ جانے کیوں اس طرح پیغام بھیج کر بلوایا گیا ہے۔ افشاں بیگم ایک نقشین صندوق کھولے بیٹھی تھیں۔“ آؤ آؤ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔“ وہ اسے دیکھ کر مسکرائیں اور پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ صندوق میں ہاتھ مار کر کچھ نکال رہی تھیں۔ ذیان نے دیکھا وہ سونے کے جگ مگ کرتے زیورات تھے۔ انہوں نے ایک جڑاؤ کنگن نکالا اور اس کے کلائی میں پہنا دیا۔

”یہ میرے ابیک کی دلہن کے لیے ہے۔“ انہوں نے پیار سے اس کا ماتھا چوما۔”میں نے تمہارے لیے رکھا تھا کہ بات طے ہوجائے گی تو تمہیں پہناؤں گی۔ لیکن بھول بھال گئی۔ آج ادھر آئی تو یاد آیا۔“ انہوں نے وضاحت کی اور اسے دیگر زیورات دکھانے لگیں۔ ان میں سے کچھ ان کی مرحومہ ساس نے شادی کے موقعے پہ انہیں دئیے تھے اور کچھ ملک جہانگیر نے خریدے تھے باقی ان کے میکے والوں کی طرف سے تھے۔

افشاں بیگم اسے ساتھ ساتھ زیورات کی تفصیل بتا رہی تھیں جب ابیک سیل فون کان سے لگائے کمرے میں داخل ہوا۔ ذیان کو اچانک یہاں اپنے گھر پا کر وہ ٹھٹھک گیا مگر بہت جلد اس نے اپنے تاثرات چھپا لیے۔ ”امی معاذ کا فون ہے لیں بات کریں۔“ اس نے سیل فون افشاں بیگم کی طرف بڑھایا۔ ”کیسی ہیں آپ؟“ وہ ذیان کے مقابل بیٹھ گیا۔ ”فائن آپ سنائیں؟“ وہ رسمی انداز میں بولی۔

”کیا سناؤں؟“ وہ بے تکلف ہوا۔ اس سے پہلے کہ ذیان کوئی جواب دیتی افشاں بیگم نے سیل فون ذیان کے کان سے لگا دیا۔ معاذ اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا، وہ پہلی بار اس کی آواز سن رہی تھی۔ معاذ شریر اور زندہ دل تھا فون پہ بات کرتے ہوئے اسے چھیڑنے لگا۔ ذیان کو تھوڑی دیر میں ہی گھبراہٹ ہونے لگی۔ معاذ کی ہر بات کے جواب میں اس کے منہ سے ہوں ہاں سے زیادہ کوئی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔

بہت مشکل سے اس نے اللہ حافظ کہہ کر معاذ کی شرارتوں سے دامن بچایا۔ اب وہ ابیک سے بات کر رہا تھا۔ ”بھائی جان آپ نے چپکے چپکے سب کام کرلیے اور مجھے انوائیٹ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔“ وہ پیار بھرے شکوے کر رہا تھا۔ ”چپکے چپکے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ تمہیں بتایا تو تھا کہ سب بہت اچانک ہوا۔ امی نے عین وقت پہ مجھے بتایا۔“ وہ اپنی مخصوص گہری مردانہ آواز میں بولا، ذیان اس کے مقابل ہی تو بیٹھی تھی۔

معاذ کی آواز بخوبی اس کی سماعتوں تک رسائی حاصل کر رہی تھی۔ ”ویسے بھائی جان ہماری بھابھی بہت خوبصورت ہیں میں تو فوٹو گرافس دیکھ کر ہی فدا ہو گیا ہوں۔ لال دوپٹے میں مغلیہ شہزادی لگ رہی تھیں۔ دل کر رہا تھا اڑ کر پاکستان آجاؤں۔ مگر میرے پروگریس ٹیسٹ ہو رہے ہیں نہیں آسکتا۔“ معاذ کا لہجہ بات کرتے کرتے آخر میں اداس ہوگیا۔

Episode 57 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 57 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

”ڈونٹ وری تم شادی پہ آجانا میں کوشش کروں گا شادی تمہاری چھٹیوں کے دوران ہو۔“

ابیک نے معاذ سے بات کرتے ہوئے ساتھ بیٹھی ذیان پہ ایک نظر ڈالی تو اس نے بے اختیار پہلو بدلا۔ ”بھائی جان میں کیا سن رہا ہوں۔“ معاذ حیرت سے بولا۔ ”کیا مطلب؟؟“

”آپ اور شادی کا ذکر!! آپ تو شادی کے نام پہ دامن بچاتے تھے… گریٹ اس کا مطلب ہے کہ میری بھابھی نے آپ کو تبدیل کردیا ہے۔

“ معاذ کے لہجے میں شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ابیک مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔

افشاں بیگم اپنے زیورات کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔

نوکرانی نے چائے کے ساتھ انواع واقسام کے خوردونوش سے بھری ٹرے ذیان کے سامنے رکھی تو ابیک نے اسے کھانے کا اشارہ کیا۔ ”میں ابھی کچھ دیر پہلے لنچ کر کے آئی ہوں اب کچھ بھی نہیں کھا سکوں گی۔

“اس نے انکار کیا۔

”لیکن یہ سب خاص الخاص اہتمام آپ کے لئے کیا گیا ہے۔“ ابیک نے کھانے پینے کی چیزوں کی سمت اشارہ کیا۔ ”میں چائے نہیں پیتی۔“اس نے منہ بنایا۔

”لیکن ابھی آپ کو چائے پینی پڑے گی۔“ ابیک بولتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات بھی نوٹ کر رہا تھا۔ افشاں بیگم زیورات سے نمٹ کر ان کے پاس آ کر بیٹھیں تو ذیان نے قدرے سکون کا سانس لیا۔

چائے پینے کے بعد وہ عصر کی نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئیں۔

اب وہاں صرف ذیان اور ابیک تھے وہ جانے کے لئے اٹھی تو ابیک نے اچانک اپنا پاؤں آگے کردیا وہ گرتے گرتے سنبھلی۔ ”بیٹھے ناں تھوڑی دیر اور۔“ وہ بالکل انجان بنا ہوا تھا۔ ”نہیں اب میں گھر جاؤں گی۔“ اس نے مصلحت کے تحت نرمی اپنائی تب ابیک نے اپنا پاؤں راستے سے ہٹایا۔

نیناں یعنی رنم لیٹی ہوئی تھی۔ باہر سناٹا تھا، کسی بھی قسم کی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

اس نے تکیہ دونوں بازوؤں اور ہاتھوں کے مابین سختی سے دبایا ہوا تھا۔ اس کے دانت بھی سختی سے ایک دوسرے پہ جمے تھے جیسے وہ سخت خلفشار اور اذیت کا شکار ہو۔ بات اذیت والی ہی تھی۔ وہ اپنی فضول ضد کے پیچھے گھر بار سب سہولیات کو ٹھوکر مار کر نکل آئی تھی۔ قسمت کی ستم ظریفی تھی وہ خود مالکن ہوتے ہوئے یہاں اس”ملک محل“ میں معمولی نوکرانی کی حیثیت سے رہ رہی تھی۔

وہ ہرگز مطمئن نہیں تھی۔ جب سے ذیان یہاں آئی تھی۔ اس کا سکون جیسے ختم ہو کے رہ گیا تھا۔ رنم کی نگاہوں میں اپنے سوا کوئی کچھ بھی نہیں تھا۔ 

احمد سیال کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے اس نے بہت رعایتیں حاصل کی تھیں۔ پھر رہی سہی کسر بے پناہ دولت اور اختیار نے پوری کردی تھی۔ گھر، خاندان، یونیورسٹی دوستوں میں ہر جگہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔

وہ جیسے کسی ریاست کی بے تاج ملکہ ہو۔ ”ملک محل“ میں اس کی وہ حیثیت نہیں تھی یہاں کی شہزادی ذیان تھی۔ مغرور اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والی بیٹھے بٹھائے مالک بن گئی تھی۔ فریدہ اور دیگر نوکرانیوں نے ذیان کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات کیے تھے۔ ملک ارسلان کی بیٹی نہیں ہے۔ پھر بھی کیا قسمت پائی تھی اس نے، حویلی آتے ہی سب پہ دھاک بٹھا دی تھی۔

افشاں بیگم اس کے حسن سے متاثر اور ملک جہانگیر اسے بیٹی کے روپ میں دیکھتے۔ملک جہانگیر کو وہ یہاں دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ وہ جس دن ذیان کا رشتہ مانگنے آئے تب رنم نے انہیں پہلی بار دیکھا اور دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ پپا کے وہی دوست ہیں جن کا ذکر انہوں نے خاص طور پہ کر کے کہا تھا کہ یہ اپنے بیٹے کے لیے تمہارا رشتہ مانگ رہے ہیں۔

وہ پہلے سے کچھ کمزور لگ رہے تھے لیکن سو فی صد پپا کے وہی دوست تھے جن کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر یہاں پڑی تھی۔ انہوں نے رنم پہ کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ ساتھ وہ ایک بار کے علاوہ پھر ڈرائنگ روم میں آئی بھی نہیں۔ وہ اسے دیکھ لیتے تو بھی پہچان نہ پاتے کہ یہ احمد سیال کی بیٹی ہے۔ اسے دیکھ کرتو کوئی بھی نہ پہچان پاتا، سر تا پاؤں وہ بدل گئی تھی۔

رنم کو سو فی صد یقین تھا کہ ملک جہانگیر نے ابیک کے لئے ہی اس کا رشتہ مانگا ہوگا۔ اس ابیک کے لیے جو غریبوں اور انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتا تھا۔ وہ اپنے طبقے کے عام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔

اس کی پوری شخصیت سے متاثر کن وقار جھلکتا۔ یہی ابیک ذیان کو بغیر کسی کوشش اور محنت کے مل رہا تھا اسے رنم کی طرح گھر چھوڑ کر دربدر نہیں ہونا پڑا تھا۔

پپا صرف اس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے۔ کاش وہ فضول سی ضد کے پیچھے اپنا گھر نہ چھوڑتی پپا کا دل نہ دکھاتی۔ اب وہ لوٹ کر کیسے جائے گی، ہمت کر کے چلی بھی جاتی ہے تو کون سا پپا اس دنیا میں ہیں۔ ہر چیز پہ قبضہ ہوچکا ہوگا وہ بالکل محروم اور خالی دامن ہے۔ اپنے پپا کی شہزادی نوکرانی بن گئی ہے۔ اسی ملک محل میں نوکرانی بنی ہے جبکہ قدرت اسے مالکن بنانا چاہ رہی تھی۔

بھلا کیا ملا اسے؟؟؟ رنم روئے جارہی تھی۔

انڈسٹریل ہوم مکمل ہوچکا تھا۔ ابیک ارسلان چچا کی طرف آیا تھا۔ عتیرہ چچی کی بات اسے یاد تھی انہوں نے نیناں کے بارے میں خاص طور پہ مدد کی تلقین کی تھی کہ بے سہارا اور بے آسرا لڑکی ہے پڑھی لکھی بھی ہے بہت کام آئے گی یہاں چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگی رہتی ہے تم اسے انڈسٹریل ہوم میں کہیں نہ کہیں لگا دینا۔

وہ عتیرہ چچی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ذیان موٹی سی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی۔ ابیک کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اس نے اپنی توجہ کتاب کی طرف پھیر لی تھی۔ فریدہ، عتیرہ کی ہدایت پہ نیناں کو بلا کے لے آئی تھی۔ اب وہ ملک ابیک کے سامنے بیٹھی تھی اور وہ اسے انڈسٹریل ہوم کے بارے میں بات کر رہا تھا۔

”میں دو دن بعد آپ کو لینے آؤں گا آپ چل کر دیکھ لیجئے گا سب کام۔

اگر سمجھ میں آئے تو ٹھیک ہے۔“ ”نہیں نہیں میں سب کام سمجھ لوں گی۔“ نیناں فوراً بولی جیسے اس نے ہاں نہ کی تو وہ اپنا ارادہ بدل د ے گا۔ ”ابیک، نیناں پڑھی لکھی ہے بہت جلدی سمجھ لے گی۔“ عتیرہ نے بھی اس کی حمایت کی تو ذیان نے نظر اٹھا کر نیناں کی سمت دیکھا۔ وہ بے پناہ خوش نظر آرہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر چلی گئی۔ اس کی واپسی چائے اور دیگر لوازمات سمیت ہوئی۔

اس نے ٹیبل پہ سب کچھ طریقے سے رکھا اور خود بھی ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ ابیک عتیرہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ ذیان جو سر جھکائے کتاب میں محو تھی اچانک اس کی نگاہ نیناں کی طرف اٹھی۔ وہ پوری دلچسپی سمیت ملک ابیک کی طرف دیکھ رہی تھی،وہ نظر بچا کر یہ سب کر رہی تھی پر ذیان سے اس کی یہ چوری مخفی نہیں رہ پائی تھی۔ ذیان نے دوسری نگاہ ابیک پہ ڈالی جو چائے پیتے ہوئے عتیرہ کے ساتھ باتیں کر رہا تھا وہ قطعاً نیناں کی طرف متوجہ نہیں تھا۔

ذیان نے دوبارہ نیناں کی طرف دیکھا تو وہ گھبرا سی گئی اور فوراً چلی گئی۔ ذیان کو یہ سب عجیب سا لگا۔اس جذبے کو اس احساس کو وہ کوئی نام نہیں دے پائی۔

نیناں، ملک ابیک کے ساتھ جانے کے لئے بالکل تیار تھی۔ آج اس نے اپنا سب سے اچھا سوٹ پہنا تھا جو عتیرہ نے ہی اسے دلوایا تھا۔ شکل و صورت ویسے بھی اچھی تھی تھوڑی توجہ سے اور بھی جاذب نظر لگنے لگی تھی۔

ملک ابیک کی شاندار گاڑی میں بیٹھ کر جاتے ہوئے اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ایک بار پھر سے رنم سیال بن گئی ہے۔ کام سٹ یونیورسٹی کا سرسبز گراؤنڈ، اپنی گاڑی تیز رفتار ڈرائیونگ سب سے پہلے پہنچنے کی دھن۔ پھر سے یہ سب اسے یاد آرہا تھا۔ ایک حسرت نے انگڑائی لی کہ کاش سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے۔ اس نے چور نگاہوں سے آگے بیٹھے ملک ابیک کی پشت کی طرف دیکھا۔

وہ ڈرائیور کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ اس کے پسندیدہ پرفیوم کی خوشبو پوری گاڑی میں چکرا رہی تھی۔ ہر معاملے میں اس کا ذوق اعلیٰ تھا۔

اسے پتہ ہی نہیں چلا گاڑی ایکدم رکی تو وہ اپنے خیالوں سے باہر آئی۔ سامنے خوبصورت سے احاطے میں تازہ پودے لگائے گئے تھے۔ ابیک نے اسے گاڑی سے اتر نے کا اشارہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے چلتی وہ اس تازہ تازہ تعمیر کی گئی عمارت میں داخل ہوئی۔

مشرقی دیوار کے ساتھ ایک کمرہ آفس کے طور پہ سیٹ کیا گیا تھا۔ ملک ابیک اسے ساتھ لیے سیدھا ادھر آیا اور کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ”اب آپ یہاں کی انچارج ہیں میں یہ سب معاملات آپ کے سپرد کرنے لگا ہوں۔ امید ہے آپ بخوبی سنبھال لیں گی۔ ایک دو دن میں باقی سب سامان بھی آجائے گا۔ ابھی تھوڑی دیر میں انڈسٹریل ہوم میں داخلے کی خواہش مند خواتین اور لڑکیاں آنا شروع ہوجائیں گی۔

آپ نے سب کے نام درج کرنے ہیں پھر طریقہ کار اور اصول کے بارے میں بتانا ہے۔“ ۔

وہ اسے انتظامی امور کے بارے میں گائیڈ کرنے لگا۔ نیناں پوری توجہ سے سن رہی تھی۔ یہ کام اسے بالکل نیا اور دلچسپ لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد سچ میں ابیک کے کہنے کے مطابق عورتیں اور لڑکیاں آنا شروع ہوگئیں۔ یہ تعداد خاصی حوصلہ افزا تھی۔ ابیک کچھ دیر وہاں رکا پھر سب کچھ اس کے سپرد کر کے خود شہر جانے کی تیاری کرنے لگا۔

اسے سلائی کڑھائی کے اس مرکز کے لیے مشینوں اور دیگر اشیاء کی خریداری کرنی تھی ساتھ ایک دو کام بھی نمٹانے تھے۔ نیناں کو چھوڑ کر آنے کے بعد وہ خاصا پر امید تھا کیونکہ وہ اسے کافی سمجھدار اور جلد سیکھنے والی لڑکی لگی تھی۔ اب وہ شہر میں بغیر کسی پریشانی کے اپنے کام سرانجام دے سکتا تھا۔

انڈسٹریل ہوم کا آغاز ہوئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔

مشینیں اور دیگر سامان آچکا تھا۔ عورتوں کی تعداد چالیس ہوگئی تھی۔ ان میں سے دو عورتوں کو نیناں نے سلائی کڑھائی کے شعبے کا انچارج بنا دیا تھا کیونکہ وہ اپنے کام میں ماہر تھیں۔ یہاں کل چھ کمرے تھے، ایک کمرہ بطور آفس استعمال ہو رہا تھا جبکہ باقی پانچ کمروں کو شعبوں کے لحاظ سے تقسیم کردیا گیا تھا۔

نیناں، داخلے کی خواہش مند خواتین کا اندراج کرتی اور انتظامی معاملات دیکھتی۔

لڑکیوں عورتوں میں وہ ”میڈم“ کے نام سے مشہور ہو رہی تھی۔ اس کام میں اسے بے پناہ مزہ آرہا تھا۔ شروع میں وہ ابیک کے ساتھ آتی رہی، وہ خود مصروف رہتا تھا اس لیے نرمی سے اسے منع کردیا کہ وہ روز اسے ساتھ نہیں لا سکتا چنانچہ وہ خود اب آتی جاتی تھی۔

عتیرہ بیگم نے بہت کہا کہ ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ مگر اس نے طریقے سے منع کردیا اور پیدل آنے جانے لگی۔

مناظر فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ آتی اور جاتی۔ وقت گزرنے اور راستہ طے ہوجانے کا پتہ ہی نہ چلتا۔

صبح دس بجے تک وہ انڈسٹریل ہوم میں موجود ہوتی۔ شام چار بجے چھٹی ہوتی، یہ وقت اس کا بہت اچھا گزرتا۔ اپنا آپ معتبر لگتا، ملک ابیک نے تو اس کی کھوئی ہوئی خودداری اور عزت نفس بحال کردی تھی۔ اب وہ ملک محل میں کام کرنے والی عام سی نوکرانی نہیں رہی تھی بلکہ انڈسٹریل ہوم کی انچارج تھی۔ ملک ابیک نے اس کی معقول تنخواہ بھی مقرر کردی تھی۔ ہفتے میں ایک دن کی چھٹی تھی، طبیعت کی خرابی یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں وہ چھٹی کرنے کی حقدار تھی۔

Episode 58 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 58 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

معاذ کا سمیسٹر ختم ہونے کے قریب تھا وہ پاکستان آنے اور اپنی ہونے والی بھابھی سے ملنے کے لیے سخت بے قرار تھا۔ ادھر ملک جہانگیر، ابیک کی شادی کا پروگرام بنا رہے تھے پر وہ شادی کو موٴخر کرنے کا بول رہا تھا۔ ابھی بھی اس مسئلے پہ ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور ابیک تینوں میں بحث ہو رہی تھی۔ ”ابیک اب کس بات کی دیر ہے۔ ماشاء اللہ تم اپنا کما رہے ہو کسی کے محتاج نہیں ہو۔

“ افشاں بیگم نے ناراضگی سے لاڈلے بیٹے کو دیکھا۔ ”امی آپ کوپتہ تو ہے کہ میں انڈسٹریل ہوم کے ساتھ اب سکول کی تعمیر کو بھی مکمل کروانا چاہتا ہوں۔ میں اس کے بعد شادی کروں گا۔“ وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔

”تم پہلے شادی کرو باقی بعد میں چلتا رہے گا۔“ ملک جہانگیر خاصے رسان سے گویا ہوئے۔ ”ٹھیک ہے بابا جان میں بات کروں گا اس پہ آرام سے۔

“ اس نے بحث ختم کرنی چاہی۔ وہ جس وجہ سے شادی کو ٹال رہا تھا، افشاں بیگم اور ملک جہانگیر دونوں اس سے لاعلم تھے۔ ”جیسے تمہاری مرضی۔“ ملک جہانگیر نے جیسے ہار مان لی۔ ”ویسے تمہارا سکول کب تک مکمل ہوگا؟“ افشاں بیگم نے پوچھا۔ ”امی ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ اس نے مبہم سا جواب دیا۔

عتیرہ کی پوری بات سننے کے بعد ذیان نے جھکا سر اوپر اٹھایا۔

اس کی آنکھیں عتیرہ کی طرف اٹھیں، ان آنکھوں میں عجیب سی بیگانگی اور سرد مہری تھی۔ ہونٹوں پہ مبہم سی مسکراہٹ رقصاں تھی جسے عتیرہ کوئی معنی پہنانے سے قاصر تھی۔ ذیان انہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ دل میں وہ بے پناہ خوش ہو رہی تھی کہ اس کا رویہٴ اب”ملک محل“ میں بسنے والوں پہ اثر انداز ہونے لگا ہے۔

 عتیرہ کی حالیہ گفتگو اور فکر مندی اس کے رویے کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

”دیکھو میں بہت خوش ہوں، تم یہاں میرے پاس آگئی ہو اور ہمیشہ کے لیے میرے پاس رہو گی۔ لیکن تمہیں اپنے اور ابیک کے مابین رشتے کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اگر وہ یہاں آتا ہے تو اس کے ساتھ اچھے طریقے سے بات کرو۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہتی کہ تم اپنی مشرقیت اور نسوانیت کو فراموش کردو مگر ابیک کو منفی خیالات دل میں لانے کا موقعہ بھی مت دو۔ اس نے مجھ سے بات کی ہے کہ ذیان شاید اس رشتے سے خوش نہیں ہے میں نے اسے مطمئن کر دیا ہے اور یہ بھی سوچا ہے کہ تمہاری شادی جلدی ہونی چاہیے۔

“ ذیان نے ان کے آخری جملے پہ بے اختیار پہلو بدلا۔ ”جی ٹھیک ہے۔“ ہمیشہ روز اول کی طرح وہ مختصراً بولی تو عتیرہ اپنی جگہ سے اٹھ کراس کے قریب آ کر بیٹھ گئیں۔ ”تم خوش رہا کرو۔“ انہوں نے پیار سے اس کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا تو ذیان کے اندر بگولے سے اٹھنے لگے۔ ”اور ہاں رات کو تمہارے لیے معاذ کی کال آئی تھی تم سو رہی تھیں میں نے نہیں اٹھایا۔

ہوسکتا ہے آج وہ پھر تمہیں کال کرے۔ اس سے بات کرلینا۔“

اس کے بالوں میں عتیرہ نے ہاتھوں سے کنگھی کرتے ہوئے بتایا۔ ”جی ٹھیک ہے کرلوں گی۔“ وہ پھر اسی انداز میں بولی۔ عتیرہ کی اتنی ساری باتوں کے جواب میں اس کے پاس ایک آدھ جملہ ہی تھا۔ وہ بحث یا تکرار بھی تو نہیں کرتی تھی جو کہا جاتا مان لیتی۔ عتیرہ نے تھک ہار کر نظریں چھت پہ جما دیں۔

ملک ابیک، آفس میں نیناں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔

”آپ کا انڈسٹریل ہوم کیسا چل رہا ہے؟“ وہ دوستانہ انداز میں باتیں کر رہا تھا۔ ”شکر ہے اچھے طریقے سے کام ہو رہا ہے۔“ ابیک کے اس طرح اچانک آنے سے وہ خوش ہوگئی تھی۔ 

”کوئی مشکل تو نہیں ہے؟“ نہیں کوئی مشکل نہیں ہے۔“ ”پھر بھی کوئی مسئلہ ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔“ ”جی ایسا ہی ہوگا۔

“ وہ سرہلاتے ہوئے بولی۔ لان کے خوبصورت پرنٹڈ شلوار قمیض میں ملبوس نیناں کو ابیک نے غور سے دیکھا۔ ”کام کرنے میں کوئی دشواری ہو تو کاری گر عورتوں میں سے آپ کسی کو ساتھ رکھ سکتی ہیں۔“ ”کام بہت اچھا چل رہا ہے۔ انڈسٹریل ہوم کی شہرت اردگرد کے دیہاتوں تک بھی پہنچ گئی ہے۔ چھ لڑکیاں آئی ہیں میرے پاس وہاں سے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد سب کمرے بھر جائیں گے۔

“ میں بہت پرامید ہوں۔ لڑکیاں بہت محنت سے کام کر رہی ہیں۔“ ”انشاء اللہ ان کو اپنی محنت کا معاوضہ بھی ملے گا۔“ ابیک مضبوط لہجے میں بولا۔

 ”میں بہت خوش ہوں آپ نے مجھے یہاں کام کرنے کا چانس دیا۔“ وہ ممنون لہجے میں بولی تو ابیک ایک بار پھر اسے دیکھنے پہ مجبور ہوگیا۔ اس نے نیناں کے الفاظ اور لہجے پہ غور کیا۔ ”آپ یہاں مطمئن ہیں میرا مطلب ہے اس کام سے؟“ ابیک نے اچانک سوال کیا۔

”میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہاں مجھے اتنی عزت ملے گی۔ یہ زندگی کا ایک نیا رخ ہے میرے لیے پر میں خوش ہوں۔“ وہ بہت شائستہ انداز میں بولی تو ابیک ایک بار پھر الجھنے لگا۔ اسے یقین ہونے لگا کہ لان کے عام سے سوٹ میں ملبوس اس کے سامنے جو لڑکی بیٹھی ہے وہ عام سی ہرگز نہیں ہے اس کا لہجہ، انداز اور شائستگی سب کچھ اور ہی ظاہر کرتی تھی۔

”ویسے آپ کی تعلیم کتنی ہے کہاں سے پڑھا ہے آپ نے؟“ ”میں نے کام… میرا مطلب گورنمنٹ سکول سے صرف میٹرک کیا ہے۔

“ جتنا اچانک سوال تھا اتنا اچانک جواب دیتے دیتے وہ رک گئی اور فوراً گورنمنٹ سکول کا نام لے دیا۔ ملک ابیک چونکے بغیر نہ رہ سکا۔ نیناں نے جس طرح اچانک ہڑبڑا کر جواب دیا وہ اسے شک میں ڈالنے کے لیے کافی تھا۔ ”ویسے آپ میٹرک پاس لگتی نہیں ہیں۔“ ابیک اسے گہری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے گھبرا کے پہلو بدلا اور گھبراہٹ زائل کرنے کے لیے مسکرانے لگی۔

اسے ابیک کی گہری نگاہوں سے ڈر لگ رہا تھا۔

نیناں یعنی رنم ابیک کے جانے کے بعد گہری سوچ میں گم تھی۔

عتیرہ اور ملک ارسلان اسے ملک محل میں ساتھ لائے تھے۔ اسے گھر میں جگہ دی اس کے ساتھ محبت سے پیش آئے کبھی اسے بے سہارا بے آسرا نہیں سمجھا نہ تحقیر اور ذلت والا سلوک کیا۔ ان کے اعلیٰ ظرف اور بامروت ہونے کے لیے ان کا نرم رویہ ہی کافی تھا۔

وہ گھر سے ایک معمولی سی بات پہ ناراض ہو کر نکلی تھی۔ اس کی یہ احمقانہ بہادری اور بے وقوفی اسے ہوٹل میں کسی بھی بڑے مسئلے میں پھنسا سکتی تھی اگر ملک ارسلان اور عتیرہ وہاں رحمت کے فرشتے بن کر نازل نہ ہوتے۔ پھر وہ اسے اپنے ساتھ گاؤں لے آئے۔ ملک محل کے مکینوں نے اسے پیش آنے والی بہت سے مشکلات سے بچایا تھا۔ ملک ابیک نے انڈسٹریل ہوم کی ذمہ داری ا س کے سپرد کر کے اس پہ مکمل اعتماد کا ثبوت دیا تھا۔

اب اسے گھر کی پپا کی یاد بھی کم کم آتی۔ اپنی ہٹ دھرمی اور بے وقوفی کو بھی وہ بھول گئی تھی۔ اب اسے ملک ابیک کی ذہانت سے خوف آرہا تھا اگر اس نے نیناں کی اصلیت پکڑ لی تو کیا ہوگا۔ اس نے اپنا بالوں کا سٹائل، لب و لہجہ، پہناوا سب کچھ ہی تو بدل لیا تھا۔ اس کے باوجود بھی جانے کیوں ملک ابیک کو اس پہ شک ہوگیا تھا۔ اپنے اس شک کا اظہار اس نے کسی پہ بھی عیاں نہیں کیا تھا۔

خاموشی سے نوٹ کر رہا تھا۔ نیناں کا لب و لہجہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتی رہی ہے۔ اس کا انداز بات چیت، رکھ رکھاؤ ایک ایک بات اس کی چغلی کھاتی تھی کہ وہ بے سہارا یا بے آسرا نہیں ہے۔ عتیرہ چچی نے بھی زیادہ کھل کر کچھ نہیں بتایا تھا۔

ملک ابیک ذیان کے روئیے کی وجہ سے الجھا ہوا تھا۔ عتیرہ چچی کی وضاحت اور یقین دہانی اسے قائل نہیں کر پائی تھی۔

اس کا خیال تھا کہ ذیان کی رضا مندی جانے بغیر اچانک رشتہ طے ہوا اور وہ ذہنی طور پہ ابھی تک تسلیم نہیں کرپائی ہے۔ اس لیے وہ شادی کو موٴخر کرنا چاہتا تھا تاکہ ذیان بھی تب تک تیار ہوجائے۔

وہ جب بھی ارسلان چچا کی طرف جاتا ذیان اسے دیکھتے ہی سرد سے تاثرات چہرے پہ سجالیتی جیسے باقی دنیا اس کے قدموں میں ہو اور کسی کی کوئی اہمیت نہ ہو۔

کبھی کبھی اس کے تاثرات میں گرمجوشی بھی جھلک آتی پر ایسا بہت کم ہوتا۔ اکثر اوقات وہ گم صم رہتی۔ ابیک کو دیکھ کر کبھی اس کے تاثرات سے ایسا نہیں لگا کہ وہ اس کی پرسینالٹی مردانہ وجاہت اور وقار سے متاثر ہوئی ہو۔ اس کے ایک ایک انداز سے”میں ہی میں ہوں“ کا اظہار ہوتا ابیک کو کبھی کبھی وہ ناراض بگڑی بچی لگتی۔ اس کی”میں“ پہ ابیک کو ہنسی ہی آتی۔

پر یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ اس کے لیے اپنے دل میں لطیف سے جذبات محسوس کر رہا تھا۔ ان جذبات کو ابیک نے اظہار کی آنچ نہیں پہنچائی تھی ابھی تک، لیکن کیا سچ میں ذیان اتنی ہی انجان اور لاپرواہ تھی جتنا خود کو ظاہر کر رہی تھی۔ ایسا ممکن تھا کہ محبت کی جس میٹھی میٹھی آگ میں نازک جذبوں کی تپش سے ابیک پگھلا جارہا تھا وہ ان سے لاعلم تھی۔ کیا ایسا ممکن تھا کہ ذیان کو کچھ خبر ہی نہ ہو۔

وہ اتنی ہی لاعلم ہو جتنی نظر آرہی ہو۔

ابیک شادی کے بعد اسے اپنے جذبات سے آگاہ کرنا چاہتا تھا اس سے پہلے شاید وہ بدک جاتی اگر وہ کچھ ایسا کرتا تو۔ جب وہ قانونی اور شرعی طور اسے اپنا بنا لیتا تب اظہار کرنے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔ وہ اپنی محبت اور جذبوں کی طاقت سے اسے پگھلا لیتا۔ ذیان شاید لڑکیوں کی اس قسم سے تعلق رکھتی تھی جو انجان بن کر فریق مخالف کی تڑپ سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ ورنہ ملک ابیک نظر انداز کیے جانے کے قابل تو نہ تھا۔ صنف نازک کی جو نگاہیں اس کی طرف اٹھیں ان میں تعریف ہوتی، ستائش ہوتی۔ اس کی بھرپور مردانہ وجاہت سے متاثر ہونے کا جذبہ ہوتا۔ بس ذیان ہی تھی جس پہ اثر نہیں ہواتھا۔

Episode 59 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 59 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ملک ارسلان، عتیرہ قاسم کو انتظار سونپ کر بیرون ملک جاچکا تھا۔ وہ یوینورسٹی سے آ کر بولائی بولائی پھرتی ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے تمام رنگ، خوشیاں، امنگیں ملک ارسلان اپنے ساتھ ہی لے گیا ہے۔ اسے سچ میں ایسا لگ رہا تھا وہ ملک ارسلان کے بغیر زیادہ جی نہیں پائے گی۔

ادھر قاسم صاحب نے اپنے دوستوں، جاننے والوں سے بیٹی کے رشتے کی پریشانی کا ذکر کیا ہوا تھا۔

وہ چاہ رہے تھے کوئی اچھا سا رشتہ ملے تو دیکھ بھال کر عتیرہ کو اپنے گھر کا کردیں۔ کیونکہ وہ اب بیمار رہنے لگے تھے۔ اللہ کے سوا کسی کا آسرا نہیں تھا۔ وہ خود اپنے ماں باپ کے اکلوتے بیٹے تھے ادھر سے بیوی کے میکے میں بھی کوئی خاص رشتہ دار نہیں تھے وہ بھی ان کی طرح اکلوتی تھی۔ کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں ناچار ہو کر وہ ان کا ساتھ چھوڑ چکی تھیں تب سے عتیرہ ان کی زندگی کا محور تھی۔

وہ اس کے لیے ماں اور باپ دونوں کا رول ادا کر رہے تھے۔ اسے تعلیم دلواتے ہوئے یونیورسٹی تک پہنچا دیا تھا اب ان کی دلی خواہش تھی کہ بیٹی اپنے گھر کی ہو جائے۔ دوستوں،جاننے والوں نے جو رشتے دکھائے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں اس حد تک پسند نہیں آیا تھا کہ وہ عتیرہ کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس تھے۔

وہ غنودگی میں تھی جب اس کے کمرے کا دروازہ زورزور سے بجایا گیا۔

باتیں کرنے کی بھی آواز آرہی تھی۔ ان میں سے ایک آواز تو عتیرہ کی تھی جبکہ دوسری نامانوس اجنبی مردانہ آواز تھی۔ اس نے دوپٹے کی تلاش میں بیڈ پہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارا۔ دوپٹہ تکیے کے پاس پڑا تھا۔ اس نے اٹھا کر کندھے پہ ڈالا کچھ دیر قبل ہی تو وہ سوئی تھی ابھی سہ پہر کے صرف چار ہی تو بجے تھے لمبی دوپہریں کٹنے کا نام نہ لیتی تھیں تھک ہار کر وہ سوجاتی۔

پتہ نہیں اس طرح دروازے پہ دستک دینے والا کون تھا اس نے سوچتے ہوئے دروازہ کھولا۔ عتیرہ کے ساتھ نوجوان لڑکا کھڑا تھا سرخ و سفید رنگت اور دلکش مردانہ نقوش لیے وہ لڑکا ذیان کو دیکھے جارہا تھا وہ جھینپ گئی تھی کیونکہ نوارد کا انداز بے پناہ بے تکلفی لیے ہوئے تھا پر عتیرہ بالکل پرسکون نظر آرہی تھیں۔ ”تو یہ ہیں ہماری بھابھی ذیان یعنی چاند کا ٹکڑا۔

“ آنے والے نے بڑی بے تکلفی سے اس کا ہاتھ خود ہی پکڑ کر مصافحہ کیا اور پرجوش انداز میں خیر خیریت دریافت کی۔

چند منٹ بعد وہ ذیان کے کمرے میں بیٹھا ہنس ہنس کر پاکستان آنے کے بارے میں بتا رہا تھا۔

”یہ معاذ تھا، ملک ابیک کا چھوٹا بیٹا اس کا ذکر تواتر سے گھر میں ہوتا تھا۔ ذیان کو اس کی بے دھڑک بے تکلفی کا سبب سمجھ میں آگیا تھا۔

“ آخری پیپر دے کر میں نے بوریابستر سمیٹا اور پاکستان بھاگا۔ مجھے اپنی بھابھی سے ملنا تھا۔ امی جان اور بابا سے مل کر سیدھا ادھر آرہا ہوں۔“ وہ روانی سے اور مسلسل بول رہا تھا۔ ذیان اسے حیرت سے دیکھے جارہی تھی۔ معاذ ابیک کے بالکل الٹ تھا۔ اس کے آنے سے گھر میں جیسے خوشیوں کی بارات اتر آئی تھی ہر سو رونق تھی وہ اپنے نام کا ایک ہی تھا زندہ دل ، ہنس مکھ، سب کا دل خوش کرنے والا۔

اپنی شوخ اور ہر ایک سے جلد گھل مل جانے والی فطرت کی بدولت وہ ذیان سے بھی بے تکلف ہو چکا تھا۔ آدھے گھنٹے میں ہی اس سے معلومات حاصل کر کے پوسٹمارٹم کر چکا تھا۔

نیناں انڈسٹریل ہوم سے فارغ ہو کر گھرلوٹی تو معاذ رونق کا بازار گرم کیے بیٹھا تھا۔ اس پہ نظر پڑتے ہی معاذ نے سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سیکوڑے۔ ”یہ کون ہے۔ جب میں گیا تھا تب تو نہیں تھی، کیا کوئی نئی نوکرانی رکھی ہے۔

واہ جی یہاں رہنے والے بڑے باذوق ہوگئے ہیں۔“وہ بے تکان بولے جارہا تھا۔ عتیرہ نے اس کی چلتی زبان کے آگے بند باندھا۔

”یہ نیناں ہے اور…“ عتیرہ اس کے بارے میں ہوٹل میں ملنے والا قصہ گول کر کے باقی سب بتا رہی تھی۔ سن کر اس نے تاسف سے نیناں کی طرف دیکھا۔ ”مس نیناں آپ کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا ہے۔“ اس کے چہرے کے تاثرات لہجے کا ساتھ دے رہے تھے۔

نیناں اس کے فراٹے بھرتی زبان سے خائف ہوگئی تھی اس لیے دانستہ منظر سے غائب ہوگئی۔

ملک جہانگیر نے معاذ کے آنے کی خوشی میں سب دوستوں اور خاندان والوں کی دعوت کی تھی۔معاذ صرف چند دنوں کے لیے آیا تھا اسے اپنی ہونے والی بھابھی سے ملنے اور دیکھنے کی جلدی تھی۔

ذیان پہلی بار ملک ابیک کے سارے خاندان سے مل رہی تھی۔

پرپل کلر کی میکسی میں ملبوس وہ معاذ ملک کے ساتھ پورے گھر میں گویا اڑتی پھر رہی تھی۔

وہ ایک ایک فیملی ممبر کے پاس لے جا کر اس کا تعارف کروا رہا تھا۔ معاذ نے اپنی بے تکلفی اور بے پناہ خلوص کی بدولت اجنبیت کی بھاری دیوار گرا دی تھی جو ذیان نے از خود اپنے اردگرد تعمیر کر رکھی تھی۔ جو کام کوئی نہ کرسکا تھا وہ معاذ نے کردکھایا تھا۔ ذیان کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ آج اس کے چہرے پہ سختی اور اجنبیت کی بجائے نرمی اور گرمجوشی تھی۔

ابیک قدرے ہٹ کر الگ تھلگ کھڑا تھا۔ نیناں بھی وہیں چکرا رہی تھی۔ عتیرہ نے اس موقعے کے لیے اسے بہت خوبصورت اور مہنگا سوٹ دلوایا تھا۔ اس سوٹ کو زیب تن کرنے کے بعد وہ قابل توجہ بن گئی تھی۔

نیناں، ملک ابیک کی سمت ایک مخصوص حصے میں موجود گھوم پھر کر چیک کر رہی تھی کہ مہمانوں کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔

ابھی تک وہ بہت پرسکون تھی کیونکہ ملک ابیک ذیان کے بغیر اکیلا اس طرف کھڑا تھا۔

نیناں کا سارا سکون معاذ غارت کرنے آپہنچا۔ اس نے ذیان کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ ابیک کو تلاش کرتے کرتے وہ سیدھا اس کے پاس آرکا۔ ”لیں اپنی امانت۔ میں متعارف کروا کروا کے تھک گیا ہوں باقی کام آپ خود کریں۔“ معاذ نے ذیان کا ہاتھ بڑی معصومیت سے ابیک کے ہاتھ میں لا تھمایا اور خود نیناں کی طرف بڑھ گیا۔ ”مس نیناں مجھے کچھ پینے کو دیں پیاس سے دم نکلا جارہا ہے۔

“ وہ پاس پڑی کرسی پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گیا جیسے بری طرح تھک گیا ہو۔ اس نے مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس کی بیباک سی حرکت کا کیا انجام ہوا۔ وہ مزے سے نیناں کی طرف متوجہ تھا جس کی نگاہ بہانے بہانے سے ملک ابیک اور ذیان کا طواف کر رہی تھی۔

ابیک نے نظر بھر کر غور سے ذیان کو دیکھا وہ آج بہت قریب تھی معاذ کی شرارت سے کچھ سنہرے پل اس کی مٹھی میں قید ہونے جارہے تھے۔

اس کا گلابی چہرہ سرخ ہوچلا تھا۔ ابیک نے اس کا ہاتھ بڑے زور سے دبایا وہ ہاتھ چھڑانا چاہ رہی تھی پر جانے ابیک کس موڈ میں تھا۔ شاید وہ سارے خاموش جذبوں کو کوئی زبان دینا چاہ رہا تھا۔ ذیان اتنے مہمانوں کی موجودگی سے گھبرا رہی تھی۔ اس نے دوسرے ہاتھ کا ناخن ابیک کے ہاتھ کی پشت پہ مارا۔ یہ اس کی طرف سے احتجاج تھا۔ ابیک کی گرفت، پرجوش اور مضبوط تھی کچھ کہتی ہوئی۔

اس کے ہاتھ میں گویا سارے جذبے سمٹ آئے تھے ہاتھ زبان بن گیا تھا۔ ذیان بزور طاقت ہاتھ چھڑا کر تیزی سے دور ہوئی اور معاذ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، نیناں معاذ کے لیے سوفٹ ڈرنک لے آئی تھی۔ معاذ کو گلاس تھماتے ہوئے اس نے ایک نظر ذیان پہ ڈالی جہاں خفت اور نروس نس تھی۔ دوسری نگاہ ملک ابیک کی طرف اٹھی جو استحقاق کے سب رنگ سمیٹے ذیان کی طرف متوجہ تھا۔ اس کا دل دھڑ دھڑ جلنے لگا۔ معاذ سے ابیک کی جسارت پوشیدہ نہیں تھی۔

Episode 60 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 60 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

”بھابھی آج آپ نے اپنی نظر اتروا لینی ہے لوگوں کے دل بے ایمان ہو رہے ہیں۔“معاذ نے ملک ابیک پہ لطیف سی چوٹ کرتے ہوئے ذیان کو مشورہ دیا تو اسے غصہ آگیا۔ تقریب کے دوران پہلی بار اس کا موڈ آف ہوا۔ ابیک اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔

معاذ نے نیناں سے پانی کا گلاس لے کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ”مس نیناں آپ تھک گئی ہوں گی۔

دو گھڑی دم لے لیں۔“ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔“ ”ویسے آج آپ بہت حسین و جمیل لگ رہی ہیں۔ اچھا آپ کہاں سے آئی ہیں آپ کے کتنے بہن بھائی ہیں کیا کیا کرتی ہیں آپ؟“ معاذ کی فراٹے بھرتی زبان سٹارٹ ہوچکی تھی وہ نیناں سے بھرپور انٹرویو کے موڈ میں تھا۔ نیناں نے امداد طلب نگاہوں سے پاس کھڑے ابیک کی سمت دیکھا، اسے ترس سا آگیا۔

ذیان سے اس نے توجہ ہٹا لی تھی۔

”معاذ ان کو عتیرہ چچی ساتھ لائی ہیں۔ میرے انڈسٹریل ہوم کا سب انتظام انہوں نے ہی سنبھالا ہوا ہے۔“ ملک ابیک نے جواب دیتے ہوئے نیناں کو مشکل سے نکالا۔ ”میں آؤں گا انڈسٹریل ہوم دیکھنے باقی بہت سی باتیں وہاں کروں گا۔“ معاذ نے جھٹ پٹ آئندہ کا پروگرام دے ڈالا۔ نیناں نے متشکرانہ نگاہوں سے ملک ابیک کی سمت دیکھا تو ذیان کے ہونٹوں پہ عجیب سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوگئی۔

معاذ مسلسل بول رہا تھا اس کے بے تکلفی اور شرارتوں کا نشانہ اب نیناں تھی۔ وہ گھبرا رہی تھی کہ معاذ کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات اس کے منہ سے نہ نکل جائے جو اسے ملک محل کے مکینوں کی نگاہوں میں مشکوک بنا دے۔ اور ملک ابیک کے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔ یہی نیناں جو رنم تھی کبھی کسی سے نہ دبنے والی نہ ڈرنے والی۔ آج معاذ کے سامنے اس کی بولتی بند تھی۔

تقریب کے اختتام پہ معاذ، ذیان کو ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔ اس نے نیناں کو بھی پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ پریشان ہو رہی تھی کہ اسے کیوں بلوایا جارہا ہے۔

”آپ دونوں خواتین تھک گئی ہوں گی اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میوزک سے لطف اندوز ہوں۔“ وہ ایسے بے تکلفی سے بولا جیسے وہ دونوں مل کر اسکے ساتھ شروع سے ہی موسیقی کی محفلوں میں حصہ لیتی آرہی ہوں۔

نیناں نے بے چارگی سے معاذ کی سمت دیکھا، چلو ذیان تو اس کی ہونے والی بھابھی ہے مگر اسے معاذ کس کھاتے میں یہاں تک لایا ہے۔

اگر کوئی برا مان جاتا تو، اسے یہی فکر کھائے جارہی تھی۔

معاذ نے ریحانہ کے دھوم دھڑکے والے سونگز چلا دئیے۔ یہ رنم کی فیورٹ سنگر تھی یونیورسٹی جاتے ہوئے وہ اکثر گاڑی میں ریحانہ کو فل والیوم میں سنتی تھی۔

معاذ اب ذیان کو اپنی فوٹوز دکھا رہا تھا اس کا ہر فوٹو کی تفصیلات بتاتے ہوئے انداز بیان اتنا دلچسپ تھا کہ ذیان ہنس ہنس کر دہری ہو رہی تھی۔ ”مس نیناں آپ کو انگلش آتی ہے۔“ معاذ نے ایک دم سوال کیا تو وہ بوکھلا گئی۔ ”نہیں تو۔“ ”اچھا جسطرح آپ میوزک انجوائے کر رہی ہیں مجھے لگا کہ آپ کو آتی ہوگی۔ ویسے آپ نے پڑھا کتنا ہے؟“ ”میں نے بی ایس آنرز کیا ہے۔

“ سچ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ ریحانہ کی پرشور آواز میں معاذ نے سنا ہی نہیں۔ اس نے شکر ادا کیا۔ معاذ کی بے تکلفی سے وہ ڈر گئی تھی۔ کیونکہ اس کی پوری توجہ نیناں کی طرف تھی۔ ذیان کو جانے کیوں نیناں کی موجودگی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ معاذ اپنی ہانکے جارہا تھا۔ ”میں نے سوچا تھا یہاں آ کر بھائی جان کی شادی کی دعوتیں اڑاؤں گا مگر وہ بھی ابھی میرے نصیب میں نہیں ہیں… کہتے ہیں ابھی شادی نہیں کرنی۔

اس نے منہ بنا کر چہرے پہ مصنوعی اداسی طاری کرلی۔ ذیان کی آنکھیں سلگ اٹھیں۔ معاذ اپنے بیگ سے ذیان کے لیے چاکلیٹیں اور دیگر گفٹس نکال رہا تھا۔ معاذ کی بات پہ نیناں کی آنکھوں میں چمک ابھری جیسے اس نے کوئی من پسند بات کہہ رہی ہو۔ اب اس کے تاثرات میں دلچسپی تھی۔ معاذ بے دھیانی اور بے تکلفی میں کام کی باتیں کر رہا تھا۔ ذیان کاؤچ سے اٹھی۔

”معاذ میں جارہی ہوں۔ سر میں اچانک درد ہو رہا ہے۔“

”بھابھی اپنے گفٹس تو لے جائیں۔“ ”بعد میں لوں گی۔“ نیناں نے اسے اٹھتے دیکھا تو وہ بھی معاذ کے کمرے سے نکل آئی۔ وہ آخری سیڑھی پہ تھی جب اس نے ملک ابیک کو اس سمت آتے دیکھا اس کا رخ بھی سیڑھیوں کی طرف تھا۔ نیناں کے آگے بڑھتے قدم خود بہ خود ہی سست پڑ گئے۔

ذیان معاذ کے روکنے کے باوجود رکی نہیں۔

وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آرہی تھی جب اوپر کی طرف آتے ابیک سے اس کا ٹکراؤ ہوا وہ ادھر ہی رک گئی تھی کیونکہ ابیک اس کے راستے میں حائل تھا وہ بالکل درمیان میں تھا دائیں بائیں اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہ سائیڈ سے ہو کر نکل جاتی۔ چند ثانیوں کے لیے دونوں کی نگاہیں آپس میں ملیں، ذیان کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں جیسے وہ اندر ہی اندر کسی کرب کو برداشت کر رہی ہو۔

اس نے فوراً پلکوں کی چلمن گرائی اور ابیک کو ایک ہاتھ سے پرے ہٹاتے ہوئے نیچے جانے کی کوشش کی۔ اس کے مہکتے رنگین آنچل کا کونہ ابیک کے بازو سے چھو گیا۔ وہ فوراً سائیڈ پہ ہوا۔ ذیان سیڑھیاں اتر گئی تھی۔ ابیک کو اس کی نگاہوں میں خاموش شکوؤں کا سیلاب مچلتا نظر آیا تھا یوں لگ رہا تھا وہ جیسے ابھی رو پڑے گی اس کی پلکوں کو ہلاتے ہی فوراً موتی ٹپک پڑیں گے۔

نیچے کھڑی نیناں نے یہ تصادم دیکھا۔

ابیک کی پشت اس کی سمت تھی پر ذیان اس کے سامنے تھی۔

اس کی لال لال آنکھوں نے نیناں کو عجیب سی تسکین بخشی تھی۔ وہ آگے بڑھ گئی تھی۔ ابیک نے آخری سیڑھی چڑھ کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ذیان برآمدے سے گزر رہی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا ذیان کے پیچھے جائے۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی اس خواہش پہ قابو پایا۔

اور معاذ کی طرف بڑھ گیا جو ذیان کے لیے لائے گئے گفٹس کو دیکھ رہا تھا۔ ”بھائی جان یہ دیکھیں میں نے بھابھی کے لیے اتنے شوق سے یہ چیزیں لیں نکال رہا تھا انہیں دینے کے لیے کہ چلی گئیں۔“ اس نے ابیک کو دیکھتے ہی شکایتی انداز میں کہا۔

”مجھے دو میں خود دے دوں گا۔“ ابیک نے آفر کی۔ ”آپ کو دیکھ کر وہ نروس ہو جائیں گی یہ نہ ہولینے سے ہی انکار کردیں۔

“ معاذ شرارت سے ہنسا۔“ نہیں نروس ہو گی تم فکر مت کرو۔“ ابیک نے اسے تسلی دی۔ ”آپ ان کے ساتھ انڈرسٹیڈنگ ڈیولپ کریں گھومیں پھریں لانگ ڈرائیو پہ لے جائیں بھابھی کو۔ ڈنر کریں ایک ساتھ۔ کیونکہ بھابھی مجھے بہت”شائے“ لگتی ہیں۔“ معاذ نے مشورہ دیا۔ ”تم مجھے اپنے ماحول کے مطابق ایڈوائس دے رہے ہو یہ ہمارا گاؤں ہے کوئی یورپ نہیں ہے۔“ ابیک نے اسے سرزنش کی تو اس نے منہ بنالیا۔

آج سامنے والے کمرے کی سب لائیٹیں آف تھیں۔ کھڑکیاں کھلی تھیں ہر کمرے سے اندر مکمل طور پہ اندھیرا تھا۔ ابیک دونوں ہاتھ ریلنگ پہ ٹکائے ادھر ہی دیکھ رہا تھا۔ ذیان شاید اس کے ہاتھ دبانے کی جرأت کو مائنڈ کر گئی تھی۔

تب ہی تو سیڑھیوں پہ سامنا ہوتے وقت اسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا تھا۔ حالانکہ ابیک نے محض شرارت میں ذیان کا ہاتھ دبایا تھا۔

معاذ کی وہ حرکت اچانک اور بیساختہ تھی اس نے ذیان کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں لا تھمایا تھا۔ وہ پہلی بار اتنے قریب آئی تھی کہ ابیک اس کا لمس محسوس کرنے کے قابل ہوا تھا۔ اس کا نازک گلابی مخروطی انگلیوں والا ہاتھ، ابیک کے ہاتھ کی گرفت میں آ کرجیسے احتجاج کر رہا تھا۔ ذیان نے ناخن اس کے ہاتھ پہ مارا تھا ابیک نے ہاتھ آنکھوں کے سامنے کیا جہاں ناخنوں سے لگنے والی خراشیں بہت واضح تھیں۔اس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی۔ صرف ہاتھ دبانے پہ اسے اتنا تاؤ آیا تھا کیا واقعی وہ اسے ناپسند کرتی ہے؟ ابیک کو رہ رہ کر یہ سوال پریشان کر رہا تھا۔

Episode 61 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 61 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

وہاب کے درشت تیور اور دھمکانے والا انداز دیکھ کر بوا اور زرینہ سچ مچ سہمی ہوئی تھیں۔ ”مجھے ہر حال میں ذیان کا پتہ چاہیے خالہ اور یہ مت کہنا کہ مجھے نہیں معلوم۔“ اس کے تاثرات بہت سفاک اور سرد تھے۔ ”وہاب میاں ہمیں نہیں معلوم۔“ بوا نے کمزور سے لہجے میں ایک بار پھر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تو وہاب غصے سے گھورتا ان کے پاس آرکا۔ بڑھیا تم تو خالہ کے ہر راز میں شریک ہو۔

تم مجھے بتاؤ گی کہ ذیان کہاں ہے، کہاں چھپایا ہے تم نے اسے بولو۔“ وہاب کا لہجہ بدتمیزی اور سفاکی کو چھو رہا تھا۔ ”وہاب بوا کے ساتھ بدتمیزی مت کرنا چھوڑ دو انہیں۔“ زرینہ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ بوا کے ساتھ اس کا لب ولہجہ بہت نامناسب تھا۔

”تو خالہ تم تمیز سے بتا دو کہ کہاں ہے ذیان؟“ وہ طنزیہ انداز میں بولتا ان کے قریب چلا آیا۔

”ذیان اپنی ماں اور سوتیلے باپ کے پاس ہے۔“ دل کڑا کرکے انہیں یہ سچ بولنا ہی پڑا ورنہ وہاب سے کچھ بعید نہیں تھا۔“ کیسے گئی وہ اپنی ماں کے پاس، یہ ایکدم سے اس کی ماں کہاں سے ٹپک پڑی۔ پہلے کہاں سوئی ہوئی تھی۔“ اس کی ماں ٹپکی نہیں ہے پہلے سے تھی اور اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے تڑپ رہی تھی۔“ زرینہ بیگم نے بڑی مشکل سے خون کے گھونٹ پی کر وہاب کا یہ انداز برداشت کیا تھا۔

جب اس کی ماں آئی تو مجھے کیوں نہیں بتایا کیوں جانے دیا اسے۔ پتہ نہیں تھا کہ وہ میری ہونے والی بیوی ہے۔ اور اس کی ماں کیوں لینے آئی اسے۔ خالو کی وفات کا کس نے بتایا اسے؟“

وہاب کے اعصاب غصے سے تن رہے تھے۔ ”میں نے بتایا اسے اور ذیان کی ماں کو میں نہیں روک سکتی تھی وہ اس کی ماں ہے۔“ ”خالہ بڑے خدمت خلق کے شوق چڑھے ہیں تمہیں۔

ذیان کو ساری عمر تم نے خون کے آنسو رلایا چین سے ٹکنے نہیں دیا اور اب اچانک انسانیت جاگ پڑی۔ پہلے تو ہمیشہ اسے ماں کے طعنے دیتی رہی کہ تمہاری ماں ایسی، تمہاری ماں ویسی۔“ وہاب طنزیہ انداز میں ماضی کا آئینہ زرینہ بیگم کو دکھایا تو وہ نظر چرا آئیں۔“ یہ میرا اور ذیان کا معاملہ تھا تم اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہو۔“ اندر سے خود کو مضبوط کرتے ہوئے زرینہ نے اس کی بات کا جواب دیا۔

”میں اعتراض کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ خالہ بتاؤں گا آپ کو، پہلے ذیان سے نمٹ لوں۔“ وہ عجیب سے لہجہ میں بولا۔ ”کیا کرو گے تم؟“ ”ذیان میری ہونے والی بیوی ہے سب سے پہلے جا کر اسے واپس لانا ہے مجھے ایڈریس چاہیے۔“ ”ہمیں ایڈریس نہیں معلوم۔ ذیان کا سوتیلا باپ خود اسے لینے آیا تھا۔“ زرینہ کا لہجہ کافی مضبوط تھا۔ ”خالہ مجھے ایڈریس چاہیے ورنہ میں کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔

پورے گھر کو آگ لگا دوں گا۔“ وہ زرینہ کے قریب جا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بول رہا تھا۔ زرینہ بیگم کو معلوم تھا کہ وہاب جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے۔ ”ذیان کی ماں کوئی معمولی عورت نہیں ہے۔ نہ اس کا سوتیلا باپ گرا پڑا ہے۔ جاگیردار ہیں وہ۔“ زرینہ نے اپنے تئیں اسے متاثر کرنے کی کوشش کی۔ ”ہا ہا ہا ہا۔“ وہاب نے بے ڈھنگا قہقہہ لگایا۔

”خالہ تمہیں تو ذیان کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے۔“ ”ہاں پتہ ہے۔“ اور اس بھول میں مت رہنا کہ تم وہاں تک پہنچ کر ذیان کو واپس لا سکو گے۔“ ”خالہ میرا نام وہاب ہے اور ذیان میری ہونے والی بیوی ہے۔ اسے کیسے اور کس طرح واپس لانا ہے یہ میرا کام ہے بس مجھے وہاں کا پتہ دو۔“

”وہاب میاں، چھوٹی دلہن کو کچھ نہیں معلوم۔“ بوا، زرینہ بیگم کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔

”تو پھر کسے معلوم ہے۔یہ معلوم ہے کہ ذیان کی ماں کوئی معمولی عورت نہیں ہے اس کا باپ جاگیردار ہے بس پتہ نہیں معلوم۔“ وہ خوفناک طنزیہ ہنسی ہنس رہا تھا۔ زرینہ اور بوا دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہاب ٹلنے والا نہیں تھا، اس نے ایڈریس لے کر ان دونوں کو چھوڑا۔

”خالہ ابھی بہت سے حساب آپ کی طرف باقی ہیں۔ لیکن پہلے ذیان والا معاملہ سیٹ کرلوں۔

وہ اب قدرے پرسکون نظر آرہا تھا۔ ”خالہ آپ کے اس گھر کی موجودہ مالیت کتنی ہوگی؟“

اس نے اچانک سوال کیا تو زرینہ چونک گئی۔ ”مجھے کیا پتہ ہے؟“ وہ تیکھے لہجے میں بولیں۔

”خالہ اگر اس کو آپ فروخت کردیں تو اچھی قیمت پہ بک جائے گا۔“ ”مجھے اپنا گھر نہیں فروخت کرنا یہ میرے بچوں کا ہے۔ آسرا ہے ہمارا۔“ ٹھیک ہے خالہ آپ اس پہ سوچ لینا۔

میں جارہا ہوں پھر ملاقات ہوگی۔“ وہ گیٹ سے باہر نکلا تو زرینہ نے خود دروازہ لاک کیا۔ شکر ہے کہ تینوں بچے سکول میں تھے ورنہ وہاب کا یہ انداز و تیور دیکھ کر سہم جاتے۔

”بوا اب کیا ہوگا؟ وہاب مردود کی نظر تو اب اس گھر پہ ہے۔“ زرینہ کو اب گھر کی فکر لگ گئی تھی۔“ میں تو کہتی ہوں کہ خاموشی سے یہاں سے نکل چلیں تاکہ وہاب میاں سے جان ہی چھوٹ جائے۔

“ بوا نے مشورہ دیا۔ ”بوا گھر چھوڑ کر جائیں گے تو وہاب کا کام آسان ہوجائے گا۔ وہ اس گھر پہ قبضہ کرلے گا۔“ زرینہ بہت فکر مند تھیں۔ ”چھوٹی دلہن میری مانیں تو اس گھر کو فروخت کردیں۔ ورنہ وہاب میاں آپ کو گھر سے بھی محروم کردیں گے۔“ ”بوا آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ اس کا شک تو مجھے پہلے سے تھا کیونکہ روبینہ آپا بھی بہانے بہانے سے بہت بار مجھے اپنے گھر رہنے کے لیے کہہ چکی ہیں۔

لیکن کیا کروں میں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے۔‘میں اکیلی عورت کہاں اس گھر کے لیے گاہک ڈھونڈوں گی۔“

”آپ امیر میاں کے وکیل سے بات کریں انہیں اپنی پریشانی بتائیں۔ وکیل صاحب بھلے مانس آدمی لگتے ہیں مجھے۔“ ”بوا یہ بات آپ نے اچھی کہی ہے۔ میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی کہ مجھے بیگ صاحب سے رابطہ کرنا چاہیے۔“ زرینہ کے لہجہ میں ایک دم امید جاگی۔

”میں ابھی بیگ صاحب سے بات کرتی ہوں۔“زرینہ نے سیل فون اٹھا کر وکیل کا نمبر ملانا شروع کردیا۔

ذیان تکیے میں منہ چھپائے خوب اونچی اونچی آواز میں رو رہی تھی۔ تکیے نے اس کا بھرم رکھ لیا تھا ورنہ اس کی آواز سب کو متوجہ کرچکی ہوتی۔ کمرے میں لگا میوزک سسٹم آن تھا۔ جانے کیوں آج اسے اتنا زیادہ رونا آرہا تھا۔ امیر علی کی وفات کے بعد آج وہ پہلی بار اتنا زیادہ رو رہی تھی۔

کوئی ٹھیس تھی یا پچھتاوا جس کی وجہ سے دل درد کا ٹکڑا بنا ہوا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

عین جس لمحے وہ رو رہی تھی اس وقت ملک ابیک، عتیرہ سے اسی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ وہ کوئی ضروری بات کرنے آیا تھا۔ عتیرہ نے بخوشی اسے ذیان کے کمرے میں جانے کی اجازت دی تھی۔ ابیک نے بات ہی ایسی کی تھی وہ خود اب امید و بیم کی حالت میں تھیں۔

ذیان کو ایسے محسوس ہوا جیسے دروازے پہ دستک ہو رہی ہے۔

اس نے تکیے سے منہ باہر نکالا۔ واقعی سچ مچ دستک ہو رہی تھی یہ اس کا وہم نہیں تھا۔ اس نے بیدردی سے دوپٹے سے آنکھیں رگڑیں اور دروازہ کھول کر دیکھے بغیر باتھ روم میں گھس گئی۔اسے نہیں معلوم کہ کون آیا تھا۔واش بیسن کا نل کھول کر اس نے لگا تار ٹھنڈے پانی کے چھپاکے ہاتھ بھر بھر منہ پہ مارے۔ باتھ روم کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا ذیان کے دوپٹے کی ہلکی سی جھلک ابیک کو نظر آئی۔ کمرے میں اُداس آواز بکھری ہوئی تھی جیسے پوری فضا سوگ منا رہی ہو۔

Leave The Winter On The Ground

I Wake Up Lonely!

 There’s air of Silence in The Bedroom 

And All Around

Touch Me Now, I Close My Eyes

And Dream Away

It Must Have Been Love, But Its over Now

It Must Have Been Good But It i Lost It SomeHow

IT Must Have Been Love, But Its

Over Now——-

Episode 62 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

سط نمبر 62 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ابیک شدت سے ذیان کے باہر آنے کا منتظر تھا۔ چند لمحے بعد منہ ہاتھ دھو کے فارغ ہونے کے بعد وہ باہر نکلی تو سچ مچ ملک ابیک کو سامنے دیکھ کر پچھتائی۔ ابیک اس کی شدت گریہ سے لال آنکھیں دیکھ چکا تھا پھر گانے کے اداس سے بول۔ ملک ابیک کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ اس کے روم میں آئے۔

ذیان کی آنکھوں میں غصہ جاگا۔ اسے ملک ابیک کا اس وقت مخل ہونا بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا۔

وہ جس حالت میں تھی ایسے میں وہ ابیک کا سامنا اپنی مرضی سے کم از کم کبھی نہ کرتی۔ وہ پہلی بار ایسے اس کے بیڈ روم میں آیا تھا۔ جانے کون سی ضرورت اسے یہاں لائی تھی۔ ذیان کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ اسے بیٹھنے کو نہیں بولے گی نہ آداب میزبانی نبھائے گی اس لیے ملک ابیک خود ہی صوفے پہ بیٹھ گیا۔ ”جی کہیے کیا بات ہے۔

“ اس کا لہجہ خشک اور سرد تھا۔

اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ابیک نے کچھ فیصلے آناً فاناً کیے ہیں۔ اس کا چہرہ بے حد سنجیدگی کے حصار میں لپٹا ہوا تھا۔ اس نے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

”ذیان آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ معاذ کم دنوں کے لیے پاکستان آیا ہے۔ بابا جان اور امی کی مرضی ہے کہ معاذ کی چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے ہماری شادی ہوجائے۔ خود معاذ بھی یہ چاہتا ہے کہ شادی اٹینڈ کر کے جائے۔

میں اسی لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ عتیرہ چچی سے اجازت لی ہے باقاعدہ آپ سے بات کرنے یہاں تک آنے کی۔“ وہ اس کی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر وضاحت دینے لگا۔“ آپ کو کسی قسم کا اعتراض تو نہیں؟“ وہ اب بغور اس کے تاثرات جانچ رہا تھا۔ وہ جواباً اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ آپ کی کیا مرضی ہے۔ وہ اسے اوروں کی خواہش کا بتا رہا تھا اور خود اس نے کہیں بھی اپنا نام نہیں لیا تھا۔

ابیک اسے منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ میکانکی انداز میں ذیان کا سر بے اختیار نفی میں ہلا۔ حالانکہ دماغ مسلسل انکار پہ اکسا رہا تھا پر دل نے دماغ کو شکست دے دی۔ ابیک کو ایسے محسوس ہوا جیسے ذیان کی روئی روئی آنکھیں مسکرائی ہوں۔“ ٹھیک ہے پھر اب شادی کے دن ہی آپ سے ملاقات ہوگی۔“ جاتے جاتے اس نے شریر جملہ اچھالا۔ وہ جارہا تھا اس کے قدموں میں کسی فاتح جرنیل کا سا وقار تھا۔

اس نے ذیان سے لمبی چوڑی بات نہیں کی تھی نہ کوئی تمہید باندھی تھی۔ صرف مختصر وقت میں چند جملوں میں اپنا مدعا نظر بیان کیا تھا ابھی ابھی ذیان پہ اس کی ایک خوبی عیاں ہوئی تھی۔ وہ قائل کرنے کی منوانے کی صلاحیت سے مالا مال تھا۔ اس کا جواب سننے کے بعد وہ رکا نہیں تھا نہ پیچھے پلٹ کر دیکھا تھا۔ کیونکہ ذیان کے دل و دماغ میں کش مکش ہونے لگی تھی۔

عتیرہ بیزاری سے میٹنگ روم کے چکر لگا رہی تھیں۔ ابیک اوپر ذیان کے کمرے میں گیا ہوا تھا۔ کچھ منٹ بعد وہ کھڑکی کے شیشوں سے سیڑھیاں اترتا نظر آیا تو وہ اٹھ کر دروازے تک پہنچ گئیں۔ وہ اتنا جلدی واپس آگیا تھا، دل میں خدشات نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا یقینا ذیان نے انکار کردیا ہوگا کہ مجھے یہ شادی منظور نہیں ہے۔ ابیک کے چہرے سے کچھ بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ جس کام کے لیے گیا تھا اس کا نتیجہ کیا رہا۔

”ابیک اتنے جلدی کیوں آگئے ہو؟“ انہوں نے دروازے پہ ہی اسے کندھوں سے تھام لیا۔ ”چچی، ذیان کو جلدی شادی پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ ابیک نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جیسے مژدہ جانفراء سنایا۔

”تم سچ کہہ رہے ہو مذاق تو نہیں کر رہے ہو؟“ وہ اسے ابیک کا ایک مذاق سمجھ رہی تھیں اور بے یقینی کا شکار تھیں۔“ چچی سو فی صد سچ۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے کیونکہ معاذ کوواپس بھی جانا ہے۔

“ ”اللہ تیرا شکر ہے۔“ عتیرہ نے بے اختیار شکر ادا کیا، انہوں نے ابیک کی بات پہ دھیان نہیں دیا تھا۔ ”ابیک میری بیٹی نے مجھ سے دور رہ کر زندگی گزاری ہے اور میں تصور کرسکتی ہوں کہ ماں کے بغیر وہ زندگی کیسے ہوگی اسی وجہ سے وہ تلخ ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے وہ بے رخی کا برتاؤ کرتی ہے تو تم پریشان مت ہوا کرو نظر انداز کردیا کرو۔ ہم سب ایک طرح سے اس کے لیے اجنبی ہی ہیں اسے گھلنے ملنے میں ایڈجسٹ کرنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔

تم میری بات سمجھ رہے ہو ناں؟“ وہ آس بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ ”چچی آپ فکر مت کریں۔ میں ان سب باتوں کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں۔“ اس نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بھرپور یقین دلایا تو عتیرہ کے ہونٹوں پہ پرسکون مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

ملک جہانگیر بہت خوش تھے۔ اور معاذ کی خوشی تو حد سے سوا تھی ورنہ وہ ابیک بھائی کی طرف سے شادی موٴخر کرنے کے فیصلے سے خوش نہیں تھا۔

افراتفری میں تیاری ہو رہی تھی کیونکہ دن کم تھے۔ عتیرہ تو بوکھلا گئی تھیں کہ اتنے کم وقت میں وہ سب کیسے کریں گی۔ پر ابیک نے سختی سے ہر قسم کے جہیز کے لیے منع کردیا تھا۔ بیڈ روم فرنیچر اس نے خود پسند کیا تھا باقی پردے قالین کلر سکیم ذیان کی پسند کی تھی۔

افشاں بیگم کے ساتھ جا کر اس نے زیورات اور شادی کا جوڑا بھی پسند کرلیا تھا۔ سب ابیک نے خود خریدا تھا۔

ادائیگی اس کی طرف سے کی گئی تھی۔

عتیرہ اور ملک ارسلان نے بہت کوشش کی تھی کہ ابیک کو جہیز کے لیے قائل کرلیں مگر اس نے ایک بار پھر سختی سے انکار کردیا تھا۔ ان دونوں میں ملک ابیک کا انکار موضوع گفتگو بنا ہوا تھا۔ نیناں بھی ان کی باتیں پاس بیٹھی غور سے سن رہی تھی۔ ”ابیک بے شک انکار کرتا رہے ہم اپنی بیٹی کو ہر چیز دیں گے۔“ یہ ارسلان تھے، ابیک کے منع کرنے کے باوجود ذیان کو بہت کچھ دینا چاہ رہے تھے۔

“ اس نے دو ٹوک منع کردیا ہے ایسا نہ ہو وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنالے۔ ویسے بھی اس نے ذیان کے لیے سب کچھ خرید لیا ہے۔ صرف ولیمے کا جوڑا باقی ہے وہ بھی ایک دو دن تک مل جائے گا۔“

عتیرہ نے ملک ارسلان کی توجہ اس طرف دلائی تو وہ کچھ سوچنے لگے۔ ”ہاں بات تو تمہاری ٹھیک ہے ابیک اصولوں کا کھرا آدمی ہے نہیں مانے گا۔“کچھ توقف کے بعد وہ بولے اور عتیرہ کی بات کی تائید کی۔

”میں بہت خوش ہوں میری بیٹی کو ابیک جیسا ہمسفر مل رہا ہے۔ میرے رب نے اتنی خوشیاں میری جھولی میں ڈالی ہیں۔ میں تمام عمر شکر ادا کرتی رہوں تو بھی کم ہے۔ میری ذیان نے ساری عمر مجھ سے دور رہ کر گزاری یہ میری کوئی نیکی تھی جو میری بیٹی پھر سے میرے پاس آگئی ہے۔“ عتیرہ کی آواز بھرا رہی تھی۔ جذبات میں انہوں نے پاس بیٹھی نیناں کی موجودگی نظر انداز کردی تھی ارسلان بھی بھول گئے تھے کہ نیناں ادھر موجود ہے۔

اس کے کان ان دونوں کی گفتگو کی طرف لگے ہوئے تھے۔ ملک ارسلان کی نگاہ اس پہ پڑی تو انہوں نے بہانے سے اسے وہاں سے ہٹا دیا۔“ ایک کپ چائے کا مل جائے تو۔“ ”جی ابھی بنواتی ہوں۔“ وہ سعادت مندی سے بولی اور باہر آگئی۔ وہ دروازے کے ساتھ لگی کھڑی تھی سماعتیں اندر سے آنے والی آوازوں کی سمت لگی تھیں۔ ملک ارسلان، عتیرہ کو تسلی دے رہے تھے۔ کسی کے قدموں کی آہٹ اسی طرف آتی محسوس ہو رہی تھی نیناں فوراً دروازے سے ہٹ کر آگے بڑھ گئی۔

زبیو نے چائے بنا دی تھی نیناں خود لے کر واپس آئی۔ اندر داخل ہونے سے پہلے وہ چند لمحے کے لیے دروازے پہ ہی ٹھہر گئی۔ ابیک اور ذیان کی شادی کا موضوع چل رہا تھا، وہ ٹرے سمیت اندر داخل ہوئی۔

”ابیک بہت خوددار ہے۔“ یہ عتیرہ تھیں۔ ”ہماری بیٹی کو اللہ نے بہترین ہمسفر دیا ہے۔“ ملک ارسلان کے لہجے میں ہماری بیٹی کہتے وقت عجیب سی مٹھاس اور اپنائیت اتر آئی تھی۔

نیناں انہی کی طرف متوجہ تھی۔

آج اسے ذرا بھی بھوک نہیں تھی۔ سر میں درد الگ ہو رہا تھا۔ وہ طبیعت میں سستی کی وجہ سے جلدی اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ ملک ارسلان اور عتیرہ کی باتوں پہ غور کر رہی تھی۔ ان کی گفتگو سے نیناں نے ایک نتیجہ نکالا تھا کہ ذیان پہلے سے حویلی میں نہیں تھی۔ اس سے پہلے وہ کہاں تھی اس بارے میں وہ لاعلم تھی۔ نیناں کو یقین تھا وہ ان دونوں سوالوں کے جواب حاصل کرلے گی۔

ان کے پیچھے کوئی پراسرار کہانی ہونے کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ ذیان سے اس کی دلچسپی یکایک بڑھ گئی تھی۔ پہلی نظر میں ہی نیناں نے اسے ناپسند کیا تھا کیونکہ وہ حسین تھی اور سب اسے اہمیت دینے لگے تھے۔ جبکہ نیناں نے اسے پہلے ان جیسی تمام مراعات پہ صرف اپنا حق ہی سمجھا ہوا تھا۔ ذیان سامنے آئی تو اندازہ ہوا کہ اس جیسے دنیا میں اور بھی ہیں۔ در حقیقت وہ ذیان کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہوگئی تھی۔

Episode 63 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 63 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

نیناں سوچ رہی تھی کہ ذیان کے بارے میں کیسے اور کس سے کس طرح معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔ فی الحال تو ملک ابیک اور ذیان کی شادی اس کے لیے شاک کا باعث بنی ہوئی تھی۔ ملک ابیک بالکل ویسا ہی تھا جیسا وہ ڈھونڈ رہی تھی۔ واہ ری قسمت تیرے کھیل۔ اس کا مطلوبہ شخص ایک اور حیثیت میں اسے ملا تھا۔ اور وہ اپنی ضد میں گھر بار عیش و آرام نازونعم سب چھوڑ آئی تھی اسے ایسا شخص مل کے نہیں دے رہا تھا لیکن یہی شخص کسی اور کو بغیر کسی ضد کے بن مانگے مل رہا تھا۔

ذیان کو تو کچھ چھوڑنا بھی نہیں پڑا تھا۔ ذیان جیسی مغرور بددماغ لڑکی جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی کیا ملک ابیک جیسا شاندار مرد اسکے لائق تھا یا وہ اس قابل تھی کہ ملک ابیک کے خواب بھی دیکھ سکے۔ ”نہیں نہیں۔“ ان تمام سوالوں کے جواب میں کوئی بڑے زورو شور سے نیناں کے اندر چیخا تھا۔

ملک ارسلان نے ذیان اور ابیک کی شادی کے لیے بہترین انتظامات کیے تھے۔

وہ ذیان کو بیٹی کی طرح رخصت کرنا چاہ رہے تھے نہیں چاہتے تھے کہ کسی بھی جگہ اسے کسی کا احساس ہو۔ اسلیے اپنی طرف سے انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ شادی سے ایک ہفتہ پہلے ہی ذیان کو مایوں بٹھا دیا گیا۔ ادھر ملک جہانگیر نے ابیک کے لیے مختص رہائشی حصے کو نئے سرے سے آراستہ کردیا تھا۔ ابیک اور ذیان کا بیڈ روم نئے اور قیمتی فرنیچر سے سجایا گیا تھا۔

انسپکیشن کے لیے معاذ خاص طور پہ نیناں کو لے کر آیا وہ بھی ذیان کو بھی کمرہ دکھا کر داد وصول کرنا چاہ رہا تھا پر عتیرہ چچی کے سمجھانے پہ باز آگیا۔ ورنہ اسے کچھ بعید بھی نہ تھا کہ ذیان کو زبردستی لے آتا۔

نیناں آراستہ و پیراستہ بیڈ روم کو غور سے دیکھ رہی تھی آنکھوں میں رشک و حسد کے ملے جلے جذبات تھے۔ معاذ حسب معمول بول رہا تھا۔

”ذیان بی بی پہلے شہر میں رہتی رہی ہیں کیا؟“ نیناں نے عام سے انداز میں سوال کیا۔ ”ہاں وہ حویلی پہلی بار آئی ہیں۔“ معاذ نے بھی عام سے ہی انداز میں جواب دیا۔ ”وہاں رہ کر انہوں نے تعلیم حاصل کی ہوگی۔“ ”آف کورس بھابھی پہلی بار حویلی آئی ہیں۔“معاذ اپنی دھن میں بول رہا تھا۔ ایکچولی ارسلان چچا، ذیان بھابھی کے سوتیلے ابو ہیں۔“معاذ نے بولتے بولتے اہم انکشاف کیا تو حیرت کی زیادتی سے جیسے نیناں جہاں کی تہاں رہ گئی۔

اس نے بڑی مشکل سے خود کو نارمل کیا ورنہ معاذ شک میں پڑ سکتا تھا۔

معاذ کی باتوں کی طرف اب اس کا دھیان نہیں تھا وہ فقط میکانکی انداز میں سر ہلا رہی تھی۔

معاذ بہت خوش تھا۔ وہ روز دن ڈھلتے ہی ذیان کی طرف آجاتا۔ گاؤں کی تمام عورتیں رات کو”ملک محل“ میں جمع ہو کر روایتی شادی بیاہ کے گانے گاتیں۔ انکے گانے ٹپوں اور ماہیوں میں دیہاتی زندگی کی سادگی اور سچائی جھلکتی تھی۔

نیناں کے لیے یہ سب بہت انوکھا تھا اور تکلیف دہ تھا۔ شہر میں ایسی رسمیں نہیں تھیں یہاں گاؤں کی رسموں میں سادگی اور خاص حسن تھا۔ جبکہ یہ رسمیں اس کے لیے تکلیف دہ ان معنوں میں تھیں کہ ذیان ان رسموں کا خاص کردار تھی۔ جب سے وہ مایوں بیٹھی تھی اسکے گھر سے باہر جانے پہ پابندی لگ گئی تھی نہ سنگھار کرنے کی اجازت تھی۔ اس نے اب شادی کے بعد ہی سجنا سنورنا تھا۔

معاذ ذیان کی طرف آتا تو اسے بھی گھسیٹ لیتا اسے ڈھولک بجانے کا اچانک ہی شوق اٹھا تھا۔ میراثنوں کو دیکھ دیکھ کر وہ اناڑی پن سے ڈھولک بجانے کی پریکٹس کرتا تو دیکھنے والوں کے پیٹ میں ہنس ہنس کر بل پڑ جاتے۔ وہ نیناں یعنی رنم کے بھی پیچھے پڑ جاتا۔ اسے معاذ سے ڈر لگنے لگا تھا تب ہی تو وہ بہت کم اس کے سامنے آتی۔

افشاں بیگم نے عتیرہ سے درخواست کی تھی کہ نیناں کو کچھ دن کے لیے ان کے پاس رہنے کے لیے بھیج دیا جائے۔

وہاں بہت کام بکھرے ہوئے تھے۔ جبکہ افشاں بیگم سے اب”ملک محل“ کی دیکھ بھال کے امور درست طریقے سے سنبھالے نہیں جارہے تھے۔ ابیک کی شادی کا ہنگامہ سرپہ تھا۔ کوئی بیٹی نہیں تھی جو بے شمار چھوٹے چھوٹے کاموں میں ان کی مدد کرتی مشورہ دیتی کیونکہ ملک ابیک کی شادی کوئی عام شادی ہرگز نہیں تھی۔ ان کے دیور ملک ارسلان کے شادی کے برسوں بعد اب”ملک محل“ میں یہ پہلی پہلی شادی اور ان کی پہلی پہلی شادی تھی وہ ایک چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی بھرپور طریقے سے پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کی خواہاں تھیں۔

اگرچہ ہر کام کی انجام دہی کے لیے بہت سی ملازمائیں تھیں ان میں انتظامی صلاحیت کا بھی فقدان تھا اس لیے تو وہ عتیرہ کے آگے درخواست کرنے پہ مجبور ہوئی تھیں۔ ”بھابھی جان آپ کے گھر میں تو نوکرانیوں کی فوج ہے پوری پھر بھی…“ عتیرہ، افشاں بھابھی کی بات پہ جی بھر کے حیران ہوئی۔

 ”نیناں پڑھی لکھی ہے سر پہ کھڑے ہو کر نگرانی کرے گی تو سب اچھا ہوگا۔

اس میں نوکروں سے کام لینے کی صلاحیت ہے۔ جب کہ میں اب سست ہوگئی ہوں، اور ٹائم بھی کم ہے۔ ملک صاحب کے ساتھ بہت سی جگہوں پہ دعوت نامہ دینے خود جانا ہے۔ ان کے کچھ قریبی دوست ہیں ملک صاحب کہتے ہیں وہاں میں خود جاؤں گا اور ظاہر ہے مجھے بھی ان کے ساتھ جانا ہوگا۔ کل شہر بھی جانا ہے۔“ افشاں بیگم نے تفصیلی جواب دیا تو عتیرہ نے سر ہلایا۔ ”میں نیناں سے کہتی ہوں بلکہ اسے ساتھ ہی لے جائیں۔

“ عتیرہ نے فوراً ہی رضا مندی دے دی تو افشاں بیگم مطمئن ہوگئیں۔

نیناں کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ عتیرہ بیگم نے اسے کچھ دنوں کے لیے ملک ابیک کی طرف شفٹ ہونے کا کہا تھا۔

اس نے بڑی فرمانبرداری سے سر ہلایا تھا۔ افشاں بیگم اسے اپنے ساتھ ہی لائی تھیں اور فوراً ہی کاموں کی ایک لمبی چوڑی فہرست بنائی تھی۔

کارڈز چھپ کے آگئے تھے۔

نیناں افشاں بیگم کی ہدایت پہ سب کارڈز ان کے پاس لائی تھی۔وہ ملک ابیک کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔نیناں کارڈز کا بنڈل ان کے سامنے رکھ کر وہیں سائیڈ پہ کھڑی ہوگئی۔ ملک ابیک کارڈ کھول کر ان پہ لکھے نام پڑھ رہا تھا۔ ”چوہدری طارق صغیر گیلانی، رانا رب نواز، احمد سیال…“ احمد سیال کے نام پہ نیناں فوراً اضطراب کا شکار ہوئی۔ بے چینی سے پورے جسم میں سرائیت کر چکی تھی۔

وہ کسی معجزے کی توقع تو نہیں کر رہی تھی پر احمد سیال کے نام پہ اسے شدید جھٹکا لگا تھا۔دماغ جو کچھ سمجھا رہا تھا دل اسے قبول کرنے پہ آمادہ نہیں تھا۔ اس نے آخری بار ہوٹل سے جب اپنے گھر کال کی تھی تو وہاں سے رونے پیٹنے کی آوازیں سنی تھیں۔ اس نے اسے اپنی غلطی سمجھا تھا اور پھر کال کی تھی لیکن اس بار بھی تو غلطی نہیں ہوسکتی تھی ہوٹل سٹاف کے ایک آدمی نے نمبر ڈائل کیا تھا اور تصدیق کی تھی۔

جس نمبر پہ اس نے کال کی تھی اس گھر کے مالک کا انتقال ہوچکا تھا۔ رونے پیٹنے کی آوازیں ان کے دکھ کا اظہار تھیں۔ وہ ادھر ہی ڈھے گئی تھی۔ اس کی تو دنیا ہی ختم ہوگئی تھی۔ جب پپا ہی نہیں رہے تھے تو وہ واپس کس کے پاس جاتی۔ اور واپس جا کے کرتی بھی کیا۔ ساری عمر ضمیر کی مجرم بنی رہتی۔ اس نے واپس جانے کے بجائے عتیرہ اور ملک ارسلان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔

یہ اس کی خوشی یا چوائس نہیں تھی بلکہ بطور سزا یہ راستہ اس نے چنا تھا۔ وہ اپنے پپا کی قاتل تھی اس کے گھر چھوڑنے کے صدمے نے ان کی جان لی تھی۔ ضمیر کی چبھن اس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔

ہر کارڈ پہ لکھا پپا کا نام جو ملک ابیک نے ابھی ابھی پڑھ کر اس کی سوچوں کو جھنجھوڑا تھا وہ تو کوئی اور ہی حقیقت بیان کر رہا تھا۔ وہ مرچکے ہوتے تو کارڈ پہ ان کا نام کیوں لکھا جاتا۔

کارڈ پہ لکھا نام ظاہر کر رہا تھا کہ وہ زندہ تھے اور انہیں شادی میں بلایا جارہا تھا۔ اس کا ذہن تیزی سے سارے واقعات پہ غور کررہا تھا۔ یقینا پریشانی میں اسے نمبر ڈائل کرنے میں غلطی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اس نے پپا کو مردہ تصور کرلیا تھا۔ اس وقت اس کی عقل کام کر رہی ہوتی تو وہ نام ضرور پوچھتی۔ اسی وقت سب کلیئر ہوجاتا تو اس وقت احمد سیال کے ساتھ ان کے گھر میں بیٹھی ہوتی اور اسے رخصت کرنے کی وداع کرنے کی تیاری ہو رہی ہوتی۔

پر وائے ری قسمت، اس میں اس کی حماقت اور بے جا ضد کا بہت بڑا ہاتھ تھا جو وہ ملک محل میں ایک معمولی، بے آسرا، بے سہارا ملازمہ کی صورت میں رہنے پہ مجبور تھی۔

کارڈ پہ لکھا احمد سیال کا نام اس کے لیے مژدہ جانفزاء ثابت ہوا تھا۔ ”احمد سیال تمہارے بابا کے وہی دوست ہیں جن کی بیٹی انہوں نے پہلے معاذ کے لیے پسند کی تھی۔“

افشاں بیگم نے ملک ابیک کو یاد کروایا۔

”ہاں امی مجھے اچھی طرح ان کا علم ہے۔“ ابیک نے احمد سیال کا کارڈ ایک طرف رکھتے ہوئے جواب دیا۔ نیناں ایک بار پھر نئے سرے سے حیران ہوئی یعنی اس کا رشتہ پہلے ملک معاذ کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ اس نے احمد سیال سے کبھی معلوم کرنے کی کوشش بھی تو نہیں کی تھی نہ دلچسپی لی تھی۔ انہوں نے بس اتنا ہی بتایا تھا کہ ان کے دوست نے اسے اپنے بیٹے کے لیے پسند کیا ہے اور اپنی فیملی کے ساتھ آنا چاہتے ہیں۔

کاش اس وقت وہ کچھ دیر کے لیے سوچ لیتی غور کرلیتی۔ افشاں بیگم کا کہا گیا جملہ ظاہر کر رہا تھا کہ اسے پہلے معاذ کے لیے پسند کیا گیا تھا پھر ارادہ بدل گیا ہوگا اور ملک ابیک کے لیے رشتہ طلب کیا گیا۔

 درست صورتحال سے اسے پپا ہی آگاہ کرسکتے ۔ ”احمدسیال کے گھر تمہارے بابا اور میں خود جائیں گے۔ ملک صاحب بتا رہے تھے کہ ان کا یہ دوست تھوڑا بیمار ہے۔

بیٹی بھی پڑھنے کے لیے باہر چلی گئی ہے۔ اور کوئی بیٹا بھی نہیں ہے۔“ افشاں بیگم نیناں کی دلی حالت سے بے خبر ابیک کے ساتھ بات کر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے نیناں کو اشارہ کیا کہ سب کارڈز اٹھا کر وہاں رکھ دے جہاں سے لائی ہے۔ نیناں نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے ٹیبل سے سب کارڈز اٹھائے وہ دروازے سے باہر آتے ہی تیز تیز قدموں سے سیدھی اس کمرے کی طرف آئی جو عارضی طور پہ اسے دیا گیا تھا۔

اس نے ڈھونڈ کر مطلوبہ کارڈ نکالا اور باقی سب الگ کر کے رکھے۔

کارڈ پہ احمد سیال کا نام گولڈن روشنائی کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اس نے بے اختیار پپا کے نام یہ ہاتھ پھیرا تو آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔ یہ خوشی کے آنسو تھے خواہ مخواہ وہ اتنے ماہ اپنے پپا کو مردہ تصور کرتی رہی۔ اس نے آنسو صاف کر کے کارڈ باقی کارڈز کے ساتھ رکھا اور اپنا سیل فون اٹھایا۔

یہ اسے عتیرہ بیگم نے لے کر دیا تھا۔ پاپا کا نمبر اسے ازبر تھا۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پپا کا نمبر ڈائل کر کے فون کان سے لگایا۔ کال فوراً ریسیو کی گئی۔ اس کا پورا وجود سماعت بنا ہوا تھا۔ دوسری طرف سے احمد سیال اپنی مخصوص مہذب آواز میں ہیلو ہیلو کر رہے تھے۔ اس نے فوراً رابطہ منقطع کردیا۔ اس بار اس کی آنکھوں میں آنسو خوشی کی وجہ سے آئے تھے۔ پپا زندہ تھے، اس کی امید زندہ تھی۔ یعنی اب وہ کوئی عام سی لڑکی نہیں تھی رنم سیال تھی اپنے پپا کی لاڈلی بیٹی دنیا جس کے جوتے کی نوک پہ تھی۔

Episode 64 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 64 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

ابیک اور ذیان کے بیڈ روم کے لیے کرسٹل کے بیش قیمت ڈیکوریشن پیسز خاص طور پہ منگوائے گئے تھے۔ افشاں بیگم خود نوکرانی کے ساتھ اس کے کمرے میں آئی تھیں۔ نیناں کا کام ڈیکوریشن پیسز کو مناسب اور موزوں جگہ پہ سجانا تھا۔ وہ بجھے دل کے ساتھ یہ کام کروا رہی تھی۔ کمرہ آراستہ و پیراستہ شاندار طریقے سے سجا ہوا کسی خیالی دنیا کا منظر پیش کر رہا تھا۔

اس کمرے میں اپنے گھر سے رخصت ہو کر ذیان نے آنا تھا۔ اور اس کے استقبال کے لیے شایانِ شان انتظامات کیے جارہے تھے۔

وہ جبراً مسکراتے ہوئے سجاوٹ کا کام کروا رہی تھی۔ اتنے میں ابیک بھی جائزہ لینے آگیا۔ اس کی آنکھوں میں اطمینان کا رنگ نمایاں تھا۔ ”آپ نے تو کمال کردیا ہے۔“ وہ نیناں کی کوشش کو سراہ رہا تھا۔ وہ بہت مشکل سے رسمی مسکراہٹ ہونٹوں پہ لانے میں کامیاب ہوئی۔

میری ساری فکر تو نیناں نے ختم کردی ہے۔ ورنہ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔“ افشاں بیگم نے بھی بیٹے کی تعریف کے جواب میں تائید کی۔ ”میں تو کہتی ہوں نیناں پکی پکی اِدھر ہی آجائے۔“ انہوں نے اس کے دل کی حالت سے بے خبر پورے خلوص سے کہا تو وہ ایک بار پھر پچھتاوؤں میں گھر گئی۔“ امی جان درست کہہ رہی ہیں آپ ہماری طرف شفٹ ہوسکتی ہیں کیونکہ امی جان اب تھک گئی ہیں۔

“ ملک ابیک نے لاشعوری طور پہ یہ آفر کی۔ جواب میں نیناں خاموش رہی۔ ایک مبہم سی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آ کے معدوم ہوگئی۔ اس کی اچانک خاموشی کو افشاں بیگم کے ساتھ ابیک نے بھی محسوس کیا تھا۔

کام مکمل کروانے کے بعد وہ وہاں رکی نہیں۔ آگے بڑھتے قدموں کے ساتھ اس کی سوچیں بھی تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھیں۔ ”پپا آپ تمام تر وسائل کے ساتھ مجھے ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے ہیں۔

“ وہ دل میں پپا سے شکوہ کر رہی تھی۔ اپنی بے وقوفی، ضد او رہٹ دھرمی اسے نظر نہیں آرہی تھی۔

ملازم وزیر بخش دودھ کا گلاس ان کی ٹیبل پہ رکھ گیا تھا۔ احمد سیال نے نیند کی دو گولیاں دودھ کے ساتھ نگلیں۔ انہیں اب اس کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔

بلڈ پریشر الگ ہائی رہنے لگا تھا۔ رنم کے جانے کے بعد وہ بہت کمزور ہوگئے تھے۔ خود کو ازخود مصروف کر لیا تھا۔

وہ بیرونی دوروں پہ پاکستان سے عرصے کے لیے غائب رہنے لگے تھے۔ اس گھر میں ان کی لاڈلی بیٹی کی یادیں بکھری پڑی تھیں۔ وہ انہیں بھلانے کے جتن کرتے تھے۔ نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود انہیں نیند بہت کم اور دیر سے آتی تھی۔ وہ اس آس پہ گھر لوٹتے کہ رنم آئی ہوگی۔ فون کی بیل بجتی تو فون کی طرف بھاگتے کہ اس کی کال ہوگی۔ گھر سے نکلتے تو آتے جاتے لوگوں کو غور سے تکتے شاید ان میں رنم نظر آجائے۔

وقتاً فوقتاً وہ فراز اور کومل سے بھی پوچھتے کہ شاید رنم نے ان سے کوئی رابطہ کیا ہو اور انہیں وہاں سے کوئی سراغ مل جائے۔ مگر ان کی ساری امیدیں ایک ایک کرکے دم توڑتی جارہی تھیں۔ رنم کا دکھ انہیں لے ڈوبا تھا۔ انہوں نے آفس سے گھر اور گھر سے آفس کا راستہ پکڑ لیا تھا۔ باقی ہر جگہ آنا جانا چھوڑ دیا تھا۔ ملک جہانگیر کا چھوٹا بیٹا پاکستان آیا تو انہوں نے بہت محبت سے احمد سیال کو بھی مدعو کیا پر انہوں نے بہانہ کردیا اور نہیں گئے۔

ملک جہانگیر ویسے ہی اصرار کر کے”ملک محل“ آنے کا بول رہے تھے اور وہ مسلسل ٹال رہے تھے۔ کل ان کے سیل نمبر پہ اجنبی نمبرسے کال آئی تو انہوں نے نمبر دیکھتے ہی جھٹ ریسیو کرلی پر دوسری طرف سے ان کے ہیلو کہتے ہی کال ختم کردی گئی۔ انہوں نے کچھ توقف کے بعد اس نمبر پہ تین بار کال بیک پر کوئی رسپانس نہیں ملا۔ نہ جانے کیوں ان کا دل کہہ رہا تھا یہ رنم کی کال تھی۔

ملک جہانگیر،معاذ کے ساتھ،احمد سیال کے گھر انہیں ابیک کی شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تھے۔معاذ نے پہلی بار ان کا گھر دیکھا تھا اور بیحد متاثر نظر آرہا تھا۔

دونوں دوست باتیں کر رہے تھے۔ معاذ چائے پی کر ڈرائنگ روم سے باہر آیا۔ اسے واش روم جانا تھا۔ وہ واش روم جانے کے لیے کوریڈور سے سے گزرتے رک گیا۔ اچانک ہی اس کی نظر وہاں دیوار پہ لگے فوٹو گراف پہ پڑی تھی۔

اس کے رکنے کی وجہ وہی فوٹو تھی۔ وہ سو فی صد نیناں تھی۔ معاذ نے قریب جا کر دیکھا، حیرت انگیز طور پہ اس کی شکل نیناں سے مل رہی تھی جسے ابھی ابھی کچھ گھنٹے پہلے وہ خود ملک محل میں دیکھ کے آیا تھا۔ اس سے اپنی حیرت چھپائی نہیں جارہی تھی۔ اس نے گھر میں جگہ جگہ نیناں سے مشابہت رکھنے والے بے شمار فوٹو دیواروں پہ لگے دیکھے۔

وہ واپس آیا تو ملک جہانگیر، وہاں موجود نہیں تھے احمد سیال اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔

ملک جہانگیر عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ اور احمد سیال ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔ پچھلی دیوار پہ بھی اس لڑکی کی تصویر آویزاں تھی۔ معاذ نے جرأت سے کام لیتے ہوئے اس بار ے میں پوچھ ڈالا۔ ”یہ میری بیٹی رنم ہے ہائر اسٹڈی کے لیے ابراڈ گئی ہوئی ہے۔“ انہوں نے برا منائے بغیر بتایا۔ ”آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے۔“ معاذ نے موضوع بدلا اور ان کے گھر کی تعریف کی تو وہ خوش ہوگئے۔

ملک جہانگیر نماز پڑھ کر آئے تو احمد سیال نے ملازم کی معیت میں معاذ کو اپنا گھر دیکھنے بھیجا۔

ملازم نے اسے رنم بی بی کا کمرہ بھی دکھایا۔ جہاں اس کے بچپن، جوانی ، سکول کالج، یونیورسٹی اور دوستوں کے ساتھ کئی تصویریں دیواروں پہ سجی تھیں۔ کچھ فوٹو فریم میں مقید سائیڈ ٹیبل پہ بھی رکھے تھے۔ وہ ہر رنگ میں نہ جانے کیوں نیناں سے حیرت انگیز طور پہ مل رہی تھی۔

دونوں میں صرف لباس، جگہ اور سٹائل کا فرق تھا۔

وہ واپسی میں بھی نیناں اور رنم کی خطرناک حد تک مشابہت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ”بابا جان آپ نے مجھے اپنے کسی دوست کی بیٹی کے بارے میں بتایا تھا کچھ ماہ پہلے۔“ گاڑی کے شیشے سے باہر تکتے ملک جہانگیر سے اس نے سوال کیا۔ ”ہاں میں نے تم سے بات کی تھی پر تم مانے ہی نہیں۔ پھر میں نے سوچا تم نہ سہی ابیک سہی پر تمہاری ماں دل سے راضی نہیں تھی اور ابیک کی بھی خاص مرضی نہیں تھی۔

“ ملک جہانگیر نے جواب دیا۔ ”اچھا۔“

 ”و ہ احمد سیال کی بیٹی ہی تھی جن کے گھر سے ہم ابھی واپس آرہے ہیں۔“ انہوں نے انکشاف کیا۔

”بابا جان احمد انکل کی بیٹی کہاں ہے اب کیا کر رہی ہے؟“معاذ نے سوال کیا حالانکہ احمد سیال اسے بتا چکے تھے۔ ”احمد کی بیٹی پاکستان سے باہر پڑھنے کے لیے گئی ہوئی ہے۔ میری دلی خواہش تھی کہ احمد کی بیٹی میری بہو بن جائے۔

“ ”بابا جان آپ اس سلسلے میں احمد انکل کے گھر گئے تھے؟“ ”کچھ نہیں احمد کی بیٹی پاکستان سے باہر چلی گئی ہے۔ بات چلنے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔“ پھر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟“

ملک جہانگیر نے گہری نگاہ سے اسے تکتے ہوئے سوال کیا۔ ”بابا جان ایسے ہی۔وہ امی جان بھی ذکر کر رہی تھی ناں اس لیے۔“ معاذ نے بروقت امی کا نام لے کر ملک جہانگیر کو مطمئن کیا۔

”ویسے میں نے احمد کی بیٹی کو پہلی بار دیکھا تو تمہارے لیے پسند کیا تھا۔ اس کا جوڑ تمہارے ساتھ ہی تھا۔“ انہوں نے اسے آگاہ کیا تو وہ سر ہلا کر رہ گیا۔

نیناں، تمام نوکرانیوں کو مختلف کاموں کے سلسلے میں ہدایات دے رہی تھی۔ گزشتہ دس منٹ سے معاذ ادھر بیٹھا ہوا تھا اور دس منٹ سے ہی اسے گہری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔

نیناں نے بال باندھ کر دوپٹہ اچھی طرح سر پہ لیا ہوا تھا۔

اب تو اس کے بال اچھے خاصے لمبے ہوگئے تھے وہ چوٹی کی صورت باندھنے لگی تھی۔ ”حیرت انگیز، ناقابل یقین۔“ وہ نیناں کو غور سے تکتے ہوئے بڑبڑایا۔ وہی بال ویسی ہی آنکھیں وہی ناک نقشہ تھا جو فوٹو میں نظر آنے والی احمد سیال کی بیٹی کا تھا۔ احمد سیال کی بیٹی ماڈرن امیر گھرانے کی پروردہ تھی جبکہ نیناں جو ملک محل میں اس وقت موجود تھی ایک بے سہارا لڑکی تھی۔

معاذ کو پورا یقین تھا اگر نیناں کو تصویر میں نظر آنے والی رنم سیال جیسے کپڑے پہنا کر بال اسٹیپس میں کاٹ کر احمد سیال کے گھر لے جایا جائے تو وہ اسے نیناں کی حیثیت سے کبھی بھی پہچان نہیں پائیں گے۔

نیناں اس کی نگاہوں سے الجھن محسوس کر رہی تھی پر یہ ہوس آلود نگاہیں نہیں تھیں۔ اسے خبر نہیں تھی کہ ملک جہانگیر اور معاذ اس کے گھر سے ہو کر آرہے ہیں۔

افشاں بیگم مصروفیت کی وجہ سے ساتھ نہیں گئی تھیں ورنہ افشاں بیگم کو علم ہو ہی جاتا۔ پھر شاید معاذ کی گہری نگاہوں کا مطلب بھی اسے سمجھ آجاتا۔ اس وقت تو وہ پریشان ہو رہی تھی۔

ملک ارسلان نے عتیرہ کے مشورے سے مدعو کیے جانے والے مہمانوں کی فہرست حتمی طور پہ تیار کرلی تھی۔ عتیرہ نے بہت سے کارڈز ذیان کو دئیے تھے۔ وہ جس کو چاہے انوائیٹ کرے، جب عتیرہ نے کارڈز اسے دئیے تھے تب کوئی خاص نام اس کے ذہن میں نہیں تھا لیکن وہ ذرا اکیلی بیٹھ کر سوچنے کے قابل ہوئی تو اسے بوا رحمت، زرینہ بیگم، آفاق، رابیل اور مناہل سب بے طرح یاد آئے، جب سے وہ ملک محل میں آئی تھی اس کے بعد سے لے کر اب تک اس کا ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔

امیر علی کا گھر چھوڑتے ٹائم زرینہ بیگم نے سختی سے منع کیا تھا کہ ہم میں سے کسی کے نمبر پہ بھی کال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ضرورت ہوگی ہم خود فون کرلیں گے۔ ایسی ہی نصیحت اسے بوا نے بھی کی تھی کہ یہاں اب آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن آج اسے ان سب سے بات کرنے کی ملنے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔

آفاق، رابیل اور مناہل تینوں اس کے بہن بھائی آخری ملاقات میں سہمے اورگھبرائے ہوئے تھے۔

یاد آنے پہ ذیان کی آنکھوں میں نمی سی چمکی۔ آفاق بے شک چھوٹا تھا پر بھائی تو تھا۔ بے شک ان کی مائیں الگ الگ تھیں پر باپ تو ایک تھا ناں۔ کیا ہوا جو انہوں نے آپس میں محبت نہیں جتائی۔ نہ بہن بھائیوں کی طرح لڑے ضدیں کی نہ روٹھے نہ ایک دوسرے کو منایا لیکن اس کے باوجود ان کا آپس میں اٹوٹ رشتہ تھا کوئی جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ ذیان یہاں ملک محل میں تھی اور وہ یہاں سے سینکڑوں میل دور شہر میں تھے پر اس دوری نے دلوں میں بھڑکنے والے محبت کے الاؤ اور خون کی کشش کو بڑھا دیا تھا۔

بے اختیار اس نے کارڈز پہ زرینہ آنٹی کا نام لکھا دوسرے کارڈ پہ خوش خط انداز میں اس نے بوا رحمت کا نام لکھا۔ کارڈ لفافے میں ڈال کر وہ عتیرہ کے پاس لے گئی۔ وہ اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر چونکیں۔ ذیان بہت کم ان کے بیڈ روم میں آتی تھی اس لیے وہ حیران ہو رہی تھیں۔ ”ماما ان کو بلوا لیجیے گا میں نے کارڈز پہ نام لکھ دئیے ہیں۔“ اس نے کارڈ ان کی طرف بڑھائے۔

انہوں نے کارڈ پہ لکھے نام بغور پڑھے۔ ”تم یہ نہ بھی کرتی تو میں نے تب بھی ان کو بلوانا تھا۔ بوا کے بہت سے احسانات ہیں مجھ پہ۔ زرینہ بیگم اور بوا نے زندگی کی سب سے بڑی خوشی مجھے بخشی ہے۔ میں خود جاؤں گی شہر ان کے گھر اور انہیں ساتھ لے کر آؤں گی۔“ عتیرہ نے دونوں ہاتھ اس کے شانے پہ رکھے اور محبت سے اس کے سر کے بالوں پہ ہاتھ پھیرا۔ وہ بہت کم انہیں اس طرح مخاطب کرتی تھی اور ماما تو کبھی کبھار ہی بولتی تھی زیادہ تر آپ کہہ کر کام چلاتی۔

اس لیے وہ بہت خوش تھیں۔ ”ہاں آپ بوا کو لازمی ساتھ لے کر آنا۔“ ذیان کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ ابھری تو عتیرہ سو جان سے جیسے اس مسکراہٹ پہ فدا ہونے لگیں۔ وہ اس سمے کچھ اور بھی کہتی تو انہوں نے لازمی ماننا تھا۔

Episode 65 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 65 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

بوا، زرینہ بیگم اور تینوں بچے اُداس اور خاموش بیٹھے تھے۔

گھر کا سودا ہوچکا تھا۔ آج ان کی اس گھر میں آخری رات تھی۔ وہاب کی دھمکیوں سے زرینہ بیگم بے حد خوفزدہ تھیں۔ انہوں نے اپنے وکیل سے مشورہ کیا تھا۔انہوں نے تو مکان نہ بیچنے پہ زور دیا تھا پر زرینہ نے حالات کے رخ کو دیکھتے ہوئے دل پہ پتھر رکھ کر مکان فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہاں رہنے سے وہاب کی تلوار سر پہ لٹکتی رہتی وہ آئے روز دھمکاتا اور زندگی اجیرن کرتا۔اس لیے انہوں نے یہاں سے بہت دور ایک اور علاقے میں اپنے وکیل کے توسط سے ہی نیا گھر خریدا تھا۔

زندگی کی بہت سی خوشگوار بہاریں انہوں نے اسی گھر میں دیکھی تھی۔ پھر امیر علی سے جدائی کا ابدی غم بھی انہوں نے اسی گھر میں برداشت کیا تھا۔ یہ گھر ان کے لیے اینٹ پتھر اور سیمنٹ سے تعمیر کردہ محض ایک عمارت نہ تھا بلکہ ان کے خوابوں کی جنت اسی گھر میں تھی۔ بوا نے بھی اپنی عمر کا بڑا حصہ اسی گھر میں گزارا تھا۔ انہیں بھی بے حد دکھ نے گھیرا ہوا تھا۔

دل گرفتہ زرینہ کو انہوں نے تسلی دی تو وہ پھیکے انداز میں مسکرائیں جس میں اُداسی کا رنگ رچا ہوا تھا۔ ”بوا صبح جلدی نکلنا ہے اس لیے اب سوجانا چاہیے۔“ انہوں نے اپنے آنسو پیتے ہوئے بوا سے نظر چرائی تو بوا نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔

عتیرہ اور ملک ابیک دونوں دعوت نامہ لے کر امیر علی کے گھر پہنچے تھے۔ بیل بجانے پہ اندر سے جو صاحب برآمد ہوئے وہ ان دونوں کے لیے تو اجنبی تھے ہی لیکن اس گھر کے مکینوں سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

انہوں نے حال ہی میں یہ گھر خریدا تھا اور پرانے مالک مکان کے بارے میں وہ لاعلم تھے۔ نئے مالک مکان کا نام عباس احمد تھا۔ وہ عتیرہ اور ملک ابیک کی قیمتی گاڑی، رکھ رکھاؤ اور شکل و صورت سے خاصے متاثر نظر آرہے تھے۔ ملک ابیک اور عتیرہ واپسی کا ارادہ باندھ ہی رہے تھے جب وہاں گیٹ پہ وہاب کی گاڑی رکی۔ وہ گیٹ پہ ایک اجنبی صورت کو بے تکلف انداز میں کھڑے دیکھ کر سٹ پٹا سا گیا واپسی کے لیے مڑتی قیمتی گاڑی کو بھی اس نے بغور دیکھا تھا۔

”السلام علیکم۔“ وہ گیٹ کے بیچوں بیچ کھڑے عباس احمد سے مخاطب ہوا۔ ”جی میں وہاب ہوں۔ آپ کون اور یہ اس طرح یہاں کیوں کھڑے ہیں۔“ اپنا تعارف کرواتے اور آخری جملہ ادا کرتے ہوئے اس کا لہجہ خود بہ خود ہی سخت سا ہوگیا۔ ”میں اس گھر کا نیا مالک عباس احمد ہوں۔“ اجنبی صورت نے اپنا تعارف کروایا تو وہ پریشانی سے انہیں تکنے لگا جیسے سننے میں کوئی غلطی لگی ہو۔

“ یہ گھر میری خالہ زرینہ امیر علی کا ہے تین دن پہلے تک تو وہ یہاں ہی تھیں۔“ ”میں کل ہی اپنی فیملی کے ساتھ شفٹ ہوا ہوں۔ میں کسی زرینہ امیر علی سے واقف نہیں ہوں میں نے یہ گھر بروکر کے توسط سے خرید اہے۔“ عباس احمد کے بتانے پہ حیرتوں کے جال وہاب کے چہرے پہ پھیلتے جارہے تھے۔

”آپ نے یہ گھر کب خریدا ہے؟“ حیرت کی جگہ اب شدید غیض و غضب اور اشتعال نے لے لی تھی۔

”میں نے یہ گھر پچھلے ہفتے ہی خریدا ہے اور تمام ادائیگی بھی کردی ہے۔“ عباس احمد تفصیل بتانے کے ساتھ ساتھ وہاب کے تاثرات کا بھی بغور جائزہ لے رہے تھے۔ ”ابھی ابھی ایک اور صاحب اور خاتون بھی آئے تھے مذکورہ خاتون کا دریافت کرنے۔“ ”اس بلیک کار میں جو ابھی ابھی گئی ہے؟“ ”جی ہاں اسی گاڑی میں آئے تھے۔“ وہاب اپنے ذہن میں تیزی سے کچھ سوچ رہا تھا۔

وہ اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے وکیل کی طرف جارہا تھا۔ اس کے ذہن میں سب سے پہلا نام وکیل کا آیا تھا۔ امیر علی کا وکیل مکان کی فروخت اور زرینہ خالہ کی موجودہ رہائش سے یقینا واقف ہوتا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ وکیل صاحب کے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پے درپے سوالات پہ انہوں نے مکمل حیرت اور لاعلمی کا اظہار کیا۔ ”مجھے قطعی طور پہ علم نہیں ہے کہ زرینہ بیگم نے مکان فروخت کردیا ہے کم سے کم انہیں مجھے تو بتانا چاہیے تھا۔

“ وکیل صاحب خود الجھے ہوئے تھے۔ ”یہ آپ میرا نمبر رکھ لیں جب بھی خالہ آپ سے رابطہ کریں مجھے اس نمبر پہ اطلاع کردیجئے گا۔“ وہاب نے کارڈ پہ لکھا اپنا نمبر انہیں دیا۔ ”جی ضرور۔“ وکیل صاحب خوشدلی سے بولے۔ وہاب ان کے آفس سے نکلا تو انہوں نے زرینہ بیگم کو فون کر کے وہاب کی آمد سے مطلع کیا۔ وکیل صاحب سچ میں درد مند آدمی تھے انہوں نے مکان فروخت کرنے سے لے کر نیا گھر خریدنے تک زرینہ بیگم کا پورا پورا ساتھ دیا تھا اور خود کو بھی محفوظ رکھا تھا۔

وہاب کے لیے یہ پتہ چلانا آسان نہیں تھا کہ وکیل صاحب نے پس پردہ رہ کر زرینہ بیگم کی مدد کی ہے۔ ان کے امیر علی سے اچھے تعلقات رہے تھے اسی وجہ سے انہوں نے امیر علی کے گھرانے کو مشکل اور کڑے وقت میں اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا تھا۔ زرینہ بیگم، وہاب سے بے حد خوفزدہ تھیں انہوں نے وکیل صاحب کو حرف بہ حرف تمام حقیقت بتائی تھی۔ وہاب کو دیکھتے ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے پتہ چل چکا ہے تب ہی وہ ان کے پاس آیا ہے۔

انہوں نے خوبصورتی سے ٹال دیا تھا۔

                                       

وکیل کے آفس سے باہر نکل کر وہاب نے گاڑی فل اسپیڈ پہ چھوڑ دی تھی۔اس نے زرینہ خالہ کا نمبر ملایا پر نمبر بند جارہا تھا۔ اس کا اندازہ اسے پہلے ہی تھا۔ خالہ کے گھر کے گیٹ پہ اجنبی صورت دیکھتے ہی اس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ واپسی کے لیے مڑتی کالی کار اور اس میں بیٹھے افراد کی ہلکی سی جھلک نے اُسے بے چین کر رکھا تھا۔

اس ٹائم پریشانی کی وجہ سے اس نے عباس احمد سے ان کی بابت زیادہ نہیں پوچھا تھا۔ ورنہ ان کے کہنے کے مطابق وہ بھی زرینہ خالہ کے بارے میں ہی پوچھنے آئے تھے۔ وہاب دوبارہ عباس احمد کی طرف جارہا تھا اسے کالی کار والوں کے بارے میں مزید معلوم کرنا تھا۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ عباس احمد گھر پہ ہی مل گئے اور بدقسمتی سے وہ کالی کار والوں کی آمد کے مقصد سے لاعلم تھے کیونکہ انہوں نے صرف زرینہ بیگم کے بارے میں ہی تو پوچھا تھا خود وہ کس لیے آئے تھے یہ نہیں بتایا تھا۔

وہاب نے کار کے اسٹیئرنگ پہ زور سے مکا مارا۔ آج کا دن ناکامیوں بھرا تھا۔ حالانکہ وہ پوری تیاری سے آیا تھا۔ ”مکان کی پاور آف اٹارنی اس کی جیب میں تھی صرف خالہ سے دستخط ہی تو کروانے تھے۔ اس مقصد کے لیے چھوٹا اور جدید ریوالور اس کے پاس تھا۔ خالہ اڑی تڑی کرتی تو ریوالور دکھا کر انہیں رام کیا جاسکتا تھا۔ پر اس کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آئی۔

پہلے ذیان اور اب خالہ نے اسے شدید ترین شکست سے دوچار کیا تھا۔

”امی میں خالہ کو کہاں ڈھونڈوں؟ پہلے ہی ذیان والے مسئلے کی وجہ سے دماغ خراب ہو رہا ہے اور اب یہ خالہ اچانک مکان فروخت کر کے غائب ہوگئی ہیں۔ میں کیا کروں اتنا سنہرا موقعہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ میں تو ذیان کے ساتھ ساتھ خالہ کے مکان کا سوچ کر خوش ہو رہا تھا اتنی بہترین لوکیشن اف۔

“ ”میں کیا کروں…“ وہاب نے اپنے سر کے بال مٹھی میں جکڑ لیے۔ وہ شدید طور پہ غیض و غضب کا شکار ہو رہا تھا۔ خالہ زرینہ کے ساتھ ساتھ ذیان نے بھی چار چوٹ کے مار دی تھی۔ خیر وہ اسے بچ کے جانے نہیں دے گا کسی بھی قیمت پہ سہی حاصل کر کے رہے گا اور خالہ کو بھی سبق سکھا کے رہے گا جن کی وجہ سے امیر علی کا قیمتی مکان ا س کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ مکان کی کمرشل ویلیو بہت اچھی تھی وہاب کا منصوبہ تھا کہ خالہ کو کسی طرح اپنے گھر چل کر رہنے کے لیے راضی کرے گا اور خود مکان فروخت کردے گا۔

اس نے پیسے دے دلا کر سب پیپرز تیارکروائے ہوئے تھے کہ جب وقت پہ اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

”میں تو کہتی ہوں لعنت بھیجو ذیان پہ۔ پر زرینہ کی ہمت اور جرأت پہ میں حیران ہوں کیسے تن تنہا اتنا بڑا گھر فروخت کر کے راتوں رات غائب ہوگئی ہے۔ زرینہ کسی طرح بھی میری بہن نہیں لگتی۔ ہم نے تو اس کی بھلائی ہی سوچی تھی کہ اکیلی عورت ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ ہے کیسے اتنے بڑے گھر میں تنہا رہے گی۔

برے حالات میں عورت کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ہم نے تو اپنی طرف سے نیکی کرنے کا سوچا تھا پر کیا فائدہ۔“ روبینہ نے ہاتھ لہراتے ہوئے تیز تیز کہا۔ ”اماں میں خالہ کو اس کی ہمت اور جرأت کا انعام دوں گا۔ ویسے بھی خالہ نے جو کارنامہ کیا ہے اس پہ ان کو ایوارڈ شوارڈ تو ملنا چاہیے۔“ وہاب کے ہونٹوں پہ سفاک مسکراہٹ رقصاں تھی۔

بدن کی قید سے نکلیں تو اس نگر جائیں

جہاں خدا سے کسی شب مکالمہ ہوگا

جہاں پہ روح کا بھی کوئی حق ادا ہوگا

نہ دل کو تنگ کرے گی حصول کی خواہش

نہ کوئی خدشہٴ لاحاصل ستائے گا

ہمیں قبول نہ ہوگی صدائے نوحہ گری

کہ پھر وصول نہ ہوگی شکست سادہ دلی

نہ مرحلے وہ شفقت کے پیش جاں ہوں گے

کہ جن کے خوف سے لب تنہا بھول جاتے ہیں

نہ ایسی شب کی مسافت کا سامنا ہوگا

جہاں پہ چراغ وفا نہیں جلتا

لبوں کی شاخ پہ حرف دعا نہیں کھلتا

کہیں پہ کوئی خراج آشنا نہیں ملتا

عذاب ترک مطلب سے بھی اب مکر جائیں

زمین کی قید سے نکلیں تو اس نگر جائیں

جہاں خدا سے کسی دن مکالمہ ہوگا

جہاں پہ روح کا بھی کوئی حق ادا ہوگا

ذیان نے نماز پڑھ کر بہت دل سے دعا مانگی۔

وہ عتیرہ بیگم کا انتظار کر رہی تھی وہ شہر گئی ہوئی تھیں انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق بوا کو ساتھ لے کر آنا تھا۔ ذیان کا ٹائم ہی نہیں گزر رہا تھا۔

وہ نماز کی ادائیگی کے بعد اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھی جب باہر سے چہل پہل اور مخصوص آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ عتیرہ واپس آگئی ہیں اور سب الرٹ ہوگئے ہیں۔ اس نے اشتیاق سے باہر جھانکا کہ بوا بھی ہوں گی۔

پر عتیرہ اکیلی تھیں اور اسی کی طرف آرہی تھیں۔ مایوسی اور ناکامی ان کے چہرے پہ لکھی تھی۔ ”کیا بوا اور زرینہ آنٹی نے آنے سے انکار کر دیا ہے۔“ سب سے پہلے یہی سوچ اس کے دماغ میں آئی۔ وہ عتیرہ کے بولنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ”وہ لوگ گھر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں اور ان کے نئے گھر کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔میں بہت شرمندہ ہوں اپنا وعدہ پورا نہ کرسکی۔ ”عتیرہ کے لہجے میں ندامت اور شرمندگی تھی جیسے ان کا قصور ہو۔

Episode 66 – Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 66 – میں گمان نہیں یقین ہوں – نبیلہ ابر راجہ

”بھلا وہ لوگ گھر چھوڑ کر کہاں جاسکتے ہیں۔ میرے آنے تک تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ کیوں گئے ہیں وہ ایسے۔“ ذیان خود کلامی کے انداز میں بڑبڑائی۔ کوئی لفظ عتیرہ کی سماعتوں تک رسائی حاصل نہ کرسکا۔ ”آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے آپ کی شرمندگی سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ کوئی نقصان ہے۔ گزر جانے والے لمحوں کی تلافی آپ کر نہیں پائیں گی۔

زرینہ آنٹی نے گزرتے اٹھارہ برس میں اٹھارہ ارب بارمجھے بتایا ہے کہ تم ایک سال چند ماہ کی تھی جب تمہاری ماں تمہیں چھوڑ گئی تھی۔ ایک سال ڈیڑھ سال کیا عمر ہوتی ہے۔ بچے کو اپنا تک پتہ نہیں ہوتا ماں ہی ماں اس کے لیے سب کچھ ہوتی ہے۔ بچے کی زباں اُس کی ضرورتیں وہی سمجھ سکتی ہے۔

 زرینہ آنٹی میرے سامنے آفاق، رابیل، مناہل کو چومتی، گلے لگاتیں لاڈ کرتیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتیں۔

“ بولتے بولتے ذیان لمحہ بھر کے لیے رکی اور دھواں دھواں چہرے والی عتیرہ کی سمت دیکھا جس کی آنکھوں میں حیرانی، دکھ، افسوس، بے چارگی، لاچاری، درماندگی سمیت جانے کون کون سا جذبہ رقم تھا۔ ذیان سیدھی ان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ عتیرہ کو لگ رہا تھا یہ نگاہیں اسے اندر تک چھید ڈالیں گی۔ ذیان نے پہلی بار اس سے اتنی زیادہ باتیں کی تھیں ورنہ پہلے تو عتیرہ اس کے لفظ گنتی تھی پر آج وہ پورے جملے بول رہی تھی مکمل معنوں کے ساتھ۔

”لیکن میری ماں میرے ساتھ نہیں تھی۔ انیس سال تک بوا نے میری پرورش کی، ماں بن کرباپ بن کر، دوست بن کر۔ ان کے روپ میں میرے سب رشتے تھے۔ وہ میری ماں بھی تھی، میری بہن بھی، میرا بھائی بھی، میرا باپ بھی اور میرا دوست بھی۔ وہی میری ہمدرد تھیں۔ مجھے ایک ایک پل ایک ایک لمحہ یاد ہے جب مجھے ماں کی ضرورت پڑی بوا نے میری انگلی تھام لی۔ زرینہ بیگم، امیر علی میری ماں کے خلاف زہر اگلتے رہے۔

ماں کا نام تک لینے پہ پابندی تھی گھر میں۔ پر بوا رات کی تنہائیوں میں چھپ چھپ کر مجھے ماں کی ماں جیسی پری کی کہانیاں سناتی رہی۔

وہ کوئی بری بات کر ہی نہیں سکتی تھیں انہوں نے میری ماں کو بھی چاند کی پری بنا کر پیش کیا۔

کبھی وہ ماں کو پھولوں کی تتلی کے روپ میں ڈھالتی تو کبھی بادلوں کی رانی کا خطاب دیتیں لیکن وہ سب جھوٹ تھا۔

میں پانچ سال کی تھی جب زرینہ آنٹی نے مجھے بتایا کہ تمہاری ماں اپنے عاشق کی خاطر تمہیں اور تمہارے باپ کو چھوڑ گئی تھی۔ میری وہ عمر ایسی نہیں تھی جو ایسے بوجھ سہار سکتی۔ میں پانچ سال کی عمر سے ہی بالغ ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن بوا ہمیشہ کوشش کر کے مجھے میرے بچپن کی طرف گھسیٹ کر لے جاتی جہاں میری ماں چاند کی پری بن کر مجھے چاند سے دیکھتی اور رات کو چاند سے نکل کر مجھے لوری سناتی۔

بوا مجھے بتاتی تمہاری ماں مجبور تھی لیکن زرینہ آنٹی کہتی تمہاری ماں عشق کے ہاتھوں مجبور تھی۔ بوا پردے ڈالتیں زرینہ آنٹی پردے چاک چاک کر دیتی کوئی ماں ایسا نہیں کرتی اپنی سگی اولاد کو ایسے چھوڑ جائے بھول جائے۔ میری ماں میری ڈیڑھ سال کی عمر میں ہی مرگئی تھی۔

اور پانچ سال کی عمر میں پہلی بار زخمی ہوئی اس دن تصورات کے سب محل زمین بوس ہوگئے میری ماں بادلوں کی رانی، پھولوں کی تتلی نہیں تھی وہ چاند کی پری بھی نہیں تھی وہ صرف محبوبہ تھی جو مجھے اپنے شوہر کو لات مار کر محبوب کے ساتھ چلی گئی تھی۔

اس ماں کے حوالے سے میں نے بہت دکھ اور رسوائی سہی ہے۔ میری ماں تو صرف بوا تھی۔ میں اپنی ماں کی آمد کا انتظار کر رہی تھی۔ اکیلی ہوں ناں اس لیے اس موقعے پہ ان کی ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔

آپ میری ماں نہیں ہیں اسلیے آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ کو پتہ ہے میں نے اللہ سے اٹھارہ برسوں میں ایک ہی دعا مانگی ہے۔ “عتیرہ یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی انہیں ایسا لگ رہا تھا ان کی تمام طاقت، توانائی اور قوت برداشت ابھی تھوڑی ہی دیر میں ختم ہوجائے گی۔

” آپ جانتی ہیں وہ کیا دعا تھی؟“ اس کی آنکھوں اور ہونٹوں پہ سوال تھا۔ عتیرہ کا سر بے اختیار نفی میں ہلا۔ ”وہ یہ دعا تھی کہ اے اللہ مجھے اس عورت سے ملا دے ایک بار اس کی شکل دکھا دے جس نے مجھے پیدا کیا جو مجھے اس دنیا میں لائی۔ پتہ ہے میں یہ دعا کیوں مانگا کرتی تھی؟“ ایک بار پھر عتیرہ کا سر زور زور سے نفی میں ہلا۔ ”میں یہ دعا اس لیے مانگا کرتی تھی کہ میں اپنی نام نہاد ماں کو بتا سکوں کہ میں اس سے کتنی شدید نفرت کرتی ہوں۔

کل وہ بااختیار طاقتور تھی سب حق رکھتی تھی۔ آج میں بھی طاقتور ہوں اس پوزیشن میں ہوں اپنی نام نہاد ماں کو اپنی زندگی سے ایسے ہی کک آؤٹ کر دوں جیسے اٹھارہ سال پہلے اس نے مجھے ٹھوکر ماری تھی۔ “ذیان کا ہر ہر جملہ ایک ایک لفظ نپا تلا تھا۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ بول رہی تھی۔ عتیرہ جیسے اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی چلی جارہی تھی۔ کوئی ایسی نفرت بھی کسی سے کرسکتا ہے جیسی ذیان نے ان سے کی ہے۔

” آپ یہاں سے تشریف لے جاسکتی ہیں۔“ وہ لمحوں میں ہی اجنبی بن گئی تھی۔ ”دیکھو پلیز ایسے مت کہو۔“ عتیرہ کا انداز گڑگڑانے والا تھا۔

ذیان کا دروازہ پوری قوت سے باہر کی طرف کھلا اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی جیسے عتیرہ کی کوئی بات بھی نہ سننا چاہ رہی ہو۔

دروازے کے پیچھے چھپی نیناں کو اِدھر اُدھر ہونے کی مہلت بھی نہ مل سکی تھی کیونکہ ذیان نے اچانک ہی تو دروازہ کھولا تھا۔

اس دروازے نے اسے چھپا کر اس کا بھرم رکھ لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اندر سے عتیرہ بیگم باہر آتیں نیناں دروازے کے پیچھے سے نکل کر ایک طرف چل دی۔ آج اس پہ بڑے بڑے رازوں کا انکشاف ہواتھا۔ دل و دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ وہ اپنی کچھ چیزیں لینے آئی تھی جب دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے ذیان کی آواز سنی۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ جہاں کی تہاں رک گئی۔

خاموش خاموش ذیان کی آواز آج تو سماعتوں کو حیران کر رہی تھی۔ وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس نے ابھی جو کچھ سنا ہے وہ ذیان نے ہی کہا ہے۔

برآمدے میں ہی زیبو اور فریدہ سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ ”تم تو بڑے ملک صاحب کے ہاں چھپ کر ہی بیٹھ گئی ہو، جبکہ آج مہندی کی رسم کی بھی تیاری کرنی ہے۔“ فریدہ نے اس پہ نظر پڑتے ہی شکوہ کرنے والے انداز میں کہا تو وہ غائب دماغی سے سر ہلاتی آگے کی طرف بڑھ گئی۔

”لو یہ تو خود کو کسی ریاست کی مہارانی سمجھ بیٹھی ہے اُدھر جا کر۔“

زیبو کا اشارہ نیناں کا ملک جہانگیر کی طرف جا کر رہنے کی طرف تھا۔ ”ہونہہ چھوٹے ملک صاحب نے اسے”میڈم“ جو بنا دیا ہے۔“ فریدہ نے حقارت سے ناک چڑھائی۔

”پتہ نہیں کہاں سے آئی ہے اور ہمارے سر پڑ گئی ہے۔“ زیبو نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔

”ایک بات بتاؤں یہ ذیان بی بی کو چھپ چھپ کر گھورتی ہے۔

“ فریدہ نے اس کے کانوں کے پاس اپنا منہ لے جا کر آہستہ آواز میں کہا۔ ”یہ تو چھوٹے ملک صاحب کو بھی عجیب نظروں سے دیکھتی ہے۔“ زیبو نے بھی انکشاف کیا۔ ”اللہ خیر کرے پتہ نہیں یہ لڑکی کس چکر میں ہے۔ چھوٹے ملک صاحب نے بھی تو لے جا کر میڈم بنا دیا ہے ناں۔ ہے بھی تو شکل کی اچھی، مردوں کا کیا بھروسہ، ایسا نہ ہو کچھ ہوجائے۔“ فریدہ نے پیشن گوئی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

تھوڑی دیر بعد نیناں واپس ملک جہانگیر والے حصے میں جارہی تھی۔ فریدہ اور زیبو نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ ”ملک صاحب اور ذیان بی بی کی شادی ہوجائے ناں تو میں ذیان بی بی سے کہوں گی نیناں پہ نظر رکھیں۔“

یہ زیبو کا خلوص تھا۔ ”ہم بڑی بیگم صاحبہ سے کیوں نہ کہیں۔“ فریدہ نے مشورہ طلب نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا تو اس نے فوراً توبہ کرنے والے انداز میں کانوں کو ہاتھ لگائے۔

”کسی کو کچھ مت کہنا۔ شدائن(سودائی) تو نہیں ہوگئی ہو۔ مت ماری گئی ہے تمہاری۔ یہاں حویلی میں نیناں چلتر کو بیگم صاحبہ ہی تو لے کر آئی ہیں۔ ایک لفظ تک نہیں سنیں گی وہ الٹا جوتے پڑیں گے۔“ زیبو نے حالات کا نقشہ کھینچا تو فریدہ ڈر گئی۔

”میرے باپ دادا کی توبہ جو کچھ بولوں۔“ اس نے جھرجھری لی۔ فریدہ نے زیبو کا ہاتھ تھاما اور آگے بڑھ گئی۔

رات، ذیان کی مہندی آنی تھی۔ اور ڈھیروں ڈھیر کام پڑے ہوئے تھے۔

ملک ابیک کے گھر والے اور دیگر دوست احباب دھوم دھڑکے سے مہندی کی رسم کرنے آئے تھے۔ اور معاذ تو محفل کی جان بنا ہوا تھا۔ وہ خالصتاً دیہاتی رنگ میں رنگا نظر آرہا تھا۔ سفید کڑکڑاتا کاٹن کا کڑکڑاتا کرتا شلوار پاؤں میں کھسے سر پہ رنگین پٹکا۔ وہ کڑیل گاؤں کا جوان نظر آرہا تھا۔

نیناں حیرانی سے اسے دیکھے جارہی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ معاذ نے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہوگی۔ وہ ڈھولک بجا کر گانے کا مقابلہ کر رہا تھا۔ اس کا ساتھ باقی نوجوان ٹولی بڑھ چڑھ کر دے رہی تھی۔ اس نے ہار نہ ماننے کاتہیہ کیا ہوا تھا۔

مہندی کی یہ رات

مہندی کی یہ رات

لائی خوشیوں کی بارات

سجنیا ساجن کے ہے ساتھ

رہے ہاتھوں میں ایسے ہاتھ

وہ اونچے سروں میں گا رہا تھا۔

نیناں ششدر اسے ڈھولک بجاتے گاتے دیکھ رہی تھی۔ وہ لڑکے والوں کی سرگرم نمائندگی کر رہا تھا۔ وہ اکثر نوجوان لڑکیوں کی نگاہوں کا محور تھا۔ شور و غل اور ہنگامے کو وہ پوری طرح انجوائے کر رہا تھا۔

نیناں کے لیے عتیرہ اور افشاں بیگم دونوں نے ہی الگ الگ کپڑے بنائے تھے۔ آج وہ افشاں بیگم کے لائے ہوئے سوٹ میں ملبوس پوری توجہ سے تیار ہوئی تھی۔

اس میں پرانی رنم کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ معاذ کئی بار اسے غور سے دیکھ چکا تھا۔ وہ بات بے بات اس کی طرف شرارتی جملے اچھال رہا تھا۔ ”مس نیناں آج تو آپ کسی اور ہی دنیا کی لگ رہی ہیں۔ سچ بتائیں کہاں سے آئی ہیں آپ؟ کیا کوئی آپ کی جڑواں بہن بھی ہے؟“ آخر میں اس کا شرارتی لہجہ سنجیدہ ہوا تو نیناں کے چہرے کا رنگ اڑ سا گیا۔ وہ بہانے سے وہاں سے ہٹنے لگی۔

لیکن معاذ نے اسے اپنی نگاہوں کے گھیرے سے آزاد نہیں ہونے دیا۔

آج وہ بہت اچھے سوٹ میں ملبوس تھی ہلکا ہلکا میک اپ بھی کر رکھا تھا۔ بال بھی کھلے ہوئے شانوں کے اطراف بکھرے تھے۔ معاذ نے جونہی اسے دیکھا اس کے ذہن میں احمد سیال کی بیٹی کی فوٹو گرافس تازہ ہوگئیں۔ آج تو نیناں کافی حد تک احمد سیال کی بیٹی سے مل رہی تھی۔ تب ہی تو وہ اسے بار بار دیکھ رہا تھا۔

لڑکی بڑی انجانی ہے

سپنا ہے سچ ہے کہانی ہے

دیکھو یہ پگلی

بالکل نہ بدلی

یہ تو وہی دیوانی ہے

ڈھولک پہ زور دار تھاپ پڑی۔

معاذ کی شوخ و شریر آواز نے دور تک نیناں یعنی رنم کا پیچھا کیا۔

سات سہاگنیں ذیان کو دوپٹے کے سائے میں رسم کے لیے لاچکی تھیں۔ معاذ اس کا پھیلا گھونگھٹ ہٹا ہٹا کے روکے جانے کے باوجود اس کی فوٹو بنا رہا تھا۔ عورتیں ذیان کو مہندی لگا رہی تھیں۔ وہ پیلے دوپٹے میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی۔ معاذ اس رسم کے یادگار پل کیمرے کے فریم

Leave a Comment